انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے بغیرعلم کا حصول اور ترسیل ممکن نہیں ۔ زبان کے ذریعے ہی ہم کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اُٹھاسکتے ہیں ۔
کسی قوم کی بقا اور ترقی کے لیے زبان،ثقافت اور قومی تشخص روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے۔ کامیاب اور ترقی يافتہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر ديکھ ليں ، ان کی ترقی میں ان کی مادری زبانوں کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ کم و بیش ہر مہذب و ترقی یافتہ قوم نے اپنی مادری زبان کو اپنا کر ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ تمام معاشی اور سائنسی ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ذریعہ تعلیم وہاں کی قومی اور مادری زبان ہی ہے۔
پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک و معاشرہ ہے۔ پاکستان میں 77زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 72 زبانیں مقامی اور قدیم ہیں۔ پاکستان میں نو بڑی زبانیں ہیں ۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، اردو، بلوچی، ہندکو، براہوی، شینا تسلیم شدہ زبانیں ہیں ۔
پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، فارسی، گجراتی، کشمیری، بروشسکی، انڈس کوہستانی، مارواڑی، میمنی، پوٹھواری، بلتی، گوجری، دری،آیر، بدیشی، باگری، بٹیری، بھایا، براہوی، چلیسو، دامیڑی، دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، گرگلا، ہزاراگی، جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کاٹی، کھیترانی، کھوار، کولی (لچھی، پرکاری اور دوھیارہ لہجے)، لہندا، لاسی، لوارکی، اوڈ، ارمری، پھالولہ، سانسی، ساوی، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد لوگ پنجابی، 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، 8 فیصد پشتو، 8 فیصد اردو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو، ایک فیصد براہوی اور 8 فیصد لوگ انگریزی و دیگر چھوٹی زبانیں بولتے ہیں۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی ، ہندکو اور براہوی ہمارے خطے کی قدیم زبانیں ہیں۔
دنیا میں سینکڑوں زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے اور اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009ء کے مطابق پاکستان میں بولی جانی والی 35 فیصد زبانوں کو معدومیت کا خطرہ ہے۔ مادری زبانوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 28 ویں نمبر پر ہے۔
مادری زبانوں کو بچانے کےلیے اپنا پنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان بولنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو پڑھیں اور لکھیں۔
پاکستان میں قومی زبانوں کے کئی اساتذہ اکرام، اہلِ علم و دانش ، اہلِ ادب قلم کاروں اور تعلیمی اداروں نے اپنی زبان کی خدمت کا مشن شروع کیا۔
ان میں سے بہت سے لوگوں نے لوک کہانیوں، شاعری و گیت، نظم و نثر، علاقائی ادب ، لغات و قاعدوں اور عالمی زبانوں کے قومی و علاقائی زبانوں میں تراجم کے ذریعے زبان کی خدمت اور استحکام کے لیے کوششیں کیں۔
روحانی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی پاکستان میں آباد کئی قومیتوں کی شاندار اور پر کشش ثقافتی خصوصیات ، ان کی زبانوں کے اعلی علمی و ادبی اثاثوں اور ان میں پائے جانے والے دانش وبصیرت کے خزانوں ، معرفت الٰہی، عشق رسول ، انسان دوستی، رواداری محبت ، خودداری ہمت و شجاعت مہر و وفا اور دیگر اعلی اوصاف کے تذکرے روحانی ڈائجسٹ کے قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کہتے ہیں ‘‘ہماری زبانوں اور بولیوں کو کئی اولیاء اور صوفیاء کرام نے اپنی فکر کے تعارف، پیغام کی ترویج اور اپنی تعلیمات کی ترسیل کا ذریعہ بنایا ہے ۔ بعض اولیاء اللہ نے دین اسلام کی تبلیغ ، عوام کی اصلاح اور خدمت خلق کے لئے سعی مسلسل کے ساتھ ساتھ بہت بڑے عالم کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زبان کو سنوارنے اور ترقی دینے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال پنجابی زبان کو ترقی دینے میں بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ہیں ۔
سندھی اس خطے کی قدیم ترین علمی اور ادبی زبان ہے ۔ سندھی زبان کی تاریخی وقعت اور اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے (؍ 883ء)سندھی زبان میں ہی ہوا تھا ۔ سندھی زبان کو مزید ترقی بھی ایک ولی اللہ ، رومی مہران حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ذریعے ملی۔ 800سال پہلے سندھ کے عوام کی معاشی اور سماجی حالت سدھارنے کے لیے اس وقت کی سرکاری زبان فارسی کی عوامی تعلیم کے اہتمام کا سہرا صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے سر ہے۔
پاکستان کی قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگلش ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو عام طور پر پر علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی اپنی تقریروں اور تحریروں میں پاکستان میں بولی جانے والی نو بڑی زبانوں کو علاقائی زبان کے بجائے پاکستان کی قومی زبانیں کہتے اور لکھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اردو کی طرح دیگر زبانیں بھی ہماری قومی زبانیں ہیں ۔ ان زبانوں کا تحفظ اور ترقی سب پاکستانیوں کا خاص طور پر اس زبان بولنے والوں کا اجتماعی فریضہ ہے۔’’
زیر نظر مضمون میں قارئین روحانی ڈائجسٹ میں پاکستان میں اردو کے علاوہ بولی جانے والی چھ بڑی زبانوں کو گذشتہ ایک صدی میں ترقی دینے والے چند محترم ہستیوں کی خدمات کا مختصر تذکرہ کیا جارہا ہے۔ یہ تذکرہ ان ہستیوں کی خدمات کا اعتراف بھی ہے اور اپنی موجودہ اور نئی نسل سے اس امید کا اظہار بھی ہے کہ ہم سب مل کر اپنے وطن پاکستان کی علمی وثقافتی ترقی میں اپنا اپنا کردار خوش دلی اور تن دہی سے ادا کریں گے۔
سندھی / سنڌي
پاکستان کی زبانوں میں سندھی زبان اس منفرد اعزاز کی حامل ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے قرآن پاک کا ترجمہ سندھی زبان میں ہی کیا گیا ۔ یہ 883ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ دو کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی مادری زبان سندھی ہے ، سندھ کے علاوہ بلوچستان میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سندھی بولتی ہے۔
شاہ عبد اللطیف بھٹائی ، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، مخدوم آدم نقشبندی، میر محمد معصوم بکھری، قادر بخش بیدل، مرزا قلیچ بیگ، عمر بن محمد داؤد پوتہ، علامہ آئی آئی قاضی، ایلسا قاضی، ژاں فرانسوا جاریج ، این میری شمل، حسام الدین راشدی، شیخ ایاز، نبی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، جی الانا، محمد ابراہیم جویو، استاد بخاری، علن فقیر اور متعدد صوفیاء، ادبا ، شعرا اور محققین نے اپنے اپنے طرز پر سندھی زبان کی بیش بہا خدمات انجام دی۔ سندھی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں میں سندھی ادبی بورڈ، سندھی لینگویج اتھارٹی (سنڌي ٻوليءَ جو با اختيار ادارو)، سندھی ادبی سنگت، سندھی عوامی تحریک نمایاں ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جن اہم شخصیات نے سندھی زبان و ادب پر اپنے اثر و رسوخ چھوڑے ان میں شیخ ایاز کا نام سر فہرست ہے۔
شیخ ایاز
جدید سندھی ادب کے بانی،شیخ ایاز کا اصل نام مبارک علی شیخ تھا۔ وہ 2 مارچ 1923ء کو شکارپور میں پیدا ہوئے ۔ گریجویشن کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کی اور 1976 میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تعینات ہوئے ۔ سندھی ادب اور شاعری کا ذکر سندھ کے عظیم اور مشہور شاعر شیخ ایاز کے بغیر نامکمل ہے۔ شیخ ایاز کے بنا سندھی شاعری ایسے ہے جیسے میر تقی میر اور غالب کے بنا اردو شاعری….
بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کے تسلسل کے ساتھ کئی اعلیٰ جذبات مثلاً انسان دوستی ، وطنیت، پیار، تذکرہ حسن، صوفی ازم، قربانی اور سچ یکجا کرنے سے ایک ہستی وجود میں آتی ہے اسی ہستی کا نام ہے شیخ ایاز۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر شیخ ایاز کو مانا جاتا ہے۔ شیخ ایاز نے اپنے کلام سے سندھی شاعری کو تازگی بخشی ۔ شیخ ایاز سے قبل جو سندھی شاعری تخلیق ہو رہی تھی، وہ فارسی کے زیر اثر تھی، مگر ایاز نے ماضی کی شعری روایات میں تبدیلیاں کرکے سندھی زبان کو ایک جدید روپ دیا۔ شیخ ایاز نے سندھی شاعری اور ادب میں کئی نئے رحجانات متعارف کرائے اور یہ ثابت کر دیا کہ سندھی زبان میں شاعری کسی بھی لحاظ سے عالمی معیار سے کم نہیں ہے۔ شیخ ایاز کی شاعری کو جب موسیقی کا ترنم دے کر، سُروں میں گایا گیا، تو وہ گیت ہر طبقے میں بہت ہی زیادہ مشہور ہوئے۔
روح راضي ڪجي, ياد تازي ڪجــــي
دل ٿي چاهي وري, يـــاد تازي ڪجـي
من هو پرچي پوي, آزي نيازي ڪجي
ڇـــو ڀـــلا پيـــار ۾, جلد بازي ڪجي
نيت سجدا هجن, دل نمازي ڪـجي
شهر مجرم سڄــو اياز, ڪنهن کي قاضي ڪجي
روح کو راضی کریں یاد تازی کریں
دل اگر چاہے تو پھر سے تازی کریں
دل پھسل سکتا ہے خود نیازی کریں
جو اگر پیار میں جلد بازی کریں
نیت سجدہ کرکے دل نمازی کریں
ایاز! شہر ہی مجرم ہوا کس کو قاضی کریں
ميلي ۾ تُون تنها تنها، ڪنهن کي ڳولين ٿو؟
اک ۾ ڳوڙها، هٿ ۾ گجرا، ڪنهن کي ڳولين ٿو؟
ساري جيون مايا سپنو، تنهن ۾ سَوَ سپنا،
او سپنا، سپني جا سپنا! ڪنهن کي ڳولين ٿو؟
پير پَٽيءَ تي ناهي تُنهنجو، ڪهڙو تنهنجو ماڳ؟
رستي مان نڪتا سَوَ رستا، ڪنهن کي ڳولين ٿو؟
میلے میں تو تنہا تنہا، کسے ڈھونڈتا ہےتو؟
آنکھ میں آنسو، ہاتھ میں گجرا، کسے ڈھونڈتا ہےتو؟
زندگی فانی خواب ، اس میں دیکھ اایک خواب
وہ خواب، بھی خواب ہوا، کسے ڈھونڈتا ہےتو؟
پیر نہیں زمین پر تیرے، کہاں ہے تیری منزل؟
سیدھے رستے پر نہیں رستہ ، کسے ڈھونڈتا ہےتو؟
شیخ ایاز نے تقریباۤساٹھ کتابیں لکھیں، 1946ءمیں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘سفید وحشی’’ شائع ہوا، بعد میں کئی اور مجموعے شائع ہوئے جن میں پنھل کان پوءِ خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ڀونر ڀري آڪاس 1962ءمیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ڪلهي پاتم ڪينرو1963ءمیں شائع ہوا۔ شیخ ایاز نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ان کی اردو شاعری کے مجموعوں میں بوئے گل نالہ دل، کف گلفروش اورنیل کنٹھ اور نیم کے پتے شامل ہٰیں۔ ان کی سندھی شاعری کا ایک اردو ترجمہ بھی ‘‘حلقہ مری زنجیر کا’’کے نام سے شائع ہواتھا۔
شیخ ایاز کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز ، ملک کے سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہلال امتیاز اور فیض احمدفیض ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
شیخ ایاز نے اپنی شاعری میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کی اور تمام مسائل کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے بيت، دوہا، وايون، گيت، نظم، آزاد نظم، ہائيکو، آب بیتی، کہانیوں سمیت نثر میں بھی بے مثال نمونے چھوڑے ۔ شیخ ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات کا سب سے بڑا نمونہ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کا اُردو میں ترجمہ ہے۔
کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے، یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت، سندھی اور اردو زبان میں ادبی اور فنی مہارت تھی کہ انہوں نے اس کام کو انتہائی احسن طریقے کے ساتھ انجام دیا۔
شاہ سائیں کے کلام اور شیخ ایاز کے اردو ترجمے سے چند منتخب اشعار ….
اَول الله عَلِيمُ، اعليٰ، عالَمَ جو ڌَڻِي
قادِرُ پنهنجي قُدرت سين، قائم آهِ قديم
والي، واحِدُ، وَحۡدَهٗ، رازق، رَبُّ رَحِيم
سو ساراه سچو ڌڻي، چئِي حَمدُ حَڪِيم
ڪري پاڻ ڪَرِيمُ، جوڙُون جوڙَ جهان جي
اوّل نام اﷲ کا اعلیٰ اور علیم
قادر اپنی فطرت سے قائم اور قدیم
والی واحد وحدهٔ رازق رب رحیم
بڑھ کر ہے ہر حمد سے اس کی حمد حکیم
ہے سارے سنسار کا مالک وہی کریم
پاڻَهِين جَلَّ جَلَالَہٗ، پاڻهِين جانِ جمالُ
پاڻهِين صورت پِرِينءَ جي پاڻهِين حُسن ڪَمالُ
پاڻهِين پِر مُريد ٿئي، پاڻهِين پاڻَ خيالُ
سڀ سڀوئي حالُ، منجھان هي معلوم ٿئي
غیر محدود ہے جلال اس کا
دھر آئینۂ جمال اس کا
آپ رہبر ہے آپ ہی راہی
ختم خود اس پہ ہے کمال اس کا
اس کا احساس ہر جگہ ہر وقت
کہ ہم گیر ہے خیال اس کا
روح انسان میں جلوۂ فرما ہے
پر تو حسن بے مثال اس کا
عاشقَ! معشوقن جو، وٺِي ويھ دُڪاڻ؛
پَـئِجِ پيش پِريُنِ جي، پَٽِيءَ وجِھي پاڻ؛
ته تون تنِين ساڻُ، سدا رهِين سُرخُرو.
منزل عشق ہے در محبوب
سجدہ ریزی کرو عقیدت سے
کیا عجب تم پہ مہربان ہو جائے
اور نوازے تمہیں محبت سے
کاش مل جائے خوب و زشت کا راز
تمہیں اس رہبر حقیقت سے
طَالِبُ ڪَثَرَ، سونهن سَرُ، اِيَ رومِيءَ جِي راءِ؛
ماڙهُو اِتِ ڪِياءِ، مَنڊُ نه پسين مَنڊيو!
موج زن چشمہ حقیقت ہے
قولِ رومی پیامِ راحت ہے
جس نے دیکھی وہ ہستی مطلق
وہ مجسم سکوتِ حیرت ہے
شیخ ایاز کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا، مگر زندگی کی مدت پوری چکی تھی اور یہ کام نہ ہوسکا۔ شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ء کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ، انہیں بھٹ شاہ میں شاہ لطیف کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا ۔
شاہ عبداللطیف ہونیورسٹی خیرپور میں 1998ء میں شیخ ایاز چئیر قائم کی گئی۔ شیخ ایاز کی شاعری اور دیگر کارناموں کو عوام و خواص میں مزید اُجاگر کرنے میں ابراہیم جویو ، رسول بخش پلیجو ، سندھ ادبی بورڈ اور محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ کی کوششیں بہت نمایاں ہیں۔
پنجابی
پنجابی، پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 41فیصد ہے ، پنجاب میں 75فیصد، سندھ میں 6فیصد، اسلام آباد میں 71فیصد، بلوچستان میں 3فیصد، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1فیصد شرح ہے۔ پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والے پاکستان کے ہر صوبہ میں موجود ہیں۔
پنجابی زبان کو ترقی دینے میں صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کا حصہ بہت زیادہ ہے، ان کےعلاوہ بابا بلھے شاہ، سلطان باہو، شاہ حسین، وارث شاہ، میاں محمد بخش، پیر مہر علی شاہ، استاد دامن، احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، فیض احمد فیض، اشفاق احمد، واصف علی واصف، ضمیر جعفری، عطاء الحق قاسمی، انور مسعود، عین الحق فرید کوٹی، شریف کنجاہی، افتخار نسیم، احمد راہی، پروفیسر غلام رسول، نور محمّد کپورتھلوی، حافظ محمود شیرانی ، بابو رجب علی، قادر یار، منیر نیازی، شہباز ملک اور متعدد صوفیاء، ادبا، شعرا اور محققین نے پنجابی زبان پر اپنے اثر و رسوخ چھوڑے ۔ قیام پاکستان کے بعد جن اہم شخصیات نے پنجابی زبان و ادب میں مقبولیت حاصل کی ان میں استاد دامن کا نام بہت زیادہ نمایاں ہے۔
استاد دامن
استاد دامن کا اصل نام چراغ دین اور دامن تخلص تھا، 4 ستمبر 1911 میں چوک متی لاہور میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں گھریلوحالات کے پیش نظر استاد دامن نے حصول تعلیم کے ساتھ والد کے ساتھ درزی کا کام بھی کیا۔ انہیں شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے تھا لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا۔ مختلف جلسوں اور مشاعروں میں اپنا پنجابی کلام سنانے لگے۔
استاد دامن نے پنجابی شاعری کی فنی خوبیوں پر ملکہ رکھنے کی بدولت اہل علم وفن سے استاد کا خطاب حاصل کیا۔ استاد دامن مزدوروں، کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے۔ انہوں نے ان طبقوں کی حمایت اور حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور استحصالی طبقو ں کی مذمت کی۔استاد دامن نے پنجابی شاعری کے ذریعے پنجاب کی ثقافت کے رنگوں کو اجاگر کیا۔ ان کی لوک شاعری نے لوگوں کو خصوصی طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے لہجے میں طنز اور مزاح تھا۔ انہوں نے مزاح کے انداز میں لوگوں کو معاشر تی خرابیوں سے آگاہ کیا۔ استاد دامن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے شاعر فیض احمد فیض کہتے ہیں کہ میں پنجابی میں صرف اس لیے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین ، وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں۔
استاد دامن کی شاعری میں صوفیاء کا رنگ جھلکتا ہے، بلھے شاہ کے انداز میں وہ کہتے ہیں :
وید کتاباں پڑھ پڑھ تھکا،کجھ نہ بنیاں کچا پکا
اوڑک رہِ گیا حقہ بکا، مکے گیا تے کجھ نہ مکا
ایویں مکّ مکۓ کاہدے، مکدی گلّ مکا او یار
مسجد مندر تیرے لئی اے،باہر اندر تیرے لئی اے
دلِ قلندر تیرے لئی اے،سکّھ اک اندر تیرے لئی اے
میرے کول تے دل ای دل اے، اوہدے وچ سما او یار
میں نہیں سکھیا علم ریاضی، ناں میں پنڈت ملا قاضی
نہ میں دانی نہ فازی نہ میں جھگڑے کر کر راضی
نہ میں منشی، عالم فاضل، نہ میں رند تے نہ ہشیار
مینوں پاگل پن درکار، مینوں پاگل پن درکار
استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ، تصوف، سیاسی موضوعات، روایتی موضوعات کے علاوہ روز مرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگا ری اور فطر ت نگاری کی خوبیوں سے مالامال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصوت عکاس ہے۔
ایہہ دنیا مثل سراں دی اے،
ایتھے مسافراں بیٹھ، کھلو جانا
وارو واری اے ساریاں کوچ کرنا،
آئی وار نہ کسے اٹکو جانا
مکان تے ٹیکس دکان تے ٹیکس
ڈیوڑی تے ٹیکس دلان تے ٹیکس
اس واسطے بولدا نئی دامن
متاں لگ جاۓ میری زبان تے ٹیکس
مینوں دسّ اوئے ربا میریا،
میں ڈبدا ڈبدا جاں
میں اوتھے ڈھونڈاں پیار نوں،
جتھے پتراں کھانی ماں
استاد دامن نے ادبی تنظیم پنجابی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی اور اس کے سکریٹری ر ہے۔ استاد دامن بلھے شاہ اکیڈمی ، مجلس شاہ حسین کے سرپرست اور ریڈ یو پاکستان شعبہ پنجابی کے مشیر بھی تھے۔ ان مختلف حیثیتوں میں انہوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے گرانقدر خدمات سر انجام دیں ۔ پنجابی زبان کا یہ عوامی شاعر 3 دسمبر 1984 کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔ انہیں مادھو لال شاہ حسین کے مزار کے احاطے میں واقع قبرستان میں سپردخاک کیا کیا۔
پاکستان میں پنجابی زبان کے فروغ کے حوالہ سے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں میں پنجابی ادبی بورڈ ، پلاک (پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئچ )، پنجابی ادبی سنگت، پنجابی پرچار تنظیم، سانجھ متر تنظیم، پنجابی کھوج گڑھ، لوکائی، دل دریا پاکستان، پاکستانی سانجھ سنگت، شاہین ادبی سنگت، سنگت بلھے شاہ، ماں بولی کوآرڈینیشن کمیٹی، قْقنس، سنگری، پنجاب لوک لہر اور دیگر شامل ہیں۔
پشتو / پښتو
16فیصد پاکستانیوں کی مادری زبان پشتو ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے اگر چہ مختلف علاقوں میں اس کا لہجہ بھی دیگر زبانوں کی طرح مختلف ہے ۔ پشتو کے 17مختلف مشہور لہجے ہیں۔ پشتو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پاکستان کے دیگرصوبوں بلوچستان، پنجاب،بلوچستان، سندھ ، میں بھی بولی جاتی ہے ۔
پشتو زبان کی ادبی ترویج میں حضرت رحمان بابا، مرزاخان انصاری، خوشحال خان خٹک، جمال الدین افغانی، اشرف خان خٹک، عبدالقادر خان خٹک، احمدشاہ ابدالی، نازوتوخی،کاظم خان شیدا ، خواجہ محمد بنگش، حمزہ بابا، خاطر آفریدی، غنی خان، کبیر ستوری، سمندر خان سمندر، پریشان خٹک قابل ذکر ہیں۔
حمزہ بابا
پشتو زبان کے شاعر، ادیب، صوفی، مفکر اور بابائے غزل امیر حمزہ شنواری جو عموماً حمزہ بابا کے نام سے مشہور ہیں، ستمبر 1907ء کو درہ خیبر کے ایک پس ماندہ علاقے لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے۔ 1913ء میں گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل ہوئے مگر پڑھائی سے جی چراتے اور اکثر اوقات سکول سے غیر حاضر رہتے تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد نے انہیں پشاور میں اسلامیہ کالجیٹ سکول داخل کروادیا ۔ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی (خاکسار تحریک کے بانی) اس اسکول کے پرنسپل تھے۔
اسکول کی تعلیم کے بعد بعد حمزہ شنواری طورخم میں پاسپورٹ کلرک بھرتی ہوئے، قبائلی پولیٹیکل نظام میں بھی بطور کلرک رہے ، بعد میں ریلوے میں ملازمت بھی اختیار کی، مگر حمزہ شنواری اپنی سیمابی فطرت کی وجہ سے دیر تک ایک جگہ ملازمت نہیں کرسکتے تھے۔
ملازمت کی تلاش میں بمبئی اور دہلی گئے، مگر کہیں کام نہیں ملا۔ واپسی پر اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دی جہاں ان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ یہیں سے ان کے اندر کے صوفی نے انگڑائیاں لیں، واپس گاؤں آئے ۔
یہاں ایک روحانی شخصیت سید عبدالستار شاہ عرف بادشاہ جان کے مرید بن گئے اور اپنے مرشد کی ہدایت پر پشتو زبان پشتو میں لکھنا شروع کردیا۔ 1937ء میں تصوف کے موضوع پر کتاب ‘‘تجلیات محمدیہ’’ لکھی۔اخبار میں افسانے اور مضامین اور پشاور ریڈیو کے لیے سینکڑوں ڈرامے، گیت ، مکالمے ، فیچرز اور تقریریں لکھیں۔
حمزہ بابا ادبی تنظیم بزم ادب پشتو کے نائب صدر ، ادبی تنظیم اولسی ادبی جرگہ کے صدر اورپاکستان رائٹرز گلڈ سابق صوبہ سرحد کے اولین سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے تھے، انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے رحمان بابا کی غزلوں کا منظوم اردو ترجمہ اور علامہ اقبال کے جاوید نامہ اور ارمغان حجازکا پشتو میں منظوم ترجمہ بھی کیا۔ حمزہ بابا نے تصوف، شاعری، ثقافت اور ادب کے موضوع پر 35 کتابیں لکھیں ۔ ان کے بیشتر اشعار ضرب المثل کی طرح سنائے جاتے ہیں۔
بابائے جدید پشتو غزل امیرحمزہ خان شنواری 18فروری 1994ء کو 87 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ حمزہ بابا کے کلام سے انتخاب….
ستا پہ اننګو کې د حمزہ د وینو سره دي
تہ شوې د پښتو غزلہ ځوان زہ دې بابا کړم
تیرے رخساروں میں حمزہ کے خون کی سرخی ہے
اے پشتو کی غزل تم جوان تو ہوگئی مگر مجھے بوڑھا کرگئی
انسان یم د فطرت په تقاضو کښي نه راځم
شاهین یم د کارغانو په پنجو کښي نه راځم
یو سیند یم د صهبا د پیرزوني وهم جوش
لیکن زه د کم ظرفو په کاسوکښي نه راځم
میں وہ انسان ، فطرت کے تقاضے جسے نہ روک سکیں
میں وہ شاہین، کوؤں کے پنجے جس تک نہ پہنچ سکیں
میں (علم و عشق کی ) مئے کا جوش مارتا وہ سمندر ہوں،
جس کے قطرے ، کم ظرف پیالوں تک نہ پہنچ سکیں
زود رنجی دَ آئینہ زڑونو صفت وی
صافی ڈیرہ قبلوؤنہ د غبار کا
زود رنجی آئینہ دلوں کی صفت ہے
صافی نے کتنا غبار جذب کیا ہے
ته یو ښه پښتون شه نو انسان به شے
بیا چه ښه انسان شے مسلمان به شے
پہلے اچھے پشتون بنو، تبھی بنو گے اچھے انسان
جب اچھے انسان بنو گے، تبھی بنو گے اچھے مسلمان
حمزہ بابا کی شاعری کے چند تراجم پیش خدمت ہیں:
اگرچہ تیرا خیال میرے دل کی گرہ نہیں کھولتا
مگر تیرے تصور نے میری بصارت کا دروازہ کھول دیا
دل کی کائنات یہ ایک آہ ہے
کیا رہ جائے گا اگر یہ بھی نکل گئی
کچھ لمحے پہلے میں تیری آنکھوں میں تھا
اب میں نظر نہیں آ رہا، تو نے مجھے کہاں کھو دیا
میرے خیال کی اڑان کائنات سے ماورا ہے
روشنی کی رفتار محسوسات سے باہر نہیں نکل سکتی
ان میں الفاظ نہیں صرف مفہوم ہے
آہوں کی طرح باتیں کرتا ہوں
تیری دید کے لیے میں فنا ہو چکا ہوں
میرے بدن میں صرف آنکھیں رہ گئی ہیں
جس کے اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے
خیال میں وہ مضمون آیا ہے
جب ہر شے سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس میں کچھ نہیں بچتا
تخیل کا عدم آئینے کا وجود رکھتا ہے
پاکستان میں پشتو زبان کے فروغ کی علمبردار ، ادبی اور ثقافتی تنظیموں اور اداروں میں پشتو اکیڈمی، پشتو ادبی تحریک، اولسی ادبی جرگہ، پشتو ادبی سوسائٹی، پشتو ادبی خدمتگار، تنقیدی ادبی ٹولنہ، رحمان بابا ادبی جرگہ اور دیگر شامل ہیں۔
بلوچی / بلۉچي
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاوہ بلوچی بولنے والے سندھ ، پختونخوا میں آبادہیں۔ پڑوسی ملک ایران میں بھی بلوچی بولی جاتی ہے، تاہم ان کے لہجے اور بلوچستان کے لہجے میں بہت فرق ہے۔
بلوچی زبان کی ترویج میں صوفی بزرگ حضرت میاں عبدالحکیم نانا صاحب، جام درک، مُلاّ فاضل، مست تولی، ملا مزار بنگلزئی ، ملنگ بابا، نورمحمد بمپشتی، مولانا خیر محمد ندوی ؒ ، سید ظہور شاہ ہاشمی ، محمد حسین عنقاؔ ، جی آر مُلاّ، میر گل خان نصیر، آزاد جمالدینی، عطاشاد، فیض بخشاپوری ، صبا دشتیاری کے نام قابل ذکر ہیں۔
بلوچی زبان کے حروف میں ث، ح، خ، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، کےحرف استعمال نہیں ہوتے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 19صدی سے قبل بلوچی غیر تحریر شدہ زبان تھی۔ قیام پاکستان سے قبل سے کراچی کے صوفی بزرگ ملنگ بابا نے بلوچی زبان میں اولین غزلیں کہیں، لیکن اس وقت بلوچی زبان باقائدہ تحریری شکل میں نہ تھی، اس لیے ان کا کلام سینہ بہ سینہ ہی آگے بڑھا۔ ملنگ بابا فرماتے ہیں :
تک دو روچی ھست اے دنیا اعتبارے ۽ ھچ نیست
آ کج اِنت سُلطان سکندر یادگارے ۽ ھچ نیست
اس ایک دو دن کی دنیا پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا
کہاں ہے سلطان سکندر جس کی یادگار تک باقی نہیں
اپسوز ھزار ارماں گنِداں نہ گنداں دوست ءَ َ
نیست اِشک ءِ درد ءَ درمان گنِداں نہ گنداں دوست ءَ َ
(صدر ہزار افسوس وارمان کی بات ہے کہ دوست کو دیکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتے،
عشق کے درد کا واقعاً کوئی علاج نہیں کہ دوست کودیکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتے ….)
سید ظہور شاہ ہاشمی
ایک نوجوان بلوچ پہلے اپنے لیے علم و ادب کی مشکل راہوں کا انتخاب کرتا ہے، ان وادیوں میں قدم رکھنے کے بعد صرف شاعری اور نثری ادب تک خود کو محدود نہیں رکھتا بلکہ بلوچی کو عالمی معیار کے مطابق زبان کا درجہ دینے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ کم عمری میں ہی یہ منفرد کارنامہ انجام دے دینے والے فرد کا نام ہے سید ظہور شاہ ہاشمی ۔
بلوچی کو باقاعدہ زبان کی حیثیت دینے میں سب سے بڑا کردار ایک بلوچ جوان سید ظہور شاہ ہاشمی کا ہے۔ سید ظہور شاہ ہاشمی کو جدید بلوچی ادب کا بانی شمارکیا جاتا ہے۔ گوادر کے پہلے بلوچی افسانے سے لے کر، اولین بلوچی ناول انہی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اسی مردِ علم و ادب نے بلوچی ادب میں تحقیق و تنقید کی روایت ڈالی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بلوچی زبان کی لغت مرتب کرنا ہے۔
سید ظہور شاہ ہاشمی 21 اپریل 1926ء کو بلوچستان کے تاریخی ساحلی بندرگاہ گوادر میں پیدا ہوئے، سعدیہ اسکول گوادرمیں تعلیم حاصل کی۔ گوادر اس وقت سلطنت آف عمان کی عمل داری میں تھا۔ ان دنوں اسکولوں میں عربی لازمی پڑھائی جاتی تھی، یوں انہیں فارسی کے ساتھ عربی زبان پر بھی عبور حاصل ہوا۔مزید تعلیم کے لیے کراچی آئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور وہاں کئی بلوچی پروگرام تخلیق کیے۔
بلوچوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کو اجاگرکرنے کے لیے گوادر میں انجمن اصلاح بلوچاں نامی تنظیم اور کراچی میں بلوچی ء زبان ء سرچمگ نامی ادبی تنظیم قائم کی ۔
سید ہاشمی بلوچی زبان، ادب کیلئے دن رات کوشاں رہے۔ انہوں نے عمر کا اچھا خاصا حصہ خلیج کے ممالک میں بھی گزارا، ظہور ہاشمی نے بلوچی کا پہلا ناولٹ ‘‘نازک’’ سمیت لگ بھگ 30 سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں زیادہ تر شاعری‘ ناول‘ افسانہ اور زبان و لسانیات پرمبنی تھیں ۔
بلوچی زبان کا یہ درخشاں ستارہ 3 مارچ 1978ء کو ٹی بی کے مہلک مرض میں 52 سال کی عمر میں اس دارفانی سے غروب ہوا۔
سید ظہور شاہ ہاشمی نے بلوچی ادب کو نئی جہت بخشی۔ سید ہاشمی کا شمار بلوچی زبان کے صف اول کے شعراء و ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی بلوچی زبان، ادب ، ثقافت اوربلوچ قوم کی تاریخ کے فروغ کے لیے وقف کردی تھی۔بلوچی زبان کے لیے بے لوث خدمات کرنے پر انہیں تمغۂ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ ان کا ایک بلوچی شعر ہے،
بیا پدا شتکیں تلارانی دلاں دراں کنیں
گران بہائیں مہر و دوستی ءَ ارزان کنیں
(آؤ مل کر ان بڑے بڑے مضبوط پہاڑوں کا سینہ چیر لیں،
کہ شائد اس طرح پیار و محبت ہر ایک کے سینے میں آسانی کے ساتھ جگہ بنا لے۔)
نی سید بس کن کینگ ءُ کست ءِ
وشنیتکانی لہڑ جنت منجل
(سید ہاشمی خود سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں بس اب کینہ و حسد چھوڑ دے ،
کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی آگ کا جوش تمہاری جنت کو پگھلا دے۔ )
ایک اور شعر کا ترجمہ اس طرح ہے،
“دشمن میرے ہر کام میں نقص نکالتے ہیں، وہ کبھی خوش نہیں ہیں، میری یہ جان، میرا یہ نازک اور کمزور جسم قوم کی امانت ہے، جب تک میں اپنی منزل تک نہ پہنچوں تو مجھے قرار کیسے آئے گا”
ایک اور جگہ کہتے ہیں،
“میں نے کب اس دنیا میں سرداری معتبری مانگی تھی۔ میں نے کب اس دنیا میں سونا چاندی لعل و جوہر مانگے تھے۔ جو آئے تھے میں نے انہیں کب بلایا تھا، وہ بزور قوت آئے تھے۔ میں نے تو فقط ان ظالموں سے قوم کی تاریخ مانگی تھی،اس کے بدلے میں انہوں نے ہمیں افلاس و غربت سے ہمکنار کر دیا۔”
سرائیکی
سرائیکی، پاکستان کی اہم ترین علاقائی زبانوں میں سے ایک ہے، پاکستان میں 60 ملین (6 کروڑ ) لوگ سرائیکی وسیب، جنوبی خیبر پختونخواہ، شمالی سندھ اور مشرقی بلوچستان میں سرائیکی بولتے ہیں ، بھارت اور افغانستان میں بھی سرائیکی بولنے والوں موجود ہیں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق سرائیکی پاکستان کی تیسری بڑی زبان اور سب سے زیادہ حروف تہجی رکھنے والی زبان ہے۔
معروف صوفی شعراء حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ، شاہ حسینؒ، شاہ شمس سبزواری،سچل سرمستؒ ؒ، سلطان باہوؒ، بابا بلھے شاہؒ ؒ اورخواجہ غلام فریدؒ، بہاءُالدین زکریا ملتانیؒ،حافظ جمال اللہ چشتیؒ، منشی غلام حسن شہیدؒ، پیر علی مردان اویسیؒ، حافظ مدد علی، خواجہ مراد، عبدالرب علی افغانی شہید المعروف بابا غریب شاہؒ، قاضی احمد دین، مولانا قائم الدین خان لنگاہؒ، مولانا نظام بخش قریشیؒ، خواجہ عبید اللہ ملتانیؒ، خواجہ محمد حسین بخش ملتانیؒ اور دیگر بے شمار علماء اور شعراء نے سرائیکی زبان و ادب کی مختلف حوالوں سے بھرپور خدمت کی اور سرائیکی کو بامِ کمال تک پہنچایا۔
موجودہ دور میں سرائیکی زبان کی خدمت کرنے والوں کی بات کریں تو قیام پاکستان کے بعد خرم بہاولپوری، مہر عبد الحق سومرہ، شوکت مغل، ممتاز حیدر ڈاہر ،ارشد ملتانی، دلشاد کلانچوی، ڈاکٹر طاہر تونسوی، احمد خان طارق اور عوامی شاعر شاکر شجاع آبادی کے اسماء نمایاں ہیں۔
سرائیکی زبان کے فروغ کے لیے سرگرم اداروں اور تنظیموں میں سرائیکی لوک سانجھ، سویل Swail، سویل سرائیکی سنگت، سرائیکی ادبی گوجھی، سرائیکی مجلس ، سرائیکی فاؤنڈیشن نمایاں ہیں۔
احمد خان طارق
احمد خان طارق سرائیکی دوہڑے کے مقبول ترین شاعر جنہیں سرائیکی وسیب میں ‘‘دوہڑے کا بادشاہ’’ کہا جاتا ہے۔
احمد خان طارق 1924ء میں ڈیرہ غاذی خان کے گاؤں شاہ صدر دین میں پیدا ہوئے۔ احمد خان طارق نے سرائیکی شاعری کی کئی اصناف میں نہ صرف کام کیا بلکہ اپنی انفرادیت کے رنگ بھی نمایاں کئے۔ یہ الگ بات کہ ادبی دنیا میں ان کی زیادہ شہرت اور انفرادیت ان کی ڈوہڑا گوئی کے حوالے سے تھی۔ احمد خان طارق کا دوہڑہ علاقائی روایت و ثقافت،غربت و افلاس،عشق و محبت اور علاقائی محرومیوں کی بھرپورعکاسی کرتاہے۔
احمد خان طارق کی تصانیف میں گھروں در تانی،طارق دے دوہڑے،متاں مال ولے،میکوں سی لگدے،ہتھ جوڑی جُل،بیٹ دی خوشبو شامل ہیں۔
احمد خان طارق کا 10 فروری 2017 کو 93 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
ذیل میں ان کے چند مشہوردوہڑے پیش ہیں:
اے پاگل دل! بے ہوش نہ تھی،
ذرا آپ کوں جھل ، کل آ ویسی
کل سجھ دا وعدہ کر گئے چن،
من کہیں دی گل ، کل آ ویسی
شالا خیر ہووِس ، تھیسی خیر دا ڈینہہ ،
بہسوں رست مل ، کل آ ویسی
اجاں اج تاں طارق ویندا پئے
کل لہسی کل ، کل آ ویسی
تیڈی چھاں تے پلدے پئے ہاسے
کر پاسہ گئیں چن دُھپ کیتی
بس لکدا چھپدا دیکھ تیکوں میڈا
سیت وہ گئے لک چھپ کیتی
چن چاندڑیاں چٹیاں ڈد ھ راتیں
گئیں قہر دیاں کالیاں گھپ کیتی
ادھ بزم دے طارق بہن والے
اج بیٹھوں چنڈ ءِ چ چپ کیتی
چڑیاں اُٹھو ، کئی دھاں کرو، چُپ نہ کرو ، چُپ نہ کرو
خالق جہاں دی خیر کر، ہتھ جوڑ کے چلکیاں کرو
تن بے کفن ڈٖیکھو کتھائیں، ونجٖ کے پراں دی چھاں کرو
رُٹھڑے مناونْ دا دَوا، ساونْ دے سنگ سنگتاں کرو
ہتھ وچ جے کُئی ہتھیار نئیں، چیں چیں کرو چاں چاں کرو
جیکر خُشیاں محبوب ہِن، مونجھیں دیاں وی قدراں کرو
طارقؔ سویرے شام آ ، ویڑھے میڈٖے چُگٖیاں کرو
نہ ساہ مکدے نہ سِک مکدی پئے موتی رُلدن خاک اُتے
میکوں اپنے حال ملال نہیں جگ کھلدے حال ہلاک اُتے
کیں حال دعادے ہتھ چاواں کیویں مرہم لاواں چاک اتے
ہتھ دوہیں طارق رُجھ گئے ہن،ہک طاق اتے بیا ڈھاک اتے
شاکر شجاع آبادی
شاکر شجاع آبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔ جسے سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔
شاکر شجاع آبادی کہتے ہیں:
سانوں خوف نئیں دشمن دا
سانوں یار دی یاری کھاگئی ۽
بس شاکر فرق معیاد دا ۽
میں آج رونداں توں کل روسیں
کیہندے کتّے کھیر پیون کیہندے بچّے بھکھ مرن
رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر
نجومی نہ ڈراوے دے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتہاں تے چھالے تھئے لکیراں خود بدل ویسن
تو محنت کر محنت دا صلہ جانڑے خدا جانڑے
تو بیوا بال کے رکھ چھوڑ ہوا جانڑے خدا جانڑے
توں وی راضی میں وی اپنڑا ہاں ٹھریندا رہ ونجاں
لوک پڑھدن حج نمازاں میڈے ذمے لا ایہو
میں تیڈے محبوبؐ دے سہرے لکھیندا رہ ونجاں
بے دید سڄݨ دی یاری کنوں ایویں سُنج ہووے تاں ٹھیک ءِ
بے دید کڈاہیں ڈکھ سُکھ وِچ نہ تھیسی مُول شریک ءِ
منگو وعدہ مِلنڑ دا بُھل چک کے نت ڈیسی غلط تاریک ءِ
کُتا پال کے شاکر کِھیر پِلا بے دید کنوں تاں ٹھیک ءِ
ہندکو
ہندکو پاکستان کی قدیم ترین زبان ہے جو خیبر پختونخوا کے علاوہ صوبہ پنجاب میں اٹک و پوٹھوار اور آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندکو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد سندھ کے شہر کراچی میں بھی مقیم ہے۔
ہند کو کے قدیم شعراء میں رحمت خان رحمت ، محمد دین مائیو، شادا، بابا وجیدا، فر دوس ، کنہیا سنگھ ، نا مور، حاجی گل، امام دین ہزاروی، سخی نماڑا ، استاد مہیّن، بر دا، گاموں ، رمضو اور سائیں احمد علی سائیں پشاوری نمایاں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہندکو زبان کی خدمت کرنے والوں میں رضا ہمدانی، فارغ بخاری، آخونزادہ مختار علی نیئر ، خاطر غزنوی ، جلیل حشمی، سلطان سکون، آصف ثاقب ، غلام محمد قاصر ، عبدا للہ یزدانی اور الطاف صفدر کا نام قابل ذکر ہے۔
پاکستان میں ہندکو زبان و ادب کے گہواروں میں گندھارا ہندکو بورڈ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، اباسین آرٹس کونسل، بزم شعور ہندکو، ہندکو رائٹرز سوسائٹی کا نام نمایاں ہے۔
سائیں علی احمد پشاوری
صوفی شاعر احمد علی سائیں کا تعلق پشاور سے ہے ، آپ کا شمار انیسویں اور بیسویں صدی کے معروف شعراء میں ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری معروف صنف سی حرفی پر مشتمل ہے۔ آپ کے کلام میں فکر و فن کی پختگی کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی، اپنی دھرتی اور اپنے وسیب سے محبت کا اظہار بھی موجود ہے ۔
سائیں احمد کی شاعری کے موضوعات میں حمد، نعت، قصیدہ، حسن و عشق، فطرت، تصوف، عرفان زار، عاجزی، انکساری، سچائی، سخاوت، دنیا اور دنیا کی بے سباتی سب شامل ہیں۔
پاکستان کے صوفی شعراء میں حضرت احمد علی سائیں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ احمد علی سئیں نے بھی بابا بلھے شاہ، بابا فرید، رحمان بابا، مست توکلی، شاہ عبداللطیف ڈھٹائی، سئیں فقیر، سئیں غلام دین ہزاروی اور شاہ حسین کی طرح آفاقی پیغام کو شاعری میں ڈھال کر لوگوں تک پہنچایا۔ سائیں احمد کی سہ حر فیوں کو سن کر علامہ اقبال نے انہیں ہند کو کا غاؔلب قرار دیا۔ سائیں کی شاعری میں ہند کو محاوروں کا استعمال ان کے کلام کو مزید دل پزیر اور خوش کن بنا تاہے۔
اتھے مار دے ٹکراں خیال سائیاں
جھتے پونچ نہ بادِ صبادی اے
میں تاکھو جیاں دابی استاد ہیواں
تو اے سمجھے، سمجھدار ٹور نیئں میں
سائیں زندہ دل زنگی رکھنا واں،
دنیاجان دی اے زندہ در گور نیئں میں۔
احمد علی سئیں کے چند شعر
رنگ چاہڑے جس نے پربتاں نوں طلب ازل سیں اُسے مشتاق دی اے
ہمسری کرنے اُسدی آئے لکھاں وار سہہ نہ پائے آفاق دی اے
جس قدم ٹھہریا عرش فرش ٹھہرے خوبی خوبیوں میں یہ میثاق دی اے
خود پرست ہن پرکھدے کہہ سائیاں جبکہ خاتم یہ مہر فراق دی اے
رضا ہمدانی
شاعر اور ادیب مرزا رضا حسین ہمدانی 1910ء میں پشاور میں پیدا ہوئے ، اعلیٰ تعلیم کے بعد پشتو فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ اردو، فارسی اور پشتو کے ساتھ ساتھ ہندکو میں بھی شعر کہے۔ انہوں نے ہند کو فلموں کے لیے گیت بھی لکھے۔ افسانے، ڈرامے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔ اصنافِ سخن میں غزل، نظم، رباعی، قطعہ سب ہی میں طبع آزمائی کی۔
رضا ہمدانی کی تصانیف ایک درجن کے قریب ہیں جو ادبی ،ثقافتی اور تاریخی وسوانحی، دینی ومذہبی موضوعات سے متعلق ہیں۔ ان تصانیف میں اردو شعری مجموعے، صلیب فکر، رگ مینا اور سدرۃ المنتہیٰ کے علاوہ ہندکو شعری مجموعہ ترمے ترمے اور نثری کتب میں ادبیات سرحد، جمال الدین افغانی، خوشحال خان کے افکار، رحمان بابا کے افکار، چار بیتہ، مراۃ الاسلام، سائیں احمد علی پشاوری اور پشتو ادب اور تراجم میں پشتو افسانے، باز نامہ اور پشتو کی رزمیہ داستانیں شامل ہیں۔
﷽ رضا ہمدانی کے علمی و ادبی کارناموں کے اعتراف میں رائٹرزگلڈ،اباسین آرٹ کونسل اور یونیسکو کی جانب سے انعامات سے نوازا گیا۔
رضا ہمدانی کا ہندکو شعر ملاحظہ کیجیے :
چھپن چھوپ دا بہانہ کر کے
نیناں دے وچ لگ گیا واں.
رضا ہمدانی کے چند اردو اشعار:
ہر عکس خود ایک آئنہ ہے
ہر سایہ زباں سے بولتا ہے
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
طعنہ دیتے ہو مجھے جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے
عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی
جو ہارے وہ جیتے جو جیتے وہ ہارے
جنوں کا راز محبت کا بھید پا نہ سکی
ہمارا ساتھ یہ دنیا مگر نبھا نہ سکی
معمورۂ افکار میں اک حشر بپا ہے
ادراک بھی انساں کے لیے طرفہ بلا ہے
بکھر گیا ہوں فضاؤں میں بوئے گل کی طرح
مرے وجود میں وسعت مری سما نہ سکی
خراب عشق سہی عالم شہود میں ہوں
ہوں اشک اشک مگر اپنے ہی وجود میں ہوں
رضا ہمدانی بزم سخن پشاور، ادبستان پشاور کے ناظم اور انجمن ترقی اردوسرحد کے سیکرٹری بھی رہے۔ ماہنامہ ند ، ہفتہ وار شباب پشاور اور ہفتہ وار اخبار شباب لاہور سمیت کئی رسائل کے مدیر رہے۔
پشتو اور ہندکو ادب کو اردو دان طبقے سے متعارف کرانے میں بھی انہیں اولیت حاصل رہی۔ رضا ہمدانی 9جولائی 1994ء کوپشاور میں وفات پاگئے۔
پاکستان کے سینئر صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، براڈ کاسٹر جناب نذیر لغاری اور
استاد، شاعر ، کتاب ‘‘پاکستان کے صوفی شعرا ’’کے مرتب اور دیگر کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر راشد متین کے شکر گزار ہیں۔
i am adding this in my upcoming book
مضمون کا کوئی حصہ کسی کتاب میں شامل یا انٹر نیٹ پر شئیر کرتے ہوئے روحانی ڈائجسٹ کا حوالہ ضرور تحریر کریں۔