Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

اعداد بولتے ہیں ۔ قسط 1

اعداد بولتے ہیں ۔ قسط 1

 

اعداد کی سائنس

ہم زندگی پیمائش اور اندازوں پر گزارتے ہیں۔ یہ کوئی فلسفیانہ خیال نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے۔ رات کو سونے کے لئے لیٹتے ہیں تو یہ ذہن میں ہوتا ہے کہ صبح کتنے بجے بستر چھوڑ دینا ہے؟ بیدار ہونے کے بعد ناشتہ ، دفتر یاکام کے لئے جانا بھی مقررہ وقت کے تحت ہوتا ہے۔ کام پرجانے کے لئے فاصلہ بھی زیربحث آتا ہے یعنی ہم کتنی دیر میں فاصلہ طے کرکے کام پرپہنچیں گے۔
زندگی کے جس جس شعبے میں دیکھئے پیمائش Measurement کاحیرت انگیز اَن دیکھا جال ہمیں اپنے گرد نظر آئے گا۔ آرام کرنے کا بیڈ یاپلنگ خاص لمبائی و چوڑائی رکھتا ہے، دروازے خاص پیمائش سے بنائے جاتے ہیں، کمروں کی پیمائش ، ہمارے لباس کا ناپ، درخت و پودے ،راستے ، پہاڑ ، دریا غرض جس چیز کو بھی دیکھیں اس کی خاص لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی ہوتی ہے اسی کو اس کی پیمائش کہہ سکتے ہیں۔
ہمارے دماغ میں پیمائشوں کے تعین کا خود کار نظام موجود ہے جو چیزوں کے سائز کو دیکھتے ہوئے زندگی گزارنے میں ہماری مددکرتا ہے۔ آپ غور کریں گے تو واضح ہوجائے گا کہ پوری زندگی پیمائشوں کے گرد گھومتی ہے۔ پیمائش کاپیمانہ ہمارے پاس اعداد یا نمبرزہیں۔ ہر کام اور حرکت میں آپ کو اعداد کی کارفرمائی دکھائی دے گی۔ وقت معلوم کرنے کے لئے آپ کو اعداد سے رجوع کرناپڑے گا ، تنخواہ یا معاوضہ نمبروں کے علاوہ کچھ نہیں، گھر کا خرچ چلانے کے لئے بجٹ تیار کرنا بھی اعداد پر منحصر ہے، آٹا دال کے بھاؤ اور اوزان نمبرز میں قید دکھائی دیں گے، زندگی کے مختلف ادوار مثلاً بچپن، لڑکپن اور بڑھاپے کا تعین مال و سال سے کرنا بھی نمبروں سے تعلق رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
سائنسی لحاظ سے دیکھیں تو چیزوں (ٹھوس ، مائع ، گیس) کی پیمائشوں کے لئے مخصوص یونٹ (اکائیاں) وضع کئے گئے ہیں ان کو بھی اعداد کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ سیاروں اور ستاروں کے فاصلے نوری سال سے ناپے جاتے ہیں ۔یہ بھی اعداد کاکھیل ہے۔
اعداد کی بازی گری کی آج ساری دنیا معترف ہے۔ بیسویں صدی کو اگر اعدادکے کمال کی صدی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ سب اعداد و شمار کا ہی تو کھیل ہے کہ انسان زمین تو ایک طرف خلا کی وسعتیں بھی ناپ رہا ہے۔ کروڑوں نہیں اربوں میل کے فاصلے پر واقع خلا میں تیرتے ہوئے ستاروں کے حدود اربعہ کا جامع حساب پیش کر رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ علم ہندسہ میں کمال حاصل کئے بغیر انسان زندگی کے کسی بھی شعبے میں اور علم کی کسی بھی شاخ سے انصاف نہیں کر سکتا تو بجا ہوگا۔
ہماری زندگی کا اعداد سے رشتہ نہایت مستحکم ہے۔ جدید ریسرچ بتاتی ہے کہ ہمارے خیالات ذہن یا دماغ کی ایک مخفی استعداد سے جنم لیتے ہیں جہاں توانائی کی فریکوئنسی وقفوں کی شکل اختیار کرتی ہے مثلاً آپ کے سامنے ایک کرسی رکھی ہے تو آپ کے ذہن میں توانائی کی فریکوئنسی اس شئے کو جانچنے کے لئے عددی Countable سانچے میں ڈھالتی ہے۔ عددی سانچوں میں اس شئے کے خواص آجاتے ہیں مثلاً کرسی کے لئے ذہن میں یہ عددی تقسیم بنے گی کہ کرسی سخت، چار پایوں، دوہتھوں اور ایک گدی پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ تمام عددی شماریات جمع ہو کر کرسی کی موجودگی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔
جدید سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ دنیا کی ہر شئے قابلِ شمار ہے۔ چاہے وہ کوئی مادّی شئے ہو، فاصلہ یا کوئی اور شئے ہو سب کچھ قابلِ شمار یا Measurement کے قابل ہے۔ شمار کا یہ تمام پروسس نمبروں کے بغیر ناممکن ہے۔
زندگی میں اعداد کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے سینکڑوں برس پہلے ایک علم کی بنیاد رکھی گئی جسے علم الاعداد Numerology کہا جاتا ہے۔
علم الاعداد کیا ہے؟
اس میں کوئی سچائی پائی جاتی ہے یا نہیں؟
کیا اعداد کا انسانی زندگی پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو علم الاعداد کا تجسس رکھنے والے بعض ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
علم الاعداد کا شمار دنیا کے چند قدیم ترین علوم میں کیا جاتا ہے اور آج بھی اس کا شمار مخفی علوم میں کیا جاتا ہے۔
علم الاعداد کی جڑیں ماضی میں بابل و مصر اور ہند و چین اور یونان کی قدیم تہذیبوں تک جاتی ہے۔قدیم ماہرین علم الاعداد نے اعداد کے باطنی خواص اور اسرار پر جو تحقیق وتجربات کئے تھے جدید دور کے ماہرین علم الاعداد اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
اعداد کی حقیقت کو کئی مفکرین نے تسلیم کیا ہے 580 قبل مسیح یونانی فلسفی فیثا غورث جسے بابائے ریاضی کہا جاتا ہے نے اعداد کی حقیقت پرتفصیلی طور پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ :
‘‘اعداد کا تعلق ہماری زندگی سے ہوسکتاہے’’۔
فیثا غورث کا کہنا تھا کہ
‘‘جب خدا نے دنیا کو وجود بخشا تو اس نے عظیم ریاضی دان کی طرح کام کیا’’۔
ارسطو بھی اعداد کو کلیدی حیثیت دیتا تھا ۔ اس کا کہنا ہے ‘‘ہرچیز عدد ہے’’۔
سینٹ آگسٹائن کا کہنا تھا کہ‘‘لا محدود ہستی اعداد کی صورت میں چیزوں پر منعکس ہو کر اثرا انداز ہوتی ہے۔ مادّی اور مجازی دنیا کی بنیاد لا محدود اعداد ہیں’’۔
قدیم ماہرین کے مطابق قدرت کی ہر شے میں اعداد کی کاری گری ہے۔ ماہرینِ علم الاعداد کہتے ہیں کہ اعداد ڈھانچے ہیں جن پر مادّی دنیا کی تعمیر ہوئی ہے۔ کئی دیگر عقلاء اور مفکرین نے اعداد کے مخفی حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔ کئی مسلمان فلسفی اور عالم بھی اعداد کی اہمیت کے قائل ہیں۔ مسلمان فلسفی اور سائنس دان موسیٰ الخوارزمی نے اپنی کتاب الجبرا و المقابلہ میں لکھا ‘‘ میں نے معلوم کیا ہے کہ ہر چیز میں اعداد کا عمل دخل ہے’’۔
مسلمان سائنس دانوں کے ایک پینل ’’اخوان الصفا‘‘ نے اپنے ریسرچ پیپرز میں لکھا
‘‘نفوس میں اعداد کی شکل، ہیولیٰ میں موجودات کی شکل رکھتی ہے۔ عدد عالمِ بالا کا ایک نمونہ ہوتا ہے اور اس کی واقفیت کے ذریعے طالب علم دوسرے ریاضیاتی علوم، طبیعیات اور ما بعد النفسیات تک پہنچتا ہے۔ اعداد کی سائنس تمام سائنسوں کی اساس، عقل کی بنیاد، علم کا سرچشمہ اور معنی کا ستون ہے۔ یہ اکسیر اعظم اور کیمیائے اکبر ہے’’۔
ہمارے معاشرے میں علم الاعدادکوئی نئی یا انوکھی شے نہیں ہے،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو علم الاعداد کے حساب سے 786 لکھنے کا رواج ہمارے معاشرے میں طویل عرصے سے رائج ہے۔
ماضی میں برصغیر پاک و ہند میں تاریخی ناموں کا بہت رواج تھا، کئی حکمران و اہل علم شخصیات کا نام ان کی تایخ پیدائش کے اعداد حساب سے رکھا جاتا تھا۔ آج بھی کئی تاریخی ہستیوں کے مقبروں اور کتبوں پر ان کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات کے ساتھ ان کے تاریخی نام بھی درج ہیں۔
ماضی میں کئی اہلِ روحانیت بھی ، علم الاعداد کے ذریعے لوگوں کی مشکلات کا حل اور بیماریوں کا علاج کرتے رہے ہیں۔ آج بھی نقش تعویذ ، زائچے وغیرہ میں کئی حضرات علم الاعداد کا استعمال کرتے ہیں۔
معروف روحانی اسکالر جناب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے بھی کئی مسائل کے حل کے لئے اعداد اور نقش سے علاج تجویز کیے ہیں۔
عظیمی صاحب فرماتے ہیں
‘‘یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ کائنات میں انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے اور اللہ تعالیٰ خود احسن الخالقین ہیں۔ مفہوم واضح ہے یعنی دوسری مخلوق بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت تخلیق کر سکتی ہے۔ باالفاظ دیگر انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں مفید یا تخریبی رد و بدل کر سکتا ہے۔ مثلاً آگ اللہ کی تخلیق ہے ہم اس تخلیق سے تعمیر اور تخریب کے دونوں کام لے سکتے ہیں۔ اسی طرح لوہے سے جہاں انسانی فلاح و بہبود کے لئے بڑی سے بڑی مشینیں تیار کی جاتی ہیں وہاں اس دھات کو تخریب میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بعینہ یہی صورت کائنات میں موجود ہر اس شئے کی ہے جس پر قدرت نے ہمیں اختیار دیا ہے۔ انسان کے اندر کام کرنے والی ساری صلاحیتیوں کا دارومدار ذہن پر ہے۔ ذہن کی طاقت ایسے ایسے کارنامے انجام دیتی ہے جہاں شعور بھی ہراساں نظر آتا ہے۔
علم لدنی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہاں ہر چیز مثلث (Triangle) اور دائرہ (Circle) کے تانے بانے میں بنی ہوئی ہے۔
یہی دائرہ اور مثلث تعویذ میں ہندسے بن کر عمل کرتے ہیں جو نقطہ۰ سے شروع ہو کر ۹ کے ہندسے پر ختم ہو جاتے ہیں’’۔
علم الاعداد(Numerology) جسے علمالارقام، علم الحروف ، علم جفر اور حساب الجمل بھی کہتے ہیں، اس علم کی بنیاد حروف کے ابجدی راز پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ جب کبھی نومولود کا نام رکھنا ہوتا ہے تو تاریخ پیدائش کے اعداد کو جمع کرکے 1 سے 9 تک اعداد میں سے کوئی ایک اکائی کا عدد حاصل کرلیا جاتا ہے اور پھر کوئی ایسا نام منتخب کیا جاتا ہے جس کا مجموعی عدد اس کے مطابق ہو۔
ہر انسان کی زندگی پر کچھ اہم اعداد اثرانداز ہورہے ہیں۔ جن میں سرفہرست اس کی تاریخ پیدائش کے اعداد ہیں۔ اس کے بعد نام کے اعداد۔
علم الاعداد کے اس طریقۂ کار میں سب سے پہلے تاریخ پیدائش کی ضرورت ہوگی۔ یعنی پیدائش کے دن کی تاریخ اور مہینہ چاہئے ہوگا کیونکہ تاریخ اور مہینے کے عدد کی حاصل جمع سے جو عدد حاصل ہوگا وہ اس طریقۂ کار میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً کسی کی تاریخ پیدائش کسی بھی سال میں اگر 27 فروری ہے تو ہم 27 تاریخ کا مفرد عدد معلوم کرینگے جو 9=7+2 ہوگا۔ اب فروری کا عدد ہمیں معلوم ہے‘ 2 ہے۔ کیونکہ یہ سال کا دوسرا مہینہ ہے لہٰذا اسے بھی تاریخ پیدائش کے مفرد عدد میں جمع کر لیں گے اور 11=9+2 ہوگا۔ اسے ایک مرتبہ اور جمع کیا گیا تو 2=1+1 کا عدد حاصل ہوا۔
چنانچہ معلوم یہ ہوا کہ 27 فروری کو پیدا ہونے والے شخص کا کلیدی عدد 2 ہے۔
علم الاعداد کے ماہرین کسی چیز، جگہ، شئے یا وجود کے نام کے اعداد نکالنے کے لئے حروفِ ابجد کی جدول سے استفادہ کرتے ہیں۔ علم الاعداد میں حرف تہجی کی تختی حرف ابجد کی طرز پر پڑھی جاتی ہے جیسے ابجد ہوز حطی کلمن قرشت سعفص ثخذ ضظغ وغیرہ۔

یہاں ہر حرف کو ایک مخصوص عدد دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ اس تختی کے مطابق ان حروف کے اعداد کو ذہن نشین کرلیں۔
الف = 1، ب = 2، ج = 3، د = 4،
ھ = 5، و = 6، ز = 7،
ح = 8، ط = 9، ی = 10،
ک = 20، ل = 30، م = 40، ن = 50،
س = 60، ع = 70، ف = 80، ص = 90،
ق = 100، ر = 200، ش = 300، ت = 400، ث = 500، خ = 600، ذ = 700، ض = 800،
ظ = 900، غ = 1000۔
ابجدی علم الاعداد کی اصل چونکہ عربی ہے اس لیے فارسی اور اردو کے اضافی حرف تہجی کے لیے اس سے مشابہہ حروف کے اعداد لکھے جاتے ہیں ، جیسا کہ
پ =ب =2 ، ٹ =ت =400 ،
چ =ج =3 ، ڈ =د=4،
ڑ =ر =200، ژ=ز =7 ،
گ =غ=1000، ے =ی =10،
یہ بھی واضح رہے کہ زیر، زبر، پیش مد، ہمزہ اور کھڑا زبر وغیرہ کے کوئی اعداد نہیں ہیں اور جس حرف پر تشدید ہو اس کے دوگنے اعداد ہوتے ہیں۔
اعداد نکالنے کے بعد اس عدد کے خواص معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ابجد کی ترتیب ذہن نشین کرنا مشکل ہے تو آسان اور سہل انداز میں حروف تہجی کے حساب سے عدد نکالنے کا چارٹ اوپر باکس میں پیش کیا جارہا ہے۔
اب ہم آپ کو ان نمبرز کی جمع تفریق کے ذریعے بنیادی عدد حاصل کرنا بتاتے ہیں۔فرض کیجئے کسی کا نام امجد علی ہے اس کے اعداد ملاحظہ ہوں:
ا+ م+ ج+ د+ ع+ ل+ ی
1+ 40+ 3+ 4+ 70+ 30+ 10 = 158
اب حاصل شدہ تمام اعداد کو جمع کردیں مثلاً:
1+5+8 = 14
علم الاعداد کا دائرہ صرف ایک سے نو تک کے اعداد کے گرد گھومتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ہزار سال سے لے کر اب تک کسی بھی طرز کی گنتی دیکھ لیں یہی نو اعداد لوٹ پھیر کر آجاتے ہیں مثلاً نو کے بعد دس آتا ہے یعنی صفر کے بعد ایک دوبارہ آجاتا ہے یا گیارہ میں ایک دو مرتبہ آجاتا ہے۔
چونکہ علم الاعداد میں صرف 1 سے 9 تک ہی اعداد شمار کرتے ہیں، اگر حاصل اعداد نو سے زائد آئیں تو دونوں کو دوبارہ جمع کردیں یعنی 1+4 = 5
اس طرح امجد علی کا حاصل عدد یا نمبر 5ہے۔
اگر کسی کا نام قمر ہے تو
ق+م+ر
100+40+200 = 340
اب تمام اعداد کو جمع کردیں
3+4+0=7 یعنی قمر کا نمبر 7 ہے۔
یاد رہے یہ نمبر ایک سے نو تک ہی شمار ہوتے ہیں۔ اگر حاصل نو سے زائد آئے تو ان کو دوبارہ جمع کردیں۔ مثلاً 10 ہے تو ایک کو صفر میں جمع کرنے سے حاصل ایک آیا لہٰذا اب نمبر 1 ہوگا نہ کہ 10….
علم الاعداد کے حساب سے بچوں کا نام رکھنے کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بچے کی تاریخ پیدائش ہے 12 نومبر 2016۔ اب ہم اس تاریخ کو اس طرح لکھتے ہیں 12+11+2016 … تمام اعداد کا حاصل جمع بنتا ہے 2039، چونکہ علم الاعداد میں صرف 1 سے 9 تک ہی اعداد شمار کرتے ہیں، اس لیے اب ہم حاصل جمع کو اس طرح لکھیں گے 2+0+3+9، اس کا حاصل جمع 14 بنتا ہے، دوبارہ حساب لگانے کے لیے 1+4=5، یعنی اس بچے کے تاریخ پیدائش کے لحاظ سے عدد 5 ہے۔ اب اس لحاظ سے اگر ہم بچے کا نام رکھتے ہوئے اس حرف کا انتخاب کریں جس کا عدد 5 ہو اور وہ نام رکھیں جس کا عدد بھی 5 نکلے تو علم الاعداد کے مطابق اس کے بچے کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے۔
آپ چارٹ میں دیکھ سکتے ہیں کہ ھ، ن اور ث وہ حروف ہیں جن کے اعداد 5 بنتے ہیں۔ چنانچہ بچے کے لیے انہی حروف سے نام رکھنا مناسب ہوگا…. یا پھر ماہ پیدائش کی مناسبت سے حروف لیے جائیں….
بعض ماہرین علم الاعداد نے مہینوں اور بروج کی مناسبت سے بھی حروف اخذ کر رکھے ہیں۔ مثلاً برج حمل کے منسوب حروف ا ، ل، ع اور ی ہیں ، برج ثور سے ب ، و ، برج جوزا سے ق اورکمنسوب ہے۔ الغرض اسی طرح 12 بروج سے علیحدہ علیحدہ تمام حروف منسوب ہیں ۔ جو چارٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

 

بروج (بلحاظ تاریخ) منسوب حروف
برج حمل (21 مارچ ۔ 20 اپریل) ا – ل – ع – ی
برج ثور (21 اپریل ۔ 21 مئی) ب – و
برج جوزا (22 مئی ۔ 21 جون) ک – ق
برج سرطان (22 جون ۔ 22 جولائی) ح – ہ–ھ
برج اسد (23 جولائی ۔23 اگست) م– ٹ
برج سنبلہ (24 اگست ۔ 23 ستمبر) پ – غ
برج میزان (24 ستمبر ۔ 23 اکتوبر) ر–ت –ٹ –ط
برج عقرب(24 اکتوبر ۔ 22 نومبر) ن – ذ – ز
برج قوس (23 نومبر ۔ 22 دسمبر) ف
برج جدی (23 دسمبر ۔ 20 جنوری) ج – خ – گ
برج دلو (21 جنوری ۔ 18 فروری) س–ش–ص–ث
برج حوت (19 فروری ۔ 20 مارچ ) د – چ

اگر بچے کی پیدائش 12 نومبر کو ہوئی ہے تو اس حساب سے اس کا برج عقرب ہے اور حروف ن، ذ اور ز سے نام رکھے جاسکتے ہیں۔
اگر آپ اپنے مولود کا نام رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بچے کی تاریخ پیدائش کو جمع کرتے جائیں یہاں تک کہ 1 سے 9 کے درمیان کو کوئی عدد معلوم ہوجائے۔ اب حاصل عدد کے حروف سے یا پھر بچے کے بروج کے حروف سے آنے والے کئی نام پسند کرلیے جائیں اور ان ناموں کے اعداد حاصل کیے جائیں۔ ماہرین علم الاعداد کہتے ہیں کہ آپ کے منتخب ناموں میں جس کے اعداد تاریخ پیدائش کے اعداد سے مطابقت رکھیں وہی بچے کا نام رکھ لیا جائے۔
امید ہے مندرجہ بالا چارٹ کے ذریعے قارئین باآسانی اپنے نام کا عدد معلوم کرسکیں گے ۔
آئندہ ماہ ہم ہر نمبر کے خواص بتائیں گے۔ اس ماہ دیئے گئے جدول کو آپ محفوظ کرلیں کیونکہ یہ آئندہ بھی کام آئے گا۔اپنا نمبر معلوم کرنے کے بعد دوسری چیزوں یا لوگوں کے نمبر معلوم کرکے یہ جان سکتے ہیں کہ وہ آپ کا معاون ہے یا نہیں ….؟
اپنے عدد کے مطابق کس اسم کا ورد کرنا چاہیے….؟
ذاتی عدد کے مطابق کون سی انگوٹھی (Ring) پہننی چاہیے….؟
اس کے لئے آئندہ شماروں کا انتظار کیجئے۔
(جاری ہے)

 

کسی بھی نام کا عدد معلوم کرنے کے لیے درج ذیل باکس میں نام لکھیے





 

 

 

 

 

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *