تصوّف

حضرت خواجہ غلام فریدؒ
برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی بزرگ سرائیکی کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کا کلام دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہے ۔
خواجہ غُلام فرید کوریجو 26 ذیقعد 1261ھ بمطابق 1843 ء کو چاچڑان (رحیم یارخان) میں پیدا ہوئے، آپ کاسلسلہ نسب حضرت عمر فاروق ؓ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کے جدامجد سلسلہ چشتیہ کے بزرگ خواجہ نور محمد مہاروی کے خلیفہ تھے ۔ آپ کے والد کا نام حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا۔ آپ نےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اسی دوران آپ کے والدماجد کا وصال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد خواجہ غلام فرید کے بڑے بھائی خواجہ غلام فخر الدین سے باطنی علوم حاصل کرنے کے بعد تیرہ برس کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے مرید ہوئے ۔ اٹھائیس برس کی عمر میں آپ کے بھائی اور مرشد حضرت خواجہ فخر جہاں کے انتقال کے بعد آپ کو سجادہ بنایا گیا ۔
آپ نے علوم باطنی کے علاوہ علومِ ظاہری کا درس بھی جاری رکھا، خاص طور پر حدیث شریف اور تصوف کی کتب کا درس ہمیشہ جاری رہتا ۔ آپ کے درس ِتوحید و ہدایت سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد مستفید ہوئے اور متعدد حضرات منازل سلوک طے کر کے صاحبِ کمال ہوئے۔ آپ کی جو دو سخا مثالی تھی ،غرباء و مساکین او بہت سے یتیم اور بیوہ عورتیں آپ کے زیر سایہ خوشحالی سے زندگی گزارتے ۔
کچھ برس بعد دل بے اختیار خلوت و گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوگیا اور کم و بیش اٹھارہ برس تک آپ روہی (چولستان )کے بیابانوں میں رہے اور کافیاں کہتے رہتے۔
خواجہ غلام فرید سرائیکی زبان کے ملک الشعراء تھے۔آپ کے وجد آفریں کلام میں بلاکا سوز ہے ۔ عوام و خواص کے لئے کیف و سرور کا خزینہ اور عشق و عرفان کا سر چشمہ ہیں۔ خواجہ فرید کی کافیوں میں انسانی حوالوں کے ساتھ عشق حقیقی کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں، آپ کا کلام ہررنگ ونسل،عوم وخواص میں مشہور ہوا ہے۔ جن میں مشہور کافی ‘‘میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں’’ آج بھی زبان زد عام ہے۔ انہی لئے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
‘‘جس قوم میں خواجہ فرید اور اس کی شاعری موجود ہے ، اس قوم میں عشق و محبت کا موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے’’۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””]کلامِ خواجہ غلام فریدؒ
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
تینوں خالق ذات قدیم کہوں
تینوں حادث خلق جہان کہوں
تینوں مطلق محض وجود کہوں
تینوں علمیہ اعیان کہوں
ارواح نفوس عقول مثال
اشباح عیان نہان کہوں
تینوں عین حقیقت ماہیت
تینوں عرض صفت تے شان کہوں
انواع کہوں اوضاع کہوں
اطوار کہوں اوزان کہوں
تینوں عرش کہوں افلاک کہوں
تینوں ناز نعیم جنان کہوں
تینوں بادل برکھا گاج کہوں
تینوں بجلی تے باران کہوں
تینوں آب کہوں تے خاک کہوں
تینوں باد کہوں نیران کہوں
تینوں ہر دل دا دلدار کہوں
تینوں احمدؐ عالی شان کہوں
تینوں شاہد ملک حجاز کہوں
تینوں باعث کون مکان کہوں
تینوں حسن تے ہار سنگار کہوں
تینوں عشوہ غمزہ آن کہوں
تینون عشق کہوں تینوں علم کہوں
تینوں وہم یقین گمان کہوں
تینون حسن قوی ادراک کہوں
تینوں ذوق کہوں وجدان کہوں
تینوں سکر کہوں سکران کہوں
تینوں حیرت تے حیران کہوں
تسلیم کہوں تلوین کہوں
تمکین کہوں عرفان کہوں
بے رنگ کہوں بے مشل کہوں
بے صورت ہر ہر آن کہوں
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
حضرت خواجہ غلام فرید سرائیکی، فارسی، عربی، اردو، پوربی ، سندھی اور ہندی زبانوں میں اظہار خیال کیا ہے۔حضرت خواجہ غلام فرید کو ہفت زبان صوفی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے سرائیکی دیوان میں 272 کافیاں ہیں- آپ نے کافی کی صنف میں ایسی باکمال شاعری کی ہے کہ اس کا شمار ادب کے بڑے اثاثوں میں ہوتا ہے۔ سرائیکی شاعری کو آپ بہت اعلیٰ مقام پر آپ چھوڑ کے گئے تھے۔ لطیف احساسات،جذبات اوراس میں وجدانی کیفیات کواس طرح ملادیناکہ شیروشکر ہوجائیں،خواجہ کی شاعری کاادنیٰ کمال ہے۔اکثر کتب میں ہے کہ آپ علم موسیقی میں خاصادرک رکھتے تھے۔ آپ کو 39 راگ،راگنیوں پر عبورتھا۔ آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے 7 ربیع الثانی 1319ھ بمطابق جولائی 1901ء کو 58 برس کی عمر وفات پائی ۔ آپ کا مزار کوٹ مٹھن (راجن پور؛ڈیرہ غازی خان ڈویژن ) میں ہے۔جہاں آپ کا یومِ وصال نہایت عزت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
[box type=”shadow” align=”” class=”” width=””]
یہ مضمون روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2018ء صفحہ 30 پر شایع ہوا تھا، روحانی ڈائجسٹ کے اس شمارے کو آن لائن پڑھنے کے لیے روحانی ڈائجسٹ آن لائن ایپ انسٹال کریں اور اس شمارے کا مطالعہ مفت کریں،
[/box]

اجنبی بیرسٹر
گھاس پھونس کی بنی، گنبد نما چھت والی جھونپڑی کے داخلی راستے کے بائیں جانب مونجھ کی چارپائی بچھی تھی، جس کا چوکھٹا بڑے بڑے بے ڈول ڈنڈوں سے بنا ہوا تھا۔ چارپائی پر تہمند سمیٹے ، پگڑی باندھے آلتی پالتی مار کر بیٹھے سانولی رنگت کے موٹے سے گول مٹول شخص کو جھونپڑی کے عقب میں اُگے برگد کے دیو ہیکل درخت کی ٹھنڈی چھاؤں نے راحت کا سامان میسر کر رکھا تھا ….
چارپائی سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر بنے مٹی کے چولہے کے پاس ‘‘تندیب’’ نہایت پریشان و مضطرب بیٹھی تھی۔ دھوپ کی تمازت اب کافی بڑھ چکی تھی، لیکن برگد کے گھنی چھاؤں نے جھونپڑی اور اس کے مکینوں کو اپنی آغوش میں لے کر سورج کی حدت سے بچا رکھا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کے چہرے سے بھی گہرے غم و اندوہ کے آثار ہویدا تھے۔ بجھے چولہے پر دھری خالی سیاہ کالی دیگچی کا ڈھکن زمین پر الٹا پڑا تھا، جس پر ابلے ہوئے سوکھے چاولوں کو ایک چڑیا اکھیڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ تندیب جو گھٹنوں میں سر دابے عمیق سوچ میں مستغرق چولہے کی باگر میں پڑی مدتوں سے ٹھنڈی ہو جانے والی راکھ میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اچانک گردن گھما کر چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کرکے بولی۔
‘‘ رامن! ایک کام کرو …. ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں ہماری زمین واپس مل سکتی ہے’’۔
تندیب کی آنکھوں میں جہاں چند گھڑیاں پہلے نا امیدی و یاسیت کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اب امید و یقین کے دئیے جگمگانے لگے تھے۔
‘‘کس طرح ؟ …. کیسے ؟ …. کیا تیرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آگیا ہے؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
‘‘ہاں …. ہاں …. الہ دین کا چراغ نہیں بلکہ جگمگاتا سورج ہیں ۔جس سے سب کی امیدیں بر آتی ہیں۔ خوشیو ں کے دئیے دمکنے لگتے ہیں ’’۔
یہ کہتے ہوئے تندیب کے چہرے پر شادمانی و سرشاری اُبھر آئی ۔
‘‘ پہلیاں نہ بجھوا …. سیدھی بات بتا …. تو کیا سمجھتی ہے کہ ساہوکار ہماری رہن والی زمین واپس کر دے گا؟؟…. کسی صورت بھی نہیں کرے گا۔ اس نے ڈی سی کے ہاں زمین کی ملکیت کی نالش کر رکھی ہے …. ہم غریب، بے آسر ا و بے سہارا لوگ کیسے مقدمہ لڑ سکتے ہیں …. جس کی لاٹھی اس کی بھینس …. زبردست کا ٹھینگا سر پر …. زبردست کے آگے پیش نہیں چلتی …. افسوس …. ہماری زمین بھی گئی ، بیل بھی گئے…. ہمارے پلے تو ککھ نہ رہا …. بری طرح لٹ گئے ہم ۔ بھلا جس کے پاس اپنی زمین نہ ہو، مویشی نہ ہوں ، بھینس نہ ہو، بیلو ں کی جوڑی نہ ہو، اس شخص کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے…..؟ ؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے الجھن و پچھتاوے کے عالم میں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ مار کر روہانسیصورت بنا کرکہا۔
‘‘ ارے …. ارے …. میری سن …. پریشان نہ ہو…. ہمارے ہاں جلد ہی لکشمی ڈیرے ڈالنے والی ہے …. ہمارے نصیب جاگنے والے ہیں …. پھر بھلے دن آئیں گے …. ہمارے پنڈ میں اوتار آئے ہیں ….میں بھی ان کے چرنوں کو چھوکرآئی ہوں ۔
وہ کنویں کے پاس جو آمو ں کے پیڑ ہیں …. وہاں کسی نہ کسی پیڑ کے نیچے دھونی رما کر بیٹھے رہتے ہیں …. تو ان کے پاس اپنی فریاد لے کر جا ۔ ‘‘ہماری گروی زمین ہمیں واپس مل جائے گی’’۔
‘‘ آخر وہ ہیں کون؟ ؟ ….’’ رامن نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے نہایت متخیر لہجے میں تندیب سےپوچھا۔
‘‘با با تاج الدین ’’۔ تندیب سرشاری سے بولی۔
‘‘ کمال کرتی ہے تو …. وہ تو دوسرے دھرم کے ہیں ۔ ان کے پاس میں کیسے چلا جاؤں ؟؟؟’’۔
‘‘ وہ مسلمانو ں کے دھرم کے ہیں ، تو پھر کیا ہے؟ …. مرہٹہ راجہ جی نے بھی تو انہیں اپنے محل میں ٹھہرایا رہا …. مہاراجہ جی روزانہ خود ان کی قدمبوسی کرتے تھے …. کیا راجہ جی کا دھرم بھشٹ ہو گیا؟؟ …. تو ان چکروں میں نہ پڑ …. میری سن ! …. اور ابھی سے جا …. وہ کسی آم کے پیڑ کے نیچے ہی بیٹھے ہوں گے …. بس اس وقت تک ان کے پاس سے نہ اٹھنا، جب تک ہماری رہن شدہ زمین ہمیں مل نہیں جاتی ….’’
کافی وقت رامن اور تندیب کے مابین تکرار ہوتی رہی۔ رامن کے نزدیک تندیب کی باتیں فضول تھیں …. وہ نامی گرامی سادھوؤں کے پاس جاچکاتھا۔ مگرکہیں سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ساہوکاروں کو تو سادھوؤں اورپنڈتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ صرف رامن جیسے لوگ ہی زمین پر بوجھ تھے ، جنہیں دھرم کے علمبرداروں کے بقول بھگوان نے بھی ملیچھ بنادیا تھا ….
تاسف، غم، محرومی ،بے بسی ، بے بضاعتی اوربے توقیری نے رامن کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔ تاہم آخری کوشش کے طور پر اس نے تندیب کے اصرار پر حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہونےکافیصلہ کر لیا۔
بابا صاحب کو تلاش کرتے کرتے رامن بہت تھک چکا تھا۔ غضب کی گرمی میں اس کا لباس پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ بابا تا ج الدینؒ کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں تھا …. و ہ کبھی ایک درخت کے نیچے ہوتے تھے اور کبھی دوسرے درخت کے نیچے …. مسلمان فقیروں کاکچھ پتہ نہیں چلتا تھا، جدھر جی چاہا نکل گئے۔ وہ چاشت کے وقت گھر سے نکلا تھا اور اب دوپہرڈھل چکی تھی …. سورج آگ برسا رہا تھا اور را من کے دل میں بھی آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اس کے اندر بغاوت اور مسلسل بغاوت کے تیز جذبات ابھر رہے تھے۔ مذہب سے اس کا یقین اٹھ چکاتھا۔ آخر دنیا میں ہر بڑا آدمی چھوٹے آدمی کوکھا کیوں رہا ہے …. بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، ساہوکار، مہاجن وسیع و عریض زمینوں کے مالک چھوٹے موٹے کاشتکاروں ، محنت کاروں اور کسانوں کی زمینیں ہتھیا کیوں لیتے ہیں ۔ ان کی ہوس تو کسی طرح پوری نہیں ہوتی اور انہیں مذہبی لوگوں سے تحفظ بھی حاصل رہتا ہے …. کیا اوتار، سادھوؤں کی یہی تعلیمات ہیں ؟؟؟ ….کیا انہیں یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا…..؟؟
وہ اپنے دھرم پر غور کرتا رہا …. غور کرتارہا …. اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔ عقل عاجز آگئی …. ساہوکار جس نے اس کی زمین رہن رکھی تھی، اس کے ہی دھرم کا تھا۔ پھر یہ ظلم آخر کیوں ؟؟ …. اتنی عدم مساوات کیوں ؟؟۔ بھگوان تو سب کاہے۔ سب اسی کی پیدائش اورمخلوق ہیں …. پھر بھگوان نے مظلوموں ، بے نواؤں ، بے سہاروں اور بے آسروں کاحق غصب کرنے والوں اور انہیں کچل کر رکھ دینے والوں کو اقتدار ، طاقت، عزت و شرف کیوں دے رکھا ہے؟ …. رامن تھا تو ان پڑھ، لیکن کچھ معاملہ فہم بھی تھا …. کئی سو سالوں سے مسلمان بھی اسی دیش میں رہ رہے تھے مگر کئی مسلمانوں کے ہاں بھی وہ سب کچھ رائج تھا، جو ہندؤوں کے ہاں تھا۔
گو مسلمان مساوات کا درس دیتے تھے، کہتے تھے ہم سب برابر ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی مظاہرہ رامن نے نہیں دیکھاتھا …. گو ان کے ہاں ذات پات نہ تھی، لیکن اس کی خاموش و بے نام شکلیں موجود تھیں۔
ہندو ہوں یا مسلمان، جاگیردار ، ساہوکار ایک جیسی خصلت و عادات رکھتے تھے …. غاصب ، ظالم اور مکار۔ یہ اگرہمدردی کااظہار بھی کرتے تو اس کے پیچھے بھی ان کی کوئی غرض مخفی ہوتی تھی۔ زمیندار مسلمانوں کے ہاں بھی کئی لوگوں نے کم و بیش وہی طور طریقے اور انداز زندگی اپنارکھا تھا، جو ہندؤں کے ہاں تھے….
رامن کے دل و دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ کیا بھگوان کی تعلیمات یہی ہیں ، اس کے اندر مذہب بیزاری اورشکوے شکائتوں کے جذبات بگولوں کی شکل اختیار کر چکے تھے ….
بھلا یہ کیسا قانون ہے کہ قرض کے عوض رہن رکھی گئی زمین قرضہ چکا دینے کے بعد بھی اسے نہ مل پا رہی تھی۔ وہ اور اس کا بھائی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ اب زندگی کی قوت بھی اس سے چھن رہی تھی…. وہ اور اس کی بیوی دوسروں کی زمینوں پر کولہوکے بیل کی طرح دن رات کام میں جتےرہتے ….
مگر حالت یہ تھی کہ بمشکل ایک وقت کاکھانا نصیب ہوتا …. بھگوان توسب کی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا کرتاہے…. آخر اس کا حصہ کون ڈکار جاتا ہے؟؟ ….اور کیوں اسے نہیں مل پاتا؟ …. برسوں کی محنت شائقہ کے باوجود ان کے پاس ایک وقت کے کھانے کے سوا کچھ بچ نہ پاتا تھا اور دوسرے وقت فاقہ پڑتا تھا …. قرضہ جو رامن اور اس کے بھائی نے اصل رقم سے تین گنا زیادہ ادا کر دیا تھا،لیکن سود مرکب کی وجہ سے یہ رقم نہ صرف جوں کی توں موجود تھی بلکہ مزید بڑھی ہی چلی جارہی تھی۔
اپنے دھرم سے وہ بیزار ہو ہی چلاتھا، لیکن مسلمان زمینداروں میں بھی اس نے یہی کچھ دیکھا تھا …. اس کے ساتھ کام کرنے والے اکثر مسلمان کاشتکاروں اورمحنت کاروں کی حالت بھی اس جیسی ہی تھی، بلکہ اس سے بھی بدتر و فروتر۔ کچھ مسلمان نواب تھے، جاگیر دار تھے، لیکن نچلے محروم طبقہ کے مسلمانوں کی حالت زار اچھوتوں سے ملتی جلتی تھی …. اگرکچھ فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ انہیں ان کے دھرم والوں نے اچھوت اور ملیچھ کا نام نہیں دیا تھا …. ورنہ تھے تو دونوں ایک جیسے …. رامن کے جذبات میں غصے کا عنصر اب پوری طرح حاوی ہو چکاتھا …. غصے سے اس کابدن تن گیا …. خون کی گردش تیز ہو گئی …. لیکن پھر وہ رونے لگا …. غصہ کے جذبات ٹھنڈے پڑتے گئے ….
جب اس کے جذبات کا جھکڑ کچھ سرد پڑا تو اس نے ایک آم کے پیڑ کے سایہ میں کھڑے ہو کر آنکھوں میں اتر آنے والا پسینہ پونچھا اور پھر جو سامنے دیکھا تو ایک پیڑ کے نیچے چند لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہ جلد جلدی آگے بڑھا تو قریب پہنچنے پر تندیب کے بتائے گئے حلیے پر اس نے حضرت بابا تاج الدین کو پہچان لیا۔ ان کے چہرے پر نگاہیں پڑتے ہی رامن کے دل میں ہوکیں اٹھنے لگیں اور وہ ان کے قدموں میں پڑ کر بلک بلک کر رونے لگا ….
پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی حیران وششدررہ گئے۔
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے فرمایا۔
‘‘ کیوں روتاہے رے؟ …. مل جائے گی تیری زمین …. مل جائے گی’’
پھر انہوں نے اسے دلاسہ دیا تو بے تاب و مضطرب رامن کو قرار سا آگیا۔ اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ بابا تاج الدین بغیر کچھ بتائے سب کچھ جان گئے تھے …. وہ چپ چاپ خاموش ان کے پاس بیٹھا رہا …. اور جب مجلس برخواست ہوئی تو بابا تاج الدین نے زور دار لہجے میں اسے مخاطب کرکے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔
‘‘ جا …. توبھی چلا جا …. اپناکام کر’’
رامن تو گھر سے ہی ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کاتہیہ کرکے آیا تھا …. بھلا وہ کب جانے والا تھا…. ان کی بار بار کی ڈپٹ سے بھی وہ گھر نہ گیا۔ حتیٰ کہ پوراایک ہفتہ گزر گیا …. وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا۔
حالات کاستایا ہوا شخص آسانی سے نہیں مانتا …. تلخ و تند تجربات زندگی اس کے اندر حقائق جاننے کی جستجو پیدا کردیتے ہیں …. وہ زندگی کی صداقتوں میں اتر کر انہیں کھولنا چاہتا ہے۔ اس کے دل کا غبار اور طوفان آہستہ آہستہ بیٹھتا ہے۔ …. اسے کوئی رام نہیں کر سکتا۔ صرف نبض شناس کسی کامل فقیر کی نگاہ کیمیا سے ہی اس کے دل کی صداقت کا بیج تناور درخت بن سکتاہے۔ ورنہ دل کی گہرائیوں میں حقائق و صداقتیں جاننے کا جذبہ، کارل مارکس، نطشے اور ہیگل جیسے لوگ پیدا کرتا ہے ، جن کے افکار آفاقی و ابدی صداقتوں کو مسخ و مبہم کر دیتے ہیں ….
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے متعدد بار اسے سختی سے کہا کہ وہ چلا جائے مگر وہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا ….
ایک دن حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کوجلال آگیا۔ انہوں نے اسے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بٹھا کر جلالی لہجے میں فرمایا۔
‘‘ تو قتل ہونے آیا ہے نا …. اس درخت کے نیچے بیٹھ جا ….اٹھنا نہیں ….اگر اٹھا تو میں تجھےمارڈالوں گا’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری کے لہجے میں اتنا زیادہ اثر تھا کہ رامن درخت کے نیچے کسی پتھر کی طرح جم کر رہ گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ بابا تاج الدین متواتر تین دن تک اس کی خبر گیری کرتے رہے اور تنبیہ کرکے چلے جاتے کہ
‘‘ خبردار …. یہاں سے ہلنا نہیں ….
یہیں بیٹھارہ ’’۔
چوتھے دن بابا تاج الدین اسے تنبیہ کرکے اسی درخت کے سائے میں چادر اوڑ ھ کر لیٹ گئے …. چند ہی ساعتیں گزری تھیں کہ رامن کا بھائی اسے تلاش کرتا ہوا آیا اور دور سے ہی ‘‘ رامن بھائی …. رامن بھائی ’’ پکارنے لگا۔ آواز سن کر رامن اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگیا، آگے نہیں بڑھا ۔ بابا تاج الدین کے احکامات اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئے تھے۔ رامن کے بھائی نے جب اسے دیکھا تو وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا اور اس سے لپٹ گیا۔
رامن کے بھائی نے کہا کہ ‘‘ وہ کئی دنوں سے اسے تلاش کرتا پھررہا ہے۔ ہماری رہن والی زمین ڈی سی نے ہمیں ساہوکار سے واپس دلا دی ہے۔ ساہوکار کا دعویٰ ڈی سی نے مسترد کر کے ہمارے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور میں نقل حکم بھی لے چکا ہوں ….’’ پھر رامن کے بھائی نے نہایت خوشی اور حیرت کے ساتھ رامن کو مخاطب کیا۔
‘‘چند دن قبل ہمارے گھر ایک ‘‘ اجنبی بیرسٹر’’ صاحب آئے اور انہوں نے پوچھاکہ‘‘ کیا تمہارا کوئی مقدمہ ہے؟؟’’ ….میں نے انہیں بتایا کہ ساہوکار ہماری زمین پر قابض ہے اور اس نے ڈی سی کے ہاں اپنی ملکیت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ ہم مفلس اور نادار لوگ وکیل بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ ’’
میری بات سن کر بیرسٹر صاحب بولے۔
‘‘ لاؤ زمین کے کاغذات مجھے دو میں تمہارا مقدمہ لڑوں گا اور فیس بھی نہیں لوں گا’’۔
چنانچہ میں نے کاغذات زمین ان کے حوالے کر دئیے۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی پیشی پر مسلسل آدھا گھنٹہ بحث کی۔ ان کی بحث پر ڈی سی از حد متاثر ہوا اور ساہوکار کا دعویٰ خارج کرکے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا ….
بیرسٹر صاحب بحث کے بعد کہیں چلے گئے۔
دوسرے دن میں نے ‘‘نقل حکم’’ لی اور بیرسٹر صاحب کو بہتیرا تلاش کیا مگر کسی سے ان کا اتا پتا نہ معلوم ہو سکا۔ کوئی وکیل ان کو نہیں جانتا تھا۔ پھر تمہاری تلاش شروع کی اور آج تیسرے دن تمملےہو’’۔
بھائی کی باتیں سن کر رامن ہکا بکا رہ گیا اور حیرت کے عالم میں کبھی اپنے بھائی اور کبھی چادر لپیٹے لیٹے ہوئے حضرت بابا تاج الدین کو دیکھنے لگا ….
چند ثانیوں بعد بابا تاج الدین نے چہرے سے چادر ہٹائی تو رامن کا بھائی پکار اٹھا….
‘‘ یہی ہیں …. یہی ہیں …. بیرسٹر صاحب یہیہیں ’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری نے دونوں بھائیوں کی طرف نظریں بھر کر دیکھا اور فرمایا۔
‘‘ یہ سب اللہ کی کرپا ہے رے’’
ان کے لہجے میں کچھ اس قدر سوز و اثر تھا کہ رامن کا دل سوزو محبت، مسرت و شادمانی، احساس ممنونیت و نیازیت سے لبا لب بھر گیا۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور بے ساختہ وہ بابا تاج الدین کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دھرانے لگا۔
‘‘ سب اللہ کی کرپا ہے رے ’’۔
رامن کے بھائی کی زبان کچھ پتھرائی اور اس کے لبوں سے بھی یہی الفاظ ادا ہوئے۔ رامن بابا تاج الدین ناگپوری سے رخصت ہو کر اپنے بھائی کے ہمراہ خوشی خوشی گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ تندیب نے غلط نہیں کہا تھا۔
بابا تاج الدین چراغ نہیں سورج ہیں …. اس دھرتی پر اوتارہیں ۔ جن کی ذات کی روشن و منور کرنوں سے ظلمتوں اور گھٹاؤں میں بھی جگمگاتے دئیے روشن ہو جاتے ہیں اور جن کی کرنیں ہر سو جگمگ کرتی بکھر رہی تھیں ۔
آنے والے چار پانچ برسوں میں لوگوں نے دیکھا کہ رامن اپنا دھرم بدل کر‘‘خیر بخش’’ بن گیا تھا، جس نے اپنے محلہ میں مسجد تعمیر کروا لی تھی اور جو بے نوا و درماندہ، محنت کش،ہندو مسلم آبادی کے دکھوں کا مشترکہ مداوا بن چکا تھا۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””] منشی اصغرعلی صاحب ناگپوری جو سیوئنگ مشین کمپنی میں ملازم ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب دیدار بخش، پوسٹ ماسٹر ناگپور پوسٹ آفس کی زبانی سنا ہے کہ بابورام سنگھ نامی ایک سرکاری ملازم تھے۔ ان کے خلاف کوئی سرکاری جرم عائد ہوا اور مقدمہ دائر کردیاگیا۔ انہوں نے بری ہونے کی ہرتدبیر کی اور جب مایوس ہوگئے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر گریہ وزاری کی۔ آپ نے فرمایا’’چلاجا، کیا ہوتاہے، بری ہوجائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ شخص خوشی خوشی واپس آگیا۔ مقررہ تاریخ کو عدالت میں حاضر ہوا اور طلبی پرعدالت میں پیش ہوا۔ فریقِ مخالف کی طرف سے وکیل بھی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک اجنبی بیرسٹر عدالت میں آئے اور کہا’’میں بیرسٹر ہوں اورفلاں شہر میں رہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کوئی دوردراز شہر کانام بتایا اورکہا کہ میں رام سنگھ کی طرف سے اس کے مقدمے کی پیروی کروں گا۔
مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔ بحث کے دوران بیرسٹر صاحب نے کوئی قانونی نکتہ اٹھایا جس کا فریقِ مخالف کوئی جواب نہ دے سکا اور معذرت کے ساتھ بیرسٹر صاحب کی بحث اوراعتراض کو معقول قراردیا۔ اس پر بیرسٹر صاحب نے کہا کہ گزشتہ تمام کاروائی بے ضابطہ تھی اور مقدمے کی روئداد سے ملزم قطعی بےگناہ ثابت ہوتاہے۔ لہٰذا ملزم کو آج ہی کیوں نہ بری کیا جائے؟
عدالت نے بیرسٹر صاحب کی تجویز منظور کی اور ملزم کو اسی وقت بری کرکے مقدمہ خارج کردیا۔ بیرسٹرصاحب عدالت سے روانہ ہوئے تو رام سنگھ بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چلا۔ تھوڑی دور جاکر رام سنگھ نے بیرسٹرصاحب کے سامنے آکر عرض کیا۔ ’’سرکار!یہ نکتہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ میرے بلائے بغیر اس مقدمے کی پیروی کے لئے کیسے آگئے؟‘‘
بیرسٹر صاحب نے فرمایا۔‘‘تجھے کیا ضرورت ہے۔ آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے؟ جس سے تونے مقدمے میں مدد طلب کی ہے، اسی نے مجھے پیروی کے لئے بھیجا ہے۔ اب تو اپنے گھر جا، ہم اپنے گھر جاتے ہیں۔’’
[از: سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوریؒ – مصنف : سہیل احمد عظیمی صفحہ 52-53][/box]
تحریر : سید نوشاد کاظمی

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ
مغلیہ سلطنت کا حکمران بادشاہ جلال الدین اکبر وسیع و عریض سلطنت، مضبوط ترین فوج اور بےپناہ شاہی دبدبے کے باوجود شدید احساس محرومی میں مبتلا تھا، مغل بادشاہ اکبر کے ہاں یکے بعد دیگرے کئی بیٹے پیدا ہوئے لیکن وہ چند دن یا زیادہ سے زیادہ چند سال ہی زندہ رہ پائے ۔
اس فوج، اس سلطنت اور اس تخت و تاج کا میرے بعد وارث کون ہوگا؟۔ اولاد اور وارث سے محرومی کا یہ دکھ اس عظیم سلطنت کے طاقت ور ترین فرمانروا کو اندر ہی اندر سے کمزور کیے جارہا تھا۔ شہنشاہ اکبر کو اپنی زندگی بےکیف اور بےمقصد دکھائی دینے لگی تھی۔ انہی دنوں اس نے ایک درویش سلیم چشتیؒ کا ذکر سنا۔ یہ درویش اکبر کے دارالحکومت آگرہ کے قریب ایک علاقے فتح پورسیکری میں رہتے تھے۔
بادشاہ جلال الدین اکبر نے اس درویش سے مل کر اپنی دلی آرزو بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے مصاحبین نے کہا کہ بادشاہ کا ایک فقیر کے پاس جانا مناسب نہیں۔ فقیر کو دربار میں طلب کرلیا جائے…. لیکن بادشاہ کو یہ مناسب نہ لگا۔ اور آخر کار ایک دن مغل سلطنت کا طاقت ور بادشاہ اکبر سوالی بن کر ایک درویش شیخ سلیم چشتی کی بارگاہ میں سرجھکائے حاضر ہوا۔ شیخ سلیم چشتی نے اکبر بادشاہ کی بات سنی اور اس کو اولاد اور وارث کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ اب اسے سلطان الہند کے دربار میں حاضری دینی چاہیے ۔
‘‘سلطان الہند کا دربار….؟ لیکن ہندوستان کا بادشاہ تو میں ہوں….’’ اکبر نے حیرانی سے کہا۔
‘‘ آپ کی بادشاہت ہندوستان کی سرزمین پر ہے۔ یہ دنیاوی اور عارضی حکمرانی ہے۔ سرزمین ہند کی روحانی اور مستقل حکمرانی کا تاج تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ایک غلام حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سر پر سجا دیاہے۔’’
شیخ سلیم چشتی کے فرمان پر لبیک کہنا اکبر بادشاہ نے اپنا فرض جانا۔ آگرہ میں چند روز رہنے کے بعد اکبر بادشاہ نے اجمیرکوچ کا فرمان جاری کیا۔ دربار کے بعض لوگ نہیں چاہتے تھے کہ سلطنت کا فرمانروا ایک ولی اللہ کے مزار پر جائے۔لیکن بادشاہ نے ایسے تمام مشورے رد کر دیےاور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے اظہار عقیدت میں آگرہ سے اجمیر 120 کوس (تقریباً400 کلومیٹر) فاصلہ سواری کے بجائے پیدل طے کیا۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے دربار میں حاضر ہو کر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے کافی دیر تک گریہ و زاری کی۔
اکبر بادشاہ اجمیر سے واپس آگرہ آگیا اور چند دنوں بعد حضرت شیخ سلیم چشتی کے دربار میں حاضرہوا۔
شیخ سلیم چشتی کی دعاؤں کا اثر یہ ہوا، اکبر بادشاہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، اکبر بادشاہ نے حضرت شیخ سلیم چشتی کے نام پراپنے فرزند کا نام سلیم رکھا، لیکن حضرت سلیم چشتی سے عقیدت اور احترام میں اپنے بیٹے کو کبھی سلیم کہہ کر نہیں پکارا بلکہ اس کا لقب شیخو رکھا۔ تاریخ شہزادہ سلیم بن اکبر کو شہنشاہ جہانگیر کے نام سے جانتی ہے۔
بندے کا سر اگر سچے دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے مستجاب الدعوات بنا دیتے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھی ایسی ہی عظیم المرتبہ ہستیوں میں شامل ہیں۔ آپ کے آستانے پر دنیا کے کونے کونے سے لوگ کھنچے آتے ہیں۔ اس آستانے کی چوکھٹ پر آنا عام و خاص، امیر و غریب اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں آکر بڑے بڑے شہنشاہوں کی پیشانیاں خم ہوئیں ، کبھی اس مقام پر شاہان وقت ننگے پیر آیا کرتے تھے، تو آج جمہوری ملکوں کے حکمراں یہاں کے گرد و غبار کو اپنی آنکھوں میں سرمہ کی جگہ لگاتے ہیں۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سے عقیدت و محبت اور ان کے آستانے کی جاروب کشی سلاطین ہند کا شیوہ رہا ہے۔ ہر زمانے میں یہ خیال عام رہا ہے کہ ظاہری سلطنت کسی کی بھی ہو، باطنی سلطنت اس ملک میں خواجہ غریب نواز کی ہی چلتی ہے۔ اصل سلطان الہند آپ ہی ہیں۔
سلطان شہاب الددین محمد غوری پہلا مسلم حکمراں تھا، جس نے دہلی اور اجمیر کو فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ کئی حملوں کے بعد اسے یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ لہٰذا یہ کامیابی اس کے لیے بے حد اہم تھی۔ سلطان غوری کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ بار بار ہندوستان پر حملے کرتا تھا اور ہر بار اسے ناکامی ہاتھ لگتی تھی۔ دہلی و اجمیر کے حکمراں پر تھوری راج چوہان و دیگر راجگان ہند کی فوجیں ہمیشہ اس پر بھاری پڑتی تھیں۔ ہندوستان کو فتح کرنا اس کا خواب تھا، مگر ہزاروں فوجیوں کی جانیں اور لاکھوں روپے برباد کرنے کے بعد بھی اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا تھا۔ اس دوران اس نے خواب میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو دیکھا، جو اس سے کہہ رہے تھے ، اے شہاب الدین محمد غوری ہندوستان تیزا انتظار کر رہا ہے، چل تیار ہوجا۔ اس بار کامیابی تیرے قدم چومے گی۔
نیند سے بیدار ہوکر اس نے اپنے سپہ سالاروں کو بلایا اور تیاری کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ ایک طرف راجاؤں کی تین لاکھ سے زیادہ فوجیں ہر قسم کے ساز و سامان اور اسلحوں سے لیس تھیں، جن کا مشترکہ لیڈر پرتھوی راج چوہان تھا، تو دوسری طرف سلطان شہاب الدین محمد غوری کی تقریباً ایک لاکھ فوج تھی۔ ترائن کے میدان دونوں لشکروں کی زبردست جنگ کے بعد سلطان کو فتح نصیب ہوئی اور دہلی میں پہلی مسلم حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس جیت کے لیے سلطان غوری خواجہ معین الدین چشتی کا ممنون احسان تھا۔ محمود غوری نے فتح اجمیر کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کے ارادت مندوں میں شامل ہوا۔
اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ تقریباً آٹھ سو سال سے مرجع خلائق ہے۔ آپ کے دست حق پر لاکھوں بندگان خدا نے اسلام قبول کیا اور روزانہ ہزار ہا افراد آپ کی درگاہ پر دور دراز سے آ کر ر وحانی برکات و فیوض سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ وہ درگاہ شریف ہے جہاں ہندوستان کے فرمانروں سلطان محمد تغلق، سلطان شمس الدین التمش، احمد شاہ ابدالی ، شہاب الدین غوری، شیر شاہ سوری، قطب الدین ایبک، علاؤالدین خلجی، امیر تیمو، ٖ غیاث الدین تغلق، نادر شاہ ، مغل شہنشاہ بابر، ہمایوں، جلال الدین اکبر (1562ء میں )، نور الدین جہانگیر(1613ء میں )، شاہجہاں(1628ء میں )، داراشکوہ اور اورنگزیب (1659ء میں )، بہادر شاہ طفر (1708ء میں ) حاضری کے لیے آتے رہے ہیں ۔
جب پاک و ہند کی تاریخ کا ماڈرن دور شروع ہوا، اور انگریز ہندوستان میں داخل ہوئے تب بھی بڑے بڑے فرماں روا اپنی سلطنت کی شان و سطونت کو بالائے طاق رکھ کر سلطان الہند کی چوکھٹ پر نظر آئے۔ جہانگیر نے 1615ءمیں انگلینڈ کے بادشاہ جیمز اول کے سفارتکار تھامس کی سفارتی دستاویزات یہیں قبول کی تھیں۔
جب ہندوستان انگریزوں کے ماتحت تھا، تو وائسرائے ملک کا سب سے اونچا عہدہ تھا۔ وائسرائے ہند لارڈ کرزن 1902میں اجمیر شریف درگاہ خواجہ پر آیا۔ وہ پہلے بھی آپ کے بارے میں بہت کچھ سن اور پڑھ چکا تھا، مگر یہاں پہنچ کر اس نے جو منظر دیکھا، وہ اس کے لیے حیرت انگیز تھا ۔ اس نے دیکھا کہ یہاں بلاتفریق مذہب و ملت بڑی تعداد میں لوگ حاضر ہورہے ہیں۔ ان کے اندر اتفاق و یگانگت ہے۔ اس ملک میں جہاں تفرقے ہیں اور ذات کے نام پر چھوت چھات ہے، وہیں درگاہ کے اندر ایک ہی صف میں محمود و ایاز نظر آرہے ہیں۔ اس منظر نے اسے بےحد متاثر کیا اور بعد میں اس نے اپنی کتاب میں لکھا :
The personality of the Great Khwaja was a standard of greatness and excellence, to-day his shrine caries the same standard. It is an undeniable fact that in India his Shrine virtually rules. – Lord Curzon
‘‘عظیم خواجہ کی شخصیت، عظمت اور بزرگی کا ایک معیار ہے، آج ان کا مزار یہی معیار اپنائے رکھے ہے، بلاشبہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں عملی طور پر ایک قبر حکومت کر رہی ہے’’ [لارڈ کرزن]
1911ء میں انگلینڈ کے شہنشاہ جارج پنجم نے اپنی ملکہ میری کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ یہ سیاسی دورہ بےحد مصروف تھا، مگر شہنشاہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ سلطان الہند کی چوکھٹ پر حاضری دی جائے، چنانچہ جارج پنجم اپنی ملکہ کے ساتھ حاضر آستانہ ہوا۔
ہندوستان کے لیڈر مہاتما گاندھی بھی تحریک آزادی کے دوران خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر حاضر ہوئے۔ گاندھی خواجہ صاحب کی تعلیمات سے متاثر تھے، حاضری کے دوران کہنے لگے کہ ‘‘خواجہ غریب نواز کی تعلیمات دنیا کے لیے عظیم مینار و نور ہیں، جو ہمیں منزل کا پتہ دیتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور پرسکون و بامقصد زندگی گزاریں۔’’ ہند کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی تحریک آزادی کے دوران 1945ء میں اجمیر شریف حاضری دینے آئے۔ اور ملک کی آزادی کے لیے دعا مانگی۔ جب 1947ء میں انگریز ہندوستان چھوڑ گئے تو بطور شکریہ اسی سال اگست میں اجمیر پہنچے۔
ہندوستان میں ایک پرانا دستور چلا آرہا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور صدر کی طرف سے خواجہ غریب نواز کے آستانے کے لیے ہر سال چادریں بھیجی جاتی ہیں۔ اسی کے ساتھ حکمران بھی غریب نواز کے در پر حاضری باعث خوش قسمتی تصور کرتے ہیں، جن اہم شخصیات نے یہاں حاضری دی ہیں، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ ہندوستان کے اولین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد، دیگر صدور میں وی وینکٹ رمن، ڈاکٹر رادھا کرشنن، شنکر دیال شرما، فخرالدین علی احمد، ڈاکٹر ذاکر حسین، ابوالکلام آزاد، منموہن سنگھ ، وزیر اعظم انڈیا میں جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اندرکمار گجرال، دیواگوڈ ا، سونیا گاندھی، نریندر مودی، نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، نائب صدر حامدانصاری، معروف لیڈروں میں راج گوپال اچاریہ ، وزیر اعلیٰ دہلی شہلا دکشت اور سابق وزیر اعلیٰ راجستھان وسندھرا راجے سندھیا۔ یہاں صرف چند ناموں پر اکتفا کیا گیا ہے ورنہ فہرست بہت لمبی ہے۔
غریب نواز کے آستانے پر پاکستانی حکمران بھی عقیدت کے ساتھ حاضری دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کے بابائے قوم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران یہاں حاضری دی۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو، میر ظفر اللہ جمالی اور دیگر ارباب اقتدار بھی یہاں جبیں سائی کے لیے آتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے تاثرات کے رجسٹر پر تحریر کیا۔ ‘‘اللہ خدام کی خدمت قبول فرمائے (آمین)۔’’
1907ء میں افغانستان کا بادشاہ امیر حبیب اللہ خاں، حضرت غریب نواز کے آستانے پر حاضر ہوا۔ وزیراعظم ملیشیاء تنکو عبد الرحمٰن نے 1962ء میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی بارگاہ میں عقیدت کے ساتھ حاضری دی۔ وہ عقیدت کے جذبات سے سرشار نظر آرہے تھے۔ انہوں نے میڈیا کےسامنے اعتراف کیا کہ 1958ء کے عام انتخابات میں وہ پریشان اور فکر مند تھے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ غریب نواز کو خواب میں دیکھا اور ان کی مشکلیں آسان ہوتی چلی گئیں۔ انہوں نے آستانہ غریب نواز پر حاضر ہو کر کہا کہ ‘‘یہاں کی حاضری کا دن میرے لیے یادگار دن ہے۔ میری دلی مراد برآئی ہے۔’’
دیگر حکمران و سیاسی لیڈروں میں شاہ نیپال بریندرا، وزیراعظم ایران حسین موسوی، وزیر اعظم سری لنکا راناسنگھ پریمداس، صدر ماریشس قاسم اثیم، بنگلا دیش کے صدر جنرل ارشاد، وزیراعظم چوہدی منہاج الدین اور بیگم خالدہ ضیاء، شیخ حسینہ واجد، مہاراجہ گوبند سنگھ، مہاراجہ کشمیر کرن سنگھ شامل ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی سلطان الہند کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چادر بھجوائی۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ ہمیشہ سے عقیدت کا مرکز رہا ہے۔ اگر ایک طرف سلاطین و حکمرانوں نےا س چوکھٹ پر سر نیاز خم کیا ہے، تو دوسری طرف اولیاء، علماء اور حکماء خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر حاضری دینے آتے رہے ہیں۔ ایسے بزرگوں کی فہرست بہت طویل ہے، جن کی حاضریاں آستانہ غریب نواز پر رہی ہیں۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی سلطان الہند کے چہیتے مرید تھے، جس قدر آپ کو فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع ملا، کسی اور کو نہیں ملا۔ خواجہ قطب الدین کے بعد سب سے زیادہ صوفی حمید الدین ناگوری کو خواجہ غریب نواز کے فیض صحبت کا موقع ملا۔ آپ برسوں خدمت میں رہے، بابا فرید گنج شکر نے دہلی میں خواجہ غریب نواز سے ملاقات کی تھی۔ مولانا فخر الدین زراوی جو حضرت نظام الدین اولیاء کے خلفاء میں سے تھے بار بار غریب نواز کی بارگاہ میں حاضری کے لیے آیا کرتے تھے۔ شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر ، حضرت شیخ سلیم چشتی، حضرت شیخ بدیع الدین شاہ مدار ، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ، امیر ابو العلا نقشبندی، فخر الدین دہلوی، پیر وارث علی شاہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی، خواجہ حسن نظامی، یعقوب ناناتوی، علامہ اقبال، محمد علی جوہر، صبغت اللہ فرنگی محلی وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت خواجہ معین الددین چشتی دنیا کے ان چند نامور صوفیاء میں سے ہیں، جنہوں نے تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں اسلام کو فروغ ہوا اور آپ کے بعد بھی آپ کے نقش قدم کو اپنانے والوں نے آپ کے مشن کو جاری رکھا۔
آپ کی تعلیمات مختلف کتابوں میں ملتی ہیں، مگر دلیل العارفین آپ کی مجالس میں کہنے جانے والے ملفوظات کا مجموعہ ہے، جس کے مرتب آپ کے مرید حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہیں۔
‘‘دلیل العارفین’’ کی ابتداء نماز کی فضیلت سے ہوتی ہے۔ اس کے بغیر روحانیت کا تصور بھی ممکن نہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی ارشاد فرماتے ہیں۔ ‘‘نماز سے لوگ اللہ کے نزدیک ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ نماز مومن کی معراج ہے، حدیث میں آیا ہے کہ الصلوٰۃ معراج المومن۔ تمام مقام سے بڑھ کر نماز ہے اور اللہ تعالیٰ سے قرب نماز کی بدولت ہی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: نماز ایک راز ہے، جو بندہ خالق سے بیان کرتا ہے، قرب وہی پاسکتا ہے، جو راز کے قابل ہو۔ نماز کے بغیر یہ راز حاصل نہیں ہوتا۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں تصوف، عرفان خداوندی کے راستے کو کہتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے والے اپنے پیدا کرنےو الے مالک کا عرفان حاصل کرتے ہیں۔ [دلیل العارفین : مجلس 1]
حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں: ‘‘شریعت پر چلنے والے ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور تمام فرمان بجا لاتے ہیں۔ جب طریقت میں کامل ہوجاتے ہیں، تو معرفت کوپہنچتے ہیں اور شناخت و شناسائی کا مقام آجاتا ہے۔ جب اس مقام میں ثابت قدم ہوجاتے ہیں، تو درجہ حقیقت کو پہنچ جاتے ہیں۔ [دلیل العارفین :مجلس 2]
خواجہ غریب نواز خدمت خلق پر خاص طور پر زور دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ‘‘عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔’’
[دلیل العارفین :مجلس 6]
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: ‘‘جس مومن میں یہ تین خصلتیں ہوں خدائے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول سخاوت دریا کی طرح، دوسرے شفقت آفتاب کی طرح، تیسرے تواضع زمین کی طرح۔ فرمایا جس کسی نے نعمت پائی، سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے، صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی محفل میں ایک موقع پر اچھی بری صحبت کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ‘‘نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔ [دلیل العارفین :مجلس 10]
حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ‘‘میں نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے سنا ہے کہ قیامت کے دن نماز کا حساب ہوگا، پس جو نماز سے عہدہ برآمد ہوگا، خوشی پائے گا، جو اس کے جواب سے قاصر رے گا، عذاب دوزخ میں مبتلا ہوگا۔’’ آپ نے فرمایا کہ: ‘‘نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے، پس جب ستون قائم ہوگیا، تو مکان بھی قائم ہوگا۔ جب ستون نکل گیا، تو چھت گر پڑے گی، کیونکہ اسلام اور دین کے لیے نماز بمنزلہ ستون ہے۔
برصغیر میں دینِ اسلام کی روشنی پھیلانے، توحیدِ باری تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا پیغام انسانوں تک پہنچانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درخشاں خدمات آنے والی سب نسلوں کے لیے روشن مثال ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس زمانے میں جبکہ آبادی بہت کم تھی ایک لاکھ سے زیادہ افراد خواجہ غریب نوازؒ کی تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جن لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان میں سے بے شمار کے دل بھی غریب نواز ؒ کی عقیدت سے لبریز ہونے لگے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف میں آرام فرما ہیں اور وہاں فیضِ عام کا لنگر جاری ہے۔ آج بھی اگر کوئی شکم سیری کی نیت سے جاتا ہے تو اسے پیٹ بھر کے کھانا ملتا ہے، صبح شام لنگر جاری ہے شہر کے سارے مساکین، غربا و فقرا کھاتے ہیں اور کھانا پھر بھی بچا رہتا ہے۔ یہ ہے اللہ کے دوستوں کا تصرف۔ کسی کو اطمینان و سکون کی تلاش ہوتی ہے تو حاضر ہوتے ہی کسی دستِ شفقت کا سایہ پاتا ہے…. اولیاء اللہ کے مزارات پر ہر وقت رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ جو وہاں جاتا ہے اطمینان ِ دلی سے فیض یاب ہوتا ہے۔
جب رجب المرجب کا چاند چڑھتا ہے اور خواجہ کے عرس کا دن آتا ہے تو بہاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دنیا کے کونے کونے سے عقیدت مند سوئے اجمیر چل پڑتے ہیں۔ ان میں عام لوگ بھی ہوتے ہیں، اولیاء اللہ بھی، امیر بھی ، غریب بھی، مسلمان بھی، ہندو بھی، سکھ بھی، عیسائی بھی کیونکہ خواجہ سب کے خواجہ ہیں۔ ان کے احسانات سب پر ہیں،لوگ آج بھی خواجہ ٔ بزرگ کے مزار پر چلے کاٹتے ہیں اور روحانی انعامات سے نوازے جاتے ہیں۔ آٹھ سو سال گزر گئے ہیں یہ فیض جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ۔

ابن عربی – ایک حیرت انگیز روحانی شخصیت
روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء سے انتخاب….
[box type=”info” align=”” class=”” width=””]شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی ایک ایسے منفرد مصنف تھے انہوں نے 75 برس کی عمر پائی۔ بطور مصنف 46 برس میں 800 سے زیادہ ضخیم کتابیں تصنیف کیں، آپ کی صرف ایک کتاب فتوحاتِ مکیہ کے صفحات کی تعداد تقریباً 15 ہزار تھی ، اس دوران آپ نے اندلس سے شمالی افریقہ ، مصر، عرب، شام، عراق ، یروشلم ، ترکی تک سفر بھی کیے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ایک دن میں سو سے زاید صفحات لکھتے ہوں گے۔[/box]
ابن عربی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ہے ۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت اور عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق ہیں ۔ عالم اسلام کے چند اہم دانشوران، مفکرین فلسفیوں اور صوفیاء میں سے ایک شیخ ِاکبر ابن عربی ہیں۔
تقریباً 800 کتابوں کے مصنف ابن عربی کو صوفیاء نے ‘‘شیخ الاکبر ’’ کا لقب دے رکھا ہے اور آج تک یہ لقب کسی اور کو نہیں مل سکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا کیونکہ آپ سے ایک صدی قبل ابن العربی کے نام سے ایک علمی شخصیت امام غزالی کے شاگرد قاضی ابو بکر ابن العربی اشبلیہ ہسپانیہ میں مشہور رہے ہیں۔ دونوں شخصیات میں تمیز کرنے کی خاطر انہیں ابن العربی اور آپ کو ابنِ عربی لکھا جاتا ہے۔ آپ کو ابن العربی صرف آپ کے لقب محی الدین کے ساتھ ہی لکھا ۔
ابن عربی کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد ابن عربی الاندلسی الحاتمی الطائی ہے۔ آپ حاتم طائی کی نسل سے تھے جو اپنی سخاوت کے باعث نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا میں آج تک مشہور و معروف ہیں۔ بنی طے ایک قبیلہ تھا، حاتم اس قبیلے کا ایک سردار تھا جس کے دروازے سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا تھا۔ ویسے بھی عربوں میں مہمان نوازی بہت مشہور ہے۔ ان روایات کو عرب جہاں بھی گئے اپنے ساتھ لے گئے۔ حاتم طائی کی اولاد میں سے ایک صوفی منش گھرانے نے اندلس میں آکر رہائش اختیار کر لی تھی ۔
ابن عربی کے دادا محمد اندلس کے قضاۃ اور علما میں سے تھے۔ ابن عربی کے والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں میں سے تھے۔ والدہ انصار سے تعلق رکھتی تھیں ، ابن عربی کے ماموں شیخ یحییٰ بن یغان اور ابو مسلم الخولانی دمشق کے ایک مشہور ولی اللہ تھے، ابن عربی کا صوفی منش گھرانہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔
کتابِِ مناقبِ غوثیہ میں شیخ محمد صادق شیبانی قادری لکھتے ہیں کہ ابن عربی کے والد علی بن محمد لاولد تھے۔ حتّٰی کہ ان کی عمر پچاس سال کی ہوگئی۔ وہ حضرت غوث اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ حضرت غوث نے حضورِ حق میں دعا فرمائی اور پھر بشارت دی کہ تیرے گھر ایک بچہ پیدا ہوگا، اس کا نام محمد اور لقب محی الدین رکھنا ہے۔ یہ بچّہ درجۂ عظیم اور رتبۂ عالی پائے گا۔
ابن عربی 17رمضان المبارک 560ھ ( بمطابق 1165ء)میں اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا اور کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی ۔ ابن عربی کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے عام بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ۔
ابن عربی کی ابتدائی تعلیم حسب دستور گھر پر اور دیگر مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ تصوف، فقہ اور دیگر مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرنے لگا۔ اشبیلیہ میں آپ 598ھ تک رہے۔ اس دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور کئی علوم مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت میں دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔
ادب، تاریخ، شاعری اور بعض دیگر علوم وفنون کا اکتساب ابوبکر محمد بن خلف بن صافی لخمی، ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن غالب شراط قرطبی، ابوبکر محمد بن احمد بن ابی حمزہ سے کیا۔ حدیث اور دیگر دینی علوم کی تعلیم ابن زرقون انصاری، ابوحافظ ابن جد، ابوالولید حضرمی اور عبدالمنعم خزرجی وغیرہ سے حاصل کی۔ ابومحمد عبدالحق اشبیلی کے حلقۂ درس میں ایک عرصے تک شامل رہے۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔
ابن عربی بچپن ہی سے نیک اور صادق القول تھے اور بہت ذہین بھی تھے۔ ان کی ذہانت کا چرچا جلد ہی دور دور تک پھیل گیا تھا اور لوگ اکثر ان کو ملنے آنے لگے تھے۔
ابن عربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابن رشد نے ابن عربی کے والد جو ان کے دوست بھی تھےسے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ ابن شد ، ابن عربی سے مل کر بہت متاثر ہوئے۔
ابتدائی عمر میں ابن عربی کا رجحان تصوف وتزکیہ کی جانب نہیں تھا۔ لیکن اس درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی پوری زندگی کوبدل دیا۔
آپ کے والد وزیر ریاست تھے اور آپ کے خاندان کا شمار ملک کے باوقار لوگوں میں ہوتا تھا ۔ اندلس کے صوبہ اشبیلہ کے حاکم کے یہاں شیخ ابن عربی کا اپنے والد کے ساتھ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد آپ پہلے پہل ڈیڑھ دو سال کا عرصہ سرکاری ملازمت میں بطور فوجی (الجندی) اور پھر کاتب (سیکرٹری) کے عہدے پر فائز ہوئے ، جو دیوان سلطنت کا اہم عہدہ تھا ۔
ابھی نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہی ہوئے تھے جس وقت آپ کی عمر بیس برس کی تھی آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں لے کر پینا چاہ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کی آواز ان کو سنائی دیتی ہے ۔
‘‘نوجوان ….! تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں ہے۔ ’’ اس واقعہ کے بعد ابن عربی نے جام ہاتھ سے پھینک دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل آئے ۔ دورازے پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا وہ بکریاں لیے چلا جارہا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر جاکر اپنا شاہانہ لباس اس چرواہے کو دیا اور اس کے بوسیدہ کپڑے پہن کر کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومتے رہے۔ دن اور رات ذکر الہٰی میں مصروف ہو گئے ، اس دوران ان کے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ اپنی صوفی منش طبیعت کے ہوتے شاہی ماحول سے آپ کا دل اچاٹ ہونے لگا تو آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور زہد و فقر کو اپناشعار بنایا۔
آپ کے مرشد شیخ یوسف نے آپ کی سمت نمائی میں اہم کردار ادا کیا۔
تصوف میں اندلس کے بزگوں اور صوفیوں سے علم حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہواہے کہ انہیں مزید علم کی ضرورت ہے چنانچہ ابن عربی نے حصولِ علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے، کئی علاقوں میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا۔
ابن عربی نے 590ھ ( 1194ء)میں پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ وہ اندلس سے نکل کرمیں شمالی افریقہ پہنچتے ہیں۔ یہاں آپ کو ایسے صوفیا کی صحبت میسر آئی جنہوں نے آپ کی روحانی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی نامی صوفی کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا ، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔
شمالی افریقہ میں شیخ ابن عربی نے ایک خانقاہ قائم کی ۔ دو سال کے عرصے میں وہاں ان کا ایک بڑا حلقہ بن گیا۔
اندلس کے ساتھ آپ کا رابطہ بحال تھا کیونکہ آپ کے والدین، قریبی عزیز و اقارب وہاں مستقل رہائش پذیر تھے۔ ابن عربی کو جلد ہی اندلس لوٹنا پڑا ، جس کا سبب آپ کے والد کی وفات تھی۔ اندلس واپسی کے راستے میں ابن عربی مریہ کے مقام پر ، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لئے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا پہنچے ، یہاں آپ نے اپنی کتاب مواقع النجوم صرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔ یہاں سے آپ آبائی وطن مرسیہ پہنچے ۔ وہاں والد کی جائیداد کو فروخت کرکے آپ اشبلیہ پہنچے اور چند برس گھروالوں کے ساتھ رہے۔
آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی ہرطرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ فاس (مراکش ) آگئے اور وہیں اپنی بہنوں کی شادی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔ اور اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔ چند سال کے بعد ابن عربی کی والدہ بھی واصل بحق ہوگئی۔
اس کے بعد اپنی دیرینہ خواہش مکہ مکرمہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے ۔ والدہ اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس خواہش کو ملتوی کرتے رہے تھے ۔ 596ھ (1199 ء) میں ابن عربی نے اندلس سےمکہ مکرمہ کا سفر کیا وہ براستہ بجایہ(الجزائر)، تیونس، مصر، القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے اور تقریباً دو سال وہاں قیام کیا ۔اس دوران وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ ابن عربی کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتابیں ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ انہوں نے ایک معرکۃ الآراء کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی۔ یہ تصنیف آپ نے 599ھ میں لکھنا شروع کی۔ جس کی تکمیل28 برس بعد 627ھ میں ہوئی۔ یہ کتاب 37 جلدوں ، 560 ابواب پر مشتمل ہے۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی 973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ اس خلاصہ کا خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر بھی ہوا۔
ابن عربیؒ نے اپنی مختصرزندگی میں آٹھ سو سے زائد کتابیں لکھ ڈالیں…. اس دوران آپ نے حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفر در سفر تلاش حق،ریاضت اور تبلیغ میں وقت گزارا۔
اس دور میں ذرائع ابلاغ بہت محدودہوتے تھے اور سفردشوارگزار تھے،ان کٹھن مسافتوں میں بھی ان کا پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض جگہ آپ کی کتابوں کی تعداد 651 دی گئی ہے ، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتابوں کے عنوان درج کئے گئے ہیں۔
آج ابنِ عربیؒ کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کتابوں بھی چندصفحات پرمشتمل کتابچے یاپھررسالے کی طرح نہیں تھیں صرف ایک الفتوحات المکیہ کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ سفر یا حضر میں بھی تصنیف و تالیف کا کام جاری رہتا ۔ ﷽ابن عربی ، عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ جو بات نثر میں بھی لکھنا محال ہو اس کو نظم میں بےتکلف بیان کردیتے تھے۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’ بھی ہیں ۔
مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں ۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے۔
شیخ اکبر نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لےتو اس میں بےپناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ خوابوں کے ضمن میں ان کے کئے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ خود لکھتے میں لکھتے ہیں:
ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوگیا ۔ زندگی کی امید نہ رہی۔ لوگ میری شدید بے ہوشی دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے۔ انہیں محسوس ہوا کہ میں دارِفانی سے رخصت ہوچکا ہوں۔ میں نے اسی حالت میں خواب دیکھا کہ کچھ وحشت ناک چہرے والے میرے قریب آکر مجھے اذیت دینا چاہ رہے ہیں۔ قریب ہی ایک حسین وجمیل، عطر بیز شخص مجھے ان کے نرغے سے بچارہا ہے۔ بالآخر اس کے آگے وحشت ناک چہرے والے ماند پڑگئے اور مغلوب ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ والد گرامی سرہانے بیٹھے سوگوار آنکھوں اور اشک بار پلکوں کے ساتھ سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہے ہیں۔ میں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا، سب عرض کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میری صحت وعافیت والد کی دعاؤں اور سورۂ یٰسین کی برکتکانتیجہ ہے۔
ابن عربی کی زوجہ مریم بنتِ محمد بن عبدون اندلس کے ایک امیر کی بیٹی تھی ۔ وہ ایک متقّی خاتون تھی، انہوں نے روحانیت کے کئی مدارج ابن عربی کی ہمراہی میں طے کئے، انہوں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا ، جسے انہوں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ، اس شخص نے پوچھا کہ کیا آپ الطریق (تصوف)پر چلنے کی خواہش مند ہیں ۔ آپ نے کہا : اللہ کی قسم میں ایسا کرنا چاہتی ہوں ، مگر نہیں جانتی کہ اسے کیسے اختیار کروں۔ اس شخص نے جواب دیا: پانچ باتوں سے: توکل، یقین، صبر، عزیمت اور صدق کے ساتھ ۔
ابن عربی نے اپنی اہلیہ کے خواب کو سن کر تصدیق کی کہ یہی صوفیاکا راستہ ہے۔
ابن عربی601ھ میں مکہ سے روانہ ہو کر بغداد، موصل (عراق)، یروشلم اور دوسرے شہروں میں سفر کیا۔ دمشق میں ان کی ملاقات سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے ہوئی ، جس نے آپ کی بہت قدر کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نواسے امیر حلب عبد العزیز کے یہاں بھی آپ کی بہت قدر ومنزلت ہوئی ۔
604ھ میں آپ ایک مرتبہ مکہ میں وارد ہوئے اور ایک سال تک وہاں پر قیام کیا ۔ اس کے بعد آپ ایشیاءکوچک چلے گئے ، جہاں سے607ھ میں قونیہ پہنچے ۔ قونیہ اس وقت سلجوق سلطنت کی راجدھانی تھی اور ایک عظیم شہر تھا۔ یہاں پر سلطان کیکاؤس نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا ۔
قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے بزرگوں میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی۔
صدرالدین کی ظاہری و باطنی تربیت ابن عربی نے کی۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر اور تمام علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کی علمی استعداد کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانہ میں صدرالدین نے فتوحات مکیہ کا درس شروع کیا تو درس میں حاضر ہونے والے نوجوانوں میں حضرت مولانا جلال الدین رومی جیسا ہونہار طالب علم بھی موجود تھا ، جن کی شہرہ عالم تصنیف ‘‘مثنوی روم’’ لازوال شہرت کی حامل ہے ۔
سلجوق سلطان علاءالدین کیقباد آپ کے مریدوں میں تھے اور بہت عزت کرتے تھے ۔
[box type=”info” align=”” class=”” width=””]
ابن عربی اور اطغرل
کیا ابن عربی اور ارطغرل کی ملاقات ہوئی تھی….؟
ابن عربی نے قونیہ میں بھی قیام کیا۔ سلجوق سلطان علاء الدین ابن عربی کا معتقد تھا۔
اسی دور میں انا طولیہ کی سرزمین پر ترکوں کے ایک قبیلے کائی کا سردار ارطغرل (جس کے تیسرے بیٹے عثمان نے خلافت عثمانیہ قائم کی) اپنے قبیلے کے لیے ایک محفوظ اور معاشی لحاظ سے فائدہ مند مقام پر مستقل قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا۔ ابن عربی کا سال وفات 1240 اور عثمان کے والد ارطغرل کا سال وفات 1280 ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ ممکن ہے کہ ابن عربی اور ارطغرل کے درمیان ملاقاتیں رہی ہوں اور اطغرل نے ابنعربی سے رہنمائی اور ان کی دعائیں لی ہوں۔
[/box]
1210 کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس میں شیخ ابن عربی قونیہ اور ایشیاء کوچک میں تصوف کی فکر وفلسفہ کو عام کررہے تھے ۔ اس دوران شیخ ابن عربی کا دمشق ،حلب ، موصل، بغداد ، مکہ اور یروشلم مستقل آنا جانا لگا ہوا تھا ۔
ابن عربی جس زمانے میں ایشیائے کوچک و قونیہ میں محو سفر تھے اسی زمانے میں اناطولیہ کی سرزمین پر قائی قبیلہ کا سردار ارطغرل بھی صلیبیوں اور منگولوں سے لڑرہاتھا۔ ابن عربی اور ارطغرل غازی کا زمانہ ایک ہے۔ اسی بنیاد پر ممکن ہے کہ ابن عربی اور ارطغرل کی ملاقات رہی ہو۔
اس دوران آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ ، جو حلب کا حاکم تھا ، دوستانہ تھے ۔ ایک واقعہ سے ، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حلب کا حاکم ابن عربی کی کس قدر عزت کرتا تھا ۔
620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا۔ دمشق کے قاضی القفاۃ شمس الدین احمد بھی ابن عربی کی شخصیت پر پروانہ وار جانثار تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ابن عربی سے کردی تھی۔
قیام دمشق کے دوران ابن عربی درس و تدریش اور تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ روزانہ ایک سو صفحات لکھتے تھے۔ ابن عربی کی تصنیف کردہ کئی کتابیں حوادث کی نذر ہوگئیں ۔ مندرجہ ذیل کتابیں کتب خانوں میں مل سکتی ہیں۔ فتوحات مکہ چار جلدیں، نصوص الحکم، شجرۃ الکون، مطالع انوار الہیہ، مشاہدہ اسرار، حلیہ ابدال، افاد مطالعہ جعفر، تفسیر صغیر، کتاب الاخلاق، محاضرۃ الابرار، الجلاہ امر محکم، مواقع الجنوم، المعارف الیہ عقدہ محضر، کتاب الازل، مراتب وجود، نقش القصوص، کتاب الہود، تاج الرسائل، عنقا العقرب اور کئی ایک کتب وغیرہ۔ فتوحات مکیہ اور نصوص الحکم یہ دونوں کتابیں ہر دور میں اولیاء اللہ و صوفیائے کرام کے درس و تدریس میں رہی ہیں ۔
حضرت محی الدین عربی غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
حضرت ابن عربی تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کامجاری رکھا۔
ہی ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی ۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے ۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔
شیخِ اکبر کی وفات کے تقریباً نصف صدی بعد ان کی تصانیف مشرقی ممالک میں گردش کرنے لگ گئی تھیں، عبدالوہاب شعرانی جیسے جید عالم نے ابن عربی پر ابتدا ئی کام کر کے آنے والوں کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مغربی ممالک میں ابن عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ تیرھویں صدی عیسوی میں جرمنی میں ابن عربی پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا، لیکن مغرب کے د یگر علاقوں کو یہ علمی خزانہ بہت بعد میں نظر آنا شروع ہوا،ا لبتہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین او ر مشرقی علما و حکما ابن عربی کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے اور اُ ن کی سحرانگیز شخصیت نیز افکارونظریات پر تحقیق و تنقید کے مطالعات پیش کئے۔ مغربی مفکرین نے انسان اور کائنات کے باہمی ربط ،مابعدالطبیعیاتی اور الہٰیاتی مسائل کی تعبیر و توضیح ، فلکیات ، فطری سائنس کے کئی نظریات ابن عربی کے فلسفے سے اخذ کیے۔
ابنِ عربی کے مطابق تکوینیات خدا کی پہچان کا علم ہے- کائنات خدا کی صفات کا مظہر ہے-
ابنِ عربی کا نظریہ علم مروجہ فلسفیانہ روایات سے الگ خواص کا حامل ہے-
آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا- ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- آپ کے خیال میں کوئی انسان علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-ابن عربی کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے-
ابنِ عربی اسلامی فکر کا عظیم سرمایہ ہیں،اُن کی علمی وراثت کی حفاظت اور تصنیفی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء سے انتخاب….