دنیا عجیب و غریب اور دلچسپ مقامات سے بھری پڑی ہے ۔ شوقین افراد ان مقامات کو دیکھنے کے لیے دور دراز کےسفر بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں خوبصورت مقامات کی کوئی کمی نہیں جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑلیتی ہیں لیکن اسی دنیا میں کچھ ایسی جگہیں بھی موجود ہیں ، جن کا نظارہ کسی کو بھی خوفزدہ یا کانپنے پر مجبور کرسکتا ہے اور جہاں پر جانا خطرات سے خالی نہیں۔ دہشت ناک خصوصیات والے یہ مقامات دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں ۔ ایسے ہی چند دہشت ناک ترین مقامات ترین مقامات کا تذکرہ آپ کے لیے دلچسپی اور سنسنی خیزی کا سبب بنے۔
Kivu Lake, Congo
زہریلی جھیل کیووُ ، کانگو (افریقہ)
یہ جھیل افریقہ کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے جو کہ ڈیمو کریٹک ریپبلک آف کانگو اور روانڈا کی درمیانی سرحد پر واقع ہے۔اس جھیل کے گہرے پانی میں مہلک اور زہریلی میتھین گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس جھیل میں تقریباً60ارب کیوبک میٹر میتھین اور300کیوبک میٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ تحلیل ہیں۔ یہ گیس ایک قریبی آتش فشاں کی سرگرمیوں اور جھیل کی تہہ میں موجود بیکٹریا کے گلنے سڑنے کے عمل کی وجہ سے بن رہی ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ میتھین گیس کی بڑھتی ہوئی مقدار تباہ کن ہو سکتی ہے جسے انہوں نے‘‘اوورٹرن’’ کا نام دیا ہے۔ اسے لمنک ارییپشن Limnic Eruption بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب گیس کا پریشر جھیل کی گہرائی میں موجود پانی کے دباؤ سے بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک چین ری ایکشن شروع ہوتا ہے۔ جتنی تاریخ ہم جانتے ہیں اس میں ا بھی تک صرف دو ہی لمنک اریپشن کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پہلا واقعہ 1986ء میں جھیل اینوائی اوس میں ہوا اور اس کے وجہ سے 1700سے زائد لوگوں کا دم گھٹ گیا جب کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک بادل 100میٹرپانی کے فوارے کے ساتھ جھیل سے پھٹا تھا اور ساحل سے 25کلومیٹر دور تک پھیل گیا تھا۔کیوو کا علاقہ اینوئی اوس سے ہزار گنا زائد گیس رکھتا ہے لہذا اگرا س کے ایک حصے کا بھی اخراج ہو جائے تو اس کے گرد رہنے والے 20لاکھ لوگوں کی زندگی خطرے میںہوگی۔
فی الحال سائنسدانوں کی کوشش ہے کہ کسی حادثہ سے پہلے اس گیس کونکال لیا جائے۔ اتنی گیس سے 960میگا واٹس بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
Mount Merapi, Indonesia
کوہ میراپی ،انڈونیشیا
ہر سال دنیا بھر میں 60 کے قریب آتش فشاں پھٹتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں 80 کروڑ لوگ کسی فعال آتش فشاں سے 100 کلومیٹر کے دائرے میں بستے ہیں۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو کسی بڑے آتش فشاں کی زد میں آ سکتا ہے۔ ان میں سے 20 کروڑ افراد کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔ انڈونیشیا بحرالکاہل کے رِنگ آف فائر یعنی آتشیں حصار کہلانے والے علاقے میں آتا ہے، جہاں زمینی پرتیں آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے اور زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔ ماؤنٹ میراپی کو وہاں کا سب سے طاقتور آتش فشاں قرار دیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں واقع میراپی آتش فشاں کبھی بھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ اگر یہ نہ بھی پھٹے تو تب بھی اس کی چوٹی سے دھوئے کے بادل اٹھتے دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں یہ آتش فشاں تقریباً ساٹھ مرتبہ پھٹ چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ آتش فشاں اکتوبر 2010 کو پھٹا تھا جس میں ساڑھے تین سو سے زیادہ افراد ہلاک اور چار لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے ۔ مئی 2018ء میں بھی اس آتش فشاں سے 5 ہزار 900 میٹر بلندی تک ہزاروں ٹن وزنی راکھ نکلی تھی جس کی وجہ سے اس کے ارد گرد پانچ کلومیٹر تک کا علاقہ خالی کروادیا گیا تھا۔ ان سب واقعات کے باوجود آتش فشاں سے 4 میل سے بھی کم فاصلے پر 2 لاکھ افراد رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
Ramree Island, Burma
مگرمچھوں کا جزیرہ رامری ، برما
یہ جزیرہ میانمار (برما)کے نزدیک واقع ہے اور اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ‘‘جانوروں کی جانب سے انسانوں کو پہنچایا جانے والا سب سے بڑا نقصان’’ کے حوالے سے شامل ہے۔ اس کی وجہ یہاں پائے جانے والے مگرمچھ ہیں۔ اس جزیرے کے سمندر میں رہنے والے مگرمچھوں کی صحیح تعداد کسی کو پتہ نہیں لیکن اندازاً کہا جاتا ہے کہ یہ جزیرہ تیس ہزار سے زیادہ مگرمچھوں کا گھر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران جاپانیوں نے امریکی فوجیوں سے بچنے کے لیے اس جزیرے کا رخ کیا تھا۔ اس وقت تقریباً 900 سے زیادہ جاپانی ان مگرمچھوں کا شکار ہوگئے اور صرف چند ہی بچ پائے۔ آج بھی یہاں مگرمچھ کے حملوں کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
Absheron Peninsula, Azerbaijan
ابشرا جزیرہ نما ، آذر بائجان
آج آپ کو لے چلتے ہیں دنیا کے سب سے بڑے پریشر ککر کی سیر پر۔ حیران نہ ہوں یہ کوئی عام پریشر ککر نہیں بلکہ یہ قدرتی پریشر ککر ہے اور ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ وسطی ایشیائی ملک آذربائیجان کے ابشرا جزیرہ نما Absheron Peninsula میں واقع ہے۔ ابشرا جزیرہ نما، دنیا کی سب سے بڑی جھیل کہی جانے والی بحیرہ کیسپیئن سے لگا ہوا ہے۔ اسی میں آذربائیجان کے دارالحکومت اور وسطی ایشیا کا خوبصورت شہر باکو بھی واقعہے۔
ابشرا جزیرہ نما میں زمین کے نیچے بڑی تعداد میں قدرتی گیس کے ذخائر ہیں۔ جب گیس کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو وہ کہیں بھی زمین کی ملائم سطح سے باہر آنے لگتی ہے، تیز رفتار سے گیس یوں زمین سے نکلتی ہے جیسے مٹی کا کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہو۔یہاں کبھی بھی زمین کے اندر سے چنگاری پھوٹ نکلتی ہے۔ کیچڑ کے آتش فشاں پھٹ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں اکثر ایسے دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عام طور پر تو خطرناک نہیں ہوتے ہیں لیکن کئی بار خوفناک مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سنہ 2001 میں باکو سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر لوکبطن نامی آتش فشاں میں اتنا زبردست دھماکہ ہوا تھا کہ آسمان میں سینکڑوں میٹر بلند چنگاریاں دیکھی گئی تھیں۔ وہاں کی فضا مکمل طور پر کیچڑ اور دھوئیں سے بھر گئی تھی۔ ایک دھماکہ 6 فروری 2017 کو بھی ہوا تھا۔ ابشرا جزیرہ نما آگ لگنے اور مٹی کے آتش فشانوں کی اپنی قدرتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ دور دور سے سیاح انھیں دیکھنے آتے ہیں۔ آج سے ستر برس قبل کسی نے پہاڑی پر سگریٹ پھینک دی تھی۔ اس کے بعد سے لگنے والی آگ یہاں آج تک جل رہی ہے۔ تقریباً دس مربع میٹر کے دائرے میں یہاں ہمیشہ آگ لگی رہتی ہے۔ اس خطہ میں کبھی بھی، کہیں بھی گیس کے نکلنے سے دھماکہ ہوسکتا ہے۔ آگ لگ سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس علاقے میں ہزاروں سال سے لوگ آباد ہیں۔
Caminito del Rey, Spain
شاہی گزرگاہ (رائل پاتھ)، اسپین
اسپین میں واقع اس شکستہ اور انتہائی خطرناک راستے کو Pathway of the King اور شاہی گزرگاہ The Royal Path کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ راستہ 1905 میں تعمیر کیا گیا ۔ اس راستے کی اونچائی 330 فٹ، لمبائی 1.8 میل جبکہ چوڑائی صرف 3 فٹ ہے۔ اگرچہ یہ پگڈنڈی عوام کے لیے بند کر دی گئی ہے لیکن سیاحوں میں یہ اب تک مقبول ہے ، ایڈونچر کے شوقین نوجوان اس خطرناک راستے سے گزر کر اپنی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کئی سیاح اس راستے سے گزرنے کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ بھی دھوبیٹھے ہیں۔
Miyake jima, Japan
میاکے جیما جزیرہ ، جاپان
بحرالکاہل میں واقعہ یہ ایک انتہائی خطرناک جزیرہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے جنوب میں تقریباً سو کلو میٹرز کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں جانے والوں کا واسطہ کئی اقسام کے خطرات سے پڑ سکتا ہے۔ ان خطرات میں سیلاب اور آتش فشانی حادثات بھی شامل ہیں۔ 55.5 مربع کلو میٹر رقبے کے اس جزیرے میں موجود چھ آتش فشاں مسلسل سرگرم ہیں۔ یہ آتش فشاں ایک صدی کے دوران چھ مرتبہ لاوا اگل چکے ہیں۔ جزیرے میں موجود مسلسل دھواں اگلتے آتش فشاں اویاما Oyama نے جزیرے کی آب و ہوا اتنی آلودہ کردی کہ یہاں موجود مقامی آبادی کو سانس لینا دشوار ہوگیا۔ اب یہاں آباد لوگوں گیس ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔ اس جزیرے کے ہر کونے میں زلزلوں کا آنا بھی لازمی ہے۔
اس جزیرے کے اردگرد بارہ سو کلو میٹرز کے سمندری علاقے میں کئی جہاز اور ماہی گیر کشتیاں غائب ہوچکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہاں میتھین ہائڈریٹس Methane Hydrates کے وسیع ذخائر زیر سمندر موجود ہیں۔ یہ گیس18 سینٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت پر دھماکے سے پھٹ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے سطح آب پر اتنے بڑے بلبلے پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی بحری جہاز کو آسانی سے ڈبو سکتے ہیں اور اس کے ملبے تک کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔
Okefenokee Swamp, Georgia
سیاہ دلدل اوکفنوکی، جارجیا
اوکفنوکی نامی یہ دلدلی علاقہ امریکی ریاست جارجیا میں واقع ہے۔ چار لاکھ اڑتیس ہزار ایکڑ پر مشتمل یہ انتہائی خطرناک علاقہ دلدل نما سیاہ جھیل پر مشتمل ہے۔ اس دلدل کے ارد گرد گھنی جھاڑیوں میں زہریلے کیڑے، گوشت خور پودے Carnivorous Plants اور مچھر بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ یہاں پائی جانے والی خود رو گھاس اتنی خطرناک ہے کہ تعمیر کی گئی کئی سڑکیں اور عمارات نگل چکی ہے۔ اس جھیل میں ہزاروں کی تعداد میں موجود مینڈک، زہریلے سانپ اور مگرمچھ پانی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے نظر نہیں آتے ،یہ انسانوں کے انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔
Sable Island , Canada
سیبل جزیرہ ، کینیڈا
کینیڈا کی بندرگاہ ہیلیفیکسHalifax کے نزدیک واقع یہ ہموار جزیرہ مستقل طور پر دھند میں پوشیدہ رہتا ہے۔ یہاں طاقتور طوفانوں میں انتہائی اونچی لہریں اٹھتی ہیں۔ یہاں چھائی دھند اور طوفان کی وجہ سے ہر سا ل کئی بحری جہاز تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس علاقے کو بحری جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شمالی بحر اوقیانوس میں چلنے والی گرم ہواؤں کی خلیجی رو Gulf Stream اور سرد ہواؤں کی لیبیڈور رو Labrador Current یہاں آکر ملتے ہیں، اسی لیے اس جزیرے کے ایک حصہ کا درجہ حرارت 27 ڈگری تک گرم اور ایک حصہ کا درجہ حرارت منفی 19 ڈگری تک سرد ہوتا ہے۔ ان گرم سرد سمندری ہوا کے ملاپ کی وجہ سے یہاں موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں سال کے بیشتر دنوں میں دھند چھائی رہتی ہے اور ساتھ ہی تیزطوفان آتے ہیں۔ ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس کا ریتیلا ساحل اپنا رنگ تبدیل کرتا رہتا ہے۔
Bloody Pond Hell, Japan
جہنم کا خونی تالاب ، جاپان
یہ جاپان کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ جاپان کے شہر بیپو Beppu میں موجود یہ تالاب اس علاقے کے گرم چشموں میں سے ایک ہے ۔ اس تالاب میں تیراکی سخت منع ہے کیونکہ اس تالاب کے پانی کا درجہ حرارت 194 فارن ہائیٹ تک ہوتا ہے ۔فولاد Iron اور نمک Saltsکی ایک بڑی مقدار کی وجہ سے اس جھیل کا پانی خون کی طرح سرخ ہے ۔ دور سے دیکھنے پر یہ جھیل اُبلتے ہوئے خون کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس جھیل کا نام Chinoike Jigoku ہے جس کے معنی جہنم کا خونی تالاب ہیں ۔
Blue Hole, Red Sea
بلیو ہول، بحر احمر (مصر)
اسکوبا ڈائیونگ سے تو آپ واقف ہوں گے جس میں سیاح سمندر کے قدرے شفاف اور کم گہرے پانی میں محفوظ تیراکی کرتے ہوئے سمندر میں موجود رنگ برنگی مچھلیوں ، کورال ریفس، پودوں اور سمندری مخلوقات کا دلکش نظارہ کرتے ہیں ۔ دنیا کے کئی ساحلی خطوں میں اسکوبا ڈائیونگ عام ہے، اسی طرح مصر کے بحرۂ احمر میں بلیو ہول نامی ایک تفریحی مقام ہے جہاں سمندر میں 130 میٹر لمبا اور 6 میٹر گہرا غار ہے، کم گہرا پانی ہونے کی وجہ سے لوگ یہاں اسکوبا ڈائیونگ کے لیے آتے ہیں لیکن یہ غار کئی غوطہ خوروں کی جان لے چکا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس غار میں نائٹروجن گیس کافی مقدار میں ہے جس کے دباؤ کی کی وجہ سے غوطہ خور کے دماغ میں نشہ کی سی ایک کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جسے نائٹروجن ناکوسسNitrogen narcosis کہتے ہیں ۔ اس کیفیت میں دماغ اور نظر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور تیراک کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
Dallol, Ethiopia
دلول، ایتھوپیا
دلول (Dallol) ایتھیوپیا میں واقع ہے اور اس مقام کو جہنم کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی ان گرم ترین جگہوں میں سے ایک ہے جہاں انسان بستے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے جبکہ اوسط درجہ حرارت 35۔40 ڈگری رہتا ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں اور زلزے بھی آتے رہتے ہیں۔
Verkhoyansk, Siberia
ورکویانسک، سائبیریا
ورکویانسک (Verkhoyansk) ماسکو سے مشرق کی جانب تقریباً 3 ہزار میل سائبیریا کے دل میں واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سرد ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سردیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور یہاں بہنے والا دریا سال کے 12 مہینوں میں سے 9 ماہ جما رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 سے منفی 60 ڈگری تک گر جاتا ہے۔
قدیم دور میں لوگوں کو جلا وطن کرکے سزا کے طور پر یہاں بھیجا جاتا تھا۔ اس علاقے میں بھی کئی لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔
Minqin County, China
منچن کاؤنٹی، چین
چین کے صوبہ گانزو میں واقع منچن Minqin کاؤنٹی دو صحراؤں کے درمیان واقع ہے۔ اس قحط زدہ علاقے کو سال میں تقریباً 130 روز مٹی کے تیز جھکڑوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں صحرائی طوفانوں سے اتنی ریت آتی ہے کہ لوگوں کے گھر اس ریت میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق صحرا آہستہ آہستہ اس زمین کو اپنا حصہ بناتے جارہے ہیں۔ چینی حکومت نے اس علاقے کے تقریباً 20 لاکھ رہائشیوں کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔
Gates of Hell, Turkmenistan
جہنم کا دروازہ، ترکمانستان
ترکمانستان کے صوبہ اہال میں دروازے Derweze کے نام سے موسوم اس علاقے کو جہنم کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہاں موجود ایک آتش فشانی سوراخ سے 1971 سے مسلسل شعلے بلند ہورہے ہیں، ایسا اُس وقت ہوا جب ماہر ارضیات نے حادثاتی طور پر یہاں کی زمین کو ڈرل کیا ۔ اس واقعے کے بعد سے یہاں ہر وقت آتش فشاں کی طرح آگ کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔ اب سینتالیس سال گزرنے کے بعد یہ سوراخ ایک فٹبال اسٹیڈیم کے برابر ہوچکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس خطہ کی زمین میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔
(جاری ہے)