
قسط 33 – ستمبر 2019ء

			
آنکھیں بڑی نعمت 
			
آنکھیں بڑی نعمت
اشیاء کو دیکھنے ، اپنے گرد و پیش سے باخبر رہنے کے لئے خالقِ کائنات نے بیشترحشرات الارض، پرندوں اور حیوانات اور انسان کو آنکھوں کی نعمت سے نوازا ہے۔اگر آنکھیں نہ ہوتیں انسان عالمِ رنگ و بو میں رہتے ہوئے نہ تو اپنے ارد گرد موجود اشیاء سے واقف ہو سکتا تھا اور ہی حصولِ خوراک کے لئے کچھ کر سکتا تھا ۔ اسی طرح خطرات سے آگاہ ہونے کے لئے بھی آنکھوں کا کردار نہایت اہم ہے۔حصولِ خوراک، خطرات سے بچاؤ کے علاوہ اپنی نوع اور دیگر مخلوقات کی شناخت اور فطرت کے نظاروں سے محظوظ ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہماری بینائی ہی ہے۔
یوں تو سبھی حواس علم و آگہی کا ذریعہ ہیں لیکن سب سے زیادہ اہمیت نظر اور بینائی کو ہی حاصل ہے۔
لوک داستانوں میں چار نا بینا افراد کا ہاتھی کو ہاتھوں سے چھو کر اور ٹٹول کر سمجھنے کے قصے سے کم ہی لوگ ناواقف ہوں گے۔اسی طرح ایک اور کہانی میں ایک اندھے شخص سے ایک بچہ دریافت کرتا ہے ۔
‘‘حافظ جی ، اماں نے کھیر پکائی ہے اور کہا ہے کہ حافظ جی پوچھ کر آؤ کہ کیا وہ کھیر کھانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کھانا چاہتے ہیں تو میں لے آتا ہوں۔
حافظ جی نے کھیر کا نام پہلے نہیں سُنا ہوا تھا۔ انہوں نے بچے سے پوچھا :
یہ کھیر کیا ہوتی ہے؟
بچے نے جواب دیا۔ سفید رنگ کی ہوتی ہے۔
اس پر حافظ صاحب نے دریافت کیا۔ یہ سفید کیا ہوتا ہے….؟
بچے نے جواب میں بتایا کہ سفید رنگ وہ ہوتا ہے جو بگلے کا ہوتا ہے۔
اس پہ حافظ صاحب نے کہا۔ اب یہ بگلا کیا ہوتا ہے….؟
بچے نے اپنا ہاتھ کھڑے بگلے کی طرح سے بنا کر حافظ جی کو ہاتھوں سے چھو کر محسوس کرنے کو کہا۔ حافظ جی نے مڑے ہوئے ہاتھ اور کلائی کو اپنے ہاتھوں سے ٹٹول کر محسوس کیا اور کہا۔
نہیں رہنے دو۔ اتنی ٹیڑھی کھیر میں نہیں کھا سکتا۔
بینائی کی اہمیت کا اندازہ اس لئے کروایا جاتا ہے کہ انسان اپنے خالق اور مالک رب کی عطا کو سمجھے اور شکر ادا کرے کہ اللہ نے اُس کو کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ اب محض زبان سے یا اللہ تیرا شکر ہے یا اللہ کا شکر ہے کہہ دینا اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن شُکر کا اصل مفہوم اس سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں۔
‘‘اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں، عطا کردہ نعمتوں اور وسائل کو اچھی طرح استعمال میں لانا اور برتنا ہی اصل شکرگزاری ہے۔’’
آنکھیں اور آنکھوں کی بینائی کو اچھی طرح برتنے میں اِن کی اچھی طرح دیکھ بھال اور صحیح نگہداشت بھی شامل ہونا ضروری ہے۔ امراضِ چشم سے بچائو اور بینائی کی کمزوری کا علاج کرنے کے لئے طبِ جدید میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ادویات کھانے اور آنکھوں میں قطروں کی صورت ڈالنے سے لے کر آنکھوں کا آپریشن کرنے اور قرینہ کی پیوند کاری اور نظر کے چشموں کے استعمال سے لے کر لیزر شعاعوں سے کور نگاہی کا سبب بننے والے فالتوخلیوں کو ختم کرنے تک ان گنت طریقے آج استعمال میں ہیں۔
کروموپیتھی میں آنکھوں کے امراض کے علاج اوراحتیاطی تدابیر کے لئے مختلف رنگوں کے استعمال کے طریقے تجویز کئے جاتے ہیں۔
آنکھوں کی عمومی صحت کے لئے ضروری ہے کہ لکھنے پڑھنے اور کام کاج کے دوران روشنی کا مناسب انتظام ہو یعنی روشنی بہت تیز بھی نہ ہو اور بہت کم بھی نہ ہو۔
زردوزی ، کشیدہ کاری اور رفو جیسی باریک چیزوں کا کام کرنے اور دیر تک نظر جما کر کرنے والوں کے لئے تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ کام کی جگہ پر روشنی کا مناسب انتظام ہو۔ انتظام ایسا ہو کہ روشنی اشیاء پر پڑے آنکھوں پر براہ راست نہ پڑے۔ روشنی ایسی ہو جس میں تمام رنگ اپنی پوری مقدار میں موجود ہوں۔ ٹیوب اور مرکری لائٹس قسم کی روشنی میں رنگ نہ تو پورے ہوتے نہ اُن کی مقداریں ۔اس لئے ایسے بلب استعمال کرنے چاہئیں جن میں دھنک کے رنگ پورے ہوں۔ان کو سن لائٹ بلب کہا جاتا ہے۔
آنکھوں کی حفاظت کے لئے دن میں دو تین بار چہرہ دھونا چاہیے اوردھونے کے دوران آنکھوں پر پانی کے چھپکے مارنا بہت سود مند رہتا ہے۔نماز کی پابندی کرنے والوں کو الگ سے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کو وضو کے دوران تین بار چہرہ دھونا ضروری ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی ورزش کی کوئی ایک آدھ مشق کرنا بھی معمول میں شامل رہنا اچھا ہوگا۔آنکھوں کے عضلات کو حرکت دینے کے لئے پڑھنے لکھنے یا کوئی باریک کام کرنے کے دوران وقفے وقفے سے پلکیں جھپکنے اور دور کسی چیز کو چندبار دیکھنے کو معمول بنانے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کو اس طرح حرکت دی جائے کہ ڈیلے دائروں کی صورت میں گول گول گھومیں۔یعنی سر کو سیدھا کر کے سامنے دیکھیں، پھر سر کو حرکت دئیے بغیر اوپر دیکھیں، پھر اپنی دائیں طرف دیکھیں، پھر نیچے اپنے پیروں کی طرف اور پھر نظر کو گھوما کر بائیں طرف لائیں اور وہاں سے اوپر کو دیکھیں ۔اس دوران سر کو حرکت نہیں دیں۔ اس طرح چند بار کرنے سے ڈیلے دائرے میں گھمانے سے آنکھوں کے عضلات کی ورزش ہوتی ہے۔
نظر کی کمزوری یعنی دور یا قریب کی چیزیں واضح نظر نہ آنے کے لئے نیلی روشنی آنکھوں پر ڈالنااور نیلی روشنی میں چارج کئے ہوئے عرقِ گلاب کے دو دو قطرے دن میں تین چار بار اور رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھتے ہی آنکھوں میں ڈالنے سے فائدہ مند ہے
آنکھوں میں موتیا اُترنے یا پڑبال کا علاج سرجری یعنی آپریشن کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ کروموپیتھی میں اس کا علاج یہ تجویز کیا جاتا ہے۔ عرقِ گلاب کونیلی روشنی میں چار پانچ روز تک لگاتار، لکڑی پر رکھ کر چارج کر کے اُس کے دو دو قطرے دن میں تین چار بار اور رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھتے ہی آنکھوں میں ڈالے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پیلے یعنی زرد رنگ کی شعاعوں میں تیار کئے ہوئے پانی کی دو دو اونس کی دن میں تین چارخوراکیں استعمالکی جائیں۔
آنکھوں کے دیگرامراض جیسے آنکھ کا نرسنگھا جس میں آنکھ کے اوپر ایک جھلی سی آ جاتی ہے اور نظر اس جھلی کی وجہ سے دب جاتی ہے۔
اس کی وجہ ایک خاص قسم کی گیس ہوتی ہے۔ پہلے یہ گیس دماغ پر اثر اندازہوتی ہے اور اُس کے بعد آنکھ پر جھلی سی بنا دیتی ہے۔اس مرض کا علاج بھی وہی ہے جو اوپر موتیا یا پڑ بال کے ذیل میں عرض کیا گیا ہے۔یعنی عرقِ گلاب کو نیلی روشنی میں چارج کر کے قطروں کی صورت استعمال کرنا اور ساتھ میں زرد رنگ کی شعاعوں میں چارج کیا ہوا پانی استعمالکرنا۔
اسی طرح آنکھ کے کونے میں پُھنسی کی صورت دانہ سا بن جاتا ہے اور رستا رہتا ہے۔ اس کو آنکھ کا ناسور بھی کہتے ہیں ۔ اس میں مریض کے سر پر آدھ آدھ گھنٹے کے لئے ، دو تین بار،نیلی روشنی ڈالنا اور عرقِ گلاب کو سبز روشنی میں چارج کر کے ، دو دو قطرے دن میں متعدد بار ڈالنا مفید ہے۔
گرمیوں میں آشوبِ چشم یعنی آنکھوں میں خارش ، سوزش اور سرخی ہونا اور ساتھ میں آنکھوں سے پانی آنے کے لئے بھی سر پر نیلی روشنی اور نیلی روشنی میں چارج کئے ہوئے عرقِ گلاب قطروں کی صورت میں آنکھوں میں ڈالنا چاہئے۔
اگر خدا نخواستہ آنکھ پہ چوٹ لگ جائے۔آنکھ سے خون جاری ہو جا ئے یا خون جم جائے تب بھی نیلی روشنی میں چارج کئے ہوئے پانی میں روئی بھگو کر آنکھ پہ رکھنے اور نیلی شعاعوں میں چارج کئے ہوئے عرقِ گلاب کو وقفے وقفے سے آنکھوں میں ڈالنے سے زخم جلد مندمل ہوسکتا ہے۔جو ماہر معالج کی زیرنگرانی کیا جائے۔
مندرجہ بالا طریقے قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیے گئے ہیں۔ ان سے استفادہ کرنے کے لیے کسی ماہر معالج سے مشورہ ضرور کیا جائے۔
امراض چشم یا کسی بھی دوسرے مرض میں کلرتھراپی سے استفادہ ماہر معالج کی زیرنگرانیکیاجائے۔ 
| بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ کئی نظام ہائے علاج معرضِ وجود میں آئے اور ہر نظام العلاج کا بنیادی مقصد مریض کو مرض اور بیماری سے نجات دلانا ہے۔ کروموپیتھی ایک ایسا نظام العلاج ہے جس میں رنگوں اور رنگین شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم ِ انسانی کو صحت اور تندرستی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظام العلاج میں بیماری کی تشخیص کرنے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا بیشی اس مرض کی وجہ بنی ہے۔ اس تشخیص کے بعد مریض میں اُن رنگوں کی کمی کو دور کرنے کے اقدام کئے جاتے ہیں جو اُس کی بیماری کا سبب بن رہے ہوں یا اُن رنگوں کا جو اُس میں زیادہ ہو چکے ہوں اُن کا اثر زائل کرنے والے رنگ تجویز کئے جاتے ہیں۔ | 
[:]
روحانی ڈائجسٹ Online Magazine for Mind Body & Soul