سیرت طیبہﷺ — از خواجہ شمس الدین عظیمی
سیرت طیبہﷺ — از خواجہ شمس الدین عظیمی
سیرت طیبہﷺ — از خواجہ شمس الدین عظیمی
اسلامی ہجری تقویم کے لحاظ سے سال کا آٹھواں مہینہ ’’شعبان المعظم‘‘ کہلاتا ہے۔ اس مبارک مہینے کو یہ اعزاز اور شرف حاصل ہے کہ رسولِ رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ شعبان میرا مہینہ ہے جبکہ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘۔ (الجامع السیر)۔۔۔۔۔
شعبان کی پندرہویں شب گناہ گاروں کی بخش کی رات ہے۔ اس رات خداوندتعالیٰ کی خصوصی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمتیں اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ نے اس مبارک رات کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے۔
ترجمہ: ’’حم ، قسم ہے واضح کردینے والی کتاب کی! یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے ۔ بیشک ہم لوگوں کو آگاہ کردینے والے تھے ۔ اس رات میں ہرمحکم کام کافیصلہ صادر کیاجاتا ہے۔ وہ فیصلے ہمارے ہوتے ہیں اور ہم ہی بھیجنے والے ہیں‘‘۔ (سورۂ دخان۔ آیت 2 تا 5)
مفسرین کرام کی رائے کے مطابق اس آیت مبارکہ میں جس رات کا ذکر ہے وہ شعبان کی 15 ویں شب ہے اور اِسے شب برأت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات حضور پاکﷺ کو بستر پر نہ پایا تو میں پریشان ہوگئی اور آپ ﷺ کی تلاش میں جنت البقیع پہنچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ دعا میں مشغول ہیں۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! اتنی رات گئے آپ قبرستان میں کیوں تشریف فرماہیں؟‘‘۔۔۔۔۔ تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! آج شعبان کی پندرہ تاریخ ہے آج کی رات اللہ تعالیٰ آسمان ِدنیا میں نزول فرماتا ہے اور اس کی بخشش و عطا اس کے بندوں پر اس قدر ہوتی ہے کہ قبیلہ بنوکلب کی بکریوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیا جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی حدیث نمبر672)
اس واقعہ کی بناء پر علمائے کرام پندرھویں شب کو قبرستان جانے اور مومنین کی ارواح کو ایصال ثواب پہنچانے کو افضل عمل قرار دیتے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اس رات کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اس رات کئی قبریں کھدیں، اور قبروالا اپنے عیش و سرور میں مست ہے، اس رات کئی کفن دھل گئے اور کفن والا بازار میں بے خبر گھوم رہا ہے۔ اس رات کئی مکان بن گئے اور مکان والے کی موت قریب آگئی۔ اس رات کئی آدمی ملک و حکومت چاہتے ہیں مگر ان کی تباہی و بربادی کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ رات ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہو اللہتعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت کروا لیں‘‘۔
روایات کے مطابق اس رات اللہ پاک کے احکام کے مطابق کائنات کے انتظامی ارکان سال بھر کے لئے تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کی زندگی اور موت، تندرستی اور بیماری، خوشمالی اور تنگدستی یعنی تمام مخلوقات کے لیے وسائل کی فراہمی کا بجٹ تیار کرتے ہیں۔
شعبان کی پندرہویں شب گناہ گاروں کی بخش کی رات ہے۔ اس رات خداوندتعالیٰ کی خصوصی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمتیں اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ اس شب میں للہ رب العزت اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور معافی چاہنے والوں کو معاف کرتا ہے اور رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور بغض رکھنے والوں کو اِن کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ (بہیقی شریف)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورسرورِکائناتﷺ شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے اور فرماتے تھے کہ اپنی جانوں کو پاک کرو۔ اپنے سینوں کو صاف کرو، کیوں کہ اس مبارک مہینہ میں رب العزت کے حضور اعمال پیش ہوتے ہیں۔ (شمائل ترمذی۔صفحہ نمبر177)
اس ماہ میں روزے رکھنے اور اس رات کثرت سے توبہ واستغفار کرنے کو پسندیدہ طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا، واپس آجانا، بچھڑ کر مل جانا اور شرمسار ہو کر خدا کی جانب متوجہ ہونا، ہمارے پالنے والے کو، ہمیں زندگی عطا کرنے والے کو اور ہمارے رب کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اظہار ندامت کے ساتھ عجزوانکساری کے ساتھ اللہ کے حضور جھک جاتا ہے۔ یہ رات کثرت سے استغفار کرنے کی ہے۔ اس رات ہمیں چاہیئے کہ اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہمارا نام مشرک، کینہ پروریاقطع رحمی یا حقوق العباد میں حق تلفی کرنے والوں کی فہرست میں تو شامل نہیں۔ اگر ہم میں بہت سی برائیاں یا خرابیاں موجود ہیں تب بھی اس بے پناہ فضیلت والی رات میں جس میں اللہ کی رحمت پکار رہی ہے کہ جیسے بھی ہو، آؤ! پلٹ آؤ، اپنے رب کی جانب۔ یہ دربار نا امید ی کا دربار نہیں ہے اگر سوبار بھی توبہ توڑ چکے ہو تو تب بھی آجاؤ کیوں کہ اس رات رحمن و رحیم کا خصوصی فضل ہر مانگنے والے کی طلب کو پورا کرنے والا ہے۔
علامہ شامی اپنی سیرت کے ’’باب الصلوٰۃ والسلام‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’سورۂ الاحزاب کی یہ آیت کہ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اپنے پیارے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں اور اے ایمان والو! تم بھی اپنے نبیؐ کی بارگاہ میں اس طرح درودوسلام عرض کیا کرو جس طرح اس کا حق ہے (یعنی خوب محبت اور کامل ادب کے ساتھ)۔ ہجرت کے دوسرے سال شعبان المعظم ہی کے مقدس مہینے میں نازل ہوئی۔۔۔۔۔صلی اللہ علی حبیبہ محمد وسلم۔۔ لہٰذا اس مہینے میں پہلے سے بھی زیادہ درود پاک پڑھنے کی کثرت کرنی چاہئے اور جو درود و سلام آسانی سے یاد ہو، وہ پڑھنا چاہئے‘‘۔
اس مبارک شب میں ذکرِ الٰہی کے ذریعے سے لوگوں کے دلوں کی صفائی ہوتی ہے اور دلوں سے زنگ اُترتے چلے جاتے ہیں۔
تلاوت قرآن پاک کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ درود وسلام پورے ذوق اور صدقِ دل سے پڑھنا اور سننا چاہئے کہ رضائے رب کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ قبرستان جاکر مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی و ایصالِثواب کرنا چاہئے کہ یہ سنتِ نبویؐ ہے۔ حضور اقدسﷺ خود اس مبارک شب میں ایسا کرتے تھے۔ صلوٰۃ قائم کرنی چاہئے۔ سورہ یٰسین کی کثرت اور دعا سے ترقیٔ رزق اور درازیٔ عمر، گیارہ سو مرتبہ استغفار سے گناہوں کی معافی اور فاتحہ کے بعد سات مرتبہ ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھ کر 50 رکعت دو، دو رکعت کرکے پڑھنے اور پھر ایک سو گیارہ مرتبہ آیت الکرسی کا ورد کرنے سے دل کی ساری آرزوئیں اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور رحمت کے دروازے اس بندے کے لئے کُھل جاتے ہیں۔ عذابِ قبر سے نجات کے لئے دو رکعت نفل میں فاتحہ کے بعد سورہ ملک اور پھر دو رکعت نفل نماز میں فاتحہ کے بعد سورہ مزمل پڑھیں، کیونکہ سورہ مزمل اور سورہ ملک عذابِ قبر سے نجات کا ذریعہ ہیں۔
اس رات نوافل میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات پرغور و فکربھی کریں۔ قرآنِ پاک کی تلاوت اور مفہوم میں غور کرنے سے اطمینان قلبی نصیب ہوتا ہے۔
شب برأ ت کی مقدس رات میں ہمیں چاہیئے کہ نیک اعمال کا عہد کریں اپنے مسلمان بھائی کی عزت و آبرو کی حفاظت کا وعدہ اپنے رب سے کریں۔ اپنے دلوں میں رحم دلی کے جذبات پیدا کریں۔ باہمی منافقتوں کو ختم کریں اور اپنے اہل وعیال ، قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ اللہ کے پسندیدہ طریقہ پر معاملات کو استوار کرنے کی کوشش کریں۔
اس رات کی عبادات کے سلسلہ میں اولیائے کرام اور بزرگانِ دین نے مختلف طریقہ بتائے ہیں۔
شرح احیاء العلوم میں تحریر ہے کہ ’’شعبان کی پندرہویں شب میں مشائخ نے بعد نماز مغرب چھ رکعت تین سلاموں کے ساتھ ادا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے۔ دو رکعت کی نیت باندھے اور دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص چھ مرتبہ پڑھے۔ دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر سورۂ یٰسین پڑھے اس کے بعد خیر و عافیت اور دارزیٔ عمر کی دعا مانگے۔ دوبارہ پھر اسی ترکیب سے دو رکعت پڑھے اور سورہِ یٰسین پڑھ کر وسعتِ رزق کی دعا مانگے پھر تیسری مرتبہ اس طرح دو رکعت پڑھے اور سورۂ یٰسین پڑھنے کے بعد ایمان پر خاتمہ کی دعا مانگے‘‘۔
بعض علماء نے اسی شب میں غسل کے بعد مندرجہ ذیل ترکیب سے نماز پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا ہے۔
پہلے دو رکعت نماز تحیتہ الوضو اس ترکیب سے پڑھے کہ دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیتِالکرسی ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھے۔ دو دو رکعت کے بعد ہر رکعت میں سورۂ قدر ایک مرتبہ اس کے بعد سورۂ اخلاص پچیس مرتبہ پڑھے۔
بزرگانِ دین نے ذکر و اذکار کے اور بھی کئی طریقے بتائے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں۔
*۔۔۔ سورۂ دخان کی تلاوت کریں اور معنی و مفہوم پر غور کریں۔
*۔۔۔چودہ شعبان کی شام بعد نماز مغرب چالیس مرتبہ لاحول ولا قوۃ اِلاَ با للہ العلی العظیم پڑ ھیں۔
*۔۔۔کثرت کے ساتھ استغفار پڑھے اور اپنے پچھلے گناہوں پر اللہ رحمن و رحیم سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ ان غلطیوں اور گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے۔
[box type=»shadow» align=»» class=»» width=»»]
شبِ برأت کے موقع پر مندرجہ ذیل اورادو وظائف کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں عجز و انکسار کے ساتھ خود کو پیش کریں۔
1- سورۂ الدّخان ایک مرتبہ۔ باترجمہ معنی و مفہوم پر تفکر کے ساتھ
2- سورہ کوثر 21مرتبہ۔ باترجمہ، معنی و مفہوم پر تفکر کے ساتھ
3- استغفار 100 مرتبہ
استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ
4- کلمہ طیبہ 300 مرتبہ
5- یا کریم 101 مرتبہ
6- رات کو دو بجے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز تہجد ادا کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے دو دو رکعت کرکے 12 رکعات ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ اخلاص (قل ھو اللہ) ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ دوسری رکعت میں دو مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھیں اس طرح ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ اخلاص بڑھاتے جائیں۔ بارہویں رکعت میں سورۂ اخلاص بارہ مرتبہ پڑھی جائے گی۔
7- نماز تہجد کے بعد یاحی یاقیوم 100 مرتبہ
8- درود خضری 100مرتبہ
صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم
9- نماز کے فوراً بعد مراقبہ کریں۔ مراقبہ میں یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ بیس منٹ مراقبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔
10— پوری رات میں کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے یاحی یاقیوم کو اسمِ اعظم قرار دیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ یاحی یاقیوم کثرت کے ساتھ پڑھنے سے غیبی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔
معراج
تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ جس پر عقل ناقص آج بھی حیران ہے ۔
سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ رب کائنات کے محبوب ترین وہ رسول ہیں جن پر اللہ پاک نے رسالت کا سلسلہ مکمل کرکے دنیائے آب و گل کو دین مستقیم کی دولت سے سرفرا ز فرمایا۔ خالق کائنات نے اپنے تمام رسل کو مختلف النوع کے معجزات سے نوازا ۔ لیکن خاتم النبیّن شافع محشرﷺ کو سفر معراج کی جو عظیم ترین ثروت سے نوازا وہ بلاشبہ تاریخ انسانیت کی سب سے عظیم الشان معراج ہے جس نے فکر انسانی میں وسعت بخشی اور انسانی عقل میں گیرائی بخشی۔
معراج عرج سے مشتق ہے جس کے معنی چڑھنے اور بلند ہو نے کے ہیں ۔ رسول اللہﷺ چونکہ ساتوں آسمان سدرۃ المنتیٰ اور اس سے بھی بلندی پر تشریف لے گئے تھے اور آیات و تجلیات خداوندی کا مشاہدہ کیا تھا ۔ اس لیے اس عدیم المثال واقعہ کو معراج کہا جاتاہے ۔ بعض مفسرین نے اصطلاحی امتیاز کے لیے مکہ معظمہ سے بیت المقدس کی سیر کو جس کا ذکر سورئہ نبی اسرائیل میں ہوا ہے ’’ اسری ٰ ‘‘ جبکہ بیت المقدس سے عرش بریں تک کے سفر کو جس کی صراحت سورئہ نجم اور صحیح احادیث میں ہے ’’معراج‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے ۔
معجزہ ایک ابدی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ کسی نبی یا رسول پر ایمان لانا یاان سے کسی معجزے کے رونما ہوتے دیکھ کر اس کی صداقت پر ایمان لانا ، دراصل اس قادر مطلق پر ایمان لانا ہے جس کی قدرت کا ملہ سے اس نبی سے یہ معجزہ صادر ہوا ہے ۔
معراج، کمال مصطفی ہے ، ارتقائے نسل انسانی کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بند گی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا ۔ معراج النبی ﷺتاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے جس پر عقل ناقص آج بھی حیران ہے ۔
روایت ہے کہ نبی رحمتﷺ آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے آ کرتا جدار کون و مکاں کو جگایا اور عرض کی، ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اللہ رب العزت نے آپﷺ کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ ‘‘
چنانچہ حضور ﷺ کو براق پر سوار کرکے بیتِ المقدس لے جایا گیا جہاں تمام انبیائے کرام نے آپﷺ کی امامت میں نماز پڑھی اور پھر آپ ﷺ کے آسمانی سفر کا آغاز ہوا۔ تاجدار کائنات تمام آسمانوں پر مختلف انبیائے کرام سے ملتے ہوئے سدرۃ المنتیٰ تک پہنچے ۔ اس مقام پر حضورﷺ کو نور کی جنت کی سیر کرائی گئی ۔پھر مہمان ذیحشمﷺ نے عرش معلی کی سیر کی ۔ آپ ﷺ مختلف پردوں سے گزرتے ہوئے’’قاب قوسین ‘‘ پر پہنچے ۔ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی میں جو باتیں ہوئی اس کلام کی کسی کو کچھ خبر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتی وصفاتی تجلیات اور فیوض و برکات سمیٹ کرآپﷺواپس کرئہ ارضی کی طرف پلٹے ۔
بے شک کسی نے خوب کہا ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ۔ ‘‘
معراج کوعلامہ اقبال ایک شعر میں یوں تعبیر کرتے ہیں ؎
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐسے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
شب معراج کے وردو وظائف
اللہ رب العزت کا ارشاد ِ گرامی ہے ۔ ’ ’اور تمہارا رب کہتا ہے ، مجھ سے دعا مانگو ، میں تمہاری دعا کو قبول کروںگا ۔ ‘‘ (سورۃ مومن ) اللہ تعالیٰ کا درہی ہمارے پاس واحد سہارا ہے ، جو کچھ بھی ملنا ہے ، ہمیں اسی در سے ملنا ہے ۔ رب ّ َ ِ جلیل کے علاوہ عطا کرنے والا اور کون ہے ۔۔۔؟ وہی ہمارا خالق ہے ، مالک ہے ، رزاق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے ۔ ’’ یالطیف ‘‘ جس کا مطلب ہے ۔ ’’ اے نرمی کرنے والا ‘‘ چوں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی اور نرمی کا معاملہ فرماتا ہے ، اس لیے وہ اللہ ، لطیف بھی ہے۔ لطیف ایسی چیز کو کہتے ہیں ، جسے محسوس کیا جاسکے ، مگراسے دیکھا یا چھوا نہ جا سکے ۔ خوشبو اور ہوا کے علاوہ کئی اور چیز یں بھی ہیں ، جنہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے، مگر دیکھا یا چھوا نہیں جاسکتا ۔ یہی تعریف اللہ تعالیٰ پر بھی صادق آتی ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی کما ل قدرت اس کی موجودگی پر دلیل ہے ، مگر حواس ِ خمسہ میں سے آنکھ اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی اور ہاتھ اسے چھونے سے عاجز ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے اس نام کے حوالے سے شب ِ معراج کا خاص وظیفہ درج ذیل ہے ۔ اسم الہٰی ’’ یا لطیف ‘ ‘ کا ورد ہر قسم کی مشکل کشائی کے لیے بڑا ہی موثر ہے ۔ آپ کا کوئی بھی مسئلہ خواہ بے روزگاری ، ترقی ، کاروبار، صحت ، تعلیم ، تنگی رزق، ادائیگی قرض ، ترقی ملازمت ، سحر ، نظر بد ، پریشانی ، مقدمہ ، بچوں یا بچیوں کی شادی سے متعلق یا ان کے علاوہ ہو ۔ انشااللہ العزیز ، آپ کا ہر مسئلہ اللہ جل ّ شانہ کے اس پاک نام کی برکت سے یقینا حل ہوجائے گا ۔ پورے خشوع و خضوع ، مکمل آداب اور پوری ترکیب کے ساتھ عمل کریں ۔ بزرگان دین نے اسے حاجت روائی کے لیے بڑا ہی زور اثر اور عجیب عمل قرار دیا ہے۔ شب معراج یعنی 27، رجب کی شب طہارت ِ کا ملہ کے ساتھ بعد نماز عشاء گیارہ مرتبہ نماز والا درود شریف پڑھیں ، پھر اسم الہٰی ،’’یا لطیف ‘‘ کی ایک تسبیح پڑھیں جو ایک سو انتیس دانوں پر مشتمل ہو ۔ تسبیح مکمل ہونے پر سورۃ الانعام کی آیت 103پڑھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے ۔’’ اس کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے اور وہ نہایت لطیف اور خبر دار ہے۔ ‘‘ پھر سورۃ الشوریٰ کی آیت 19پڑھیں ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔’ ’ اللہ اپنے بندوں پر نرمی رکھتا ہے جس کو چاہے ، روزی دیتا ہے اور وہی زور آور زبردست ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد اپنے مقصد کی دعا اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ مانگیں ۔
اس شب مبارکہ میں قرآن مبارکہ میں قرآن پاک کی تلاوت ، درود شریف کی کثرت اور اپنے گناہوں پر آنسو بہانا چاہیے اس شب صلوٰۃ التسبیح پڑھنا بھی نہایت مستحسن ہے ۔ رب کعبہ سے دلی دعا ہے کہ وہ ہمیں اس شب مبارکہ کی خصوصی برکات سے سرفراز فرمائے ( آمین ثم آمین )۔
روحانی ڈائجسٹ جولائی 2010 سے انتخاب
معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر
جب میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامیﷺ کو رموز مشیّت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا۔
جب دنیائے انسانیت عقل و شعور کے لحاظ سے سنِ بلوغت کی حدود میں داخل ہوئی تو خالقِ کائنات کی منشاء کے مطابق اس امر کو ضروری سمجھا گیا کہ انسانی شعور کی علم کی بنیاد پر تکمیل کردی جائے اور اس اَمر کے لئے اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب، باعثِتخلیقِکائنات سیدناحضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات کو معبوث فرمایا۔
اس عدیم النظیر موقع پر میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامی کو رموزِ مشیت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا اور نظامِ ِکائنات کے راز ہائے درون پردہ سے آگاہ فرمایا۔ یہ عظیم الشان واقعہ درحقیقت اسلام کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی نوید بھی تھی۔ قرآن حکیم میں اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے۔
ترجمہ: ’’وہ ذات پاک ہے ، جو لے گیا راتوں رات اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔ تا کہ ہم اسے اپنی (قدرت) کی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔(سورہ بنی سرائیل)
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہﷺ کی بعثت کو بارہ سال پورے ہو چکے تھے۔ اس دوران رسول اللہﷺ اور آپﷺ پر ایمان لانے والے افراد دکھوں اور اذیّتوں کے بے شمار مراحل سے گزر چکے تھے۔ بہت سے اہلِ ایمان تو کفار کی اذیتوں کی تاب نہ لاکر جامِ شہادت بھی نوش فرماچکے تھے۔ رسول اللہﷺکا سفرِ طائف، کفارِ مکہ کی مسلسل ایذا رسانیاں اور شعب ابی طالب میں اذیت و کرب کے تین سال انہی تین سالوں کے دوران آپﷺ کے ہمنوا، ہمدرد و غمگسار چچا حضرت ابوطالب اورہمدم ودمساز زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا وصال پاہوا۔
انسانی شعور میں جتنی مشکلات و مصائب کے احساسات شمار کئے جاسکتے ہیں، اللہ کے محبوبﷺ صبر و برداشت کے ان تمام مراحل کوطے فرما رہے تھے کہ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو معراج کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
رجب کی ستائیسویں شب جب آپ اپنی چچا زاد بہن اُمَ ہانی کے گھر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اس سفر سے متعلق مشیّت ایزدی سے آگاہ کیا۔ پھر حضرت جبرائیلؑ آپ ﷺ کو چاہِ زم زم کے پاس لے گئے اور آپ کاسینہ چاک کر کے قلب اطہر کو باہر نکالا اور انوار وتجلّیات کے ذخیرہ میں مزید اضافہ کرکے دوبارہ سینہ میں محفوظ کردیا۔ پھر حرم سے باہر آئے تو بّراق موجود تھا چنانچہ بّراق کے ذریعہ اس سفر کا آغاز ہوا۔ خانہ کعبہ سے آپ جبرائیل امینؑ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ پہنچے، جہاں جملہ انبیاء علیہ السلام موجود تھے۔یہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے حضورِاکرم ﷺ کی اقتداء میں صلوٰۃ ادا کی۔ امام الانبیائ، باعثِ تخلیق کائنات، محبوب رب للعالمین سیدنا حضورﷺ جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے گئے، رسول اللہﷺ نے دودھ کاپیالہ پسند فرمایا، اس پر جبرائیلؑ نے کہا کہ ’’آپ ؐنے فطرت کو اختیار کیا‘‘۔
بعدازاں آپ ﷺ آسمانوں کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ پہلے آسمان پر ابوالبشر حضرت آدم ؐ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر حضرت عیسٰی ؑنے خاتم النبیین ﷺ کا استقبال کیا۔ تیرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں آسمان پر حضرت ہارون السلام اور چھٹے آسمان پرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے ’’بیت المعمور‘‘ کامشاہدہ کیا۔ ساتوں آسمان کے بعد سدرۃ المنتہی تک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے ہمراہ رہے اورپھر عرض کی کہ اس سے آگے مجھے اذنِِ سفر نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے بعدحضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خالق کائنات کی تسبیح وتقدیس فرمائی اور حجاب عظمت کا معائنہ کیا۔ پھر آپ ﷺ پر حجاب کبریا منکشف ہوا اور آپ ﷺ نے مقام محمود میں اللہ تبارکتعالیٰ کا دیدار کیا۔
سفر معراج کے دوران رسول اللہﷺ نے عالمِِبرزخ میں موجود ارواح کی کیفیات مشاہدہ کیں۔ جزا اور سزا سے متعلق مختلف مشاہدات کا ذکر سیرت رسولﷺ اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ یہاں چند مشاہدات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
یہاںرسول اللہ ﷺ نے مختلف قوموں کو دیکھا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ دورانِ سفر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینوں کو نوچتے کھسوٹتے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیاکہ یارسول اللہ ﷺ! یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کیا کرتے اور اپنے بھائی بندوں پر حرف گیری کیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جس کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے اور وہ کچلے ہوئے سر دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آجاتے تھے۔ اس کے بارے میں جبرائیل ؑنے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نمازوں سے غفلت برتتے ہیں۔ پھر شافع محشر، سرکارِ دو عالم ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں اور جو کٹنے کے بعد دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجاتی تھیں۔ ان کے بارے میں جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وغط ونصیحت کرتے تھے، دوسروں کو نیک کاموں کی طرف راغب کیا کرتے تھے لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تھے۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر رکھا تھا۔ مگر کوئی شخص اس کو اٹھا نے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اس کے باوجود وہ مزید لکڑیاں لا کر اس میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ آپ ﷺکے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا، یہ وہ اشخاص ہیں جن پر حقوق اور امانتوں کا بار ہے اور جس کو یہ ادا نہیں کر تے لیکن مزید اپنے آپ پر بوجھ لا د لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ معراج شریف میں بارگاہ ِرب العزّت سے محبوب خدا، حبیب کبریا ﷺ کو جو عطیات و انعامات مرحمت فرمائے گئے ،مفسرین کرام نے ان میں سے تین کا ذکر بطورِ خاص کیا ہے۔
1۔سورۃ البقرہ کی آخری آیات
2۔ اُمَت محمدیہ کی بخشش کا وعدہ۔ (مگر وہ لوگ جو شرک کے مرتکب ہوں گے اس انعام سے محروم رہیں گے)۔
3 ۔ دن میں پانچ وقت صلوٰۃ(نماز)کی فرضیت
سفرِ معراج سے واپسی کے بعد جب آپﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں سے سفر کی ابتداء کی تھی تو روایات مطابق دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور آپﷺ کا بستر بھی اُسی طرح گرم تھاکہ گویا آپ ﷺ ابھی بستر سیِاُٹھ کر تشریف لے گئے ہوں۔
صبح جب اس عطیم الشان واقعہ کو آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے بیان کیا تو کفار نے استہزاء کرنا شروع کردیا۔ ابوجہل کچھ لوگوں کے ہمراہ ابوبکر صدیق ؓکے پاس پہنچا اور ان سے سارا قصہ بیان کیا۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا ’’یہ بات سچ ہے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔ اس موقع پر قریش کے کئی لوگوں نے بھی مختلف سوالات کیے۔ ایک سردار نے تجارتی قافلوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تین قافلوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور ایک قافلہ کے بارے میں بتایا کہ وہ آج پہنچے گا۔ کفار نے بیضا کے مقام پر چند لوگوں کو تصدیق کے لیے بھیجا تو انہیں تیسرا قافلہ آتا ہوا نظر آگیا۔ باقی دو قافلے بھی وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے۔
ترجمہ: ’’تارے کی قسم! جب غائب ہونے لگے، کہ تمہارے رفیق (محمد) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش ِنفس سے کوئی بات کرتے ہیں مگر وہ جو وحی کی جاتی ہے۔ ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ،طاقتور نے۔ پھر وہ پورے نظرآئے اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھے۔ پھر قریب ہوئے اور قریب ہوئے۔ اور آگے بڑھے۔ تو دو کمانوں سے فاصلہ پر یا اس سے بھی کم۔ پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف وحی کی۔ دل نے جو دیکھا جھوٹ نہ دیکھا۔ پس تم اُس میں سے اُن سے جھگڑتے ہو۔ اور انہوں نے اُس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرۃ المنتہی کے پاس، اس کے نزدیک جنت الماوٰی ہے۔ اور سدرہ پرچھا رہا تھا۔ جو چھارہا تھا۔ ان کی آنکھ نہ تو اور توطرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔انہوں نے اپنے رب کی کتنی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔ (سورۂ النجم۔ آیت 1۔18 )
بلاشبہ معراج شریف کی رات اُمِت مسلمہ کے لیے خصوصی رحمتوں اور برکتوں کی رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت کی جانب سے اُمِت محمدیہ ﷺ کو جو انعامات وا کرامات عطا کیے گئے ان کا تسلسل آج بھی جاری وساری ہے اور اس رات کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے کے لیے بزرگان دین اور علمائے کرام نے عبادات کے مختلف طریقے اپنائے ہیں اور عوام الناس کے استفادہ کے لیے بھی کچھ طریقہ وضع کیے ہیں۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ فرماتے ہیںکہ ماہِ رجب کی پچیس تاریخ کو روزہ رکھا کرو۔ اس لیے کہ جو نعمت رسول ﷺ کو شب معراج میں عطا کی گئی۔ اس روز روزہ رکھنے والے کو اس نعمت میں سے حِصّہ ملتا ہے۔ آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص رجب میں ہزار بار حسبِ ذیل استغفار پڑھے گا تو حدیث ِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ میں اپنے کرم سے اُس کو بخش دوں گا،استغفار کے کلمات یہ ہیں۔
اسْتَغْفِرُ اللَّهَ ذَا الْجَلالِ وَالْإكْرامِ مِنْ جَميعِ الذُّنُوبِ وَالْآثامِ
اس کے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیا ء ؒنے فرمایا کہ ماہِ رجب میں ایک نماز درازئیِ عمر کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ اگر کوئی آخر رجب میں یہ نماز ادا کرتا ہے اور اس کا مقصد درازیِ عمر ہوتا ہے تو اسے زیادہ عمرملتی ہے۔ اس نمازکا طریقہ یہ ہے۔
بارہ رکعت تین سلاموں کے ساتھ پڑھے۔ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک بار، سورئہ اخلاص تین بار اور سلام پھیر نے کے بعد دس مرتبہ یہ دُعا پڑھے۔
یَااَجْلِ مِنْ کُلّ جَلِیْل وَ یَا اعَزمِنْ کُلّ عَزِیْز یَا اَحَد خَیْر مِنْ کُلّ اَحَدْ اَنْتَ رَبّیِ لَا رَبّ لِی سِوَاْکَ یَا غِیاثْ اِلْمُسْتَغْیثِیْن وَ رِجَاھُم اَغِثْنَی بِفَضْلِکَ وَمَدفیِ عُمَریِ مَداَ طَوِیٰلاَ وَاعَطَنِی مِنّ لُدّنِکَ عُمَرًاَ فِیْ رَضَاکَ بِرَحْمِتکَ یَا کَریِمُ یِاوَھَابْ۔
(سیرالاولیاء از امیر خورد۔ مترجم: اعجازالحق قدوسی۔ صفحہ نمبر597)
معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے شب معراج کی عبادت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے:
’’اس رات ادب اور احترام سے تمام آداب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یاحی یا قیوم اور درود شریف پڑھنا چاہیے۔
احادیث مبارکہ میں ملتا ہے حضور پاک ﷺ کثرت سے نوافل ادا کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ اتنی طویل رکعتیں ادا کرتے تھے کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ شب معراج میں حسبِ استطاعت زیادہ سے زیادہ نوافل قائم کریں۔ جب مومن پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو غیب اس کے مشاہدے میں آجاتا ہے۔ ہمیں حضور پاک ﷺ کی محبت اپنی زندگی میں داخل کرنی چاہیئے۔ شب معراج بڑی بابرکت گھڑی ہے۔ اس ساعت اپنے گناہوں کی سیاہبختی دور کرکے اس پردے کو ہٹانا چاہئے جو محدودیت اور شقاوت کا باعث بن گیا ہے‘‘۔
(کتاب ’’اللہ کے محبوب ﷺ‘‘، ازخواجہ شمس الدین عظیمی۔ صفحہ 230 )
روحانی ڈائجسٹ اگست 2006 سے انتخاب
نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے ہیں تو کبھی کفر و باطل کے انسانیت سوز ہنگامے۔
حق پرستوں سے باطل کے پجاریوں کو ہمیشہ بیر رہا ہے۔ سانحہ کربلا بھی اسی قدیم سلسلے کے دوکرداروں سے دنیا کو روشناس کرتا ہے۔ سانحہ کربلا آج سے چودہ سو سال پہلے رونما ہوا لیکن اس کی یاد ابھی تک زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ بقول شاعر
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
حریت ، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو امام حسین ؓکی قربانی کو مشعل راہ پایا۔
رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اسلامی ِتعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائےراشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔
یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لہٰذا مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے۔ امام حسین ؓ ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا کے لیے میدان عمل میں اترے۔
راہ حق پر چلنے والوں کے ساتھ جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جورو جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ خاندانِ رسالت کے ارکان پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کیا جو خود کو مسلمان کہتے تھے، بڑا روح فرسا ہے….
حضرت امام حسین ؓ نے حالات کی عدم موافقت کے باوجود آوازِ حق بلند کرکے پوری نوعِ انسانی کے لیے یہ مثال قائم کردی کہ اہلِ حق کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ باطل قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اپنے لہوکا نذرانہ دے کر حق کی شمع کو روشن رکھیں۔
حضرت امام حسین ؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ فرماتے ہیں ؎
شاہ است حسین ؓ، بادشاہ است حسین ؓ
دین است حسین ؓ، دین پناہ است حسین
سردار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
***
زندہ قومیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی قدر کرتی ہیں ، ان قربانیوں کا تذکرہ کرتی ہیں اور اُن کے کردار اور طرزِ فکر سے سبق حاصل کرتی ہیں۔
ہمیں محرم الحرام کے مہینے میں حضرت امام حسینؓ کی یاد مناتے ہوئے یہ ضرور غور کرنا چاہیے کہ حضرت امام حسینؓ کی اور آپؓ کے اہلِ خانہ کی اس قربانی کا مقصد کیا تھا….؟
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت حق کی خاطر ڈٹ جانے اور اپنی جان کی پرواہ تک نہ کرنے کا ایک بےمثال سبق ہے۔
صدق خلیل بھی ہے عشق
صبرحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں
بدر و حنین بھی ہے عشق
ہر سال محرم کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس المناک واقعے کی یاد میں غم کی تصویر بن جاتی ہے۔
ہمیں امام حسین ؓ کی اس طرزِ فکر کو سمجھنا بھی ضروری ہے جس کے تحت امام حسین ؓ کی شہادت رہتی دنیا تک کے لئے اَمر ہوگئی۔
امام عالی مقامؒ کی شہادت کے واقعہ میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں ۔
***
حضرت اما م حسین ؓ کا کردار اور آپ ؓ کی طرز فکر۔ وہ آفاقی پیغام ہےجو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو در س عمل اور ولولہ شوق عطا کرتارہےگا۔
سانحہ کربلا میں حسینی ؓ طرز ِفکر اور یزیدی طرزِفکرہمارے سامنے آتی ہے۔
طرزِفکرکے یہ دونوں رخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کاہر نظام اور ہر فعل یزید یت ہے جبکہ علم و معرفت خدا ترسی،انصاف اور انسان دوستی حسینی ؓ طرزِ فکر ہے ۔
امام حسین ؓ شر کے مقابلے میں خیر کے ترجمان ہی نہیں حق کے نگہبان بھی ہیں۔
قتل ِ حسین ؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
واقعہ کربلا زمین پر حاکمیت الہٰیہ قائم کرنے ، انسانوں کوان کے بنیادی حقوق دلوانے کا معرکہ تھا۔
اس معرکہ میں نواسہ ٔ رسول نے اپنی آل و اولاد کے ساتھ اپنی جان تک قربان کردی اور زبان حال سے اس بات کا اعلان کر دیا۔
سردار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
***
نواسۂ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتولؓ، جنتی نوجوانوں کے سردار ، شہیدِ کربلا سیدنا حضرت امام حسین ؓ ابنِ علی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضورِ ﷺ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنینِ کریمین ؓ حضور ﷺکے سینہ مبارک پر کھیل رہے تھے۔
میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اللہ ﷺ!کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتےہیں ….؟’’
آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘ کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں ’’۔
ایک موقع پر حضور ﷺ نے حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا ‘‘ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا’’ … [ابنِ ماجہ]
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے سیدنا حضرت امام حسین ؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ سے فرمایا ‘‘کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے’’۔
ایک موقع پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں۔ جو حسین ؓ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین ؓ میری اولاد کی اولادہے’’۔ [ترمذی ]
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا