Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحانی ڈاک (اپریل 2018ء)

 

 

فہرست
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا گٹکےکی عادت
جنّات کا سایہ یا کالا جادو کاروبار میں کامیابی کیوں نہیں ملتی….؟
صرف عورت ذمہ دار نہیں….؟ ظالم ساس اور ظالم نندیں
آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع خواب میں کیسے ملے….؟ غربت اور تعلیم
اکلوتی بیٹی کے رشتے میں پریشانی شوہر میں کمی
بچے نے کھانا پینا چھوڑ دیا لوگوں میں احترام
لڑکپن کے مسائل اور والدین کی ذمہ داریاں والد دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں
کریڈٹ کارڈ کا قرض
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

 

 

 


***

 

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

سوال: چند ماہ پہلےایک دن مجھے کاندھوں پر دباؤ محسوس ہوا۔ساتھ ہی طبیعت میں بیزاری اوراکتاہٹ محسوس ہونے لگی۔ نیند بہت کم ہوگئی۔ میرے گردن کے مسلزکھنچ گئے۔ میں اپنی گردن سہار نہیں سکتی اس لیے زیادہ تر لیٹی ہی رہتی ہوں۔میر ے دماغ میں گالیوں کی آوازیں آنے لگی ہیں جبکہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی گالی نہیں دی۔
میں بات کرتے کرتے اکثر غائب دماغ ہوجاتی ہوں۔ مجھے لگتاہے کہ میرا دماغ میرے جسم کا ساتھ چھوڑ جاتاہے اورکسی اورہی دنیا میں پہنچ جاتاہے۔ اس سے مجھے شدید گھبراہٹ اورخوف محسوس ہوتاہے۔ کسی کے مرنے کا سن لوں تو میرے دماغ میں مرنے کےبعد کے مناظر چلنے لگتے ہیں۔
میرا دل چاہتاہے کہ میں کسی ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں مجھے کوئی خوف اورگھبراہٹ نہ ہو۔ میری زندگی سے سکون ختم ہوگیاہے۔ڈاکٹروں نے اینگزائٹی کی دوائیں دی ہیں۔ ان داؤں سے شروع میں تو بہت گہری نیند آتی تھی ۔اب غنودگی کی سی کیفیات رہتی ہے لیکن گہری اورپرسکون نیند نہیں آتی۔ باقی کیفیات اسی طرح ہیں۔۔

 

جواب: عدم تحفظ کا احساس، قوت ِ ارادی میں کمی، ایک طرف زندگی کےمعمولات پراثر انداز ہوتی ہے دوسری طرف انسان کو خدشات اوروسوسوں میں بھی مبتلا رکھتی ہے۔ یہ کیفیت آدمی کی عام جسمانی اورذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ان کیفیات سے نجات پانے کے لیے سکون بخش اورخواب آور ادویات کا استعمال بھی مفیدہے تاہم کسی بھی قسم کی ادویات کے ساتھ ساتھ متاثرہ فرد کی قوت ارادی کی بحالی اورزندگی سے دلچسپی کی کوششیں بھی ضروری ہیں۔
زندگی میں دلچسپی فراہم کرنے میں دوست نہایت اہم کردار اداکرتے ہیں۔ کسی کے پرخلوص اورمحبت بھرے ساتھ کا احساس آدمی کو خوشیوں کے ساتھ ساتھ توانائی بھی عطاکرتاہے۔
موجودہ دورکا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس دور میں سچی اورپرخلوص دوستی اورمحبت نایاب ہوتی جارہی ہے۔ لوگوں کے تعلقات کا دائرہ تو وسیع ہوتارہاہے لیکن حقیقی دوستوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ تعلقات زیادہ تر ضرورت اور مطلب کے تابع ہوگئے ہیں ۔ ضرورت ختم ، تعلق کو بائے بائے۔ بہت سے لوگ اپنے دل کی بات کہنے کے لیے کسی مخلص ساتھی کو ترس رہے ہیں۔ دوسرے پر اعتماد کے بجائے عدم اعتماد اورخوف کے جذبات تیزی سے بڑھ رہے ہین۔ یہ جذبات بھی جسمانی تکان کے احساس، سردرد، نیند کی کمی اوربعض دیگر جسمانی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔
میری دعاہے کہ آپ کو مخلصانہ رفاقت مسیر ہو۔ یہ رفاقت آپ کے لیے خوشیوں کا اورزندگی میں آگے بڑھنے کے عزم کا ذریعہ بنے۔
انسان کے اچھے ساتھیوں میں کتاب بھی شامل ہے۔ آپ اپنے ذوق کے مطابق اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کیجئے۔ساتھ ساتھ طنز ومزاح اوردیگر شگفتہ موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ بھی کیجئے۔ مزاح خوا ہ نثر میں ہو یا شاعری میں انسان کے مسکرانے کا سبب بنتاہے اورایک ہلکی سی مسکراہٹ بھی آدمی کے اعصاب پر نہایت خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔سو ایسی تدابیر کیجئے کہ آپ مسکرائیں،ہنسیں،خوش ہوں، اپنے لیے خوشی کے حصول کے ساتھ ساتھ دوسروں کو خوشیاں دینےکا ذریعہ بھی بنئیے۔
خوشی،ذہنی سکون اورقلبی اطمینان ،اس دنیا کی بہت بڑی دولت ہیں۔ یہ خوشیاں کسی مادی ذرائع سے نہیں ملتیں۔سچی خوشی انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ اس سچی خوشی کے حصول کا ذریعہ دولت نہیں بلکہ اطمینان کا احساس ہے۔ اطمینان قلب اللہ سے محبت اور اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔
بطورروحانی علاج صبح شام اکتالیس مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 2:
گیارہ گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر نیلی شعاعوں سے تیارکردہ پانی پر دم کرکےپئیں۔
یہ عمل دوماہ تک جاری رکھیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاعزیز یاسلام کا ورد کرتی رہیں۔
حسب استطاعت صدقہ کریں۔

 


***

 

گٹکےکی عادت؟

سوال: میرے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے کی عمر بیس سال ،دوسرے کی عمر اٹھارہ سال، سب سے چھوٹے کی عمر پندرہ سال ہے۔ تینوں تعلیم حاصلکررہے ہیں۔
میرا بڑا بیٹا جب میٹرک میں تھا تو کلاس کے کچھ لڑکوں نے اسے گٹکا کھانے کی عادت ڈال دی تھی۔ شروع میں تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ وہ صرف اسکول میں کھاتا تھا۔ جب ہمیں پتہ چلا تواس کی عادت پختہ ہوچکی تھی۔ ہم نے کوشش کی کہ اس کی یہ عادت ختم ہوجائے لیکن چند روز چھوڑنے کے بعد دوبارہ شروع کردیتا ہے۔
آج کل بازار میں گٹکا نہیں مل رہا۔ اب وہ ہروقت غصے میں رہتا ہے۔ اس کی طبیعت میں بہت زیادہ چڑ چڑا پن آگیاہے۔ بات با ت پرلڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ اس کے رویہ سے دونوں چھوٹے بیٹے بھی پریشان ہیں۔

 

جواب: بری عادتیں انسان کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ جن لوگوں کو سگریٹ، پان، گٹکے یا نسوار یا کسی اور زریعہ سے تمباکو کی عادت ہوجائے، اس بری عادت کی وجہ سے ان کی صحت خراب تر ہوتی جارہی ہو تو ایسے مجبور و مریض لوگ اہل خانہ کی طرف سے ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔
سگریٹ نوشی یا تمباکو کھانے کی عادت زیادہ تر لڑکپن یا نوجوانی کے دور میں پڑتی ہے۔ اکثر لڑکوں کی اسکول میں یا محلے میں دوستوں کے ساتھ سگریٹ پینے کی وجہ تمباکو کی طلب نہیں بلکہ اس کام کے زریعے وہ خود کو اپنی عمر سے بڑا محسوس کرنا چاہتےہیں۔ شہروں میں اب کئی لڑکیاں بھی سگریٹ پینے لگی ہیں۔ لڑکیوں کے سگریٹ پینے کی ایک بڑی وجہ دوسروں کو اپنی خود مختاری کا احساس دلانا بھی ہے۔
سگریٹ، تمباکو کھانے یا کسی اور طرح سے نشے کی لت پڑ جائے تو اس بات کی اہمیت بہت کم ہوجاتی ہے کہ یہ بری عادت کیسے پڑی تھی۔ بری عادت پختہ ہوجانے پر اسباب کے بجائے پہلے علامات پر توجہ دینے اور نقصانات سے بچنے کی تدابیر ضروری ہوجاتی ہیں۔
تمباکو یا کسی بھی نشے کی لت میں پڑے ہوئےشخص کو اس لت سے نجات دلانے میں سب سے پہلے اس متاثرہ شخص کی رضا مندی ضرور ہے۔ نشے کی لت میں پھنسا ہوا شخص جب تک خود اس لت سے نجات پانے کا تہیہ نہ کرلے اس وقت تک اسے نشے سے دور رکھنا بہت مشکل ہے۔
ہر شخص کی زندگی میں ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسی ہستی موجود ہوتی ہے جس کا سب گھر والے بہت احترام کرتے ہوں یا متاثرہ شخص کے کچھ اچھے دوست جو دوستانہ انداز میں اس کی اصلاح کر سکیں، ایسی کسی شخصیت کی مدد سے نشے کی لت میں مثلاً شخص کو یہ لت چھوڑنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کام کے لیے متاثرہ شخص کی قوت ارادی کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قوت ارادی کمزور ہو تو وہ علاج یا ترغیبات سے نشہ چھوڑ دینے کے باوجود دوبارہ نشہ کرنے لگتے ہیں۔
اپنے بیٹے کو اچھے اخلاق و کردار کے مالک اس کے کسی دوست یا خاندان یا محلے کی کسی محترم شخصیت کے ذریعے نشے سے جان چھڑانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ ان تدابیر کے ساتھ ساتھ بطورروحانی علاج:
رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ سورہ مائدہ (5) کی آیت90:
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بیٹے کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم دوماہ تک جاری رکھیں۔
صبح نہارمنہ اکیس مرتبہ اسم الٰہی یاودود تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پلائیں۔
یہ عمل ایک ماہ تک جاری رکھیں۔

 


***

 

جنّات کا سایہ یا کالا جادو؟

سوال: میرے شادی کو بائیس سال ہوچکے ہیں۔ جب سے شادی ہوئی ہے میرے ساتھ کوئی نہ کوئی پریشانی لگی رہتی ہے۔ میرے چھ بچے ہیں جو زیرتعلیم ہیں۔
پہلے بچے کی پیدائش کے بعد مجھ پرکسی رشتہ دار نے جادو کروایاتھا۔ میں نے بہت جگہ اپنا علاج کروایا۔ خدا خدا کرکے اس مصیبت سے میری جان چھوٹی۔
اب چند سال سے میں پھر شدید بیمار رہنے لگی ہوں۔ پورے جسم میں درد رہتاہے۔ کبھی بخار بھی ہوجاتاہے۔ ایک روز کمرے کا دروازہ بند کرتے وقت اچانک زور سے اس طرح زمین پر گری کہ میرا باز و ٹوٹ گیا۔اس واقعہ کے چند ہفتے بعدمیرا بس سے ایکسیڈنٹ ہوگیا جس کی وجہ سے میراپاؤں ٹوٹ گیا۔
شادی کے بعد چند سال تو میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے مگر اب وہ بھی ہر وقت مجھ سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔چند سال قبل میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی ،مغرب کا وقت تھا۔ میں اپنے دروازے پر کھڑی تھی کہ اچانک زمین پر گرگئی اوراول فول بکنے لگی لیکن مجھے کچھ ہوش نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔
میرے والدین نے اورمیرے شوہر نے بہت سے لوگوں کودکھایا سب یہی کہتے ہیں کہ مجھ پرسایہ ہے۔میرے گھر کا ماحول بہت خراب ہوگیاہے۔ بچے آپس میں ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔۔

 

جواب: محترم بہن! آپ کے مسئلہ پر مختلف پہلوؤں سے بہت غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ ہوسکتا ہے کہ چند سال پہلے آپ پر کسی نے جادو کروا دیا ہو جس کا آپ نے علاج کروا لیا تھا لیکن اب آپ پر کسی قسم کے کوئی منفی اثرات مثلاً جادو ٹونا، جنات کا سایہ وغیرہ نہیں ہیں۔ آپ اس طرف سے بالکل مطمئن ہوجائیں ۔ اﷲ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھیں اور یقین کیجیے کہ آپ اﷲ کی حفاظت اورامان میں ہیں۔ بازو اورٹانگ میں فریکچر ہوجانا محضحادثات تھے۔
آپ کے بیان کردہ مسائل کی وجوہات دراصل شدید اینگزائٹی ،ہسٹریا اور ڈپریشن ہیں۔ آپ کے شوہر آپ کی وجہ سے پریشان ہیں اس لیے آپ کے ساتھ ان کا رویہ اورلہجہ بھی تلخ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا اندازہ یہ بھی ہے کہ آپ کے شوہر اپنی کمزوری کے باعث ایک طویل عرصے سے آپ کے حقوق بھی درست طورپر ادانہیں کر پارہے۔ اس طرح صورتحال خاصی تہہ دار اور پیچیدہہوگئی ہے۔
میرے خیال میں آپ کے شوہر کو اورآپ کو یعنی دونوں کو اپنے اپنے مناسب طبی علاج اور نفسیاتی و جذباتی سہارے (Psychological & Emotional Support) کی ضرورت ہے۔
آپ صبح شام اکیس اکیس مرتبہ :
لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم،
سبحان اللہ، و تبارک اللہ رب العرش العظیم،والحمد للہ رب العالمین
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے پئیں اوراپنے اوپر بھی دم کرلیں۔
وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحی یاقیوم کا ورد کرتی رہیں۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ چوبیس گھنٹوں میں آپ کی نیند کادورانیہ سات تا آٹھ گھنٹوں سےکم نہ ہو۔
اپنے شوہر سے بھی ناصحانہ نہیں بلکہ دوستانہ انداز میں کہیں کہ وہ کسی اچھے حکیم صاحب سے اپنی کمزوری کا علاج کروائیں۔

 

 


***

 

کاروبار میں کامیابی کیوں نہیں ملتی….؟

سوال: میری عمر تیس سال ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں جو بھی کام شروع کرتاہوں اس میں کامیاب نہیں ہوتا۔ کبھی تو کام چل کر بند ہو جاتا ہے، کبھی شروع کرنے سے پہلے ہی سارا معاملہ ختم ہوجاتاہے۔
سات سال پہلے میں ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک گیا۔ اس وقت میری عمر تیئس سال تھی۔ ایک سال وہاں ملازمت رہی پھر حالات خراب ہونے لگے اورمیری مخالفت شروع ہوگئی۔ مجبوراً میں اپنے ملک واپس آگیا اوراپنے والد صاحب کے ساتھ کام کرنے لگا۔میرے والد صاحب پلمبر ہیں ۔ان کی آمدنی سے گھر کا خرچہ بہت مشکل سے پورا ہوتا ہے ۔
برائے کرم کوئی وظیفہ بتائیں کہ میرے کام میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں اور رزق میں کشادگی عطاہو۔۔

 

جواب: عشاءکے نماز کے بعد 101مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 37
ان اللہ يرزق من يشاء بغير حسابO
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالی ٰ کے حضور روزگار کے حصول میں آسانی اور معاشی خوشحالی کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
شام کے وقت سات مرتبہ سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔
یہ عمل ایک ماہ تک جاری رکھیں۔
وضو بے وضو کثر ت سے اللہ تعالیٰ کےاسماء یاحفیظ یاسلام یا فتاح یارزاق کا ورد کرتے رہیں۔
ہر جمعرات کے دن کم از کم اکیس روپے خیرات کردیا کریں۔

 


***

 

صرف عورت ذمہ دار نہیں….؟

سوال: میری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں۔ ہم ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ میں نے ڈاکٹر کو دکھایا ، اُنہوں نے جو کچھ علاج تجویز کیا میں نے باقاعدگی سے کیا۔ اب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں شوہر کا چیک ِاپ ضروری ہے ، لیکن میرے شوہر کہتے ہیں کہ میں ٹیسٹ کیوں کرواؤں میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ لیڈی ڈاکٹر کے مشورے کا حوالہ دے کر ان سے زیادہ اصرار کروں تو مجھے بُری طرح جھڑک دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو میرے کردار کے بارے میں غلیظ باتیں کہہ جاتے ہیں۔

 

جواب: ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ٹیسٹ کے لیے کہنے پر آپ کے شوہر اپنا میڈیکل چیک اپ کروانا اپنی خود ساختہ مردانگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا شمار غالباً ان مردوں میں ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مکمل سمجھتے ہوئے تخلیق کا تمام تر ذمہ دار صرف عورت کو سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بے بنیاد نظریات کے مطابق بچہ نہ پیدا ہو تو عورت ذمہدار…. اگر لڑکا پیدا نہ ہو تو عورت ذمہ دار…. حمل ضائع ہوجائے یا بچے پیدا ہوکر شیرخواری کے دوران ہی انتقال کرجائیں تو عورت ذمہ دار۔ معاشرے کے خاصے بڑے طبقے میں یہ باتیں بنیادی طور پر تعلیم کی کمی اور صدیوں پرانے بعض تصورات کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہیں۔
آپ کے شوہر جس طرح کی باتیں آپ کو سنا دیتے ہیں ان کے پیشِ نظر مناسب ہوگا کہ آپ انہیں ٹیسٹ یا علاج کے لئے براہِ راست نہ کہیں بلکہ آہستہ آہستہ نہایت تدبیر و تحمل سے انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ کریں کہ اولاد نہ ہونے کا سبب عورت کے ساتھ ساتھ مرد میں کوئی نقص بھی ہوسکتا ہے۔
میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات میں مرد کے صحت مند اور پُرجوش ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تولیدی صحت بھی ٹھیک ہو۔ کئی مرد ازدواجی تعلقات میں کمزور ہونے کے باوجود تولیدی لحاظ سے ٹھیک ہوتے یں جبکہ بعض مرد ازدواجی تعلقات میں بہت فعال ہونے کے باوجود Sperms کی تعداد یا حرکت میں کمی یا Sperms کی ساخت میں بعض خرابیوں کی وجہ سے حمل قائم نہیں کروا پاتے۔ مردوں کی تولیدی صحت کے ایسے مسائل قابلعلاجہیں۔
بطور روحانی علاج رات سونے سے قبل اکتالیس بار سورۂ اخلاص گیارہ گیارہ بار درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور ان کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔

 

 


***

 

ظالم ساس اور ظالم نندیں

سوال: میری شادی کو اٹھارہ سال ہو گئے ہیں۔ چار بچے ہیں۔ سب زیر تعلیم ہیں۔ میری نندیں شادی شدہ ہیں لیکن ہمارے گھر میں مداخلت سے باز نہیں آتیں۔ میری ساس اورنندیں میرے شوہر پربہت حاوی ہیں۔
سسرال میں اپنے تکلیف دہ حالات کی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہ ہمارا اپنا گھر ہو۔ میرے شوہر کی آمدنی بھی بہت اچھی ہے۔ وہ اپنا علیحدہ مکان باآسانی خرید سکتے ہیں لیکن ان کی والدہ اوربہنوں کی اجازت نہیں ہے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر نہ صرف مجھے بلکہ میرے شوہر کو بھی اتنا ٹارچر کرتی ہیں کہ میرے شوہر ڈپریشن کے مریض بن گئے ہیں۔ میرے شوہر بیمار ہوں تو اس کا طعنہ بھی نندیں مجھے ہی دیتی ہیں کہ یہ عورت ہمارے بھائی کوکھاجائے گی۔
ویسے میری ساس عبادت گزار اور محلے میں سب سے اچھی طرح ملنے والی خاتون ہیں۔ رشتے بھی کرواتی ہیں۔ سب لوگوں سے بہت اخلاق سے ملتی ہیں لیکن میرے ساتھ ان کا سلوک بہت بُراہے۔ اب میرے بچوں کوبھی نشانے پر لے لیا ہے۔ میرے گھر کے کشیدہ ماحول میں میرے بچے بھی ڈرے سہمے رہنے لگے ہیں۔ مجھے میکے کی طرف سے کوئی سپورٹ نہیں ہے۔ والدہ کا انتقال ہوچکاہے۔ تین بھائی ہیں جو اپنی اپنی دنیا میں مگن ہے۔

 

جواب: ہوسکتا ہے کہ آپ کی ساس ایک روایتی ظالم ساس ہوں اور ان کی بیٹیاں تنگ نظر نندیں ہوں۔
لیکن آپ یہ بتائیں کہ اگر آپ کے شوہر آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو لے کر الگ مکان میں چلے جائیں توان کی والدہ کہاں رہیں گی…..؟
ایک طرف آپ کی اپنی ساس نندوں سے الگ ہو کر رہنے کی خواہش ہے۔ دوسری طرف آپ کی ساس کا یہ خوف ہے کہ کہیں ان کا بیٹا اس بڑھاپے میں انہیں چھوڑکرنہ چلا جائے ۔آپ کی جانب سے باربار علیحدہ رہنے کی خواہش کا اظہار ان کے لیے عدم تحفظ کا سبب بنتاہے۔ اس عدم تحفظ کا اظہار وہ اپنی بیٹیوں سے کرتی ہیں۔ اس پران کی بیٹیاں یعنی آپ کی نندیں آپ کے خلاف آپس میں بھی باتیں کرتی ہیں اوراپنے بھائی کے سامنے بھی آپ کے خلاف بولتی ہیں۔
ہوسکتاہے کہ آپ کی ساس آپ سے بہت زیادہ بدگمان ہوں اور ان کے دل میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہ ہو لیکن پھر بھی اگر آپ اپنی سوچ تبدیل کرکے انہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کردیں کہ آپ ان سے علیحدہ نہیں ہوں گی تو مجھے امید ہے کہ گھر کے حالات میں نمایاں تبدیلی آجائے گی۔
ایک عورت کو اپنے شوہر سے اپنے لیے علیحدہ رہائش کا مطالبہ کرنے کا حق ہے۔ اس حق کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی ساس کےلیے ادب و احترام کا اظہار کرتے ہوئے بڑھاپے میں ان کی خدمت کریں۔ انہیں یہ یقین دلائیں کہ ان کی موجودگی آپ کے اور آپ کے بچوں کے لیے سکون اورتحفظ کا باعث ہے۔
اپنے بچوں کو ان کی دادی سے قریب کرنے کی کوشش کیجئے۔بچوں کو آپ خود دادی کے پاس بھیجنے اوردادی کی خدمت کی تاکید کیجئے۔
آپ کے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی سے آپ کے شوہر کا ڈپریشن بھی چند ہفتوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ کے مثبت رویے کی وجہ سے شوہر ٹھیک ہوجائیں گے۔ وہ ہنسیں گے مسکرائیں گے توآپ کو بھی بہت خوشیاں ملیں گی۔
صبح نہار منہ اکتالیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کا اسم یاودود سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیا کریں۔
چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا رحمٰن یا رحیم کا ورد کرتی رہیں۔

 

 


***

 

آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع خواب میں کیسے ملے….؟

سوال: ہماری ایک خالہ جو ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر رہتی ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ انہیں سچے خواب نظر آتے ہیں۔ وہ ہمارے مختلف رشتے داروں کو اپنے خواب اور ان کی تعبیریں بھی بتاتی رہتی ہیں۔ مجھے اُن پر بالکل اعتبار نہ تھا، بلکہ مجھے تو لگتا تھا کہ خواب دراصل کسی آنے والے واقعے کا اشارہ نہیں بلکہ خواب تو انسانی سوچ ہے جو کہ نیند میں بھی کام کررہی ہوتی ہے۔ مگر پچھلے دنوں میری خالہ نے میرے متعلق کچھ ایسی باتیں بتائیں جو حقیقت سے بہت قریب تھیں۔ انہوں نے میرے رزلٹ کی بالکل درست پیش گوئی کی۔ میرا گریجویشن کا رزلٹ قریب قریب وہی رہا جیسا کہ انہوں نے بتایا تھا۔
محترم وقار عظیمی صاحب! کیا واقعی خوابوں کے ذریعے پیشگی اطلاعات مل جاتی ہیں۔ اگر ہاں تو مجھے کیوں نہیں ملتیں….؟
کیا ایسا کوئی طریقہ ہے جس سے مجھے بھی خوابوں کے ذریعے آنے والے حالات کے بارے میں آگاہی حاصل ہوجائے﷠﷠﷠….؟

 

جواب: خواب کو نیند میں انسانی سوچ کا انعکاس سمجھنا درست نہیں۔ نیند کے حواس میں انسانی لاشعور کی تحریکات کو ہم خواب کہتے ہیں۔ دورانِ نیند نظر آنے والے بعض واقعات کو دن بھر ذہن میں دور کرتے رہنے والے واقعات کی عکاسی کہا جاسکتا ہے لیکن ایسی عکاسی کو خواب نہیں کہا جاسکتا۔ خواب کو لاشعوری زبان کا کوڈ کہہ سکتے ہیں۔ خواب ہر شخص کو نظر آتے ہیں۔ کسی کو یاد رہتے ہیں کسی کو بالکل یاد نہیں رہتے۔ جن لوگوں کو خواب یاد نہیں رہتے ان میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں تو خواب نظر ہی نہیں آتے۔ جنہیں خواب یاد رہتے ہیں ایسے افراد کی بھی کئی درجہ بندیاں کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً:
1-یہ تو یاد رہا کہ خواب میں کچھ دیکھا ہے لیکن دیگر تفصیل یاد نہیں۔
-2 خواب میں بہت کچھ دیکھا لیکن محض دو تین باتیں یاد رہیں۔
3- خواب کی زیادہ تر تفصیل یاد رہی۔
4- خواب مکمل طور پر یاد رہا۔
خواب چھٹی حس، الہام (Intiution) دراصل قدرت کی طرف سے انسان کی خود اصلاحی اور رہنمائی کے لیے عطا کردہ نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کے ذریعہ انسان کو ناصرف زندگی کے مشکل وقت میں بلکہ کسی بھی وقت رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ البتہ ان اشاروں کو سب لوگ بروقت سمجھ نہیںپاتے۔
خواب یاد رہیں اور خوابوں کے ذریعے ملنے والے اشارے کسی حد تک سمجھ میں آجائیں، اس صلاحیت کو شعوری کوششوں کے ذریعے ترقی دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے توجہ میں ارتکاز ضروری ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاؒء نے اپنی کتاب لوح و قلم میں اور ان کے شاگردرشید حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ صاحب نے اپنی کتاب خواب کی تعبیر اور دیگر کتب اور مضامین میں خواب کے تعارف اور خواب کے ذریعے رہنمائی جیسے موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
نیند میں دیکھے ہوئے واقعات کے نقوش واضح ہوں اور یاد رہیں بالفاظ دیگر خواب یاد رہیں، اس صلاحیت کو کئی مشقوں کے ذریعے بیدار و متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک مشق ‘‘مراقبہ’’ بھی ہے۔ باقاعدگی سے مراقبہ کرنے والے کئی افراد نے مجھے بتایا ہے کہ انہیں ناصرف یہ کہ اپنے خوابوں کی تفصیل یاد رہنے لگی بلکہ خواب کے ذریعے کئی بار ملنے والی واضح رہنمائی کو انہوں نے بخوبی سمجھ لیا۔
بعض لوگ رہنمائی کی نوعیت تو نہ سمجھ پائے لیکن انہیں خواب یاد رہے اور بعد میں انہوں نے اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرلی۔
آپ بھی چاہیں تو قدرت کی طرف سے عطا کردہ اس صلاحیت کو بیدار کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔

 


***

 

غربت اور تعلیم

سوال: میں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے۔ غربت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔ میرے والدین عرصۂ دراز سے بیمار ہیں۔ والد صاحب بڑھاپے اوربیماری کی وجہ سے اب کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ۔ہماری آمدنی کاذریعہ والد کی پینشن اوربھائی کی ٹیوشن سے ملنے والی ایک محدودسی رقم ہے۔اس کم آمدنی میں گھر کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔ ہماری کچھ زمین تھی ۔والدصاحب نے اسے بیچ کر گھر،علاج معالجے اوربھائی کی تعلیمی اخراجات پورے کیے۔
میرے بڑے بھائی نے اسی مالی تنگی کی حالت میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں اے گریڈ میں ڈپلومہ کرلیا ہے لیکن اب انہیں کہیں ملازمت نہیں ملرہی۔
اگر یہ حال رہا تو ہماری غربت کیسے ختم ہوگی….؟

 

جواب: غربت کے شکنجے میں پھنسے ہوئے آپ کے والدین کو سلام! آپ کے والدین نے وسائل کی شدید قلت اور بیماری کے باوجود اپنی ضروریات ترک کرکے آپ کو اور آپ کے بھائی کوتعلیم دلوائی۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے بھائی کوجلد ہی بہت اچھا اور بابرکت روزگار مل جائے۔
آپ نے انٹر تک تعلیم حاصل کرلی ہے۔ اس تعلیم کوبھی آپ کم مت سمجھیں۔ اپنے بیمار والدین کی خدمت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ آپ کوئی کام کرکے اپنے والدین کی معاونت کرسکتی ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے بچوں کو آپ اپنے گھرپر ٹیوشن دے سکتی ہیں۔ اگر آپ کو ملبوسات کی ڈیزائننگ میں دلچسپی ہے تو آپ تھوڑی سی ٹریننگ لے کر اپنے گھر پر کپڑے سینے کاکام کرسکتی ہیں۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں جن کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت نہیں ہوتی اورتھوڑے ہی عرصے میں مناسب آمدنی ہوسکتی ہے۔
یاد رکھیے ! غربت میں رہنا قسمت کا لکھا نہیں سمجھنا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وان لیس الانسان الا ماسعیٰ
اس فرمان خداوندی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں۔ جولوگ اچھی طرح کوششیں کرتے ہیں وہ اپنی کوششوں کا اجر پاتے ہیں۔
ہمارے اپنے ملک میں، ہمارے شہر میں بہت سے ایسے لوگ ہیں عملی زندگی کی ابتداء میں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ان لوگوں نے محنت و مشقت کی۔ اﷲ نے کرم فرمایا اور آج ان میں سے بہت سے لوگ کروڑ پتی ہیں۔
ایک صاحب ٹھیلے پر حلیم بیچا کرتے تھے ۔یہ حلیم ان کی بیگم صاحبہ انہیں گھر میں بنا کر دیا کرتی تھیں۔ خاتون سخت محنت کرکے حلیم پکاتی تھیں اورصاحب موسم کی سختی، گرمی کا سامنا کرتے ہوئے دن بھر سڑک پر کھڑے ہوکر حلیم بیچا کرتے تھے۔ اﷲ نے انہیں ترقی دی آج ان صاحب کی محنت کی وجہ سے ان کے بچے ماشاءاﷲ بڑے بڑے کاروبار چلا رہےہیں۔
چالیس سال پہلے ایک صاحب کراچی میں ریتی بجری کے ٹرک پر مزدوری کیا کرتے تھے۔پھر انہوں نے تعمیرات کے شعبے میں مزید محنت کی، وہ صاحب تعمیرات کے شعبے میں ایک بہت بڑے ٹھیکیدار بنے۔
آ پ اپنے بھائی کی ہمت بندھایئے اورخود بھی محنت کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو ترقی اورخوشحالی اپنی منتظر ملے گی ۔
بطور روحانی علاج عشاء کی نماز کے بعد 101مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 37:
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر دعا کریں۔
آپ کے بھائی چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یارزاق کا ورد کرتے رہیں۔
ہر جمعرات کے دن کم ازکم اکیس روپے خیرات کردیا کریں۔

 


***

 

 

اکلوتی بیٹی کے رشتے میں پریشانی

سوال: میں ان لاکھوں پریشان حال ماؤں میں سے ایک ہوں جو اپنی بیٹی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ میری ایک ہی بیٹی ہے۔ اس نے ماسٹرز کیا ہے۔ ماشاءاللہ خوش شکل ہے۔ ا س کی عمر تیس سال ہونے کو ہے۔ لوگ دیکھنے آتے ہیں مگر جواب نہیں دیتے۔ بیٹی کے رشتے کے لیے بہت اچھے پڑھے لکھے گھرانوں سے لوگ آئے، کھا یا پیا اورچل دئیے۔
پلیز آپ بتائیں کہ کون سی بندش ہے،کون سی رکاوٹ ہے۔کیا پڑھوں کیا کروں کہ بیٹی کا فرض اب فوری طورپر ادا ہوجائے۔

 

جواب: میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی بیٹی کی بہت خوشیاں عطا فرمائیں۔ اس کا بہت اچھے گھرانے میں رشتہ طے ہو اور اسے ازدواجی زندگی میں بہت زیادہ خوشیاں نصیب ہوں۔ آمین
عشاء کی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ آپ،
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یاحَافِظُ یَا وَکِیْلُ یَا رُقِیْبُ یَا اﷲُ
وَصَلَّی اﷲُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہِ مَحُمَّدٍ وَّاَلِہٖ اَجْمِعِیْنO
اول آخرگیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بیٹی کی شادی میں درپیش رکاوٹوں سے نجات اور خیر وعافیت کے ساتھ رشتہ طے ہونے کیدعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روزتک جاری رکھیں۔
عصر مغرب کے درمیان پانچ پانچ مرتبہ سورہالفلق اورسورہ الناس پڑھ کر پانی پردم کرکے بیٹی کوپلادیں یا بیٹی خود پڑھ کر دم کرکے پی لے۔
یہ عمل اکیس روزتک بلاناغہ جاری رکھیں۔
حسب استطاعت صدقہ بھی کردیں۔

 


***

 

شوہر میں کمی

سوال: میری شادی کوتین سال ہوگئے ہیں۔ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔ہم دونوں نے اپنا ڈاکٹری معائنہ بھی کرایاہے اوربہت ٹیسٹ بھی کروائے ہیں۔میری رپورٹ توڈاکٹر نے کہا کہ کلئیر ہے۔ شوہر کی رپورٹ میں جرثوموں کی کمی بتائی ہے۔ڈاکٹر نے دومرتبہ شوہر کوتین تین ماہ کاکورس بھی کروایا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔
آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں روحانی علاج کے ساتھ ساتھ کوئی حکیمی علاج بھی تجویز فرمادیں۔ جس سے میرے شوہر کی صحت بحال ہوجائے۔

 

جواب: عشاء کی نماز کے بعد101 مرتبہ:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَoخَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍoحمoالر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِo
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے میاں بیوی دونوں پئیں اوراللہ تعالیٰ کے حضور مقصد پوراہونے کی دعاکریں۔
یہ عمل نوے روزتک جاری رکھیں۔
شوہر سے کہیں کہ وہ رات سونے سے پہلے اکیس عدد چلغوزے کھالیں اور اوپر سے دودھ پی لیں۔
اس کے علاوہ جامنی شعاعوں میں تیارکردہ تیل ریڑھ کی ہڈی کے آخری مہرے پر دائروں میں ہلکے ہاتھ سے پانچ منٹ تک مالش کریں۔
جرثوموں کی کمی دورکرنے کے لیے جڑی بوٹیوں پر مشتمل بعض نسخے مفید پائے گئے ہیں۔ اگر آپ کے شوہر اس مقصد کے لیے ہربل نسخے استعمال کرنا چاہیں تو مطب کے اوقات میں کسی وقت عظیمی دواخانے میں تشریف لے آئیں۔

 


***

 

بچے نے کھانا پینا چھوڑ دیا

سوال: میرے بیٹے کی عمر تقریباً پونے دو سال ہوئی تو میں نے اسے اپنا دودھ پلانا بند کردیا۔ دودھ چھڑانے کے بعد سے وہ بہت چڑچڑا ہو گیا ہے۔ کچھ بھی نہیں کھاتا پیتا اور نہ ہی فیڈر لیتا ہے۔ پہلے Feedingکے ساتھ ساتھ دو تین مرتبہ کچھ کھلاتی تھی تو کھالیتا تھا۔ اب ایک ماہ سے جو بھی منہ میں ڈالو اُلٹی کردیتا ہے۔ بہت دُبلا ہوگیا ہے ۔ اس کے گال بھی پچک گئے ہیں۔

 

جواب: آپ کا بچہ اپنی ماں کی خوشبو ڈھونڈ رہا ہے۔ ہر بچہ ہی اپنی ماں سے مانوس ہوتا ہے مگر بعض بچے اپنی ماں سے بہت زیادہ اٹیچ ہوتے ہیں۔ شیرخواری کے دور میں اور اس کے بعد بھی کافی عرصہ تک اپنی ماں کی زیادہ سے زیادہ قربت چاہتے ہیں۔ آپ اسے زیادہ سے زیادہ اپنے قریب رکھیں۔ اسے اپنے سینے سے لگائیں، پیار کریں۔
بچے کو دودھ چھڑوا دینا اچانک نہیں بلکہ یہ بتدریج ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ایک سال سے زیادہ عمر کے بچے ماں کا دودھ یکدم چھڑوا دینے پر زیادہ چڑچڑے ہو جاتےہیں۔
بطور روحانی علاج جب بھی بچے کو کچھ کھانے پینے کے لیے دیں تو گیارہ مرتبہ اسمِ الٰہی یارحیم پڑھ کر کھانے پینے کی چیز پر اور بچے پر دم کردیاکریں۔

 

 


***

 

لوگوں میں احترام

سوال: میں ایک صحت مند اورخوش مزاج نوجوان ہوں لیکن کچھ عرصے سے کسی پریشانی کے نہ ہوتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں خوفزدہ رہتاہوں۔میں ہردل عزیز ہونے کا جذبہ رکھتاہوں مگر لوگوں میں گھلنے ملنے میں ناکام رہتاہوں۔ نئے اورانجان لوگوں میں جاتے ہوئے میرا دل دھڑکنے لگتاہے، گھبراہٹ اورہکلاہٹ طاری ہوجاتی ہے،آواز میں سختی کی وجہ سے بعض اوقات مخاطب سے صحیح طرح سے بات نہیں کرپاتا۔ایک ایک لفظ کو باربار دہراتاہوں۔
میں ایک بینکر ہوں۔ کام کے ساتھ اپنی پڑھائی کرتے ہوئے اپنے پروفیشن میں بہت آگے جانا چاہتا ہوں لیکن اس کیفیت کی وجہ سے اپنے آپ کو کمترسمجھتا ہوں۔
محترم ڈاکٹر وقار عظیمی صاحب….! آپ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے میرے اندرکا خوف ختم ہوجائے۔ میری آواز میں سختی ختم ہوکر نرمی آجائے۔مجھ میں خوش مزاجی آجائے ،لوگوں میں میرا احترام ہواور میں یکسوئی کے ساتھ پروفیشنل تعلیم بھی حاصل کرسکوں۔

 

جواب: لوگ مختلف صلاحیتوں، مختلف عادات اورمختلف ذوق کے حامل ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی خوش مزاجی اورشگفتہ بیانی سے محفلوں کی جان ہوتا ہے، کوئی شخص کم گو اورسنجیدہ طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں میں مقبول ہوتا ہے۔ کوئی برجستہ اوربرمحل جملے اداکرنے میں کمال رکھتاہے۔کوئی کسی کی بات کا صرف مسکراہٹ سے ہی جواب دے پاتاہے۔ ان میں سے ہر ایک معاشرتی اورمعاشی زندگی میں اپنا اپنا کردار خوب نبھارہا ہوتاہے۔
یاد رکھیئے ….!لوگوں میں احترام پانے کے لیے خوش مزاجی کی نہیں بلکہ خوش اخلاقی اورایثار کیضرورتہے۔
آپ ایک بینکر ہیں۔ بینک میں صبح سے شام تک آپ کے پاس بہت لوگ آتے ہوں گے۔ آپ ان کے ساتھ اچھی طرح ملیے ۔چہرہ پر مسکراہٹ کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہیے ۔ کسی کو اپنا اکاؤنٹ آپریٹ کرنے میں یا کسی اورمتعلقہ کام میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے تحمل سے اچھی طرح سمجھائیے۔ اس معاملہ میں اسے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو اُسے وہ مدد فراہم کر دیجیے اور آخر میں اس سے پوچھیے کہ کیا وہ مطمئنہے ….؟
لوگوں کو جس شخص سے توجہ اوراحترام ملے، لوگ اسے اچھے انداز میں یاد رکھتے ہیں۔ لوگوں سے بات کرتے ہوئے آپ کی آواز میں سختی آجاتی ہے ۔ ایسا کسی طبعی وجہ سے بھی ہو سکتاہے۔ بہر حال اس کمی کا ازالہ مسکراہٹ سے ہو سکتاہے۔ مسکراہٹ چہرے اور گلے کے اعضاء میں تناؤ ختم کرکے انہیں ریلیکس کردیتی ہے۔ آپ تجربہ کرکے دیکھ لیجیے مسکراتے ہوئے بات کرنے سے آواز کی سختی خودبخودختم ہونے لگتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ پبلک ڈیلنگ والے دفاتر میں جواہلکار لوگوں سے اچھی طرح پیش آتے ہیں لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں، ان کی عزت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ خوش اخلاق اہلکار سے (خواہ جونیئر ہو یا سینئر آفسر) لوگوں کی توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے افسروں کے پاس کام کادباؤ بڑھ جاتاہے۔آپ اس صورتحال کے لیے خود کو خوش دلی سے تیار رکھیے۔
اعصابی تناؤ ، منتشر خیالی، اداسی سے نجات ، ذہنی صلاحیتوں و قوت ارادی میں اضافہ کے لیے مراقبہ ایک مفید عمل ہے۔ آپ بھی مراقبہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پڑھائی میں دل لگنے کے لیے بطور روحانی علاج صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورہ قمر (54)کی آیت 17
تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پردم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔
وضو بے وضوکثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء :
یاحی یاقیوم یاعزیز یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔

 


***

 

لڑکپن کے مسائل اور والدین کی ذمہ داریاں

سوال: میری عمر بائیس سال ہے۔ بظاہر میں میں ایک صحت مند نوجوان ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں اگر کوئی وزنی چیز اُٹھالوں تو میرے ہاتھ کافی دیر تک کانپتے رہتے ہیں۔ زیادہ پیدل چلنا بھی میرے لیے دشوار ہوگیا ہے۔ اکثر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چکر آنے لگتے ہیں۔ اس جسمانی کمزوری کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں گزشتہ پانچ چھ سال سے خود کو ضائع کرتا رہا ہوں۔ اس عمل کی شروعات میرے اسکول سے ہوئی جہاں میری دوستی چند خراب لڑکوں سے تھی، وہ فحش تصاویر اور ویڈیوز مجھے دکھاتے تھے۔ ان کی صحبت میں ہی میں خود کو ضائع کرنے کی بری عادت میں پڑ گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی برباد کرلی ہے ۔ اس کمزوری کے باوجود میں یہ عمل چھوڑ نہیں پا رہا ہوں ۔

 

جواب: بلوغت کے آغاز میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں کئی لڑکوں کو شدید ہیجان میں مبتلا رکھتی ہیں۔ زندگی کے اس انتہائی اہم لیکن بہت پرآشوب دور میں زیادہ تر لڑکے اپنے والد یا بڑے بھائی کی طرف سے رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔ خود کو درپیش صورتحال پر کئی لڑکے معلومات کے لیے اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں کچھ بڑے دوستوں سے بات کرتے ہیں۔ اس عمر کے اکثر لڑکے اس صورتحال کو ایک طبعی معاملہ سمجھنے کے بجائے اسے سنسنی اور لذت کوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی اسی لذت سے آشنائی کے مشورے دیتے ہیں۔ گھر سے بروقت اور صحیح رہنمائی نہیں مل رہی ہوتی۔ ایسے میں ساتھی لڑکوں کے غلط مشوروں یا بری صحبت کے خراب اثرات کی وجہ سے کئی لڑکے اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کرلیتے ہیں۔
بارہ پندرہ سال کی عمر کے لڑکوں کے لیے والد یا بڑے بھائی کی طرف سے مناسب رہنمائی بہت ضروری ہے۔ گھر سے بروقت ملنے والی صحیح رہنمائی سے کئی لڑکے ایک پرآشوب دور کو بہت احتیاط کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔
اپنی نادانیوں کے باعث آپ کی صحت کو جو نقصان ہوا ، اس کا ازالہ اب بھی ہوسکتا ہے۔ پانچ وقتہ نماز کی پابندی کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ فجر کی نماز باجماعت ادا ہو۔ فجر کے بعد کسی پارک یا کھلے میدان میں تقریباً آدھے گھنٹے تک واک کیجیے۔ ابتدائی چند روز واک کے علاوہ کوئی اور ورزش نہ کی جائے۔ کوشش کیجیے کہ دن میں زیادہ وقت باوضو رہیں لیکن وضو قائم رکھنے کے لیے خود پر جبر نہ کیجیے۔ وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ کرلیں۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا حی یا قیوم کا ورد کرتے رہیے۔
آپ کے لیے یونانی مرکبات معجون آرد خرما اور شربت جگر کا استعمال بھی ان شاء اللہ مفید رہےگا۔


***

 

 

والد دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں

سوال: ہم سات بہن بھائی ہیں۔ ہمارے والد کاروبار کرتے ہیں۔ تین بھائی ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ چھوٹا بھائی ابھی پڑھ رہاہے۔مجھ سمیت دوبہنوں کی اورتین بھائیوں کی شادی ہوچکی ہے۔
ہماری والدہ کاچار سال پہلے انتقال ہوگیاہے۔والدہ کے انتقال کے بعد ہمارے والد نے ہم سب بچوں کو مزید شفقت سے نوازا۔ گذشتہ دوبرسوں میں ہماری ایک بہن اورایک بھائی کی شادی کے تمام انتظامات انہوں نے کیے مگر اب کچھ عرصہ سے ہمارے والد صاحب کا دل اپنے بچوں میں اورگھر میں نہیں لگتا۔
لکھتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے والد جوان بچوں کے ہوتے ہوئے اب خود شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کی عمر ساٹھ سال ہونے والی ہے۔وہ دادا ،نانابن چکے ہیں۔اب اگر انہوں نے شادی کرلی توہم بہنیں اپنے سسر ال میں کیا منہدکھائیںگی….؟
ہمارے والد کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ جائیدا دلے رکھی ہے۔وہ اپنی خدمت کے لیے جتنے چاہیں ملازم رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے بھائی اوربھابیاں بھی ان کے ساتھ بہت اچھی طرح رہتے ہیں پھر آخر انہیں اس عمر میں دوسری شادی کی پٹی کون اور کیوںپڑھارہاہے…..؟
ہم سب بہن بھائی ابو کی دوسری شادی کے حق میں نہیں ہیں۔ بھلا بتائیں ! ہمارے اپنے بچے اب بڑے ہورہے ہیں ۔چند سال بعد ان بچوں کی شادیوں کی باتیں شروع ہوجائیں گی۔
ہمارے بھائیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نئی آنے والی کی نظر ابو کی دولت پر ہوگی اوراگرا س سے ہمارے ابو کی مزید اولاد بھی ہوگئی تو ہماری دولت کے نئے وارث سامنے آنے لگیں گے ۔اس طرح خاندان میں جائیداد کی بنیاد پر جھگڑے شروع ہوں گے۔
بھائی کہتے ہیں کہ ابواپنی تھوڑی سی تسکین کی خاطر ہمارے لیے مسائل کی فصل اگارہے ہیں۔
ہمارے والد ایک جہان دیدہ اور تجربہ کار شخص ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت وذہانت سے اپنے کاروبار کو خوب بڑھایاہے۔ مختلف معاملات میں لوگ ان کے پاس مشوروں کے لیے آتے ہیں مگر اس معاملہ میں نجانے انہیں کیا ہو گیاہے۔ انہوں نے یہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنی جوان اولاد کیوں نظرنہیں آرہی اورانہیں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہورہی۔ یقیناً کوئی عورت دولت کی خاطر انہیں ورغلا رہی ہے۔

 

جواب: آپ کابیان کردہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کی کئی ٹھوس روایات ،انسانی خواہشات اوررویوں کی عکاسی کرتاہے۔
آپ ماشاءاﷲ سات بہن بھائی ہیں۔ جن میں سے پانچ کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ آپ کے والد نے کاروبار کے ذریعہ خوب دولت کمائی اورآپ کے بھائیوں کو بھی چلتے ہوئے کاروبارمیں شامل کرلیا ۔ اگر آپ کے والد ایک کاروباری شخص کے بجائے کسی سرکاری پرائمری اسکول کے ٹیچر یا کسی چھوٹے سے نجی ادارے میں منشی ہوتے تو کیا آج ان کے پاس اوران کی وجہ سے آپ لوگوں کے پاس یہ آسائشیں ہوتیں….؟ ایسی صورت میں آپ کے بھائیوں میں سے ہر ایک کو خود محنت کرکے اپنا کیرئیر بنانا ہوتا اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ کون سا بھائی کتنا کامیاب ہوپاتا….
آپ بہن بھائیوں کو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اﷲ نے آپ کے والد کے کاروبار میں برکت دی اورآپ لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے لیے ایک خوشحال اور آسودہ ماحول نصیب ہوا۔ اپنے والد کے ساتھ اپنے تعلقات کو دولت اور جائیداد کے تناظر میں نہ دیکھیں۔
آپ کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ان کے انتقال کے چارسال بعد آپ کے والد شادی کرنا چاہ رہے ہیں ۔ان کی اولاد کویعنی آپ بہن بھائیوں کو اس معاملہ کو اپنے مفادات کی نظر سے نہیں بلکہ والد صاحب کے نقطۂ نظر سے دیکھنا اورسمجھنا چاہیے۔
عورت اورمرد ایک دوسرے کے ساتھی اورمدد گار ہیں۔ازدواجی زندگی میں مرد اورعورت ایک دوسرے کے لیے راحت وتسکین کا ذریعہ ہیں۔ عورت اورمرد کو جوانی کے دور میں یا ادھیڑعمری کے دور میں ایک دوسرے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن بڑھاپے میں یہ ضرورت جسمانی تقاضوں سے بڑھ کر ایک دوسرے پر انحصار کی شکل اختیارکرلیتی ہے۔ خاص طورپر بڑی عمر کے مرد کا انحصار اپنی عورت پر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بڑھاپے میں کسی عورت کا شوہر نہ رہے تو ان کے بچے خصوصاً بیٹی، بہو، پوتیاں، نواسیاں ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں، لیکن ایک تنہا بوڑھے مرد کی دیکھ بھال اس کے بچے سہولت سے نہیں کرسکتے۔ اس میں کئی طرح کے حجابات بھی آجاتےہیں۔
صرف دیکھ بھال کی ہی بات نہیں ہے کسی مرد یا عورت کو بڑی عمر میں بھی نارمل انداز میں ازدواجی تعلقات کے لیے زوج کی ضرورت ہوسکتی ہے۔شریعت نے یا ملکی قانون نے اس ضرورت کی تکمیل کو غلط نہیں قرار دیا ہے۔ شادی کے لیے کم سے کم عمر تو قانون نے مقرر کی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے۔اگر مرد صحتمند ہے، عورت کے ہر طرح کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہے تو کسی بھی عمر میں شادی کرنے پر کوئی شرعی یا قانونی پابندی نہیں ہے۔
میری رائے میں تو آپ بہن بھائیوں کو اس معاملہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مخالفانہ رویہ اختیارنہیں کرنا چاہیے۔ ان کی دوسری شادی کو اپنے لیے مالی طورپر کوئی خطرہ تصور کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ جائیداد کے نئے وارثوں سے خوفزدہ ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔
میرے خیال میں آپ کے والد اس عمر میں اس لیے شادی نہیں کررہے ہیں کہ انہیں بچے کی خواہش ہے۔ چھوٹے بچے تو پوتے پوتیوں ،نواسے نواسیوں کی شکل میں الحمداﷲ ان کے گھر میں ہیں۔ دراصل انہیں اپنے لیے ایک ساتھی کی ضرورت ہے۔ اس ساتھی کامتبادل کوئی دوسرا رشتہ داریا ایک یا چند ملازم نہیںہوسکتے۔
اپنے والد صاحب کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کی حمایت کیجیے ۔آپ ان کے لیے ‘‘کوئی مناسب خاتون’’ تلاش کرنے میں اپنے خاندان کے بزرگوں کی معاونت بھی کرسکتی ہیں۔

 

 


***

کریڈٹ کارڈ کا قرض

سوال: میرے شوہر نے تقریباًپانچ سال پہلے کریڈٹ کارڈ بنوایا تھا۔ ادا کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہوئے گھریلو ضرورت کی کچھ اشیاء اس کارڈ پر خرید لیں۔ بل آنے پر ادائی کردی لیکن پھر آہستہ آہستہ کریڈٹ کارڈ پر خریداری بڑھتی گئی اور بل کی ادائی میں تاخیر ہوتی رہی۔ جب کریڈٹ کارڈ کا قرضہ کافی چڑھ گیا تو انہوں نے اس کی یکمشت ادائی کے لیے ایک دوسرے بنک سے قرض لے لیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بینک کے قرض کی ادائی میں چلا جاتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں جب تنخواہ میں گزارا کرنا بھی مشکل ہو وہاں ایک بڑی رقم قرض کی ادائی میں چلی جائے تو پریشانیاں کس قدر بڑھ جاتی ہیں، اس کا اندازہ متاثرہ شخص یا متاثرہ خاندان کو ہی ہوسکتا ہے۔
برائے مہربانی اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی طریقہ اور دعا بتائیں۔

 

جواب: ایک مشہور کہاوت ہے کہ چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیلائے جائیں۔ کریڈٹ کارڈ اسکیم ہو یا قرض پر روپیہ حاصل کرنے کی دوسری آسان و پرکشش اسکیمیں ان سب میں پاؤں پھنسانے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ بچار کرلینی چاہیے۔ سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اپنی ادائی کی استعداد(Payback Capacity) خوب اچھی طرح جانچ لینی چاہیے۔
آپ کے شوہر نے بھی دوسرے کئی لوگوں کی طرح اپنی استعداد سے کہیں زیادہ بوجھ اپنے سر پرلے لیا۔ اب یہ بوجھ ناصرف ان کے لیے بلکہ ان کے سب اہلِ خانہ کے لیے بھی شدید مالی مشکلات اور ذہنی پریشانیوں کا سبب بنا ہوا ہے۔
مالی تنگی دور ہونے اور قرض سے نجات کے لیے آپ نے کوئی طریقہ پوچھا ہے۔
موجودہ صورتحال سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر کی مددگار بنیں۔ اس بات کا جائزہ لیجیے کہ اپنی تعلیمی قابلیت کی بناء پر آپ کسی جگہ ملازمت کرکے یا گھر بیٹھے کوئی مناسب کام کرکے آمدنی کے حصول میں کس قدر معاون بن سکتی ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو سلائی کڑھائی، اسکول میں تدریس، ٹیوشن وغیرہ کے ذریعہ اچھی رقم کماسکتی ہیں لیکن اعتماد کی کمی اور جھجک کی وجہ سے یا اس خیال سے کہ ہمارے رشتہ دار یا محلے والے کیا کہیں گے، وہ مالی مشکلات جھیلتی رہتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں آپ کو اپنے شوہر کا عملی طور پر ساتھ دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچناچاہیے۔
بطور روحانی علاج رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ آلِ عمران (3)کی آیت 37:
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر روزگار میں برکت و ترقی، قرض سے نجات اور خیرو برکت کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
آپ اور آ پ کے شوہر وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یا رزاق کا ورد کرتے رہیں۔
ہر جمعرات کم از کم اکیس روپے خیرات کردیاکریں۔

 

 


***

 

 

 

 


***

 

 

 

 


***

 

 

 

 

 


***

 

 

 

 


***

 

 

 

 

 


***

 

 

 

 


***

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے سوال:   میں ...

روحانی ڈاک – ستمبر 2020ء

   ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑   ***   اولاد نرینہ کے لیے ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *