Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

دُعا تھراپی

مغرب میں تیزی سے مقبول ہوتی دُعا تھراپی

دعا کا طریقہ کار ہرمذہب اورہرکلچر میں پایا جاتا ہے ۔ ہر مذہب میں قادر مطلق، تمام مخلوق سے ماوراء اور طاقتور ہستی کا تصور موجود ہے ۔ یہ صدی جس میں سیٹیلائٹ کمیونیکیشن ، موبائل فونز، وائی فائی، انفرا ریڈ، الٹراوائلٹ جیسی نظر نہ آنے والی ٹیکنالوجی رونما ہوئیں، اس صدی میں مغرب میں لوگوں کی بڑی تعداد مادّہ پرست ہوتی چلی گئی اور طنزیہ لہجے میں یہ سوال کیا جانے لگا کہ ‘‘دعا سے شفا کس طرح ممکن ہے؟’’….
ماضی میں میڈیکل سائنس نے اس بات کو سرے سے رَد ہی کردیا تھا، لیکن اب جدید سائنسی تحقیقات نے ان سوالوں کا جواب تلاش کررہی ہیں کہ دعا اور صحت میں کیا تعلق ہے۔مغربی معاشرہ میں آج سینکڑوں میڈیکل کالجز اور اسپتال صحت کے لئے دعا کی حیرت انگیز طاقت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

سفید لیب کوٹ میں ملبوس میڈیکل کے طلباء وطالبات جارج ٹاؤن یونیورسٹی ہاسپٹل واشنگٹن Georgetown University Hospital میں ایک مریض کے بستر کے اطراف کھڑے ہیں۔ ٹام لونگ Tom Long نامی یہ مریض طویل عرصے تک دل، معدے اور پتے کی تکلیف میں مبتلا رہا۔ اس مریض کے یکے بعد دیگرے سات آپریشن کئے گئے، لیکن معدے کا زخم مندمل نہیں ہوسکا ، آخر کار ڈاکٹروں نے معدے کا زخم ایک کھال کے ٹکڑے Skin graft کے ذریعے بند کردیا اور ٹام لونگ کو ہاسپٹل سے رخصت دے دی گئی۔ ایک سال گذرنے کے بعد بھی زخم میں کوئی افاقہ نہ ہوسکا۔ آخر ایک روز وہ اسی ہسپتال میں دوبارہ سرجری کے لیے آیا اور حیرت انگیز طور پر اس بار یہ زخم جلد ہی مندمل ہوگیا۔
میڈیکل کے طلباء وطالبات یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ سات آپریشن اس زخم کو مندمل نہیں کرسکے اور اس بار یہ زخم معجزاتی طور پر ٹھیک ہوگیا۔ ہاسپٹل سے فراغت کے بعد آخر ٹام لونگ نے کیا طریقۂ کار اپنایا، کونسی دوا، کونسی غذا، کوئی پیتھی، کوئی تھراپی، آخر یہ ہوا کیسے؟….
میڈیکل میں فرسٹ ایئر کی طالبہ ریگن فولے Reghan Foley نے انٹرویو کے انداز میں ٹام سے پوچھا
‘‘آپ اپنی شفا یابی کا سبب کسے سمجھتے ہیں؟’’ ٹام نے فوراٌ جواب دیا
‘‘ایک چیز، جو بہترین میڈیکل کئیرسے بھی ماورا ہے، جس نے میری زندگی بچائی اور وہ ہے خدا کی طرف سے ملنے والی شفا’’۔
آرلینگٹن ہاسپٹل Arlington Hospital ورجینیاکے ڈاکٹر جُوسمیس joe Semmes، 1962ء میں لبلبہ کے کینسر میں مبتلا ہوئے جس میں ہر پانچ سال بعد 50فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا تھا۔ اس لاعلاج مرض کو روکنے کی جُو نے بہت کوشش کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی….یہ سب کچھ اس کے لئے تکلیف دہ تھا۔ جب زندگی کا چراغ بجھنے کے قریب محسوس ہوا تو وہ دُعا کی طرف راغب ہوا۔ جُو کی بیوی ایلونیڈا Elonide نے دوسرے لوگوں سے بھی جُو کی صحت یابی کی دعا کروائی۔
جُوسمیس کے مطابق کہ چونکہ اسٹریس قوتِ مدافعت کو کمزور کردیتا ہے چنانچہ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی قوتِ مدافعت میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس مقصد میں نے دعا اور مراقبہ شروع کردیا۔ جُوسمیس کے لبلبے کا ٹیومر سرجری کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس کیس بہت بگڑا ہوا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ چھتیس ہفتوں تک لیزر شعاعوں سے علاج کے بعد اس نے ڈاکٹروں سے کہا کہ آپریشن کردیا جائے۔ گیارہ گھنٹوں کے طویل آپریشن کے بعد ٹیومر نکال دیا گیا۔ اس کے بعد یہ زخم بھی بہت جلد ٹھیک ہوگئے۔ اس شفایابی کو بھی وہ ڈاکٹر دعاؤں کا نتیجہ سمجھتا ہے ، اس کے اپنے مطابق :
‘‘کوئی کہتا ہے کہ یہ لیزر شعاعوں کی ریڈی ایشن سے ہوااور کوئی کہتا ہے سرجری کی وجہ سے مگر میں دعاؤں کی وجہ سے صحت یاب ہوا ہوں ’’۔
نینسی نکولسنNancy Nicholson کا دو سالہ بھتیجا کائل بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹرز کی تشخیص کے مطابق وہ ایڈرینل گلینڈز کے کینسر میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹرز نے اس گلینڈ کو Remove کرنے کے لئے آپریشن تجویز کیا۔ لیکن اس میں جانبر ہونے کے امکانات صرف 20 سے 25 فیصد تک تھے۔
اس نااُمیدی کے عالم میں نینسی نے فیصلہ کیا کہ وہ اسکول میں بچوں کے ساتھ مل کر دعا کرے گی۔
سرجری کے دن 300 طالب علموں اور اسٹاف نے ہاتھ اُٹھائے اور دل سے کائل کے لئے دعا کی۔ اور 20 فیصد امکانات والا آپریشن 100 فیصد کامیاب رہا۔
ایک بیماری کی وجہ سے امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو کے ایک ٹاک شو کی میزبان ڈیانا ریم Diane Rehm کی آواز ختم ہونے لگی۔ اس نے طرح طرح کے ٹیسٹ کروائے، علاج کئے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے رجوع کیا مگراس کی آواز اتنی کمزور ہوگئی کہ اس کی لرزش کوئی بھی محسوس کرسکتا تھا نتیجتاً اسے ریڈیو کو خیرباد کہنا پڑا۔
ایک دوست کے کہنے پر اس نے اپنا روحانی علاج کروانا شروع کیا۔ ابتداء میں روحانی معالج اس کے گلے کو دونوں ہاتھوں میں رکھ کر کچھ پڑھا کرتا۔ پہلی ہی ملاقات کے بعد اس نے خود کو کافی بہتر محسوس کیا۔ اس بارے میں وہ کہتی ہے‘‘ایسا نہیں ہے کہ میں نے روشنی کا جھماکا محسوس کیا یا کہیں سے کوئی توانائی آتی ہوئی محسوس کی۔ جی نہیں۔ میں صرف سکون کا ایک احساسپاتی تھی’’۔
مختلف امراض سے نجات کے لیے صاف ماحول، صحت بخش غذائیں اور ادویات کے کردار بلاشبہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ان تمام عوامل کے باوجود بعض امراض جان لیوا ثابت ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ ان تمام عوامل کے فقدان کے باوجود اکثر مریض حیرت انگیز طور پر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کے اکثر علاقوں کی آب و ہوا جراثیم سے اٹی ہوئی ہے، صحت بخش غذاؤں کے متعلق فہم ناپید ہے اور مناسب علاج کا بھی فقدان ہے لیکن پھر بھی بے شمار لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ انسانی جسم میں وہ کون سی طاقت یا وہ کون سا جذبہ ہے جو ہمیں صحت کی جانب مائلکردیتا ہے….؟
اس سارے معاملے میں دعا کا کردار مرکزی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے جس کی واضح مثال مذکورہ بالا واقعات بھی ہیں ۔ مریض کواپنی بھرپور توجہ و محبت دینا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عجز و انکساری کے جذبہ کے تحت اس کے لیے دعا کرنا ایک بہت ہی ٹھوس لائحہعملہے۔
تقریباً تمام ہی کلچرمیں دعا خدا سے تعلق، ایک بہتر کردار کی تعمیر، بیماریوں ، پریشانیوں اور مسائل سے نجات کے لیے نسخہ ٔ خاص کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈپریشن اور ٹینشن میں لوگ اس ہی سے استفادہ کرتے ہیں اور خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں ۔ اکثر ڈاکٹر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دعا اور تسلی جسمانی صحت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں چاہے اُن کے پاس اس کے لیے کوئی سائنسی دلیل نہ بھی ہو۔ وہ اپنے پاس آنے والے مریضوں سے دعا کرنے کا کہتے ہیں ….
یہ صدی جس میں سیٹیلائٹ کمیونیکیشن ، موبائل فونز، وائی فائی، انفرا ریڈ، الٹراوائلٹ جیسی نظر نہ آنے والی ایجادات اور ٹیکنالوجی رونما ہوئیں، اور لوگوں کی بڑی تعداد مادّہ پرست ہوتی چلی گئی مغرب میں طنزیہ لہجے میں یہ سوال کیا جانے لگا کہ
‘‘دعا سے شفا کس طرح ممکن ہے؟’’….
ماضی میں میڈیکل کمیونٹی نے اس بات کو سرے سے رَد ہی کردیا، لیکن آج مغرب میں تیس چالیس سال پہلے کی صورتحال نہیں رہی بلکہ اب جدید سائنسی تحقیقات ان سوالوں کا جواب تلاش کررہی ہیں کہ دعا اور صحت میں کیا تعلق ہے۔ بہت سے سائنسی مشاہدات روحانیت اور اچھی صحت کے مابین تعلق کو واضح کررہے ہیں۔ بہت سے سائنسی ریسرچ جرنل اور شائع ہونے والی نئی کتابیں اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں۔
ڈاکٹرز دعا اور شفا کے درمیان تعلق پر کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں جن میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔
اکثر مغربی معالجین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ رشتہ داروں، دوستوں بلکہ اجنبی لوگوں کے حق میں بھی کی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ مغربی معاشرہ میں آج سینکڑوں میڈیکل کالجز اور اسپتال صحت کے لئے دعا کی حیرت انگیز طاقت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
بعض میڈیکل کالجز میڈیکل تعلیم میں روحانیت اور اعتقاد کو شامل کررہے ہیں۔ کیونکہ اس طرح لوگ شفا کے لئے اپنے ایمان و ایقان کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی اس طریقہ کار کو بعض لوگ تنقید کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ 1996 ء میں ایسوسی ایشن آف امریکن میڈیکل کالجزAssociation of American Medical Colleges نے مریضوں، ڈاکٹروں، وکیلوں، انشورنس مالکان، میڈیکل کے طالب علموں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے انٹرویوز لیے جس سے میڈیکل اسکولوں کے لیے معروضات جمع کئے گئے۔ اس جائزے میں ثقافتی اور روحانی معاملات پر لوگوں نے زیادہ زور دیا تاہم ان معروضات پر خاطر خواہ عمل نہ ہوسکا پھر بھی 1992 ء تک امریکہ کے 125 میں سے 50 میڈیکل اسکولوں میں روحانیت کو بطور نصاب شامل کرلیا گیا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں میڈیکل کے پہلے سال میں ایک سبجیکٹ ’’مذہبی روایات میں صحت کی حفاظت‘‘ کے نام سے شامل کیا گیا۔ اس سبجیکٹ میں روحانیت اور موت کے مابین تعلق کی وضاحت کی جاتی ہے اور اس ضمن میں دنیا کے مختلف مذاہب کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ مریض کی میڈیکل ہسٹری کے ساتھ ساتھ مریض کے اعتقادات بھی معلوم کئے جائیں اور مذہبی لحاظ سے اس کی بہتری کی سبیل کی جائے….
مغرب میں ایسے معالجین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو مریضوں کی صحت کو بحال کرنے کے لیے دعا تھراپی کو ایک مکمل اور جامع علاج کی حیثیت سے استعمال کرتے ہے۔مغرب میں معالجین کے ریکارڈ کے مطابق سخت تکلیف میں مبتلا ہزاروں مریض دعاؤں کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔ بےشمار مریضوں جن کو دعاؤں سے زندگی کا نیاحوصلہملا۔
جدید سائنسی مطالعے نے عبادت گاہ اور لیبارٹری کے درمیان کھڑی دیوار کو شق کردیا ہے۔ مثلاً ریسرچ بتاتی ہے کہ جو لوگ ہفتے بھر میں اوسطا ایک مرتبہ ہی روحانی اعمال صدقِ دل سے ادا کرتے ہیں ان کی زندگی میں عام لوگوں کے کی بہ نسبت سات سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
1998ء میں نارتھ کیرولینا درہم میں ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر Duke University Medical Centerکے ڈاکٹر ہیرالڈ کوینگHarold Koenig اور ڈیوڈ لارسن David Larson نے اپنی تحقیق کے بعد بتایا کہ ‘‘جو لوگ ہر ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ خدا سے روحانی تعلق کے لئے وقت نکالتے ہیں وہ ہاسپٹل کم جاتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو ان لوگوں کی بہ نسبت جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جو یہ مشقیں نہیں کرتے’’۔
اس تحقیق میں ایسے لوگوں کی اچھی صحت کے ممکنات کو سامنے لاتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لوگ سگریٹ نوشی، شراب نوشی،بے راہ روی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ معاشرتی معاملات میں بھی اپنا کردار مثبت طور سے ادا کرنے کی کوششکرتےہیں۔
امریکہ میں 1987ء سے 1995ء تک 21,000 لوگوں کے مطالعہ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ باقاعدگی سے روحانی مشقوں اور عبادات پر خلوصِ دل سے عمل کرتے ہیں ان کی عمر میں دوسرے لوگوں کی بہ نسبت سات سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
1989ء میں ڈیوک یونیورسٹیDuke
University جارجیا کے محققین نے معلوم کیا کہ باقاعدگی سے روحانی مشقیں کرنے والے افراد ہائی بلڈپریشر سے بہت حد تک محفوظ ہوجاتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی ہی کے محققین نے 4000 بوڑھوں پر تجربات کر کے معلوم کیا کہ روحانی مشقوں سے ڈپریشن اور اسٹریس سے بچا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ہربرٹ بینسنDr. Herbert Benson نے کہا کہ دعا، عبادت ، کچھ الفاظ یا محاورے دہرانے(یعنی ورد کرنے )، موسیقی، مراقبہ، ٹائی چی اور یوگا کی مدد سے اسٹریس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
1995ء میں ڈرٹ ماؤتھ میڈیکل اسکول Dartmouth Medical School کی رپورٹ کے مطابق دل کے جن مریضوں نے آپریشن کے بعد تین مہینے تک روحانی مشقیں کیں وہ ایسے مریضوں کی بہ نسبت جلد صحت یاب ہوگئے جنہوں نے روحانی نہیںکیتھیں ۔
ماہرین امراض جلد جیف لیونJeff Levin نے اپنی ریسرچ کے بعد بتایا کہ وہ لوگ جو باقاعدگی سے روحانی مشقیں کرتے ہیں زیادہ عرصہ تک جوان اور صحت مند رہتے ہیں۔

کیا سائنس دان دعا کرتے ہیں….؟

بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان اور سائنسدان آئن سٹائن اس امر پر بھی پختہ یقین رکھتا تھا کہ کائنات کا منصوبہ اتنی زبردست ہنرمندی سے بنایا گیا ہے کہ اسے کسی طرح بھی اتفاقی مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔اسے یقینا ایک خالق نے بنایا ہے جو اعلیٰ ترین حکمت ودانش کا مالک ہے۔ آئن سٹائن اپنی تحریرو ں میں اکثر خدا پر ایمان کا اظہار کیا کرتاتھا اورکہتا تھا کہ کائنات میں حیرت انگیز فطری توازن پایا جاتاہے جو غوروفکر کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔
1936ء میں آئن سٹائن کو چھٹی جماعت کی ایک طالبہ فیلیس Phyllis نے خط لکھا جس میں اس نے پوچھا کہ کیا سائنس دان دعاکرتے ہیں ؟ …. یہ خط اور اس کے جواب کا متن کچھ اس طرح ہے:
————————————
میرے عزیز ڈاکٹر آئن سٹائن ،
ہمارے ذہن میں ایک سوال آیا ہے:
کیا سائنسدانوں دعا کرتے ہیں؟….
یہ سوال ہمارے اسکول کی اتوار کی کلاس میں زیر بحث ہے کہ آیا سائنس اور مذہب دونوں پر یقین کرنے والے کیامانتے ہیں ۔ ہم یہ سوال کئی سائنسدانوں اور دیگر اہم شخصیات کو لکھ رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ہمارے اس سوال کا جواب مل سکے۔ آپ ہمارے سوال کا جواب دیں گے تو بہت فخر محسوس ہو گا : سائنسدانوں دعا کرتے ہیں اور وہ کیا دعا کرتے ہیں ؟…. ہم، مس ایلس کی چھٹی کلاس کے طالب علم ہیں۔
آپ کی مخلص فیلیس…. ریور سائیڈ چرچ اسکول 19جنوری 1936
————————————
پیاری فیلیس ،
میں آپ کو سادہ ترین الفاظ میں جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میرا جواب یہ ہے کہ:
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تمام عوامل ، جس میں انسانوں کے معاملات بھی شامل ہیں، قوانینِ فطرت laws of nature کی پیروی کرتے ہیں ۔ لہذا ایک سائنسدان اس بات کے یقین پر مائل نہیں ہوسکتا کہ کسی عمل کو ، ایک ظاہری فوق الفطرت خواہش کی قوت یعنی دعا کے ذریعے متاثر کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، میں یہ ضرور تسلیم کرتاہوں کہ ان قوتوں کے متعلق ہمارا علم کامل نہیں ہے یا التواء کا شکار ہے۔
اس تمام بحث کا اختتام ایک متعلق وجود اور ایک بنیادی قوت پر یقین پر منحصر ہے جو ہر عقیدہ میں پایا جاتا ہے۔ اس قوت پر یقین کا تصور سائنس کے میدان میں بھی تمام جدیدیت کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ ، جو شخص سنجیدگی کے ساتھ سائنس کے مطالعہ اورتحقیق کی راہ اپناتاہے اسے اس امر کا قائل ہوناپڑتاہے کہ کائناتی قوانین میں واضح طورپر ایک روح موجود ہے۔
یہ روح انسانی روح سے بلندوبرتر اور اعلیٰ ہے۔ اس طرح سائنس کا مشغلہ انسان کو ایک خاص قسم کے مذہبی جذبے سے سرشارکر دیتاہے۔ جو مذہبیت سے بالکل مختلف ہے اور یقینا زیادہ سادہ ہے۔
نیک تمناؤں کے ساتھ، آپ کا البرٹ آئن سٹائن 24جنوری 1936
(بحوالہ: Einstein Archive 42-601 , Jan 24, 1936۔)

 

ڈاکٹر لیری ڈوسی Larry Dossey نو کتابوں کی مصنّفہ ہیں، ان کی مشہور کتاب کا نام Healing beyond the body ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ دعا کے ذریعے صحت حاصل کرنا ایک ایسا یقینی امر ہے جس طرح ہم ہوا، خوشبو اور خوشی و غم پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔
1988ء میں ڈاکٹر رونالڈ ف بائرڈ جو ماہرِ امراضِ قلب ہیں، نے سان فرانسسکو کے جنرل اسپتال میں قیام پذیر 400 مریضوں کو یہ ہدایت کی کہ اگر وہ روزانہ اجتماعی دعا کریں تو وہ جلد صحت یاب ہوکر یہاں سے رخصت ہوجائیں گے۔
1999ء میں ڈاکٹر ایلزبتھ ٹریگ جو کیلی فورنیا یونیورسٹی کی ایک نفسیات دان ہیں، نے اپنے اسپتال میں ایسے بہت سے ہیلپرز بھرتی کیے جو کہ روزانہ ایک گھنٹے تک مریضوں کے ساتھ دعا کرتے تھے۔ وہ مریض جو کہ دعا میں شریک نہیں ہوتے تھے ان میں سے اکثر موت کا شکار ہوگئے۔
ستمبر 2001ء میں جنرل Re-productive میڈیسن نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا جس میں اُنہوں نے بتایا کہ 219 خواتین کو بانجھ پن کے ضمن میں دعا کے ذریعے علاج کا طریقہ کار بتایا گیا تھا ان میں سے 200خواتین نے شفا پائی۔
ڈیل میتھیوسDale Matthews نامی محقق اپنے مقالے ‘‘The Faith Factor: Proof of the Healing Power of Prayer ’’ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘جو لوگ اپنا معاشرتی کردار عمدگی سے ادا کرتے ہیں مثلاً لوگوں کی مدد کرنا، کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنا اور لوگوں کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ اور ان کے برعکس جو لوگ محدود ہو کر زندگی گزارتے ہیں ان کو نفسیاتی اور جسمانی عوارض لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں’’۔ ڈاکٹر میتھیوس نے 1980 ء کی دہائی میں یہ محسوس کیا کہ اس کے مریض اس سے دواؤں کے علاوہ بھی کچھ چاہتے ہیں۔ کچھ مریضوں نے تو اس سے کہہ بھی دیا کرتے کہ ہمارے لیے دعا کرنا۔ ڈاکٹر میتھیوس کا کہنا ہے
‘‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں تھا۔
دعا کے بارے میں میرا خیال یہی تھا کہ یہ صرف ڈاکٹر کی مریض کو دی جانے والی تسلی تک محدود ہے ۔ لیکن اس کے بعد میں نے جانا کہ مریض کو ڈاکٹر کی ‘‘روحانی تشفی’’ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر میتھوس نے مریضوں کے مذہبی پسِ منظر کو جاننا بھی شروع کردیا۔ میتھیوس اب اپنے اسٹیتھواسکوپ کو استعمال کرتا ہے، ایکسرے کرواتا ہے اور دوائیں لکھتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ ان لوگوں کے اعتقاد کا جائزہ بھی لیتا ہے۔ اس کے ایک 47سالہ مریض کے دل کا آپریشن ہوچکا تھا پھر اس کی بڑی آنت میں مسئلہ ہوگیا۔ ابھی یہ مسئلہ موجود ہی تھا کہ اسے جوڑوں کی تکلیف آرتھرائٹس نے بھی گھیر لیا۔ میتھیوس نے اس کو دوا کی پرچی کے ساتھ کلام مقدس کی چند آیات پڑھنے اور چند روحانی مشقیں کرنے کی تلقین کی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ مریض ایک صحتمند انسان بن چکا تھا۔
ڈاکٹر ہارولڈ جی کوئینگ Dr. Harold G. Koenig ڈیوک یونیورسٹی میں مذہب ، روحانیت اور صحت کے شعبے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں،کہتے ہیں کہ
‘‘اگر آپ کے دوست آپ کے لئے دعا کریں گے تو یہ آپ کو ضرور فائدہ دے گی، چاہے آپ کو معلوم ہویا نہ ہو’’۔
کوئینگ کے مطابق وہ دعا جو کسی کی صحت یابی کے لیے کی جارہی ہے اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا کرنے والا کتنا مخلص ہے، یا دعا کے احساس اور اثرات کو کتنا سمجھتا ہے۔دعا سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور جسم پر مثبت بیالوجیکل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فرد کی عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کوئینگ نے یہ بھی دریافت کیا کہ صحت مند امریکیوں کی بڑی تعداد کی زندگی میں بھی دعا کا گہرا عمل دخل ہے۔ وہ لوگ جو اپنی مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اُن میں بھی دعا کی تاثیربڑھ جاتی ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک Newsweekکے ایک سروے کے مطابق 82% لوگ اپنی فیملی کی صحت و تندرستی اور ملازمتوں کے لئے دعائیں مانگتے ہیں۔ 75% لوگ اپنی ذاتی برائیوں کو دور کرنے کی دعامانگتےہیں۔
87 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے۔ 36 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نوکری یا کامیابی کے لیے کبھی دعا نہیں مانگی۔ 25 فیصدافراد ہفتے میں کئی دن خدا کی عبادت کرتے ہیں۔
سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ایک سروے کے مطابق امریکا میں دعا کا طریقۂ علا ج دیگر تمام متبادل طریقۂ علاج سے زیادہ مقبول ہے۔ اِس ادارے نے دعا کے طریقے میں مراقبہ، ہپناسس اور گہرے سانس لینے کو بھی شامل کیا ہے۔ اکتیس ہزار افراد پر کی گئی ایک ریسرچ سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُن کے مطابق 55 فیصد امریکیوں نے کبھی نہ کبھی اپنی صحت کے لئے، 31 فیصد نے دوسروں کی صحت کے لئے دعا کی ہے۔ جبکہ 5فیصد لوگوں نے صحت کے لئے باقاعدہ دعا کو اپنا رکھا ہے۔
مجموعی طور پر 86 فیصد افراد دعا کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں۔ مذکورہ ادارے کے ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لوگوں کو مروّجہ طریقۂ علاج سے افاقہ نہیں ہورہا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ کیئر ریسرچ National Institute for Healthcare Research کی ایجوکیشن ڈائریکٹر ڈاکٹر کرسٹینا پُشالکیDr. Christina Puchalski کہتی ہے ’’یقینا بیماری کی اصطلاح میں سائنس ناقابلِ فراموش کرداررکھتی ہے۔
بیسویں صدی میں ہماری اوسط عمر میں دو تہائی اضافہ ہوگیا ہے اور یہ سب سائنس کی بدولت ہوا لیکن ہم سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال رہے ہیں۔ بلاشبہ سائنس ایک مکمل تصویر نہیں ہے’’۔
واشنگٹن میں ہاورڈ یونیورسٹی کالج آف میڈیسن کے سائیکاٹرسٹ مارٹن جونز Martin W. Jones نے دعا اور شفا کے ربط پر بہت کام کیا۔ وہ کہتے ہیں
‘‘ہم شفا کی بہت سی میکانزم سے لاعلم ہیں۔ ہم بیماریوں کو محض ان کے جسمانی اسباب اور اثرات سے شناخت کرتے ہیں۔
ہم کسی آدمی پر پڑنے والے روحانی اثرات کو بھی دیکھ سکیں تو پھر یقین جانیے بہت طاقتور قوت سے آگہی ملے گی ہے’’۔

 

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل رسائل  اور کتب  سے مدد لی گئی ہے۔

  • The Healing Power of Faith—Lydia Atrohl
    ہیلنگ پاور آف فیتھ۔ لیڈیا اسٹرول؛ریڈرز ڈائجسٹ۔ مئی 2001ء
  • Faith and Healing—Dr. Jeffrey Levin
    فیتھ اینڈ ہیلنگ ۔ ڈاکٹر جیف لیون ؛ ٹائم میگزین ۔  24 جون 1996ء
  • How Faith can Heal—Jeffrey Kluger
    ہاؤ فیتھ کین ہیل ۔ جیفری کلوگر ؛ ٹائم میگزین ۔  23 فروری 2009ء
  • Is God Listening?—Kenneth L. Woodward
    اِ ز گاڈ لسننگ۔  کینتھ ایل وڈورتھ؛  نیوزویک میگزین ۔  31 مارچ 1997ء
  • The Healing Power of Faith—Dr. Harold G. Koenig ہیلنگ پاور آف فیتھ۔ ڈاکٹر ہارولڈ جی کوئینگ؛   ٹچ اسٹون  ۔ نیویارک، 2001ء
  • The Faith Factor– Dale A. Matthews
    دی فیتھ فیکٹر ۔ ڈیل اے میتھیوس ؛ ناشر:    پینگوئن بُک ، اپریل  1999ء
  • Healing Beyond the Body – Larry Dossey
    ہیلنگ بییونڈ باڈی ۔   لیری ڈوسی  ؛ ناشر:شمبھالا ۔ بوسٹن     ، فروری 2003ء
  • Biology of Belief —Jeffrey Kluger
    بائیولوجی آف بِلیوو۔ جیفری کلوگر ؛ ٹائم میگزین ۔ 12 فروری 2009ء

یہ بھی دیکھیں

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟ پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے …. پانی ہی ...

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عطا کردہ وظائف

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عطا کردہ وظائف خوشحالی کا وظیفہ:  حضرت بابا فرید ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *