تین روز سے ماں کومے کی حالت میں تھی۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ مجھے جب ماں کی خبر ملی تو میں ماں سے سینکڑوں کلومیٹر دور تھا۔ دس بارہ گھنٹوں کے تھکا دینے والےسفر کے بعد اسپتال پہنچا۔ ماں ICU میں تھی ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا جارہا تھا۔ بڑی کوشش کے بعد ڈاکٹروں نے صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے مجھے ICU میں ماں تک رسائی دے دی۔
ماں بیڈ پر بغیر حرکت کے لیٹی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میری راہ دیکھ رہی ہے۔ پورے جسم پر ڈرپ اور مانیٹر کے تار لگے ہوئے تھے۔ میں بیڈ پر ماں کے برابر ان کا ہاتھ تھامے بیٹھ گیا۔ کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ مجھے محسوس ہوا کہ ماں ہوش میں آرہی ہے۔ میری نظر ان کے چہرے پر تھی ان کی آنکھیں ڈبڈبائیں اور چند ثانیے کے بعد آنکھیں کھلنے لگیں۔ جب حواس پوری طرح بحال ہوئے تو ماں کا پہلا جملہ تھا ….
‘‘بیٹا تو اتنی دور سے آیا ہے کیا تو نے کھانا کھا لیا۔’’
ماں اپنا درد بھول کر میری بھوک کی فکر میں تھی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو گرنے کو تھے کہ ماں نے انہیں اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا….
ماں بظاہر تین حروف پر مشتمل ایک مختصر، مگر انتہائی میٹھا لفظ ہے، لیکن اس مختصر لفظ کی وسعت کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ یہ رشتہ اپنی ذات میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ اس میں محبت و ایثار، نیکنیتی، خلوص، قربانی کے عظیم جذبات، بچوں کی تکلیف دور کرنے کا شدید احساس اور ان کی اچھی پرورش کی بھاری ذمہ داری، سب ہی کچھ ہے۔
بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا، وہ پڑھ لکھ کر قابل ہوجائیں تو انہیں اعلیٰ و ارفع مقام پر دیکھنے کے لیے رب کے آگے جھولی پھیلا پھیلا کر رات دن دعائیں اور ان کی صحت وتندرستی، درازیٔ عمر کی اللہ تعالیٰ سے رورو کر التجا کرنا ہی اس کے درجے کو انتہائی بلندی عطا کرتا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ماں کو ہر طرح کے عنوان سے نوازا گیا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں ماں کے رشتہ کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
ماں ایک ایسے درخت کی مانند ہے، جس کی گھنی چھاؤں کبھی کم نہیں ہوتی۔ ماں کی دعا اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والا کبھی سکھی نہیں رہتا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر کسی کی ماں اس سے ناراض ہے تو وہ یقیناً جنت کی چابی کھو چکا ہے۔
ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ماں شاہ سے فقیر تک سب کے لیے قابل تعظیم ہے۔ ماں ہی تو ہے جو اپنی ذات کو فنا کرکے اپنی گود میں نئی نسل کو پروان چڑھانے اور نئی بستیوں کو تعمیر کرنے کے لیے عظیم قربانی دیتی ہے، محبت کے لازوال چشمے ماں کے دل سے ہی پھوٹتے ہیں اور بچوں کی ذات کو سیراب کرتے رہتے یں۔ غور کیا جائے تو سب سے خوبصورت لفظ ‘‘ماں’’ ہی ہے۔ ماں کا وجود اپنے اندر محبت و امید کا بھرپور احساس لیے ہوئے ہے۔
اس عظیم ہستی کی دل و جان سے قدر کریں۔ اس ہستی کی ناراضگی مول لینے سے گریز کریں۔ماں کی خوشنودی دنیا میں باعث راحت اور آخرت میں باعث نجات ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہستی آپ سے چھن جائے اور آپ ساری زندگی پچھتاوے کی آگ میں جلتے رہیں۔ اس لیے جب تک وہ حیات ہے، اس کی خدمت کرنے ہی میں اولاد کی فلاح اور بھلائی ہے۔ اگر جوان ہو کر اولاد ماں کا یہ احسان بھول جائے کہ اس کی ماں نے کتنی راتوں کی نیند اور دن کا سکھ چین اولاد پر قربان کردیا، اس کی پرورش کرنے میں کتنی تکالیف اٹھائیں اور زندگی کے کتنے ہی مسائل سے نبردآزما ہو کر اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو یقیناً یہ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔ اب اگر ہمیں اور آپ کو دین اور دنیا میں منزل مقصود یعنی جنت کمانی ہے تو ہم سب پر اپنی ماں کے حقوق ادا کرنا فرض ہیں۔ سب سے پہلا حق تو یہی ہے کہ تا زندگی اولاد اپنی ماں کی فرمانبرداری کرے اور اسے اُف تک نہ کہے۔ یاد رکھیے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے، اس لیے ہمیشہ ماں کے سامنے مؤدب رہا جائے اور ہر حال میں اس کی تعظیم کی جائے۔ ماں کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کے لیے دعا کی جائے۔ ماں کے رشتہ داروں اور قرابت داروں سے بھی حسن اخلاق سے پیش آیا جائے۔ ماں کے ذمہ اگر کسی کا کوئی قرض ہو تو وہ بھی بغیر حیل و حجت ادا کیاجائے۔
ماں محبت کا لازوال سرچشمہ – تحریر اقراء فہیم / روحانی ڈائجسٹ مئی 2016ء سے اقتباس