Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

نظرِ بد – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

نظرِ بد

دورِ جدید کے تعلیم یافتہ ذہن اور سائنسدان نظر بد کو توہمات میں شمار کرتے ہیں اور ایسی باتوں کو فرسودہ روایات کی باقیات گردانتے ہیں مگر اس بات سے قطع نظر نظر بد پر یقین، کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے غالب حصے کے لوگوں میں پایا جاتا رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کے ہر خطوں میں آج بھی نظر بد کے منفی اثرات کو ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض ٹوٹکوں کے آزمانے سے متاثرہ شخص یا شئے میں مثبت تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے ۔

 

رات کے دو بج رہے تھے۔ ایک ماہ کا خوبصورت بچہ ماں کے پہلو میں لیٹا نا معلوم وجوہات کی بنا پر مسلسل رورہا تھا۔ ماں ہر دس پندرہ منٹ بعد اٹھتی اور اس کا ٹمپریچر چیک کرتی کہ کہیں بخار تونہیں ۔ بستر چیک کرتی کہ کہیں گیلا تو نہیں، کبھی وہ اسے بھوکا سمجھ کر سینے سے لگاتی، کبھی کھڑی ہوکر ہلاتی تو کبھی لوریا ں دے کر تسلی دینے کی کوشش کرتی۔ ان سب کوششوں کے باوجود بچہ تھا کہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ماں کی پوری کوشش تھی کہ بچہ اس تکلیف سے نجات پاجائے اور چپ ہوجائے لیکن اسے خبر نہ تھی کہ بچے کو تکلیف کیا ہے اور اسے کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کیفیت میں کچھ وقت مزید گزرا کہ اتنے میں کمرے میں بچے کی دادی آئیں، جوشاید اس بچہ کی رونے کی آواز سے جاگ گئیں تھیں۔ بچے کی کیفیت دیکھ کر دادی نے یہ کہہ کر کہ ‘‘مُنّے کو نظر لگ گئی ہے’’ فوراً باورچی خانہ کا رخ کیا اور ہاتھ میں چند ثابت سرخ مرچ لے کر بچے کے پاس آئیں اور اسے بچے کے گرد سات دفعہ چکر دے کر مرچیں جلتے چولہے پر رکھ دیں۔ ان مرچوں کے جلتے ہی بچے پر سکون کی کیفیت طاری ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ آرام سے گہری نیندسوگیا۔
ہمارے معاشرے کے اکثر گھرانوں میں اگر کسی کا شیرخوار بچہ اچانک دودھ پینا چھوڑ دے، خوفزدہ ہو کر، بار بار چیخیں مار کر روئے تو بڑی بوڑھیاں فوراً کہتی ہیں کہ بچہ کو نظر لگ گئی ہے اور اس کے علاج کے لئے یا نظرِ بد کو رفع کرنے کے لئے مختلف طریقے اور ٹوٹکے اپنائے جاتے ہیں۔ قرآنی آیات کا ورد کرکے دم بھی کیا جاتا ہے۔
عموماً کسی نوجوان لڑکی کے رشتے نہ آئیں یا کسی اہم وجہ کے بغیر بار بار مسترد کردیا جائے تو خاندان کی بزرگ خواتین کو فکر لاحق ہوجاتی ہے اور اس مسئلہ کی وجہ نظرِ بد بتائی جاتی ہے۔
کسی کا چلتا ہوا کاروبار اگر مسلسل خسارے میں جارہا ہو تمام تر کوششوں کے باوجود کسی ظاہری خرابی کی بناء پر ٹھپ ہونے لگے تو کہا جاتا ہے کہ کاروبار پر نظر لگ گئی ہے۔ پھل دار درختوں اور کھڑی فصلوں کو بھی نظر لگ جاتی ہے۔ بچوں کی معصوم بھولی بھالی صورت اور بے ساختہ حرکتوں پر اکثر نظر لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے بچہ میں کھانے پینے کی رغبت کم ہوجاتی ہے، اکثر سوتے میں ڈرنے لگتے ہیں ۔ جو بچے ذہین ہوتے ہیں وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو سن کر بڑے لوگ بھی حیران ہوتے ہیں اور بعض دفعہ حیرت کے ساتھ انہیں بڑے اس طرح دیکھتے ہیں کہ بچوں کو نظر لگ جاتی ہے ۔ یوں نظر لگنے سے بچے خاموش رہنے لگتے ہیں ، کھانے کی طرف رغبت کم ہوجاتی ہے ….
اسی طرح ذہانت، صلاحیتوں اور حسن و خوبصورتی پر بھی نظرِ بد کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نظر بد کیا ہے….؟

نظر لگنا، اس نظر یا دیکھنے کے عمل کو کہا جاتا ہے جس سے دیکھے جانے والے کو نقصان ہو یا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ صرف ہمارے معاشرے میں ہی نہیں دنیا کی بہت سی ثقافتوں میں یہ خیال ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی حسد یا نفرت کی نظر سے دیکھے تو پہلے شخص پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، اس عمل کو نظر لگنا کہتے ہیں۔
روائتی مشرقی معاشروں کے ساتھ ساتھ نظرِ بد کا تصور ترقی یافتہ اقوام اور مغربی معاشروں میں بھی موجود ہے اور اس کے علاج کے لیے الگ الگ ثقافتوں میں کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔

 

پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور ترکی میں نظرِ بد کو ‘‘نظر’’ ہی کہا جاتا ہے۔ جبکہ ہندی زبان میں نظر بد کو درِشٹی دوش दृष्टिदोष   کہا جاتا ہے اور نظر اتارنے کے طریقوں کو نظربَٹّو बजरबट्टू  Nazar Battu کہا جاتا ہے ۔ عرب خطہ میں نظر بدکو العین اور عين الحسود کہا جاتا ہے ، جبکہ ایران میں چشمِ زخم و چشمِ شُور اور افغانستان میں اسے چشم مورا کہتے ہیں، اور ہوائی میں اسے ماکاپلاؤ(سڑی ہوئی نظر)کہا جاتا ہے۔  ایتھوپیا، سوڈان، تنزانیہ اور مراکش سمیت شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں نظرِ بد کو بَوداBuda کہا جاتا ہے، 
یونان میں نظرِ بد کو ماٹیسما (μάτιασμα)، عبرانی میں عین الحارّہ (עַיִן הָרַע)، کردش میں جاؤِزر (çaw e zar)، اطالوی میں مالوکیو(malocchio) ، ہسپانوی میں مالدی اوہو(mal de ojo)، پرتگالی میں ملولدو(mal-olhado) اور انگریزی میں اسے اِیول آئی(Evil Eye) کہا جاتا ہے تمام یورپی زبانوں میں مختلف ناموں کا ایک ہی مطلب ہے بُری یا شیطانی نظر….

 

 

مختلف ثقافتوں میں تصوّرات

محققین کے مطابق نظرِ بد کا تصور سب سے پہلے مشرقِ وسطٰی میں اُبھرا ، جہاں قدیم عرب اور یہود قبائل میں اس کے نظریات رائج تھے۔ بعد میں یہ تصور بحرِ روم کے ممالک اور پھر ایشیائی قبائل میں بھی رائج ہوگیا۔ آج اکیسویں صدی میں نظر بد کا تصور مشرق وسطی، وسطی اور مغربی افریقہ، وسطی امریکہ، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، بحیرہ روم کے خطے، شمالی یورپ کے کلٹی علاقوں سمیت امریکہ میں موجود ہے ۔
آج سے چار ہزار برس قبل میسوپوٹیمیا (قدیم عراق) کی آشوری تہذیب میں نظر بد کے تصوارت راسخ تھے اور وہ لوگ نظر سے محفوظ رہنے کے لیے فیروزی یا نیلے رنگ کے موتیوں /پتھروں کی مالا پہنتے تھے۔ اس کے علاوہ روبی سے بنی آنکھ کا لاکٹ بھی پہنتے تھے۔
یہودیوں میں بھی نظر بد کا تصور رائج ہے، توریت (کتاب استشناء) ، سلیمان کی امثال اور ربیوں کی کتاب Pirkei Avot (باپ دادا کی اخلاقیات)میں نظر بد کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔
توریت کے دس مقدس احکام میں سے آخری حکم ‘‘تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا ۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غُلام اور اُس کی لَونڈی اور اُس کے بَیل اور اُس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کِسی اَور چِیز کا لالچ کرنا ’’سے یہودی نظرِ بد ہی اشارہ لیتے ہیں۔
یہودیوں کے نزدیک نظر دو طرح کی ہوتی ہے ایک اچھی نظر جس میں دوسروں کو خوش دیکھ کر ان کے لیے خیرسگالی اور احسان کا رویہ رکھنا اور یہ خواہش کرنا کہ سب اچھی زندگی گزاریں اور اس کے برعکس رویہ ظاہر کرنا بُری نظر کہلاتا ہے جس میں کسی آدمی کی خوشی دیکھ کر اُس سے حسد، رشک یا نفرت کا اظہار کرنا ہے۔
نظر بد سے بچنے کے لیے یہودی اپنے گھراور سواریوں پر خمسہ Hamsa نامی ایک پنچے کا نشان لگاتے ہیں جس میں نیلے رنگ سے آنکھ بنی ہوتی ہے، یہودی اس ہاتھ کے نشان کو حضرت موسیٰ کی بہن حضرت مریم سے منسوب کرتے ہیں۔

لندن کے ایڈلنر کلیکشن میوزیم میں آشوری تہذیب کے آثار سے دریافت شدہ لاکٹ جس میں روبی سے آنکھ بنائی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق قدیم دور میں یہ لاکٹ نظر بد سے بچاؤ کے لیے پہنا جاتا تھا۔

دوسری جانب ایک کار کی ونڈ اسکرین پر لگے خمسہ Hamsa (پنجہ) کی تصویر ہے۔  جسے عموماً یہودی نظر بد سے بچنے کے لیے گھر یا دوکان کے دروازوں پر لگاتے ہیں۔


افلاطون، پلوٹارک، ثيوقريطس، دیودرس، پیلینوس سمیت کئی یونانی اور رومی مفکروں نے نظرِ بد کے متعلق تحریر کیا ہے۔
یونانی اور رومی نظرِ بد سے بچاؤ کے لیے ایک لاکٹ پہنتے تھے جس میں کانسی کا فیلس(Phallus) بنا ہوتا تھا، یونانی مفکر پیلینوس اس لاکٹ کو حسد اور نظر بد سے بچنے کا علاج بتاتا تھا۔ قدیم روم میں نظر لگانے والے باقاعدہ پیشہور لوگ موجود تھے اور ان کی خدمات دشمنوں کو ان کی نظر بد سے شکار کرنے کے لیے باقاعدہ حاصل کی جاتی تھیں۔
عیسائیوں میں نظربد کے متعلق تذکرہ مرقس اور متی کی انجیل میں اور انطاکیہ سے ملنے والے قدیم موزیک آرٹ کی تصویروں میں ملتا ہے۔ عیسائی نظر بد سے بچاؤ کے لیے صلیب کا نشان لگاتے ہیں۔
قرون وسطیٰ میں یورپ میں لوگوں کا نظر بد پر عقیدہ اس قدر مستحکم تھا اور وہ اس سے اس قدر خوفزدہ رہتے تھے کہ کسی کی طرف ذرا بھی غیر معمولی انداز میں دیکھنا باقاعدہ ایک قابل گرفت جرم سمجھا جاتا تھا ایسا کرنے والے کو جادوگر کہہ کر سلاخوں سے لٹکا کر جلا دیا جاتا تھا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں سیکڑوں لوگوں کو محض اس بات پر موت کے گھاٹ اتاردیا گیا کہ ان کے دیکھنے سے فلاں شخص بیمار ہوا یا مر گیا۔ تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے جادوئی اثرات کے حامل افراد کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج بھی ان کی نظروں سے اس قدر خائف ہوتے تھے کہ ایسے ملزمان الٹے پاؤں عدالت میں لائے جاتےاور انہیں دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونے کا حکم دیا جاتاتھا۔

جنوبی ایشیاء پاک وہند میں نظر بد سے بچنے کے لیے مختلف ٹونے ٹوٹکے اپنائے جاتے ہیں جنہیں نظربَٹّو Nazar Battuکہاجاتا ہے …. مثلاً بچے کے گال پر کالا تل یا کاجل کا ٹیکہ (Kohl dot)لگانا یا پھر ہاتھ میں کالا دھاگہ باندھنا،  کچھ علاقوں میں ماں اپنے بچے پر ہلکا سا تُھوک دیتی ہے کہ کسی کی نظر نہ لگے۔ اسی طرح مہنگی ساڑیوں اور چادروں میں ایک غلط رنگ کا دھاگہ جان بوجھ کر نظر سے بچنے کے لئے ڈالا جاتا ہے۔ خاص کر مہنگے کشمیری قالينوں میں جان بوجھ کر ایسے نظربَٹّو ریشے ڈالنے کا رواج ہے۔

نظر سے حفاظت کے لیے کاجل کا تِل اور کالا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔


اکثر گھروں اور دکانوں کے باہر اور گاڑیوں پر نظر سے بچنے کے لئے دھاگہ میں پرو ئے ہوئے لیموں اور مرچیں لٹکتی نظر آتی ہیں۔
مغربی بنگال میں عموماً دکانوں کے آگے دھاگے میں پروئے پھولوں اور پتوں کو لگاتے ہیں۔ بعض افراد نئی گاڑیوں کے آگے پُرانے جوتے یا پھر کالا کپڑا لٹکاتے ہیں کچھ گاڑیوں ، ٹرکوں اور دکانوں پر کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں جیسے بری نظر والے تیرا منہ کالا اور چشم ِ بد دور وغیرہ۔ لوگ گاڑیوں اور گھروں پر خدا کا نام اور مقدس علامات لکھ کر بھی نظر سے تحفظ کا اہتمام کرتے ہیں، مسلمان عموماً ماشااللہ اور 786 (جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے اعداد ہیں ) لکھتے ہیں، سکھ اپنا مقدس نشان ੴ (اک اونکار)اور ہندوॐ(اوم) کا نشان لکھتے ہیں۔ بعض گاڑیوں کے پیچھے کالی ہیبت ناک شکل یا ایک آنکھ کی تصویر لگاتے ہیں ۔

نظر سے حفاظت کے لیے بعض گاڑیوں کے پیچھے کالی ہیبت ناک شکل یا ایک آنکھ کی تصویر لگاتے ہیں ۔  بعض افراد نئی گاڑیوں کے آگے پُرانے جوتے یا پھر کالا کپڑا لٹکاتے ہیں کچھ گاڑیوں ، ٹرکوں اور دکانوں پر کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں جیسے بری نظر والے تیرا منہ کالا اور چشم ِ بد دور وغیرہ۔

 

پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں اگر کسی کی تعریف کی جائے تو ساتھ میں نظر بد سے بچنے کے لیے ماشاءالله اور تبارك الله کہنے کی روایت ہے۔ اگر نظر لگ جائے تو قرآنی سورتوں (سورہ الفلق اور سورۂ الناس) اور احادیث میں لکھی دعاؤں سے دم ، درود کرکے اور مختلف گھریلو ٹوٹکوں سے نظر اتاری جاتی ہے۔
ان ٹوٹکوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ جس کو نظر ہوجائے اس کے گرد طاق اعداد میں مرچوں کے سات دفعہ چکر دے کر مرچیں جلتے چولہے پر رکھ دی جاتی ہیں ۔ اگر ان مرچوں سے جلنے کی خاص بُو آنے لگے تو کہا جاتا ہے کہ نظر نہیں ہے اور اگر جلنے کے دوران مرچوں سے بُو نہ آئے تو یقین کرلیا جاتا ہے کہ نظر تھی اور اتر گئی ۔ بعض گھرانوں میں مرچوں کے بجائے روئی کا پھویا استعمال کیا جاتا ہے ۔

 

پاک و ہند میں نظربَٹّو बजरबट्टू یعنی نظر اتارنے کے طریقوں کے لیے سرخ مرچ، نمک اور سرسوں کے بیج جلا کر نظر اتاری جاتی ہے۔
جبکہ گاڑیوں پر لیموں، ہری مرچ اور کوئلہ لٹکائے جاتے ہیں۔ 


نظر لگنے کے علاج کا ایک طریقہ یہ بھی مستعمل ہے کہ متاثرہ شخص یا چیز کے گرد جوتی کے سات پھیرے دے کر جوتی زمین پر یہ کہہ کر مار دی جاتی ہے کہ نظر اتر گئی ۔
بعض دفعہ مریض کے جسم کے بعض حصوں سے جانور کا کچا گوشت مس کرکے چھت پر پھنکوادیا جاتا ہے۔ کہیں انڈے یا سفید چاول چوراہے پر رکھوادیئے جاتے ہیں۔ مائیں معصوم بچوں کو تیار کرتے وقت ان کے ماتھے یا ٹھوڑی پر کاجل کا ٹیکہ لگادیتی ہیں اور ان کا یقین یہ ہوتا ہے کہ اس عمل سے بچے نظرِبد سے محفوظ رہتے ہیں۔ لوگ گھوڑے کا کھردروازے پر لگاتے ہیں کہ نقصانات نہیں ہوں گے۔ نئی گاڑی پہ کالا کپڑا لگایا جاتا ہے یا گندی جوتی اسی مقصد کی خاطر لٹکا دی جاتی ہے کہ نظر نہیں لگے گی۔
نظر سے بچنے کے لئے نوجوان لڑکیوں کو مغرب کے بعد بال نہ کھولنے اور سر کو ڈھانکے رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ شام کے بعد لڑکیوں کو چھت پر جانے سے بھی منع کیا جاتاہے کہ نظر لگ جائے گی ۔
مکان کی کنسٹرکشن کے وقت کسی اونچی جگہ پر ‘‘ماشاءاللہ ’’ یا قرآنی آیات ودعائیں تحریر کروانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ بعض گھروں میں ہر ایک دو ماہ بعد پودوں کی نرسری میں لوبان کی دھونی بھی شاید اسی خیال کے تحت دی جاتی ہے کہ پودے نظر لگنے سے محفوظ رہیں۔

 

نظر سے حفاظت کے لیے مالٹا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہرکشتی پر آپ کو آنکھ کا یہ نشان L-Għajn ضرور ملے گا۔ 

 

ایتھوپیا، سوڈان، تنزانیہ اور مراکش سمیت شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں نظرِ بد کو بَوداBuda کہا جاتا ہے، نظر بد سے بچاؤ کے لیے ایک موٹی ڈوری میں موتی ، دھاتی اشیاء اور کپڑوں میں موم جامہ کی چند جڑی بوٹیاں لٹکائے رہتے ہیں، اس کے علاوہ وہاں خدا کے نام کا ورد بھی نظر سے بچاؤ کے لیے مضبوط ڈھال سمجھاجاتا ہے۔

ترکی مسلم ممالک کا وہ ملک ہے جہاں نظر بد کے متعلق نظریات سب سے زیادہ پھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ نظربد سے نجات کے لیے ترکی میں نیلے اور فیروزی رنگ سے بنی آنکھ کا نقش بہت مقبول ہے جسے وہاں کے مقامی لوگ ‘‘نظر بونجُوغ’’(nazar boncuğu) کہتے ہیں۔ ترکی میں آپ کوتقریباً ہر گھر، دروازوں، دکان، گاڑی یہاں تک کہ ہوائی جہاز پر یہ نشان نظر آئے گا لوگ اس نشان کی انگوٹھی، لاکٹ اور بریسلیٹ پہنتے ہیں۔

 

نظربونجُوغ (nazar boncuğu) کا نشان جو ائیرلائنز کے پنکھ پر بھی بنا ہوا ہے، جبکہ دوسری تصویر ترکی میں پائے جانے والے ایک درخت کی ہے جسے منت کا درخت کہا جاتاہے لوگ نظر اتارنے کے لیے اپنے نظر بونجُوغ اس پر لٹکاتے ہیں۔

 


نظر بونجُوغ ترکی کے علاوہ البانیہ، شام، لبنان، مصر، آرمینیا، ایران، افغانستان، یونان، عراق، قبرص اور آذربائیجان میں بھی مقبول ہیں۔
چین میں نظر بد کے علاج کے لیے فینگ شوئی میں مستعمل پاکوا PaKua کا نشان سامنے کے دروازے پر لٹکایا جاتا ہے جس میں ایک کروی آئینہ بھی نصب ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ آئینہ بُری لہروں کو واپس بھیج دیتا ہے۔ دھوپ کے چشمے یعنی سن گلاسز سب سے پہلے پندرہویں صدی میں چینیوں نے ہی ایجاد کیے۔ اس زمانے میں جنوبی چین میں لوگ ان چشموں کو اپنے تاثرات چھپانے کے لیے استعمال کرتے تھے اور ان کا ایک دوسرا مقصد نظر بد سے بچنا بھی تھا۔

 

 چین میں نظر بد کے علاج کے لیے فینگ شوئی میں مستعمل پاکوا PaKua کا نشان سامنے کے دروازے پر لٹکایا جاتا ہے جس میں ایک کروی آئینہ بھی نصب ہوتا ہے۔  

 


اسپین اور جنوبی امریکہ میں نظر بد کو مال ڈی اوہو کہا جاتا ہے اور اس کے تدراک کے لیے ایک انڈا مریض کے جسم پر چکر دے کر ایک برتن میں پانی سمیت ڈال کر مریض کے بستر کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے۔ اگر صبح انڈے اس حالت میں ملے کہ پکا ہوا لگے تو سمجھا جاتا ہے کہ مریض کی نظر اُتر گئی دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مریض کی حالت میں بھی سدھار آنے لگتا ہے۔یورپ، امریکہ جیسے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی نظربد کو حقیقت مانا جاتاہے۔
پاو(Paw) ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کی 16 فیصد آبادی نظر بد پر پختہ یقین رکھتی ہے ۔ اس سے بچاؤ کے لیے گھر کے دروازوں پر بیل کے سینگ لگانا مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بیل کے سینگ موجود نہ ہونے کے صورت میں وہ شہادت کی انگلی اور چھوٹی انگلی سے ہاتھ کو بیل کے سینگ سے مشابہ بناکر نظر اتارتے ہیں۔ اس کے علاوہ دروازوں پر لہسن، لوہے کی سلاخ، بھیڑئیے کے دانت اور گھوڑے کی نال لگانا بھی نظر بد سے بچاؤ کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگ اپنے مویشیوں کو نظر بند سے بچانے کےلیے ان کی دم نے ساتھ لال ربن باندھ دیتے ہیں۔

نظربد علومِ جدید کی نظر میں 

نگاہ کی تاثیر یا اثر انگیزی کے تجربہ سے عام لوگ بھی اکثر گزرتے رہتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص آپ کی جانب دیکھ یا گھُور رہا ہو تو آپ بے اختیار نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ چاہے کسی ہجوم یا مجمع میں سے کوئی توجہ سے آپ کی جانب دیکھ رہا ہو۔
کسی شخص کا متو جہ ہو کر کسی کو دیکھنا ایک ایسا سگنل ہے جسے دوسرا شخص نظر انداز نہیں کرسکتا۔
انسانی رویے کی سائنس میں اسی بری نظر کو بہت کم زیر مطالعہ لایا گیا ہے لیکن جو بھی تھوڑی بہت تحقیق کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسے خام خیالی کہہ کر مسترد کردینا کوئی دنشمندی کی بات نہیں ۔ ٹوبن سائبر (Tobin Seiber) نے رسالے دی مرر آف میڈوسا (The Mirror Of Medusa) میں لکھا ہے کہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں نے ایک مرتبہ ایک تحقیق اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کی کہ لوگوں کے آپس کے رویوں میں گھور کر دیکھنے کے کیا نفسیاتی اثرات مرتبہوتے ہیں….؟
اگرچہ یہ مطالعہ ان لوگوں پر کیا گیا تھا جو تعلیم یافتہ اور معقول لوگ تھے یعنی کچھ بھی بغیر عقلی دلیل کے نہیں مانتے تھے پھر بھی جن 1300 لوگوں سے کسی کے انہیں گھور کر دیکھنے سے ان پر اس کے نفسیاتی اثر کے بارے میں پوچھا گیا تو ان میں سے چوراسی فیصد خواتین اور تہتّر فیصد مردوں کا جواب تھا کہ اس طرح کی مسلسل نظر انہیں محسوس ہوئی تھی۔ اب یہ لوگ ماڈرن ہونے اور نظر بد کے واہمے کے مخالف ہونے کے باوجود ایسا جواب دے رہے تھے جو نظر بد کے نظریے کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح کئی مشہور ماہرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مریضوں پر تنویمی حالت طاری کرنے کے لئے اپنی آنکھوں میں جھانکنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس عمل سے وہ اپنے مریضوںپر حسبِ منشاء وقفے کے لئے نیند طاری کردیتے ہیں ۔ ہپناٹزم میں آنکھوں کے ذریعے متاثر کردینا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے ۔
مختلف جانور بھی نگاہ کی قوت سے مختلف کام لیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض درندے مثلاً شیر یا بلی وغیرہ کی آنکھیں تاریکی میں چمکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان درندوں کی آنکھوں سے زردی مائل سبز رنگ کی ایک خاص شعاع نکلتی ہے، یہ وہ خاص قسم کی شعاع ہے جو اپنے ہدف کو حواس باختہ اور مفلوج کردیتی ہے۔ یہ بات اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ بلی اور شیر وغیرہ کے علاوہ سانپ اور اژدھے بھی جب اپنے شکار کی جانب دیکھتے ہیں تو شکار بے بس ہو کر کھڑا رہ جاتا ہے۔ جیسے اُسے کسی چیز نے باندھ دیا ہو۔ اسے لاچار کردینے کی یہ قوت، درندے کی آنکھوں سے خارج ہوتی ہے۔ اس طرح وہ بڑی آسانی سے اس درندے کے قابو میں آجاتا ہے۔
ایشیاء کے صحرائی علاقوں میں ایک ایسا سانپ بھی پایا جاتا ہے جو اپنے شکار پر جھپٹنے کے بجائے اسے محض اپنی آنکھوں سے مفلوج کردیتا ہے۔
جانوروں کی نفسیات پر ریسرچ کرنے والے ایک روسی مفکر ولاڈی میرڈروف نے بہت سے تجربات سے یہ بات ثابت کی کہ جانوروں میں محض نگاہ کے ذریعہ احکامات کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
نظر بد پر یقین رکھنے والے نظر کی قوت یا تاثیر کےلئے مختلف سائنسی وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔
سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کا عمل تدریجی طریقہ سے پورا ہوتا ہے۔ روشنی کے فوٹونز Photons جو کسی شئے سے نکل کر آنکھ تک پہنچتے ہیں۔ آنکھ کے سامنے والے حصے میں موجود عدسے (Lens)میں سے پار ہوجاتے ہیں جہاں یہ ٹوٹ کر پیچھے کی طرف آنکھ کے عقب میں واقع پردۂ چشم پر گرتے ہیں۔ یہاں گرنے والی یہ روشنی برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتی ہے، جنہیں عصباینے Neurons ایک چھوٹے سے نقطہ کی جانب منتقل کردیتے ہیں جس کو مرکزِ نگاہ کہتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں تو دراصل ہم ان برقی اشاروں کے اثرات اپنے دماغ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب انسان مثبت یا منفی طور پہ کسی چیز پر یکسو ہوجاتا ہے تو اس کی دماغ کے برقی اشارے ایک زبردست چارج پیدا کرتے ہیں۔ جس میں بھرپور طاقت اور تاثیر موجود ہے اور نگاہ کی قوت سے مظاہر میں بہت سی تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں۔ جب یہ سارے کا سارا چارج کسی انسان پہ گرتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ اسی کو نظر لگنا کہتے ہیں۔ بعض سائنسدان بتاتے ہیں کہ ہر مادی شئے اپنا برقی مقناطیسی میدان رکھتی ہے ۔ جب ہمارے دماغ میں خیال آتا ہے تو خلیوں کے برقی مقناطیسی میدان میں ہلچل برپا ہوجاتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں کرنٹ یا لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی لہریں اعصاب کے ذریعے جسم کے حصوں میں دور کرنے لگتی ہیں ۔
ماہرین کے مطابق دماغ میں آنے والا خیال بھی برقی مقناطیسی اثر رکھتا ہے جسے سائکک الیکٹرو میگنیٹک ویو انرجی کہا جاتا ہے ۔
مابعدالطبیعات کے ماہر جارجز لیکلووسکی George Laklovsky اپنی کتاب Secret of Lifeمیں رقم طراز ہیں “دماغ سے نہایت لطیف لہروں کا اخراج ہوتا ہے اور دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی نہایت لطیف برقی لہروں کا اخراج ہوتا ہے جو فضا میں نشر ہوجاتی ہیں ۔ یہ لہریں سیکنڈ کے دسویں حصہ کے اندر کرہ ارض کا چکر لگالیتی ہیں’’۔
یہ لہریں گو کہ نظر نہیں آتیں مگر چیزوں پر اثرانداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کسی کے باطن سے نکلنے والی یہ برقی مقناطیسی لہریں جب تواتر سے دوسری شئے کے برقی مقناطیسی میدان پر مرتکز ہوتی ہیں تو اس میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی شئے پر اپنی نگاہیں مرکوز کرتا ہے تو دراصل اپنی لہریں اس شئے کے برقی مقناطیسی میدان میں داخل کردیتا ہے اور وہ شئے متاثر ہوجاتی ہے ۔
اسی طرح Behavioral Scienceکے ماہرین بتاتے ہیں کہ ہر انسان میں سے مخصوص قسم کی غیرمرئی توانائی کی لہریں نکلتی ہیں جن کو Emotional Energyکہا جاتا ہے ۔ یہ توانائی جِلد کے مسامات کے ذریعے جسم میں جذب ہو کر جسم کی تعمیر یا تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ کسی خوبصورت شخص کو جب غیرمعمولی حاسدجذبات کے ساتھ کوئی شخص دیکھتا ہے تو یہ انرجی دوسرے کے جسم میں داخل ہوکر خون میں میلاٹونن (Melatonin) کی تحریک غیر متوازن کر دیتی ہے جس سے جلد کی رنگ مانند پڑجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، اسی کو نظر لگنا کہہ سکتے ہیں ۔

نظربد اور روحانی علوم

روحانی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ہر مادی جسم کے اوپر روشنیوں کا جسم موجود ہوتا ہے جسے انہوں نے جسمِ مثالی کا نام دیا ہے ۔ جسمِ مثالی میں مختلف رنگوں کی روشنیاں ردّوبدل ہوتی رہتی ہیں ۔
ہمارے مادی جسم میں تمام تقاضے ، جذبات اور احساسات جسمِ مثالی ہی سے نزول کرکے آتے ہیں ۔ روشنیوں کی ترتیب خیالات واحساسات کو جنم دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ ہمادے مادی جسم پر کوئی بیماری حملہ آور ہوجائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی جسمِ مثالی میں روشنیوں کی ترتیب میں خلل اندازی ہوتی ہے ۔
روحانی مفکرین کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر مادی جسم ، جسمِ مثالی کی وجہ سے اپنا وجود رکھتا ہے ۔ ہر شخص کے جسمِ مثالی کی روشنیاں دوسرے شخص سے مختلف ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص غیرمعمولی جذبات کے ساتھ دوسرے پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو اس کے جسمِ مثالی کی روشنیاں مخالف کی روشنیو ں میں خلط ملط ہوکر ان کے توازن میں دخل اندازی کرتی ہیں ۔ یوں اس کے جسم پر بھی اثر ہوتا ہے اور متعلقہ شخص یا شئے میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ اسی کو نظر کہتے ہیں ۔ نظر لگنے سے اگر کوئی بیماری ہوگئی ہے تو صرف اس بیماری کا روایتی علاج ہوسکتا ہے کہ ناکافی ثابت ہو کیونکہ بیماری کے اصل سبب کے علاج کی طرف توجہ نہیں دی گئی اس لئے روایتی علاج کے ساتھ ساتھ نظر لگنے کا علاج بھی ہونا چاہئے کیونکہ تکلیف کی اصل وجہ نظر لگنا ہے ، بیماری تو ضمنی تکلیف ہے ۔
نظر کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے معروف روحانی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب ‘‘ٹیلی پیتھی سیکھئے’’ میں تحریر فرماتے ہیں ‘‘آدمی دراصل نگاہ ہے۔ نگاہ یا بصارت جب کسی شئے پر مرکوز ہوجاتی ہے تو اس شئے کو اپنے اندر جذب کرکے دماغ کے اسکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس میں معنی پہناتا ہے۔ نگاہ کی مرکزیت کسی آدمی کے اندر قوتِ ارادی کو جنم دیتی ہے اور قوتِ ارادی سے انسان جس طرح چاہے کام لے سکتا ہے’’۔

 

 

 


نظر، نفس انسانی کی خاص کیفیات کا ایک اصطلاحی نام ہے۔ یہ کیفیات حرکت کرتی ہیں یعنی ایک نفس سے دوسرے نفس کی طرف یا ایک وجود سے دوسرے وجود کی طرف حرکت کرکے وہاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اثر اندازی عموماً کسی تکلیف یا نقصان کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ دورحاضر کے معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب اپنی کتاب ‘‘توجیہات’’ میں فرماتے ہیں:
‘‘انسانی (وجود کے دو رُخ)جسم دو ہیں۔ ایک وہ جسم ہے جس کو گوشت پوست کا جسم کہا جاتاہے جبکہ دوسرا جسم وہ ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا لیکن یہ جسم گوشت پوست کے جسم سے تقریباً 9انچ اوپر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ موجودہ سائنس نے اس جسم کی تلاش میں کافی جدوجہد کی ہے۔ اس جسم کے مختلف نام سامنے آچکے ہیں۔ بےشمار ناموں میں دو نام بہت زیادہ معروف ہیں۔ ایک جسم مثالی اور دوسرا نام Aura۔ انسانی گوشت پوست کے جسم کا دارومدار اس Aura کے اوپر ہے۔ Aura کے اندر صحت مندی موجود ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔ سمجھنے میں آسانی کے لیے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح گوشت پوست کے جسم کے اوپر اللہ تعالیٰ نے دولینسز(آنکھیں) فٹ کردیے ہیں، جن کے ذریعے مادی دنیا میں موجود تمام چیزوں کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوکر ڈسپلے ہوتا ہے، اسی طرح جسم مثالی کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کا پورا پورا اثر گوشت پوست کے جسم پر مرتب ہوتا ہے۔ روشنیوں کا بنا ہوا یہ جسم یعنی نسمہ صرف انسان کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ زمین کے اوپر جتنی مخلوق موجود ہے، روشنیوں کے جسم سے اسے Feed (توانائی) ملتی ہے۔ ’’
اس روشنی میں توازن جسم کو صحتمند رکھتاہے۔ اس روشنی میں کسی قسم کا عدم توازن جسم کے لیے تکلیف یا دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس تکلیف یا دباؤ سے امراض یا مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان میں جسمانی ونفسیاتی ہر قسم کے امراض یا مسائل شامل ہیں۔ نظر لگنا ایک ایسا عمل (Phenomena) ہے جو لہروں اور روشنیوں کے نظام کے ذریعے اثرانداز ہوتا ہے۔ نظر کی وجہ سے روشنیوں کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ یہ عدم توازن صحت کی خرابی اور معاملات میں خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔

[اقتباس از کتاب نظر بد و شر سے حفاظت از وقار یوسف عظیمی]  

 



روحانی ڈائجسٹ جولائی 2013ء سے انتخاب

 

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

ایک تبصرہ

  1. غلام مصطفی خان عظیمی

    تمام مضامین بہت معلوماتی اورتحقیق سے بھرپور ہیں

غلام مصطفی خان عظیمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے