Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

انوکھے مسیحا – 1 – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

انوکھے مسیحا – 1

وہ سینکڑوں میل دور بیٹھ کر بھی کسی بیماری کا علاج کرسکتا تھا اور اس کام کے لیے اسے کسی دوا وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ یہ روحانی صلاحیت اس کے پاس فطری طور پر موجود تھی۔

 

کھیت کے وسط میں چلتا ہوا ٹریکٹر اچانک جھٹکے سے رکا اور ڈرائیور کےساتھ بیٹھی ہوئی چھوٹی سی بچی اچھل کر ٹریکٹر کے بھاری پہیوں تلے آگئی۔ اس کے منہ سے دلدوز چیخ نکل کر دور تک پہنچی۔ ڈرائیور چھلانگ لگا کر پہیوں کے درمیان پھنسی ہوئی لڑکی کو نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ قریب اور دور سے کھیتوں میں کام کرنے والے دوڑے دوڑے آئے اور انہوں نے بڑے جتن سے بچی کے جسم کو پہیوں کی گرفت سے آزاد کرایا۔
ویوین خون میں لت پت تھی۔ گہرے زخم آئے تھے۔ سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔ لوگ سرگوشیاں کر رہے تھے کہ اس کی شاید ہی کوئی ہڈی سلامت رہی ہو۔ اسے اٹھا کر قریبی کھلیان میں لے جایا گیا۔ مقامی ڈاکٹر نے آکر معائنہ کیا اور بچی کی نازک حالت کے پیش نظر قصبے کے اسپتال میں ایمبولینس بھجوانے کے لیے فون کیا لیکن یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اس کے آنے تک یا اسپتال پہنچنے تک بچی جانبر نہ ہوسکے گی۔ تاہم وہ رک رک کر آتی ہوئی سانسوں کے ساتھ اسپتال پہنچ گئی۔ وہاں بھی ڈاکٹر نے غم زدہ والدین کو بیٹی سے دائمی جدائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرا دیا۔
ویوین کی ماں نے لندن فون کرکے اپنے بھائی ہیری ایڈورڈز کو صورتحال بتائی کہ اس کی بھانجی لبِمرگ ہے شاید رات بھی نہ گزار سکے۔
خلاف توقع رات خیریت سے گزر گئی تو ماں نے نیم دلی سے خدا کا شکر ادا کیا۔ ڈاکٹروں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ماں باپ دونوں ساری رات بیٹی کے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ انہوں نے باری باری تھوڑی کمر سیدھی کی اور پھر سارا دن وہیں بیٹھے رہے۔
شام تک ویوین کی سانسن قابو میں آتی گئی۔ سارا میڈیکل اسٹاف اسے عجوبہ قرار دے رہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ مریضہ کی حالت میں تبدیلی عارضی ہے اس کا زندگی کے شب و روز میں لوٹ آنا محال ہے۔
دوسری رات بھی لبِ مرگ بچی کو دنیا سے رخصت کیے بغیر گزر گئی۔ ڈاکٹروں کے مشاہدے اور تجربے میں یہ ایک اضافہ تھا۔ سارا میڈیکل اسٹاف اس زخمی لڑکی کی طرف متوجہ تھا۔ اس کے زخم حیرت انگیز طور پر مندمل ہورہے تھے۔ حتیٰ کہ پانچ ہفتوں میں وہ گھر جانے کے قابل ہوگئی۔
اس کے میلوں دور بیٹھے ماموں کی ریاضت کام آئی۔ ہیری ایڈورڈز نے جیسے ہی فون پر اپنی بھانجی کو پیش آنے والے حادثے کا سنا وہ اپنے ‘‘فاصلاتی روحانی علاج’’Distance Healing میں لگ گیا۔ آخر کار اس نے ویوین کے موت کے منہ سے نکل آنے کی نوید سن لی۔
ہیری ایڈورڈز کا غائبانہ انداز مسیحائی دکھانے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ اس سے پہلے اس نے میلوں دور برومٹن اسپتال میں زیر علاج مریض کا فاصلاتی روحانی علاج کیا تھا۔ اس کی ایک ملاقاتی خاتون کا دوست تپ دق کی آخری اسٹیج پر تھا۔ اسے سانس کی تکلیف بھی تھی اور پلورسی بھی ہوگئی تھی۔ خاتون نے اپنے اس دوست کے لیے ہنری سے مدد طلب کی۔
اس واقعہ کا ذکر ہیری نے اپنی تصنیف ‘‘تھرٹیایئرز اے اسپریچول ہیلر’’ (روحانی علاج کرنے والے کے تیس سال) میں کیا ہے۔ وہلکھتاہے :
‘‘میں نے آنکھیں بند کرلیں اور ذہن کو خیالات سے یکسر خالی کردیا۔ تصور کے پردے پر دھند لاہٹ کے بعد اسپتال کا طویل وارڈ نظر آنے لگا۔ نگاہیں آخری سے پہلے بیڈ پر مرکوز ہوگئیں۔ اس پر ایک شخص نڈھال لیٹا ہوا تھا۔ میری قوت ارادی نے اس پر عمل شروع کردیا۔ تیس سال بعد بھی میں اس منظر کی جزئیات کو بھولا نہیں ہوں۔ وہ ایسے یاد ہیں جیسے چند روز پرانی بات ہو اور میں اس جگہ جسمانی طور پر موجود رہا ہوں۔’’
ایک ہفتے بعد ہی اسے اطلاع ملی کہ مریض کی حالت بہتر ہوتی جارہی ہے۔ پلورسی تو معدوم ہوگئی۔ سانس کی تکلیف بھی کم ہوگئی ہے پھر اطلاع ملی کہ نہ صرف سانس کی شکایت جاتی رہی ہے بلکہ خون اور بلغم کے معائنے سے معلوم ہوا کہ تپ دق کے جراثیم کا اثر زائل ہوگیا ہے۔
اسپتال کا سارا عملہ اس کرشمے پر انگشت بدنداں رہ گیا۔ جن جن طبی مراکز اور حلقوں میں یہ خبر پہنچی۔ وہاں بھی یہی کیفیت ہوئی۔ ہیری کی ملاقاتی خاتون تو اس کے قدموں میں بچھی جاتی تھی۔ اسے ایک نظر دیکھنے کے خواہش مندوں اور اس سے فیضیاب ہونے کی درخواست کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تین ہفتوں کے بعد معلوم ہوا کہ جس مریض کی زندگی سے ناامیدی ہوگئی تھی اسے مکمل صحتیابی تک آرام کے لیے اسپتال سے ایک سینی ٹوریم میں بھیج دیا گیا۔ چند مہینوں بعد وہ اپنی ملازمت پر بحال بھی ہوگیا تھا۔


اس کا پوارا نام ہینری جیمز ایڈورڈز Henry James Edwards تھا۔ وہ ازلنگٹن کی کرے فورڈ اسٹریٹ ، لندن کے ایک چھوٹے سے مکان میں 29 مئی 1893ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور اپنے ماں باپ کےنو بچوں میں وہ سب سے بڑا تھا۔ باپ ایک پریس میں کمپوزر تھا۔ ماں ایک فرم میں ملازم تھی جہاں شاہی دربار کے لیے ملبوسات تیار کیے جاتے تھے۔ ہیری کی شرارتوں سے گھر اور باہر سب ہی نالاں تھے۔ 12 سال کی عمر میں ایڈورڈز نے لندن ڈِزکوز چرچ بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصے بعد اسے ایک قصاب کی بیٹی سے عشق ہوگیا اور وہ بالکل بدل گیا۔ پندرہ سال کا ہوا تو اسکول جانا چھوڑ دیا اور ایک اشاعتی ادارے میں چھ شلنگ فی ہفتے پر خاکروب بن گیا۔ رفتہ رفتہ پروف ریڈر بنا اور مطالعے کا عادی ہوگیا۔ سات سال اپرنٹس شپ پر پرنٹنگ کا کام کیا مگر وہ اس کیریئر سے مطمئن نہیں ہوا، ایڈورڈ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔ اسے سیاست کا شوق چرایا تو ہائیڈ پارک میں کھوکھے پر کھڑے ہو کر اوٹ پٹانگ تقریریں کرنے لگا۔ سامعین گنتی کے ہوتے جو وقت گزارنے کے لیے رک جاتے۔ اس نے مقامی لبرل پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ایڈورڈز رائل سسیکس رجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتیہوا ۔
ہیری نے اس منفرد نعمت خداوندی کا سب سے پہلا مظاہرہ 1915ء کے اواخر میں لگ بھگ بائیس سال کی عمر میں کیا تھا۔ جب اس کی رجمنٹ کو ہندوستان میں تعینات کیا گیا۔ وہاں اس نے انجینئرنگ اور پل کی تعمیر کا کورس کیا ۔
ایک روز اسے اچانک کمپنی کے جنرل مارشل نے طلب کیا اور پوچھا کہ آیا وہ کمیشن چاہتا ہے۔ اس بے پایاں التفات پر ایڈورڈ بھونچکا رہ گیا۔ پھر سنبھل کر سلوٹ مارا اور اثبات میں جواب دیا۔
اسے کمیشن دے کر بغداد کے قریب صحرائی قصبہ تکریت بھیج دیا گیا۔ تکریت اور بغداد کے درمیان فوجی سامان کی نقل و حمل کے لیے عجلت میں ریلوے لائن بچھائی جارہی تھی۔ ہنگامی حالات میں کام ہورہا تھا لیکن ہیری کا واسطہ اجڈ اور ہٹ دھرم مقامی اجرتی کام کرنے والوں سے پڑا تھا۔ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور اس سے تعاون بھی نہیں کرتےتھے۔
تکریت میں قیام کے دوران اس پر معاً رحمت کا ایک باب کھل گیا۔ اس پر انکشاف ہوا کہ وہ بیماروں کو چھو کر ٹھیک کرسکتا ہے۔ اس نے غیب سے ملنے والی اس طاقت کو کسی تکلیف میں مبتلا مزدور پر آزمایا اس مزدور کی تکلیف جاتی رہی۔ اس کے بعد تو سارے مزدور جیسے اس کے معتقد بن گئے۔
ریلوے لائن کی تعمیر وقت مقررہ پر مکمل ہوگئی اور اس پر ٹریفک بھی رواں ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیری کی قابلیت اور صلاحیت کی دھوم بھی مچ گئی۔ اس سے متاثر ہوکر یا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکام بالا نے اسے شمال مغربی ایران کے تپتے ہوئے پہاڑی علاقے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر آف لیبر پرشین لائنز آف کمیونی کیشن بنا کر بھیج دیا۔ اس کا فوجی عہدہ میجر تھا وہاں اس نے فوج کے استعمال کے لیے کئی پختہ سڑکیں اور مضبوط پُل بنوائے اور حکام سے تعریفی اسناد حاصل کیں۔
یہاں بھی اس کے روحانی علاج معالجے کے چرچے ہونے لگے۔ شامی لوگ اسے پیر یا روحانی پیشوا تو نہیں کہہ سکتے تھے، انہوں نے اسے ڈاکٹر کہنا شروع کیا اب وہ میجر اور ڈائریکٹر کے علاوہ ڈاکٹر بھی ہوگیا۔ اس نے مرہم پٹی کا سامان، آئیوڈین، کیسٹر آئل جیسی چیزیں بھی رکھ لیں لیکن اس کا بیشتر طریقہ علاج ہاتھوں سے چھو کر تکلیف رفع کرنے کا تھا۔
اس کے روحانی کمالات کی شہرت اتنی پھیل گئی کہ ایک روز ایک قبائلی سردار دور سے اپنی بیمار ماں کو اس کے پاس لے آیا۔ زندگی کی آخری سانسیں لیتی ہوئی ضعیف اور نحیف عورت کو گٹھڑی کی شکل میں گھوڑے کے ایک طرف لٹکایا گیا تھا۔ وہ درد سے کراہ رہی تھی۔ ہیری نے چاہا کہ سردار کو اسے واپس لے جانے کو کہے اور گھر میں سکون سے مرنے دے لیکن وہ ایسا کہنے کی ہمت نہ کرسکا۔ خونخوار سردار شاید اسے وہیں ختم کردیتا۔ لامحالہ اسے معالج بن کر مریضہ کو دیکھنا پڑا۔
سردار اس نے اصرار کیا کہ ‘‘ڈاکٹر’’ اپنے معروف طریقہ علاج ‘‘چھو کر’’ سے اس کی ماں کو اچھا کرے۔ لامحالہ ہیری مریضہ کو اوڑھائی ہوئی چادر پر سرتاپا ہاتھ پھیرتا اور زیر لب دعا مانگتا رہا اور پھر سردار سے کہا کہ وہ مریضہ کو گھر لے جائے۔
چند روز گزرے کہ سردار گھوڑے سواروں کے ہمراہ دھواں اڑاتے اور ہوائی فائرنگ کرتا آتا دکھائی دیا۔ اس کی جان نکل گئی۔ وہ سمجھا کہ بڑھیا چل بسی اور سردار اس کی سزا اسے دینے آیا ہے لیکن وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔
اس کے خوف کے برعکس سردار گھوڑے سے چھلانگ لگا کر اس سے لپٹ گیا اور روایات کے مطابق اس کے گالوں کے بوسے لیے۔ اس نے بتایا کہ اس کی ماں مکمل صحتیاب ہوگئی ہے اور اس نے کھانا پینا بھی شروع کردیا ہے۔


1948 میں ہیری ایڈورڈز نے مانچسٹر میں چھ ہزار لوگوں کے سامنے اپنے روحانی وصف کے عام مظاہرے شروع کیے ، ستمبر 1951 میں لندن کے رائل البرٹ ہال، میں اس کے مظاہرے میں ایک وقت میں پانچ چھ ہزار افراد جمع ہونے لگے۔ بعض مذہبی حلقوں نے اس پر ساحری، شیطان پرستی وغیرہ کا الزام لگایا لیکن اس کے سدِ راہ نہ بن سکے۔
روحانی شفا یابی کی تحقیقات کے لئے 1953 میں کلیسیاء کے آرچ بشپ کا ایک کمیشن قائم کیا، اور 1954ء میں ایڈورڈز کی جانچ پڑتال کی گئی ۔ اس نے اپنی کامیاب روحانی شفا یابی کے واقعات کے ایک بڑی تعداد کے دستاویزی ثبوت فراہم کیے، ساتھ ہی لندن رائل البرٹ ہال میں ایک ہی وقت میں وہ 6،000 لوگوں کے سامنے میں ایک عوامی مظاہرہ بھی کیا۔ کمیشن کی رپورٹ، 1958 میں شائع ہوئی، چرچ یا طبی معالجین کو ایڈورڈز کی صلاحیتیوں کو قبول کرنا پڑا ۔
1955 میں ہیری ایڈورڈ نے ایک ادارہ نیشنل فیڈریشن آف اسپریچول ہیلر (NFSH) کے نام سے قائم کیا۔
روحانی علاج کو سمجھنے ، اس کی شفا یابی سے فائدہ اٹھانے اور تمام بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اس طاقت کا استعمال کرنے کی مشقوں پر ہیری ایڈورڈز نے بہت سی کتابیں، تصنیف کیں ۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ جنوبی افریقا اور زمبابوے گیا اور وہاں علاج کیا۔ سات دسمبر 1976ء کو 83 برس کی عمر میں ایک رات ابدی نیند سوگیا۔

 

 

مئی 2014ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir