ہم اور ہماری زمین دھنک رنگوں کا ایک متحیّر کردینے والا مرکز ہیں۔ زمین پر موجود مخلوقات کا قیام ان دھنک رنگوں سے جڑا ہوا ہے جن کو ہم قوسِقزح کے نام سے جانتے ہیں۔زمین پر موجودکوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں ہے جو بے رنگ ہو۔ہر چیز خواہ وہ جمادات ہوں، نباتات ہوں یا حیوانات سب کے سب اپنے مادی وجود کے لئے رنگوں کے محتاج ہیں۔ یعنی رنگ ہر تخلیق کا بنیادی مسالہ ہیں۔کوئی بھی جسم اپنے اظہار کے لئے رنگوں کے ایک متوازن مجموعہ کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اگر کسی جسم میں رنگوں کے درکار مجموعہ میں مقدار یا تعداد کے حوالے سے کسی رنگ میں کمی بیشی ہو جائے تو جسم میں خرابی اور نقص ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم بھی انہی رنگوں سے مرکب ہے جن سے ہماری زمین اور زمین کی دیگر مخلوقات کا مادی جسم تخلیق ہوا ہے۔جسم ِ انسانی کی صحت اور درست کارکردگی کا انحصار ان رنگوں کی طے شدہ مقداروں میں ہے۔ جن سے اس جسم کی تخلیق ہوتی ہے۔ رنگوں کی مقداروں میں کسی وجہ سے کمی بیشی ہوجائے تو جسم امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اب یہ تلاش کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا زیادتی سے کون کون سے امراض یا عوارض پیدا ہوتے ہیں۔
رنگوں کی کمی بیشی کو شناخت کر لیا جائے تو کمی کو پورا کرنا اور زیادتی کو معمول پر لانا اتنا دشوار نہیںرہجاتا۔
جسم کے ہر حصے، عضو اور غدود کا اپنا ایک خاص اور معین رنگ ہوتاہے۔ ان رنگوں کا واضح تعین ہوتو کمی بیشی کی نشاندھی آسان ہو جاتی ہے۔
1۔ دماغ، سر، گردن، چہرہ اور چہرے کے اعضاء بشمول آنکھ ، کان، ناک کے لئے نیلا رنگ۔
2۔ سینے اور پھیپھڑوں سے امراض اور مسائل کے لئے نارانجی رنگ۔
3۔ معدے اور نظامِ انہظام کی خرابیاں دور کرنے کے لئے زرد یعنی پیلا رنگ استعمال ۔
4۔جنسی اعضاء اورجسم کے غدود، لبلبہ، تلی،تھائی رائیڈ ، ایڈرینل ، خصیے، بیضہ دانی کے لئے جامنی ، بنفشی یا بینگنی رنگ مختص ہے۔
5۔خون اور دورانِ خون سے متعلق مسائل کے لئے سرخ رنگ اور
6۔ جلد کے امراض اور جسم میں سوجن، انفکشن اور پیپ والے زخموں کے لئے سبز رنگ مفید ہے۔
انسانی حواس رنگوں سے بنتے ہیں۔ ان رنگوں کی کمی یا زیادتی سے حواس پہ اثر پڑتا ہے۔ رنگوں کی لہروں کا خاص توازن سے عمل پذیر ہونا صحت کا ضامن ہے،اگر کسی وجہ سے رنگوں کے نظام میں خلل پیدا ہو جائے ، کوئی رنگ زیادہ یا کم ہو جائے تو محسوسات میں تبدیلی آجاتی ہے۔
ہر انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے خواب دیکھتا ہے۔ جس شخص کے مزاج میں حرارت کا غلبہ ہو وہ خواب میں آگ یا دھوپ دیکھتا ہے۔جس شخص کے مزاج میں سردی کا غلبہ ہو وہ خواب میں برف یا خود کو ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہوئے ہوئے دیکھتا ہے۔غرضیکہ جس شخص میں جس خلط کا غلبہ ہوتا ہے وہ اکثر اُسی کے موافق خواب دیکھتا ہے۔
نیند کے دوران افکار و تصورات، ذہنی اور جسمانی افعال پہ قابو نہیں رہتا۔ خواب کی حالت میں کیمیاوی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں۔ان کیمیاوی تبدیلیوں کی وجہ سے نیند کی حالت میں لیا جانے والا سانس گہرا ہوتا ہے۔بیداری میں سانس لینے کے دوران پیٹ کے عضلات کی حرکت زیادہ رہتی ہے جبکہ نیندکی حالت میں پسلیوں کا ابھار زیادہ ہوتا ہے۔
اکثر لوگ بے خوابی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بےخوابی رفتہ رفتہ کسی نہ کسی نفسیاتی مرض کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے۔بے خوابی اصل میں بے چین یا مضطرب نیند کی انتہائی صورت ہے۔ نیند کا کم آنا، نیند کا ٹوٹ ٹوٹ کر آنا یا نیند کا بالکل نہ آنا ایسی مخصوص حالتیں ہیں جن کی وجہ انسانی حواس میں اور جذبات میں نمایاں تبدیلیاں ہیں ۔ وہ لوگ جو زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور جن کی نیند گہری اور مسلسل نہیں ہوتی اُن کے دماغ کے وہ خلیئے جن کے اوپر اچھی اورمثالی صحت کا دارومدارہے، کمزورہوجاتے ہیں۔
نیلے رنگ کی کمی سے دماغی امراض، گردن اور کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خرابی، ڈیپریشن، احساس محرومی، کمزور قوتِ ارادی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان امراض کے لاحق ہونے سے مزاج اور خوابوں کی کیفیات بدل جاتی ہیں۔
ان امراض سے چھٹکارا پانے کے لئے لاشعور اس انداز میں رہنمائی کرتا ہے کہ مریض خواب میں نیلا رنگ یا نیلے رنگ سے مرکب اشیاء کو دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں نیلے آسمان کے نیچے موجود ہوں، کبھی نیلی روشنیوں کی بارش ہوتے اور خود کو اُس بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھتا ہے اور کبھی اُسے اپنا سراپا نیلی روشنیوں کا بنا ہوا نظر آتا ہے۔
زرد رنگ کی مقداروں میں اعتدال نہ رہے تو نظامِ انہظام میں خرابیاں جیسے ریاح، آنتوں کی دق، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر وغیرہ جیسی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔مادی جسم کے گرد روشنیوں کے ہالے میں زرد رنگ کی کمی کے اشارے خواب میں کچھ یوں ملتے ہیں کہ مریض خود کو زرد رنگ کے لباس میں دیکھتا ہے، کبھی کھانے پینے کی اشیاء میں زرد رنگ غالب نظر آتا ہے، کبھی سرسوں کے پھول کے کھیت نظر آتے ہیں یا ایسے پھل خواب میں دیکھتا ہے جن میں زرد رنگ غالب ہوتا ہے۔
نارنجی رنگ سے مزّین اشیاء خواب میں اُس وقت نظر آتی ہیں جب جسم سینے کے امراض جیسے دق، سل، پرانی کھانسی یا دمہ وغیرہ سے متاثر ہو۔
ہائی بلڈپریشر اور خون میں حدت سے پیدا ہونے والے امراض، جلدی بیماریاں خارش، آتشک، سوزاک، چھیپ،اگزیما وغیرہ کے مریض سبز روشنی کو خود پہ محیط دیکھتے ہیں۔
سرخ رنگ کی کمی میں لو بلڈ پریشر، اینیما، گھٹیا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم محسوس ہونا، نروس بریک ڈاؤن، مایوس کن خیالات میں گھرے رہنا، بزدلی،موت کا خوف اور ڈپریشن جیسے مسائل سامنے آتے ہیں ۔ ایسا مریض خواب میں سرخ رنگ دیکھتا ہے، خود کو سرخ ماحول میں یا سرخ پھولوں کے درمیان دیکھتا ہے یا خود کو سرخ لباس میں دیکھتا ہے۔
جنسی امراض خصوصاًجرثوموں کا کم ہونا، بیضہ دانی سے متعلق مسائل کی ایک وجہ جامنی رنگ کی کمی بھی ہوتی ہے۔ جب کہ مرگی ، ذہن میں منفی خیالات آنا، دنیا سے بیزاری، ذہن کا ماؤف ہوناوغیرہ جیسے امراض میں گلابی رنگ کی کمی ہوتی ہے اور ان کا مریض خواب میں انہی رنگوں کو بار بار دیکھتا ہے۔
خواب میں جب کوئی رنگ نظر آئے تو طبیعت اُس رنگ کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے یا بیزاری محسوس کرتی ہے۔ بیزاری کا احساس دیکھے جانے والے رنگوں کی زیادتی کا مظہر اور طبیعت کا میلان یعنی اُن کا اچھا لگنا اُس رنگ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
معالج مریض کے خواب کی کیفیات کا تجزیہ کرکے رنگوں کی کمی بیشی کا تعین کرنے کے بعد مریض کو اُس رنگ کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے جس سے کمی پوری ہو سکے یا زیادتی کا تدارک ہو سکے۔
معالج کے لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ یہ بات دھیان سے نوٹ کرے کہ رنگوں میں کمی بیشی محض کسی ایک عضو میں ہوئی ہے یا پورے جسمانی نظام میں اُس رنگ کی کمی یا بیشی ہوئی ہے۔ جیسے جلنے یا کسی کیڑے کے کاٹنے کٰی صورت میں صرف جلی ہوئی جگہ یا متاثرہ عضو میں سرخ رنگ کی زیادتی ہوتی ہے۔جب کہ خون کی کمی کی صورت میں پورے جسمانی نظام میں سرخ رنگ کی کمی واقع ہو تی ہے۔ کمی کی صورت میں اُسی رنگ کو دیا جانا تجویز کیا جاتا ہے اور کسی رنگ کی زیادتی کو ختم کرنے کے لئے اُس رنگ کا متضاد رنگ تجویز کیا جاتا ہے۔
سرخ رنگ کا متضاد رنگ ہرا یعنی سبز ہے، نارنجی کا متضاد رنگ نیلا ہے۔
زرد کا متضاد بنفشی اور اسی طرح سبز کا سرخ، نیلے کا متضاد نارنجی رنگ اور بنفشی کا متضاد یا مصلح رنگ پیلے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
جسم میں کسی بھی رنگ کی زیادتی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کا متضاد یا مصلح رنگ دیا جانا تجویز کیا جاتا ہے۔
بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ کئی نظام ہائے علاج معرضِ وجود میں آئے اور ہر نظام العلاج کا بنیادی مقصد مریض کو مرض اور بیماری سے نجات دلانا ہے۔ کروموپیتھی ایک ایسا نظام العلاج ہے جس میں رنگوں اور رنگین شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم ِ انسانی کو صحت اور تندرستی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظام العلاج میں بیماری کی تشخیص کرنے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا بیشی اس مرض کی وجہ بنی ہے۔ اس تشخیص کے بعد مریض میں اُن رنگوں کی کمی کو دور کرنے کے اقدام کئے جاتے ہیں جو اُس کی بیماری کا سبب بن رہے ہوں یا اُن رنگوں کا جو اُس میں زیادہ ہو چکے ہوں اُن کا اثر زائل کرنے والے رنگ تجویز کئے جاتے ہیں۔ |