Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

تلاش (کیمیاگر) قسط 9

انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔
کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ 
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….

نویں قسط

گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت اور دنیا کو جاننے کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں رات گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال تک ان بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان سے مانوس ہوچکا ہے۔ اب اس کی دلچسپی کا محور تاجر کی بیٹی تھی، اس کا ارادہ تھا کہ دوبارہ اس لڑکی سے ملے اور اسے اپنے بارے میں بتائے ۔ لیکن پہلے وہ شہر طریفا میں خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو بتاتی ہے کہ جس خزانہ کی خواب میں نشاندہی ہےوہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے شخص سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوتا ہے۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔
خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا شخص بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا اُسے دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ دونوں پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی طنجہ شہر کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔
اسی شہر میں ایک شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کیے شیشے اور ظروف کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے اسے بتایا کہ اسے مصر کے اہرام جانا ہے جس کے لیے وہ اس کی دکان پر صفائی کا سارا کام کرنے کو تیار ہے۔ لڑکے کی بات سن کر سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے ہوئے ایک مہینہ بیت جاتا ہے تو لڑکا اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آتی ہے۔ ، کام خاصا بڑھ جاتا ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ شیشے کا سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے۔ تھوڑی پش و پیش کے بعد سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوئے تو اس نے شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کا اظہار کیا۔
بوڑھے سوداگر نے دعا کے ساتھ رخصت کیا، لڑکے نے اپنا سامان باندھا، اسے اپنا پرانا بیگ نظر آیا جس میں سے سیاہ و سفید پتھر نکلے۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ اس شخص کے گودام جاتا ہے۔ گودام کی ٹوٹی پھوٹی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا تحقیقی جرنل کی ورق گردانی کررہا تھا۔ اس نے پوری زندگی کو ایک ایسی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دیا جو صحیح معنی میں کائنات کی زبان ہو۔ اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ اس سے ملنے کو بے قرار ہوگیا اور یونیورسٹی کی نوکری چھوڑ کر انگلستان سے رختِ سفر باندھا اور الفیوم پہنچے کے لیے وہ یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکل کہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن شاید انگریزی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آئی کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔
قافلہ کا سردار باریش بوڑھا عرب اعلان کرتا ہے کہ ہر وہ شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت ہر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ لڑکا سوچتا رہا ‘‘جب میں نے بھیڑوں سے ، بوڑھے بادشاہ سے اور شیشوں کی دُکان سے بہت سی باتیں سیکھی ہیں تو اسی طرح میں اِس صحرا سے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہوں ’’۔………… اب آگے پڑھیں …………

….(گزشتہ سے پوستہ)

سفر کے دوران لڑکے نے اپنے ساتھ چلنے والے ایک سارِبان سے دوستی کر لی تھی۔ رات کے وقت جب وہ الاؤ جلا کر آگ کے گرد قریب قریب بیٹھتے تو کبھی وہ لڑکا اُسے اپنی بھیڑوں کی گلہ بانی کے قصّے اور واقعات سناتا اور کبھی ساربان اپنی زندگی کے بعض واقعات اُسے سناتا ۔


ایک رات ساربان اپنی داستان کا آغاز کرتے ہوئے بولا:
‘‘میں القائرم El Cairum (موجودہ قاہرہ) کے قریب ہی رہتاتھا۔ میرا اپنا باغ تھا ، میرے بیوی بچے تھے اور ایک ایسی خوش حال زندگی تھی جس میں بظاہر کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہ تھا ۔ میرا گمان تھا کہ صرف موت ہی میرے حالات کو بدل سکے گی۔
ایک سال جب فصل بہت اچھی ہوئی تو ہم لوگ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے مکّہ گئے۔ زندگی کی یہی ایک آخری تمنّا تھی جو پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اب مجھے موت بھی آجاتی تو میں بخوشی جان آفرین کے سپرد کردیتا، میں اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن تھا ۔ لیکن ایک دن زمین بری طرح لرزنے لگی اور زلزلے کے ساتھ دریائے نیل کےپانی میں بھی طغیانی آنے لگی۔ دریا کا پانی بڑھ کر کناروں کو غرقاب کر گیا۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ تو معلوم تھا کہ دریائے نیل میں ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن دوسروں کے ساتھ ہوتا ہوگا۔ مجھے اپنی قسمت پر بھروسا تھا کہ کاتب تقدیر نے میری قسمت میں کچھ غلط نہیں لکھا ۔
میرے پڑوسیوں کو خوف تھا کہ اُن کے زیتون کا پورا باغ تباہ ہو جائے گا اور میری بیوی کو اپنے بچوں کو بچانے کا خوفِ لاحق تھا، مجھے لگا کہ جو کچھ میرے پاس ہے سب تباہ ہو جائے گا۔’’
اس دن دریا نے پوری زمین کو کھالیا، کھیت برباد ہو گئے ، باغ اُجڑ گئے۔ اب مجھے پیٹ پالنے کے لئے کوئی اور ذریعہ معاش اختیار کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں ایک ساربان ہوں۔
البتہ اِس بربادی نے ایک اہم سبق ضرور دیا اور اللہ کے ا س نظام سمجھنے میں بڑی مدد دی۔
انسان کو اس وقت تک انجانے اور نامعلوم خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں جب تک وہ جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور وہ اس کے حصول پر قادر ہے۔
انسان کو یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اچھا کھانا، اچھا پہننا، اچھی بیوی، اچھی اولاد اُسے اللہ نے دی ہے۔ مال و زر، اولاد، جائیداد اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں۔ اگر مال کے بارے میں کسی کا یہ تصور قائم ہو جائے کہ مال میری ملکیت نہیں ہے اللہ کی ملکیت ہے تو وہ مال اس کے لئے نعمت ہے۔ لیکن اگر وہ اس بات پر یقین رکھے ہیں کہ مال میری ملکیت ہے تو ایسا مال اُس کے لئے فتنہ بن جاتا ہے۔
اگر آپ اولاد کے لئے یہ سوچ رہے ہیں کہ میرے بعد ان کا کیا ہو گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پر آپ کا یقین کمزور ہے۔ اللہ نے پیدا کیا ہے، اللہ ہی سنبھالتا ہے، اللہ نے جس طرح آپ کو سنبھالا ہے اسی طرح آپ کی اولاد کو بھی سنبھالے گا۔
زندگی کی تگ و دو میں ہم اکثراس خوف میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نہ چھن جائے، کہیں وہ نہ لُٹ جائے، کہیں موت کا خوف ہوتا ہے، کہیں مال و دولت کا، لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مل جانے اور کھو جانے کا تمام قصّہ ایک ہی ہستی نے تحریر کر رکھا ہے۔ تمہاری تقدیر اسی نے لکھی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔
اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو خوف کا عنصر ایسے غائب ہو جاتا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔’’
یہ کہتے ہوئے ساربان کے چہرے پر سکون نظر آرہا تھا، اسے اپنے مال و دولت کے کھو جانے کا کوئی غم نہیں تھا، اس کی گفتگو کی گہرائی لڑکے کو متاثر کر رہی تھی۔

***

سفر کے دوران کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راستہ میں کوئی دوسراقافلہ بھی مل جاتا، اور ایسا ہمیشہ ہوتا کہ ایک قافلے کی ضرورت کی چیزیں دوسرے قافلے کے پاس مل جاتی تھیں۔ ایسا لگتا جیسے پہلے سے معلوم ہو کہ ملنے والے قافلے کی ضرورت کیا ہو گی۔ جیسے یہ سب کچھ شاید ایک ہی ہستی نے تحریر کیا تھا۔ یہ تجربے لڑکے کے لیے ایک غیر مرئی رشتہ کی نشاندہی کررہے تھے اور اِس یقین کو پختہ کررہے تھے کہ ایک عظیم تر ہستی ہر چیز پر سایہ فگن ہے۔
قافلے کے لوگ جب آگ کے اِرد گِرد گھیرا لگا کر بیٹھتے تو ساربان لوگ ریگستان کی زندگی سے وابستہ دلچسپ قصّے اور واقعات سناتے، کبھی کوئی رُباب لیے کوئی دُھن بجا کر موسیقی سے لطف اندوز کراتا، بعض اوقات لوگ ممکنہ آندھیوں سے متعلق ایک دوسرے کو باخبر کرتے۔ کبھی راہ چلتے کچھ مخصوص عمامہ پہنے پُراسرار نقاب پوش بدّو لوگ ظاہر ہو جاتے، جو آنے والے قافلوں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے اُن راستوں پر معمور تھے۔ اُن کا کام قادلے کے راستے کی نگہبانی کرنا اور آنے والے راستوں میں لٹیروں، قزّاقوں اور وحشی قبیلوں کی موجودگی سے قافلے والوں کو باخبر کرنا تھا۔ یہ پُراسرار بدّو لوگ جتنی خاموشی سے ظاہر ہوتے اتنی ہی خاموشی سے واپس بھی چلے جاتے تھے۔ اپنے جسم پر مکمل طور پر سیاہ لبادہ اوڑھے یہ بَدّو کچھ ایسے نظر آتے کہ رات کی تاریکی میں اُن کی صرف آنکھیں ہی نظر آتی تھیں۔
اِس طرح ایک رات جب انگلستانی باشندہ اور لڑکا آگ جلاکر الاؤ کے گِرد بیٹھے ہوئے تھے تو ساربان آیا اور اُس نے بتایا کہ ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ بعض قبیلوں میں جنگ پھوٹ پڑی ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ لڑکے کو محسوس ہوا کہ جیسے پوری فضا پر خوف سا چھا گیا ہو۔ گوکہ کسی نے اپنی زبان سے کچھ کہا نہ تھا۔ لیکن خوف کے اِس پیغام کو پڑھنے کے لئے الفاظ کی ضرورت نہ تھی۔ لڑکے کو ایک بار پھر اِس آفاقی زبان کا تجربہ ہو رہا تھا جو لفظوں کی مرہون نہ تھی۔
انگلستانی باشندے نے ساربان پوچھا کہ کیا اس جنگ سے قافلہ کے لوگوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
ساربان اس کی بات سن کر بولا ‘‘ایک بار آپ ریگستان میں داخل ہو جائیں تو پھر واپسی نہیں ہے۔ اور جب واپسی نا ممکن ہو تو عقل مندی یہ ہے کہ باقی سب فکر چھوڑ کر یہ سوچیں کہ آگے بڑھتے رہنے کا بہترین راستہ کیا ہے۔ باقی سب کچھ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خطرہ ہے یا نہیں ہے، یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ ’’
ساربان نے اپنی بات وہی پُر اسرار لفظِ ‘‘مکتوبـ’’ کہہ کر ختم کی اور خاموش ہو گیا۔
ساربان جب چلا گیا تو لڑکا انگلستانی باشندے سے بولا :
‘‘بہتر یہ ہے کہ تم اپنی کتابوں کے بجائے اس قافلے پر زیادہ توجہ دو۔ جو کچھ مجھے ابھی تک کا دیکھ کر تجربہ ہوا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے نہ جانے کتنی بار راستہ تبدیل کیا ہے، لیکن سفر منزل کی صحیح سمت ہی میں ہو رہا ہے ۔ ہم بھٹکے نہیں ہیں…. بہتر ہے کہ تم اِس دنیا کا مطالعہ کرو اور اِسے زیادہ بہتر جاننے کی کوشش کرو۔ ’’
انگلستانی باشندہ لڑکے سے بولا، ‘‘دنیا کا مطالعہ کرنے کے اعتبار سے کتابیں بھی قافلے جیسا ہی علم عطا کرتی ہیں۔ زندگی ہمیں ہر لمحے کچھ نا کچھ نیا ضرور سکھا تی رہتی ہے ، اسی طرح کتابیں بھی ہمیں زندگی میں ہر مشکل سے نپٹنے اور کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہیں ۔ بہر حال سبق دونوں سکھاتے ہیں، جتنا سبق ہم سیکھ لیتے ہیں، زندگی اتنی ہی آسان ہوتی جاتی ہے۔ ’’

***

جنگ کی خبر سنتے ہی جانوروں اور انسانوں پر مشتمل اِس عظیم قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی۔ دن کے دوران تو پہلے ہی خاموشی چھائی رہتی تھی، اب راتیں بھی خاموش رہنے لگیں۔
یہ شاید قافلے کے سردار کا حکم تھا کہ بات چیت سے احتراز کیا جائے اور پھر ایک دن قافلے کے سردار کا یہ حکم آیا کہ اب رات کو آگ بھی نہ جلائی جائے تاکہ روشنی کی وجہ سے قافلہ دشمنوں کی نظر میں نہ آ جائے۔
اب جب رات ہوتی ہے تو قافلے کے ساربان تمام جانوروں کو بڑے دائرے کی شکل میں پھیلا دیتے اور درمیان میں مسافر ایک ساتھ سوتے۔ اِس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ جانوروں کے ارد گرد ہونے کی وجہ سے رات کی ٹھنڈک سے لوگ کسی قدر محفوظ ہو جاتے ۔ ساتھ ہی قافلے کے سردار نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہتھیار بند محافظ بھی متعیّن کر دئے تھے۔
ایک رات انگلستانی باشندے کو کسی طرح نیند نہیں آ رہی تھی۔ اُس نے لڑکے کو اُٹھایا اور پھر دونوں پڑاؤ کے ارد گرد تھوڑے فاصلے پر ریت کے ٹیلوں پر چہل قدمی کرنے لگے۔ وہ رات پورے چاند سے روشن تھی۔
اس دوران لڑکے نے اندلوسیا میں اپنے خواب اور افریقہ تک سفر کی پوری کہانی انگلستانی باشندے کو سنائی۔ انگلستانی باشندے کو کہانی کا وہ حصہ بہت متاثر کن لگا جب لڑکا شیشے کے سوداگر کے ساتھ دکاندار میں کام کرتا تھا اور کس طرح اُس کی دکان ترقی کرتی چلی گئی تھی۔
انگلستانی باشندہ لڑکے کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ کی توجیہہ کرتے ہوئے بولا :
‘‘یہی وہ اصول ہے جو ہر چیز میں کارفرما ہے….’’
‘‘علم الکیما میں اُسے ‘‘کائناتی روح ’’ Soul of the World کہا جاتا ہے۔
جب تم کسی مقصد کے حصول میں دل و جان سے لگ جاتے ہو تو یہی وہ مرحلہ ہے جب تم اِس کائناتی روح کے بہت قریب ہوتے ہو۔ یہ ایک قسم کی قوّت ہے جو ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
انگلستانی باشندے نے بتا یا کہ کائناتی روح کی مدد محض انسانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زمین کی ہر چیز روح رکھتی ہے چاہے وہ جانور ہوں، جمادات ہوں یا بناتات وغیرہ …. یہاں تک کہ ایک خیال میں بھی روح ہوتی ہے۔
یہی نہیں الکیمیا کے مطابق یہ زمین بھی ذی روح اور زندہ مخلوق ہے ۔ اِس لئے اُس کی ہر چیز ہر لمحہ میں ایک تغیر کارفرما ہے، چونکہ ہم خود اس زمین کا ایک حصہ ہیں اِس لئے ہم زمین کی روح کا ادراک نہیں کر پاتے کہ یہ روح ہماری بقا کے لئے کس طرح مصروفِ عمل ہے۔
شیشے کی دکان میں کام کرتے ہوئے تم نے شاید محسوس کیا ہو کہ شیشے کے وہ ظروف بھی تمہاری کامیابی میں معاونت کر رہے تھے۔’’
لڑکا جس کی نظریں روشن چاند اور اس کی روشنی میں چمکتی شفّاف ریت پر ٹکی ہوئی تھیں تھوڑی دیر کے لئے سوچنے لگا اور پھر بولا۔
‘‘میں اس قافلے کو اس عظیم صحرا سے گزرتے ہوئے بڑے غور سے دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے قافلے اور صحرا ایک ہی زبان بولتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ صحرا قافلے کو اپنے اندر سے گزرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے لئے اپنے راستے ہموار کر دیتا ہے۔
صحرا قافلے کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اس کے ہر ہر قدم کا امتحان لیتا اور دیکھتا ہے کہ قافلے کا قدم مقررہ وقت او رمقررہ جگہ پر پڑ رہا ہے یا نہیں۔ اگر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا صحرا چاہتا ہے تو یقیناً نخلستان تک پہنچ جائیں گے۔
اگر ہم میں سے کوئی اس قافلے میں بغیر صحرا کی زبان سمجھے محض اپنی ذاتی ہمّت اور جرأت مندی کی بنیاد پر چل رہا ہوتا، تو یقین مانو یہ سفر کہیں زیادہ کٹھن اور مشکل ہوتا۔
دونوں تھوڑی دیر کے لئے رک گئے اور چاند کو دیکھنے لگے جس کے حُسن نے اُنہیں مسحور کر دیا تھا۔ پھر لڑکا بولا
‘‘یہ غیبی اشاروں کا جادو ہے۔’’
‘‘میں نے دیکھا ہے کہ قافلے کے راہبر ! صحرا کی نشانیوں کو کیسے پڑھتے اور کس طرح صحرا کی روح ، قافلے کی روح سے ہم کلام ہوتی ہے۔ ’’
لڑکے کی باتیں سن کر انگلستانی باشندہ بولا ‘‘اگر ایسا ہے تو میں بھی اب اس قافلے کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر زیادہ توجہ دوں گا، کتابوں سے بہت سیکھا ہے اب زندگی سے سیکھوں گا’’۔
لڑکے نے بھی کہا ‘‘اور مجھے بھی ایسا لگتا ہے کہ مجھے بھی اب کتابیں کا مطالعہ کرکے زندگی کو مزید سمجھنا چاہیے۔’’

***

یہ کتابیں بھی عجیب تھیں۔ جو زیادہ تر نمک، سیماب (پارہ )، عناصر، دھاتوں کے خواص اور کہیں کہیں ڈریگن اور بادشاہوں کی داستانوں پر مشتمل تھیں۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا …. البتہ ایک مرکزی نکتہ جو اُن تمام کتابوں میں ہر جگہ مشترک تھا وہ یہ تھا کہ کائنات کی ہر شے کی بنیاد ایک ہی ہے۔
ایک کتاب میں اُس نے پڑھا کہ علم الکیمیا کی سب سے اہم کتاب محض چند سطروں پر مشتمل ہے اور اُسے زمرّد پتھر پر لکھا گیا ہے۔
‘‘اسی کو لوحِ زَمرّد * Emerald Tabletکہتے ہیں۔ اس میں سارے علم کیمیا کا نچوڑ ہے ’’ ….
انگلستانی باشندہ فوراً بولا، اس کے لہجہ سے فخر نمایاں تھا ، کیونکہ وہ اِس علم کو لڑکے سے زیادہ جانتا ہے ، اور اُس کے بارے میں بتا کر لڑکے کو متاثر کر سکتا ہے۔
‘‘تو پھر الکیمی کی اتنی ساری کتابیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔’’ لڑکے نے پوچھا۔
‘‘تاکہ اس لوح زمرد پر لکھی ہوئی وہ چند سطریں سمجھی جاسکیں۔’’ انگلستانی باشندے نے جواب دیا، لیکن خود وہ اپنے اس جواب پر مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔

***

* لوحِ زمرد Smaragdine Table، دراصل علم کیمیا پر لکھی گئی دنیا کی سب سے قدیم اور مختصر تختی ہے جسے یونانی مفکر اور کیمیا دان ہرمیس مثلث جسے ہرمیس ٹرسمیجیٹس Hermes Trismegistus بھی کہتے ہیں سے منسوب کیا جاتا ہے، اس لوح کا پہلا ترجمہ سب سے پہلے چھٹی صدی عیسوی ایک عربی کتاب ‘‘سر الاسرار ’’ میں ملتا ہے جو ارسطو سے منسوب کسی کتاب کا ترجمہ ہے۔ جابر بن حیان سے لے کر آئزک نیوٹن تک سینکڑوں کیمیا گروں نے اس تختی کا ترجمہ کرکے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے، لیکن آج تک ان 14 مختصر جملوں میں چھپے اسرار کو کوئی نہیں سمجھ سکا۔


***

لڑکے کے لیے سب سے دلچسپ کتاب وہ تھی جس میں بعض مشہور ماہرینِ کیمیا کے حالاتِ زندگی بیان کیے گئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں دھاتوں کو خالص بنانے میں گزاردیں اور جن کا پورا وقت تجربہ گاہوں میں کیمیائی عمل کرتے گزرا تھا۔ ان کا یہ نظریہ تھا دھاتوں کو اگر کچھ سال تک گرم کرتے رہیں تو بالآخر اُن کی اپنی اصلی خصوصیات نکل جاتی ہیں۔ صرف روح بچ جاتی ہے اور یہی روح دراصل اِس کائنات کی روح ہے۔ اِسی کائناتی روح سے وہ کائناتی زبان سمجھی جاسکتی ہے جو کائنات کے ایک عنصر کو دوسرے عنصر سے رابطہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
اگر کائنات کی روح تک پہنچ ہوگئی تو زمین کی سطح پر ہر چیز کی تفہیم ہو سکتی ہے۔ کیمیاگروں کی نظر میں یہی اُن کی عظیم ترین تحقیق تھی اور اُسے وہ اپنا شاہکار سمجھتے تھے۔ یہ ٹھوس اور مائع دونوں پر مشتمل تھی۔’’
‘‘کیا محض انسانوں اور قدرت کی نشانیوں کو دیکھتے رہنے اور غور و فکر کرتے رہنے سے اِس کائناتی زبان کو سمجھنا ممکن ممکن نہیں۔
‘‘لڑکا سنتے سنتے پوچھ بیٹھا….
‘‘تمہیں تو ہر بات کو آسان سمجھنے اور زیادہ سے زیادہ سادہ بنانے کا خبط ہے۔’’
انگلستانی باشندہ لڑکے کی بات سن کر جھنجھلا گیا
‘‘علم الکیمیا ایک نہایت سنجیدہ علم ہے اور اُسے انجام دینے کے لیے حکماء اور کیمیا گروں کے طریقوں کو مِن و عن اپنانا ہو گا۔’’
اِس گفتگو سے لڑکے کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ علم الکیمیا کی تحقیق کا دارو مدار دو ہی چیزوں پر ہے۔ مائع میں الاکسیر Elixir Of Life جسے آب حیات بھی کہتے ہیں ، جس میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے اور جس کی وجہ سے کیمیا گر کبھی بوڑھا نہیں ہوسکتا اور ٹھوس میں پارس پتھر جسے سنگِ فلسفہ Philosopher Stone کہتے ہیں ۔
‘‘پارس پتھر کی تلاش کوئی آسان کام نہیں’’ انگلستانی باشندہ لڑکے کو سمجھاتے ہوئے بولا ۔
‘‘کیمیا گروں نے اِس کی تلاش میں اپنی زندگیاں تجربہ گاہوں میں کھپا دی ہیں۔ تاکہ وہ دھاتوں کو پگھلا کر انہیں خالص بناسکے…. دھات کو خالص کرنے کے لئے جو آگ جلائی جاتی ہے اُس کے بہت قریب رہنا ہوتا ہے تاکہ اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اِس کام میں سالہا سال لگ جاتے۔ ظاہر ہے کہ ان تجربات میں انہوں نے دنیا کے تمام حسن کو تیاگ دیا، گویا اس دھات کی تطہیر کرتے کرتے دنیاوی خواہشات سے خود اُن کی بھی تطہیر ہوگئی ۔ ’’
لڑکے کو یاد آیا کہ شیشے کی دکان میں ظروف کی صفائی کے دوران سوداگر نے کہا تھا کہ
‘‘ظروف کی صفائی کے دوران شیشوں پر پڑی گرد وغبار کے ساتھ ذہن کے منفی خیالات کی بھی صفائی ہو جاتی ہے۔ ’’
لڑکے کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اگر کوئی چاہے تو روز مرّہ کی زندگی میں بھی علم الکیمیا سیکھ سکتا ہے۔
‘‘ایک اور خاص بات ہے’’ ….
انگلستانی باشندہ بولا۔ ‘‘پارس پتھر میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس کا چھوٹا ٹکڑا بھی دوسری کسی بڑی دھات کو سونے میں تبدیل کر سکتا ہے۔’’
یہ سن کر علم الکیمیا میں لڑکے کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور وہ سوچنے لگا کہ کچھ دن صبر کے ساتھ اس علم کو سمجھ لے تو وہ دن دور نہیں جب وہ بھی دھات کو سونے میں تبدیل کر سکے گا۔
اس نے ان کیمیاگر وں کے بارے میں بھی مطالعہ کیا جو اُس مقام تک پہنچ چکے تھے ، مثلاً کلاؤڈ آڈرین ہلوسیوسHelvétius ، فولکنالی Fulcanelli، الیاس اشمولElias Ashmole اور جابر بن حیان Geber وغیرہ ۔ اُن لوگوں کے واقعات بہت دلچسپ اور مسحور کن تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی تقدیر کو جان چکا تھا اور اس کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہا، انہوں نے طویل سفر کیے، اپنے وقت کے نامور ماہرین کیمیا اور دانا لوگوں سے ملاقاتیں اور گفتگو کیں، اور تمام بد اندیشوں اور مخالفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ناممکنات کو ممکن کر دکھایا اور پارس پتھر اور الاکسیر تک رسائی حاصل کی ۔
لیکن لڑکے نے ان شاہکار دریافتوں کو سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا۔ ان کتابوں کی تحریرں بہت پیچیدہ *تھیں، کچھ آڑھی ترچھی لکیروں سے بنے نقوش، اشاروں اور علامتوں میں لکھی ہدایات اور سمجھ میں نہ آنے والی عبارتوں کو دیکھ کر اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔

***

* آج سے لگ بھگ پچاس سال پہلے تک کیمیا گری ایک طلسماتی فن سمجھا جاتا تھا، کیمیا گری کا نام آتے ہی سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی وہ سونا بنانے کا طریقہ تھا ، عہد وسطیٰ سے لے کر صنعتی دور کی ابتداء تک لاکھوں لوگ سونا بنانے کا فارمولا جاننے کے لیے ساری ساری زندگی کھوج لگانے میں وقف کردی ، کھوج لگانے والے سونا بنانے کا فارمولا جاننے کے لیے لمبے لمبے سفر کرتے جنگلوں پہاڑوں میں عرصہ دراز بسیرا کرتے مختلف کیمیاگر استادوں کی شاگردی کرتے، مقصد صرف ایک ہی ہوتا تھا کسی طرح سونا بنانے کا طریقہ جان لیا جاے پھر باقی زندگی سکون سے گذاری جائے ۔
کیمیا گری پر لکھی گئی کتابیں زیادہ تر عناصر اور دھاتوں سے سونا اور کوئی طلسماتی سفوف بنانے جیسے ہی عملیات پر مشتمل ہوتیں تھیں۔ ان کتابوں کو خفیہ اور محفوظ رکھنے کے لیے انہیں ایک خاص علامتی زبان میں لکھا جاتا تھا، جسے صرف ماہر کیمیا ہی سمجھ سکتا تھا، ان کتابوں میں ہر عنصر، ہردھات اور ہر عمل کو ایک خاص علامت یا نشان کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ کیمیا گری کے یہ تمام عملیات چار مستحکم عناصر یعنی آگ، ہوا، مٹی  اور پانی، اور سات بنیادی دھاتوں سونا، چاندی، پارہ، تانبا، لوہا، قلع اور سیسہ کے بل بُوتے پر کیے جاتے تھے۔ یہ سات دھاتیں بالترتیب سات اجرام فلکی سورج، چاند، عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل سے منسوب تھیں۔ اس کے علاوہ الکیمیا میں پارہ ذہن، نمک جسم یا مادہ اور گندھک روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ الکیمیا میں آسمان کے 12 بروج، دراصل 12 طریقہ عمل اور کیمیائی تعامل کی نمائندگی کرتے ہیں ، مثلا حمل ♈(عمل تکسید یعنی آکسیجن میں جلانا)، ثور♉(انجماد، جمانا)، جوزا♊(بخاری حالت سے ٹھوس حالت میں جمنے کا عمل)، سرطان ♋(تحلیل کا عمل)، اسد ♌(ناحل پذیر مادوں کا حل)، سنبلہ ♍ (عمل کشید، عرق نکالنا)، میزان ♎(کسی ٹھوس چیز کا گرم ہونے پر مائع بنے بغیر گیس میں تبدیل ہونا ، عمل تصعید)، عقرب ♏ (جدا سازی، کیمیائی تعامل میں محلول سے کسی چیز کو جدا کرنا)، قوس ♐ (جلا کر خاکستر کرنا)، جدی ♑(اُبال یا جوش دینا)، دلو ♒ (عمل ضرب، کسی عنصر کا اضافہ)، حوت♓ (آگے بڑھانے کا عمل ) وغیرہ ۔ اس کےعلاوہ دیگر عناصر (سُرمہ، سنکھیا، بسمت، بورون، لیتھیم، میگنیشیم، فاسفورس، پلاٹینیم، پوٹاشیم، گندھک، جست)، مرکبات (نمک، شنگرف،ملغم، شورے ، نمک اور گندھک کا تیزاب ) کے ساتھ ساتھ وقت اور وزن کے لیے بھی ایک مخصوص علامات لکھی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)
***

تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی

 

 
اگست 2018ء

یہ بھی دیکھیں

تلاش (کیمیاگر) قسط 13

تیرہویں قسط …. ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکی کے چلے جانے پر لڑکا اس دن ...

تلاش (کیمیاگر) قسط 12

بارہویں قسط ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکے کا رُواں رُواں گواہی دے رہا تھا کہ ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *