Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

آئیے مراقبہ کرتے ہیں ۔ 2


دوسرا حصہ

مراقبہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی فطرت سے قربت محسوس کرتاہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے باشندے ہوں یا ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے ،بے شمار مرد وخواتین کے سب سے بڑے مسائل اسٹریس اورٹینشن ہیں۔ یہ مسائل آگے چل کر ڈپیریشن ،مختلف قسم کے ذہنی وجذباتی عدم توازن Disorders شیزوفیرنیا Schizophreniaاور بعض دیگر نفسیاتی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔
ہم اپنے بزرگوں سے پوچھیں توہمیں علم ہوگاکہ اب سے چالیس پینتالیس سال پہلےتواکثر لوگ ان نفسیاتی امراض کانام تک نہ جانتے تھے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی، روزگار کی طرف سے بے یقینی کی صورتحال ،دن میں آٹھ گھنٹوں سے بڑھ کر بارہ چودہ گھنٹوں تک اورکہیں تو سولہ سولہ گھنٹوں تک کام کرتے رہنا اب ایک عام سی بات ہے۔متوسط طبقے کے افراد ہوں یا متمول افراد سب ہی وقت کی کمی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ان معاشی مصروفیات کے پیچھے صرف گھریلو اخراجات کی ادائیگی کی فراہمی کے انتظامات ہی شامل نہیں ہیں بلکہ بہت سے خوش حال اور متمول افراد بھی کام کی زیادتی میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شدید مصروفیت کی وجہ بزنس کو استحکام دینا اورشدید مقابلے کی دوڑ میں آگے رہنا ہے۔
تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے یا بعض حلقوں کی طرف سے قصداً تبدیل کیے جانے معیارات سے زندگی کا فطری حُسن و جمال متاثر ہورہاہے۔ یہ عوامل جسمانی ونفسیاتی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔یہ نقصان کہیں دھیرے دھیرے ہورہاہے اورکہیںتیزی سے ۔
صنعتی ترقی، تیز رفتار مواصلاتی نظام، معاشی دوڑ اوردیگر کئی عوامل کی و جہ سے ماحول میں ہونے والی تبدیلی کو روکنا توہمارے لیے ممکن نہیں ہے تاہم کئی تدابیر ایسی ہیں جن کے ذریعے آج بھی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ،جذباتی اورروحانی طورپر بھی صحت منداورخوش رہا جاسکتاہے۔
ان تدابیرمیں مراقبہ سرفہرست ہے۔
مراقبہ کے چند فوائد کا ذکر گزشتہ ماہ ہواتھا۔ان سطور میں ایک جگہ ہم نے تحریر کیا تھا
اگر آپ اپنی زندگی کوبہتر بنانے کے لیے مراقبہ سے مدد لینا چاہیں تو آپ کو چند امور کاخیال رکھنا ہوگا۔ان چند امورکو ہم یہاں ترتیب وار بیان کررہے ہیں۔

  1. ارادہ
  2. مقصد کا تعین
  3. وقت کا انتخاب
  4. غذائی معمولات کا جائزہ اورحسبِ ضرورت ردوبدل
  5. لباس کاجائزہ اورحسب ضرورت ردوبدل

ارادہ اورمقصد کے تعین پر مختصراً کچھ عرض کیا جا چکا ہے۔ اب ہم اگلے نکات پر بات کرتے ہیں۔

3-وقت کا انتخاب:

 

یہ توایک عام فہم بات ہے کہ مختلف کاموں کے لیے مختلف اوقات مخصوص ہوتے ہیں مثال کے طورپر ورزش کے لیے بہترین وقت صبح کا ہے۔ دوپہر کو ورزش نہیں کرنی چاہیے۔
مراقبہ دن یا رات میں کسی بھی وقت کیا جاسکتاہے تاہم مناسب ہوگا کہ اس کے لیے صبح سویرے یا رات سونے سے پہلے کا وقت مقرر کرلیا جائے۔ کئی حضرات و خواتین صبح اُٹھ کر فوراًکام کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اورصبح ورزش ،مراقبہ یا ایسی اورکسی ایکٹویٹی کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔
ایسے حضرات وخواتین دوپہر ،شام یا رات میں مراقبہ کرسکتے ہیں۔مراقبہ کے لیے دن میں حسب سہولت کوئی بھی وقت مقررکرلیں ۔پھراس وقت کی پابندی کی جائے ۔ یہ نہ ہو کہ چندروزشام میں مراقبہ کیا پھر کبھی شام کے بجائے رات سونے سے پہلے مراقبہ کرلیا۔چند روز بعد رات کے بجائے دوپہر کا وقت مقررکرلیا۔ اس طرح کی بے ترتیبی سے مراقبہ کی مشق سے حاصل ہوسکنے والے فوائد متاثرہوں گے۔
مراقبہ کے لیے اپنی سہولت سے دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرلیجئے اوپھر اس وقت کی پابندی کیجئے۔
مراقبہ کا دورانیہ کیا ہو….؟
مراقبہ کے دورانیہ اورمدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس مقصد کے لیے مراقبہ کرنا چاہتے ہیں۔
اسٹریس ،ٹینشن،نیند کی کمی یا ٹوٹ ٹوٹ کر نیند آنے کی شکایت ،مختلف امراض کی پچیدگیوں سے بچاؤ، قوت مدافعت کی بہتری ،جسمانی صحت کی بحالی ، جلد کی صفائی اورجلدکی چمک دمک میں اضافے جیسے مقاصد ہوں یا
ذہنی صلاحیتوں میں اضافے ،یادداشت کی بہتری، سچے خواب کی صلاحیت بڑھانے، چھٹی حس کی بیداری، وجدان کے ذریعے فہم وفراست اورتخلیقی صلاحیتوں کو فائدہ پہنچانا جیسے مقاصد ہوں یا
کشف والہام اوردیگرروحانی مقاصد ہوں !
ان سب کے لیے مراقبہ کے دورانیے اورمدت کا تعین علیحدہ علیحدہ ہوگا۔
مراقبہ کے حوالے سے مقاصد کاجائزہ لینے سے واضح ہوا کہ زیادہ تر خواتین وحضرات نے ذہنی سکون، بہترنیند ، جسمانی صحت کی بہتری، حسن وکشش میں اضافے کے لیے مراقبہ سے استفادہ کرناچاہا۔
ان مقاصد کے لیے مراقبہ کا دورانیہ روزانہ کم ازکم بیس منٹ ہونا مناسب ہے۔
مدت: اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ مراقبہ کتنے عرصے تک کیا جائے….؟
اس کاانحصار ان مقاصد میں سے کسی ایک یا زیادہ مقاصد اورمراقبہ کرنے والے کی اپنی دلچسپی اور استعداد پر ہے۔ یہ مدت چند ہفتے بھی ہوسکتی ہے اورچندماہ بھی۔
کسی کام کو بطورعلاج کیا جائے تواس سے اکتاہٹ یا بوریت کا احساس بھی جلد ہی غالب آسکتاہے لیکن اگر کوئی کام شوق اور جذبے کے ساتھ کیا جائے تو اس کام سے وابستگی میں خوشی اورسکون کا احساس ہوتاہے۔
کئی لوگوں نے بطور علاج مراقبہ شروع کیا۔ اس وقت ان کے ذہن میں تھا کہ یہ چند ہفتوں کی ایک مشق ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جن مسائل کی وجہ سےمراقبہ شروع کیا تھا وہ مسائل بھی بفضل تعالیٰ حل ہوگئے لیکن اس دوران کئی لوگوں کی مراقبہ میں دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ متعلقہ مسائل حل ہوجانے کے باوجود انہوں نے مراقبہ جاری رکھا۔ اب مراقبہ ان کے لیے ایک وقتی ضرورت سے بڑھ کرایک جذبے(Passion) کی حیثیت اختیار کر گیا۔ کسی خاص کام کے لیے مراقبہ شروع کرنے والے کئی حضرات وخواتین نے مراقبہ کو اپنی زندگی کے معمولات میں شامل کرلیاہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ سے کئی بیش بہا اوردوررس فوائدملتےہیں۔

4- غذائی معمولات کا جائزہ اورحسبِ ضرورت ردوبدل:

ہم جو کچھ کھاتے پیتے ہیں اورجس طرح کھاتے پیتے ہیں اس کےاثرات ہمارے جسم اورصحت پر ہی نہیں بلکہ ہمارے موڈاورشخصیت پر بھی ہوتے ہیں۔
آپ موجودہ دور میں انسانوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیجئے۔ آ پ کو بیشتر مسائل کی وجہ صرف ایک ہی نظر آئے گی اور وہ ہے فطرت کے مقررکردہ اصول وضوابط کی خلاف ورزی…. آپ غور کیجئے، شہری طرززندگی میں لوگوں کے زیادہ تر معمولات فطرت کے مطابق نہیں ہیں بلکہ بعض معمولات تو فطرت سے متصادم ہیں۔
ان میں رات گئے تک تیز روشنی کا استعمال، شام کاکھانا رات دیر سےکھانا، کھانے اورسونے کے درمیان وقفے کا کم ہونا، رات کو دیر سے سونا، سورج نکلنے کے بعد دیر تک سوتے رہنا یا پھر رات کو دیر سے سوکر صبح جلدی بیدار ہوجانا جیسے معمولات شامل ہیں۔
فطرت کا تقاضہ تویہ ہے کہ انسان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل متوازن غذا سے اورکھانے پینے کے نظام الاوقات کی پابندی کے ساتھ ہو۔موجودہ دور میں بے شمار لوگوں کا اندازِ طعام یہ ہے کہ جب بھی ملے اورجوکچھ بھی ملے خوب کھاؤ ،خوب پیو۔
انسان کے ذہن وجسم پر مراقبہ کے نہایت مفید اثرات دراصل انسان کے لیے فطرت کی نوازشات اورانعام کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مراقبہ سے بہتر طورپر استفادے کے لیے ضروری ہے کہ مرقبہ کرتے ہوئے ہم خود کو فطرت سے قریب کرنا شروع کردیں۔اس کام کی ابتداء ہمیں غذائی اجزاء اور خوردنوش کے معمولات کے جائزے سے کرنا چاہیے۔

انسان کی غذا اوردیگر ضروریات کے بارے میں فطرت کا منشاء سمجھنے کے لیے جسم انسانی کے مختلف نظاموں پرغورکرنا چاہیے۔ انسان کے نظام ہضم Digestive Systemکے مطالعے سے واضح ہوتاہے کہ انسانی غذا کا بڑا حصہ سبزیوں ،دالوں ،چاول ، پھلوں اوردودھ پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ہماری غذا میں گوشت کی مقدار کم ہونی چاہیے۔ گوشت کے ذریعے جسم میں پروٹین ملتے ہیں لیکن صرف گوشت میں ہی نہیں بلکہ کئی دالوں اوربعض سبزیوں میں بھی وافر مقدار میں پروٹین ہوتے ہیں۔
ہم اپنی غذائی خواہشات اورعادتوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتاہے کہ ہمارے کھانوں میں گوشت کا استعمال غیر ضروری حد تک زیادہ ہے۔ بعض افراد تو کھانوں میں صرف وہ ڈشز ہی پسند کرتے ہیں جن میں گوشت ہو اورسبزیاں نہ ہوں۔


مراقبہ کسی بھی مقصد کے لیے کیا جائے بہتر نتائج کے لیے مراقبہ کی ابتدا ء میں ہی اپنے غذائی معمولات کا جائزہ لے لیا جائے۔ جہاں اس معمول میں رد وبدل کیضرورت ہو وہ کرلیاجائے۔
عام طورپربھی اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کی غذا میں گوشت کی مقدار کم اورسبزیوں ،دال ،چاول اورپھلوں کی مقدار زیادہ ہو،مناسب غذائیت کے حصول کے لیے مائع اشیاء میں دودھ کے استعمال پر غورکیجئے۔
انسان کا بہت گہرا تعلق مٹی اورپانی کے ساتھ ہے۔ یوں سمجھیئے کہ پانی زندگی ہے اورمٹی اس زندگی کی نمو کا ذریعہ ہے۔ فطرت سے قربت بڑھانے میں مٹی اورپانی بہت مدد گارہیں۔
پانی زیادہ پیجیے اورپانی پینے کے لیے مٹی کے برتن زیادہ استعمال کیجئے ۔پانی پیتے ہوئے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو فرحت وتسکین کے احساس سے سرشار کردیتی ہے۔ پینے کے پانی کو مٹی کے صراحی یا مٹکے میں رکھئے اورپانی پینے کے لیے مٹی کا پیالہ یا گلاساستعمالکیجئے۔

مٹی اورپانی کا اتنا سا ملاپ ہی آپ کو فطرت کے قریب لانے میں بہت معاون ہوگا۔
یہ سطور پڑھتے ہوئے ہوسکتاہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ مراقبہ کرنے کے لیے اتنے جتن کون کرے گا …. لیکن اگر آپ مراقبہ نہ کررہے ہوں تب بھی اپنی صحت کی بہتری اوراپنی جسمانی وذہنی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے آپ کو اپنے غذائی معمولات کا جائزہ لینا چاہیے۔

 

 

 

 

 

5- لباس کا جائزہ اورحسب ضرورت ردوبدل:

اچھا لباس انسان کی شخصیت کوچارچاند لگا دیتاہے۔ خواتین تو لباس کے معاملے میں بہت ہی حساس ہوتی ہیں۔ خواتین کی منفرد نظر آنے کی خواہش کی سب سے زیادہ تکمیل ملبوسات کے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔بعض مرد بھی لباس کے معاملے میں اپنے شوق اوراعلیٰ ذوق کا اظہارکرتے ہیں۔
لباس انسان کے ذوق کا عکاس ہوتاہے لباس کسی حد تک انسان کے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتاہے۔
فطرت سے قربت یا دوری میں لباس کا بھی حصہ ہے۔مراقبہ سے زیادہ فائدہ پانے کے لیے بہتر ہوگا کہ ہمارے ملبوسات میں کاٹن کا حصہ زیادہ ہو۔گرمیوں میں مصنوعی ریشے سے تیارکردہ لباس کم سے کم اورسوتی کپڑے کے ملبوسات جبکہ سردیوں میں سوتی اوراونی ملبوسات استعمال کیے جائیں۔

جاری ہے….
روحانی ڈائجسٹ جولائی 2012 سے انتخاب

یہ بھی دیکھیں

کیا پانی بھی تکلیف، خوشی اور غم محسوس کرتا ہے….؟

جاپانی سائنس دان مسارو ایموٹو Masaru Emoto کی ایک انوکھی تحقیق   خالقِ کائنات کی ...

ریفلیکسولوجی — 4

ستمبر 2019ء —  قسط نمبر 4 پچھلے باب میں ہم نے انسانی جسم کے برقی ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *