Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پاکستان کے حالات کب ٹھیک ہوں گے؟


گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے معاشی حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں لوگ پوچھتے ہیں کہ….
پاکستانی قوم کب تک مشکلات میں پھنسی رہے گی….؟
قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کے عوام بد انتظامی ، بدامنی اور غربت کے شکنجے میں کب تک پھنسے رہیں گے۔
ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ہم بھی فکر مند رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہماری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی جن کا مختلف روحانی بزرگوں سے ملنا جلنا ہے۔ ہم نے ان صاحب سے پوچھا کہ روحانی بزرگ پاکستان کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے…؟
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے حالات پر کئی بزرگ ہستیاں بہت فکرمند ہیں اور پاکستان کے لیے مسلسل دعا گو ہیں۔
ان صاحب کے ساتھ ہونے والی کچھ اہم اور فکر انگیز باتیں قارئین کے ساتھ بھی شیئر کی جارہی ہیں۔

پاکستان کے حالات کب ٹھیک ہوں گے….؟
غربت ، محرومی اور تکلیفیں ہماری قسمت میں ہی لکھی ہوئی ہیں….؟
عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں کب میسر آئیں گی….؟
یہ سوالات میں نے ایک نہایت محترم روحانی ہستی سے کیے۔
روحانی لوگ روشن نظر ہوتے ہیں۔ ان کی نظر محض ظاہر پر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر کی رسائی باطن میں پنہاں حقیقتوں تک ہوتی ہے۔
میرے یہ سوالات سن کر انہوں نے ایک لمحے کے لیے میرے چہرے پر نظر ڈالی، اتنی سی دیر میں ہی انہوں نے شاید میری ساری کیفیات جان لیں، فرمانے لگے :
‘‘تم بہت دکھی ہو اور مایوس بھی ہو رہے ہو۔ تم نوجوان ہو۔ تمہیں اس ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نہیں لگ رہا….!’’
حضرت کی زبان سے یہ سن کر میں گھبرا گیا، مجھے لگا جیسے میری کوئی چوری پکڑ لی گئی ہو۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اپنے لیے بہتر روزگار اور اپنی معاشی خوشحالی کے لیے فکر مند ہونا کیا کوئی غلط بات ہے….؟  اور سوال ایک یا دس بیس نوجوانوں کا نہیں ہے اس ملک کے لاکھوں نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے اپنے روزگار کی طرف سے پریشان ہیں….؟
میں نے ادب سے ان کی خدمت میں عرض کیا
‘‘حضرت ! میرے والدین نے بہت تکلیفیں اٹھا کر مجھے اور میرے بھائی بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے لیکن میں آج اپنی تعلیمی قابلیت سے کہیں کم درجے پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوں۔ یہی حال اس ملک کے لاکھوں دوسرے افراد کا ہے اور تعلیم یافتہ بےروزگاروں کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ جناب !ہماری تو قسمت ہی خراب ہے….!’’
‘‘ قسمت کو بُرا مت کہو…. پاکستان تو دنیا کے امیرترین ملکوں میں شامل ہے۔ اس ملک کے نوجوان بےروزگار ہیں یا یہاں غربت پھیل رہی ہے تو اس کی ذمہداری کسی اور پر نہیں بلکہ خود یہاں کے لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔’’
یہ کہتے ہوئے بزرگ کے لہجے میں ناراضگی بلکہ غصہ صاف محسوس ہورہا تھا۔
‘‘جو قومیں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر نہیں کرتیں، نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتیں، وہ قومیں اپنے لیے تکلیف اور پریشانیوں کا انتخاب خود ہی کرتی ہیں۔’’
‘‘حضرت!آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر لیکن مجھ کمعقل کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ کون ہوگا جو خوشحال ہونا نہ چاہے….’’
‘‘بیٹا !چند باتیں اچھی طرح سمجھ لو۔ کسی شخص کا یا قوم کا خواہشیں کرنا بہت آسان ہے۔ اپنی خواہشات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اہتمام کی اور درست سمت میں کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ کوششیں نہ کی جائیں تو خواہشات حسرتوں میں بدلنے لگتی ہیں۔ انسان پھر بھی بے عمل رہے تو حسرتیں مایوسیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔حسرتیں اور مایوسیاں دراصل ناقص سوچ، سسُتی، بے عملی اور کم ہمتی سے جنم لیتی ہیں۔’’
بزرگ کی یہ باتیں کچھ تو سمجھ میں آرہی تھیں لیکن کچھ اوپر سے ہی گزر رہی تھیں، میں نے سوچا کہ اہتمام اور کوشش کے لیے بھی کوئی بنیاد ہونی چاہیے یعنی زمین ہوگی تو اس میں دانہ ڈالا جائے گا اور اس پر فصل کے لیے دیگر کوششیں پھر کی جائیں گی۔ وسائل ہی میسر نہ ہوں تو قابل سے قابل آدمی بھی کیا کرسکتا ہے….؟
بزرگ نے شاید ایک مرتبہ پھر میرا ذہن پڑھ لیا تھا۔
‘‘ اللہ نے تمہیں پاکستان کی شکل میں کتنی بڑی دولت سے نوازا ہے تمہیں اس کا کچھ اندازہ بھی ہے….؟’’
‘‘جی حضرت! آج کل تو شہروں میں آٹھ سے دس گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ’’
‘‘بیٹا !ان بُرے دنوں کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں خود اس قوم کے بعض لوگوں پر ہے۔ قدرت نے تو اس قوم کو بے انتہا نوازا ہے یہاں اتنے وسائل موجود ہیں کہ پاکستان سے دنیا کے کئی ملکوں کو بجلی ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔یہ تو ہم ہی ناشکرے ہیں کہ قدرت کی عطا کردہ خزانوں کا صحیح استعمال کرنے کے بجائے کشکول ہاتھ میں لیے کبھی کسی ملک سے کبھی کسی ادارے سے قرض کے نام پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔’’
اتنا کہہ کر بزرگ نے کچھ جلالی انداز میں مجھے حکم دیا کہ
‘‘جاؤ ….ذرا چھوٹی موٹی تفصیلات تو جمع کر کے لاؤ۔’’

بزرگ کے حکم کی تعمیل میں میں نے پاکستان کو ملی ہوئی چند نعمتوں کا جائزہ لیا۔ مجھ پر واضح ہوا کہ قدرت نے پاکستان کو ایک ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ ساحلی پٹی سے نواز رکھا ہے، جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہیں ساحلی علاقے اور بندرگاہیں میسر نہیں ہیں اور وہ مکمل طور پر اپنے پڑوسی ملکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ہمارے ملک میں کئی دریا ہیں جبکہ دنیا کے بعض ممالک اس نعمت سے قطعی طور پر محروم ہیں۔
ہمارے ملک میں 6لاکھ مربع اسکوائر میٹر کے رقبے میں دھاتی اور غیردھاتی معدنی ذخائر موجود ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان پاکستان میں ہے۔ سندھ میں تھر کے مقام پر 90 فٹ گہرے کوئلے کے ذخائر وہ زیر زمین دولت ہے، جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ ہیں۔ پاکستان میں کوئلے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر 185 ارب ٹن کے لگ بھگ ہیں جو زیادہ تر سندھ میں تھر اور لاکھڑاکے مقام پر ہیں۔اس وقت دنیا میں یورپ کے بہت سے ممالک اپنی بجلی کوئلے سے حاصل کرکے پورا کررہے ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ قدرت کے عطا کردہ کوئلے کے ان ذخائر کے صرف 2فیصد استعمال سے بجلی کی بیس ہزار میگا واٹ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ بھی چالیس سال تک کی طویل مدت تک بغیر کسی لوڈشیڈنگ کے۔


زراعت کی طرف آجائیں تو پاکستان دنیا بھر میں چنے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر جبکہ کپاس ، چاول اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔پاکستان دودھ کی پیداوار میں پانچواں، گندم اور کھجور کی پیداوار میں چھٹا، آم کی پیداوار میں ساتواں، مالٹے اور سنگتر ے کی پیداوار میں آٹھواں اورحلال گوشت کی پیداوار میں دنیا کا سولہواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان کا باسمتی چاول اپنی کوالٹی کے اعتبار سے دنیا میں سب سے بہترین چاول تسلیم کیا گیا ہے اور اس وقت ہماری چاول کی ایکسپورٹ تقریباً 2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنے والا ملک ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے چاروں موسم عطا کیے ہیں۔ یہاں قدرت کے عجوبے، جھیل سیف الملوک، جھیل شاندر، جھیل دودی پت سر، کنول جھیل، زلزل جھیل، ہالیجی جھیل اور دیگر اسی طرح کی کئی جھیلیں ہمارے ملک میں موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ جگہ ایشیاء کے پرندوں کا سب سے بڑا مسکن ہے۔اور سب سے بڑی نعمت جو اللہ نے پاکستان کو عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا تقریباً 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ہمارے ملک کا ایک نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔

 

یہ ساری تفصیلات لے کر میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میری باتیں سن کر فرمانے لگے۔
‘‘یہ جو کچھ تم نے بتایا ہے، یہ پاکستان پر قدرت کی نوازشات کا صرف ایک حصہ ہے۔ پاکستان پر قدرت کی نوازشات اس سے بھی زیادہ ہیں مگر افسوس یہ قوم قدرت کی نعمتوں کی قدر نہیں کررہی۔’’
میں خاموشی سے حضرت کی بات سنتا رہا۔
کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی۔ اس سکون کو حضرت کی آواز نے ہی توڑا، دریافت فرمایا :
‘‘ یہ تو بتاؤ کہ امریکی ڈالر آج کل کتنے کا چل رہا ہے’’۔
‘‘حضرت! ڈالر بہت مہنگا ہوگیا ہے’’۔
‘‘ڈالر مہنگا ہوا ہے ، یا روپیہ سستا ہوگیا ہے۔’’ حضرت گویا ہوئے ‘‘دراصل پاکستانی قوم کی تن آسانی اور بدعنوان لیڈروں اور پالیسی سازوں کی مکاریوں نے روپے کو کمزور کیا ہوا ہے۔ روپے کی یہ ناقدری ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس سازش میں غیر تو شامل ہیں بعض اپنوں کے ناپاک ہاتھ بھی اس سازش میں ملوث ہیں۔’’
‘‘حضرت! اس میں غریب پاکستانی عوام کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ بے قصور اور مجبور لوگ مسلسل تکلیف اٹھا رہے ہیں۔’’
یہ سن کر حضرت نے فرمایا:
‘‘بے شک عام لوگ، غریب لوگ براہِ راست ان کاموں میں شامل نہیں ہیں، لیکن عام لوگوں نے برائیوں کے خاتمے کے لیے کوئی عملی قدم بھی تو نہیں اٹھایا۔ اس کے برعکس پاکستان میں عام آدمی نے رشوت، ذخیرہ.اندوزی، ملاوٹ بد عنوانی کو معمول سمجھ کر قبول نہیں کرلیا….؟’’
‘‘حضرت !عام لوگ ، غریب لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں….؟
بڑے بڑے افسران اگر ملاوٹ کرنے والوں کی، ذخیرہ اندوزوں کی سر پرستی کرنے لگیں یا ان کے پارٹنر بن جائیں تو وہاں کے غریب لوگ تکلیفیں سہنے کے سوا اور کیا کرسکتےہیں….؟’’
یہ سن کر حضرت نے فرمایا ‘‘ان بد عنوانیوں کے خلاف، لاقانونیت کے خلاف اگر اس ملک کے عوام متحد ہو کر جدوجہد کرنے پر تیار ہوجائیں تو لٹیروں کو اپنا بوریا بستر یہاں سے لپیٹنا پڑ جائے گا۔’’
‘‘حضرت! اس ملک کے عوام کے لیے دعا فرمائیں کہ انہیں رہبر اور رہزن میں تمیز کی توفیق عطا ہو، یہ چھوٹے چھوٹے تعصبات سے باہر آکر قوم کے مفاد کی خاطر جدوجہد اور کوشش کے لیے تیار ہوجائیں۔’’
اس درخواست پر حضرت نے فرمایا:
‘‘اللہ کے دوست، پاکستان کے لیے دستِ دعا بلند کیے ہوئے ہیں، راتوں کو جاگ کر اللہ کے دربار میں حاضری دینے والے مقربِ بارگاہ بندے اللہ تعالیٰ کے حضور قوم کے لیے التجائیں کر رہےہیں۔’’
حضرت نے مزید فرمایا ‘‘ہمیں یقین ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی اس قوم کی مدد کی جائے گی۔ اب یہ اس قوم پر ہے کہ مشکلات میں مدد ملنے کے سلسلے میں یہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بن کر عمل اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرتی ہے یا ایک بار پھر بے عمل اور دوسروں پر انحصار کرنے والی قوم بننا پسند کرتی ہے۔’’

یہ بھی دیکھیں

بوعلی سینا اور البیرونی کی گفتگو اور کورونا وائرس

بوعلی سینا اور البیرونی درمیان ہوئی گفتگو  آج ہزار برس بعد بھی کورونا وائرس سے ...

پاکستان میں قومی زبان کے چند بڑے خدمت گار

انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے بغیرعلم کا حصول اور ...

8 تبصرے

  1. بہت اعلی اللہ آپ کو خوش رکھے آمین

  2. بہت خوبصورت اور بروقت مظمون ہے۔آج کل ہر دوسرے شخص کے زہن میں یہی سوال ہےاور وہ فکرمند ہے۔جو نعمتیں اور وسائل اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو عطا فرمائے ہیں اس کو بہت ہی خوبصورتی سے چھوٹے سے مظمون میں سمویا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھےاورموجودہ اور آنے والے نسلوں کےلئے رہنمائی کا ذریعہ بنانے۔امین۔

  3. بہت خوبصورت اور بروقت مظمون ہے۔آج کل ہر دوسرے شخص کے زہن میں یہی سوال ہےاور وہ فکرمند ہے۔جو نعمتیں اور وسائل اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو عطا فرمائے ہیں اس کو بہت ہی خوبصورتی سے چھوٹے سے مظمون میں سمویا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور موجودہ اور آنے والے نسلوں کےلئے رہنمائی کا ذریعہ بنانے۔امین۔

  4. شہزاد احمد

    مضمون "پاکستان کے حالات کب ٹھیک ہوں گے؟” کے مطالعہ سے جہاں وطن عزیز کو عطا کردہ نعمتوں کا اندازہ ہوا وہیں اس بات کا علم بھی ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔
    خواہشیں کرنا بہت آسان ہے۔ اپنی خواہشات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اہتمام کی اور درست سمت میں کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ کوششیں نہ کی جائیں تو خواہشات حسرتوں میں بدلنے لگتی ہیں۔ انسان پھر بھی بے عمل رہے تو حسرتیں مایوسیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔حسرتیں اور مایوسیاں دراصل ناقص سوچ، سسُتی، بے عملی اور کم ہمتی سے جنم لیتی ہیں۔
    اس مضمون سے تعمیر و ترقی کے لئے عملی طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی تحریک بیدار ہوئی ہے۔

  5. عانیہ خان

    بہت بہترین مضمون ہے

  6. محمد ارشد وجدان

    انتہائی شاندار اور روح پرور تحریر ہےـ

  7. shabbirdurani

    بہترین معلومات ہے

  8. shabbirdurani

    بہترین معلومات ہے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا ہمیں شکر ادا کرنا چائیے۔

shabbirdurani کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے