Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پیٖغمبر اسلام کی جانب سے حکمرانوں کو سلامتی و امن کی دعوت

مکتوباتِ نبوی

پیٖغمبر اسلام کی جانب سے حکمرانوں کو سلامتی و امن کی دعوت

 

World Peace Day 2023
21 ستمبر عالمی یومِ امن کے موقع پر خصوصی مضمون

داعی ٔ اسلام ، نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ امن اور سلامتی کی دعوت تھی۔رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ پاک کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ قیام ِامن کے لیے منظم ہونے والی تحریک میں ساتھ دیا اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اس کے دائرہ کو وسعت بھی دی۔ یہ دائرہ معاہدۂ حلف الفضول سے لے کر قیصر و کسریٰ کو دعوتِ اسلام تک وسیع ہے۔
قیامِ امن کی یہ کوششیں بعثت سے پہلے بھی تھیں اور اس وقت بھی کہ جب آپﷺ نے کافروں اور مشرکوں کے مظالم کے بعد ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ کو اپنا مسکن اور تبلیغ اسلام کا مرکز بنایا۔ اس وقت بھی یہ مشن جاری رہا جب آپﷺ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت بھی کہ جب آپ ﷺ نے حج کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا۔

امن کی پہلی تحریک :
اہلِ عرب بات بات پر تلوار میان سے باہر نکال لیتے تھے۔ مسافروں کو تحفظ فراہم نہ تھا۔ بےنواؤں اور تہی دستوں کی شنوائی نہ ہوتی تھی۔ کمزور کا کام یہ تھا کہ ظلم کے وار سہے اور ظالم کا کام یہ تھا کہ ہدف ستم چلائے ۔ نہ راستے مامون تھے نہ بستیاں محفوظ تھیں۔ قبل از بعثت آپﷺ نے مکہ کے رئیسوں اور اصحاب فہم ودانش کو اس طرف متوجہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جماعت(حلف الفضول) کا قیام عمل میں آیا۔

معاہدہ امن:
جب رسول اللہ  ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے۔ وہاں آپﷺ نے مدینے کے غیر مسلموں یعنی یہودیوں سے ایک معاہدۂ امن کیا۔ اس معاہدے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حصول امن کے لیے عقیدے اور مذہب کے اختلافات کے باوجود قول و قرار کیا جاسکتا ہے۔
اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ یہ تھی: ‘‘معاہدہ کرنے والوں کے ساتھ اگر کسی تیسرے فریق نے جنگ کی تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مدد اور تعاون کریں گے۔ شریکِ معاہدہ دونوں قوموں کے تعلقات باہمی خیر سگالی پر مبنی ہوں گے۔ مظلوم کی اعانت و امداد کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی’’۔
یہ پورا معاہدہ سیرتِ ابن ہشام میں موجود ہے۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں اس معاہدے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ حضور ﷺ نے امن کے قیام کے لیے اس معاہدہ پر ہی اکتفا نہیں فرمایا بلکہ مدینے کے اطراف میں آباد دیگر غیر مسلم قبیلوں کو بھی اس میں شریک کرنے کے لیے بہ نفسِ نفیس بواط اور ذی العشیرہ تشریف لے گئے۔

امنِ عالم کی دعوت:

سن چھ ہجری تک رسول اکرمﷺ کی زیادہ ترتوجہ اور جدوجہد اندرونِ عرب مرکوز رہی۔ مشرکینِ مکہ سے معاہدہ حدیبیہ ہونے کے بعد ہادی ٔعالمﷺ نے امن و سلامتی کے پیغامات دوسرے خطوں تک بھی بھجوائے۔ غیر مسلموں کو توحید کا پیغام پہنچانے ، انہیں اسلام کی دعوت دینے کے لیے اُس وقت کے ممتاز لوگوں کے نام پیغامات ارسال فرمائے۔
رسول اللہ  ﷺ کی تعلیمات کی بدولت عرب قوم، علمی و روحانی اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے بہت مہذب اور شائستہ بن گئی ۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آگیا تھا جس میں خدا پرستی، حقوق کی ادائی، پرہیز گاری اور نیکی و ہمدردی کے اعلیٰ اوصافِ حسنہ بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔

عالم گیر دعوتِ امن:

نامہ مبارک شاہ حبش کے نام 

خطّہ ایتھوپیا کو عربی زبان میں حبشہ کہا جاتا ہے۔ عربی میں حبش کے معنی خلط (ملا جلا) کے ہیں چونکہ یہاں کے باشندے مختلف اقوام کی نسل سے ہیں اس لیے اس کا نام حبش پڑگیا ۔ اکسوم یہاں کا دارلسلطنت تھا۔ حکمرانوں کا خاندانی لقب نجاشی تھا۔ 330ء سے یہاں مذہب نصرانیت پھیلنے لگا۔
عہدِ نبوت میں اصحمہ نجاشی بادشاہ تھا۔ حبشہ سے مسلمانوں کا پہلا رابطہ نبوت کے پانچویں سال ہوا جب مکہ کے سرداروں کے ستائے ہوئے مسلمان مہاجرین نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی، نجاشی اصحمہ بن ابجر نے سن 9ہجری میں وفات پائی۔
حضور ﷺ نے اس کے جانشین کواسلام کی دعوت دیتے ہوئے نامۂ مبارک روانہ کیا۔
‘‘بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
محمدرسول اللہ کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام،
سلام ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے اور اللہ  اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائے اور شہادت دے کہ اللہ  ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں نہ اس کے بیوی ہے اور نہ اولاد ہے۔ اور گواہی دے کہ محمد ﷺ اللہ  کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں تجھ کو اللہ  کی دعوت دیتا ہوں۔ تحقیق میں اللہ  کا رسول ہوں، اسلام قبول کرلے، سلامت رہے گا۔
اے اہل کتاب آؤ ایک صاف سیدھی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ وہ یہ کہ سوائے اللہ کے کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں۔ پس اگر روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تومسلمان اور اللہ  کے فرماں بردار ہیں ۔ اے نجاشی! اگر تونے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تو تیری قوم کے تمام نصاریٰ کا گناہ تجھ پر ہوگا’’۔ [مستدرک حاکم، ابن اسحاق]
رسول اللہ  ﷺ نے نجاشی کو ایک اور خط بھی بھیجا تھا جس کا متن ابن اسحٰق کے حوالے سے بیہقی وغیرہ میں تحریر ہے۔

نامہ مبارک قیصر روم کے نام 

روم اور فارس (ایران ) ساتویں صدی عیسوی کی بڑی سپر پاور حکومتیں تھیں جس طرح آج کل امریکہ کا دور دورہ ہے۔ قیصر، قسطنطنیہ کے بادشاہ کا لقب تھا۔ مشرقی رومی (بیزنطینی)سلطنت پر ہرقل Heraclius شہنشاہ تھا۔ وہ حکمران بہت ہوشیار اور عالم تھا۔ حضرت دحیہ کلبیؓ کو سفارت سپرد ہوئی۔ حکم ہوا کہ نامۂ مبارک حاکم بصریٰ کے توسط سے قیصر کو بھیجا جائے۔ ایک اور خط ضغاطر اسقف اعظم روم (بڑے پادری ) کے نام بھی حضرت دحیہ کلبی کو دیا۔
‘‘بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
اللہ  کے بندے اوراس کے رسول محمدﷺ کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم(ہرقل عظیم الروم ) کی طرف، سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
امّا بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ تو سلامت رہوگے، اللہ  تمہیں دوگنا اجر دے گا اور اگر روگردانی کرو گے تو تمام رعایا کا گناہ تمہارے سرپر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ  کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور بعض کو بعض کا رب نہیں بنائیں گے۔ اگر روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تومسلمان’’۔ [صحیح بخاری، مسلم، الوفا]
نامۂ مبارک کسریٰ فارس کے نام
فارس ایران کا قدیم نام ہے۔ یہ بھی اپنے وقت کی بہت طاقت ور حکومت تھی۔ رقبہ کے لحاظ سے بھی یہ ایک بہت وسیع سلطنت تھی۔ اس کی سرحد ایک طرف ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی دوسری جانب عراق عجم تک۔ ان کا پرچم روم کے بعض علاقوں پر بھی لہراتا تھا۔ اس سلطنت کا رعب دبدبہ ایشیا اور یورپ پر یکساں تھا۔
عہدِ رسالت میں ساسانی خاندان کا خسرو پرویز شہنشاہ ایران تھا جس کا موروثی لقب کسریٰ تھا۔ جنوبی عرب میں یمن پر اس کا گورنر حکمران تھا۔ حضرت عبداللہ  بن حذافہ سہمی ؓ کو حکم ہوا کہ وہ نامہ مبارک حاکم بحرین کے توسط سے کسریٰ کوپہنچائیں۔
‘‘بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
محمدرسول اللہ کی طرف سے کسریٰ فارس کے نام ،
سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ  اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ اور جس نے گواہی دی کہ اللہ  کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ  کا رسول ہوں تمام لوگوں کی طرف۔ تاکہ تمام لوگوں تک اللہ  کا پیغام پہنچادیا جائے۔
تم اسلام لاؤ ، سلامتی میں رہوگے اور اگر انکار کروگے تو تمام مجوسیوں (آتش پرستوں ) کا وبال تمہاری گردن پر ہوگا’’۔[الوفا، طبری]

 

نامہ مبارک مقوقس شاہ مصر کے نام 

فرعون کی سرزمین مصر، تہذیب و تمدن کا قدیم مرکز تھی ۔ قبطی یہاں کے اصلی باشندے تھے۔ مقوقس بھی اسی نسل سے تھا۔ البدایہ و النہایہ میں اس کا نام جریح بن مینا قطبی اور مسعودی نے فرقب نونی لکھا ہے جو قطبیوں کے قبیلہ نون سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا مذہب عیسائیت تھا اور وہ بڑا عالم بھی تھا۔ اس کا پایۂ تخت اسکندیہ تھا۔ صحابیٔ رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اللخمیؒ نامہ مبارک لے کر جب مصر کے دارالسلطنت اسکندریہ پہنچے اس وقت مقوقس دریائے نیل کی سیر میں مصروف تھا۔ حضرت حاطبؓ نے کرایہ پر کشتی حاصل کی اوردریائے نیل ہی پر نامہ مبارک عزیزِ مصر کو پیش کیا۔
‘‘بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
یہ خط اللہ  کے رسول محمدﷺ کی جانب سے ، مقوقس قبط کے نام ہے، سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
اما بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ سلامت رہوگے اور اللہ  تمہیں دوگنا اجر دے گا۔ اگر روگردانی کروگے تو قطبیوں کی گمراہی کا وبال تمہاری گردن پر ہوگا۔
اے اہلِ کتاب اس کلمۂ حق کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ  کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور نہ آپس میں ہم ایک دوسرے کو اللہ  کے سوا رب تسلیم کریں۔ اگر وہ روگردانی کریں تو گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں’’۔ [المواہب اللدنیہ، الوفا]
خط پڑھ کر مقوقس نے کنیز کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ اسے ہاتھی دانت کی تختیوں کے درمیان بڑی حفاظت سے رکھے۔ مقوقس نے سفیر کی شاہانہ انداز کے مطابق اچھی طرح میزبانی کی۔ [بن سعد]

نامہ مبارک شاہ دمشق کے نام 

شام کے ایک حصہ پر غسانی خاندان حکمران تھا۔ یہاں کا بادشاہ حارث بن ابی شمر غسانی تھا جو رومی حکومت کی سرپرستی میں حکم رانی کررہا تھا۔ حضرت شجاع بن وہبؓ کو نامہ مبارک لے کر جانے کی سعادت ملی۔
‘‘ بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
یہ خط اللہ  کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام ہے،
جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ  پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرے اس پر سلام ہو۔ میں تجھے اللہ  پر جس کا کوئی شریک نہیں ، ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں ، تیرا ملک تیرے پاس ہی رہے گا’’۔ [سیرت ابن ہشام، الوفا ابن جوزی]

نامہ مبارک والیٔ یمامہ ہوذہ بن علی حنفی کے نام 

وسط عرب کا وہ حصہ جو مشرق میں عمان، مغرب میں حجاز او ریمن کے بعض حصوں، شمال میں نجد اور جنوب میں صحرائے ربیع الخالی کے درمیان واقع ہے، یمامہ کہلاتا تھا۔ عہدِ رسالت میں یہاں بنو حنیفہ آباد تھے۔ اس وقت اس کا والی ہوذہ بن علی، کسریٰ کے گورنر کی حیثیت سے حکمران تھا۔ حضرت سلیط بن قیس عامری ؓ حضور نبی کریم کے سفیر بن کر اس کے پاس نامہ مبارک لے گئے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،
محمد رسول اللہ  کی جانب سے ہوذہ بن علی کے نام
اس پر سلام ہو جو ہدایت کا متبع ہو۔ تمہیں معلوم ہو کہ میرا دین تمام عرب و عجم کی حد تک پہنچے گا اور غالب رہے گا۔ پس تمہیں چاہیے کہ اسلام قبول کرلو تاکہ سلامت رہو۔ مجھے تمہارے ملک سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تمہارے ہی پاس رہے گا’’۔[زاد المعاد]

نامہ مبارک والیٔ بحرین المنذر بن ساوی کے نام 

بحرین مشرقی عرب کا وہ حصہ ہے جو خلیج فارس سے ملتا ہے۔ اس کا دوسرا نام ‘‘الاحساء ’’ بھی ہے۔ یہ علاقہ پہلے ایرانی حکومت کے زیرِ اثر تھا۔ آلِ منذر جو مناذر کہلاتے تھے ایرانی گورنر کے طور پر حکمراں تھے۔ المنذر بن ساویٰ کے پاس حضرت علاء ؓبن حضرمی نامۂ مبارک لے کر گئے۔ ان کے ساتھ حضرت ابو ہریرہؓ کو بھی روانہ کیا گیاتھا۔
‘‘بسم اللہ  الرحمن الرحیم،
محمد رسول اللہ کی جانب سے منذر بن ساوی کے نام
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے بعد ازیں یہ کہ میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ پس تمہیں چاہیے کہ اسلام قبول کرلو تاکہ سلامت رہو۔ اپنی رعایا کے سربراہ تم ہی رہوگے۔ آگاہ رہو کہ جہاں تک گھوڑے اور اُونٹ پہنچ سکتے ہیں وہاں تک اسلام پہنچ کررہے گا’’۔ [زاد المعاد از ابن قیم ]

امن پسندی کی سب سے بڑی مثال  

عہدِ جدید کہ جو تہذیب و تمدن اور احترامِ آدمیت کا دور کہلاتا ہے ، بہت سی جنگیں دیکھ چکا ہے اور دیکھ رہا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے فاتحوں نے مفتوح کے ساتھ کیا سلوک کیا….؟ دوسری عالمی جنگ کے حلیفوں نے اپنے حریفوں کے ساتھ کیا برتاؤکیا؟ کوریا اور انڈونیشیا میں اور مشرقِ بعید کے دوسرے ممالک میں کیا ہوا؟ اور ویت نام میں تہذیب و تمدن اور احترامِ آدمیت کا مظاہرہ کس طرح ہوا ہے؟
افغانستان، عراق، لبنان اور فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے۔ اس سے کون ناواقف ہے؟
جنگ میں حصہ لینے والوں کو چھوڑیں۔ نہتے،غیر مسلح اور امن پسند شہریوں پر جو کچھ عہدِجدیدکی لڑائیوں میں گزرتی ہے، جس طرح انسانیت پامال ہوتی ہے اور اقدار انسانی کچلی جاتی ہیں، بچوں، بوڑھوں، کمزوروں، اپاہجوں، عورتوں اور جنگ سے یکسر بے تعلق رہنے والے آدمیوں پرجس طرح
مشقِ ستم کی جاتی ہے، اسے کون نہیں جانتا…؟
فتحِ مکہ کے موقع پر ظلم کرنےوالے ، دکھ اور اذیت پہچانے والے کئی اسلام دشمن افراد اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے لرزاں و ترساں اور اپنی زندگی سے مایوس ہوکر سرنگوں بیٹھے ہوئے تھے۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ نے ان سے فرمایا…
‘‘الْيَوْمَ يَوْمُ بِرّ وَوَفَاءٍ’’ ‘‘آج کا دن حسنِ سلوک اور لطف وعطا کا دن ہے’’۔
اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا ، میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ
‘‘آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں ’’
پھر آپﷺ نے فرمایا
اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطّلَقَاءُ.’’
‘‘جاؤ ….تم سب آزاد ہو ’’۔
بد ترین دشمن کے لیے بھی معافی و درگذر کا اس سے بڑامظاہرہ دنیا نے کبھی نہیں دیکھا….
حضرت محمد ﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ میں رحم و کرم، شفقت و مہربانی ، معافی و درگذر، جود و سخا اور اخلاق و عنایات کے مظاہرے کئی مقامات پر نظر آتے ہیں ۔ سلامتی کا پیغام سب کے لیے تھا۔
غیر مسلموں کے حقوق کا بھی بطور ذمی پورا پورا خیال رکھا گیا۔

اس مضمون کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئی :
1۔ الوسائق السیاسیہ : ڈاکٹر حمید اللہ
2۔سیرۃ النبی: علامہ شبلی نعمانی
3۔ الرحیق المختوم : صفی الرحمٰن مبارکپوری
4۔سیرت احمد مجتبیٰ : شاہ مصباح الدین شکیل
5- بلاٖغ المبین: حفظ الرحمٰن سیوہاروی
5- مکتوباتِ نبوی : سید محبوب رضوی
6۔خطوطِ ہادیٔ اعظم: سید فضل الرحمٰن

 

 

 

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ ستمبر 2023 کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن مطالعہ کرنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیجیے!

روحانی ڈائجسٹ آن لائن کی سالانہ سبسکرپشن صرف 1000 روپے میں حاصل کیجیے۔

یہ رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش، منی آرڈر یا ڈائریکٹ بنک ٹرانسفر کے ذریعے بھجوائی جاسکتی ہے ۔

    • بذریعہ JazzCash  ۔ 03032546050 
    • بذریعہ Easypaisa  ۔ 03418746050
  • یا پھر اپنی ادائیگی براہ راست ہمارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں
    .Roohani Digest : IBAN PK19 HABB0015000002382903

مزید رابطے کے لیے   سرکیولیشن مینیجر

manageroohanidigest@gmail.com

واٹس ایپ نمبر   03418746050

فون نمبر : 02136606329

یہ بھی دیکھیں

سانحہ کربلا کا پیغام

نسل انسانی کی ت ...

ارطغرل کی داستان

روحانی ڈائجسٹ ج ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *