Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

احساسِ کمتری کے حصار کو توڑیں

Inferiority Complex

میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔ جی لگا کے پڑھتی بھی ہوں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب کلاس میں ٹیچر کوئی سوال کرتی ہیں تو جواب نہیں دے پاتی۔ حالانکہ مجھے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن  زبان بند ہوجاتی ہے۔

دراصل احساس کمتری کی علامتیں ہیں۔

کمتری کا احساس پیدائشی نہیں ہوتا۔  ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اپنے اردگرد کے لوگوں پر نمایاں مقام اور حیثیت حاصل ہو یا پھر کم از کم وہ ان لوگوں کی برابری کی سطح پر ہو ۔

احساس کمتری خود کو کسی سے کم تر سمجھنے، کسی محرومی کا شکار ہونے، اور خود ترسی میں مبتلا ہونے کا نام ہے۔ یہ کیفیت زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات سے تعلق رکھتی ہے۔

کچھ افراد کا ناخوشگوار یا محرومیوں بھرا بچپن انہیں احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے، جبکہ کچھ زندگی میں کوئی بڑا مالی یا جذباتی نقصان اٹھانے کے بعد اس کیفیت میں پھنس جاتے ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ خود ترسی اور احساس کمتری دماغی کارکردگی اور صلاحیتوں کو بریطرح متاثر کرتا ہے۔ یہ دراصل کسی شخص کو ہمیشہ منفی پہلو کی طرف متوجہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اندر یا اپنے ارد گرد موجود مثبت چیزوں کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔

احساس کمتری کی کیفیت  سات سال کی عمر سے پہلے نہیں ہوتی۔  سات سال کے بعد انسان میں اس بات کا شعور بیدار ہوتا ہے کہ اس کی اردگرد کے لوگوں میں کیا حیثیت ہے….؟فرض کریں سات سال کی عمر میں کسی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کے والدین اس کے دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت اس پر کم توجہ دیتے ہیں یا وہ اس  کو دوسروں کی نسبت کند ذہن اور بےوقوف خیال کرتے ہیں وہ بار بار اس  کو اس کا احساس بھی دلاتے ہیں جس پر وہ اکثر   اداس ہوجاتا ہے۔  اس صورت میں جو کیفیت طاری ہوتی ہے اسی کو احساس کمتری کہتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر والدین نے اس پر توجہ نہ دی تو یہ احساس بڑھتا چلا جائے گا۔ وہ شخص خیال کرنے لگتا ہے کہ اب وہ چاہے کچھ بھی کرلیں۔ اپنے والدین یا دیگر گھر والوں کی نظروں میں ایک اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر پائے گا، اسے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس  نے کوئی جرم کیا ہو اور اب زندگی انتہائی فضول سی شے ہے۔

یہی سوچ اور احساس اکثر اوقات کئی نفسیاتی عوارض کا سبب بن جاتے ہیں۔ بعض افراد میں احساس کمتری کے باعث دانتوں سے ناخن کاٹنے کی عادت پڑ جاتی ہے بعض بات بات پر چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں اور بہت سے ہر وقت روتی صورت بنائے پھرتے ہیں جبکہ بہت سوں کو رات کو ڈراؤنے اور بھیانک خواب آنے لگتے ہیں۔

یہ سوچ اکثر غلط ہوتی ہے کہ والدین کو محبت نہیں یا وہ دیگر بہن بھائیوں کے مقابلے میں کسی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔  اس غلط سوچ پر یقین کے باعث کئی لوگ اپنی زندگی کو بلاوجہ غیرضروری پریشانیوں اور تناؤ سے بھر دیتے ہیں اور پھر ان حالات سے باہر نکلنا نا صرف مشکل بلکہ اکثر ان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔

ضرورت سے زائد جارحیت پسندی اور ضرورت سے زائد انکساری…. دونوں ہی غیر دانش مندانہ ہیں۔  احساس کمتری سے چھٹکارا پانے کا بہترین حل لوگوں میں زیادہ سے زیادہ گھلنا ملنا ملاقاتیں کرنا اور نئے نئے دوست بنانا ہے۔زندگی کی مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کسی مسئلے کا حل نہیں۔

احساسِ کمتری میں مبتلا افراد کے لیے ایک تنقیدی جائزہ بہتر ہوگا۔  ٹھنڈے مزاج سے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی والدین اپنی اولاد سے محبت نہ کرتے ہوں یا وہ اپنی کسی اولاد پر دیگر بچوں کی نسبت کم توجہ دیتے ہوں یا اسے کم پسند کرتے ہوں….؟

ہرگز نہیں!

یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی  اس دنیا کی سب سے کند ذہن اور احمق ترین ہستی ہو۔

یاد رکھیے! اس دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک احمق اور بےوقوف پڑا ہے ایسے نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جو عقل میں، شکل و صورت میں اور مالی حالات میں دوسروں سےانتہائی کم تر ہوں گے۔  ان باتوں پر یقین کرنے سے خوداعتمادی کا جذبہ مضبوط  ہورہاہے اور شخصیت میں قابل قدر اور قابل توجہ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ احساس کمتری میں مبتلا اکثر لڑکیاں شادی کے بعد اس کیفیت سے نجات حاصل کرلیتی ہیں۔  ان میں خود اعتمادی اور خود پسندی کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں ایک بےپناہ پیار کرنے والا شوہر مل جاتا ہے جو انہیں قدم قدم پر یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کی حیثیت کتنی اہم ہے ۔ ان کی بیوی ان کے لیے کتنی ضروری ہے اور اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لیے زندگی گزارنی کتنی مشکل اور دشوار ہوتی۔شوہر کی طرف سے اپنے لیے یہ ریمارکس احساس کمتری میں مبتلا کسی بھی لڑکی کے لیے توانائی کا کام کرتے ہیں۔  انہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کی اپنے بارے میں جو رائے تھی وہ غلط تھی وہ اتنی کمتر اور کم حیثیت کی حامل ہرگز نہیں جتنا وہ سمجھتی تھیں۔  یہی سوچ کئی خواتین میں احساس کمتری کے اثرات زائل کرنے کا سبب بن جاتی ہے اور ان میں خود اعتمادی اور خود پسندی پیدا ہونے لگتی ہے۔

احساسِ کمتری  کا روحانی علاج

n

احساس کمتری ایک ایسا جذبہ ہے جس میں آدمی بات بے بات رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے اور معمولی سےمعمولی بات کو اپنے لئے پریشانی بنا کر افسردہ دل ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی کے اندر قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے۔کمزور قوت ارادی کی وجہ سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔ بار بار ایسا ہونے سے آدمی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔  جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم کسی شخص کے سامنے نہیں جا سکتے ، بات نہیں کر سکتے ، ہم دوسرے لوگوں سے کمتر ہیں یا دوسرے لوگ ہم سے کمتر ہیں۔ یہ سب باتیں کمزور قوتِ ارادی کی عکاسی کرتی ہیں۔  احساس کمتری ایک مرض ہے جو ناآسودہ خواہشات سے پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر آدمی اس قسم کے خیالات میں گھرا رہتا ہے کہ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا، گھر یا معاشرے میں میری کوئی وقعت نہیں۔ ماں باپ دوسرے بہن بھائیوں کو چاہتے ہیں اور مجھے ہر قدم پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص اپنی بات دوسروں سے منوانے کے لئے تیز لہجہ استعمال کرتا ہے اور بات بے بات غصہ کرتا ہے۔ نتیجہ میں جو لوگ فی الواقع اس سے محبت کرتے ہیں اس کے بے اعتدال طرز عمل کی وجہ سے اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بچے کی والدہ یا والد کا انتقال ہو گیا یا دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بہن بھائیوں نے حق تلفی کی تو بھی احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ بڑا ہونے پر اس پر اللہ تعالیٰ کا کتنا ہی انعام ہو جائے لیکن وہ احساس کمتری سے نہیں نکلتا۔ اور وہ ایسی ایسی باتیں دہراتا ہے کہ جس سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا مرض ہے جس سے وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور دوسرے لوگ بھی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔  طرز فکر صحیح ہو یا غلط دونوں کا تعلق دماغ  کے ان خلیوں سے ہے جو زندگی میں کام آنے والے جذبات کو تخلیق کرتے ہیں۔ اور جذبات آدمی کی قوتِ ارادی کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لئے جب کسی انسان کے اندر جذبات اس  کے ارادہ کے تابع نہیں رہتے تو اس کی زندگی میں خلا واقع ہو جاتا ہے۔ اس خلا کا دباؤ ہی دراصل احساس کمتری کی صور ت میں ظاہر ہوتا ہے۔نہایت آسان اور سہل علاج یہ ہے کہ آدمی ہر وقت باوضو رہے۔ باوضو رہنے میں اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ بول و براز یا  اخراجِ ریاح کے قدرتی عمل کو روکا نہ جائے کیونکہ ا س سے بھی دماغ پر زور پڑتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر دوبارہ وضو کر لیا جائے۔

روحانی علاج:

 ہر نماز کے بعد سو مرتبہ یَا اَللّٰہُ پڑھنے سے قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ غیر مستقل مزاجی دور ہو جاتی ہے اور بگڑے ہوئے حالات درست ہو جاتے ہیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَ لرَّضَاعَتُ عَمَا نَوِیْلُ 

…. 3مرتبہ   پڑھ کر پانی پر دم کر کے پئیں۔ دن میں 3 مرتبہ  ایک چمچ شہد کھائیں اور اس پر بھی الرضاعت عمانویل پڑھ کر دم کریں۔

مراقبہ:

 آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں۔ آنکھوں پر سیاہ روئیں دار کپڑے کی پٹی باندھ لیں اور دل میں یہ الفاظ بار بار دہرائیں۔ میرے ماحول میں ہر چیز دلفریب اور خوش گوار ہے۔ میں کسی سے کمتر نہیں ہوں۔ میں جو چاہوں وہ کر سکتا ہوں۔ یہ عمل روزانہ پندرہ منٹ تک کریں۔100 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ کر مراقبہ کریں۔ مراقبہ میں یہ تصور کیا جائے کہ آسمان سے سبز روشنی آ رہی ہے اور میرے اوپر پڑ رہی ہے۔ مراقبہ فجر کی نماز پڑھنے سے پہلے بیس منٹ تک کیا جائے۔  12 9xانچ پکے سفید شیشے پر نیلا رنگ پینٹ کر کے وقفہ وقفہ سے دیکھیں۔ 

طبی علاج:

 جوارش شاہی بہ نسخہ کلان 6۔6 گرام صبح شام کھائیں۔  ناشتہ میں اور رات کو کھانے کے بعد عمدہ قسم کی 2۔2کھجوریں کھائیں۔  احساس کمتری کی وجہ سے اعصابی کمزوری دور کرنے کے لئے حب یاقوت ایک ایک گولی ناشتہ کے بعد اور سوتے وقت کھائیں۔

رنگ و روشنی سے علاج:

افسردہ دلی اور ہر وقت رنج وغم میں مبتلا رہنا۔ اس کے لئے سرخ رنگ بہت مفید ہے کیونکہ اس سے شجاعت اور مردانگی پیداہوتی ہے۔ نیز نارنجی رنگ بھی جس سے دل کی پریشانی دورہوکر سکون ملتاہے، استعمال کیاجاتاہے۔ ایسے مریضوں کو زیادہ ترلال رنگ کے کپڑے پہننے چاہئیں۔ سونے کے کمرے میں پردے بھی سرخ ہوں۔ البتہ پلنگ کی چادریں، تکیہ کے غلاف نارنجی رنگ کے ہونے چاہئیں  اور ایک چھوٹی سی ٹوکری میں نارنگیاں بھرکے کمرے میں رکھ لی جائیں اور روزانہ نارنگیوں پر چند منٹ نگاہ کومرکوز رکھا جائے ۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے اٹھتے ہی ایک بڑے آئینے کے سامنے تن کر کھڑے ہوکر اپنے سراپا پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جائے اوردوتین منٹ تک آہستہ آہستہ دل میں یہ الفاظ دہرائے جائیں۔

ہر چیز دلفریب اورخوشگوارہے،

میں کسی سے کمترنہیں ہوں،

جو چاہوں وہ کر سکتاہوں۔

یہ عمل کرنے کے بعد چندمنٹ تک کمرے میں چہل قدمی کی جائے اور پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر وہی عمل دوہرایاجائے۔ اس طرح یہ عمل روزانہ تین دفعہ کیا جائے تو دس پندرہ روزمیں  احساسِ کمتری کی تمام شکایتیں رفع ہو جائیں گی۔

از خواجہ شمس الدین عظیمی

یہ سچ ہے کہ احساس کمتری کا علاج یا اس سے نجات اس قدر آسان نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی سست رفتار اور وقت طلب کام ہے ۔  بچپن میں پیدا ہونے والا یہ احساس اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا لیکن قوت ارادی اور خود اعتمادی سے اس کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔

آج ہم احساس کمتری سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر وقتی طور پر حاوی ہونے والے محرومی کے احساس سے تو نمٹا جاسکتا ہے،  تاہم اگر کوئی  بچپن سے اس کیفیت میں مبتلا ہے تو ایک طویل المدتی حکمت عملی اور مثبت طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہوگی۔

اپنی پیٹھ تھپتھپائیں

احساس کمتری کا میں مبتلا افراد کے لیے اپنی تعریف کرنا سب سے زیادہ ضروری عمل ہے کیونکہ ان کی زندگی میں اسی چیز کی کمی ہوتی ہے۔ دن کے اختتام پر اپنے دن بھر کے معمولات پر نظر ڈالیں اور ان کاموں کی تعریف کریں جن کی وجہ سے دوسرے آپ سے خوش ہوئے۔

یاد رکھیں ….!بعض دفعہ آپ ذاتی یا عملی زندگی میں ایسے افراد سے بھی گھرے ہوتے ہیں جو آپ سے حسد کرتے ہیں، ایسے لوگ آپ کے اچھے کاموں اور کامیابی پر  بھی ہمیشہ تنقید کرتے رہیں گے لہٰذا آپ کو خود اپنے اچھے کاموں کو محسوس کرنا اور ان پر اپنی پیٹھ تھپکنی ہے۔ اپنے آپ کو بہتر سمجھیں لیکن خیال رکھیں کہ یہ احساس، احساس برتری میں تبدیل نہ ہو جو احساس کمتری سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

سوشل میڈیا کا عمل دخل کم

متعدد تحقیقات میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکتے ہوئے لوگ اپنی زندگی کا اس سے موازنہ کرتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنی زندگی کی نادیدہ محرومیوں کا احساس ہوتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ہر اچھی شے واقعی اچھی نہیں ہوتی۔ خصوصاً یہاں دکھائی دینے والے خوبصورت چہرے فوٹو شاپ اور فلٹرز کا کمال ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنی زندگی کو خوش باش اور بہترین پیش کرنے والے افراد بھی بعض اوقات حقیقت میں نہایت پریشان اور ناخوش ہوتے ہیں لہٰذا کبھی بھی کسی کی زندگی کا اپنی زندگی سے تقابل نہ کریں۔

مشغلہ تلاش کریں

اگر آپ ایک لگی بندھی گھر سے دفتر، اور دفتر سے گھر کی زندگی کے عادی ہیں تو اس معمول میں تبدیلی لائیں۔ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں اور مشغلوں کو اپنائیں۔ مختلف کھیل، تخلیقی کام، کھانا پکانا، گھر سجانا، باغبانی، رضا کارانہ خدمات یا ایسے کام جن کی طرف آپ کا رجحان ہو، اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اپنے ہم مشغلہ افراد سے ملیں۔ ان لوگوں سے گفت و شنید اور میل جول سے آپ کے خیالات میں نیا پن پیدا ہوگا۔  آپ کو آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔

غلطیوں سے سیکھیں

دنیا کا ہر شخص غلطی کرتا ہے لیکن اس غلطی سے سبق سیکھ کر دوبارہ نہ دہرانے کی صلاحیت چند لوگوں میں ہی ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام عظیم شخصیات اگر ابتدائی زندگی میں غلطیاں نہ کرتیں اور اس سے سبق نہ سیکھتیں تو وہ کبھی کامیابی کے اونچے درجے پر فائز نہ  ہوتیں۔

غلطیاں کرنا  صلاحیتوں اور کارکردگی کو بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے۔ اپنی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کریں، اگر ممکن ہو تو اسے درست کریں ورنہ اسے ایک سبق کے طور پر یاد رکھیں۔

یاد رکھیں ….!غلطی تسلیم نہ کرنا شخصیت کی خامی ہے، لیکن غلطی کو تسلیم کرکے طویل وقت تک اپنے آپ کو اس کے لیے مورد الزام ٹہراتے رہنا بہترین شخصیت کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔

مثبت انداز فکر

مثبت رخ پر سوچنا زندگی کے بہت سے مسائل کو کم کر سکتا ہے۔ ہر نقصان اور ہر برائی سے کوئی بہتری تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اپنی ناقابل تلافی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھی اس لیے بہتر جانیں کہ وہ آپ کو اچھا انسان بننے اور بہتر زندگی کی طرف جانے میں مدد دیتی ہیں۔ 

سیلفش نہ بنیں

ہر وقت اپنے بارے میں نہ سوچیں۔ دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچیں۔  ان کے دکھ درد میں ان کے کام آئیں۔  ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کریں ۔  دوسروں کو اپنا بنانے کی کوشش کریں۔  ان کی توجہ حاصل کریں۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

شکریہ ۔ قسط 9

    انیسویں صدی میں دو دوست برک اور ہئر گزرے ہیں ۔ انہیں ایک ...

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir