Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کشورِ ظلمات ۔ قسط 7

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….

 

’’اندھیرا بھی روشنی ہے‘‘….
یہ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے….
جس چیز کو ہم اندھیرا کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اندھیرے کو خوف کی
علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک
کا احساس ہونے لگتا ہے…. سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں زندگی بیِشمار پیکر میں جلوہ گر ہوسکتی ہے…. سائنسی تحقیق کے مطابق
ایک زندگی وہ ہے جو ’’پروٹین اِن واٹر‘‘ کے فارمولے سے وجود میں آئی ہے۔ ہم انسان جو پروٹین اور پانی سے مرکب ہیں اپنی غذا ہائیڈروجن اور کاربن کے سالمات سے حاصل
کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی مخلوق ’’پروٹین اِن ایمونیا‘‘ کے فارمولے پر تخلیق ہوئی ہو تو اُسے ایسی غذا کی ضرورت ہرگز نہ ہوگی جو انسان استعمال کرتے ہیں…. ممکن ہے وہ فضا
سے انرجی جذب کرکے اپنی زندگی برقرار رکھتی ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کے جسم میں نظام ہضم کے آلات مثلاً معدہ، جگر، گردے، آنتیں وغیرہ بھی موجود نہ ہوں!…. اُن
کے جسم کی ہیئت ہمارے تصور سے بالکل ماوریٰ ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کا جسم وزن سے بالکل آزاد ہو!…. وہ ہوا میں اُڑسکتی ہو!…. اتنی لطیف ہوکہ چشم زدن میں
ہماری نظروں سے غائب ہوجائے!…. وہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہو!…. مابعد الحیاتیات کے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں ایسی مخلوق کا پایا جانا جانا
بعیدازامکان ہرگز نہیں ہے….
ظلمات کے معنی ہیں….تاریکی…. اور کشور کے معنی دیس یا وطن کے ہیں…. تاریکی کے دیس میں آباد ایک مخلوق سے متعارف کرانے والی یہ کہانی فرضی واقعات پر
مبنی ہے….  کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی….

 

 

(ساتویں قسط)


فیض انکل جنہیں حرا لاڈ سے مسٹری انکل کہتی تھی…. نواب سعادت کا قصہ سناتے سناتے پانی پینے کے لئے رُکے تو درمیان میں عمر نے سوال کیا ’’سر!…. شاہ عبدالعزیز کے دیئے ہوئے تعویذ نے نواب سعادت کے اوپر کیوں اثر نہ کیا؟‘‘….
فیض صاحب عمر کی بات سن کر مسکرائے پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولے ’’بہت اچھا سوال کیا تم نے!…. لیکن اس کے جواب سے قبل تمہیں تعویذ کی سائنس کو سمجھنا ہوگا‘‘….۔
’’تعویذ کی سائنس؟‘‘….۔ حرا کے لہجے سے شدید حیرت ظاہر ہو رہی تھی
’’ہاں بھئی….۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے…. ہر چیز کی کوئی نہ کوئی سائنس ہوتی ہے…. سائنس کیا ہے؟…. لاجک دریافت کرنے کا نام ہی تو ہے…. اسی طرح تعویذ کی بھی لاجک ہوتی ہے‘‘…. فیض انکل نے گہری نظر سے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا
’’تعویذ کی لاجک…. تعویذ کی کیا لاجک ہوگی انکل؟…. اس کا تعلق تو لوگوں کے عقیدے سے ہے!‘‘…. حرا نے پھر سوال کیا
’’بیٹی!…. عقیدہ کسے کہتے ہیں؟‘‘….
’’وہ تصورات جن پر انسان یقین رکھتا ہے!‘‘….۔
’’یقین کی بھی سائنس ہوتی ہے!‘‘…. مسٹری انکل زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولے
’’اب چھوڑئیے بھی انکل…. وہ قصہ بیچ میں ادھورا ہی رہ گیا ہے…. پہلے اُسے مکمل کیجئے…. آخر نواب سعادت کا کیا بنا…. اگر اس طرح آپ بات لمبی کرتے گئے تو پھر بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی‘‘…. حرا نے بے چین ہوتے ہوئے کہا
فیض انکل نے مسکراتے ہوئے بولے ’’ہوں…. اچھا بھئی…. لیکن میں پہلے عمر کے سوال کی وضاحت کردوں….دراصل تعویذ یا وظیفے کے اثرات کا انحصار شعور کی مضبوطی پر ہوتا ہے، شعور جس قدر مضبوط ہوگا اُسی قدر اُس کے اثرات ظاہر ہوں گے یقین کی مضبوطی کا انحصار بھی شعور پر ہوتا ہے…. جیسے کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ نواب سعادت کا شعور بہت کمزور تھا…. اُن کی ذہنی مصروفیات اور معلومات نہایت محدود تھیں لہٰذا تعویذ ابتدائی دنوں میں تو کچھ اثر نہ کرسکا…. اسی لئے کہ اُن کا ذہن غیبی مخلوق کے اثرات سے بُری طرح مغلوب ہوجاتا تھا…. اُنہیں نہ تو اپنی والدہ کی آوازیں سنائی دیتیں جو مسلسل اُن سے یہ کہہ رہی تھیں ’’سعادت بتائو تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟‘‘…. نہ ہی اُنہیں اردگرد کی کوئی چیز دکھائی دیتی…. ہوش میں آنے کے بعد صرف اتنا یاد رہتا کہ آج پھر اُنہیں وہی لڑکی نظر آئی تھی….
چند روز یہی کیفیت رہی…. پھر ایک روز اِس کیفیت میں اُنہیں اپنی والدہ کی آواز سنائی دی….
’’سعادت!…. شاہ صاحب کی ہدایت پر عمل کرو…. اُس لڑکی سے کہو کہ میرا پیچھا چھوڑ دے…. ہم دونوں الگ الگ مخلوق ہیں‘‘….
لیکن پھر اُن کا ذہن اندھیرے میں ڈوبتا چلاگیا….
جہاں آراء پھر حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں…. اور اس مرتبہ اُنہوں نے نہایت عاجزی سے فریاد کی کہ…. آپ میرے بیٹے کے لئے کچھ کریں…. میں بیوہ ہوں اور یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے…. یہی میرا سہارا ہے…. اگر اس کو کچھ ہوگیا تو میرا کیا بنے گا…. غرض خوب روئیں دھوئیں….
شاہ صاحبؒ نے گہری نظر سے نواب سعادت کو دیکھا اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہا…. کچھ دیر سعادت کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھتے رہے…. پھر مراقبہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں…. کافی دیر گزر گئی اور شاہِصاحبؒ کا مراقبہ جاری رہا….
بہت دیر بعد شاہ صاحبؒ نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ آئندہ ہر روز مغرب کی نماز کے بعد جب نواب سعادت کو ہوش آجائے تو اِنہیں شاہی مسجد میں میرے پاس بھجوادیں….
یوں شاہ صاحبؒ کی توجہ سے نواب سعادت کی غفلت میں کمی آتی گئی…. پھر اُن کا شعور اس حد تک بیدار ہوگیا کہ اُنہوں نے مدہوشی کے دوران گزرنے والے واقعات کی پوری روداد بیان کر ڈالی….
پہلے تو نواب سعادت کچھ ہچکچائے…. شاہ صاحبؒ نے ہمت بندھائی اور کہا کہ شرمانے کی ضرورت نہیں جو دیکھا ہے وہ من و عن بیان کردیا جائے….
نواب سعادت نے بتایا کہ ایک نوجوان خوبرو دوشیزہ اُن کی طرف بڑھی اور اُن سے ہم آغوش ہوگئی…. اُنہیں بھی اس کیفیت میں خوب لطف و سُرور حاصل ہوتا رہا….
شاہ صاحبؒ نے اس مرتبہ اُنہیں اپنے پاس روک لیا…. اور ایک خاص عمل شروع کیا…. اس عمل سے پہلے نواب سعادت کو انتہائی مقویٔ اعصاب خمیرہ ایک چمچی کی مقدار میں چٹایا گیا….
لیکن اس عمل کے دوران بھی نواب سعادت پر غفلت طاری ہوگئی…. بیگم جہاں آراء وہیں موجود تھیں…. اُنہوں نے دیکھا کہ شاہ صاحبؒ کسی سے باتیں کر رہے ہیں…. پھر اُنہیں ایک نسوانی آواز بھی سنائی دی….
شاہ صاحبؒ نے عمل ختم کرنے کے بعد یہ مناسب سمجھا کہ بیگم جہاں آراء کو اصل صورتحال سے آگاہ کردیا جائے…. چنانچہ انہوں نے بتایا کہ نواب سعادت پر ایک جن زادی فریفتہ ہے…. اور وہ روزانہ نواب سعادت یار کے ساتھ اپنی دلبستگی کا سامان کرتی ہے…. لیکن اب سعادت کے لئے ایک خطرہ یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ جن زادی کے والد سلطان محبوب شاہ جو عالمِ جنات کے ایک ملک پر حکمران ہے….۔ کو اس بات کا علم ہوگیا ہے…. اپنی بیٹی پر پہرے بٹھانے کے بعد اُس نے جن سپاہیوں کا ایک دستہ تمہارے بیٹے کو ہلاک کرنے کے لئے بھی متعین کردیا ہے…. کہتے ہیں کہ ماں کی دعا میں بہت اثر ہوتا ہے…. تم ابھی گھر جائو اور سعادت کی زندگی کے لئے بارگاہ اِیزدی میں فریاد کرو…. سعادت یہیں میرے پاس رہے گا میں بھی کچھ کرتا ہوں…. دعا کرو اللہ پاک میری مدد فرمائیں‘‘….
بیگم جہاں آراء روتی دھوتی چلی گئیں…. شاہ صاحبؒ نے اپنے حجرے میں نواب سعادت کو سلادیا اور خود مراقبہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں…. آدھی رات کو اچانک سعادت یار خان چیخ مارکر بیدار ہوگئے…. بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے شاہ صاحبؒ کے اوپر آگرے اور بے ہوش ہوگئے…. شاہ صاحبؒ نے فوراً کچھ پڑھ کر دم کیا…. اور پانی کے چھینٹے مارے تو نواب سعادت کو ہوش آگیا….
پھر نواب سعادت نے دیکھا کہ پانچ بلند قامت اور دیوہیکل سپاہی شاہ صاحبؒ کے سامنے سرجھکائے مؤدّب کھڑے ہیں…. شاہ صاحبؒ نہایت سختی کے ساتھ اُن سے بازپرس کر رہے ہیں…. اُن میں سے ایک سپاہی نے نظریں جھکائے ہوئے آہستہ سے کہا ’’حضرت! آپ کا کہنا درست ہے کہ اصل قصور سلطان محبوب شاہ کی صاحبزادی کا ہے…. لیکن اس لڑکے نے بھی تو لاحول نہیں پڑھا…. اگر یہ لاحول پڑھ لیتا تو شہزادی صاحبہ کسی بھی طرح اتنی آگے نہیں بڑھ سکتی تھیں‘‘….
’’ محض لاحول نہ پڑھنے کے جرم میں تمہارا سلطان اس معصوم کی جان لینا چاہتا ہے…. یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘…. شاہ صاحبؒ کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں…. ’’جائو اپنے سلطان سے کہہ دو کہ تمہارے کہنے کے مطابق یہ لڑکا تمہارا مجرم ہے…. لیکن اگر اس لڑکے کو کوئی گزند پہنچی تو پھر تمہارا سلطان ہمارا مجرم بن جائے گا…. اور پھر ہم نے اگر سزا سنادی تو تمہارے سلطان کی ساری فوج اُسے نہیں بچا سکے گی‘‘….
شاہ صاحبؒ کی ڈانٹ ڈپٹ کا اس قدر اثر ہوا کہ اُن قوی البحثہ سپاہیوں کے ہاتھ پیر کانپنے لگے…. اور وہ سپاہی جو کسی دیو سے کم نہیں تھے اور اُن کا سر چھت سے لگ رہا تھا…. ایک ساتھ جھکے…. شاہ صاحبؒ کی قدم بوسی کی اور معافیاں مانگتے ہوئے نظروں سے غائب ہوگئے….
اس کے بعد نواب سعادت یار خان نارمل انسانوں کی طرح زندگی گزارنے لگے‘‘….۔فیض انکل نے اپنی بات ختم کی اور سگریٹ سلگانے لگے….
’’امیزنگ…. بہت دلچسپ اور حیرت انگیز قصہ تھا…. انکل کیا انسان میں اتنی پاور ہے کہ وہ جنات کے سلطان کو سزا دے سکے یا اُس سے بازپرس کرسکے؟‘‘….حرا نے پوچھا
’’بیٹی!…. انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے‘‘….۔
’’لیکن انکل جنات کو تو ماورائی طاقت حاصل ہے…. انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں تو نہیں ہیں‘‘….۔حرا نے انکل کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اگلا سوال کرڈالا
’’انسان میں جنات اور فرشتوں سے کہیں زیادہ صلاحیتیں ہیں لیکن اُس کی توجہ ان صلاحیتوں پر مبذول نہیں ہوتی…. ایسے قدسی نفس بندے جو اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ صلاحیتوں کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے بعد اُن صلاحیتوں پر عبور حاصل کرلیتے ہیں…. اُن کے سامنے فرشتے اور جنات تو کیا پوری کائنات سر تسلیم خم کرلیتی ہے‘‘۔ انکل نے بات ختم کی….۔ بہت رات ہوچکی تھی…. یہ دونوں فیض انکل کے گھر سے رُخصت ہوکر اپنے اپنے گھر لوٹ گئے….
آج نجانے کیوں خلافِ معمول بس اسٹاپ سے کوٹھی کی جانب بڑھتے ہوئے عمر بے انتہا خوف محسوس کر رہا تھا…. اس سے قبل اُسے اتنا خوف محسوس نہیں ہوا تھا، حالانکہ اُس دوران اُس کے ساتھ نہایت عجیب و غریب واقعات پیش آرہے تھے…. اور وہ دفتر میں یوں کام کر رہا تھا جیسے اُس کے ساتھ کوئی انہونی نہیں ہوئی….
انسان اگر بے خوف ہو تو ایسے ایسے کام کر گزرتا ہے کہ عام آدمی جن کے متعلق سوچتے ہوئے بھی لرزجائے…. اُس کی بے خوفی اُس کے تحفظ کا باعث بن گئی تھی….
اُس نے اپنے ذہن سے خوف و ڈر کو جھٹک دیا اور پُراعتماد ہوکر کوٹھی کی طرف بڑھنے لگا….۔اُس نے سوچا ابھی تو رات کے صرف دس بجے ہیں اس سے پہلے تو وہ کئی مرتبہ رات کے بارہ بارہ بجے تک دفتر سے واپس لوٹا ہے…. پھر اُس کو مجذوب فقیر کا خیال آیا…. اُس نے کہا تھا ’’بچہ ڈرنا مت…. ہمت مرداں مددِ خدا‘‘….
وہ کوٹھی کے قریب پہنچا تو ٹھٹک کر رہ گیا….
عقابل خان زخمی حالت میں پڑا تھا اور کراہ رہا تھا…. عمر تیزی سے اُس کے پاس پہنچا…. عقابل بہت بری طرح زخمی تھا اور نیم بے ہوشی کی حالت اُس پر طاری تھی….
عمر اندر سے پانی لایا اور اُس کے چھینٹے عقابل کے منہ پر ڈالے…. لیکن عقابل نے آنکھیں نہیں کھولیں…. پھر اُس کو یہ خیال آیا کہ عقابل خان انسان تو ہے نہیں…. اُس کا تعلق تو نوعِ اجنّہ سے ہے لہٰذا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی انسان عقابل کو نقصان پہنچائے…. یقینا جنات میں سے ہی کوئی تھا جو عقابل کی یہ حالت کرگیا….
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ عقابل خان نے ایک سسکاری بھری…. عمر نے جھک کر عقابل کو آواز دی….
’’آگیا بتیال‘‘….۔ عقابل نے آہستہ سے کہا…. اور آنکھیں کھول کر عمر کو دیکھا
’’کیا ہوا تمہیں؟…. کون لوگ تھے؟…. کیا چاہتے تھے؟‘‘…. عمر نے ایک ساتھ کئی سوالات کر ڈالے
’’خطرہ!‘‘…. عقابل نے پھر آہستہ سے کہا
’’کہاں ہے خطرہ؟‘‘…. عمر نے پوچھا
’’تم…. تمہاری جان…. ک…. کو خطرہ‘‘…. یہ کہتے ہوئے عقابل کی آنکھیں بند ہوگئیں…. عمر نے دیکھا تو عقابل کے جسم میں ہلکی حرارت محسوس ہوئی…. اُس میں زندگی کی رمق باقی تھی….وہ سخت شش و پنج میں تھا کہ آخر کیا کرے…. اسی کیفیت میں کھڑے ہوکر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا…. چند لمحے گزرے ہوں گے کہ اچانک ایک شعلہ سا عقابل کی طرف لپکا…. اور عقابل کا جسم دھوئیں میںتبدیل ہوگیا اور یہ دھواں آسمان کی طرف اُٹھا اور آہستہ آہستہ غائب ہوگیا…. اُس وقت فضا میں عجیب سی بُو پھیل گئی تھی….
عمر کے اوسان خطا ہوگئے تھے…. اور ہمت بالکل جواب دے گئی…. خوف کے عالم میں وہ بھاگتا ہوا اسٹاپ پر آگیا…. سڑک بالکل ویران پڑی تھی….چند لمحے ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن اُس کی چھٹی حس اُس کو مسلسل خبردار کر رہی تھی کہ جس قدر تیزی سے وہ یہاں سے نکل جائے اُس کے لئے بہتر ہوگا…. فٹ پاتھ پر دوڑتے ہوئے اُس کو محسوس ہوا کہ فٹ پاتھ کے کنارے ایستادہ درختوں میں سے ایک درخت اپنی جسامت سے بڑھتا ہوا محسوس ہوا…. درخت کی شاخیں اُس کو کسی انجانی مخلوق کے ہاتھ کی مانند محسوس ہوئیں جو اُس کو دبوچ لینے کے لئے تیار تھے….
وہ ان شاخوں کے شکنجے سے بچنے کے لئے روڈ کراس کرکے دوسری طرف جانے لگا…. تو وہی روڈ جو ایک لمحہ قبل بالکل سنسان تھا اور دور دور تک کسی گاڑی کا نام و نشان تک نہ تھا اچانک گاڑیوں سے بھرگیا…. اُس کے دائیں بائیں سے تیز رفتار گاڑیاں گزر رہی تھیں اور وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنی طرف ایک دیوہیکل ٹرک تیزی سے آتا نظر آیا…. وہ بچنے کے لئے تیزی سے واپس پلٹا…. گاڑیوں سے بچتے بچاتے وہ بمشکل فٹ پاتھ پر پہنچ سکا….
ابھی وہ اپنی سانسیں بحال کر ہی رہا تھا کہ درخت کی ایک بڑی سی شاخ خوفناک چرچراہٹ کے ساتھ اُس کے سرپر آگری…. اور اُس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا….
٭٭٭٭
حرا سخت پریشان تھی…. ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور عمر کا کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا…. تین دن وہ دفتر نہ آیا تو حرا نے شیراز سے بات کی…. اور اُس کے ساتھ کوٹھی جاپہنچی…. کوٹھی کا چوکیدار غائب تھا اور انیکسی میں تالا پڑا ہوا تھا…. شیراز کے پاس ایکسٹرا چابی تھی چنانچہ اُس نے دروازہ کھول کر اندر کا جائزہ لیا ہر چیز سلیقے اور قرینے سے یوں رکھی ہوئی تھی جیسے کسی نے اُس کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو…. انیکسی سے کوئی بھی ایسی نشانی نہ مل سکی جس سے اندازہ ہوتا کہ عمر پر کیا گزری ہے….
حرا نے عمر کے گائوں بھی فون کیا…. بھٹی چاچا کے گھر کا نمبر اُس کے پاس تھا…. سلام دعا کے بعد چاچا نے پوچھا ’’حرا پتر! …. عمر نے کئی ہفتے ہوگئے فون نہیں کیا…. خیر خیرت نہیں ملی…. اُس کی ماں آج کل اُس کی طرف سے بڑی فکر مند ہے…. ماں ہے نا آخر‘‘….
یہ سننے کے بعد اب اُس کے پاس پوچھنے کے لئے کیا باقی بچا تھا…. اُس نے کہا ’’عمر بالکل خیریت سے ہے…. بس آج کل دفتر میں بہت مصروف ہے…. ماں جی کو سلام کہلوایا…. اور ماں جی سے دعا کے لئے کہا ہے‘‘…. یہ کہہ کر اُس نے بات ختم کردی…. ۔
اُس کا دل بھر آیا تھا…. وہ ٹیلی فون پر سر رکھے دیر تک آنسو بہاتی رہی…. کہ اچانک فون کی بیل بج اُٹھی…. وہ بُری طرح چونک گئی…. فیض انکل کا فون تھا….
’’کیا ہوا بیٹی!…. تم رو رہی ہو‘‘….
’’نہیں انکل‘‘….
’’دیکھو مجھ سے مت چھپائو…. کیا بات ہے؟…. کل تم نے فون کیا تھا…. میں اُس وقت گھر میں نہیں تھا…. سی ایل آئی پر تمہارا نمبر دیکھا تو کل سے فون ملا رہا ہوں…. تمہارا فون مسلسل بزی جارہا ہے…. کیا ہوا خیریت تو ہے؟‘‘….
’’انکل…. عمر غائب ہے…. ایک ہفتہ ہوگیا…. اُس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے…. مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے…. کہیں ایسا تو نہیں‘‘….
’’تم فکر نہ کرو اللہ بہتر کرے گا…. میں آتا ہوں‘‘….۔
بیس پچیس منٹ بعد بیل ہوئی تو حرا اپنے والد کو یہ کہہ کر کہ وہ فیض انکل کے ساتھ کہیں جارہی ہے ایک دو گھنٹہ میں واپس آجائے گی، باہر آگئی…. اور فیض انکل کو کوٹھی کی طرف چلنے کا کہہ کر اُن کی گاڑی میں بیٹھ گئی….کوٹھی وہاں سے زیادہ دور نہ تھی…. پندرہ منٹ بعد وہ دونوں کوٹھی کے سامنے کھڑے تھے…. کوٹھی کی چابی نہیں تھی اس لئے وہ باہر سے ہی اُس کا جائزہ لیتے رہے….
اچانک گیٹ کے پاس فیض انکل ٹھٹک کر رُک گئے…. انہیں فرش پر سیاہ نشان نظر آیا تھا…. یہ ایسا نشان تھا کہ جب کسی کپڑے یا اخبار وغیرہ کو فرش پر جلایا جائے تو پڑجاتا ہے…. وہ جھک کر اُسے دیکھنے لگے…. اُنہوں نے پھونکیں مار کر گرد صاف کی تو وہ نشان مزید واضح ہوگیا…. مزید جھک کر اُنہوں نے اسے سونگھا تو انہیں کچھ بُو سی محسوس ہوئی…. حرا نے بھی جھک کر سونگھا تو فوراً بولی ’’انکل یہ بُو ایسی ہی ہے جیسے گیس ویلڈنگ سے آتی ہے‘‘….۔
’’یہ تم نے ویلڈنگ کب سے شروع کردی‘‘…. انکل مسکراتے ہوئے بولے
’’واقعی انکل!…. آپ مذاق نہ سمجھیں…. یہ بُو گیس ویلڈنگ سے ہی آتی ہے…. ہمارے آفس میں سینٹرل اے سی کی ڈکٹنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت گیس ویلڈنگ کا کام بھی ہوا تھا مجھے اُس کی بو سے ہیومیٹنگ ہونے لگتی تھی…. میں نے صحیح پہچانا ہے یہ اُس کی ہی بُو ہے‘‘….۔
’’لیکن یہاں گیس ویلڈنگ سے کیا کام ہوا ہوگا‘‘…. یہ سوچتے ہوئے انکل کھڑے ہوگئے….
یہ علاقہ سنسان تھا ورنہ ان دونوں کو اس طرح کھوج لگاتے دیکھ کر لوگوں کا رش بھی لگ سکتا تھا….
فیض انکل کی نظریں فرش کے سیاہ نشان پر ہی مسلسل مرکوز تھیں…. حرا کار سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر پانی پی رہی تھی کہ اچانک انکل نے اُسے پکارا ’’حرا…. یہاں دیکھو غور سے…. سیاہ نشان کو…. تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ کچھ الفاظ ہیں‘‘….۔
’’نہیں انکل مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگتا‘‘….۔
’’نہیں…. دوبارہ غور سے دیکھو‘‘…. انکل کے کہنے پر حرا بغور دیکھنے لگی…. اور تھوڑی دیر بعد اُس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا
’’آگیا بتیال!…. یہ تو آگیا بتیال لکھا ہوا ہے…. لیکن اس کا کیا مطلب ہوا‘‘….
’’بھئی تمہیں عمر نے نہیں بتایا تھا کہ نوعِ اجنّہ کے تخریب پسند جنات کا گروہ آگیا بتیال اُسے اغوا کرنے کی کوشش بھی کرچکا ہے…. اور کوٹھی کا چوکیدار عقابل خان اُسے اُن کے چنگل سے چھڑا کر لایا تھا…. اور تم بتارہی ہو کہ عقابل خان بھی غائب ہے‘‘….
’’تو کیا…. اُنہوں نے ہی عمر کو‘‘…. اور یہ کہہ کر حرا رونے لگی….
فیض انکل نے اُسے تسلی دی…. اور اُس سے پوچھا ’’تمہارا دل کیا کہتا ہے…. کیا عمر زندہ ہے؟‘‘….
’’جی انکل…. میرا دل یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ عمر کو کچھ ہوسکتا ہے‘‘….
’’میرا دل بھی یہی کہتا ہے…. تم ہمت سے کام لو…. اللہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا اور ہم عمر کو واپس لے آئیں گے‘‘….
٭٭٭٭
دو تین دن بعد حرا آفس سے نکلی تو اُسے شہلا نے گھیر لیا…. ’’کیا بات ہے یار…. آج کل بڑی چپ چپ رہنے لگی ہو…. ارے ہاں…. عمر کا کچھ پتہ چلا…. شیراز کہہ رہا تھا کہ شاید بیرونِ ملک کہیں اچھی جاب مل گئی ہوگی، اسی لئے اچانک بغیر بتائے چلا گیا‘‘…. شہلا نے رُک کر حرا کے چہرے کو دیکھا اور کوئی تاثرات نہ پائے تو اپنی بات جاری رکھی…. ’’مجھے حیرت ہے کہ تمہیں بھی اُس نے کچھ نہیں بتایا…. شیراز کا تو یہ بھی خیال ہے کہ کسی کروڑ پتی باپ کی لڑکی کو اُس نے پھانس لیا ہوگا…. وہ ہی اُسے لے اُڑی‘‘….
’’شیراز بکواس کرتا ہے…. ایسی کوئی بات نہیں ہے!‘‘….حرا نے سخت لہجے میں جواب دیا
’’تو پھر میری جان آخر کیا بات ہے اور تم مجھے کیوں نہیں بتارہی ہو…. اور تم نے اُس کے غم میں اپنا کیا حال بنالیا ہے‘‘….
یہ دونوں باتیں کرتے ہوئے طارق روڈ پر آگئیں…. شہلا اُسے کھینچتی ہوئے ایک ریسٹورنٹ میں لے گئی…. ’’آؤ یار کچھ کھا پی لیں…. مجھے تو سخت بھوک لگی ہے‘‘….
شہلا نے بہت کوشش کی لیکن حرا یونہی گم سم سی رہی…. ریسٹورنٹ سے دونوں باہر نکلیں تو ایک فقیر اچانک اُن کے سامنے آگیا…. اُس کے ہاتھ میں بڑا سا کشکول تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک لمبا سا عصا جس کے اوپری سرے پر گھنگرو بندھے ہوئے تھے….
فقیر نے صدا لگائی…. ’’بیٹا…. عشق قربانی مانگتا ہے….۔ کیا تو قربانی دے سکے گی‘‘ فقیر کی نگاہیں حرا پر مرکوز تھیں….
’’کیسی قربانی؟‘‘…. حرا نے پوچھا
’’آگ میں اُترنا پڑے گا…. اُترے گی‘‘….
(جاری ہے)

 

 

یہ بھی دیکھیں

کشورِ ظلمات ۔ قسط 10

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….     ...

پارس ۔ قسط 5

پانچویں قسط :   ننھی پارس جھولے میں لیٹی   جھنجنے کو اپنے ننھے منے ہاتھوں ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *