Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر


معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر

جب میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامیﷺ کو رموز مشیّت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا۔

 

جب دنیائے انسانیت عقل و شعور کے لحاظ سے سنِ بلوغت کی حدود میں داخل ہوئی تو خالقِ کائنات کی منشاء کے مطابق اس امر کو ضروری سمجھا گیا کہ انسانی شعور کی علم کی بنیاد پر تکمیل کردی جائے اور اس اَمر کے لئے اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب، باعثِتخلیقِکائنات سیدناحضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات کو معبوث فرمایا۔
اس عدیم النظیر موقع پر میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامی کو رموزِ مشیت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا اور نظامِ ِکائنات کے راز ہائے درون پردہ سے آگاہ فرمایا۔ یہ عظیم الشان واقعہ درحقیقت اسلام کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی نوید بھی تھی۔ قرآن حکیم میں اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے۔

ترجمہ: ’’وہ ذات پاک ہے ، جو لے گیا راتوں رات اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔ تا کہ ہم اسے اپنی (قدرت) کی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔(سورہ بنی سرائیل)

یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہﷺ کی بعثت کو بارہ سال پورے ہو چکے تھے۔ اس دوران رسول اللہﷺ اور آپﷺ پر ایمان لانے والے افراد دکھوں اور اذیّتوں کے بے شمار مراحل سے گزر چکے تھے۔ بہت سے اہلِ ایمان تو کفار کی اذیتوں کی تاب نہ لاکر جامِ شہادت بھی نوش فرماچکے تھے۔ رسول اللہﷺکا سفرِ طائف، کفارِ مکہ کی مسلسل ایذا رسانیاں اور شعب ابی طالب میں اذیت و کرب کے تین سال انہی تین سالوں کے دوران آپﷺ کے ہمنوا، ہمدرد و غمگسار چچا حضرت ابوطالب اورہمدم ودمساز زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا وصال پاہوا۔
انسانی شعور میں جتنی مشکلات و مصائب کے احساسات شمار کئے جاسکتے ہیں، اللہ کے محبوبﷺ صبر و برداشت کے ان تمام مراحل کوطے فرما رہے تھے کہ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو معراج کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
رجب کی ستائیسویں شب جب آپ اپنی چچا زاد بہن اُمَ ہانی کے گھر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اس سفر سے متعلق مشیّت ایزدی سے آگاہ کیا۔ پھر حضرت جبرائیلؑ آپ ﷺ کو چاہِ زم زم کے پاس لے گئے اور آپ کاسینہ چاک کر کے قلب اطہر کو باہر نکالا اور انوار وتجلّیات کے ذخیرہ میں مزید اضافہ کرکے دوبارہ سینہ میں محفوظ کردیا۔ پھر حرم سے باہر آئے تو بّراق موجود تھا چنانچہ بّراق کے ذریعہ اس سفر کا آغاز ہوا۔ خانہ کعبہ سے آپ جبرائیل امینؑ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ پہنچے، جہاں جملہ انبیاء علیہ السلام موجود تھے۔یہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے حضورِاکرم ﷺ کی اقتداء میں صلوٰۃ ادا کی۔ امام الانبیائ، باعثِ تخلیق کائنات، محبوب رب للعالمین سیدنا حضورﷺ جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے گئے، رسول اللہﷺ نے دودھ کاپیالہ پسند فرمایا، اس پر جبرائیلؑ نے کہا کہ ’’آپ ؐنے فطرت کو اختیار کیا‘‘۔
بعدازاں آپ ﷺ آسمانوں کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ پہلے آسمان پر ابوالبشر حضرت آدم ؐ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر حضرت عیسٰی ؑنے خاتم النبیین ﷺ کا استقبال کیا۔ تیرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں آسمان پر حضرت ہارون السلام اور چھٹے آسمان پرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے ’’بیت المعمور‘‘ کامشاہدہ کیا۔ ساتوں آسمان کے بعد سدرۃ المنتہی تک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے ہمراہ رہے اورپھر عرض کی کہ اس سے آگے مجھے اذنِِ سفر نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے بعدحضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خالق کائنات کی تسبیح وتقدیس فرمائی اور حجاب عظمت کا معائنہ کیا۔ پھر آپ ﷺ پر حجاب کبریا منکشف ہوا اور آپ ﷺ نے مقام محمود میں اللہ تبارکتعالیٰ کا دیدار کیا۔
سفر معراج کے دوران رسول اللہﷺ نے عالمِِبرزخ میں موجود ارواح کی کیفیات مشاہدہ کیں۔ جزا اور سزا سے متعلق مختلف مشاہدات کا ذکر سیرت رسولﷺ اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ یہاں چند مشاہدات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
یہاںرسول اللہ ﷺ نے مختلف قوموں کو دیکھا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ دورانِ سفر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینوں کو نوچتے کھسوٹتے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیاکہ یارسول اللہ ﷺ! یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کیا کرتے اور اپنے بھائی بندوں پر حرف گیری کیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جس کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے اور وہ کچلے ہوئے سر دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آجاتے تھے۔ اس کے بارے میں جبرائیل ؑنے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نمازوں سے غفلت برتتے ہیں۔ پھر شافع محشر، سرکارِ دو عالم ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں اور جو کٹنے کے بعد دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجاتی تھیں۔ ان کے بارے میں جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وغط ونصیحت کرتے تھے، دوسروں کو نیک کاموں کی طرف راغب کیا کرتے تھے لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تھے۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر رکھا تھا۔ مگر کوئی شخص اس کو اٹھا نے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اس کے باوجود وہ مزید لکڑیاں لا کر اس میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ آپ ﷺکے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا، یہ وہ اشخاص ہیں جن پر حقوق اور امانتوں کا بار ہے اور جس کو یہ ادا نہیں کر تے لیکن مزید اپنے آپ پر بوجھ لا د لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ معراج شریف میں بارگاہ ِرب العزّت سے محبوب خدا، حبیب کبریا ﷺ کو جو عطیات و انعامات مرحمت فرمائے گئے ،مفسرین کرام نے ان میں سے تین کا ذکر بطورِ خاص کیا ہے۔
1۔سورۃ البقرہ کی آخری آیات
2۔ اُمَت محمدیہ کی بخشش کا وعدہ۔ (مگر وہ لوگ جو شرک کے مرتکب ہوں گے اس انعام سے محروم رہیں گے)۔
3 ۔ دن میں پانچ وقت صلوٰۃ(نماز)کی فرضیت
سفرِ معراج سے واپسی کے بعد جب آپﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں سے سفر کی ابتداء کی تھی تو روایات مطابق دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور آپﷺ کا بستر بھی اُسی طرح گرم تھاکہ گویا آپ ﷺ ابھی بستر سیِاُٹھ کر تشریف لے گئے ہوں۔
صبح جب اس عطیم الشان واقعہ کو آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے بیان کیا تو کفار نے استہزاء کرنا شروع کردیا۔ ابوجہل کچھ لوگوں کے ہمراہ ابوبکر صدیق ؓکے پاس پہنچا اور ان سے سارا قصہ بیان کیا۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا ’’یہ بات سچ ہے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔ اس موقع پر قریش کے کئی لوگوں نے بھی مختلف سوالات کیے۔ ایک سردار نے تجارتی قافلوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تین قافلوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور ایک قافلہ کے بارے میں بتایا کہ وہ آج پہنچے گا۔ کفار نے بیضا کے مقام پر چند لوگوں کو تصدیق کے لیے بھیجا تو انہیں تیسرا قافلہ آتا ہوا نظر آگیا۔ باقی دو قافلے بھی وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے۔

ترجمہ: ’’تارے کی قسم! جب غائب ہونے لگے، کہ تمہارے رفیق (محمد) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش ِنفس سے کوئی بات کرتے ہیں مگر وہ جو وحی کی جاتی ہے۔ ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ،طاقتور نے۔ پھر وہ پورے نظرآئے اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھے۔ پھر قریب ہوئے اور قریب ہوئے۔ اور آگے بڑھے۔ تو دو کمانوں سے فاصلہ پر یا اس سے بھی کم۔ پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف وحی کی۔ دل نے جو دیکھا جھوٹ نہ دیکھا۔ پس تم اُس میں سے اُن سے جھگڑتے ہو۔ اور انہوں نے اُس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرۃ المنتہی کے پاس، اس کے نزدیک جنت الماوٰی ہے۔ اور سدرہ پرچھا رہا تھا۔ جو چھارہا تھا۔ ان کی آنکھ نہ تو اور توطرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔انہوں نے اپنے رب کی کتنی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔ (سورۂ النجم۔ آیت 1۔18 )

بلاشبہ معراج شریف کی رات اُمِت مسلمہ کے لیے خصوصی رحمتوں اور برکتوں کی رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت کی جانب سے اُمِت محمدیہ ﷺ کو جو انعامات وا کرامات عطا کیے گئے ان کا تسلسل آج بھی جاری وساری ہے اور اس رات کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے کے لیے بزرگان دین اور علمائے کرام نے عبادات کے مختلف طریقے اپنائے ہیں اور عوام الناس کے استفادہ کے لیے بھی کچھ طریقہ وضع کیے ہیں۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ فرماتے ہیںکہ ماہِ رجب کی پچیس تاریخ کو روزہ رکھا کرو۔ اس لیے کہ جو نعمت رسول ﷺ کو شب معراج میں عطا کی گئی۔ اس روز روزہ رکھنے والے کو اس نعمت میں سے حِصّہ ملتا ہے۔ آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص رجب میں ہزار بار حسبِ ذیل استغفار پڑھے گا تو حدیث ِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ میں اپنے کرم سے اُس کو بخش دوں گا،استغفار کے کلمات یہ ہیں۔

اسْتَغْفِرُ اللَّهَ ذَا الْجَلالِ وَالْإكْرامِ مِنْ جَميعِ الذُّنُوبِ وَالْآثامِ‌

اس کے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیا ء ؒنے فرمایا کہ ماہِ رجب میں ایک نماز درازئیِ عمر کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ اگر کوئی آخر رجب میں یہ نماز ادا کرتا ہے اور اس کا مقصد درازیِ عمر ہوتا ہے تو اسے زیادہ عمرملتی ہے۔ اس نمازکا طریقہ یہ ہے۔
بارہ رکعت تین سلاموں کے ساتھ پڑھے۔ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک بار، سورئہ اخلاص تین بار اور سلام پھیر نے کے بعد دس مرتبہ یہ دُعا پڑھے۔

یَااَجْلِ مِنْ کُلّ جَلِیْل وَ یَا اعَزمِنْ کُلّ عَزِیْز یَا اَحَد خَیْر مِنْ کُلّ اَحَدْ اَنْتَ رَبّیِ لَا رَبّ لِی سِوَاْکَ یَا غِیاثْ اِلْمُسْتَغْیثِیْن وَ رِجَاھُم اَغِثْنَی بِفَضْلِکَ وَمَدفیِ عُمَریِ مَداَ طَوِیٰلاَ وَاعَطَنِی مِنّ لُدّنِکَ عُمَرًاَ فِیْ رَضَاکَ بِرَحْمِتکَ یَا کَریِمُ یِاوَھَابْ۔

(سیرالاولیاء از امیر خورد۔ مترجم: اعجازالحق قدوسی۔ صفحہ نمبر597)

معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے شب معراج کی عبادت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے:
’’اس رات ادب اور احترام سے تمام آداب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یاحی یا قیوم اور درود شریف پڑھنا چاہیے۔
احادیث مبارکہ میں ملتا ہے حضور پاک ﷺ کثرت سے نوافل ادا کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ اتنی طویل رکعتیں ادا کرتے تھے کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ شب معراج میں حسبِ استطاعت زیادہ سے زیادہ نوافل قائم کریں۔ جب مومن پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو غیب اس کے مشاہدے میں آجاتا ہے۔ ہمیں حضور پاک ﷺ کی محبت اپنی زندگی میں داخل کرنی چاہیئے۔ شب معراج بڑی بابرکت گھڑی ہے۔ اس ساعت اپنے گناہوں کی سیاہبختی دور کرکے اس پردے کو ہٹانا چاہئے جو محدودیت اور شقاوت کا باعث بن گیا ہے‘‘۔
(کتاب ’’اللہ کے محبوب ﷺ‘‘، ازخواجہ شمس الدین عظیمی۔ صفحہ 230 )

روحانی ڈائجسٹ اگست 2006 سے انتخاب

یہ بھی دیکھیں

سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ

سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون ...

کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

*….آدمی آدمی کی دوا ہے۔ *….عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کی پہلی منزل ایمان ہے۔ *….انسان ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir