Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحانی ڈاک — ستمبر 2018ء

 


 ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑

Image Map

 


***

امتحان میں ناکامی کے بعد

سوال: آج سے سات سال پہلے میں نے انٹر کے امتحان کی بہت اچھی طرح تیاری کی تھی۔ میرے پیپرز بھی بہت اچھے ہوئے تھے۔ میرے ٹیچرز اور والدین میرے اچھے نمبروں سے کامیابی کی توقع لگائے ہوئے تھے لیکن جب رزلٹ آیا تو A+ حاصل کرنا تو ایک طرف میں تو ایک پیپر میں فیل تھا جبکہ میرا وہ پیپر بھی اچھا ہوا تھا۔
رزلٹ کے بعد مجھے کئی رات نیند نہیں آئی میں کئی روز تک اپنے کمرہ میں بند رہا۔ صرف ضرورت کے وقت کمرہ سے باہر نکلتا۔
میرے والدین اور دوستوں نے مجھے بہت سمجھایا لیکن میرا دماغ جیسے ماؤف ہوچکا تھا۔ مجھے چپ سی لگ گئی بس ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ میں ایک ناکام لڑکا ہوں میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے سب سے بات چیت بند کردی۔ والدین اور بہن بھائیوں نے پہلے تو مجھے سمجھایا پھر تھک ہار کر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ میں خود سے کوئی بات ضرورت کے تحت کروں تو جواب دے دیتے ہیں میرے جیب خرچ پر والد صاحب کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن میرا دل کہیں آنے جانے یا اپنی ذات پر کچھ خرچ کرنے کو نہیں چاہتا۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ ذرا سی بھی خود اعتمادی نہیں ہے۔
ان کیفیات میں مجھے سات سال ہوگئے ہیں۔ اب میں اپنے آپ کو اس خول سے باہر نکالنا چاہتا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے مجھ میں بالکل ہمت نہیں رہی، والدین سے بات کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے میں اس لیے بات نہیں کرتا کہ وہ مجھ پر طنز کریں گے۔
میرے گھر روحانی ڈائجسٹ کئی سال سے آرہا ہے۔ ڈائجسٹ میں آپ کی تحریریں اور روحانی ڈاک میں آپ کے جوابات پڑھ کر میں نے آپ کو اپنا ہمدرد سمجھنا شروع کردیا ہے۔ آج اس اُمید پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں کہ آپ میری اس حالت پر ہنسیں گے نہیں اور نہ ہی مجھ پر طنز کریں گے بلکہ مجھے آپ سے توقع ہے کہ مجھے اس ذہنی اذیت اور بےعملی سے نکالنے میں میری مدد کریں گے۔

جواب: سی فرد سے دوسروں کی خصوصاً بچوں کے والدین کی بہت زیادہ توقعات جہاں اس فرد کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہیں وہیں اس کے اوپر شدید دباؤ کا سبب بھی بنتی ہیں۔ بعض اوقات اس شدید دباؤ کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اسکول کے آخری اور کالج کے ابتدائی دو برسوں میں لڑکے لڑکیاں عمر کے جس دور میں ہوتے ہیں اس میں اپنی شناخت کا احساس اور اپنی اہمیت منوانے کا جذبہ تقویت پارہا ہوتا ہے۔ اس دور سے گزرنے والے کئی نوجوان اپنے سے وابستہ توقعات پوری نہ ہو پانے پر شرمندگی اور خفّت محسوس کرتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ لڑکوں کی نسبت لڑکیاں اس معاملہ میں زیادہ حساس ہوتی ہیں اور ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہونے پر بعض اوقات شدید صدمہ میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ تاہم یہ بھی مشاہدہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں جذباتی سپورٹ ملنے پر یا اپنے تئیں خود کو جلد ہی سنبھال بھی لیتی ہیں۔ دوسری طرف بہت سے لڑکے اول تو ایسی صورت میں صدمہ میں جلد مبتلا نہیں ہوتے لیکن اگر ان پر صدمہ کے اثرات مرتب ہوں تو خود کو سنبھالنے میں انہیں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ شاید مردانہ انا انہیں ناکامی سے کمپرو مائز کرنے سے روکتی ہے۔ کسی ناکامی پر اس مردانہ انا کے اثرات مختلف انداز سے ظاہر ہوسکتے ہیں۔ بعض لڑکے ناکامی کے ردِ عمل میں غصہ طیش اور کئی طرح کی ناپسندیدہ حرکات میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ کچھ لڑکے ناکامی کے ردِ عمل میں دوسروں کے سامنے آنے سے کترانے لگتے ہیں اور خود کو بہت محدود کرلیتے ہیں۔
یہ دونوں ردِ عمل غلط ہیں۔
پہلا ردِ عمل یعنی ناکامی پر طیش میں آکر ناپسندیدہ افعال میں مبتلا ہوجانا اس شخص اور معاشرہ دونوں کے لئے نقصان دہ ہے جب کہ دوسرا ردِ عمل یعنی خود کو الگ تھلگ کرکے محدود کرلینا زیادہ تر خود اس شخص کے لئے ہی نقصان دہ ہے۔
ناکامی کا ایک تیسرا رد عمل بھی ہوتا ہے اور وہ ہے ناکامی کو ترقی کی سیڑھی بنالینا۔
دنیا میں ہر طرح کے رد عمل میں مبتلا لوگوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اب یہ متعلقہ شخص پر منحصر ہے کہ وہ کس ردِ عمل کو اختیار کرتا ہے۔
جی ہاں! کسی ردِ عمل کو اختیار کرنا خود آپ پرمنحصر ہے۔ قدرت نے آپ کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ کسی ناکامی پر یا زندگی کے دیگر معاملات میں آپ اپنے ردِ عمل کا تعین کرسکیں۔ گوکہ آپ سات سال اُداسی اور بے عملی میں گزار چکے ہیں پھر بھی میں کہوں گا کہ اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
دیکھو بیٹا….! گیا وقت واپس نہیں آسکتا لیکن آنے والا وقت تو تمہارے پاس ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔آنے والے وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ حصول علم دوبارہ شروع کیا جائے۔ تم تعلیم کی بحالی کافیصلہ کرو۔
بطور روحانی علاج صبح شام اکتالیس مرتبہ آیت الکرسی [سورۂ البقرہ (2)کی آیت 255]

اَللَّـهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَۚ اَ لْحَىُّ الْقَيُّوْمُ ۚ لَا تَاْخُذُهٝ سِنَةٌ وَّّلَا نَوْمٌ ۚ لَّـهٝ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّـذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٝٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ ۖ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهٓ ٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ ۖ وَلَا يَئُوْدُهٝ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِـىُّ الْعَظِـيْمُ  o

اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکےپیؤ۔
وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاعلیم کا ورد کرتے رہو۔  

 


***

لڑکوں کے رشتے نہیں مل رہے

سوال: میری آٹھ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔
میں سنتی ہوں کہ لوگ عام طور پر بیٹیوں کے رشتوں کی طرف سے پریشان ہوتے ہیں۔ میرا مسئلہ بیٹوں کی شادی کا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری سات بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔
میرے اوپر تلے پانچ بیٹیاں ہوئیں اس کے بعد ایک بیٹا ہوا پھر دوبیٹیاں اس کے بعد دو بیٹے اور آخر میں بیٹی ہوئی۔ بیٹیاں بڑی ہوتی گئیں اور اٹھارہ انیس یا بیس سال کی عمر میں ان کی شادیاں ہوتی رہیں۔
چھٹی بیٹی کی شادی کے بعد میں نے اپنے بیٹے کی شادی کا ارادہ کیا۔ پہلے تو ہمیں ہی اس کے لئے کوئی لڑکی پسند نہ آئی۔ پھر ایک لڑکی بہت پسند آئی لیکن وہ لوگ راضی نہ ہوئے۔ اس کے بعد سے تو ایسا ہوگیا کہ جو لڑکی ہمیں پسند آتی وہ لوگ انکار کردیتے ۔ آخر کار ایک جگہ میرے اس بیٹے کا رشتہ طے ہوگیا لیکن انہوں نے ایک ماہ بعد ہی جواب دے دیا۔ اس دوران میری چھوٹی بیٹی کا رشتہ بھی طے ہوگیا۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ بیٹی کی شادی کے موقع پر ہی بیٹے کا ولیمہ بھی ہوجائے لیکن بیٹے کا رشتہ کہیں طے نہ ہو سکا۔
اب میں اپنے دوسرے بیٹے کے لئے بھی لڑکی دیکھ رہی ہوں میری بیٹیاں بھی اس تلاش میں مصروف ہیں لیکن ہمیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔
پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔ آخر ان لڑکوں کے لئے رشتے کہاں ہیں….؟ پتہ نہیں کوئی بندش یا جادو ہے یا پھر قدرتی رکاوٹ ہے….؟ 

جواب: رات کو ایک نیند لے کر نصف شب کے بعد کسی وقت بیدار ہوجائیں۔ تہجد کے نفل ادا کرکے اکیس مرتبہ سورۂ اخلاص اور بیس مرتبہ سورۂفاتحہ
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بیٹوں کی شادی میں رکاوٹ دور ہونے اور اچھی جگہ شادی ہونے کی دعا کریں۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
بیٹوں کی طرف سے حسبِ استطاعت صدقہ بھی کردیں۔
ہرجمعرات کم از کم پانچ مستحق افراد کو کھاناکھلائیں۔۔

 


***

جنّات کی دھمکی

سوال: میرے شوہر کا چند سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ اُن کے محکمے سے جو رقم مجھےملی میں نے اُس سے ایک مکان تعمیر کیا اور اپنے بچوں کے ساتھ اُس میں رہنے لگی۔ کچھ ہی دنوں بعد اس مکان سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ کبھی لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آتی، پھر گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بجنے لگتے۔ اس کے بعد میرے چھوٹے بیٹے کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ کافی علاج کروایا لیکن ڈاکٹروں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ کیا بیماری ہے۔ چھ ماہ بیمار رہنے کے بعد میرے بیٹے کا انتقا ل ہوگیا۔
اس کے کچھ دنوں بعد میرے گھر میں قہقہوں کی اور لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں۔ مختلف جگہوں پر ایک دم آگ لگ جاتی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہورہا ہے….؟ اس کے کچھ عرصہ بعد میرے دوسرے بیٹے کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ وہ بھی ایک سال بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگیا۔
میری تو دنیا ہی اُجڑگئی۔ میرے دونوں لختِ جگر میرے سامنے بے بسی کی موت مرگئے۔
میرے خاندان والوں نے کہا کہ تم روحانی علاج کراؤ۔ تمہارے گھر میں کچھ ہے۔ میں اس سلسلے میں دو تین عالموں کے پاس بھی گئی تھی۔
ایک رات میرے تیسرے بیٹے کے خواب میں ایک عجیب شکل کا آدمی آیا اور اُس نے کہا کہ ہم جنات ہیں۔ اپنی ماں کو منع کرو کہ وہ روحانی علاج نہ کروائے ورنہ ہم تمہیں بھی مار دیں گے۔
جب سے میرے بیٹے نے یہ خواب سنایا ہے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ روحانی علاج کراتی ہوں تو وہ ظالم میرے تیسرے بیٹے کو بھی ماردیں گے، اور اگر روحانی علاج نہ کراؤں تو کیا وہ میرے تیسرے بیٹے کو چھوڑ دیں گے….؟
محترم وقار عظیمی صاحب! مجھے نہیں معلوم تھا کہ جہاں میں مکان تعمیر کرارہی ہوں وہاں جنات رہتے ہیں۔ دوسری غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ جب میں نے مکان کی بنیاد رکھی تو میں نے کوئی صدقہ وغیرہ بھی نہیں کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ تم نے مکان تعمیر کرنے سے پہلے مکان کی بنیادوں میں ذبیحہ نہیں کیا اس لئے یہ مصیبت تمہارے گلے پڑگئی ہے۔ 

جواب: ہماری اس زمین پر دوسری کئی مخلوقات کے ساتھ ساتھ جنّات بھی رہتے ہیں۔ جنات کا وجود قرآن و حدیث نبویﷺ سے بھی ثابت ہے۔ علمائے باطن بتاتے ہیں کہ جنات بھی گروہی نظام کے تحت رہتے ہیں۔ ان میں خاندان ہیں۔ قبیلہ اور قوم کا وجود ہے۔
جنات عام انسانی بصارت سے مشاہدہ نہیں کئے جاسکتے۔ بتایا جاتا ہے کہ جنات کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے جسم یا اپنی شکل و صورت میں حسبِ خواہش تبدیلی کرسکتے ہیں اور اس تبدیل شدہ شکل میں وہ انسانوں کو بھی نظر آسکتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں جنات کی صلاحیتوں اور ان کے اثرات کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں جنہیں کئی لوگ درست سمجھتے ہیں۔ جنات کے وجود پر یقین کے باوجود میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جنات کے بارے میں پھیلی ہوئی اکثر کہانیاں بے سروپا اور فرضی قصوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
روحانی بزرگ بتاتے ہیں کہ نوعِ جنات میں انسانوں کی طرح مختلف صفات یا عادات کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ جیسے انسانوں میں کوئی شخص اپنی عادات و افعال کے سبب فرشتہ صفت یا کوئی شخص اپنی منفی اور خراب سوچ اور سرگرمیوں کے باعث شیطان کا چیلہ کہلایا جاتا ہے، اسی طرح جنات میں بھی شریف اور بدمعاش ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ بعض شریر جنات ناصرف اجنّہ کے لئے بلکہ بعض دوسری مخلوقات کے لئے (جن میں انسان بھی شامل ہیں) تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔ (جس طرح انسانوں میں بعض شریر لوگ بلاوجہ پرندوں کے گھونسلے توڑ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ) مگر روحانی بزرگوں کے بقول ایسی سرگرمیاں عموماً مختصر اور محدود ہوا کرتی ہیں۔ عام طور پر جنات انسانوں کو نقصان نہیں پہنچایا کرتے۔
اس تمہید کے بعد اب میں آپ کی خدمت میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ نئے مکان میں آکر آپ کے بیٹوں کی بیماری اور انتقال کا سبب جنات کی حرکات نہیں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ اس طرف سے اپنا ذہن صاف کرلیں۔ گھر کو صاف ستھرا رکھیں۔ صبح اُٹھ کر فجر کی نماز کے بعد خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ گھر کے تمام افراد پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کریں۔
راولپنڈی یا اسلام آباد کے کسی بڑے ہسپتال میں اپنے تیسرے بیٹے کا تفصیلی میڈیکل چیک اپ کروائیں۔ اُمید ہے کہ اس کی جسمانی صحت کی صحیح صورتحال سامنے آجائے گی۔
صدقہ خیرات بہت اچھی چیز ہے۔ صدقہ رَد بلا ہے۔ آپ کو اس مکان میں شفٹ ہوتے وقت صدقہ کردینا چاہئے تھا۔ لاکھوں کے مکان کی تعمیر کے موقع پر چند ہزار روپے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں کیا قباحت تھی….؟ چلیں جو ہوا سو ہوا۔ آپ اب صدقہ کردیں۔ کم ازکم تین عدد جانور صدقہ کی نیت سے ذبح کرکے ان کا گوشت غریب و مستحق لوگوں میں تقسیم کروادیں۔
سب گھر والے چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔
آپ کے دونوں بڑے بیٹوں کی بیماری کی بروقت صحیح تشخیص نہیں ہوسکی تھی۔ بعض جینیاتی یا اعصابی امراض ایسے ہوتے ہیں جن کی تشخیص جنرل پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر سے نہیں ہوپاتی۔

 


***

والدہ راضی نہیں

سوال: مسئلہ ہم تین بہنوں کی شادی کا ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے کئی سال پہلے ہمارے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی۔
میری والدہ نے سخت محنت کرکے ہمیں پالا اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ غربت کی وجہ سے ہمارے گھر کوئی رشتہ دار نہیں آتا تھا حالانکہ ہمارا ددھیال اور ننھیال دونوں اسی شہر میں ہیں۔
بڑی بہن نے انٹر کرنے کے بعد ملازمت کرلی تو ہمارے گھر میں کچھ خوشحالی آگئی۔ چند سال بعد ہم دونوں بہنوں نے بھی B.Scکرنے کے بعد ملازمت کرلی۔ ہم اپنی ساری تنخواہ اپنی والدہ کو لا کر دیتی ہیں۔
ہمارا مسئلہ رشتہ نہ آنا نہیں بلکہ ہمارے تو بہت رشتے آرہے ہیں لیکن ہماری والدہ کا رویہ عجیب سا ہوگیا ہے۔ کسی کو کہتی ہے کہ بچیوں کے رشتے تو ہوچکے ہیں۔ کسی کو کہتی ہیں کہ ہم اپنے خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔ اگر کوئی دوبارہ رشتہ لے کر آجاتا ہے تو اُسے بہت ذلیل کرتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک لڑکے کا رشتہ آیا تھا۔ وہ رشتہ مجھے بھی پسند تھا۔ اُس کی والدہ کا فون ہمارے گھر آیا کہ ہم آپ کے گھر رشتہ کے سلسلے میں آنا چاہتے ہیں تو ہماری والدہ نے کہا کہ وہ لڑکیاں تو اپنی ماں کے ساتھ دوسرے شہر شفٹ ہوگئی ہیں۔ دوبارہ اُن کی والدہ نے فون کیا تو میری امی نے کہا کہ میں بچیوں کی خالہ بول رہی ہوں کبھی کہتی ہیں کہ رانگ نمبر ہے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہماری والدہ کو ہماری شادی کی کوئی فکر کیوں نہیں ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری والدہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور وہ گھر آئے ہوئے رشتوں کونہ ٹھکرائیں۔ 

جواب: رات سونے سے قبل 101مرتبہ
لاالہ الا اللہ العظیم الحکیم، لاالہ الاللہ رب العرش العظیم لاالہ الا اللہ رب السموات والارض و رب العرش الکریمO 
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی والدہ کا تصور کرکے دم کردیں اور انہیں فرائض کی ادائی کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم نوے روز تک جاری رکھیں۔
گوکہ شادی کے بعد عورت کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں بہت سی شادی شدہ عورتوں کیلئے اپنی مرضی سے اپنا شیڈول مرتب کرنا بآسانی نہیں ہوتا۔ اپنی والدہ کو یہ یقین دلائیں کہ شادی کے بعد بھی آپ ان کا خیال رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ بہنوں کے اچھی جگہ رشتے طے ہوں اور آپ کو اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی خدمت کے مواقع آسانی سے میسر آئیں۔ (آمین)۔

 


***

پری میچیور بچی

سوال: میری بیٹی ایک سال کی ہے۔ یہ ساتویں ماہ میں پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے پھیپھڑے کمزور ہیں۔ اس کو پیدائشی الرجی اور دمہ ہے۔ ڈاکٹرز نے اُس کے لئے انہیلر تجویز کیا ہے۔ بیٹی کو ہر ماہ دو ماہ بعد اٹیک ہوتا ہے۔ حد سے زیادہ کمزور ہوگئی ہے۔ جو کچھ کھلاتی ہوں ہضم نہیں ہوتا یا تو اُلٹی کردیتی ہے یا دست شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کی طبیعت میں بہت زیادہ چڑچڑا پن آگیا ہے۔ ہر وقت روتی اور ضد کرتی رہتی ہے۔   

جواب:صبح شام اکیس اکیس مرتبہ سورۂ بنی اسرائیل (17)کی آیت 82 میں سے 

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَـآءٌ وَّرَحْـمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ
اول آخر تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بچی پر دم کردیں اور دعا کریں۔
یہی آیت ایک سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھ کر تعویذ بنا کر بچی کو پہنادیں۔
کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ نارنجی شعاعوں کا تیل دن اور رات میں ایک ایک مرتبہ بچی کے سینہ اور پشت پر ہلکے ہاتھ سے مالش کردیا کریں۔ ۔

 


***

تعلیم سے لاپرواہ بیٹا

سوال: میری دو بیویوں سے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ پہلی (مرحومہ) بیوی سے ایک بیٹا ہے جو بہت ہی لائق اور ذہین ہے۔ میٹرک تک اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتا رہا ہے۔ تین سال پہلے میٹرک میں اپنے اسکول میں ٹاپ کیا۔ لیکن F.Sc میں اس طرح نہیں پڑھا جیسے کہ پڑھتا تھا اور سی گریڈ میں پاس ہوا۔
محترم وقار عظیمی صاحب….! میرا بیٹا نالائق نہیں ہے۔ کالج میں برے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے تعلیم سے لاپرواہ ہوگیا ہے۔ میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ دوستوں کے ساتھ فضول گھومنے کا شوقین ہے۔ میں اپنے بیٹے کے اس رویہ سے بہت پریشان ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا برے دوستوں سے ملنا چھوڑ دے اور پڑھائی کی طرف راغب ہوجائے۔ 

جواب: رات سونے سے پہلے اکتالیں مرتبہ سورۂالجاثیہ(45) کی آیت 13

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا مِّنْهُ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ O 

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے کا تصور کرکے دم کردیں اور بری صحبت سے نجات اور حصولِ علم کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

 


***

انگلینڈ میں لڑکے سے نکاح

سوال: کچھ ماہ پہلے میرا نکاح انگلینڈ میں مقیم ایک لڑکے کے ساتھ ہوا ہے۔ ہماری دوستی انٹرنیٹ پر ہوئی تھی۔ میرے اور اُس لڑکے کے خاندان میں سے کوئی بھی خوش نہیں تھا۔ اُس کے گھر والے اپنے خاندان میں ہی اس کی شادی چاہتے تھے۔ میرے ماموں اور خالہ بھی میرا رشتہ مانگ رہے تھے۔
میرے نکاح کی خبر خاندان والوں پر پہاڑ گرنے سے کم نہ تھی۔
نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک تو میرے شوہر مجھے اپنے پاس بلانے کا بہت کہتے تھے لیکن تب یہاں میرے پیپر نہیں بنے تھے۔ اب جب کہ پیپر بن کر باہر بھجوائے ہوئے بھی کافی عرصہ ہوچکا ہے تو وہ اس موضوع پر بات ہی نہیں کرتے۔ جب بھی فون آتا تو ٹال مٹول کرنے لگتے۔ کبھی کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کام کرنے ابھی باقی ہیں۔ شروع شروع میں تو وہ فون بھی بہت کرتے تھے لیکن اب میں ہی فون کرتی ہوں تو بات ہوجاتی ہے۔ خود سے میں بار بار بلانے کا کہہ بھی نہیں سکتی۔ میں بہت پریشان ہوں۔ 

جواب: آپ کا خط پڑھ کر ذہن میں فوری طور پر یہ بات آئی ہے کہ آپ کو مشورہ دوں کہ اس معاملہ میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے جائیں۔
بہتر ہوگا کہ آپ اپنے والدین سے دریافت کریں کہ آپ کو اب کیا کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے والدین کوئی ایسی رائے دیں جو فی الوقت آپ کو اپنی مرضی کے مطابق نہ لگ رہی ہو تو اس پر بھی غیر جذباتی انداز میں غور کیجئے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کے والدین کی رائے آپ کے حق میں ہوگی۔  ۔

 


***

شوہر واپس آجائیں

سوال: میری شادی کو 15 سال ہوگئے ہیں۔ میری 14 سال کی ایک بیٹی ہے۔ جب سے میری شادی ہوئی ہے۔ میں مسائل میں مبتلا ہوں۔ شروع کے ایک سال میں سسرال میں رہی۔ اُس کے بعد سے آج تک اپنے والدین کے گھر میں ہوں۔
میری منگنی بیرونِ ملک مقیم خالہ زاد سے ہوئی تھی لیکن منگنی کے چند ماہ بعد میرے شوہر کی بھابھی صاحبہ جو سعودی عرب میں رہتی تھیں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں پاکستان شفٹ ہوگئیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد میرے شوہر کو بھی پاکستان میں بزنس کرانے کے بہانے بلوالیا۔ بھابھی نے انہیں اپنے تمام بزنس کا مختار بنادیا۔ اس دوران میرے سسرال والے پاکستان آئے اور جلدی جلدی میں شادی کرکے واپس برطانیہ چلے گئے۔ میں بیاہ کر جیٹھانی صاحبہ کے ہاں پہنچ گئی۔
میرے حالات شادی کے بعد ایسے تھے کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ایک سال میں جو کچھ سنا اور دیکھا اس پر بہت افسوس ہوا۔ میں تو صرف نام کی بیوی تھی میرے شوہر کے زیادہ تر کام تو جیٹھانی صاحبہ کرتی تھیں۔
مسائل سے گھبرا کر میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ شوہر کی طرف سے کبھی کبھار عید پر بچی کے لئے کپڑے آجاتے تھے۔
اب پتہ چلا ہے کہ شوہر نے ایک برٹش نیشنل بیوہ سے دوسری شادی کرلی ہے اور وہ اُنہیں لندن بلانا چاہتی ہے۔ اب جیٹھانی صاحبہ اور اُس عورت کے درمیان خوب کھینچا تانی لگی ہوئی ہے۔ میرے شوہر کے پاس ذاتی کوئی دولت نہیں ہے۔ بزنس کی سب ذمہ داریاں میرے شوہر پر ہیں لیکن تمام بینک اکاؤنٹس بھابھی کے نام ہی ہیں۔
میں اس اُمید پر صبر کیے بیٹھی تھی کہ شوہر واپس آجائیں گے۔ ان حالات کی وجہ سے میں ڈپریشن کی مریضہ ہوگئی ہوں۔ رات رات بھر نیند نہیں آتی۔
آپ مجھے کچھ پڑھنے کو بتائیں تا کہ مجھے میرا حق ملے اور میں جسمانی و ذہنی اذیت سے نجات حاصل کرسکوں۔ 

جواب: عشاء کی نماز وقت پر ادا کرکے وتر رات سونے سے پہلے پڑھیں۔ وتر کے بعد دو نفل ادا کرکے جائےنماز پر بیٹھے ہوئے کچھ دیر تک درود شریف پڑھتی رہیں اس کے بعد چند منٹ تک خاموش بیٹھی رہیں۔ اب 101 مرتبہ سورۂ مومن کی آیت 55
فَاصْبِـرْ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِـذَنْبِكَ وَسَبِّـحْ بِحَـمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ O
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے حالات کی بہتری کے لئے اور مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاعزیز یاسلام کا ورد کرتی رہیں۔

 


***

لڑکیوں جیسی چال

سوال: میری عمر 22سال ہے۔ میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہوں۔ عرض یہ ہے کہ مجھ میں ایک بات بھی مردوں والی نہیں پائی جاتی۔ میری چال لڑکیوں کی طرح، بولنے کا انداز اور آواز بھی لڑکیوں کی طرح ہے۔ داڑھی مونچھیں بھی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ میرا جسم بالکل مردوں والا ہے لیکن عادات و اطوار کے اعتبار سے میں لڑکی ہوں۔
کالج کے لڑکے مجھے عورت، زنانہ روح اور دیگر کئی القابات سے پکارتے ہیں۔ لوگوں کے طعنوں اور بار بار کی بےعزتی نے مجھے احساسِ کمتری کا مریض بنا دیا ہے۔ میں ہروقت ڈرا سہما اور خوف زدہ رہتا ہوں۔ 

جواب: ا میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے جنسی کشش کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہر فرد دو رخوں سے مرکب ہوتا ہے۔ ایک رخ غالب ہوتا ہے اور دوسرا رُخ مغلوب ہوتا ہے۔ جو ظاہر رخ ہے وہ غالب ہے یعنی مرد میں غالب رخ مذکر اور مغلوب رخ مونث ہے جب کہ عورت میں غالب رخ مونث اور مغلوب رخ مذکر ہے۔
جنسی کشش کے قانون کے تحت ہر غالب رخ میں موجود مغلوب رخ اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ چنانچہ غالب رخ کو صنف مخالف میں کشش محسوسہوتیہے۔
جن لوگوں کو صنف مخالف میں کشش محسوس نہیں ہوتی بلکہ ان میں صنف مخالف والی عادات و اطوار پائی جاتی ہیں، انہیں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ ان میں کسی وجہ سے غالب و مغلوب رخ میں تناسب برقرار نہیں رہتا۔
اس تناسب کے بگڑنے سے مختلف صورتیں رونما ہوسکتی ہیں۔ شدید بگاڑ کی صورت میں جنسی تبدیلی کا عمل بھی واقع ہوسکتا ہے۔ اس بگاڑ کے دیگر اثرات میں صنف مخالف میں کشش کے بجائے گریز، اپنی ہی جنس میں رغبت محسوس ہونا یا پھر دوسری صنف کے سے انداز و اطوار اختیار کرنا شاملہوسکتےہیں۔
کسی لڑکی میں رونما ہونے والی اس قسم کی صورتحال یعنی صنف مخالف کے سے انداز و اطوار کو عموماً زیادہ نوٹ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اسے لڑکی کی بہادری و جرأت، بیباکی اور سادگی سے منصوب کردیا جاتا ہے کیونکہ ایسی لڑکیاں عموماً میک اپ، جیولری اور بناؤ سنگھار سے بھی گریز کرتی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال کسی لڑکے میں ہوتو بہت زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے کیونکہ لڑکوں میں زنانہ انداز کا جھلکنا، بھنویں بنانا یا ہلکا پھلکا میک اپ کرلینا فوری طور پر طنز و مذاق کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اس قسم کی تبدیلیوں کے اسباب جسمانی ، ذہنی ونفسیاتی ہوسکتے ہیں اگر جسمانی اسباب (جن میں ہارمونز کی تبدیلیاں بھی شامل ہیں) شدت اختیار کرجائیں تو جنسی تبدیلی کا عمل بھی واقع ہوسکتا ہے۔ ذہنی و نفسیاتی اسباب انداز و رویّوں میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا ہونے پر بطور روحانی علاج غالب رخ کو زیادہ تقویت دی جانی چاہیے۔
آپ صبح نہار منہ اور شام کے وقت سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی ایک ایک پیالی پئیں۔ سخت جسمانی ورزش کریں، کرکٹ، ہاکی اور جسمانی مشقت والے دیگر کھیلوں میں حصہ لیں ۔
بطور روحانی علاج
صبح شام اکیس اکیس مرتبہ سورۂ القیامہ(75) کی آیات 36تا 39
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْـرَكَ سُدًىO اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰى O ثُـمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّ ٰ ىO فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَـرَ وَالْاُنْثٰىO 
اول آخر تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک پیالی سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی پر دم کرکے پئیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاقوی کا ورد کریں۔

 


***

نافرمان بیٹے خدمت گزار بیٹیاں

سوال: میری عمر 65 سال ہے۔ میرے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ دو بیٹیوں اور چاروں بیٹوں کی شادی ہوگئی ہے۔ ایک بیٹی کی ذمّہ داری ابھی باقی ہے۔ میرے شوہر نے مجھے کبھی عزت و احترام نہیں دیا۔ ان کے پاس روپے پیسے کی کبھی کمی نہ رہی لیکن مجھے اُنہوں نے ہمیشہ تنگ دست ہی رکھا۔ میرے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ خراب رہا۔
اب میرے بیٹے بھی اس معاملہ میں باپ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ میں مجبور بیوہ عورت اپنے بے حس بیٹوں کے سہارے پڑی ہوئی ہوں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ کھانے کے لئے بھی چاروں بیٹوں کے منہ دیکھتی رہتی ہوں۔ کبھی دوا دارو کے لئے ضرورت پڑجائے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کا پورا نہیں کر پارہے آپ کی دوائیں کہاں سے لاکر دیں۔ میرے بیٹے چھوٹی بہن کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں لیکن اس کی شادی کے معاملہ میں کوئی دلچسپی اس لئے نہیں لیتے کہ پھر خرچہ کرنا پڑے گا۔
میں بڑی مشکلوں سے بیٹی کو لے کر چپ چاپ گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ دو شادی شدہ بیٹیاں آکر میرا دُکھ بانٹ لیتی ہیں۔ میری خدمت کرتی ہیں اور میرے علاج معالجے اور دیگر اخراجات پورے کرتی ہیں۔
ان بھائیوں میں آپس میں بھی تعلقات بس رسمی سے ہیں۔ خونی رشتوں کی محبت بالکل نظر نہیں آتی۔

جواب: جو بیٹے اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے اُن سے آپس میں محبت کی توقع رکھنا محض سراب ہے۔ اللہ کرے آپ جلد از جلد اپنی بیٹی کے فریضہ سے سبکدوش ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی بیٹیوں کو اجر دے۔ وہ اپنے گھر کی ذمّہ داریوں کی ادائی کے ساتھ ساتھ آپ کی اور اپنی چھوٹی بہن کی حتی الامکان دیکھ بھال کررہیہیں۔
بیٹی کی شادی کے لئے عشاءکی نماز کے بعد 101مرتبہ:
بسم اللہ الواسع جل جلالہ  
گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر دعا کی جائے۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
یہ وظیفہ آپ پڑھ لیں یا آپ کی بیٹی خود پڑھلے۔


***

غموں کی ماری

سوال: آج کل میں ایک عجیب مسئلے میں گرفتار ہوں۔ میرا ذہن ہر وقت سوچوں اور خیالات میں غرق رہتا ہے۔ اکثر محفلوں میں لوگوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہوں ، تب بھی ذہن خیالوں کی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ بہت دیر بعد خیال آجائے تو اس خیالی دنیا سے نکلتی ہوں یا پھر کوئی مخاطب کرلے تو چونک جاتی ہوں اور بہت شرمندگی ہوتی ہے۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے اندر بے چینی، اضطراب اور عجیب طرح کا خوف موجود ہے۔
محترم ڈاکٹر وقار عظیمی صاحب….! آپ کچھ بتائیں جس سے مجھے سکون مل جائے اور ڈر بھی ختم ہوجائے۔

جواب: منتشر خیال سے نجات، ذہنی یکسوئی اور سکون کے لئے مراقبہ ایک بہت مفید عمل ہے۔ آپ بھی اس سے مستفید ہوسکتی ہیں۔ مراقبہ دن یا رات میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے، تاہم رات سونے سے قبل یا صبح سویرے کا وقت زیادہ موزوں ہے۔ اگر آپ کو رات میں دیر تک نیند نہ آنے کی شکایت ہے تو آپ کے لئے رات سونے سے قبل کا وقت بہتر رہے گا، کیونکہ مراقبہ سے بے خوابی یا کم خوابی یا گہری نیند نہ آنے کی شکایات میں بھی افاقہہوتا ہے۔
اپنی سہولت کے مطابق کوئی وقت مقرر کرکے فرش یا تخت پر گدا وغیرہ بچھاکر اس پر آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں اور تصور کریں کہ آپ نیلی روشنیوں سے منور ماحول میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ مراقبہ کا دورانیہ اندازاً دس بارہ منٹ مقرر کرلیں۔ اس دورانیہ کی تکمیل کا علم ہونے کے لئے ہلکی آواز والا الارم بھی لگاسکتی ہیں۔
مراقبہ سے قبل 101 مرتبہ درودِ خضری
صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد وآلہ وسلم
پڑھ لیں۔
اور 101 مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحییاقیوم کا ورد کرلیں۔

 


***

داماد کی فرمائشیں

سوال:ہماری چھوٹی بہن کی شادی دو سال پہلے ہوئی ہے۔ اب وہ ایک بیٹی کی ماں بھی ہے۔ شادی کے فوراً بلکہ شادی سے چند روز پہلے سے ہی اس کے سسرال والوں کا رویّہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں رہا۔ یہ شادی غیروں میں ہوئی ہے۔
رشتہ کے وقت تو وہ لوگ بہت اچھی اچھی باتیں کر رہے تھے، لیکن شادی سے ایک ہفتہ قبل ان کے ہاں سے جہیز میں چند مہنگی اشیاء کی فرمائش آگئی۔ ہمارے والدین اس وقت تک اپنے وسائل کے مطابق جہیز کی اشیاء کی خریداری کرچکے تھے۔ سسرال سے فرمائشی لسٹ آنے پر وہ بہت فکرمند ہوئے۔ میری چھوٹی بہن کا حال بھی عجیب سا تھا۔ لسٹ آجانے کے بعد وہ اپنے والدین کے سامنے شرمندہ شرمندہ سی نظر آتی تھی۔ بہرحال ہمارے والد نے اسے بہت تسلی دی اور پھر خاموشی سے قرض اُدھار کرکے فرمائشی چیزوں کی خریداری کی گئی۔
شادی کے چند ماہ بعد جب بہن اُمید سے ہوئی تو پھر اس کے سسرال سے مختلف رسوم کی ادائی کے نام پر فرمائشیں آنے لگیں۔ میرے والدین جیسے تیسے کرکے ان کے خاندان کے رسوم و رواج کو بھی نبھاتے رہے۔
اب ہمارے بہنوئی صاحب نے ملک سے باہر جاکر روزگار تلاش کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ انہیں کسی قسم کی ملازمت کی کوئی آفر نہیں ملی ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ آزاد ویزا پر باہر جاکر کام تلاش کیا جائے۔ اس کام میں ایک کثیر رقم صَرف ہوگی۔ اُنہوں نے بہن کے زریعہ ہمارے والد سے اس رقم کامطالبہ کیا ہے۔ ہمارے والد نے انہیں بتایا کہ ہمارے مالی حالات ایسے نہیں کہ اتنی رقم کا بندوبست کرسکیں۔ اس پر بہنوئی صاحب نے ہماری بہن کو تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ اسے بات بات پر جھڑکتے ہیں۔ بچہ کی طرف سے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتےہیں۔
شادی کے موقع پر اسے ہم نے جو زیورات دئیے تھے اس میں کچھ زیورات اُنہوں نے ہماری بہن سے لے کر بیچ دئیے ہیں۔ بہن فکرمند ہے کہ اُس کا شوہر کسی روز باقی زیور بھی مانگ کر نہ بیچ دے۔ اُنہوں نے ہماری بہن کے میکہ جانے پربھی پابندی لگادی ہے۔

جواب: اپنی بہن سے کہیں کہ رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ
سورۂ الزمر (39)کی آیات 36 اور 37
اَلَيْسَ اللّـٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٝ ۖ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّـذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّـٰهُ فَمَا لَـهٝ مِنْ هَادٍ O
وَمَنْ يَّـهْدِ اللّـٰهُ فَمَا لَـهٝ مِنْ مُّضِلٍّ ۗ اَلَيْسَ اللّـٰهُ بِعَزِيْزٍ ذِى انْتِقَامٍ O

اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور ان کے طرزِعمل میں بہتری، حقوق العباد کی ادائی کی توفیق اور ہدایت ملنے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاعزیز یاسلام کا ورد کرتی رہیں۔۔

 


***

دعا قبول نہیں ہوتی

 

سوال: میں اس وقت ایسی کیفیت میں آپ کو خط لکھ رہی ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو بہہرہےہیں۔
میری کتنی ہی خواہشات اور ارمان ادھورے رہ گئے ہیں۔ میں نے اپنے طور پر ہر طریقے سے دعا مانگنے کی کوشش کی ہے لیکن میرے گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے شاید میری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں۔ مجھ سے اس وقت کچھ بھی لکھا نہیں جا رہا ہے۔
پلیز ….! آپ مجھے بتائیں کہ میری دعائیں کیوں پوری نہیں ہوتیں۔ میں جو کچھ چاہتی ہوں اسے حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہتی ہوں….؟۔

 

جواب:
اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے، رب العالمین ہے۔ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی سب مخلوق کو وسائل عطا فرماتا ہے۔
انسانوں کو اللہ نے عقل و شعور کی نعمت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک ارادہ و اختیار سے بھی نوازا ہے۔ اس ارادہ کو استعمال کرتے ہوئے جو لوگ اللہ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں یا جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں، اللہ ان کو بھی اس دنیا میں وسائل عطا فرماتا ہے۔ اللہ کو ماننے والا ہو یا اللہ کو نہ ماننے والا ہو،ہوا دونوں کو یکساں طور پر فیض پہنچاتی ہے۔ مومنوں کی آبادی ہو یا کافروں کی بستی، بارش سب جگہ برستی ہے۔
اسی طرح دعاؤں کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔ اس میں بھی نیکوکار یا گناہگار کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اللہ سب کی سنتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ انتہائی اخلاص اور انہماک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خوب عبادت کے باعث مستجاب الدعوات کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کی التجائیں نامنظور نہیں فرماتا۔ انہیں شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے، لیکن اس تخصیص کے باوجود دعا کی قبولیت کے دروازے اللہ کے ہر بندے کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
بسا اوقات انسان کی بعض خواہشات اس کے لئے انتہائی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں لیکن آخرکار وہ فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ اب ایسی خواہشات کی تکمیل کی دعا کی جائے اور وہ کام نہ ہو تو اسے دعا کی عدم قبولیت سمجھ کر مایوسی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طو رپر ایک طالبعلم کسی پرچے کی صحیح طور پر تیاری نہ کرسکے اور وہ رات بھر دعا کرتا رہے کہ یا اللہ صبح سے اتنی تیز بارش برسا دے کہ امتحان ملتوی ہوجائے۔ کوئی بروقت اسٹیشن نہ پہنچ پارہا ہو اور وہ یہ دعا کرے کہ یا اللہ میرے پہنچنے تک ٹرین اسٹیشن پر رُکی رہے۔ کوئی شخص یہ دعا کرے کہ میری فلاں جگہ شادی ہوجائے۔ اب یہ کام نہ ہونے پر دعا مانگنے والے یہ سمجھنے لگیں کہ ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتیں تو ایسا سوچنا ان کی غلطی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ساری کائنات کو ایک خاص پروگرام اور نظم و ضبط کے ساتھ بنایا ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ کے بنائے ہوئے پروگرام کا پابند ہے۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے بعض معاملات میں اختیار عطا فرمایا ہے۔ انسان کے لیے بہتر طرزِعمل یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی سے منسلک کردیا جائے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اور اپنے کاموں کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کی جائے۔ یہ مقاصد پورے ہوجائیں ، کام ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے، لیکن اگر کوئی کام نہ ہوسکے تو اس کامطلب یہ نہ لیا جائے کہ اللہ نے ہماری دعا نہیں سنی۔
مومن کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ پازیٹو تھنکنگ کا حامل ہوتا ہے اور یہ بات اس کی عادت میں شامل ہوجاتی ہے کہ اس کی نظر ہر معاملہ کے روشن پہلو کی طرفجاتی ہے۔
آپ کے معاملہ میں بھی ایسا نہیں ہے کہ آپ کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
آپ جو کچھ چاہتی ہیں اسے حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہتی ہیں….؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کئی مواقع پر آپ کا چاہنا حقیقت کے برخلاف اور محض تصوراتی ہوتا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان مواقع پر آپ دماغ کے بجائے دل سے سوچتی ہیں۔
حقیقت پسندانہ سوچ اپنائیے۔ ایک اہم بات یہ کہ اہم معاملات میں فیصلہ کرنے کے لئے خود اپنی قوتِ فیصلہ کا جائزہ لیجئے۔ آپ کے لئے بہتر ہوگا کہ آپ اپنی کئی خواہشات کو عزم میں تبدیل کرنے سے پہلے خاص طور پر اپنی والدہ سے اور دوسرے بڑوں سے مشورہ کرلیا کریں۔


***

جذباتی گھٹن

سوال: مجھے کچھ عرصہ سے رات کو سوتے میں ڈر محسوس ہوتا ہے۔ ایک رات سوتے میں مجھے ایسا لگا کہ کوئی آیا اور اُس نے میرے دونوں پاؤں پکڑ لئے ہیں اور مجھے کھینچ کر لے جانا چاہتا ہے۔ کبھی کوئی شخص میرا گلا دباتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی کوئی میرے بال کھینچ کر مجھے اُٹھا دیتا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ دو آدمی میرے کمرے میں ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بچہ روتا ہوا نظر آیا تھا۔
میں جب صبح اُٹھتی ہوں تو میرے ہاتھ پاؤں میں بہت درد ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ میں خواب میں نہیں دیکھتی بلکہ حقیقت میں نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمہاری یہ کیفیات ڈرکی وجہ سے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی نے تم پر سفلی کردیاہے۔
میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ حقیقت کیا ہے….؟ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس تکلیف سے نجات کا راستہ بھی بتائیں۔

جواب:اس طرف سے تو آپ مطمئن رہیں کہ یہ کیفیات کسی سفلی علم کی وجہ سے ہیں۔ یہ کسی سفلی علم کے اثرات نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق بعض ذہنی و جذباتی تقاضوں کی عدم تعمیل سے ہے۔ اپنی خواہشات و احساسات کے مناسب طریقہ سے اظہار کا موقع نہ ملے یا کوئی شخص خود ہی اپنے احساسات کو، اپنی Feelings کو Express نہ کرسکے یا کسی وجہ سے شدید احساسِگناہ میں مبتلا ہو تو جسمانی لحاظ سے صحتمند ہونے کے باوجود اعصاب پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔ احساسات کو Express نہ کرسکنے اور فطری تقاضوں کو گناہ سمجھنے سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے میں ‘‘جذباتی گھٹن’’ کہتا ہوں۔ جذباتی گھٹن یا Emotional Suffocation آہستہ آہستہ اعصاب کو کمزور کرتی رہتی ہے۔ اعصاب کی یہ کمزوری جسمانی نظام پراثرانداز ہو تو سر درد، تیزابیت، السر، ذیابیطس، بلڈ پریشر کی شکل میں ظاہرہوسکتے ہیں۔
یہ گھٹن ذہن پر اثرانداز ہو تو بے خوابی یا کم خوابی، ٹینشن یا ڈپریشن یا مافوق الفطرت (Super Natural) واقعات کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔
جذباتی گھٹن کے باعث ہونے والی اعصابی کمزوریوں سے ہونے والی بعض کیفیات کو کچھ لوگ بیرونی اثرات مثلاً آسیب یا سفلی علم کے نتائج بھی قرار دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ان کیفیات کے اسباب بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہوتے ہیں۔
اس تکلیف سے نجات کا راستہ دشوار نہیں بلکہ بہت سہل ہے۔ محبت کیجئے، اپنی محبت کا اظہار کیجئے، کھل کر اظہار کیجئے۔ آپ پوچھیں گی کس سے محبت کی جائے تو میں کہوں گا اس سے محبت کی جائے جسے آپ سے محبت ہے اور یہ ہستی وہ ہے جس نے آپ کو بہت محبت سے تخلیق کیا۔ اللہ سے محبت کیجئے۔ اللہ آپ سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ سے محبت کیجئے اور اپنے اس تعلق کو اس عشق کو پوری طرح Express کیجئے۔
اس عشق کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنائیے۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے محبت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ زندگی کے مادّی تقاضوں کو کچل دیا جائے، ہرگز نہیں۔ اس تعلق کا ایسا کوئی مطالبہ ہے بھی نہیں۔ زندگی کے تمام فرائض، گھریلو اور معاشی ذمہ داریاں، ازدواجی تعلق کا قیام، بچوں کی بہتر پرورش کی جدوجہد، معاشرہ میں ممتاز مقام کی سعی، یہ سب کام عشق الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ ہوسکتے ہیں۔
قرآن پاک کی تلاوت کیجئے اور ان آیات پر غور کیجئے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی محبت کا، اپنی رحمتوں کا، اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا اور اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی کامیابی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں سے بھرپور ایک بہتر اور پائیدار ٹھکانہ عطا فرمائے گا۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحی یاقیوم کا ورد کرتی رہیں۔
صبح شام ایک ایک ٹیبل اسپون شہد بھی پی لیا کریں۔ کھانوں میں نمک کم اور میٹھی چیزیں زیادہ استعمال کیجیے۔


***

ورثہ میں بیٹی کا حصہ

سوال: محترم ڈاکٹر وقار عظیمی صاحب….! میں آپ کی بہت پرانی قاریہ ہوں۔ ایک اہم مسئلے پر آپ کی رہنمائی چاہتی ہوں۔
میرا تعلق ایک متوسط زمیندار گھرانے سے ہے۔ ہمارے یہاں بیٹیوں کو وراثت میں سے حصّہ نہیں دیاجاتا۔ میں جب بالغ ہوئی تو میں نے گھر والوں نے سے کہنا شروع کردیا کہ قرآن کے مطابق لڑکی کو وراثت میں سے حصّہ ملنا چاہئے۔ میں تو اپنا حصّہ لوں گی۔
میرے والد جب بھی میری یہ بات سنتے تو کوئی جواب نہ دیتے۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ دونوں شادی شدہ اور جوان بچوں والے ہیں۔ والدہ کے انتقال کو کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ والد صاحب کی وفات چند سال قبل ہوئی۔
والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے بھائی سے کہا کہ اب ہمیں شریعت کے مطابق اپنا حصّہ الگ کرلینا چاہئے، اُس نے کہا ٹھیک ہے۔ اب میں جب بھی بھائی سے اپنے حصّہ کا مطالبہ کرتی ہوں تو وہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ آخر تنگ آکر میں نے پٹواری سے کاغذات نکلوائے تو معلوم ہوا کہ جائیداد کا کافی حصہ والد صاحب اپنی زندگی میں ہی بھائی کے نام کرچکے ہیں۔ باقی جائیداد میں سے 1/3 میرے نام لگ گیا۔ جس کو بھائی سنبھال رہا ہے۔ اب نہ تو وہ حصّہ دیتا ہے اور نہ ہی ٹھیکہ….
میرا سوال یہ ہے کہ کیا والد صاحب ایک اولاد کی حق تلفی کرکے اس کا حصّہ دوسرے کو دے سکتے ہیں….؟ کیا میں اس مسئلے کے لئے قانون سے رجوع کرسکتی ہوں….؟
میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی کی حق تلفی کرتا ہے تو مرنے کے بعد روزِ قیامت تک وہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ جب تک کہ وہ بندہ جس کی حق تلفی ہوئی ہو اُسے معاف نہ کردے۔
مجھے بہت بے چینی ہے کہ والد صاحب کی روح کو نجانے کیا عذاب ہورہا ہوگا۔ حالانکہ میں سورۂ یٰسین پڑھ کر والدین کی مغفرت کی دعا کرتی رہتی ہوں۔ آپ مجھے ایسا وظیفہ بتائیں کہ میرا بھائی اور اُس کے بچے میرا حصّہ دینے پر بخوشی رضامند ہوجائیں اور ہمارے درمیان کوئی تلخی یا رنجش پیدا نہ ہو۔

جواب: قرآن پاک میں ورثے کے بارے میں مردوں اور عورتوں کے حقوق بالکل واضح طور پر بتادئیے گئے ہیں۔ ان حقوق کے تعین کے بعد اب وصیت کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ ایسی کوئی وصیت شرعی طو رپر قابل قبول نہیں ہے جو قرآن کے عطاکردہ حقوق سے متصادم ہو۔
جہاں تک وراثت کا معاملہ ہے اس کا تعین کسی شخص کے انتقال کے بعد ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں ہر شخص اپنی جائیداد یا مال و دولت میں اپنی مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ تاہم انماالاعمال بالنیات کے کلیہ کے تحت کسی شخص کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد یا دولت کی تقسیم اس نیت سے نہیں کرنی چاہئے کہ اس سے کسی اولاد خصوصاً بیٹیوں کی حق تلفی کا امکان بھی ہو۔
جہاں تک قانونی پوزیشن کا تعلق ہے ، میری معلومات کے مطابق اپنی زندگی میں آپ کے والد نے اپنی جو جائیداد بیٹے کے نام کردی ہے وہ اب اس کا مالک ہے۔ اس معاملہ کو متنازعہ بنانا آپ کے لئے شاید لاحاصل ہو۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ورثہ میں آپ کا حصّہ آپ کو ملنا چاہئے یہ آپ کا شرعی اور قانونیحق ہے۔
جائیداد میں بیٹیوں اور خاندان کی دوسری خواتین کے حقوق کے بارے میں روحانی ڈائجسٹ میں کئی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
عشاء کی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ آیتالکرسی، اوّل آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے حق کے لئے دعاکریں۔
یہ عمل نوّے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 

یہ بھی دیکھیں

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے سوال:   میں ...

روحانی ڈاک – ستمبر 2020ء

   ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑   ***   اولاد نرینہ کے لیے ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *