بے شک، تندرستی ہزار نعمت ہے!
چھٹا دن
ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے لئے نظر انداز کردیتے ہیں۔ مستقبل کے لئے فکر صرف اورصرف پیسے سے وابستہ کئے رکھتے ہیں۔ پیسے کے لئے جھوٹ بھی بولتے ہیں ، لڑتے بھی ہیں اور قتل بھی کردیتے ہیں۔ پیسے کے لئے کسی کا نقصان کرنے سے نہیں چوکتے ۔ اچھے برے کا فرق بھول جاتے ہیں۔ عزت و فخر کا معیار پیسے پر رکھتے ہیں۔ اس پیسے کی دوڑ میں جب صحت ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے تو پھر اسی پیسے کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ گھر، کاروبار، بینک بیلنس سب بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اُس وقت احساس ہوتاہے کہ صحت کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم نے اِ س صحت کے لئے کبھی شکر تک ادا نہیں کیا اور اگر کبھی کیا بھی تو اتنا سرسری طور پر کہ جیسے کسی بے معنی چیز کے لئے شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ صحت کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب یہ ہمارے پاس نہیں ہوتی۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ جس کے پاس صحت نہیں اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ہم یہ سب جانتے تو ہیں لیکن جونہی صحت بحال ہوتی ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس خزانے سے مالا مال کیا ہوا ہے۔صحت وہ تحفہ ہے جو ہمیں ہر روز ملتا ہے اور ملتا ہی رہتا ہے۔اس کی قدر اسلئے نہیں کرتے کہ اللہ رب العزت نے تحفے میں دے دی ہے، یہی صحت جب ہاتھ سے نکل رہی ہوتی ہے تو دنیا کی ہر نعمت ، ہر رشتہ،ہر خوبصورتی حقیرلگنے لگتی ہے۔
Gold that buys health can never be ill spent.
-[Thomas Dekker, Westward Ho, 1604]‘‘جو صحت سونے کے عوض خریدی جاتی ہے، وہ بے دردی سے ضائع نہیں کی جاسکتی’’۔ [تھامس ڈیکر]
ہم کسی کی تھوڑی سی مدد کرتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوجا ئیں تو اِن احسانات کاڈھنڈورا ضرور پیٹتے ہیں۔ اگر وہ شخص کمزور ہو تو اسے ذلیل ، اگر زیادہ طاقتور یا اثرورسوخ رکھتا ہو تو ہر جگہ اس کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اللہ نے صحت کی صورت میں ہم پر نوازشات کی بارش کردی اور کبھی احسان تک نہیں جتایا ۔ لیکن ہم ہیں کہ دل سے اس کی عنایات کا شکریہ ادا نہیں کرتے ، یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر صحت کے لئے اس کا شکر ادا کریں گے توہ صحت کو مزید اچھا کردے گا۔ کیونکہ یہ وعدہ اس رب کا ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہے۔
جیسے جیسے صحت کے معاملے میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا جذبہ بڑھتا جائے گا،آپ کی صحت میں روز افزوں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔جسم میں چستی اور تر و تازگی آجائے گی۔ ہر صبح کی ابتداء پر سکون ذہن کے ساتھ ہوگی ۔جسم کچھ بھی کرنے کیلئے خوشی خوشی تیار ہوگا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر ترو تازگی محسوس کریں گے ۔ شام میں جب آپ اپنے رشتے داروں کے ساتھ بیٹھیں گے تو انہیں خوشگوار احساس دیں گے۔ دوستوں میں آپ کے آنے سے ماحول اچھا ہو جائے گا کیونکہ آپ جسمانی طور پر اتنے صحت مند ہوں گے کہ لوگ آپ کو دیکھ فریش ہوجائیں گے۔اگر صحت کی قدر نہیں کی، اس کے لئے شکر گزاری کے جذبات پیدا نہیں ہوئے تو آپ لوگوں کے لئے اُلجھن اور بوجھ بنتے جائیں گے۔
شکر گزاری ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی آنکھوں کی بینائی ، قوت سماعت اور پورے جسم کے افعال کو بہتر بناسکتے ہیں۔ عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ
من يملك الصحّة يملك الأمل،
ومن يملك الأمل يملك كل شيء
‘‘صحت مند شخص پُر امید ہوتا ہے؛ اور جس کے پاس امید ہوتی ہے اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔’’ [عربی کہاوت ]
اسی بات کو مشہور مشتشرق تھامس کارلائل نے بھی اپنے الفاظ میں کہا ہے۔
He who has health has hope; and he who has hope has everything. -[Thomas Carlyle]
‘‘جس کے پاس صحت ہے اس کے پاس اُمید ہے اور جس کے پاس امید ہے اس کے پاس سب کچھ ہے’’۔ [تھامس کارلائل]
یہ کہاوت کچھ اس طرح بھی بیان کی جاتی ہے کہ
مَن كانَ لَديه أَمَلٌ، صارَ لَديه كُلُّ شيء
‘‘جس کے پاس امید ہے اس کے پاس سب کچھ ہے’’ [عربی کہاوت ]
جس شدت اور دل کی گہرائی کے ساتھ شکر ادا کیا جائے گا اسی تناسب سے صحت بہتر ہونے لگے گی۔
انٹر نیٹ کے کسی بھی سرچ انجن پر دیکھ لیں، متعدد سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بے شمار بیماریوں کی وجہ ذہنی تناؤ اور ٹینشن ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ شکر گزاری سے کام لیتے ہیں وہ ذہنی دباؤ سے زیادہ تیزی سے نجات پالیتے ہیں ۔
اپنی ٹانگوں کے متعلق سوچیں، آپ کی بنیادی سواری۔ اُن تمام کاموں کے بارے میں غور کریں جو صرف اور صر ف ٹانگیں ہونے کی وجہ سے ممکن ہیں۔ آپ کھڑے ہوسکتے ہیں ، بیٹھ سکتے ہیں، ورزش کرسکتے ہیں ،بلندی پر چڑھ سکتے ہیں، گاڑی چلاسکتے ہیں اور سب سے بڑا معجزہ چل سکتے ہیں۔ اِنہی ٹانگوں کی وجہ سے آپ اپنے گھر میں چل پھر لیتے ہیں ، باتھ روم اور کچن میں چلے جاتے ہیں، باہر گھوم پھر کر آجاتے ہیں۔ آپ گھاس کی نرمی، فرش کی ٹھنڈک اور ساحل کی نمی اِن قدموں کے ذریعہ ہی محسوس کرلیتے ہیں۔ اِنہی قدموں پر آزادی سے چل کر زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ تو پھر آج دل کی گہرائیوں اور محبت سےکہیں :
‘‘میری ان ٹانگوں اور قدموں کے لئے شکریہ ’’
اپنے بازؤں اور ہاتھوں کے متعلق سوچیں کہ دن بھر میں ان کی مدد سے آپ کتنے ہی کام کرتے ہیں۔ یہ ہاتھ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا اوزار ہیں۔ جن سے آپ دن بھر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کام لے رہے ہوتے ہیں۔ اِن سے آپ کھاتے ہیں، نہاتے اور کپڑے پہننے میں مدد لیتے ہیں ۔ فون اور کمپیوٹربھی انہی کی بدولت استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہاتھ نہ ہوں تو آپ کتنے ہی کاموں کے لئے دوسروں کے محتاج ہوجائیں ۔ اِن ہاتھوں کی اہمیت کا اندازہ بھی اُس وقت ہوتا ہے جب ان میں کوئی زخم یا فریکچر ہوجائے، ہر کام مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کے لئے بھی محبت اور دل کی گہرائیوں سے کہیں ۔
‘‘میرے بازؤں ، ہاتھوں اور انگلیوں کے لئے شکریہ ’’
اپنے سینسز (حواس) کے متعلق بھی سوچیں اگر یہ حواسِ خمسہ نہ ہوتے تو آپ زندگی کی کتنی بڑی لذتوں سے محروم ہوجاتے ، مثلاً چکھنے کی حس۔ چکھنے کی حس کمزور ہوجاتی تو ہم دنیا بھر کے کھانوں اور مشروبات کے ذائقوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اچھا کھانا ہمارے مزاج کو تبدیل کردیتا ہے۔ اس کے لئے بھی دل اور محبت سےکہیں۔
‘‘حسِ ذائقہ Sense of Tasteکے لئےشکریہ’’
سونگھنے کی حس کے متعلق تو سوچیں کہ اگر یہ حس نہ ہوتی تو کتنی ساری خوشبودار نعمتوں سے محروم رہ جاتے۔مثلا پھولوں ، پرفیومز ، مٹی کی خوشبو جب اس پر بارش کے قطرے گرتے ہیں۔ اگر یہ حس نہ ہوتی تو گرمیوں کی شاموں ، ساحل کی لہروں، گرم گرم روٹیوں اور سخت سردیوں میں کمبل میں بیٹھ کر ڈرائی فروٹ کی مہک کیسے محسوس کرتے۔
‘‘سونگھنے کی قوت کے لئے بہت بہت شکریہ’’
اگر چھونے اور محسوس کرنے کی حس نہ ہوتی تو آپ چیزوں کے ٹھنڈااور گرم ، نرم اور سخت یا چکنا اور کھردرا ہونے کے احساس سے کبھی آشنا نہ ہو پاتے۔ کسی کے چھونے، پیارکرنے، گلے لگانے کے جذبے کو جان ہی نہیں پاتے۔ اگر محسوس کرنے کی حِس مرجائے تو انسان کی زندگی مشینی ہوکر رہجائےگی۔ لہذا
‘‘محسوس کرنے کی حس پر بہت بہت شکریہ’’
ہم جانتے ہیں کہ ہیلن کیلر Helen Keller نابینا تھیں۔ وہ اپنے مضمون ‘‘بینائی کےتین دن ’’ (Three Days to See) میں لکھتی ہیں کہ
I have often thought it would be a blessing if each human being were stricken blind and
deaf for a few days at some time during his early adult life. Darkness would make him
more appreciative of sight, silence would teach him the joys of sound. -[Helen Keller]‘‘میں سوچتی ہوں کہ دنیا میں ہر شخص اگر کچھ دنوں کے لئے اندھا اور بہرا ہوجائے تو پھر اس کو اس نعمت کا احساس ہوگا ۔ وہ جن چیزوں کو روز دیکھتا ہے اورانہیں دیکھے بغیر یا محسوس کئے بغیر گذر جاتا ہے ، ان کی اہمیت کا احساس ہوگا،اور جب نظر نہ آرہا ہو تو چیزوں کو چھوکر ان کی خوبصورت آوازاور لمس سے جو رابطہ بنتا ہے وہ محسوس کرے گا’’۔ [ہیلن کیلر]
پھر وہ مزیدلکھتی ہیں کہ
Recently I asked a friend, who had just returned from a long walk in the woods, what she had observed.
“Nothing in particular,” she replied.
How was it possible, I asked myself, to walk for an hour through the woods and see nothing worthy of note?
I who cannot see find hundreds of things to interest me through mere touch. I feel the delicate symmetry of a leaf. I pass my hands lovingly about the smooth skin of a silver birch, or the rough, shaggy bark of a pine. In spring I touch the branches of trees hopefully in search of a bud, the first sign of awakening Nature after the winter’s sleep. Occasionally, if I am very fortunate, I place my hand gently on a small tree and feel the happy quiver of a bird in full song. -[Helen Keller]‘‘ میں نے ایک دوست سے جو جنگل کی سیر کر کے لوٹی تھی ، پوچھا، ‘‘تم نے وہاں کیا کیا دیکھا ’’، اس نے نہایت لاپرواہی سے کہا ‘‘کچھ خاص نہیں’’۔
میں حیران سوچتی رہی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک گھنٹہ جنگل میں گھومتا رہے اور کچھ بھی خاص نہ دیکھے’’۔ جبکہ میں جو نابینا ہوکر ایسی سینکڑوں چیزوں کو چھو کر محسوس کرسکتی ہوں ، اپنے ہاتھوں میں ننھے پتوں کی نازک جسامت کو محسوس کرتی ، برچ کی ہموار ٹہنیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گزرتی۔ یا صنوبر کی سخت اور کھردری چھال کو محسوس کرتی۔
بہار کے موسم میں درخت کی شاخوں کو چھوتی کہ شاید کوئی کونپل ہاتھ آجائے، جو موسم سرما کے بعد فطرت کے جاگنے کا پہلا اشارہ ہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے چھٹے لہلہلاتے سبز پودوں کو تھام لیتے اور ان کی جننش میں درختوں پر محو نغمہ پرندوں یا ہوا کے سرسرانے کی موسیقی بھری آواز کو سنتی ۔ ’’۔ [ہیلن کیلر]
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے اور لوگ ان کی طرف سرسری نظر کرکے گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آنکھوں کی اہمیت ہم اس طرح نہیں جان پائے جس طرح ہیلن کیلر یا کوئی اور نابینا شخص جان پاتا ہے۔
یہ آنکھیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اِن سے آپ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے چہرے دیکھتے ہیں۔ قدرت کے حسین مناظر دیکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے راستے خود دیکھتے ہیں۔ یہ آنکھیں وہ دولت ہیں جو کوئی بھی شخص دنیا بھر کی دولت لٹاکر بھی خریدنے کو تیار ہوگا۔
یہ آنکھیں آپ کو بغیر کسی قیمت اور محنت کے مل گئی ہیں۔
‘‘اِن آنکھوں کے لئے بہت بہت شکریہ ۔’’
اپنی قوتِ سماعت کے لئے بھی شکریہ ادا کریں اور ان سب کے منبع کا بھی شکریہ ادا کریں جس کی بدولت آپ ان تمام حسیات کو استعمال کرتے رہتے ہیں یعنی دماغ۔ دنیا کی کوئی ایجاد اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
‘‘اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزاری کرو’’۔ [سورۂ نحل:آیت 78]
آپ ایک کاغذ یا کارڈ لیں اور اس پر بڑا بڑا لکھ لیں ۔
اس کارڈ کو دن بھر اپنے ساتھ رکھیں اور کسی ایسی جگہ لگادیں جہاں آپ کی نظر بار بار اس پر پڑتی رہے۔ جہاں کام کرتے ہیں، اگر میز ہے تو اس پر رکھ دیں ۔ اگر آپ ڈرائیور ہیں تو گاڑی میں ایسی جگہ رکھیں جہاں بار بار نظر پڑتی رہے۔ اگر آپ کا زیادہ تر وقت گھر ہی میں گزرتا ہے تو جہاں فون رکھا ہو یا سائیڈ ٹیبل وغیرہ پر کھ دیں۔ مختصر یہ جہاں نظر بار بار پڑے وہاں اسے رکھ دیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی آپ کی نظر اس پر پڑے گی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے گی۔
آج کم از کم چار مرتبہ دن کے مختلف اوقات میں اس کارڈ پر لکھے گئے ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کریں۔شکر گزاری کی مدد سے ہم اپنی صحت کو حیرت انگیز طور پر بہتر کرسکتے ہیں اور اگر یہ بات ڈاکٹرز بھی سمجھ لیں اور مریضوں کوصحت یابی کے لئے شکر گزاری کی اہمیت بھی بتاتے رہیں تو روایتی طریقہ علاج میں انقلاب پیدا ہوجائے۔
انسان کو جو احساس کسی سے محبت کرنے اور کسی کی محبت حاصل کرکے ہوتا ہے وہ احساس اُس شخص کو حاصل ہوہی نہیں سکتا جس نے کسی سے اور جس سے کسی نے محبت نہ کی ہو ۔
انسان کو جو خوشی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی بے تکلف اور قہقہوں سے بھرپور محفل میں ملتی ہے اس کا اندازہ وہ شخص کبھی لگانہیں سکتا جو ان رشتوں سے محروم ہو، انسان کو جو لذت کسی ضرورت مند کی مدد کر کے، اُسے کھانا کھلا کر حاصل ہوتی ہے اس کا اندازہ ایک خو دغرض شخص نہیں کرسکتا۔ انسان کو جو طمانیت اپنے کسی کام یا تخلیق کے سراہے جانے سے ہوتی ہے اس کے متعلق ان لذتوں سے تہی دست شخص کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔
ان تمام ذائقوں سے آشنا ہونے کے لئے لوگوں کاہونا ضروری ہے۔ ہم اِس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں اور اگر اکیلے ہوتے تو زندگی بے نام ہوکر رہ جاتی ۔
کوئی تصویر بنانے کا کیا فائدہ ہوتا جب کو ئی دیکھنے والا نہ ہوتا۔ کوئی گیت ترتیب دینے کا کیا فائدہ ہوتا جب کوئی سننے والا نہیں ہوتا ۔ کسی ایجاد کا کیا مقصد ہوتا جب کوئی استعمال کرنے والا نہ ہوتا۔ زندگی کے تمام رنگ پھیکے پڑجاتے ۔
بیمار ہونے کا کیا فائدہ جب کوئی تیمارداری کرنے والا نہ ہو۔
زندگی کو بھر پور انداز سے وہی لوگ جیتے ہیں جن کے تعلقات رشتے داروں ، دوستو ں اور دیگر لوگوں سے خوشگوار اور دلچسپ ہوتے ہیں ۔ شاندار اور پر جوش زندگی گزارنے کے لئے رشتوں کو سمجھنا اور ان کو نبھانا آنا چاہئے۔
سائنسی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رشتوں کی خرابی یا اچھائی کا دار و مدار صرف اور صرف ایک بات پر ہے اور وہ ہے شکر گزاری۔ جن رشتوں میں شکر گزاری کا عنصر موجود ہو، لوگ مثبت باتوں پر زیادہ توجہ دیں ایسے رشتے ہمیشہ دوستی ، محبت ، اپنائیت ، سکون اور قربانی کے جذبات سے مزین ہوتے ہیں ۔
ان لوگوں کو بتانا نہیں پڑتا کہ وہ کتنے خوش ہیں بلکہ خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹتی ہے۔ جس گھر میں محبت ہوتی ہے وہاں عزت، دولت اور کامیابی خوشی خوشی رہنا پسند کرتے ہیں ۔
اس کے بر عکس جن رشتوں میں نا شکری کے جذبات پائے جاتے ہیں وہاں وحشت نا صرف درو دیوار بلکہ ہر فرد کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔
یہاں ناشکری کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ناشکری سے مراد تمام منفی خیالات یا الفاظ ہیں یعنی چاہے آپ کسی کے منہ پر اس کی تذلیل کر رہے ہوں یا پیٹھ پیچھے اس کی برائی کر یں ، نا شکری ہے۔
اپنی مرضی کے کام نہ ہونے پر لڑ نا یا جو کام آپ کی آسانی کے لئے کئے جارہے ہوں اُن کا شکریہ ادانہ کرنا بھی نا شکری ہے۔
ہم دوسروں کی غلطیوں کی اصلاح کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن جو کام اچھے ہورہے ہوں ان پر شکریہ ادا کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں ۔ غیبت، تنقید ، الزام تراشی، غصہ یا تذلیل کرتے ہوئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ حالات ہماری مرضی کے مطابق ہوجائیں ، سامنے والا شخص ہماری ضرورتوں اور خواہشات کے مطابق کام کرے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ سالہا سال غصہ کرتے ہیں اس کے باوجود بھی کئی کام ویسے کے ویسے ہی خراب ہوتے رہتے ہیں۔ کئی لوگ اپنی بیوی بچوں کی جن باتوں پر ہزار بار تنقید کرچکے ہوتے ہیں اُن میں بہتری تو دور کی بات ہے مزید خرابی پیدا ہوتی رہتی ہے۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ نے فارمولا سمجھا دیا ہے کہ تم میرا شکر ادا کرو میں اور دوں گا۔ اور اس نے یہ بھی سمجھا دیا کہ جو بندوں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ۔ رشتوں کے لئے شکر ادا کرنے سے، تعلقات ہی تبدیل نہیں ہوں گے آپ خود بھی تبدیل ہوجائیں ۔
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ آپ کا مزاج کیسا ہے….؟ شکر گزاری کی بناء پر آپ میں برداشت، فہم و فراست، صبر اور نرمی آجائے گی اور اس طرح آئے گی کہ آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا۔ آپ کی زندگی سے تنقید ، شکوہ شکایت اور الزام تراشیوں کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ شکر گزاری کی ان منفی صفات سے بنتی نہیں ہے۔
نیچے دیاگیاجملہ کسی کارڈ یا کاغذ پر لکھ کر رکھ لیں اور آج کم از کم چار مرتبہ دن کے مختلف اوقات میں ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کریں۔ ‘‘شکریہ اس صحت کا، جس کی بدولت میں زندہ ہوں’’ فوائد و تاثرات: پاکستانی نژاد، ماہم بانو امریکہ کی ریاست ورجینیا میں رہائش پذیر تھیں۔ ایک شام ان کے پیٹ میں درد اٹھا اور ان کے والدین انہیں مقامی ڈاکٹر کے پاس لے کر چلے گئے۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ دوائیں لکھ دیں۔ ماہم گھر آگئیں، دوا کھائی لیکن کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے،ڈاکٹر نے دوبارہ اچھی طرح معائنہ کیا اور ہنستے ہوئے کہا، ‘‘بیٹا، تم اتنی موٹی نہیں ہو کہ ڈائٹنگ شروع کردو۔ تمہیں کچھ نہیں ہوا ہے، جاؤ اور خوب کھاؤ’’۔ (جاری ہے)[چھٹا دن ]
_____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________
آج کی مشق اس لئے ہے کہ ہم لوگوں کا شکریہ ادا کریں چاہے وہ جیسے بھی ہوں۔کینسر کا آخری اسٹیج
سات مہینوں تک ماہم کی بیماری تشخیص نہیں ہوسکی۔یہ ماہ ماہم کے کیلئے سات صدیوں کے برابر تھے۔ اس بار اس کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ اسے وہاں کے بہت بڑے ہسپتال لے کر جانا پڑا۔ تمام رپورٹس دیکھنے کے بعد جب ڈاکٹر نے ماہم کے والدین کے سامنے بیماری کا انکشاف کیا تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟’’ وہ لوگ سوچ میں پڑ گئے، ‘‘کینسر، اور وہ بھی آخری اسٹیج!’’
ماہم کو دراصل ہاجکنز لمفوما (Hodgkin’s Lymphoma)یعنی پیٹ کا کینسر ہو گیا تھا۔
پھر ایک سال تک ماہم بانو کو کیمو تھیراپی اور دوسرے طریقہ علاج کے نت نئے ٹیسٹوں، دواؤں اور معائنوں کے ایک طویل اور اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اور آخر اس مقام تک پہنچ گئی جہاں ڈاکٹر نے جواب دے دیا کہ اب دوا کی نہیں ، دعا کی ضرورت ہے۔
جس وقت تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں،اس وقت ان کا رابطہ ڈاکٹرمحمد عالم سے ہوگیا۔ ماہم اسکول کے زمانے سے ہی آر فیوچر ورلڈ فاؤنڈیشن سے واقف تھیں جس کے چئیر مین ڈاکٹر عالم انہیں ہمیشہ تلقین کرتے تھے کہ وہ اپنا علاج خود کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اس بات کا پختہ فیصلہ کر لیں کہ کسی سے کوئی شکایت نہ کریں گی دنیا کے ہر فرد ،اپنے والدین، دوست احباب ،عزیز اقرباءکسی سے بھی انہیں کوئی شکایت ہو تو صدق دل سے وہ ان سب کو معاف کر دیں اور نئے سرے سے اپنی زندگی کی ابتدا کریں جہاں دل میں اپنے پاس موجود نعمتوں کی شکر گزاری کاجذبہ موجزن ہو۔ ڈاکٹر عالم نے ماہم کو سمجھا یا کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے، ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے،بیماری کچھ نہیں ہوتی، کینسر کی کوئی وقعت نہیں ہے، بس تم نخرے کرنا چھوڑو، اور اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کردو۔ ماہم کہتی ہیں کہ اس وقت میں نہیں سمجھی کہ نخرے کرنے اور شکر ادا کرنے سے کیا مراد ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت سمجھ آئی جب پندرہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے یہ کہا کہ اب مجھے اس ہسپتال میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، صبح ہوتے ہی مجھے دوسرے ہسپتال میں ریڈی ایشن کیلئے منتقل کر دیا جائے گا، جہاں میرے بچنے کے امکانات تو نہیں ہیں لیکن زندگی تھوڑی بڑھ سکتی ہے۔ میری حالت بہت بری تھی، ناک اور پیٹ میں نلکیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس رات میں نے سو چا کہ اللہ نے اب تک مجھے کیا کچھ نہیں دیا،لیکن میں نے کبھی ان چیزوں کیلئے اس کا شکر ادا نہیں کیا۔میں نے ایک ایک کر کے اس کی ہر ہر نعمت کا شکر ادا کرناشروع کیا۔ میں نے اپنے اعضاء کا، اپنے رشتوں کا، اپنے دوستوں کا ، زندگی میں آنے والی خوشیوں کا شکر ادا کیا۔ میں نے سوچا کہ میں اب تک زندہ ہوں، اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔
ماہم کی پوری رات شکر ادا کرتے کرتے گزرگئی۔ ایسا شکر جو اس نے پہلے کبھی ادا نہیں کیا تھا۔ صبح اٹھنے کے بعد ماہم بہت عرصے بعد پرسکون محسوس کر رہی تھی۔ڈاکٹرز جب صبح دوبارہ آئے تو حیران رہ گئے، سب کچھ نارمل لگ رہا تھا۔ ٹیسٹ کیا تو معلوم چلا کہ ماہم کا کینسر ختم ہو گیا تھا،اور وہ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔
ماہم کی اس محیرالعقول صحتیابی کی خبر تمام دنیا میں پھیل گئی۔ ماہم نے اپنی بیماری سے جو لڑائی لڑی تھی اور جس طرح اپنی قوت ارادی ، شکر گزاری اور اُمید سے اس بیماری کو شکست دی تھی اس نے ماہم میں ایک ایسی توانائی بھر دی کہ انہوں نے اس چھوٹی سی عمر میں بیماروں اور پریشانیوں کا شکار لوگوں کا سہارہ بننے کا فیصلہ کر لیا ۔انہوں نے ایکسپریس کئیر اور آر فیوچر ورلڈ فاؤنڈیشن کے تعاون سے Cure Cancer Through Compassionکے نام سے ایک پروجیکٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ جس تکلیف اور اذیت سے گزری ہیں دوسرے لوگوں کو اس سے نمٹنے میں مدد دے سکیں۔ ماہم نے اسپتالوں اور دیگر جگہوں پر جا کربیمار اور ضرورتمند لوگوں خصوصاً بچوں کی خدمت کا کام شروع کر دیا ۔ماہم نے صحت اور امن و بھائی چارے کے شعبے میں اس تندہی سے کام کیا کہ انہیں بل گیٹس نے خصوصی طور پر ملاقات کا شرف بخشا انہوں نے ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے مائیکروسافٹ کی جانب سے والنٹیرسروس ایوارڈ سے نوازا، اس کے علاوہ ماہم کو ورجینیا کے مئیر اسٹیوڈی بینڈن اور امریکہ کے صدر باراک حسین اوبامہ کی طرف سے بھی انہیں والنٹیر سروس ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ آج ماہم بانو ، کینسر کے مریض بچوں کیلئے کام کر رہی ہیں اور ساری دنیا میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔’’