Notice: Функция WP_Scripts::localize вызвана неправильно. Параметр $l10n должен быть массивом. Для передачи произвольных данных в скрипты используйте функцию wp_add_inline_script(). Дополнительную информацию можно найти на странице «Отладка в WordPress». (Это сообщение было добавлено в версии 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
پرورش ۔ اپنے بچوں کو پُراعتماد بنائیے…. 7 — روحانی ڈائجسٹ
Понедельник , 8 декабря 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

پرورش ۔ اپنے بچوں کو پُراعتماد بنائیے…. 7

محمد زبیر ، وجیہہ زبیر


 محمد زبیر گزشتہ بیس برس سے زندگی بہتر انداز میں گزارنے کے موضوع پر تدریس اور تربیتی پروگرامز منعقد کررہے ہیں۔ اپنے پروگرامز، مضامین اور کتابوں کی وجہ سے وہ کتنے ہی لوگوں کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’شکریہ‘‘ بہت مقبول ہوئی، جس میں انہوں نے کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے کے فارمولوں، زندگی میں صحت،محبت ، دولت اور خوشیوں کو پانے، اپنے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل کے ساتھ خدا کی رضا کے حصول کی جانب راہنمائی کی تھی ۔
ان تربیتی پروگرامز کے دوران انہیں احساس ہوا کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بچوں کی اچھی اور بامقصد تربیت ہے، بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ، اس لیے والدین کو ابتداء سے ہی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سوچ کے تحت انہوں نے متعدد اسکولوں اور اداروں میں بچوں کی تربیت کے موضوع پر والدین کیلئے ٹریننگ پروگرامز منعقدکرنا شروع کردئے۔
‘‘پرورش’’کے عنوان سے اس سلسلۂ مضامین کا مقصد یہی ہے کہ والدین کو یہ آگاہی فراہم کی جائے کہ بچوں کی پرورش اس طرح کی جائے کہ ذہنی و جسمانی نشوونما کے ساتھ ان کی شخصیت کی بھی تعمیر ہو اور وہ ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

  

قسط نمبر 7

 

 

چھٹا باب : دوسرا  اصول 

بچوں کے لیے وقت نکالیں

ایک مرتبہ ایک اسٹوڈنٹ عمر،مجھ سے ملاقات کے لئے آیا۔وہ پریشان اور رنجیدہ تھا۔ پندرہ سولہ سالہ بچہ کے چہرے پر فکر کے نشانات دیکھ کر مجھے تشویش لاحق ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے ایک سوال کیا:
‘‘سر، اللہ تعالیٰ نے سب کو امیر کیوں نہیں بنایا؟ اگر سب کو برابردولت دے دیتا تو کون سا اس کے خزانوں میں کمی آجاتی…؟’’
میں ساری بات سمجھ گیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ آج پھر اس کے والدین کے درمیان پیسوں کی وجہ سے جھگڑا ہوا ہے۔
میں نے سکون سے اس کی بات سنی اور پھر کہا:
‘‘ دیکھو بیٹا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک دولت کم یا زیادہ ہونا اہم بات نہیں تھی اس لئے کسی کو کم دی، کسی کو زیادہ۔ اللہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا۔ اللہ کے لئے زیادہ یا کم خوبصورت ہونا بھی اہم نہیں تھا۔ اسی طرح دیگر چیزوں کی بھی اہمیت کچھ ایسی ہی تھی۔ ’’
وہ غور سے میری بات سن رہا تھا۔ میں نے مزید کہا:
‘‘اللہ کیلئے اہم تر شے ‘‘وقت’’ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہرروز دنیا کے ہر فرد کو چوبیس گھنٹے بلا تفریق عطا کرتاہے۔ اب انسان ان چوبیس گھنٹوں کا درست استعمال کرکے چاہے تو شاندار زندگی گزارے، چاہے تو برباد کرکے رکھ دے۔‘‘
وہ آہستہ آہستہ نارمل ہوگیا۔ چہرے پر اطمینان اور اعتماد ظاہر ہونے لگا۔ چلتے وقت مجھ سے کہنے لگا، ‘‘سر، میں وقت کو اپنے حق میں استعمال کروں گا، خلاف نہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔’’ اس واقعہ کوبارہ برس سے گزرچکے ہیں ،وہ لڑکا کیرئر کائونسلنگ میں گریجویشن کر چکا ہے اور پورے پاکستان میں اسٹوڈنٹس کوٹریننگ کرواتا ہے۔ 

سب سے بڑی ناشکری

میرا ذاتی نظریہ ہے کہ انسان سب سے بڑی ناشکری جس شے کی کرتاہے وہ ‘‘وقت’’ ہے۔ وقت اللہ تعالی کا عظیم ترین تحفہ ہے ۔ اسے فضول اور کم اہم کاموں میں صرف کرکے انسان نہ صرف اپنے بےوقوف ہونے کا ثبوت دیتا ہے بلکہ کفرانِ نعمت کا بھی مرتکب ہوتاہے۔ اِس سے زیادہ بے وقوفی کیا ہوگی کہ اتنا قیمتی سرمایہ معمولی کاموں میں استعمال کیا جائے۔
وقت کے معاملے میں ہماری اکثریت لاپرواہی کی مرتکب ہوئی ہے۔ آپ چاہے پرائمری اسکول کے بچے سے بات کریں یاکسی ریٹائرڈ شخص سے پوچھیں، کسی عزیز سے ملاقات نہ کرنے کا شکوہ کریں یا کسی کے ذمہ کوئی کام لگا کر دیکھ لیں، ایک جملہ تواتر سے سنیں گے، ‘‘ وقت نہیں ملا۔’’
لوگ زندگی کے قیمتی برس فضول ٹی وی ٹاک شوز اور سازشی ڈرامہ سیریلز دیکھنے میں برباد کردیتے ہیں مگر کچھ ایسا پڑھنے، سیکھنے یا کرنے میں استعمال نہیں کرتے جس کی بدولت ان کی اور ان سے وابستہ لوگوں کی زندگی میں خوش حالی آجائے۔ ہماری اکثریت سوشل میڈیا یا دوستی کے نام پر ہر روز دو دو، چار چار گھنٹوں کی صورت میں کئی کئی سال گنوادیتی ہے ، مگر ان کے پاس اپنے بچوں اور بڑوں کو دینے کے لئے دن میں ایک گھنٹہ نہیں ہوتا۔
یقین کریں، ہمارے ساتھ وقت کی قلت کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ترجیحات طے کرنے کا ہے۔ جب انسان کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں تو وقت خود بخود نکل آتا ہے۔
میں سن 2002 میں ایک اسکول کا پرنسپل تھا۔ اسکول صبح پونے آٹھ بچے شروع ہوتا تھا۔ میں وقت کی پابندی کے معاملے میں بالکل بھی نرمی نہیں برتتا تھا۔ ایک بچی اکثر دیر سے آتی اور اس کی والدہ انتظامیہ کے سامنے جواب دہ ہوتیں۔
ایک مرتبہ اس کی والدہ مجھ سے درخواست کرنے آئیں کہ اسے دس منٹ دیر سے آنے کی مہلت دی جائے کیوں کہ انہیں دور سے آنا پڑتا ہے۔ میں نے اس بچی کی والدہ کو خوش خبری سنائی کہ موسم کی تبدیلی کے باعث اگلے ہفتے سے اسکول پونے آٹھ بجے کے بجائے ٹھیک آٹھ بجے لگے گا۔ وہ خاتون خوشی خوشی چلی گئیں۔
اگلے ہفتے سے ان کی بچی آٹھ بج کر دس منٹ پرآنے لگی۔

وقت کے درست استعمال کا نتیجہ

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کے متعلق سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کس طرح اپنے وقت کا درست استعمال کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیلتے بھی تھے، ان کی تربیت بھی کرتے تھے۔ اپنی ازواجِ مطہرات کو وقت دینے میں بھی ہمیشہ عدل کا مظاہرہ فرماتے اور خادموں کے حقوق سے بھی کبھی غافل نہیں ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تجارت بھی کی اور جنگیں بھی لڑیں۔ مسجد کے انتظامات بھی کیے اور رہن سہن کے طور طریقے بھی بخوبی سمجھادیے۔ ہزاروں جانثاروں کے لاکھوں مسائل بھی حل کئے اور منافقوں سے بھی غافل نہیں ہوئے۔ بیٹی کی پرورش انتہائی اعلیٰ انداز میں کی۔چاہے بات حقوق اللہ کی ہو یا حقوق العباد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں کہا‘‘وقت نہیں ملا۔’’
ہمیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سنت پر عمل کرنا چاہئے کہ ایک لمحہ بھی فضول گفتگو اور غیرضروری کاموں میں صرف نہ کیا جائے اور ہر کام پوری توجہ سے ، شعوری طور پر کیا جائے۔ ہم اس سنت پر عمل کرنے کی کو شش تو کر سکتے ہیں۔ لہذا فرض ادا کریں تو پوری تندہی سے کریں اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھیں تو مکمل طور پر ان کے ساتھ بیٹھیں، اس طرح استعمال کیا گیا وقت آپ کی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کا سبب بنے گا اور آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ آپ کے تعلق کو مضبوط بنانے کا بھی ذریعہ ہوگا۔

بچوں کو وقت نہ دینے کی قیمت

دنیا بھر میں اس موضوع پر بے شمار تحقیقات ہوچکی ہیں کہ جو بچے ماں باپ کی غیر موجودگی میں گھر میں اکیلے رہتے ہیںیا جن کے ماں باپ ملازمت کی وجہ سے بچوں کو ڈے کیئر یا گھر میں اکیلے چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، وہ بچے طرح طرح کی نفسیاتی الجھنوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے بچوں میں غصہ، چڑچڑاپن، پڑھائی میں عدم توجہ ، جسمانی اور دماغی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
امریکہ میں بچوں کی اموات کی تیسری بڑی وجہ خودکشی ہے…. تیسری بڑی وجہ! کہنے میں کتنا آسان لگ رہا ہے نا!
یہ وہ بچے ہیں جو خودکشی کرکے مرجاتے ہیں، کئی گنا زیادہ وہ بچے ہیں جنہیں مرنے سے بچا لیا جاتاہے۔ آپ اُس سوسائٹی کے کرب کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں جہاں بچے خود کشیاں کرنا شروع کردیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے….؟

اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار ٹی وی یا موبائل فون کا استعمال ہے۔ جب والدین گھر میں موجود نہیں ہوتے تو بچے بیشتر وقت ٹی وی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ چونکہ کوئی نظر رکھنے والا نہیں ہوتا اس لئے پرتشدد اور فحش موادباآسانی ان کی توجہ حاصل کرلیتاہے۔ اس کا تعلق مشرق یا مغرب سے نہیں ہے یہ مسائل دنیا بھر کے بچوں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی صورت حال اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ غیر اخلاقی مواد دیکھنے والے ممالک میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔ اس میں بچے بڑے ، سب شامل ہیں۔
اگر کسی بچے کو سائنس کے کارناموں پر مشتمل کتابیں دی جائیں، سائنسی پروگراموں میں لے کر جایا جائے یا سائنسی کارناموں کی دلچسپ ویڈیوز بار بار دکھائی جاتی رہیں تو کچھ ہی عرصہ بعد وہ اپنی مرضی اور خوشی سے سائنس میں دلچسپی بھی لے گا اورسائنس کے متعلق نئی نئی معلومات فراہم کرکے فخربھی محسوس کرے گا۔
اگر کسی بچے کو ریاضی کے کھیلوں کی ویڈیوز اور گیمز کچھ عرصہ تک دکھائے جاتے رہیں تو بہت جلد نا صرف اس کی ذہانت میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ درجنوں گیمز کی ایپلیکیشنز ڈھونڈ ڈھونڈ کر آپ کے سامنے رکھ دے گا۔ بالکل اسی طرح جو بچے فحش یا غیر اخلاقی مواد کے عادی ہو جائیں، ان کی ساری زندگی اس سے جان نہیں چھوٹتی۔ایسے بچوں اور بچیوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ ان مسائل کا شکار بچے اتنے محتاط اور ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ والدین کو بھنک بھی نہیں پڑنے دیتے۔اور پھر آہستہ آہستہ وہ غلط لوگوں کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں۔آپ کسی بھی ماہرِ نفسیات یا گائناکالوجسٹ سے اس موضوع پربات چیت کر کے دیکھ لیں، روح تک کانپ اٹھے گی۔
جو بچہ سائنسی پروگرام دیکھے گا، وہ کوشش کرے گا کہ اس کے پاس سائنسی تجربات سے متعلق سازوسامان موجود ہو اور اس کا سارا تجسس اسی قسم کے مشاغل میں ہوگا۔ اسی طرح جو بچہ پرتشدد مواد دیکھے گا، وہ یا تو خود غصہ، خوف اور مار پیٹ کے ذریعے دوسروں کو کنٹرول کرے گا یا پھر ایسے ہی لوگوں سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر ایسے لوگوں سے تعلقات قائم کرنے میں ناکام ہوجائے تو ڈر ڈر کے زندگی گزارے گا۔ غرض جو جس طرح کے پروگرامز اور ویڈیوز دیکھتاہے اس میں اسی طرح کے کاموں کا تجسس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور جس کام میں تجسس پیدا ہوجائے، بچہ اس میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتاہے۔
جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نہیں گزارتے، وہ انہیں سمجھنے کے قابل نہیں رہتے۔
بچوں کو وقت نہ دے کر ہم کتنا بڑا نقصان کر سکتے ہیں اس کا اندازہ انڈیا کے نیشنل کرائم بیورو کی 2016 کی رپورٹ سے کر سکتے ہیں جس کے مطابق انڈیا میں ہر گھنٹے ایک اسٹوڈنٹ خودکشی کر تاہے۔ غور کریں، انسان کی سب سے بڑی دولت، اس کی تھوڑی سی لاپرواہی کی وجہ سے اس سے اس طرح چھن جاتی ہے کہ واپسی کی امید نہیں رہتی۔
انفولڈ انڈیا (Enfold India) ایک مشہور این جی او ہے ۔اس این جی او کی فائونڈر، شیبیاسلداہنا (Shaibya Saldanha)کہتی ہیں کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پڑھائی کا دبائو یا امتحان میں ناکامی ان خودکشیوں کی وجہ ہے جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ وہ بچے جو خوش رہنے والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ، ان میں خودکشی کا رجحان عام طور پر نہیں پایا جاتا۔ خود کشی کی ہی ان گھرانوں میں جا رہی ہے جہاں کے باسی خوش نہیں رہتے یا جہاں آپس میں تعلقات خوش گوار نہیں ہیں۔
انڈیا کے شہربینگلورکو انڈیا کامستقبل کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کے 50 فیصد سے زیادہ افراد ڈپریشن کے مریض ہیں۔ ڈپریشن ہونا معمولی بات نہیں ہے، انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں سب سے زیادہ خودکشی اور سب سے زیادہ طلاقیں بھی وہیں ہو رہی ہیں۔

کامیابی کا آسان راستہ

کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ کیوں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کچھ خراب؟
کچھ لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں اور کچھ کم؟
کچھ لوگوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور کچھ کو کم؟
کچھ لوگوں کا خود پر زیادہ کنٹرول ہوتا ہے اور کچھ کا کم؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
آج دنیا بھر میں انسانی نفسیات کے ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی شعبہ میں کامیابی کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان وقت صرف کریں جو اس شعبہ میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
اگر آپ ان لوگوں کے درمیان وقت گزارتے ہیں جو مطالعہ کے شوقین ہیں تو اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ آپ بھی کتابیں پڑھنے لگیں۔اگر آپ کے ارد گرد لوگ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کے عادی ہیں توآہستہ آہستہ آپ میں بھی یہ برائی پیدا ہوجائے گی۔اگر آپ کے ساتھ کام کرنے والے بدتمیزی اور غصہ سے مسائل حل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں تو آپ میں بھی یہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں۔

اپنے بچے کا بھلا چاہتے ہیں تو اسے وقت نہ دیں

اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ اپنے بچوں کے دوست ہیں یادشمن۔ اگر آپ غصہ، اداسی، مایوسی، خوف اور سستی کاہلی میں رہتے ہیں تو اپنے بچوں میں جتنا زیادہ وقت گزاریں گے، انہیں بھی اپنی طرح بنا لیں گے۔خود کو بدلیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو دونوں صورتوں میں اپنی اولاد کا نقصان کریں گے: انہیں وقت دے کر بھی اور نہ دے کر بھی۔ شاید وقت دینا، نہ دینے سے بڑے طوفان کا سبب بنے ۔

خود کو کس طرح بدلا جائے 

گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو بدلنے کیلئے خود سے کچھ سوالات کریں۔وہ سوالات جو زندگی میں مثبت تبدیلی پیدا کرسکیں، وہ سوالات جوآپ کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکیں، وہ سوالات جو آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کی زندگی میں خوشیاں بھر سکیں۔
وہ سوالات کیا ہوسکتے ہیں….؟ یہاں تین سوالات بتائے جارہے ہیں، صرف ان پر ہی اچھی طرح غور کر لیا جائے تو خوشحال خاندان کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔

1 ۔ میں کن لوگوں کے درمیان رہتا ہوں؟

غور کریں کہ آپ کن لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ کن لوگوں کو پسند اور کن کو ناپسند ۔ کن لوگوں کے متعلق سوچتے اور کن لوگوں کے متعلق بات کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ آپ ذہنی اور جسمانی طور پر کن لوگوں میں رہتے ہیں۔

2۔ ان لوگوں کی صحبت مجھ پر کس طرح اثرانداز ہو رہی ہے؟

یہ اہم تر سوال ہے۔ سوچیں
یہ لوگ مجھ سے کیا کروارہے ہیں؟
یہ لوگ مجھ سے کیا پڑھوا رہے ہیں؟
یہ لوگ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟
یہ لوگ مجھ سے کیا بلوا رہے ہیں؟
یہ لوگ مجھے کیا سنا رہے ہیں؟
یہ لوگ مجھے کیا سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں؟
سنجیدگی سے سوچئے کہ جن لوگوں کے درمیان آپ وقت گزار رہے ہیں وہ آپ پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں….؟ مثبت اندازمیں اور منفی انداز میں۔

 3۔کیا ان لوگوں میں رہنا درست فیصلہ ہے؟

اس بات کا قوی امکان ہے کہ جن لوگوں میں آپ وقت گزارتے ہیں، ان میں کچھ منفی ذہنیت کے حامل ہیں اور کچھ مثبت۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کبھی مثبت ہو جاتا ہے اور کبھی منفی۔

 

اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہئے؟

سب سے پہلے تو آپ کو واضح طور پر یہ معلوم کرلینا چاہئے کہ کس شخص کا آپ پر کتنا اثر پڑ رہا ہے۔ اس سوال کی اہمیت نظر انداز مت کیجئے کیونکہ آپ اور آپ کے پورے خاندان کا مستقبل اس ایک فیصلے پر ہے۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان جن دوستوں کے ساتھ رہتا ہے ان کا رنگ ڈھنگ اختیار کر لیتا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کسی شخص کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا ہے تو مجھے اسکے دوستوں کے بارے میں بتائیں وہ کیسے ہیں۔ میں آپ کو بتادوں گا کہ وہ شخص کیسا ہے۔
لہٰذا سکون سے سوچئے کہ آپ جن لوگوں میں وقت صرف کرتے ہیں، ان میں غیبت کرنے یا غیبت سننے کی عادت تو نہیں ہے۔
سوچئے کہ وہ اپنی برائیوں اور گناہوں پر فخر تو نہیں کرتے۔
دیکھئے وہ مطالعہ کرنے، درگزر سے کام لینے اور خوش رہنے کے عادی ہیں یا نہیں۔
غور کرنے کے بعد آپ کے سامنے منفی لوگوں میں دو طرح کے لوگ آئیں گے:
1۔جن کے ساتھ روابط ختم کئے جا سکتے ہیں
2۔ جن کے ساتھ رہے بغیر چارہ نہیں
ہوسکتا ہے کہ آپ کے شریک حیات کی سوچ منفی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اعلیٰ افسران یا ساتھ کام کرنے والے شدید منفی سوچ کے مالک ہوں اورآپ کے لئے ملازمت چھوڑنا ممکن بھی نہ ہو۔ہوسکتا ہے آپ کے والدین غصہ، شکوہ شکایت اور ناامیدی کی باتوں کے علاوہ کچھ نہ کرتے ہوں۔ہوسکتاہے کہ آپ کے بچے آپ کی عزت نہ کرتے ہوں، آپ سے بات کرنا پسند نہ کرتے ہوں۔
کچھ بھی ممکن ہے۔ اگر ناممکن ہے تو اِن سے کنارہ کشی اختیار کرنا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

1۔رابطے محدود کرلیں

جن لوگوں سے رابطہ ختم نہیں کیا جاسکتا جیسے شریکِ حیات، والدین ، افسر وغیرہ ان سے رابطے محدود کرلیں۔ یعنی ان لوگوں کے درمیان بیٹھ کر سنیں زیادہ، بولیں کم۔ مسکرائیں زیادہ، جلیں کڑھیں کم۔ پرسکون رہیں زیادہ، پریشان ہوں کم۔
ان لوگوں سے اس طرح کے سوالات کریں کہ آپ کو مثبت جوابات ملیں۔اس کے لئے تھوڑی کوشش کرنی پڑے گی، مگر کچھ عرصہ میں آپ کو مثبت جواب ملنے والے سوالات کی عادت ہو جائے گی۔

2۔ رابطہ مکمل طور پر منقطع کر لیا جائے

  وہ تمام دوست، رشتہ دار یا کولیگ جن کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا ممکن ہے ، ان سے رابطہ منقطع کرلیں۔ میں آپ کو قطع تعلق کا نہیں کہہ رہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ان تمام لوگوں سے رابطہ منقطع کرلیں جو آپ کی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر رہے ہیں۔ لیکن یہ طرزِ عمل ہمیشہ کے لئے نہیں، کچھ عرصہ کے لئے ہے۔

3۔ رابطے بڑھالیں

 اہم ترین کام یہ ہے کہ ان لوگوں سے زیادہ ملاقات کریں جو دل خوش کرنے والی، سمجھانے والی اور مثبت سوچ والی باتیں کرتے ہیں۔ساتھ ہی ان لوگوں کو تلاش کریں جو کامیاب اور پرسکون زندگی کی نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ ایسی زندگی گزار بھی رہے ہیں۔ اب یہ کام مشکل نہیں رہا۔ سوشل میڈیا یا کتابوں کے ذریعے ایسے لوگوں کے درمیان رہناممکن ہے ۔ ایسے لوگوں سے سوال کریں کہ ان کی خوشحال زندگی کا کیا راز ہے۔
میرا تجربہ رہا ہے کہ ایسے لوگوں کی ہمارے معاشرے میں کمی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوسکرتے ہیں۔
ویسے تو یہ دلچسپ کام زندگی بھر کرنا ہے لیکن اس طرح کے لوگوں کے درمیان کم از کم ایک ماہ گزارنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب آپ منفی سوچ رکھنے والوں کے درمیان جائیں گے تو وہ آپ پر اثر انداز نہیں ہونگے بلکہ آپ ان کی زندگی میں محبت اور سکون بھر دیں گے۔
اس اصول پر عمل کرنے کے چند ماہ بعد آپ وقتا فوقتا ان لوگوں سے بھی مل سکتے ہیں جن سے رابطہ مکمل طور پر منقطع کر دیا تھا۔ اب آپ ان کے اثرات قبول کرنے کے بجائے ، ان پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔
اگر یہ کام کرلیتے ہیں تو بچوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کیلئے ذہنی سکون اور خوشحالی کا باعث ہوگا۔

 

 


[نوٹ:
بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارا جائے، اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو آئندہ باب ‘‘قلتِ وقت کی شکار دنیا’’ میں کی جائے گی۔]

سوال نامہ

کیا آپ کا بچہ آپ میں دلچسپی لیتا ہے؟

آپ کا بچہ آپ کو کتنا جانتاہے؟ ….
اس کوئز کے نتیجے میں آپ یہ جاننے کے قابل ہوں گے کہ آپ کا بچہ آپ میں کتنی دلچسپی لیتا ہے یا آپ نے اپنے بچے کو خود سے کتنا قریب کیا ہے؟ ایک ایک جواب سے خوب لطف اندوز ہوں۔ اپنے بچوں سے پوچھیں:

1۔ آپ کی والدہ اور والد کہاں پیدا ہوئے؟
2۔ والدین کی تاریخِ پیدائش کیا ہے؟
3۔ بچوں سے پوچھیں کہ ان کے دادا دادی، نانا نانی کے کیا نام ہیں؟
4۔ ان کے والدین کی آنکھوں کا رنگ کیسا ہے؟
5۔ بچپن میں انہیں پیار سے کیا کہہ کر بلاتے تھے؟
6۔ ان کے اسکول کا کیا نام تھا؟
7۔ جب وہ چھوٹے تھے تو بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے تھے؟
8۔ ان کے پہلے پالتو جانور کا کیا نام تھا؟
9۔ انہیں کونسا موسم پسند ہے، سردی یا گرمی؟
10۔ ان کے من پسند اور سب سے کم پسند کھانے کون سے ہیں؟
11۔ ان کی پسندیدہ کتابیں یا ٹی وی پروگرام کون سے ہیں؟
12۔ انہوں نے پہلی ملازمت کون سی کی؟
13۔ اگر وہ اداس ہوں تو کس بات سے خوش ہوجاتے ہیں، کس بات سے اداسی دور ہو جاتی ہے؟
14۔ وہ کس نمبر کے جوتے پہنتے ہیں؟
15۔ ان کی پسندیدہ شخصیت کون ہے؟
16۔ ان کے بچپن کے بہترین دوست کا کیا نام ہے؟
17۔ انہیں اسکول میں کون سے مضامین پسند تھے؟
18۔ ان کا آئسکریم میں پسندیدہ فلیور کون سا ہے؟
19۔ وہ سفر کے لئے کس ملک جانا چاہتے ہیں؟
20۔ کیا وہ پیسے سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں یا فضول خرچی کرتے ہیں؟
21۔ انہیں اپنی کون سی عادت پسند ہے؟
22۔ انہیں زندگی میں سب سے شاندار تحفہ کون سا ملا ہے؟
23۔ وہ کبھی کسی مشہور شخصیت سے ملے ہیں؟ اگر ہاں، تو کس کس سے؟
24۔ کیا وہ جن بھوت پر یقین رکھتے ہیں؟
25۔ کس کام سے انہیں سخت کوفت ہوتی ہے؟
26۔ ان کی زندگی کا سب سے خوشگوار دن کون سا تھا؟
اگر آپ کے 20سے 26کے درمیان جوابات درست ہیں تو اس کامطلب ہے آپ کے بچے آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور آپ کا تعلق کافی مضبوط ہے۔
اگر 15سے 19 جوابات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ کے بچے کسی حد تک آپ کی ذات میں دلچسپی لیتے ہیں۔مگر مزیدتوجہ سے اپنے بچوں کو سننے کی ضرورت ہے۔
اگر 15 سے کم جوابات درست ہیں تو آپ کو اپنے بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے۔ بچے سے تعلق پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ اسے آپ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

 


(جاری ہے)

Добавить комментарий