Single Women Over Thirty
میرا چھوٹا بھائی گھر بھر کا لاڈلہ رہا۔ میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی۔ جب بھی اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تووہ اپنی آپی یعنی مجھے پکارتا اور اس روز بھی اس نے بڑے مان سے مجھے اپنے دل کی تمام باتیں بتائی تھیں۔ دراصل میرا بھائی یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی کو پسندکرنے لگا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس لڑکی کے گھر والے نہ تو ہماری برادری سے تعلق رکھتے تھے اور نہ ہی ہماری کلاس سے۔ میں نے یہ بات جب اپنی والدہ کو بتائی تو لاڈلہ ہونے کے باوجود امی نے صاف منع کردیا۔
بھائی مسلسل اصرار کرتا رہا، آخر چند ماہ بعد امی نے محض خانہ پری کے لیےاس لڑکی کے گھر جانے کا ارادہ کرلیا۔ وہاں جاکر ہمیں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کے گھر والے اس سارے معاملے سے واقف ہیں اور وہ اس رشتے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔
میں اور میرے والدین ہمارے اس اکلوتے بھائی کی خوشی کی خاطر اُس لڑکی کے گھر چلے گئے۔ لڑکی کی والدہ بہت روکھے انداز میں ہم سے ملیں جبکہ ان کے والد انتہائی غصے میں ہمارے سامنے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی اس بیٹی کو کیا نہیں دیا ، اس کے لیے ہماری برادری میں اچھے رشتے کم تھے کیا جو اس نے آپ لوگوں کا انتخاب کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برادری میں بے عزتی کا سبب بننے والی ایسی لڑکیوں کو تو پیدا ہوتے ہی مرجانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ میری دہلیز پر ایک غیر برادری والے رشتے کے ارادے سے آئے ہیں۔
ہم ان کے گھر سے چلے آئے۔ امی نے اپنے لاڈلے بیٹے کویہ سب باتیں بتادیں۔ یہ سن کر میرے بھائی نے کہا کہ اس لڑکی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے والدین کو اس رشتے پر راضی کرلے گی۔
چند دنوں بعد پتہ چلا کہ اس لڑکی نے اپنے والدین کو خود کشی کی دھمکی دی ہے۔ بہرحال ایک دن اس لڑکی کی والدہ ، اس کی پھوپھی اور دو تین عورتیں ہمارے گھر آئیں۔
ہم بھی ان کے استقبال کے لیے خوش دلی سے تیار نہ تھے بہرحال امی نے ان سے مناسب طریقے سے بات کی۔ اس دوران اس لڑکی کی پھوپھی نے امی سے میرے بارے میں پوچھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میرا تو ابھی رشتہ طے نہیں ہوا تو انہوں نے انتہائی طنزیہ انداز میں امی سے کہا کہ
آپ کو اپنے کم عمر بیٹے کی شادی سے پہلے اس کی بڑی بہن کی شادی کی فکر کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہاہماری بچی اس گھر میں آئی تو اسے شوہر، ساس ،سسر کے ساتھ اور کتنے لوگوں کی خدمت کرنا پڑے گی۔
ان کے یہ الفاظ میرے سینے میں تیر کی طرح لگے۔ میں درد سے بلبلا اٹھی اور بمشکل اپنے آنسوؤںپر قابو پایا۔
مجھے امید تھی کہ میرا بھائی ان خاتون کی بات کا برا مانیں گےلیکن وہ چپ رہا۔
میں اپنی دو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سےبڑی ہوں۔
آج سے 15 سال پہلے جب میرے والدین میری شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے تھے۔ تب اچانک میرے والد کی ٹانگ ایک حادثے میں زخمی ہوگئی، اس حادثے کے باعث ہمارے والد نے کام کرنا چھوڑ دیاجس کے نتیجے میں ہمارے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ اُنہی دنوں میرا انٹر کا رزلٹ آیا تھا، جسے میں نے بہت اچھے نمبروں سے پاس کرلیا تھا۔
گھریلو حالات دیکھتے ہوئے میں نے اپنے محلے میں واقع ایک اسکول میں ملازمت کرلی۔ میری تنخواہ سے گھر کا چولہا تو جل ہی جاتا۔ اس دوران میری زندگی کے انتہائی قیمتی سال اس نوکری کینذرہوگئے۔
گھر کے حالات کچھ بہتر ہوئے تومیرے والدین کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ مگر اب جو خواتین مجھے دیکھنے آتیں وہ میری چھوٹی بہنوں کو پسند کرلیتیں۔ مجبوراً میرے والدین نے میری دونوں چھوٹی بہنوں کی شادیاں کردیں۔
اس دوران میں اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرتی رہی۔ میں نے گریجویشن پھر ماسٹرز بھی کرلیا ۔ آج میں شہر کے ایک بہت معروف اور بڑے اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔
مجھے مالی لحاظ سے کوئی فکر نہیں لیکن اپنے معاشرے میں ایک سنگل خاتون کے ساتھ بعض مردوں کے رویے اور کچھ عورتوں کے طنزیہ جملے مجھے احساس محرومی اور دکھ میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو جب میرے ‘‘سنگل’’ (تنہا) ہونے کا پتہ چلا تو میرے ساتھ ان کے گفتگو کے انداز میں تبدیلی آگئی۔ کسی نے مجھے دوستی کی آفر کی تو کسی نے میرا ہمدرد بننے کی کوشش شروع کردی۔ وہ مجھ سے مراسم بڑھانے اور میری تنہائیاں بانٹنے کی آفر کرتے ۔
ابتداء میں تو یہ سب باتیں میرے لیے بہت عجیب اور تکلیف دہ تھیں۔ مگر اب کئی مردوں اور بعض عورتوں کی تکلیف دہ باتوں سے مجھے پریشانی نہیں ہوتی۔ میں ان سب باتوں کو ٹائم پاس کرنے کے خواہش مند مردوں کا ذہنی افلاس قرار دیتی ہوں۔ بعض عورتوں کی گھٹیا باتوں کو میں ان کی کم ظرفی اور گھٹیا سوچ سمجھتی ہوں۔
اس کے باوجود زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوجاتے ہیں کہ میرا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
میرے چھوٹے بھائی کی شادی اس کی من پسند لڑکی کے ساتھ ہوچکی ہے اوروہ اب صاحب اولاد بھی ہے۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کی بیوی نے کہنا شروع کیا کہ اسے الگ گھر چاہیے۔ میرے بھائی کی تنخواہ اتنی نہیں کہ وہ الگ گھر افورڈ کرسکے۔ گھر کے اخراجات میں بھی بہت زیادہ کنٹریبیوٹ کرتی ہوں۔
میرے بھائی کی بیوی ایک انتہائی بدتمیز عورت ہے ۔ ماں بننے کے بعد سے تو اس نے ہمارے والدین کے ساتھ بھی ٹھیک طرح بات کرنا چھوڑدی ہے۔ گھر کا کوئی کام وہ نہیں کرتی ۔ بھائی اپنی بیوی کا دیوانہ ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کی بیوی بچے کو دیکھے یا گھر کے کام کرے۔ میرا وہ بھائی جسے میں نے بہت لاڈ سے اپنی گودوں میں کھلایا مجھے یہ کہتا ہے کہ تم کس مرض کی دوا ہو۔ تم اس گھر میں رہتی ہو گھر کے کام بھی کیاکرو۔
میں سہ پہر تین بجے تک اسکول میں ہوتی ہوں۔ لنچ بھی اسکول میں ہی کرتی ہوں۔ اسکول سے اپنے والد کے گھر واپس آکر پہلے اپنے والدین کو دوائیں دیتی ہوں، ان کے کمرے کی صفائی کرتی ہوں ۔ ہفتے میں دو یا تین دن واشنگ مشین لگا کر گھر بھر کے کپڑےدھوتی ہوں۔ ان میں میرے لاڈلے بھائی کے کپڑے بھی شامل ہوتے ہیں۔ استری بھی میں ہی کرتی ہوں۔ شام کو میں کھانا پکاتی ہوں ۔ یہ کھانا اتنا ہوتا ہے کہ رات کو اور اگلے دن دوپہر کے لیے پورا ہوجائے۔ بجلی، گیس اور دیگر بلز بھی میں ہی اداکرتی ہوں۔
مجھے اپنے والدین کی خدمت کرکے خوشی ملتی ہے۔ میرا بھائی یا اس کی بیوی تو میرے والدین کو پوچھتے ہی نہیں ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود میرا بھائی اکثر مجھ سے ناراض ہوجاتا ہے، کبھی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تمہاری وجہ سے ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔ ایک دن تو وہ مجھ سے کہنے لگاکہ تم اچھا کماتی ہو اپنے لیے الگ رہائش کا بندوبست کیوں نہیں کرلیتیں۔
کہا جاتا ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کا مان ہوتے ہیں۔
شاید ایسا ہو….میرا تجربہ تو اس کے متضاد اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میری تنخواہ بہت اچھی ہے، میں بھائی پر بوجھ نہیں بلکہ اس کے اخراجات میں حصہ لیتی ہوں۔ لیکن اس کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میں سوچتی ہوں کہ اگر میری شادی ہوگئی ہوتی تو میرا بھائی یہ بکواس نہ کررہا ہوتا۔