Notice: Функция WP_Scripts::localize вызвана неправильно. Параметр $l10n должен быть массивом. Для передачи произвольных данных в скрипты используйте функцию wp_add_inline_script(). Дополнительную информацию можно найти на странице «Отладка в WordPress». (Это сообщение было добавлено в версии 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
امیرالمومنین خلیفۂ دوم عمر فاروقؓ — روحانی ڈائجسٹ
Вторник , 4 ноября 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

امیرالمومنین خلیفۂ دوم عمر فاروقؓ

اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے کئی رُکاوٹوں، مشکلات اور مصائب کا سامنا رہا۔ نبوت کے ابتدائی برسوں میں مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مکہ میں آباد مختلف قبائل کے سردار اور دیگر بارسوخ افراد  مسلمانوں پر بہت سختیاں کرتے تھے۔  ان دنوں میں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے دعا فرمائی یا اللہ تو عمر سے اسلام کو تقویت عطا فرما۔  

حضرت عمر ؓ  کو شہسواری میں بہت زیادہ مہارت حاصل تھی، اسی زمانے میں لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ قریش میں صرف سترہ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضرت عمر ؓ ان میں ممتا زتھے۔ عبرانی بھی جانتے تھے ان فنون سے فراغت کے بعد انہوں نے تجارت کو ذریعہ معاش بنایا۔ ان کی تجربہ کاری اور غیر معمولی علمیت وفراست کی وجہ سے قریش نے سفارت کا عہدہ ان کو تفویض کردیا۔ 

حضرت عمرؓبن خطاب کی زندگی کا ستّائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتابِ رسالت طلوع ہوا اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔  

عمرؓ کے گھرانے میں سب سے پہلے سعیدؓ بن زید اسلام لائے۔ سعیدؓ  کا نکاح آپؓ کی بہن فاطمہ ؓ سے ہوا تھا اور وہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت عمرؓ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ اس دور  میں حضرت عمر ؓ کا شمار  پیغمبر اسلام کے سخت مخالفین میں ہوتا تھا۔

    ایک روز عمر حضرت محمدﷺ کو شہید کردینے کے ارادے سے گھر سے نکلے۔  راستے میں کسی نے کہا کہ  پہلے اپنے خاندان کی خبر تو لو ، تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں۔ یہ سن کر عمرؓ شدید غصے کے عالم میں اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں انہیں بہن نے قرآن کی چند آیات پڑھنے کے لیے دیں، ان آیات کو پڑھتے ہی حضرت عمرؓ کے دل کی دنیا بدل گئی اور اپنی بہن کے گھر سے نکل  کر سیدھے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ انہیں دین اسلام میں شمولیت  کا شرف عطا کیا  جائے۔ یہ سن 616 عیسوی کا واقعہ ہے۔ 

حضرت عمرؓ کے ایمان لانے پر اسلام کی تاریخ کا نیا دور شرو ع ہوا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کی جماعت ساتھ لے کر کعبے میں اعلانیہ نماز ادا کی اور کسی کو مزاحمت کی جرأت نہ ہوئی۔   

پہلی صدی ہجری بمطابق622ء سے حضورپاکﷺ کے وصال تک پیغمبرِ اسلام رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جومعرکے پیش آئے، غیر قوموں سے جو معاہدات ہوئے، وقتاً فوقتاً جو انتظامات واحکامات جاری کیے گئے، اشاعتِ اسلام کے لیے جو تدبیریں اختیار کی گئیں، اُن میں سے شاید ایک واقعہ بھی ایسا نہ ہو جو حضرت عمرؓ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو۔ 

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق کے انتقال کے بعد حضرت عمر ؓ کو خلافت کی ذمہ داری ملی ۔

حضرت عمرِ فاروق  ؓ کے عہدِ خلافت میں اسلامی ریاست کی حدود کا رقبہ تقریباًساڑھے بائیس لاکھ مربّع میل وسیع ہوگیاتھا۔اس رقبے کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا رقبہ 3 لاکھ مربع میل ہے۔ ان میں شام، مصر، عراق ، جزیرہ، خوزستان ، عراقِ عجم، آرمینیا، آذربائیجان، فارس ، کرمان، خراسان اور مکرانشامل تھے۔ 

حضرت عمرؓ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے ایک ایسی فلاحی  حکومت کی بنیاد ڈالی جس کا اصل اصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا۔ 

 حضرت عمر کا دور اُمت مسلمہ اور اسلامی ریاست کے لیے ایک سنہری دور کہلاتا ہے۔ دنیا میں کسی حکمران نے اپنی مملکت اور رعایا کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام نہیں دیے جو چشم فلک نے حضرت عمر کے ذریعے مشاہدہ کیے۔ دورِ فاروقی  مملکت میں انصاف، خوشحالی، ترقی اور ریاست اسلامی میں شاندار توسیع کا دور تھا۔ 

حضرت عمرؓ کی حکومت میں لوگ اعلانیہ اپنے حقوق کا اظہار کرتے ۔ حضرت عمرؓ خود کو عام آدمیوں کے برابر سمجھتے اور کسی قانون سے مستثنیٰ نہ تھے۔  ایک موقع پر تقریر میں فرمایا ‘‘صاحبو! مجھ پر تم لوگوں کے کئی حقوق ہیں جن کا تمہیں مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے۔ آپ خیال رکھیں کہ میں خراج اور مالِ غنیمت بے جا طور پر جمع نہ کروں، میرے ہاتھ سے خراج اور مالِ غنیمت بے جا طور پر صرف نہ ہونے پائیں۔ پھر یہ کہ میں تمہارے وظیفے بڑھاؤں، سرحدوں کو محفوظ رکھّوں اور تمہیں خطرات میں نہ ڈالوں ’’۔ 

کسی حکومت کے عدل ومساوات کو جانچنے کا ایک بڑ ا معیار یہ ہے کہ ملک میں آباد اقلیتوں کے ساتھ اس کا طرز ِ عمل کیاہے، اس معیار سے عہدِفاروقی عدل و مساوات کا ایک بے مثال نمونہ تھا….

کسی قوم کے حقوق تین چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں ، جان ، مال اور مذہب ۔ دیگر حقوق اِنہی کے تحت آتے ہیں ۔ حضرت عمرؓ نے تمام مفتوحہ قوموں کے یہ  تین بنیادی حقوق عطا کیے۔ 

اس اقتدار و اختیار کے باوجود جو حضرت عمر ؓ  کو حاصل تھا، انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رائے عامہ کے ترجمانوں اور نمائندوں سے مشورہ لیے بغیر قدم نہیں اٹھایا۔  اسلام کا نظامِ حکومت شوریٰ پر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اسی بنیاد پر خلافت اسلامیہ کو قائم کیا ۔ اس نظام میں کوئی اہم کام بغیر اہل الرائے صحابہ کے مشورے کے انجام نہ پاتا تھا ۔ 

روزانہ کے پیش آنے والے مسائل کے فیصلے کے لیے اہل الرائے صحابہ کی مجلس شوریٰ تھی ، اس کے ممتاز ارکان میں  حضرت علی ؓ، ابن ابی طالب، حضرت عبدالرحمن ؓ بن عو ف ، حضرت معاذ  ؓ بن جبل ، حضرت ابی ؓ بن کعب، حضرت زید ؓ بن ثابت شامل تھے۔ اس کے علاوہ مہمات کے امور کے لیے ممتاز مہاجرین و انصار کی مجلس ہوتی تھی ، ہر مسلمان کو آزادیِ رائے اورحکومت پر نکتہ چینی کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔عام مسلمان برسرِ عام حضرت عمر ؓ کو ٹوک دیا کرتے تھے اور سوال و جواب کرتے تھے ۔ 

حضرت عمرنے اپنی حیثیت صرف ایک متولی اور شیرازہ بند کی رکھی تھی ۔ اور اس کو عملاً مختلف مواقع پر واضح کیا ۔ ایک موقعے پر فرمایا ، ’’ تمہارے مال میں مجھ کو صرف اسی قدر حق ہے جس قدر ایک یتیم کے مال کے متولی کا ہوتاہے ۔  

  حضرت عمر ؓ بیت المال یعنی خزانۂ حکومت کو اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھتے تھے، ایک ایک پائی کا حساب رکھتے تھے ۔ اور ایک ایک پائی صرف ضروریات ِمسلمین پر خرچ کرتے تھے ۔ نہ اس خطیر رقم سے انہوں نے اپنے لیے سامان عیش وراحت فراہم کیا اور نہ کسی اور کو اس کی اجازت دی ۔ بلکہ اگر کسی کو عیش و تنعم کی زندگی بسر کرتے دیکھا تو سخت باز پرُس کی اور بعض مواقع پر منصب سے بھی معزول کر دیا۔ 

اسلامی تاریخ میں حضرت عمرؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے 20ھ میں مکہ ، مدینہ، شام ، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر اور فلسطین ، آٹھ صوبوں میں تقسیم کیے۔ پھر فتوحات کے ساتھ ساتھ فارس ، خوزستان ، کرمان وغیرہ مزید صوبے قائم ہوئے۔  ہر صوبوں میں   حاکمِ صوبہ(گورنر)، کاتب یعنی میر منشی، کاتبِ دیوان یعنی دفترِ فوج کا میر منشی، صاحب الخراج یعنی کلکٹر، صاحبِ حداث یعنی افسرِ پولیس، صاحبِ بیت المال یعنی افسرِ خزانہ قاضی یعنی جج مقرر کیے ۔  باوجود یہ کہ  اُس وقت عرب کا تمدّن ابتدائی حالت میں تھا اور سلسلۂ حکومت کے آغاز کو چند ہی برس گزرے تھے، تاہم حضرت عمر ؓنے بہت سے جداگانہ محکمے قائم کیے اور ایسی اصطلاحات نافذ کیں جو آج تک فلاحی ریاست کے بنیادی ستون قرار دی جاتی ہیں۔ 

اُنہوں نے مملکت کے طول عرض میں نہریں بنانے، بند باندھنے اور تالاب تیار کرانے کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا۔ محکمۂ قضا(عدالتی نظام) بھی حضرت عمرؓ کی بدولت وجود میں آیا۔  آپؓ نے باقاعدہ محکمۂ پولیس اور جیل خانے قائم کیے۔  فوجی قلعے اور بارکیں تعمیر کرائیں۔ فوجی دفتر ترتیب دیا اور رضاکار سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ دفترِمال قائم کیا اور مردم شماری کرائی۔  مسافروں کے لیے مکانات بنوائے اور مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ آپ نے بے آسرا بچوں ، مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے اور معلمّوں اور مدرسّوں کے مشاہرے مقرر کیے۔

امیرالمومنین خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ نے خود اپنے لئے کوئی دربار بنایا تھا نہ ہی غلام گردشوں سے آراستہ محلات تعمیر کروائے۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؓ اپنے اور لوگوں کے درمیان کوئی فاصلہ رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ کسی کو کوئی حاجت ہو یا فریاد کرنی ہو تو حضرت عمر ؓ کے دروازے اسے ہمیشہ کھلے ملتے۔  

حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم کے اس جلیل القدر صحابی  پر ایک روز دوران نماز ابولولو نامی شخص نے  حملہ کردیا۔  تین دن زخمی حالت میں رہ کر آپ نے یکم محرم الحرام 24ھ کو 63سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ  تعالی عنہ کی تدفین حضرت عائشہ کے ہجرے میں رسول اللہ  صلی اللہ  علی وسلم اور حضرت ابوبکرصدیق  ؓ کے پہلو میں ہوئی۔ 

یہ بھی دیکھیں

تسلیم و رضا اور سُنتِ ابراہیمی کی پیروی کا عظیم دِن عید الاضحٰی

’’عید الاضحی ‘‘ کی آمد کے ساتھ ہی کئی یادیں ، جذبے اور ولولے تازہ …

ریفلیکسولوجی — 4

ستمبر 2019ء —  قسط نمبر 4 پچھلے باب میں ہم نے انسانی جسم کے برقی …

Добавить комментарий