Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پاکستان ۔ اللہ کا انعام


پاکستان 14 اگست 1947ء  وجود میں  آنا۔  اسلامی  تقویم کے لحاظ سے  اس دن رمضان کی ستائیسویں  تاریخ    تھی یعنی شب قدر تھی۔ اس روز جمعہ کا دن تھا۔ اس طرح اسلامی تقویم کے لحاظ سے قیام پاکستان کے دن اور تاریخ کچھ اس طرح تاریخ کا حصہ بن گئے جمعۃ الوداع ، شب قدر  27 رمضان المبارک 1368 ہجری۔

برِ صغیر کے مسلمانوں نے  ایک الگ ملک کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔  اس مقصد کے لیے برِ صغیر کے مسلمانوں نے  اللہ سے وعدہ کیا تھا  کہ وہ اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔  برِ صغیر کے مسلمانوں پر اللہ نے مہربانی کی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی لیڈرشپ میں  ایک ناممکن کام ممکن ہوگیا۔  پاکستان وجود میں آگیا۔ 

قیام پاکستان  کا دن جمعۃ الوداع ہونا، شب قدر ہونا کیا محض اتفاق ہے….؟

رمضان کے آخری عشرے میں 27 رمضان المبارک کو پاکستان کے قیام میں قدرت کے بڑے اشارے چھپے ہوئے ہیں۔

اگر آج ہم پاکستان کے موجودہ حالات پر نظرڈالیں تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں‌ کہ آج پاکستانی قوم شدید بے چینی  اور فکرمندی میں مبتلا ہے…ہر طرف لاقانونیت، قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے… اتنی قدرتی نعمتوں کے باوجود پاکستان میں اکثر مقامات پر 24گھنٹوں میں 12گھنٹے اور بعض مقامات پر 15گھنٹے بجلی کا غائب رہناعام بات ہے۔

جب سے پاکستان بنا ہے کئی طرح کی مشکلات میں  گھرا ہوا ہے مگر یہ اللہ کا کرم اور غیبی مدد نہیں تواور کیا ہے کہ اس نے پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے ۔

اس بات پر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مملکت کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں میدان، پہاڑ، صحرا، سمندر اور چاروں موسم قدرت کی عطا ہیں۔ اس کی جغرافیائی اہمیت مسلمہ ہے۔دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان موجود ہے۔ پانچویں بڑی سونے کی کان اور کوئلے کے پانچویں بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں۔تانبے کی ساتویں بڑی کان یہاں پائی جاتی ہے۔ہمارے پاس عالمی سطح پر دوسرا بڑا ڈیم (تربیلا ڈیم) ہے۔چار نیوکلیائی ریکٹرز ہیں۔دنیا کا بہترین نہری نظام ہمارا ہے۔ ہماری افواج کی جرأت و شجاعت پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔پاکستان چاول کی پیداوار میں ساتویں اور گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبرپر ہے۔

        پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو روس سے کم از کم 10گنا چھوٹا ہے،لیکن اس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے 3گنا بڑا ہے۔یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے،خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے ،پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں، کھجورکی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں،مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ اس کی صرف گندم پورے براعظم افریقہ کی پیداوارسے زائد، براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ہے۔یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے۔کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتوں نمبر پر ہے۔اس کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ صحرا، سمندر،برفانی تودے، پہاڑ، لہلہاتی فصلیں ، قیمتی معدنیات کے باوجود اس کی کل آبادی کے 73 فیصد انسان ہر روز دو ڈالر سے کم کماتے ہیں۔

ایک مشہور امریکی صحافی کے بقول ‘‘قدرت نے خطہ پاکستان کو نہایت فیاضی سے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا، مگر وہ اہل لوگ نہیں دیے، جو ان وسائل کا درست استعمال کر سکیں۔’’

اس خطے کو جس کے نصیب میں پاکستان ہونا لکھا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے انعامات سے بھردیا ۔ دنیاکے ممالک میں سے بعض ایسے ہیں جو ارضی خصوصیات میں سے کسی ایک یا چند کے حامل ہیں مثلاً کوئی ملک زیادہ تر صحرا پر مشتمل ہے تو کسی ملک میں صحرا کا نام ونشان تک نہیں ہے ۔ کسی ملک کے پاس دریا تو ہیں سمندر نہیں ہے ۔ کسی ملک کے پاس بلند وبالا برف پوش پہاڑ ہیں مگر میدانی علاقے نہیں ہیں اور وہاں زراعت نہیں ہوپاتی ۔ کسی ملک میں زراعت ہوتی ہے تو وہاں پھل نہیں ہوتے ۔ کہیں پھل ہوتے ہیں مگر ان میں ذائقہ نہیں  ، پھول ہوتے ہیں مگر ان میں خوشبو نہیں ۔ کسی ملک میں پہاڑ اور میدان تو ہیں مگر وہاں جنگلات اور جنگلی حیات نہیں ہے ۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ کسی ملک کے ارد گرد سمندر تو ہے مگر وہاں انواع واقسام کی مچھلیاں نہیں ہوتیں ۔

اب آئیے ایک نظر ذرا پاکستان پر ڈالیں ۔ شمال تا جنوب پاکستان کا رقبہ ایک ہزار میل سے  زیادہ ہے جبکہ مشرق تا مغرب چند سو میل سے زیادہ نہیں لیکن یہ مختصر سا خطہ جغرافیائی اور موسمی لحاظ سے کئی خصوصیات کا حامل ہے ۔ مثلاً ایک یہی کہ اس ملک کے اکثر حصے میں گرمی اور سردی ، بہار اور خزاں کے موسم بھرپُور طورپر آتے ہیں جس سے زراعت پر خوشگوار اثرات مرتّب ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بلند وبالا سرسبز وشاداب برف پوش پہاڑ بھی ہیں اور خشک پہاڑیاں بھی جن سے ایک طرف تو دریاؤں کو پانی ملتا ہے تو دوسری طرف انواع واقسام کے ذائقہ دار پھل اور میوے اور انتہائی بیش قیمت معدنیات ملتی ہیں ۔ جس میں نمک جیسی عام چیز سے لے کر یورینیئم جیسا انتہائی اہم اور کمیاب عنصر بھی شامل ہے ۔  پاکستان میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس قدرتی طورپر بہترین کوالٹی کی حامل ہیں ۔ جن میں سرفہرست چاول ہے اور اس کے بعد  کپاس ۔ یہی حال پھلوں کا ہے ۔ آم دنیا کے کئی ممالک میں پیدا ہوتا ہے لیکن جو لذّت اورشیرِینی پاکستانی علاقے میں پیدا ہونے والے آم کی ہے وہ چند سو کلومیٹر دور بھارتی علاقے میں پیدا ہونے والے آم کی بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح کیِنو کی مثال بھی دی جاسکتی ہے ۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے سیب ، خوبانی اور انگور کی مثال بھی دی جاسکتی ہے ۔ اب آئیے پھولوں کی طرف ، برطانیہ میں گلاب پیدا ہوتا ہے اور پھول بہت بڑے سائز کا ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا گلاب حسن ونازکی  ، لطافت بھی زیادہ رکھتا ہے اور اس میں خوشبو بھرپُور ہوتی ہے ۔ یہی حال موتیا اور چنبیلی کا ہے ۔ سمندری غذائی وسائل کی طرف نگاہ ڈالیں ،   قدرت نے آبی حیات کے سلسلے میں بھی پاکستان پر دل کھول کر فیاضی کی ہے ۔ شاید کم ہی لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ ذائقے اور غذا کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی مختلف مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ پاکستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہیں ، پاکستان سے چند سو کلومیٹر دور مشرق میں بھارت اور مغرب میں واقع ریاستیں اس سےمحرومہیں۔

کسی بھی ملک کے معدنی ذخائر اس ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ذخائر میں ملنے والی معدنیات میں قدرتی طور پر کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں جن سے دھاتیں بنائی جاتی ہیں یا ان سے دوسرے کیمیائی مرکبات بنائے جاتے ہیں۔ ان معدنیات کی مقدار،  درجہ یا گریڈ (معدنیات میں پائی جانے والی دھات کی مقدار اور قسم) اور ان کا صحیح استعمال اس ملک کی ترقی کو چارچاندلگا دیتا ہے۔

پاکستان میں دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات کے وسیع ذخائرپائے جاتے ہیں۔ مشہور دھاتوں، غیردھاتی اشیاء اور معدنی ذخائر میں انٹی منی ،  کرومیم  ، تانبا ، لیڈ، زنک ، مینکانیز ، لوہا ، لیٹرائیٹ، بیرائیٹ، بنٹو نائٹ ، چائناکلے ، کوئلہ، گریفائیٹ، نمک، میگنیسائٹ، نیفلین سانائٹ ، گندھک،  جپسم ، لائم اسٹون اور فائر کلے شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی معدنیات پائی جاتی ہیں مگر ان کا بھی صحیح طرح اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ آزاد کشمیر ، خیبر پختون خواہ اور شمالی علاقہ جات معدنیات سے مالامال ہیں جہاں ہیرے اور قیمتی پتھر اور دیگر معدنی وسائل   وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ قیمتی دھاتیں مثلاً سونا، چاندی اور مولبڈنم وغیرہ دوسری دھاتوں جیسے لوہا اور تانبا کے ساتھ ملتی ہیں۔ سونا بعض دریاؤں کی ریت اور پانی میں بھی پایا جاتا ہے۔آبشاریں، ندی نالے اور دریا ان علاقوں کا جھومر ہیں ۔

ضلع چاغی نوکنڈی میں واقع ریکوڈک کا پر اینڈ گولڈ پراجیکٹ دنیا میں سونے اور چاندنی کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ریکوڈک ضلع چاغی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے جو ریگستانی علاقہ ہے۔ یہ نوکنڈی کے شمالی مغرب میں ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقامی لہجے میں اس کا تلفظ ،،ریکے ڈک’’ ہے، جس کے معنی ‘‘ریت کے ٹیلے’’ کے ہیں، جس کی بگاڑ ریکوڈک ہے۔ یہاں 123 ملین ٹن تانبے اور 20.9 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں گیارہ ملین پاؤنڈ کے تانبے کے ذخائر کی موجودگی بتائی جاتی ہے۔ ریکوڈک میں اٹھاون فیصد تانبا اور اٹھائیسفیصد سونا ہے۔

بلوچستان کو قدرت نے بےپناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا ہے، ضلع کوہلو اور کوئٹہ کے قریب کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ، خضدار، خاران اور چاغی میں کرومائیٹ کا وسیع ذخیرہ ہے۔ خضدار کے نزدیک بیرٹس کے دو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ ضلع چاغی، زردکان، سیاچنگ، جھولی، پتوک، مسکیچاھ، زہ، چلغیزی اوریٹک میں ماربل کے ذخائر پائے جاتے ہیں، ماربل کی ایک اعلیٰ قسم اونیکس کے ذخائر بولان، لسبیلہ اور خضدار میں دریافت ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، قلات، ہرنائی، سور رینج اور سپنتنگی کے علاقوں میں چونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چاغی میں لوہے کے تیس ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تانبا، سونے، سلور اور لیڈ کے ذکائر بھی پائے جاتے ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی (سب سے بڑی پولینڈ میں ہے) نمک کی کانیں کھیوڑہ کے نام سے پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔  یہاں روزانہ کی پیداوار ساڑھے تین لاکھ ٹن سے زائد ہے۔ یہاں کے ذخائر کا اندازہ بیاسی ملین ٹن سے 600 ملین ٹن تک لگایا گیا ہے، یعنی اگر روزانہ اسی مقدار میں مسلسل نمک نکالا جاتا رہا تب بھی ساڑھے تین سو سال تک یہ سلسلہ ختمنہیںہوگا۔

ایک اور معدنیات جسے کالا سونا یا کوئلہ کہا جاتا ہے دنیا کے تیسرے بڑے  ذخائر پاکستان میں ہیں۔ کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں دنیا میں پہلے نمبر پر چین ہے، جس کے پاس 274500 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر محفوظ ہیں، جو دنیا میں تناسب کے لحاظ سے  کل کوئلے کا 25.9 فیصد حصہ بنتا ہے۔ اس کے بعد امریکا ہے، جس کے پاس 246643 ملین ٹن، یعنی 23.3 فیصد اور پھر پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ وسیع ذخائر رکھنے والا ملک پاکستان ہے۔ جس کے پاس 185050 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں، جو دنیا کا 19.3 فیصد ہیں۔ دیگر سات ممالک کی ترتیب  میں روس، بھارت ، آسٹریلیا ، جنوبی افریقا ، یوکرائن، قازقستان اور پولینڈ شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے ریگستان میں کوئلے کے بڑے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے۔ اس میں 9 ہزار 600 مربع کلو میٹر ہیں 175 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن سے آئندہ پانچ سو برسوں تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل یا لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔

پاکستان برصغیر کا وہ واحد ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔۱۹۵۰ء کے عشرے کے دوران بلوچستان کے قبائلی علاقے میں سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کے ذخائر دستیاب ہوئے۔ اس مناسبت سے یہ قدرتی گیس ’’سوئی گیس ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی اور ہماری سماجی اقتصادی صنعتی اور تجارتی زندگی میں نمایاں انقلاب کا سر چشمہ ثابت ہوئی اب پاکستان کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی قدرتی گیس کے نئے  اور بڑے ذخائر دریافتہوچکےہیں۔

ہمارے پاس بندرگاہیں ہیں۔ ہم چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے تجارت کا گیٹ وے ہیں۔ پاکستان کے سمندر کا بیشتر حصہ یعنی ۱۲۰۰ کلو میٹر طویل ساحل، صوبہ بلوچستان سے منسلک ہے ۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں بلوچستان کی مچھلی کی سالانہ پیداوار ۴۰ ہزار ٹن تھی ۔ اب ایک تخمینے کے مطابق ہماری مچھلی اور جھینگے کی پیداوار ایک لاکھ دو ہزار ٹن سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ۔ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جاپان کے تو چاروں جانب حدِ نظر تک سمندر ہی سمندر ہے ۔ لیکن قدرت نے اس سمندر کو عمدہ قسم کی مچھلیوں اور جھینگوں کی دولت عطا کی ۔ جاپان اپنی ایک فیصد ضروریات کے لئے بھی اپنے سمندروں سے مچھلی حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس کے برعکس ہمارے ۱۶۰۰ کلو میٹر لمبے ساحل اور ہمارے قانونی سمندری حدود کے پورے علاقے ، ان گنت اقسام کی اعلیٰ درجے کی مچھلیوں ، جھینگوں ، لابسٹرز اور دوسرے ایسے آبی جانوروں سے بھرے ہوئے ہیں جو دنیا بھر میں انسانی خوراک کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی مچھلی اور اعلیٰ درجے کے جھینگے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

 

ایسے ممالک جنہیں ساحلِ سمندر کی نعمت میّسر نہیں ہیں۔

ایشیاء: افغانستان، نیپال، بھوٹان، لاؤز، منگولیا، قازکستان، کرگزستان، تاجکستان، ترکمانستان، اُزبکستان، آرمینیا، آزربائجان، ناگورنوکرنج، ساؤتھ آسیٹیا

یورپ: آسٹریا، چیک، سلواکیہ، ہنگری، کوسوو، سربیا، اینڈورا، لیچٹن سٹین، میکڈونیہ، بیلارُس، لکژمبرگ، مولڈوا، سان مرینو، ویٹیکن اور سوئٹزرلینڈ

افریقا: برکینا فاسو، برُنڈی، چاڈ، مالی، نائجیر، روانڈا، یوگینڈا، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، بوسوانا، ملاوی، زمبیا، زمبابوے، لیستھو، سوازی لینڈ اور وسطی افریقہ

امریکا: بولویا، پیراگوئے

 

ایسے ممالک، جزائر اور نوآبادیاتی ریاستیں جہاں دریا (یعنی میٹھا پانی) نہیں ہیں۔

بحرین، کری باٹی، مالدیپ، مارشل آئی لینڈ، ناؤرو، موناکو، ٹونگا، توالو، انگُولیا، برمودا، کرسمس  آئی لینڈ، کوکوز  آئی لینڈ، ایسٹر  آئی لینڈ، نارفوک، نیوے، پِٹ کیرین  آئی لینڈ، سینٹ برتھیلمی، ٹوکیلاؤ۔

قدرتی نعمتوں کا ذکر ابھی مکمل نہیں ہے ، اس کے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست ہے۔تصور کریں ڈنمارک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ڈیری پروڈکٹس ہیں۔ڈنیش قوم دودھ کا سہارا لے کر اچھی کوالٹی کا مکھن، پنیر اور دیگر اشیاءبنا کر اسے پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرتی ہے، اس کی بیکری کے آئٹمز،بالخصوص ڈینش بسکٹ پوری دنیا میں ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں۔اس قوم نے صرف قدرتی نعمت دودھ کی مدد سے معیاری چیزیں بنا کر پوری دنیا میں اس حوالے سے اپنی پہچان بنائی اور اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے ،جہاں خوشحالی نظر آتی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان قدرت کی سینکڑوں نعمتوں کے باوجود بھی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔اگر یہاں صرف ایک قدرتی نعمت آم کا ذکر کیا جائے تو وہی کافی ہے۔قدرت نے پاکستان کو سینکڑوں اقسام کے لذیذ خوش ذائقہ آموں سے نوازا ہے۔ایسے آم دنیا کے اور کسی ملک میں نہیں پیدا ہوتے۔افسوس اس نعمت سے بھی کوئی مثالی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

صرف یہاں کے موسم کو ہی لیجئے ، پاکستان دنیا کے اُن چھ ملکوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے جہاں ایک ہی وقت میں دو دو موسموں سے لطف اُٹھایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک کی صف اول میں شامل ہے جہاں دریا پہاڑ سے اُترتے ہیں اور ہزاروں ایکٹرزمینوں کو سیراب کرتے ہوئے سمندر میں جاگرتے ہیں۔ دنیا میں قدرتی گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں دنیا کی محنتی  اور سستی لیبر فورس موجود ہے جو دنیا کے ہر علاقے میں سخت سے سخت کام کرسکتی ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کے لاکھوں شہری دنیا بھر کے ممالکمیںموجود ہیں اور اپنی ہنر مندی و ذہانت سے انہیں مستفید کررہے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے اداروں میں اعلیٰ پوزیشنوں میں پاکستانی اساتذہ اور سائنس دان کام کررہے ہیں۔

ایک منفرد وممتاز مقام کا حامل ہے ۔ سب سے پہلے قیامِ پاکستان کو ہی لیجئے ، پاکستان دنیا کی تاریخ کا پہلا ملک ہے جسے کسی قوم نے غیرملکی استبداد سے آزاد نہیں کروایا بلکہ اسے ایک قوم نے تشکیل دیا ہے ۔ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ دنیا کے سیاسی لیڈروں میں اپنی طرز کے پہلے اور واحد لیڈر ہیں ۔ دنیا کی مختلف اقوام میں بڑے بڑے لیڈر پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک اور دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔ ابراہیم لنکن ، ماؤزے تنگ ، مہاتما گاندھی ، اپنی اپنی قوم کے لئے ان لیڈروں کے کارنامے بلاشبہ بہت عظیم ہیں لیکن تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ان لیڈروں نے اپنی قوم کوجس کے پاس ملک پہلے سے موجود تھا ، انتشار ، افراتفری اور غلامی سے نجات دلائی ۔ دنیا کے لیڈروں میں پاکستان کے بانی محمد علی جناحؒ کی امتیازی  شان یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے تو اس خطے میں  بسنے والی مسلم قوم کا جداگانہ تشخص تسلیم کروایا اور اس کے بعد اس مسلم قوم کو ایک علیحٰدہ خودمختار اور آزاد ملک بناکر دیا ۔اس نئے ملک کا نام پاکستان قرار پایا ۔

ہماری قوم کے لوگ زندگی کے کسی بھی شعبے میں یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں اپنے لئے ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ خصوصیت دنیا کی کم ہی اقوام میں پائی جاتی ہے ۔ کھیل دنیا میں ہر جگہ کھیلے جاتے ہیں ۔ ان میں وسائل سے مالا مال ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں اور کم وسائل رکھنے والے ترقی پذیر  اور پسماندہ ممالک بھی ۔ دنیا میں کسی ترقی پذیر اور کم وسائل رکھنے والی قوم نے کھیل کے میدان میں ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کی ہیں جیسی پاکستانی کھلاڑیوں نے کی ہیں ۔ پاکستان نے ہاکی کھیلی  تو اولمپک چیمپئن ، ورلڈ چیمپئن ، ایشیائی چیمپئن کے اعزازات حاصل کرلئے ۔ کرکٹ کھیلی تو ورلڈ کپ جیتا اور دیگر کئی مقابلے جیتے ۔ اسکوائش کھیلا  تو میدان اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ اسنوکر کھیلا  تو عالمی چیمپئن قرار پایا ۔

کھیل کی دنیا میں کھلاڑیوں نے انفرادی طورپر جو ریکارڈ قائم کئے ان میں بھی پاکستانی کسی سے پیچھے نہیں ۔ جاوید میانداد ، عمران خان ، وسیم اکرم ، وقار یونس ، شاہد آفریدی ، تنویر ڈاد ، منورالزماں ، اصلاح الدین ، سمیع اللہ ۔ پاکستان کا ایک کھلاڑی جہانگیر خان مدتوں اسکوائش کورٹ پر حکمرانی کرتا رہا اور اس سے یہ اعزاز منتقل ہوا  بھی تو ایک دوسرے پاکستانی جان شیر خان کو ۔ اسنوکر کا کھلاڑی محمد یوسف عالمی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے اپنے طورپر خاموشی سے گیا اور ملک کے لیے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کرکے وطن لوٹا ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ سب پاکستانی ہیں ۔ نصرت فتح علی خان کو عالمی سطح پر دنیائے موسیقی کا بے تاج بادشاہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔ نصرت فتح علی خان کی فنی عظمت کا اعتراف پاکستان سے باہر مغرب میں یورپ ، امریکہ ، کینیڈا ور مشرق میں جاپان تک میں کیا گیا ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نصرت فتح علی خان مرحوم پاکستانی تھے ۔ عبدالستار ایدھی کی شخصیت عالمی سطح پر عزت اور احترام کی حامل ہے ۔ دنیا بھر میں ان جیسی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں ہے ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ پاکستان تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہے خصوصاً ہماری جامعات میں تحقیقی کاموں کے سلسلے میں ہم شدید پسماندگی کا شکار ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم نے ڈاکٹر سلیم الزماںصدیقی ، ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ان جیسے کئی دوسرے بین الاقوامی سطح پر معروف ومحترم سائنس دان دنیا کو دیئے ۔

 اور اب ایک اور پہلو پر نظر ڈالتے ہیں شاید آپ کی نگاہ اس طرف کم گئی ہے دنیا کی تاریخ میں پاکستان  وہ منفرد ملک ہے جس نے 63 سال کی عمر میں 8 جنگیں لڑیں۔ تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجرت کو اپنے ملک میں پناہ دی۔  یہ وہ ملک ہے جس کے خلاف اس کے کئی دشمنوں  نے اتحاد کرلیا  لیکن اس وقت تک اللہ کے حکم سے ناکام ہیں۔ یہ وہ پاکستان ہے جس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے چھ ایف سولہ جہاز گرائے تھے جب کہ سارا عرب اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا۔ یہ وہ پاکستان ہے جس نے سری لنکا کی 60000 آرمی کو پڑوسی ملک کے تربیت یافتہ تامل ٹاگر کے خلاف تربیتو مدد فراہم کی۔

محب وطن  اہل پاکستان کی صلاحیتوں سے افرادی قوت بھی حاصل ہے ۔ اہلِ پاکستان کی صلاحیتوں سے صحیح معنوں میں کام لے کر ایک خوشحال ملکبناسکتےہیں۔

اب کمی ہے تو صرف اخلاص کی۔ اگر نیت میں اخلاص شامل ہوجائے ، زمین میں پوشیدہ خزانے ،  ہنر مند اور تعلیم یافتہ جفاکش محنتی افرادی قوت کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو بظاہر ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی ہے جو پاکستان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہو۔

 پاکستان کے ساحلی علاقوں پر اگر صرف ناریل کی کاشت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جائے تو تقریباً چار ارب سالانہ کی آمدنی ممکن ہے ۔ اس سے ایک طرف تو آلودگی کا مسئلہ حل ہوسکے گا دوسری طرف بہت بڑی تعداد میں ذرائع روزگار بھی پیدا ہوں گے۔ یہ بات یاد رہے کہ ہمارے ہاں تو ناریل کا تیل اور کھوپرا ہی استعمال ہوتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں تو ناریل کے تقریباً ہر حصے سے لاتعداد اشیاء تیار کی جارہی ہیں جن میں گھروں میں استعمال ہونے والے پائیدان سے لے کر تھرمو پلاسٹک  اور گاڑیوں کی نشستیں تک شامل ہیں۔

زمینی خزانوں میں سے معدنی کوئلے کو ہم اب تک صرف توانائی اور حرارت کے وسیلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کی بنیاد پر یا تو بجلی گھر چلائے جارہے ہیں یا اینٹوں کے بھٹوں میں اس کا استعمال ہورہا ہے۔اس سے فوائد تو ضرور حاصل ہورہے ہیں لیکن کوئلے کو محض ایندھن کے طور پر استعمال کرنا اس دولت کا زیاں ہی نظر آتا ہے۔ معدنی کوئلے پر مبنی صنعتوں کے قیام سے ہم درجنوں اقسام کے کیمیکلز ، دوائیں ، رنگ اور دوسری صنعتی مصنوعات حاصل کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئلے کے صنعتی استعمال سے خارج کرنے والے کثیف دھویں کو بھی مفید گیسوں کے حصول کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔

مچھلی  اور جھینگے کو ڈبوں میں محفوظ کرکے اس صنعت کو فروغ دیا جائے اورجدید بین الاقوامی خطوط پر ماہی گیری کو منظم کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اربوں بلکہ کھربوں روپے سالانہ کی آمدنی ممکن ہوسکے ۔  پاکستان میں نکلنے والا سنگ سبز چٹانوں کی صورت میں بیرونِ ملک برآمد ہوجاتا ہے اور وہاں اُس کی انسانی ناخن کے برابر مقدار کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا ، اس کے چورے کو بھی استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ اس دولت سے غیر جو فائدے حاصل کررہے ہیں  ہم خود کیوں نہیں حاصل کرسکتے۔

کسی ملک کی ترقی کے لئے ان بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

  1.  زرعی پیداوار
  2.  صنعتی پیداوار
  3.  معدنی دولت
  4.  افرادی قوت  

الحمد للہ یہ چاروں چیزیں پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ اللہ کی مہربانی اور اللہ کے رسول حضرت محمدمصطفٰےﷺ کا صدقہ ہے آج دنیا  بھر میں پاکستان جیسا خطہ ارضی تلاش کرنا ممکن نہیں۔

پاکستان پر جب بھی کڑا وقت آیا ہے ۔ یہاں کے لوگوں نے سر سے کفن باندھ کر مشکلات کا مقابلہ کیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک کے لئے قدرت کے عطاکردہ وسائل اور مواقع کو خلوص نیت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

پاکستان کے پاس وسائل اور افراد کی کمی نہیں ہے۔  ہماری معاشرتی خرابیوں کے اسباب ناقض حکمت عملی میں پوشیدہ ہیں ۔

 قوم بہت اچھی ہے ۔ بدقسمتی سے اسے لیڈر اچھے نہیں ملے ۔ خود غرض حکمرانوں نے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کام چلایا اور قوم کی اجتماعی فلاح وبہبود کے لئے کوئی مؤثر نظام  قائم نہ ہونے دیا ۔ آج بھی اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا مؤثر انتظام ہوجائے ، یہاں کا نظام درست ہوجائے ، ہر قدم اللہ کے احکامات اور اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل شروع کردے تو یہ ملک بہت  تھوڑے عرصہ میں ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن جائے گا۔

کئی روحانی ہستیاں  پاکستان کے لیے مسلسل دعا گو ہیں۔ ان ہستیوں کویقین ہے کہ پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ یہ قوم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے بے انتہاء محبت کرتی ہے۔ پاکستانی قوم  اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی خوشی کی خاطر اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتی ہے۔

حکومتی توجہ نہ ہونے پر پاکستانیوں نے اپنے طور پر سماجی خدمات کے بڑے بڑے ادارے قائم کیے ہیں۔  اور ایسے زیادہ تر کام اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا پانے کے لیے کیے گئے ہیں۔

اگر پاکستان کو ایسے نیک نیت مخلص صالح حکمران مل جائیں تو یہ ملک بہت جلد دنیا کی قوموں میں بہت عزت و احترام  کا حامل ہوگا۔

معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں مقیم ایک بہت پہنچی ہوئی روحانی ہستی نے  نجی محفلوں میں اپنے ملنے والوں کو کئی بار بتایا ہے کہ اللہ کے مقرب کئی بندے  پاکستان کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں۔  اس ملک کے عوام کسی بات کا تہیہ کرلیں  تو انہیں قدرت کی بھرپور مدد ملتی ہے۔  پاکستان کا ایٹمی قوت بننااس کی واضح تر مثال ہے۔ لاہور میں مقیم روحانی ہستی نے بتایا ہے کہ پاکستان کی ترقی  کے امکانات بہت روشن ہیں۔ بس ہمیں تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کے لیڈر انفرادی مفاد کو چھوڑ کر قومی مفاد کو ترجیح دیں تو یہ ملک بہت جلد خطے کا نہایت امیر ملک بن جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

بوعلی سینا اور البیرونی کی گفتگو اور کورونا وائرس

بوعلی سینا اور البیرونی درمیان ہوئی گفتگو  آج ہزار برس بعد بھی کورونا وائرس سے ...

پاکستان میں قومی زبان کے چند بڑے خدمت گار

انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے بغیرعلم کا حصول اور ...

ایک تبصرہ

  1. سلمان سلطان

    اتنی تفصیل سے نہیں پتہ تھا پاکستان کے بارے میں ، بہت ہی معلوماتی مضمون ہے .
    اللہ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Добавить комментарий для سلمان سلطان Отменить ответ

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *