Notice: WP_Scripts::localize işlevi yanlış çağrıldı. $l10n parametresi bir dizi olmalıdır. Komut dosyalarına rastgele verileri iletmek için bunun yerine wp_add_inline_script() işlevini kullanın. Ayrıntılı bilgi almak için lütfen WordPress hata ayıklama bölümüne bakın. (Bu ileti 5.7.0 sürümünde eklendi.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
مائنڈ سائنس – 3 – روحانی ڈائجسٹـ
Perşembe , 5 Aralık 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

مائنڈ سائنس – 3

مائنڈ سائنس   (3)

انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  

 

آپ اپنے Ideasکو کس طرح Materializeکرسکتے ہیں؟
مائنڈ کنڑول کے ذریعہ قوتِ فیصلہ اور عمل کی تحریک Motivation میں اضافہ کیاجاسکتاہے!
مائنڈ سائنس کے ذریعہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کیجیے!

آپ نے ایسے کئی مرد و خواتین کو دیکھا ہوگا جو کئی برسوں سے یکساں حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑے اداروں میں جاب کرنے والے کئی افراد کی طویل عرصہ سے ترقی نہیں ہوئی۔ کاروبار یا کسی پروفیشنمیں مصروف بعض افراد کا بزنس آگے نہیں بڑھ رہا ۔ ایسے اکثر لوگوں کے مشاہدے سے ترقی نہ کر پانے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ ان میں سرفہرست وجہ ہے سستی، کاموں کو ٹالنا، موقع سے بروقت فائدہ نہاٹھانا۔
ایک عقل مند اور دانا شخص اس اصول پر عمل کرتا ہے کہ آج کا کام آج ہی مکمل کرنا ہے۔ وہ آج کے کام کو کل پر نہیں ٹالتا۔
عملی زندگی کے کسی ایک شعبے میں ترقی کرنے یا یکے بعد دیگرے کئی شعبوں میں کامیابیوں کے لیے ضروری ہے کہ کاموں کو وقت مقررہ پر کرنے کی عادت ڈالی جائے ۔ کاموں کی انجام دہی کے لئے شیڈول بنایا جائے اور اس شیڈول کی حتی الامکان پابندی کی جائے ۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ بندہ کے مزاج میں سستی اور کاہلی نہ ہو اور وہ متحرک و فعال رہے ۔
سستی اور تن آسانی سے بندے میں چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت کم زور پڑ جاتی ہے ۔ سست لوگ ترقی کے مواقع ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ کامیابیاں نہ مل پانے پر ایسے لوگ منفی سوچ میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔
منفی سوچ آدمی کو محدودیت میں دھکیل دیتی ہے ۔ اس محدودیت میں گھرے کئی افراد اکثر یہ سوچتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص ان کے خلاف ہے ۔ اپنی سستی کو دور کرکے متحرک بننے کے بجائے ایسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ فلاں آدمی کی وجہ سے ترقی نہیں کر پائے یعنی ان کا ذہن الزامی روش (Accused Attitude)اپنا کر ردعمل کی نفسیات میں پھنس جاتا ہے ۔ ایسے محدود نظر افراد (Narrow Sight Person) یہ گلہ کرتے ہیں کہ انہیں مواقع نہیں ملے حالانکہ ان کے آس پاس کئی مواقع موجود ہوتے ہیں۔
کمزور ارادہ لوگ مواقع ہونے کے باوجود ترقی نہیں کرپاتے۔ قوت ارادی مضبوط ہو، بندہ روشن نظر اور فعال ہو تو وہ مشکل حالات میں بھی اپنے لیے ترقی کے بہت سارے موقع ڈھونڈ لیتا ہے۔
برسوں کے مشاہدات کے بعد میں (ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی کام کی اہلیت ہونے کے بعد زیادہ اہمیت آدمی کی قوت خیال، جرأت، درست سمت کے انتخاب اور تحریک (Motivation) کی ہے ۔
عملی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے خیال کو سمجھنا اور خیال کی قوت کو بڑھانا ضروری ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذہن میں آنے والے خیالات (Ideas)کو کتنی اہمیت دیتے ہیں….؟ کیا ہم ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ (Action Plan)وضع کرتے ہیں….؟ اگر کرتے ہیں تو اسے وقت پر پورا کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں….؟
مثلاً، کسی کو خیال آتا ہے کہ اسے اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرنا چاہیے ۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اگر وہ کسی پروفیشن سے وابستہ ہے تو اسے اپنی پروفیشنل قابلیت میں اضافے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
یہ بات اہم ہے کہ کسی کام کی انجام دہی کے لیے یا کسی کامیابی کے لیے اس وقت سے کام کا آغاز کر دینا چاہیے جس وقت یہ خیال کسی کے ذہن میں آئے۔
اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ کام کے معاملے میں ‘‘آج’’ اور ‘‘ابھی’’ کے اصول کو اپنا لیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ جوئندہ پائندہ یعنی ‘‘جو کوشش کرتا ہے، وہ پاتا ہے’’۔
واضح رہے کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے مواقع ہر شخص کو ملتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ قدرت کی نعمتیں سب کے لیے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ فرد کو اس کی فیلڈ میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے خیالات (Ideas) اور وسائل (Resources)دونوں موجود ہوتے ہیں۔ کامیابی صرف اسے ملتی ہے جو ان خیالات کو عملی شکل دیتے ہوئے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھانا سیکھ لے۔
ہر طالب علم کو امتحان کی تیاری کا خیال روز آتا ہے ۔ اکثر طالب علم یہ سوچتے ہیں کہ ‘‘آج نہیں، آج تو فلاں جگہ جانا ہے، فلاں کام کرنا ہے، میں کل سے ضرور پڑھائی کے لیے وقت نکالوں گا’’۔ وقت ضائع کرنے اور ٹال مٹول کی اس عادت کے باعث جب امتحان سر پر آ پہنچتے ہیں تو طالب علم کو گھبراہٹ اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ ٹال مٹول کی عادت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گھبراہٹ اور پریشانی کا سبب آدمی میں قوت ارادی کی کمی ہے۔
کسی بزنس مین کو خیال آتا ہے کہ اگر اس وقت فلاں کلائنٹ سے بات کر لی جائے تو کوئی بڑا پروجیکٹ حاصل کیا جاسکتاہے ۔ اگلے ہی لمحہ وہ سوچتا ہے کہ ابھی تو مجھے کوئی اور کام نمٹانا ہے میں اس کلائنٹ سے بعد میں بات کروں گا ۔ چند روز بعد اس کلائنٹ سے بات کی تو پتہ چلا کہ ایک دن پہلے ہی یہ پروجیکٹ کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔
ایسے اکثر لوگ قسمت کا زکر کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ‘‘ مجھے ایک اچھا پراجیکٹ مل جاتا لیکن افسوس کہ قسمت کی خرابی کہ میں اسے حاصل نہ کرسکا ’’۔
واضح رہے کہ پراجیکٹ حاصل نہ کر پانے کا سبب قسمت نہیں بلکہ ان کی اپنی سستی اور ٹال مٹول کی عادت تھی ۔ اپنی سستی اور بے تدبیری پر قسمت کا گلہ کرنا درست نہیں ۔
یاد رکھیے….! مواقع (Chances)کی عمر ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے۔
مواقع مختصر وقت کے لیے آتے ہیں۔ اگر ان سے فوری فائدہ نہ اٹھایا جائے تو سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مواقع سے فائدے اٹھانے کے لیے ذہانت اور معاملہ فہمی کے ساتھ آدمی کا متحرک اور فعال رہنا بھی ضروری ہے ۔
ٹال مٹول سے کام لینا ایک ایسی ذہنی کم زوری ہے جس کی وجہ سے شخصیت اور زندگی کے معاملات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ رات میں جلدی سوجانا اور صبج سویرے اٹھ جانا یعنی سحر خیزی ، وقت مقررہ پر کھانا کھانا اچھی عادات ہیں ۔ روزانہ پابندی سے ورزش کا شمار بھی اچھی عادتوں میں ہوتا ہے۔ وقت کی پابندی کرنا، وقت ضائع نہ کرنا اور ہر وقت کچھ کرتے رہنا، رات سونے سے پہلے یا دن میں کسی وقت پابندی سے مطالعہ کرنا اچھی عادات ہیں۔
نیند اور بیداری کے اوقات مقرر نہ ہونا، ہر وقت کچھ کھاتے پیتے رہنا، وقت ضائع کرنا، وقت کی پابندی نہ کرنا بری عادات ہیں۔ پان، تمباکو، سگریٹ اور دیگر مضر صحت اشیاء کی عادت کا شمار بری عادتوں میں ہوتا ہے۔ بری عادات سے چھٹکارا پانے اور اچھی عادات اختیار کرنے کے لیے آدمی کو مضبوط قوت ارادی (Strong will power) کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیے کہ آدمی کی اصلاح اور ترقی کا ہر عمل اس کی مضبوط قوت ارادی سے جڑا ہوا ہے۔ قوت ارادی کا استعمال آدمی کے ارادے سے منسلک ہے۔ یعنی پہلے ارادہ پھر سستی اور تن آسانی کی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے متحرک اور فعال بن کر عمل (Action) کرنا ۔
بری عادات سے نجات پانے کے لیے تین الف کی بہت اہمیت ہے ۔
1الف ۔ ادراک
2الف ۔ اعتراف
3الف ۔ اصلاح

 

پہلا الف – ادراک :
کسی بری عادت سے نجات یا اپنی شخصیت میں موجود کسی خامی سے چھٹکارا پانے کے لیے سب سے پہلے اس بری عادت یا اس خامی کا ادراک (Realization)ہونا ضروری ہے۔ کئی لوگ جانے انجانے میں بہت سی غلط عادات میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا ۔
اچھائی اختیار کرنے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ خود میں موجود کسی برائی، کسی خامی کا ادراک ہونا چاہیے۔ یہ ادراک از خود (Self Realization)ہوسکتا ہے یا کسی اور کے توجہ دلانے پر ہوسکتا ہے۔
علم و آگہی کی کمی ، آدمی کی صحبت یا اس کے بعض حالات اس کی کسی خامی کے ادراک میں رکاوٹ بنتےہیں ۔

دوسرا الف – اعتراف :

کئی لوگوں کو اپنی نقصان دہ عادتوں کا یا اپنی بعض خامیوں کا ادراک ہوتا ہے ۔ وہ سمجھتے تے ہیں کہ یہ غلط کام ہیں لیکن وہ اپنی غلط روش کا اعتراف نہیں کرتے ۔ اس کی مثال سگریٹ نوشی یا تمباکو کا استعمال ہے ۔ بعض سگریٹ نوش افراد کہتے ہیں کہ واقعی تمباکو صحت کے لئے نقصان دہ ہے لیکن وہ یہ اعتراف نہیں کرتے کہ انہیں بھی تمباکو سے نقصانات ہورہے ہیں یا وہ ایک بری عادت میں مبتلا ہیں ۔ دراصل اپنی کسی خامی کا اعتراف کرنے کے میں ان کی انا (Ego) رکاوٹ بنتی ہے ۔
انا کا غلبہ انہیں خود کو غلط قرار دینے سے روکتا ہے ۔ برائی سے نجات پاکر اچھائی کی طرف آنے کے عمل (Process) میں انا کا یہ غلبہ در اصل نفس کی مغلوبیت کی ایک علامت ہے ۔

تیسرا الف – اصلاح :

کچھ لوگ اپنی غلطی مان لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر سگریٹ پینے والے بعض افراد دوسروں کے سامنے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سگریٹ نوشی ایک نقصان دہ ایک عادت ہے ۔
ایسے لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم سگریٹ چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن ہم نکوٹین کی طلب پر قابو نہیں پاسکتے ۔ نشہ ہو یا دیگر کوئی نقصان دہ عادات ان سے نجات میں اسی مشکل یا دقت کا سامنا ہوتا ہے ۔
یعنی اعتراف کر لینے کے با وجود اصلاح کا عمل مشکل ہوتا ہے ۔
کسی خامی کا اعتراف کرنے میں آدمی کی بڑھی ہوئی انا رکاوٹ بنتی ہے ۔ خرابی سے نجات کے لیے اپنی اصلاح کرنے میں بندے کی قوت ارادی (Will Power) کی کمی رکاوٹ یا تاخیر کا سبب بنتی ہے ۔
ادراک ، اعتراف اور اصلاح کے ان تین الف کو ہم انگلش میں
Realization, Acceptance & Correction یعنی R.A.C کہہ سکتے ہیں ۔
واضع ہوا کہ نفس سے مغلوب انا (Arrogance) انسان کے مزاج میں رچ بس جانے والی ایک بہت بڑی خرابی ہے۔ یہ انائیت ایک طرح کی روحانی بیماری ہے۔ اس خرابی یا بیماری کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ کسی شخص میں اس کی وجہ موروثی ہوسکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی کئی عادتیں مثلاً چستی، پھرتی، سخاوت، بخیلی، بہادری، بزدلی، دریا دلی، تنگ دلی، مثبت سوچ، منفی سوچ اور دیگر کئی طرز عمل کے اسباب کسی آدمی میں موروثی طور پر پائے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ عادتیں آدمی کی خصلت (Traits) کہلائیں گی۔
ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی میں یہ عادتیں اس کے ماحول یا اس کے ذاتی مزاج کی وجہ سے آجائیں۔ ایسی صورت میں یہ کسی شخص کی صفات (Characteristics) کہلائیں گی۔ معاملہ آدمی کی خصلت کا ہو یا صفات کا دونوں طرح سے پڑنے والی عادات میں تبدیلی ممکن ہے۔
یہاں ہمیں دو صورت احوال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔
1۔ آدمی کوشش کرکے کسی بری عادت سے چھٹکارا پاسکتا ہے ۔
2۔ ماحول اور دیگر عوامل کے زیر اثر کوئی اچھی عادت کسی آدمی میں دب (Suppress)سکتی ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ بری عادت سے چھٹکارے کے لیے آدمی کو شعوری طور پر کوشش کرنا ہوگی۔ اچھی عادت کے غیر موثر ہوجانے کا سبب آدمی کا ماحول او راس کے حالات بنتے ہیں۔
واضح رہے کہ خراب عادات خواہ موروثی ہوں یا اکتسابی کوشش کرکے ان سے چھٹکارا پا یا جاسکتا ہے۔
بری عادتوں سے چھٹکارے اور اچھی عادت اختیار کرنے کے لیے قوت ارادی مضبوط ہونا لازمی ہے۔ قوت ارادی میں کمی کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک کم زوری (Weakness)ہے۔ اس کم زوری کو کسی کمی سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے ۔
مثال کے طور پر کیلشیئم کی کمی (Deficiency)سے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ اس درد سے نجات کے لیے دواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی نہیں بلکہ غذاؤں سے یا سپلیمنٹ سے کیلشیئم کی کمی دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
قوت ارادی (Will Power)میں کمی دور کرنے کے لیے مناسب تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔
انا کی مغلوبیت کا تعلق ایک بہت برے اور شدید منفی جزبے تکبر سے ہے۔
تکبر انسانوں میں کئی روحانی بیماریوں کا سبب اور بہت ساری خرابیوں کی بنیاد ہے۔
اگر منفی جذبوں کو ایک درخت سے تشبیہہ دی جائے تو تکبر اس درخت کی جڑ ہے۔ خود پسندی ، انا کا غلبہ، ریاکاری، دوسروں کو حقیر سمجھنا، کسی کا حق مار کر خوشی محسوس کرنا، دولت اور شہرت کی ہوس، اذیت دینا، بدخواہی کو اس درخت کی شاخوں ، ٹہنیوں اور پتیوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

نفس سے مغلوب انا اور تکبر کی ایک علامت ، فرعون

 

Bir yanıt yazın

E-posta adresiniz yayınlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir