Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

شکریہ ۔ قسط 12

دنیا بھر میں ہر روز بے شمار تربیتی پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں ، مضامین، کالم اور کتابیں یہ بتانے کے لئے لکھی جاتی ہیں کہ کس طرح ان خواہشات کے حصول کی تکمیل کی جائے۔ زندگی بہتر انداز میں گزارنے کے لئے ہم اپنے طور پربھی کوشش اور تجربات کرتے رہتے ہیں ۔اس کے باوجودہم ایسی زندگی نہیں گزار پاتے جو انسانیت کے شایانِ شان ہو۔ہم غربت، جہالت، بے روزگاری جیسے مسائل سے دو چار ہیں ۔ ہمارے رشتوں میں محبت ، قربانی اور روا داری کا فقدان رہتا ہے۔ اچھی زندگی ہمارے لئے ایک خواب بن جاتی ہے، وہ خواب جو ہم ہر رات دیکھتے ہیں ۔زندگی ایک معمہ بن جاتی ہے ، جسے سمجھتے سمجھتے پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ 1998 سے میرا تعلق پڑھانے اور ٹریننگز کرانے سے رہا ہے۔ اس دوران میں نے سینکڑوں لوگوں کے نقطہ نظر کو سنا، کتابیں پڑھیں اور یہ کوشش کی کوئی ایسا فارمولا ہاتھ لگ جائے جس کے باعث ہم مطلوبہ نتائج حاصل کر تے ہوئے خوشحال زندگی گزاریں ۔ ایسی زندگی جو دونوں جہانوں میں سرفراز کر دے۔میرا ایمان ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے وہ حاصل کر ہی لیتا ہے۔مجھے بھی وہ فارمولا مل گیا۔ میں اس کے بارے میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یہ کامیابی اور خوشحالی کا واحد فارمولا ہے،واحد فارمولا۔ اس سلسلۂ مضامین کا مقصد یہی ہے کہ نا صرف اُس قانون کو بیان کیا جائے بلکہ اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا جائے تاکہ ہماری زندگی صحت ،محبت ، دولت اور خوشیوں سے بھر نے کے ساتھ ساتھ خدا کی رضا بھی حاصل کر لے ۔ محمد زبیر


دوسروں کی خوشی میں خوشی
حسد کا علاج

بارہواں دن

 

ہمارے تعلقات کسی کے ساتھ خراب کیوں ہوتے ہیں؟
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ آپ کے تعلقات طویل عرصے تک خوشگوار رہتے ہیں، آپ اس کے ساتھ خوشی اور غم ہر طرح کے حالات ساتھ گزارتے ہیں، اس پر بھروسہ کرتے ہیں، اس کی مدد کرتے ہیں لیکن پھر ایک وقت آتا ہے سب کچھ ختمہوجاتا ہے….؟
اب آپ اس سے ملنا تو در کنار سامنا بھی نہیں کرنا چاہتے۔ یا اگر آپ ملنا بھی چاہیں تو وہ ملنا نہیں چاہتا۔ کبھی آپ کسی سے ملنا نہیں چاہتے تو کبھی کوئی آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ محبت نفرت میں اور دوستی دشمنی میں کیوں بدل جاتی ہے….؟
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس سے بات کئے بغیر چین نہیں ملتا تھا، اب اس کا تذکرہ ، اس کی موجودگی یا اس کا خیال بے کیف کر دیتا ہے؟
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ….
ہم شکرگزاری کے راستے کو چھوڑ کر ناشکری کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔
پہلے دوستی اندھی تھی، دوست کی خامیوں کی طرف سے۔اندھی اب بھی ہے مگر دوست کی خوبیوں کی طرف سے۔
پہلے اس کی بھلائی اور کامیابی کیلئے دعا کی جاتی تھی۔ اب اگر بد دعا نہیں کی جاتی تو دعا ؤں میں بھی یاد نہیں کیا جاتا۔ بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ کردار کے حامل ہوتے ہیں جوبرا کرنے والوں کیلئے بھی دعا کرتے ہیں۔ ہم عام انسان تو ایسا سوچتے بھی نہیں۔

میرا اس شہرِ عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا براسوچتے ہیں

اور جب ہم اچھا نہیں سوچتے ، ان لوگوں کیلئے دعا نہیں کرتے ، تو ہم در حقیقت نا شکری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہم ان تمام اچھائیوں کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے ساتھ عرصہ دراز تک کی جاتی رہی ہیں۔
ہم ان تمام لمحات کو فراموش کر دیتے ہیں جو ہماری زندگی کے یادگار ترین لمحات تھے۔ ہم ان دنوں کو بھی بھول جاتے ہیں جب ہمیں دوست کی مدد کرنے کا موقع ملا تھا اور مدد کرنے کے بعد دل خوشی سے لبریز تھا۔یہ سب کچھ بھلا کر ہم در حقیقت بہت بڑی نا شکری کر رہے ہوتے ہیں۔
غلطیاں سب کرتے ہیں اور غلطی کرنے کے بعد ہم خود کو معاف بھی کر دیتے ہیں تاکہ اپنی نظر میں ہماری عزت بنی رہے۔ غلطیاں کرنے کے بعد اللہ سے بھی دعا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کو اللہ تبارک وتعالیٰ قبول فرمائے گا کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور غلطیوں پر درگزرفرماتاہے۔
جب ہم خود کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ سے بھی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں تو کسی کو دل سے معاف کرنے میں اتنے تذبذب کاشکار کیوںہوتےہیں….؟
کیوں دل کو صاف نہیں کر لیتے….؟
کیوں ان اعلیٰ کردار کے حامل لوگوں میں شامل نہیں ہو جاتے جو گالیاں دینے والوں کو دعائیں اور راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کیلئے خوشگوار سفر کی تمنا کرتے ہیں۔
اپنے دوستوں اور دشمنوں کیلئے دعائیں کرنے سے انہیں تو فائدہ پہنچتا ہی ہے ،آپ بھی اللہ کی کرم نوازی میں برابر کے حصے دار بن جاتے ہیں۔
ہماری خوشگوار زندگی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ‘‘حسد’’ ہے۔ یہ ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹا کر غیر ضروری باتوں اور نا مناسب کاموں کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کہتے ہیں

‘‘جس نے حسد پر قابو پا لیا اس نے گویا اپنے اندر بیٹھے ایک شیطان پر قابو پا لیا، حسد انسان کا اس وقت تک پیچھا کرتا رہتا ہے جب تک وہ اسے پلٹ کر مار نہ دے ۔ اور یہ ایک بار مارنے سے بھی نہیں مرتا، اسے بار بار مارنا پڑتا ہے۔اس کا علاج محنت، قناعت اور شکر میں رکھاگیا ہے۔’’

کسی مفکر کا قول ہے:

‘‘ جہالت احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے اوراحساسِ کمتری حسد کو جنم دیتی ہے۔حسد جب حد سے گزرتا ہے تو جھوٹ، غیبت، بہتان اور بد اعمالی پر مجبور کرتا ہے۔ ’’
[نامعلوم]

حسد ناپسندیدہ ترین کاموں میں سے ہے۔ ایک بااعتمادشخص حسد سے کوسوں دور رہتا ہے۔
اگر آپ پر اعتماد زندگی گزارنا چاہتے ہیں توحسد سے خود کو محفوظ کر لیں۔ طریقہ بہت سادہ ہے۔ وہ یہ کہ دعائیں کی جائیں۔
دوستوں کیلئے دعائیں کرنے سے ایک طرف تو دوستی مضبو ط ہو جاتی ہے تو دوسری جانب دشمن بھی گرم جوش دوست بن جاتا ہے۔دعا کرنا بلند ترین اعمال میں سے ایک ہے۔ ہر مذہب نے دعا کرنے پرزور دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمام انسان محبت سے رہیں، ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیں۔ ضروری نہیں ہے کہ انسان اپنے بھائی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے، صرف احساس کرنا، اس کیلئے دوسرے لوگوں سے درخواست کرنا اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنابہت اعلیٰ ظرفی ہے۔ اپنے بھائی کیلئے دعا کرنااللہ کو بے انتہا محبوب ہے۔ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اسے علم ہے کہ کون دل سے اپنوں کیلئے فکر مند ہے اور کون دکھاوے کی محبت کرتا ہے۔ جب کوئی شخص دل سے اپنے بھائی کا بھلا چاہتا ہے ، اس کیلئے دعا کرتا ہے تو اللہ اس دعا کو جلدی قبول کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 پانچ آدمیوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔
مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے لے
حج کرنے والے کی دعا جب تک وہ واپس لوٹ کر نہ آجائے
راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا جب تک وہ شہید نہ ہوجائے
بیمار کی دعا جب تک وہ شفا یاب نہ ہوجائے
ایک بھائی کی دوسرے بھائی کیلئے غائبانہ دعا
یہ سب بیان فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا،
‘‘اور ان دعاؤں میں سب سے جلدی قبول ہونے والی دعا کسی بھائی کیلئے غائبانہ دعا ہے۔’’
[دعوت الکبیر بیہقی ، شعب الایمان حدیث 1087 ]

عرصہ دراز سے دنیا بھر میں ‘‘دعا کے اثرات’’ پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تحقیقات مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ لا دین لوگوں پر بھی کی گئی ہیں۔ خدا کو ماننے والوں کیلئے یہ بات باعثِ تسلی ہے کہ دعا کے اثرات ہمیشہ ہی مثبت اور حیرانکنرہے ہیں۔
وین اسٹیٹ یونیورسٹی Wayne State University نے ایک تحقیقی مجلہ ری ہبلی ٹیشن سائیکالوجی Rehabilitation Psychology میں Prayer changes the brain? کے نام سے تحقیق شائع کی G، جس میں لکھا ہے کہ

“patients with traumatic brain injuries who felt a connection with a higher power, experienced better rehabilitation

‘‘جو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ کسی بڑی طاقت سے جڑے ہوئے ہیں وہ جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں۔’’

 

اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ برج والڈرون پیرائن Bridge Waldron-Perrineکہتے ہیں:

’’So they didn’t just feel better,
there was evidence they functioned better in their ability to do daily tasks.’’

”ایسے لوگ نا صرف بہتر محسوس کرتے ہیں، بلکہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ یہ لوگ روزمرہ کے کاموں کو بہتر انداز میں کرنے کے قابل بھی ہو جاتے ہیں۔“

 

یہ تو دعا کے اثرات کی افادیت پر تحقیق تھی، اس کے علاوہ دوسروں کیلئے دعا کرنے کے اثرات پر بھی تحقیقات کا سلسلہ بہت طویل ہے۔
ایک اور تحقیق سان فرانسسکو کے ‘‘کارونری کیئر یونٹ’’ Coronary Care Unitمیں 393 مریضوں پر کی گئی ۔
اس تحقیق میں مریضوں کو دو گروپ میں تقسیم کردیا گیا۔آدھے وہ تھے جن کیلئے مسلسل دعائیں کراوائی گئیں جبکہ باقی آدھوں کیلئے نہیں کروائیگئیں۔
نتائج بہت دلچسپ تھے۔
وہ مریض جن کیلئے مسلسل دعائیں کی جاتی رہیں نسبتاً زیادہ صحتمندرہے، کسی قسم کی پیچیدگی سے نہیں گزرے اور جلد صحت یاب ہو گئے۔
ان تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو لوگ دعاؤں کے بندھن سے بندھ جاتے ہیں اُن میں ڈپریشن، نشہ اور طلاقوں کا تناسب بھی کم ہوجاتاہے۔
سب سے زیادہ غورطلب بات یہ تھی کہ کن لوگوں کی دعائیں زیادہ پر اثر ثابت ہوئیں؟
ان کی جن میں چار خوبیاں پائی جاتی تھیں:

  1. توجہ (Care)
  2. ہمدردی (Compassion)
  3. احساس مندی (Empathy)
  4. محبت (Love)


جب انسان اپنے دوست، عزیز یا رشتے دار کیلئے دعا مانگتاہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ اسے خود ہوتا ہے۔ بنی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

‘‘مرد مسلمان کی وہ دعا جو وہ اپنے بھائی کیلئے غائبانہ کر تا ہے ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس پر ایک فرشتہ مقرر رہتا ہے ، جب وہ اپنے بھائی کیلئے دعائے خیر کرتا ہے تو فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور کہتا ہے ‘‘اسے بھی ایسی ہی چیز دے۔’’
[صحیح مسلم؛ الادب المفرد از بخاری]

 

پروفیسر سید ابو بکر غزنوی بہت بڑے عالمِ دین گزرے ہیں، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ انکی اہلیہ بیمار پڑ گئیں اور کوئی علاج کا رگرثابت نہ ہوا۔مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں اپنی اہلیہ کو تلقین فرمائی کہ وہ تمام مومنین اور مومنات کی شفا کیلئے ہر وقت دعا کرتی رہا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار روز میں ہی اللہ تعالی نے انہیں شفا عطا فرما دی۔
اپنے دل کو حسد اور دیگر روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی نا ختم ہونے والی نعمتوں سے فیض پانے کے لیے دعا کریں۔ اپنے لئے اور اس سے بڑھ کر دوسروں کے لیے۔ جیسے ہی آپ اپنی ذات سے نکل کر، اپنی انا سے آزاد ہوکردوسروں کے معاملات میں، ان کے مسائل کے خاتمے کیلئے سوچنا شروع کردیں گے، زندگی خوبصورت سے خوبصورت ترین ہوتی چلی جائےگی۔آج کی مشق اسی سےمتعلق ہے۔
آج آپ کوشش کریں کہ کسی پرسکون جگہ بیٹھیں اور تصور کریں دو ان لوگوں کا جنہیں آپ پسند کرتے ہیں اور دو ان لوگوں کا جنہیں آپ کچھ خاص پسند نہیں کرتے۔ اب ایک ایک کر کے ان چاروں کیلئے دل سے ، سچے دل سے دعا کریں ان چیزوں کیلئے ، جن کی انہیں ضرورت ہے، جن چیزوں یا لوگوں کے مل جانے سے ان کی زندگیوں میں خوشی اور سکون کا اضافہ ہو جائے گا۔ اللہ ہمارے دلوں میں لگے ہوئے زنگ کو صاف کر دے گا، دل کی سختی دور ہو جائے گی اور خوشی و اطمینان اندر تک پھیلتا چلاجائے گا۔یہ مشق ہر نماز کے بعد یا دن میں کم از کم تین مرتبہ ضرور کریں اور اس عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، مسلسل فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔

‘‘ بے شک تمہارا پروردگار نہایت حیا والا اور کریم ہے۔ اُسے اِس بات سے حیا آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے آگے ہاتھ پھیلا دے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔’’ [جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد]

 

 

[بارہواں دن ]

دو ان لوگوں کے نام لکھیں جنہیں آپ پسند کرتے ہیں۔
اب ان کے لئے دل دعا کریں کہ اللہ ان کی پریشانیاں دور فرمائے اور انہیں مزید عطا فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔نام۔۔۔۔۔۔۔          ۔۔۔۔۔۔۔دعا۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ان لوگوں کے نام لکھیں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے ۔
اب ان کے لئے دل دعا کریں کہ اللہ ان کی پریشانیاں دور فرمائے اور انہیں مزید عطا فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔نام۔۔۔۔۔۔۔          ۔۔۔۔۔۔۔دعا۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فوائد و تاثرات:
_____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________

 

کیا آپ مخلص دوست ہیں؟

ایک صاحب کے دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ کھولا تو ان کا ایک قریبی دوست دروازے پر کھڑا تھا۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد اس دوست نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا کہ
‘‘وہ بہت بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے اور اسے فوری طور پر پیسوں کی شدید ضرورت ہے’’۔
دوست کی بات سن کر وہ فکرمند ہوگیا۔ اس نے کہا کہ ‘‘تم انتظار کرو مجھ سے جہاں تک ہو سکتا ہے کوشش کرتا ہوں’’۔
دوست کو روانہ کر کے وہ صاحب گھر کے اندر تشریف لائے اور ایک بڑی رقم جو انہوں نے اپنے کسی کام کے لیےسنبھال رکھی تھی ، نکالی اور گننے لگے۔ پیسے نا کافی تھے۔
اپنی بیوی سے کہا کہ:
‘‘ جو کچھ موجود ہے لاکر دو تاکہ رقم پوری کی جاسکے۔’’
بیوی کے پاس جو کچھ تھا وہ بھی اس نے لاکر دے دیالیکن اب بھی مطلوبہ رقم پوری نہیں ہو سکی۔
اب اس نے اپنے کسی عزیزسے ادھار لے کراتنی رقم جمع کر دی کہ دوست کی ضرورت پوری ہوسکے اور پھر وہ رقم جا کر اپنے دوست کے سپردکردی۔


دوست کو رقم دینے کے بعد جب وہ صاحب واپس لوٹے تو ان کے چہرے پر افسوس اور ملال تھا اور وہ بے اختیار رو رہے تھے۔
گھر میں داخل ہوئے تو اس کی بیوی نے دیکھا کہ شوہر کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔
بیوی نے ہمدر دی سے کہا:
‘‘آپ اتنے اداس کیوں ہیں؟ کہیں آپ کو یہ ڈر تو نہیں ہے کہ ہم نے جو قرض لیا ہے وہ کیسے اترے گا؟ آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔’’
شوہر نے جواب دیا:


’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پیسوں کا افسوس نہیں بلکہ اس بات کا افسوس ہے کہ میرا دوست کئی دنوں سے مشکل میں مبتلا تھا اور مجھے کبھی اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ میرا دوست کتنا پریشان ہے ۔ آج اسے چل کر میرے گھر آنا پڑا اور مجھ سے اپنی ضرورت کا سوال کرنا پڑا۔ مجھے خود کیوں نہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اس کو ضرورت ہے۔
مجھے اس لئے رونا آرہا ہے کہ وہ میرا سب سے عزیز اور قریبی دوست ہے۔ہم نے ہر طرح کے حالات ایک ساتھ دیکھے ہیں اس کے باوجود مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا ۔ اگر وہ میرے پاس نہیں آتا اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرتا تو میں تو کبھی بھی نہیں جان پاتا۔

 …

There comes a point in your life when you realize: Who matters, Who never did, Who won’t anymore, And who always will.” ~Adam Lindsay Gordon

آپ کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کون واقعی اہم ہے، کون نہیں، کون کبھی نہیں تھا اور کون ہمیشہ اہم رہے گا۔  [ایڈم لنزے گورڈن؛ آسٹریلوی شاعر] 

 

(جاری ہے)

 

 

اکتوبر 2016ء

 

یہ بھی دیکھیں

شکریہ ۔ قسط 8

    “A musician must make music, an artist must paint, a poet must write, ...

شکریہ ۔ قسط 7

   ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *