Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پارس ۔ قسط 7

کچھ نہیں بلکہ بہت سارے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں ۔مرد ہونا طاقت اور اکرام کا سبب ہے۔عورت کا وجود کمزوری اورشرمندگی کی علامت ہے۔ 
ایسا سوچنے والے صرف مرد ہی نہیں ہیں کئی عورتیں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں۔
بیٹے کی ماں بن کر بعض عورتیں خود کو محفوظ اورمعزز خیال کرتی ہیں، بیٹی کی ماں بن کر خود کوکمزور محسوس کرتی ہیں۔ مردانہ تسلط والے معاشر ے میں کئی مصیبتوں ،دکھوں اورظلمتوں کے درمیان ابھرنے والی ایک کہانی….مرد کی انا اورعونت، عورت کی محرومیاں اوردکھ،پست سوچ کی وجہ سے پھیلنے والے اندھیرے، کمزوروں کا عزم ،علم کی روشنی ،معرفت کے اجالے، اس کہانی کے چند اجزائے ترکیبی ہیں۔
نئی قلم کار آفرین ارجمند نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کو نوٹ کیا ہے۔ آفرین ارجمند کے قلم سے ان کے مشاہدات کس انداز سے بیان ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین خود کریں گے۔

ساتویں قسط :

پارس ….! دیکھ ….میں کیا لائی ۔؟سدرہ دھپ سے فرش پر بیٹھ گئی ۔
اس کے ہاتھ میں بھنے ہوئے چنوں کی دو پڑیاں تھیں ۔یہ لے ایک تیرے لئے ۔اس نے ایک پڑیا پارس کی طرف بڑھادی ۔
کیا ہے ….؟پارس جو مسلسل کتاب پر جھکی ہوئی تھی بغیر سر اٹھائے بولی۔
لے جلدی…..س س س گرم ہے سدرہ نے پڑیا زور سے ہلائی
لادے ۔پارس نے ہاتھ سے پڑیا لے لی ۔
سدرہ چنے چباتے ہوئے پارس کی دیکھا دیکھی کتاب پر جھک گئی ۔
کیا پڑھ رہی ہے ؟
پڑھنا تو آتا نہیں تھا وہ ایسے ہی کتاب کو گھورنےلگی ۔
تنگ نہ کر ، یہ سبق ختم آج ختم کرنا ہے ورنہ اماں بہت ڈانٹے گی ۔
پارس کے چہرے پر تھکاوٹ تھی مگر پھر بھی وہ پڑھائی میں جتی ہوئی تھی۔
پھر تو تُو کھیلنے بھی نہیں چلے گی۔سدرہ کا منہ بن گیا
اونہہ ہوں …..اس نے گردن دائیں بائیں گھمائی ۔
کَٹی ۔سدرہ نے اپنی چھوٹی انگلی دانتوں میں دبا کر کہا اور منہ پھیر لیا۔
ناراض نہ ہو مجھے پڑھنا ہے دیکھ کتنا سارا ہے اس نے اپنی کتابیں سدرہ کے آگے کردیں ۔
پتہ نہیں کیسے پڑھتی ہے تُو ۔اماں تو کہتی ہے بس ایک بار قرآن شریف ختم کرلو کافی ہوتا ہے ۔
اور اچھی لڑکیاں توصرف کھانا پکانا اور سینا پرونا سیکھتی ہیں ۔اس کو پڑھائی میں اس قدر ڈوبے دیکھ کر سدرہ پھر بولی ۔
یہ کونسی بڑی بات ہے پتر کھانا پکانا بھی سیکھ لے گی ابھی تم لوگوں کی عمر ہی کیا ہے ۔سینا پرونا بھی آجائے گا۔
پرابھی اسے پڑھنے دے ۔جا شاباش تنگ نہ کر۔ سکینہ نے جوسدرہ کی باتیں سنی اسے پیار سے سرزنش کی ذرا تُو دوڑ کر جا اور صاعقہ کو تو بلادے دروازے پر کہنا خالہ کو کام ہے۔اس نے بہانے سے سدرہ کو واپس گھربھیجا۔
جی اچھا خالہ وہ بھی خاموشی سے باہر چلی گئی۔
دوسرے دن سدرہ پھر سر پر کھڑی تھی ۔اچھا پارس مجھے بھی سکھا ناں ۔
کیا سکھاؤں؟
یہی کتا بیں پڑھنا۔میں بھی اپنا نام لکھوں گی ۔وہ اشتیاق سے بولی ۔
یہ کونسا مشکل کام ہے ۔آجا بیٹھ جا ہم دونوں مل کر پڑھا کریں گیں ۔پارس خوش ہوگئی ۔
چلو پہلے تم الف ب لکھنا سیکھو ۔اس نے تختی پر الف ب پ لکھ کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
اور پھر اکثر ایسا ہونے لگا ۔خربوزہ کو دیکھ ے خربوزہ رنگ پکڑتا ہے دوست کی صحبت اپنا اثر رکھتی ہے شاید یہی وجہ تھی کہ سدرہ کو اب پڑھنے کا شوق چرانے لگاتھا گھر والوں سے چھپ کو پارس کے پاس بیٹھی رہتی ۔کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ رہی تھی۔سکینہ یہ سب دیکھ کر خاموش رہتی ۔ سدرہ کا شوق دیکھ کر وہ وہ خوش ہوجاتی۔اس نے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائے ۔وہ جانتی تھی صاعقہ کے لئے بھی پڑھائی کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی وہ کبھی بھی سدرہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں دے گی۔بلکہ وہ تو گاؤں کے رواج کے مطابق اگلے دو سال میں اس کی شادی کرنے کا سوچ رہی ہوگی۔گاؤں میں عموماً بارہ سے پندر سال کی عمر تک لڑکیوںکی شادی کردی جاتی ۔ورنہ پھر برادری کے عمر رسیدہ بڈھوں کے پلے ان کو باندھنا پڑتا یا پھر چودھریوں کی حرصائی نظریں ان کا طواف کرتیںرہتیں ایسے میں ڈرے سہمے ماں باپ کی کوشش ہوتی وہ جلد سے جلد جیسے تیسے بیٹی کو اپنے گھر رخصت کر دیں ۔صاعقہ ویسے بھی واحد کفیل تھی وہ یہ بار زیادہ دیر نہیں اٹھا سکتی تھی ۔
ایسے میں سدرہ اگر پار س سے کچھ سیکھ رہی تھی تو اس کے ہی کام آنا تھا۔

******


اماں یہ سمجھ نہیں آرہا پارس حساب کے کچھ سوالات لے کر بیٹھ گئی ۔
یہ کیا ہے ؟سکینہ کام چھوڑ کر کتاب پر جھک گئی مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
اماں یہ سوال نہیں ہورہا۔پارس منہ لٹکا کر بیٹھ گئی ۔
سکینہ نے سوال حل کرنے کی کوشش کی مگر استنے برسوں بعد اس کے لئے اتنی پرانی چیزیں یاد کرناآساننہ تھا۔
اس نے جتنی آسانی سے پارس کو اردو اور پنجابی لکھنا پڑھنا سکھایا تھا۔اتناہی مشکل اس کے لئے حساب کا پڑھانا ہورہا تھا۔
مگر یہ ضروری بھی تھا۔یہ پانچویں کا کورس تھا۔کتا میں کچھ تبدیلیاں بھی ہوئیں تھیں اسے شدت سے کسی استاد کی کمی محسوس ہوئی ۔کیا کروں وہ حل دھونڈنےبیٹھ گئی ۔
ایسا نہیں تھا اسکول مکمل طور پر بند تھا ۔ اسکول میں اب بھی چند لڑکے جاتے اور گائیں بھینسوں کت درمیان بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے واپس آجاتے ۔پچھلے برس ایک دوسرے گاؤں کا ٹیچر اسکول میں تعینات کیا گیا تھا۔جسے گاؤں والوں نے پچھلے تین چار دفعہ ہی دیکھا تھا۔ٹیچر نے بھی شروع میں کافی کوشش کی مگر گاؤں والوں کی عدم دلچسپی اور چودھریوں کے دباؤ میں آکر اس نے بھی گھر بیٹھے تنخواہ لینے میں عافیت جانی تھی۔
مجھے لگتا ہے وہ جو اسکول میں نیا ٹیچر بھرتی ہوا ہے اس سے کچھ مدد لی جائے ۔سکینہ شفیق سے بولی
کیسی مدد….؟
بھئی یہ امتحان کے لئے ،طریقہ کار سے متعلق ۔اور پھر یہ کچھ چیزیں مجھے بھی سمجھ نہیں آرہیں۔
میں یہ سب کیسے کرواؤں اسے ۔آپ معلوم تو کرو شاید وہ کچھ مدد کرسکے۔سکینہ حساب کی کتاب کو گھورتے ہوئے بولی ۔
پر کبھی دِکھے تب ناں….
پھر میں کیا کروں ۔وہ رونکھی سی ہوگئی۔
شفیق ہنس پڑا استاد کا یہ حال ہے تو شاگرد کا کیا ہوگا۔اس نے مذاق اڑایا
مذاق مت کروجی مجھے نہیں سمجھ آرہا۔ برسوں ہوگئے اسے پڑھے ہوئے ۔بندہ بھول بھی جاتا ہے۔وہچڑی
اچھا لا دے میں دیکھوں ۔شفیق نے کتاب کے ہاتھ آگے بڑھایا….
ہیں ۔آپ تو جیسے بڑے ماہر ہو ۔سکینہ نے حساب برابر کیا۔
ارے دے تو کیا پتہ کرلوں۔ حساب میں تجھ سے تو اچھا ہی تھا۔
وہ کتاب لے کر بیٹھ گیا۔
کافی دیر مغز باری کے بعد وہ بمشکل چند سوال حل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔لے بھئی سکینہ تیرا کام ہوگیا ۔اس نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کتاب اور کاپی اس کے آگے کردی
سچ ۔سکینہ نے جلدی سے کاپی کھولی مگر شفیق نے چھین لی ۔

نا….
پہلے ایک گلاس لسی اور سموسے پھر دوں گا۔اس نے شرط رکھی
نہیں بھئی نہیں مجھے اور کام بھی ہیں سکینہ نے صاف منع کردیا اور کاپی اس کے ہاتھ سے جھپٹ لی ۔
پارس ذرا ایک گلاس پانی ہی پلادے ، شفیق نے مصنوعی تھکن کا اظہار کرتے ہوئے آواز لگائی ۔بہت تھک گیا آج تو ویسے ہی بارزو میں درد تھا۔وہ جان بوجھ کربازو دبانے لگا۔
سکینہ اس کی بات سن کر کاپی سائیڈ پر رکھ کر کھڑی ہوگئی
صبر کرو لاتی ہوں۔
کیا۔؟۔سادہ پانی ….؟وہ منہ لٹکا کر بولا۔
سکینہ ہنس پڑی، نہیں لسی اور سموسے۔


******
بھائی شفیق ، کی حال ہے توڈا؟
سب خیر ہے ناں
دکان کے باہر جمال اور شوکت گوالہ کھڑےتھے۔
ہاں ہاں سب خیر ہے ۔آپ بتاؤ خیر تو ہے
دکان پر کیسے آئے ۔
شفیق جو بڑے انہماک سے صراحی پر بیل بوٹے بنارہا تھا انھیں اچانک دکان پر دیکھ کر سمجھ گیا کوئی گھمبیر مسئلہ ہے ۔
بس ایسے ہی ، گزر رہے تھے تو سوچا تیری خیریت پوچھ لیں۔جمال نے بہانہ بنایا
لے ابھی کل رات ہی تو ملے تھے چوپال میں۔شفیق نے ہنس کر کہا
ہاں ….دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے
کچھ دیر خاموشی رہی ۔جمال نے شوکت کو کہنی ماری اور شوکت تھوڑا سا جزبز ہوا۔
شفیق جو یہ سب بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
صراحی ایک جانب رکھ کر اپنے ہاتھ پر لگے رنگ کو کپڑے سے صاف کرتے ہوئے آرام سے بیٹھ گیا۔چھوٹے ذرا دو گلاس لسی تو لے آ۔اس نے وہیں سے آواز لگائی۔
ارے نہیں اس کی ضرورت نہیں ۔ہم تو بس ایسے ہی آگئے تھے ۔شوکت اٹھنے لگا
جمال نے اس کابازو سے پکڑ کر بٹھالیا۔
ہاں جی….تو سب خیرہے ناں ۔وہ پھر گہری نظروں سے دونوں کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
او ہاں سب خیر ہے اصل میں کچھ ضروری بارت کرنے ہے گاؤں کی بھلائی کے لئے ۔جمال نے خود ہی ہمت پکڑی۔
ہاں کہو۔وہ ایک ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کی بات غور سے سننے کے لئے تیار ہو گیا۔
ہم نے سنا تُو پارس کو پانچویں کا متحان دلوارہا ہے۔جمال ہمت کرکے بولا
ہاں تو….شفیق کا لہجہ سپاٹ ہوگیا ۔وہ اب ساری بات سمجھ گیا تھا
تو یہ کہ تُو نہیں جانتاگاؤں میں لڑکیوں کے پڑھانے کا روا ج نہیں۔تُو کیوں اسے شہری بنانا چاہتا ہے۔او لڑکی ہے اسے وہی سکھا جو اس کا کام ہے۔شوکت نے بھی حصہ لیا۔
وہ میری بیٹی ہے میں اس کا اچھا برا تم سے بہتر جانتا ہوں ۔شفیق نے سخت لہجے میں جواب دیا۔
تم لوگوں کو کیا پڑی ہے ۔اس معاملے میں دخل اندازی کی ۔
او ہمیں پڑی ہے ۔تبھی تو کہہ رہے ہیں ۔یہ گاؤں کی بھلائی کا معاملہ ہے ۔
عورتوں کے نہ پڑھنے میں گاؤں کی کیا بھلائی ہے بھلا ۔یہ تو بتا مجھے ۔؟کیا میں اور سکینہ خوش نہیں ؟کیا تمہاری بیویاں سکینہ سے مشورہ کرنے نہیں آتیں۔ شفیق کو غصہ آنے لگا۔مگر اسے یہ معاملہ بہت سمجھداری سے سنبھالنا تھا ۔
پڑھی لکھی ہو کر کونسا عقل کا کام کیا ۔اگر پڑھی لکھی نہ ہوتی تو بیٹا گود لیتے تم لوگ نہ کہ بیٹی۔جمال نےطنز کیا….
دیکھ جمال میں بہت صبر سے کام لے رہا ہوں۔بہتر ہوگا تم لوگ میرے معاملے سے دور رہو۔شفیق چراغ پا ہوگیا۔
اس سے پہلے کہ ہاتھا پائی کی نوبت آتی۔شوکت شفیق کو بگڑتے دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہوگیا ۔ اس نے جمال کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔ چل جلدی ۔
ابھی تم غصے میں ہو ۔ہم شام میں بات کرتے ہیں۔وہ یہ کہہ کر جمال کو کھینچتا آگے لے جانے لگا۔
او کیا بات کروگے تم لوگ۔ شفیق وہیں سے چیخا
ارے تیری تو مت ماری گئی ہے ۔دیکھنا جب غیرمردوں کو خط لکھے گی اور تیرے آگے زبان چلائے گی تب تجھے پتہ چلے گا۔جمال نے بھی جاتے جاتے مزید آگ بھڑکائی ۔
او تُو چپ کر شوکت نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور رفتار تیزی کردی۔اسے ڈر تھا شفیق کچھ کھینچ کر ہی نہمار دے۔
کیا ہے ۔چھوڑ مجھے ۔اس نے تنک کر اپنا بازو چھڑایا
کیوں بھاگا وہاں سے ہم یہی بات تو کرنے گئے تھے ناں ۔جمال شوکت سے الجھ پڑا
ارے بے وقوف آدمی….تُونے شفیق کا غصہ نہیں دیکھا تھا کیا۔
کچھ عقل سے بھی کام لے ۔اگر کچھ ہاتھا پائی ہوجاتی تو الزام ہم پر آجاتا۔
تو پھر کیا ایسے ہی گاؤں کی عورتوں کو بگڑنے دیں…؟چوڑیاں پہن کے بیٹھ جائیں کیا؟
او تُو چپ کر ، اب یہ بات گاؤں والوں کے درمیان میں ہوگی ۔سمجھا….وہ سازشی انداز میں بولا
******


شفیق کا خون کھول اٹھا تھا ۔وہ سمجھ گیا تھا یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہونے والا ہے۔اس وقت تو دونوں چلے گئے تھے مگر یہ بات اب دبنے ولی نہیں تھی ۔
سکینہ بھی ساری بات سن کر پریشان ہوگئی ۔مگر سچ تو یہ تھا دونوں اس صورتحال کے لئے پہلے سے تیار تھے ۔انہیں ہر صورت میں اس امتحان سے کامیاب ہوکر گزرنا تھا۔
اگلے ہفتے امتحان تھا۔پارس کا بھی اور ان دونوںکابھی ۔
اگلے دو دن بعد گاؤں کے چند مرد مولوی صاحب کے ساتھ موجود تھے۔چند بوڑھی عورتیں بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
شفیق کو مولوی صاحب کو ان کے ساتھ دیکھ کر دکھ ہوا مگر وہ جانتا تھا ان میں بھی اکثریت کے خلاف جانے کی ہمت نہ تھی
مان جا پڑھنے سی عورت خراب ہوجاتی ہے ۔وہ بد زبان ہوجاتی ہے ۔پھر تیری بات نہیں مانے گی اپنی منوائے گی۔رحم دین کی آواز آئی ۔
بہتر ہوگا تم سب اپنی بکواس بند کرو یہ پہلے سے طے ہے کہ میری بیٹی امتحان ضرور دے گی ۔اور میں اسے لے کر جاؤں گا۔
اگر ہے کسی میں ہمت تو میرا راستہ روکے ۔وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا
اگر تُو نہیں مانے گا تو پھر چودھری سے بات کرنی پڑے گی ۔رحم دین نے دھمکی دی
کن چودھریوں کی بات کرتے تم۔سکینہ سے چپ نہ رہا گیا ….
مت بھولو ، ان چودھریوں کی وجہ سے تم تباہی کے دن دیکھ چکے ہو ۔وہ تو شکر کرو اگر میں تم لوگوں کی مدد نہ کرتا تو آج گاؤں سلامت نہ ہوتا۔شفیق نے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ۔
اچھا تو اب پانچ سال بعد اپنی مدد کا احسان جتا رہا ہے تُو۔جمال نے پھر بھڑکایا
جمال کی بات سن کر شفیق غصے سے سرخ پڑ گیا۔اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ظبط کرکے بولا
نہیں سمجھا رہا ہوں اگر میری بیٹی کی راہ میں کسی نے مشکل کھڑی کی تو اچھا نہیں ہوگا۔اس نے دھمکیدی….
باقی رہے چودھری تو ان کو تو میں دیکھ لوں گا۔
شفیق کے تیور بہت خطرناک تھے ۔کوئی اس سے اپنے تعلقات بگاڑنا بھی نہیں چاہتا تھا ویسے بھی سب باتوں کے بھوت تھے ۔
وہ دونوں اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔یہاں تک کہ ان سب کو ہار مان کر لوٹنا پڑا۔ چودھریوں کی طرف سے فی الحال کوئی ردِعمل ظاہر نہیں ہوا تھا۔
اور پھر امتحان کا دن بھی آگیا۔گاؤں کے کچے اسکول کی ناگفتہ صورتحال کے باعث امتحان اگلے گاؤں میں تھا۔وہ دونوں پارس کا ہاتھ تھامے گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے ۔
اس وقت بھی راستے میں گاؤں کی بڑی بوڑھیاں موجود تھیں ۔کچھ کھڑکی سے بے چینی سے جھانک رہے تھے تو کچھ دروازوں پپر لٹکے تھے ۔سب کے لئے یہ ایک انہونی تھی جو ہونے جارہی تھی ۔
اس اسکول کی حالت بھی کچھ خاص بہتر نہ تھی۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا چار پانچ سو نفوس کے گاوں میں امتحان دینے والے کل بارہ لڑکے تھے جن میں پارس واحد بچی تھی ۔پارس بہت پر اعتماد نظر آرہی تھی اسے ذرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔وہ دونوں باہر اس کے امتحان ختم ہونے کا انتظار کرتے اسی دوران ان کی ملاقات اسکول ٹیچر سے بھی ہوئے جسے صرف چند بار ہی اسکول میں دیکھا گیا تھا۔دونوں کو وہ کافی سجھدار اور بھلا محسوس ہوا۔
اگلے چند مہینوں میں نتائج کا اعلان کردیا گیا۔پارس نے امتیازی نمبروں سے پانچویں کا امتحان پاس کرلیا تھا۔یہ کوئی آسان بات نہیں تھی دونوں کے لئے یہ سب کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ بغیر کسی استادکے سکینہ نے پارس کو اس قابل بنادیا تھا وہ پانچویں کے امتحان میں بیٹھاسکے۔ان کی بیٹی اب پرائمری پاس تھی۔انہیں یقین تھا کہ یہ سب ان کی نہیں بلکہ پیر سائیں کا فیض ہے جو پارس کے ساتھ ہر دم ہیں ۔اسی فیض کی بدولت وہ پڑھنے لکھنے کے قابل بن رہی تھی۔ ان کے حوصلے مزید بلند ہوگئے تھے کہ اب پارس کو مڈل تو کیامیٹرک کرنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔وہ دونوں فیصلہ کر چکے تھے کہ گاؤں کے اس ٹیچر سے پارس کی پڑھائی کے لئے مدد لیں گیں ۔گاؤں والوں کی طرف سے اس وقت گہری خاموشی تھی ۔اگر کچھ تبدیلی آئی تھی تو یہ کہ اب عورتیں کھینچی کھینچی رہتیں ۔اب سدرہ کا بھی آنا جانا بند ہوگیا تھا۔ مگر سکینہ کو یقین تھا کہ وقت کے ساتھ ان کا رویہ ٹھیک ہوجائے گا۔اسے تو بس اپنی بیٹی پر دھیاندینا تھا۔
******
ہائے ہائے مرگیا۔ میدان سے گزرتے ہوئے کوئی بری طرح شفیق کے پیروں سے ٹکرایا ۔
چاچا بچاؤ ….یہ رجب علی تھا صاعقہ کا بڑا بیٹا۔
ارے ارے یہ کیا ہورہا ہے ۔ا س نے جلدی سے رجب علی کو تھامنے کی کوشش کی
اتنی دیر میں کوئی وزنی سی چیز بہت تیزی سے اس کے اوپر گری جسے شفیق سے سبھالنا مشکل ہوگیا ،وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا۔جمال کا بیٹا شکور دانت کچکچاتے ہوئے رجب علی پر پل پڑاتھا
نہیں چھوڑوں گا اسے ،بے ایمانی کرتا ہے۔ میرا مزاق اڑاتاہے۔
چھوڑ اسے ،شفیق نے آگے بڑھ کر رجب علی کو بچانے کی کوشش کی ۔
مگر شکور کی گرفت بہت مضبوط وہ رجب علی پر مسلسل مکے گھونسے برسارہا تھا۔
سامنے چند لڑکے کھڑے تھے مگر کسی کی بھی ہمت نہ تھی کہ شکور کو کوئی روکتا ۔وہ باپ سے بھی کہیں زیادہ غصیلا اور جھگڑالو تھا۔
شفیق نے شکور کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر الگ کرنے کی کوشش کی ۔
او بات سن شکور چھوڑ اسے….
مگر شکور تو غصے میں بہرا ہوگیا تھا۔اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔
مجبورا ً اس نے دو تین تھپڑ شکور کے منہ پر جڑ دئیے اور اسے دھکا دے کر پیچھے کیا۔
سمجھ نہیں آتا ۔کب سے کہہ رہا ہوں چھوڑ اسے۔ کیوں مارہا ہے اسے جانوروں کی طرح ۔
او کچھ حیا ہے ،اپنی عمریں دیکھو اور حرکتیں دیکھو۔ شفیق کا پارا چڑھ گیا۔
شکور ابھی تک زمین پر پڑا اپنا گال سہلا رہا تھا۔
شفیق نے رجب علی کو اٹھایا اس کا سر پھٹ گیا تھا شاید شکور نے پتھر مارا تھا خون نکل رہا تھا۔وہ اسے سہارا دے کر گھر لے جانے لگا۔
ابھی تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ جھگڑا کس بات پر ہورہا تھا۔
گھر پہنچ کر مرہم پٹی کرکے اس کو بٹھایا ۔
دودھ کا گلاس آگے بڑھاتے ہوئے بولا یہ لے پی اسے ۔وہ غٹا غٹ چڑھا گیا۔
شفیق اسے مسلسل گھور رہا تھا۔
رجب علی نے نظریں چرالیں ۔
اب ٹھیک ہے ؟شفیق نے پوچھا
رجب علی نے گردن ہلادی ۔
ہاں تو ….اب بتا کیا ہورہا تھا وہاں ؟۔اس کو نارمل دیکھ کر شفیق جو بڑی دیر سے صبر کئے بیٹھا تھا سوالداغا۔
وہ، چاچا دراصل….رجب علی اٹکنے لگا
دیکھ ، سیدھی طرح بات بتا کیا ہورہا تھا وہاں ۔ اب کے شفیق نے سختی سے کہا۔
رجب علی پر اس کا رعب بھی بہت تھا۔
چاچا وہ اگلے ہفتے دوسرے گاؤں میں بیلوں کی دوڑ ہونے والی ہے ۔ میں نے بھی دوستوں کے ساتھ حصہلیاہے ۔
ہم اس کی مشق کررہے تھے۔جس میں شکور کا بیل ہار گیا اور دونوں بار ہم جیت گئے ۔اسی بات پر اسے غصہ آگیا۔اور اس نے مجھے مقابلہ چھوڑنے کے لئےکہا۔
میں نہیں مانا جس پر دھمکی دینے لگا۔مجھے بھی غصہ آگیا ۔اور پھر اس نے غصے میں مجھے پتھر کھینچ کر مارا۔
اور پھر ….وہ زرا دیر کو رکا
اور پھر کیا؟شفیق بولا
اور پھر آپ آگئے
تُونے اسے نہیں مارا؟
مارا تھا۔رجب علی نے اعتراف کرکے معصومیت سے سر جھکا لیا
ہِم ۔چل تُوگھر جا ماں کو کچھ مت کہنا ،میں دیکھ لوں گا۔اس نے رجب علی کو تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔گھر میں کوئی نہیں تھا سکینہ پارس کو لے کر درگاہ گئی تھی ۔وہ چارپائی پر لیٹ گیاوہ جانتا تھا جمال اپنے بیٹے کی پٹائی پر چپ نہیں بیٹھے گا ۔کچھ نہ کچھ واویلا ضرورکرےگا۔
اتنی دیر میں اس کی توقع کے عین مطابق جمال اس کے دروازے پر کھڑا دروازے کو ڈھول کی طرح پیٹرہا تھا۔
شفیق کو لگا دروازہ نکل کر ہاتھ میں آجائے گا۔
آرہا ہوں ۔ دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے ا س نے زور سے آواز لگائی
جو شاید ان کے کانوں تک نہیں پہنچی ۔
دروازے پر جمال اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ موجود تھا۔انھوں نے شفیق پر دھاوا بول دیا۔حملہ کچھ اتنا اچانک تھاکہ شفیق اپنا بچاؤ کرنے میں ناکام رہا۔ رجب علی نے جو یہ منظر دیکھا وہ دوڑ کر گاؤں کے مردوں کو بلالایا ۔اس وقت تک جمال اپنا غصہ ٹھنڈاکرچکا تھا۔اس کی آنکھیں ابھی بھی لال انگارہ ہو رہیں تھیں ۔نیچے فرش پر شفیق بے سود پڑا تھا۔اس کے سر سے خون بہہ کر کچے مٹی کے فرش کو لال کر رہا تھا۔

(جاری ہے….)
تحریر: آفرین ارجمند
از روحانی ڈائجسٹ نومبر 2014ء

 

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir