دنیا کا سب سے عجیب قصبہ
اس علاقے میں مکانات کچھ اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ مکان کا کچن ایک ملک میں ہے، تو صحن دوسرے ملک میں، خواب گاہ کسی ملک میں ہے اور مہمان خانہ کسی ملک میں….
مسزر ایلرک کارڈیو، کینیڈا کے گاؤں راک آئی لینڈ کی رہنے والی ہیں۔ ابھی وہ کھانے کے کمرے میں بسکٹ تیار کر رہی تھیں کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے رسیور اٹھایا۔ ٹیکس وصول کرنے والا افسر بول رہا تھا:
‘‘مسز ایلرک، آپ کے پاس ایک نیا ٹیلی ویژن سیٹ ہے اور آپ نے اب تک اس کا ٹیکس ادا نہیں کیا، حالانکہ آپ جانتی ہیں کہ کینیڈا کے قوانین کے مطاق ٹیلی ویژن سیٹ کا ہر ماہ ٹیکس ادا کرنا لازمی ہے۔’’
‘‘لیکن میرا ٹیلی ویژن سیٹ کینیڈا میں نہیں، امریکہ میں ہے۔’’
‘‘یہ کیسے ہوسکتا ہے….؟’’
مسز ایلرک ہنس پڑیں….‘‘وہ ایسے کہ میرا مہمان خانہ (ڈرائنگ روم )کینیڈا کی حدود میں نہیں اور ٹیلیویژن سیٹ مہمان خانے میں ہے، یقین نہ آئے، تو سرکاری وکیل سے پوچھ لیجیے۔’’
یہ کہہ کر مسز ایلرک نے ریسیور ہاتھ سے رکھ دیا اور ہنستی ہوئی کچن میں چلی گئیں۔
ہوسکتا ہے آپ اس واقعے کو لطیفہ سمجھیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور کینیڈا کے مابین خط سرحدی Boundary Line مسز ایلرک کارڈیو کے مکان کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوا گزرتا ہے۔ ان کے مکان میں مہمان خانہ اور خواب گاہ امریکہ میں، کچن، اسٹور اور باتھ روم کینیڈا میں ہیں۔ مسز ایلرک کی طرح اس قصبے میں کم و بیش اٹھائیس ہزار افراد بستے ہیں، ان میں سے اکثر کے گھر دو ملکوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں ۔
اس قصبے کے دو حصے ہیں۔
کینیڈین حصے کو راک آئی لینڈRock Island اور امریکہ حصے کو ڈربی لائن Derby Line کہتے ہیں۔ اس قصبے میں کوئی شخص اپنے آپ کو کسی ایک ملک کا شہری نہیں سمجھتا۔ یہاں رہنے والے دوہری قومیت کے مالک ہیں، یعنی بیک وقت امریکہ کے شہری بھی ہیں اور کینیڈا کے شہری بھی۔ اس چھوٹے سے شہر کے لیے بجلی کینیڈا مہیا کرتا ہے اور پانی کی سپلائی ایک امریکی کمپنی کے ذمہ ہے۔ کینیڈا کے وہ شہری جو امریکی سرحد سے قریب ہیں، اپنی ڈاک امریکی ڈاکیوں سے وصول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کینیڈین حصے میں رہنے والے امریکیوں کو کینیڈین ڈاک خانے سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اس قصبے کے رہنے والے دونوں ملکوں کے قومی تہوار مناتے ہیں ہر شخص جیب میں بیک وقت امریکی اور کینیڈین کرنسی رکھتا ہے۔ یہاں انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ حکومتیں الگ الگ ہیں، لیکن دفتری نظام میں ہر حکومت کے کارندے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
قصبے کے لوگوں کے لیے قوانین واشنگٹن (امریکہ) اور اوٹاوا (کینیڈا) میں بنتے ہیں، لیکن ان کے اطلاق میں کئی دشواریاں ہیں۔ ایک مثال دیکھیے۔
اس قصبے کے مسٹر یارڈ ہیرس، ایک طوطا لے آئے۔ کینیڈین کسٹم افسر نے انہیں ایک خط بھیجا کہ امریکی حکومت طوطوں کی درآمد پر پابندی عائد کرچکی ہے، اس لیے آپ یہ طوطا واپس امریکہ میں بھیج دیں۔ مسٹر یارڈ نے جواباً لکھا۔ میں نے طوطا امریکی علاقے میں بھیج دیا ہے۔ حکام چاہیں، تو تصدیق کرسکتے ہیں۔ بات ٹھیک تھی، انہوں نے واقعی طوطے کو امریکی علاقے میں بھیج دیا تھا، مگر یہ امریکی علاقہ ان کے اپنے گھر کا ایک حصہ تھا۔ طوطا نشست گاہ سے لائبریری میں منتقل کردیا گیاتھا۔
اس قصبے میں تین چار گھر ایسے ہیں کہ کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مابین خط سرحدی ان کے گھروں کی خواب گاہوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، چنانچہ یہاں رہنے والے سونے کے لیے امریکہ میں جاتے ہیں اور صبح سو کر اٹھتے ہیں اور چپل پہننے کے لیے انہیں کینیڈا میں جانا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں اس گھر کا تذکرہ بےجا نہ ہوگا جس کے ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا ایک صوفہ دو ملکوں میں جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ آپ صوفے کے دائیں سرے پر بیٹھیں، تو امریکہ ہے، بائیں سرے پر بیٹحیں تو کینیڈا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس صوفے پر لیٹ جائیں، تو آپ کا سر امریکہ میں ہوگا اور پاؤں کینیڈامیں۔
مسٹر راکو نوویا Roco Noviaکا شمار اس قصبے کے قدیم ترین لوگوں میں ہوتا ہے، وہ امریکی کسٹم میں ملازم تھے۔ ان کا گھر بھی خط سرحدی کے عین اوپر ہے۔ ایک مرتبہ انہیں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
قصہ یوں ہوا کہ امریکی حکام نے کینیڈین دودھ، مکھن اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء پر پابندی عائد کردی، کیونکہ شکایت یہ تھی کہ ان میں سے بعض چیزیں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت تیار نہیں کی جاتیں اور ان کے استعمال سے قسم قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔
راکو نوویا کو بھی امریکی حکام کی طرف سے ایک نوٹس مل گیا کہ آئندہ سے وہ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء کینیڈا سے نہیں منگوا سکتے۔ انہوں نے کینیڈین افسروں سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے کاغذات دیکھے اور فیصلہ صادر کیا کہ مسٹر راکو نوویا کا صحن اور اسٹور کینیڈا میں ہے چنانچہ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ کینیڈین دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء کچن میں نہ لے جائیں، بلکہ اسٹور میں رکھیں۔ نیز انہیں صرف صحن یا اسٹور میں بیٹھ کر کھائیں پئیں۔ مسٹر راکو نوویا بہت خوش ہوئےاور انہوں نے کچن کے بجائے اسٹور میں بیٹھ کر کینیڈین دوددھ پینا شروع کردیا۔
اس قسم کا ایک دلچسپ واقعی قصبے کی ہاسکل لائبریری haskell libraryمیں پیش آیا۔ اس لائبریری کی نشست گاہ امریکی علاقے میں ہے اور کتابوں کی الماریاں کینیڈین علاقے میں ۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک چور بھاگ کر لائبریری میں جا گھسا۔ امریکی پولیس اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ نشست گاہ تک وہ اس کے پیچھے آئی، لیکن وہ اس کمرے میں چلا گیا جہاں کتابیں رکھی تھیں۔ پولیس رک گئی۔ اس کے پاس کینیڈین علاقے میں جا کر کسی مجرم کو گرفتار کرنے کا خصوصی اجازت نامہ موجود نہ تھا۔ اس کام کے لیے قانونی طور پر اسے کینیڈین پولیس کی مدد درکار تھی یا افسران بالا کی خصوصی اجازت۔ چور پچھلے دروازے سے فرار ہوگیا اور امریکی پولیس مجرم کو اپنے سامنے فرار ہوتا دیکھتی رہی۔
آئیے، ذرا ہم اس قصبے کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ 1796ء میں ایک امریکی جانسن ٹیپلن نے امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے قریب مکان بنایا۔ا س کا خیال تھا کہ مکان امریکہ کی حدود میں ہے، لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہے۔ اس وقت تک وہ مکان کے گرد باغیچہ بھی بنا چکا تھا اور یہ جگہ چھوڑنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے امریکی اور کینیڈین لوگوں نے بھی خط سرحدی کی پروا کیے بغیر دائیں بائیں مکانات بنا لیے اور اس طرح چند سالوں میں اچھا خاصا قصبہ آبادہوگیا۔
1812ء کا سال اس قصبے میں رہنے والوں کے لیے آزمائش بن کر آیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے ایک دوسرے کے خلاف اعلان جنگ کردیا ، قصبے کے لوگوں میں کینیڈین بھی تھے جو برطانیہ کے نوآباد کار تھے اور امریکی بھی جو برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ قصبے کے سر کر دہ لوگوں نے سوچا، ایسا نہ ہو کہ اس چھوٹے سے شہر میں بھی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں اور ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے خون سے ہاتھ رنگنے کی کوشش کرے ، چانچہ انہوں نے قصبے کے سارے باشندوں کو جمع کیا اور فریقین کی رضا مندی سے یہ بات طے پائی کہ امریکہ اور برطانیہ کے مابین اعلان جنگ کے باوجود اس قصبے میں لڑائی نہیں ہوگی اور ہر شخص صلح صفائی سے رہے گا، چنانچہ یہی ہوا۔ واشنگٹن اور اوٹاوا سے لڑائی کے احکام آتے، لیکن امریکی اور کینیڈین ان احکام کو نظر انداز کردیتے۔ قصبے کے لوگوں نے صلح صفائی سے یہ وقت کاٹا اور بالآخر جگ بند ہوگئی۔
انتخابات قریب آتے ہیں تو قصبے میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ سال کے بقیہ حصوں میں تو بےشمار مرد و عورتیں اور بچے دوہری قومتی کا دعویٰ کرتے ہیں، یعنی بیک وقت امریکی بھی اور کینیڈین بھی، لیکن انتخابات میں ہر شخص کو کھل کر اعلان کرنا پڑتا ہے کہ وہ امریکی ہے یا کینیڈین۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
راک آئی لینڈ اور ڈربی لائن کے قصبے میں ایک صاحب نے سیاست میں بڑا نام پیدا کیا اور بڑے زور شور سے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ کینیڈین حصے کے مقامی کابینہ کے رکن منتخب ہوگئے، لیکن جس روز انہیں اس اعزاز پر ایک شاندار پارٹی دی جانے والی تھی، ان کے حریفوں کی ایک چال سے سارا معاملہ چوپٹ ہو کر رہ گیا۔ سیاسی مخالفوں نے یہ ثابت کردیا تھا کہ انتخابات میں جیتنے والا شخص سرے سے کینیڈین ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ جس جگہ پیدا ہوا تھا، وہ امریکہ میں واقع ہے۔ اگر وہ کینیڈین شہریت اختیار کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس کے لیے قانونی چارہ جوئی ہوگی۔ اس طرح پارٹی ملتوی ہوگئی اور وہ صاحب جو بزعم خود کابینہ کے رکن تھے، کینیڈا کے شہری نہ ہونے کی وجہ سے اس اعزاز سے محروم ہوگئے۔ ہارنے والے صاحب چونکہ کینیڈین علاقے ہی میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں کامیاب امیدوار قرار دے دیا گیا۔
دنیا کی چند انوکھی سرحدیں
روحانی ڈائجسٹ
اپریل 2016ء سے انتخاب