Uncategorized

قلب کے اسرار و رموز
[/box]
عرصہ دراز سے ہم یہ سنتے اور بولتے آرہے ہیں کہ انسانی جذبات و خیالات اور فیصلہ کرنے کا تعلّق دل سے ہوتا ہے روز مّرہ کی بول چال میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔مثلاً یہ کہ میرے دل میں خیال آیا، میرے دل نے چاہا ، میرا دل نہیں مانتا۔ آپ میرا یقین کیجئے ، میرا دل کہتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ہر زبان ، ہر دور کے ادب اور شاعری میں محبت اور نفرت، دوستی اور دشمنی، دیانت اور خیانت، ایثار و خودغرضی، بخل اور سخاوت جیسے جذبوں اور اعمال نیز روحانی معاملات کا رشتہ دل ہی سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ اسی تصور کے تحت دل جیتے اور ہارے جاتے ہیں۔ محبوب دلوں ہی میں بستے ہیں۔ دلوں کی کشادگی اور تنگی ہی سے باہمی تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں دل کشی، دل فریبی، دل نوازی، دل ربائی، دل داری، دریا دلی وغیرہ جیسی ترکیبیں دل کے اسی تصور کی بنا پر رائج ہیں۔ دل میلا ہونا، دل صاف ہونا، دل ٹوٹنا،دل دُکھانا، دل بہلانا، دل لگانا، دل جلانا، دل خوش کرنا، دل کا باغ باغ ہوجانا،یہ تمام محاورے دل کے بارے میں اسی عمومی تصور کا نتیجہ ہیں جو انسانی معاشروں میں ہر دور میں موجود رہا ہے۔
دوسری جانب سائنسی علوم کی کتابوں میں ہم یہ پڑھتے اور سنتے رہے ہیں کہ انسانی دل کا واحد کام صرف دھڑکنا اور خون پمپ Pump کرنا ہے اور احساسات اور جذبات اور فیصلہ کے لیے دماغ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ صرف دماغ ہی ہے جو سوچنے سمجھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چند برس پہلے تک جدید سائنس کا موقف یہی تھا کہ دل کے بجائے دماغ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتاہے۔ سائنس مادیت، ظاہر اور طبعیات کا علم ہے۔ سائنس کے مطابق دماغ میں موجود نیورون ہی تمام خیالات و جذبات کا منبع ہیں جبکہ قلب میں ایسی صلاحیت سائنس ڈھونڈ نہیں سکی تھی۔تاہم اب پچھلے چند برسوں میں انسانی جسم میں دل کے کردار کے حوالے سے سائنس کے نقطہ نظر میں ایک انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔
نیوروکارڈیالوجیNeuro Cardiology یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام Nervous System، کے نام سے علم طب کی ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھی گئی ہے جو دل اور دماغ کے باہمی تعلق کے امور سے بحث کرتی ہے۔ دل کے اعصابی نظام کی کارکردگی کے متعلق علم کی اس نئی جہت نیوروکارڈیالوجی کے مطابق دماغ ہی نہیں انسانی دل بھی سوچتا سمجھتا اور فیصلے کرتا ہے بلکہ قدرت نے دل کے اندر بھی دماغ کی طرح کام کرنے والا ایک نظام تخلیق کررکھا ہے۔
دل اپنا دماغ رکھتا ہے
ڈاکٹر ڈومینک سُرلDr. Dominique Surel ‘‘تھنکنگ فرام دی ہارٹ’’ Thinking from the Heartکے عنوان سے اپنے مقالے میں بتاتے ہیں کہ ‘‘نیوروکارڈیالوجی کے شعبہ میں گزشتہ دو عشروں میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دل ایک حواسی آلہ اور اطلاعات و معلومات کی چھان بین کرنے والا پروسسنگ کا مرکز ہے جو سیکھ سکتا ہے، یاد رکھ سکتا ہے، اس کے اندر اچھا خاصا پیچیدہ اعصابی نظام موجود ہے جو اسکو قلبی دماغ Heart Brain بناتا ہے۔ دل میں ایسے سرکٹ موجود ہیں جس سے دل کھوپڑی میں موجود دماغ سے بالاتر رہتے ہوئے آزادی سے خودمختارانہ طور پر کام کرسکتا ہے اور سیکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کا عمل بغیر دماغ کی مدد کے کرتا ہے۔دل کے اندر موجود انتہائی منظّم خودکار اعصابی نظام دوہرے یعنی قلیل اور طویل رابطے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گویا ہم اپنے سینے میں ایک دوسرا دماغ رکھتے ہیں’’۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے دی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ میتھ کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر رولن میک کریٹے Rollin McCraty اس بات کو مجازاً یوں کہتے ہیں کہ‘‘دل میں بھی ایک دماغ ہے’’ اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے‘‘دل ایسے اعصاب اور خلیات رکھتا ہے جن کا کام بالکل وہی ہے جو دماغ کا ہے،مثلاً یادداشت۔ یہ علم الابدان کی ایک حقیقت ہے، دل دماغ کو اس سے زیادہ معلومات بھیجتا ہے جو دماغ دل کو بھیجتا ہے’’۔
‘‘ہارٹ برین’’ یعنی ‘‘دل کا دماغ’’ کی اصطلاح 1991ء میں کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر Dr. J. Andrew Armourنے وضع کی، انہوں نے ہی ‘‘دل کے اندر چھوٹا سا دماغ’’ A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ۔ ڈاکٹر آرمر کی تحقیقات کے مطابق انسانی دل کے اندر تقریباً چالیس ہزار اعصابی خلیےNerve Cells پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔
ڈاکٹر آرمر لکھتے ہیں جدید سائنس ا نسانی دل کے متعلق اب یہ جاننے لگی ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں۔ دل کا اپنا دماغ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کرلے۔
ڈاکٹر آرمر کا کہنا ہے کہ دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی محدود یاداشت Short Term Memory کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ جس سے وہ نہ صرف متعین مدت کے لئے معلومات سٹور کرتا ہے ،بلکہ محسوس بھی کرتا ہے۔
دل ودماغ کا دو طرفہ رابطہ
1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ اُن کے مطابق کام کرتا ہے،لیکن 1970ءکی دہائی میں امریکی ریاست اوہائیو Ohio کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ American Psychologist کے مارچ 1978 شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھاTwo-way Communication between the Heart and the Brain
اُنہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضا کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپنی ہی کوئی منطق ودانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔
ڈاکٹر ارمر اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انسانی دل ایک خود مختار عضو ہے۔ دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضا حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انسانی دماغ دل کو ڈھرکن تیز یا کم کرنے کے لئے سگنلز بھیجتا ہے تو دل اپنی مرضی کے مطابق ری ایکشن کرتاہے کبھی کبھار تو دل کا ری ایکشن بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ دل کے دماغ کے نخرے کچھ زیادہ ہی ہیں ، کیونکہ وہ ایک مخصوص انداز میں سوچ بھی سکتا ہے جو کہ دل کو ایمرجنسی حالات میں دماغ سے پہلے فیصلہ کرنے کی تقویت بخشتا ہے۔
دل کا مقناطیسی میدان
ہیومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ کے محقق اور کتاب Heart-Mind Matrixکے مصنف جوزف پیئرس Joseph Chilton Pearce قلبِ انسانی کے متعلق کہتے ہے کہ‘‘ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔ دل کا کام ایک پمپ سے کہیں زیادہ ہے۔ دل کے خلیات میں 40 فیصد نیورون (دماغی خلیات)ہوتے ہیں۔ دل منی ریڈیو سٹیشن کی طرح برقی مقناطیسی تعدد Electro Magnetic Frequency پیدا کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر ایک خلیہ تک بدلتی دنیا سے اپنے تعلقات کا پیٖغام بھیجتا رہتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل انسانی جسم میں سب سےزیادہ طاقت ور الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو ایک تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرو میگنٹک فیلڈ جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ دل کی مخصوص دھڑکن پندرہ فیٹ مدار کا ایک الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ پیدا کرتی ہے جو انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوتا ہے۔ انسان اسی میگنیٹِک فیلڈ کے ذریعے دیگر انسانوں اور مخلوقات کے میگنیٹک فیلڈز سے جڑا تو ہوتا ہی ہے اسی کے ذریعے ہی یہ غیرمحسوس انداز میں دیگر انسانوں اور مخلوقات سے انرجی کا لین دین بھی کرتا ہے۔
دل کا دماٖغ اور جسم پر اثر
ہارورڈ میڈیکل اسکول کی تحقیق کے مطابق ‘‘دل اور دماغ کے درمیان کیمیائی بات چیت دونوں اعضاء کو متاثر کرتی ہے۔ افسردگی، تناؤ، احساس تنہائی،مثبت سوچ اور دوسرے نفسیاتی سماجی عوامل دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دل کی صحت ذہن پر اثر ڈال سکتی ہے’’۔
محققین کہتے ہیں کہ دماغ اور جسم دل سے آنے والی معلومات کے مطابق خود کو ڈھال کر ایک منفرد تجربۂ زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ دماغ اور بقیہ جسم، دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس تجزیہ کے نتائج کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتے ہیں۔ دماغ سے آنے والے ان نتائج کے جواب میں انسانی دل پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی Neural and Hormonalسگنل بھیجتا ہے اور اُن میں تبدیلی لاتا ہے ۔یہی تبدیلی زندگی سےمتعلق ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر شبت کردیتی ہے جو رویوں ،مزاج میں چھلکتا ہے۔ریسرچرز اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ منفی جذبات، دل کی دھڑکن اور دماغی لہروں دونوں کی ترتیب اور آہنگ میں خلل ڈالتے ہیں۔ دل جسمانی واسطوں سے دماغ کو پیغامات بھیجتا ہے اور دماغ انہیں جذبات میں ڈھال دیتا ہے۔ ڈاکٹر میک کریٹے اس کی تشریح کرتے ہیں کہ ‘‘دل کی دھڑکنیں مورس کوڈ کی طرح ہیں، ان پیغامات سے ایک شخص کے جذبات کی کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے’’۔
جدید سائنسی تحقیقات کے موجودہ دلائل یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ دل کی باتوں کو نظر انداز مت کیجئے ۔ دل کی سننا اور ماننا سیکھئے مگر ا س کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے دل کے اندر موجود دماغ کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ دل کی تبدیلی دماغ پر کس طرح سے مثبت اثرات مرتب کرکے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لاتی ہیں، اس بارے میں نیوروکارڈیالوجی اور نیوٹک سائنس کی تحقیق ابھی جاری ہے۔
قلبـ روحانیت کی نظر میں
دل کے دما غ اور جسم پر اثرات کے متعلق ماضی میں الہامی کتب، انبیائے کرام، اولیاء اللہ اور بزرگان دین بارہا انکشاف کرچکے ہیں….
الہای کتابوں ، صوفیائے کرام اور اولیاء اﷲ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ دل یعنی قلب دو طرح کے ہیں ایک جسمانی قلب جو بدن میں خون کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں میں ایک غیر مرئی روحانی قلب بھی ہوتا ہے جو نفس اور روح کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔
حضرت امام غزالیؒ نے انسان کے روحانی قلب کے حوالہ سے خاصی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، آپ اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:‘‘اگر تو ُیہ کہے کہ میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں تو تیرا یہ کہنا غلط ہے، کیونکہ اس قسم کی پہچان معرفتِ حق کی کنجی نہیں کہلا سکتی، یوں تو ڈھور ڈھنگر بھی اپنے آپ کو پہچانتے ہیں۔
قلب سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں جو سینے میں بائیں جانب رکھا ہوا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:‘‘جس کو ہم قلب کہتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی معرفت کی جگہ ہے۔ یہ وہ روح نہیں جو جانداروں میں ہوتی ہے، وہ نہ جسم ہے نہ عرض بلکہ فرشتوں کے گوہر کی جنس سے ایک جوہر ہے….دیکھنے ، سننے، سونگھنے، چھونے کی قوتیں ظاہر ی پانچ حواس ہیں اور خیال ، تفکر، حافظہ، توہم اور تذکرہ کی قوتیں باطنی پانچ حواس ہیں۔ یہ سب ظاہری اور باطنی لشکرِ قلب کے اختیار میں ہے اور قلب سب کا بادشاہ ہے۔ قلب گویا ایک روشن وشفاف آئینہ ہے اور برُے اخلاق دھواں اور ظلمات ہیں، جب قلب تک پہنچتے ہیں تو اسے زنگ لگا دیتے ہیں۔
[کیمیائے سعادت]
امام غزالیؒ نے انسان کے باطنی رُ خ کو ‘‘قلب’’ کے نام سے پکارا ہے اور یہ بھی واضح فرمادیا ہے کہ اس سے مراد وہ دل نہیں جو انسانی جسم میں گوشت کالوتھڑا ہے۔ بلکہ ایک آئینہ یا ایک عکس کی مانند نورانی جوہر ہے۔
[box type=»shadow» align=»» class=»» width=»»] قرآن میں قلب کے کئی درجات بیان ہوئے ہیں:
قلب سلیم:پاکیزگی والا قلب (سورہ ٔشعراء:89)
قلب منیب:رجوع کرنے والا قلب(سورہ ٔق:33)
قلب شہید: مشاہدہ کرنے والا قلب(سورہ ٔق:37)
قلبِ واجل: خوف رکھنے والا قلب (سورۂ بقرہ :74؛سورۂ حدید 16)
قلب مطمئنہ: مطمئن وپرسکون قلب (سورۂ رعد: 28)
قلب مُشیب: بکھرا ہوا قلب (سورۂ حشر: 14)
قلب اعمی : اندھا قلب (سورۂ حج: 46)
قلب ران: زنگ آلود قلب (سورۂ مطففین : 14)
قلب مختوم : مہز ذدہ قلب (سورۂ بقرہ : 7؛ سورۂ اعراف : 100؛ سورۂ مومن :35)
قلب قاسی : سخت پتھر قلب (سورۂ زمر :22؛ سورۂ حج: 53؛ سوۂ حدید :16 )
قلب مریض : بیمار قلب (سورۂ بقرہ : 10؛ سورۂ مائدہ : 52؛ سورۂ انفال :49؛ سورۂ مدثر : 31)
[/box]الیاس انطون الیاس نے اپنی عربی لغت قاموس العصری میں قلب کے معنی دل ، فؤاد Heart اور لُبّ مرکزCore کے ساتھ ساتھ عکس Reversal, Inversionعقل Interior, insidemind، باطن Inmost partاور جان Soulکے بھی لکھتے ہیں۔
[القاموس العصری۔ مطبوعہ قاہرہ۔ مصر]
لفظ’’قلب‘‘ آخری الہامی کتاب قرآن پاک میں 132مرتبہ آیا ہے۔ اس سے مراد انسان کا باطن ہے جس پر انسان کی سوچ، خواہشات، اعمال، امراض اور پاکیزگی کا دارومدار ہے۔
یہ قلب ہی ہے جس پر روح وفرشتوں، وحی والقا کا نزول ہوتا ہے۔ (بقرہ97، شعراء:194)، جو لوگ مومن ہیں ان کے قلب اﷲ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ ( رعد: 28)، ان کے قلوب میں اپنے رب کے پاس لوٹنے کا خوف ہوتاہے۔ (مومنون: 60)، قلب کو ہی تقویٰ ملتاہے ( حج: 32)، ہدایت بھی قلب پاتا ہے (تغابن :11)، الفت کا اورانتشار کا سبب بھی قلوب کی لطافت وکثافت سے ہوتاہے(آل عمران: 159، انفال:63)، اور جن کے قلب ایمان سے پرُ ہوتے ہیں خدا غیب سے ان کی مدد بھی کرتاہے۔ (مجادلہ:22)، ایمان کا تعلق بھی قلب سے ہے (حجرات: 14)، اوریہ قلب ہی ہیں جن کی خداتعالیٰ آزمائش کرتا ہے اور حساب کتاب اور مواخذہ بھی قلب سے ہی ہوگا۔ بقرہ:225،حج:53، آل عمران:154، احزاب:5)، اﷲ کی قربت اُسے ہی مل سکتی ہے جس کا قلب سلیم یعنی پاک صاف ہو۔(شعراء: 89، صافات: 84)، خدا مومنوں کے قلب کو رحمت وسکون عطا کرتا ہے اور ثابت قدم رکھتا ہے۔ (حدید:27، فتح:4، قصص:10، کہف:14، انفال:11)، اور قلب کا حال اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ (نساء:63)
کافر اور منافقین کے قلوب کے متعلق قرآن میں چار طرز یں بیان ہوئی ہیں ۔
ایک وہ جن کے قلوب پھر گئے، ٹیڑھے ہوگئے یا غفلت میں پڑے ہیں اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔(کہف:28، صف:5، الانبیاء:3)، ان منافقوں کے قلب کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ منہ سے جو کہتے ہیں ان کا قلب اس کے بر عکس ہے۔(فتح:11، آل عمران: 167)
دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں پر پردہ ہیں، ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں ۔ ان کے دلوںپر مہر لگی ہے اور یہ لوگ تفکر اور سوچنے سمجھنے سے محروم ہیں۔(محمد:24، جاثیہ:23، بقرہ:7، اعراف179، انعام:25)
تیسرے وہ لوگ ہیں جن کے قلب میں زنگ اور میل ہے جو ان کے اعمال بدکا نتیجہ ہے۔ (مطففین:14، منافقوں :3اعراف:101) قلب میں زنگ اور میل کو اﷲ نے مرض کہا ہے (بقرہ:10، احزاب:32، انفال:49، احزاب:12، احزاب:60، محمد:29) اس مرض کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان کے قلوب میں شک، خوف، اضطراب، کینہ، کجی، خلجان، انتشار اور نفق ہے۔(توبہ:45، نور:50، سبا:23، توبہ:110، حشر:10، حشر:14، تحریم:4، توبہ:77، مائدہ:52، مدثر:31) ان میں اکثر ایسے ہیں جن کے مرض کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ (توبہ: 125)
چوتھاگروہ وہ ہے جن کے قلب سخت ہوگئے ہیں۔ ایسے سخت کہ پتھر بھی ان کے سامنے کچھ نہیں۔ (بقرہ: 74، مائدہ: 13، انعام: 43، یونس:88، حدید:16) اور جن کے قلب پاک نہیں ہوتے ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلّت ہے۔ (مائدہ:41)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اور اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا۔ اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑا، وہ قلب ہے۔ ’’(بخاری، مسلم)
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقوی یہاں ہوتا ہے ۔ ایک حدیث نبویﷺ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’فتنے قلوب کو گھیرلیتے ہیں جو قلب ان فتنوں کو ناپسند کردیتا ہے، اس میں ایک سفید نقطہ لگادیا جاتا ہے اور جو قلب فتنوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس میں سیاہ دھبّہ لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح قلب دو طرح کے ہوجاتے ہیں۔ ایک سفید صاف شفاف جسے قیامت تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دوسرا کالا کلوٹا قلب کوزے کی طرح اُلٹا ہو ا، جو معروف اور منکر میں تمیز نہ کرسکے، صرف اپنی خواہشات ِنفس کو جانے‘‘۔ (صحیح مسلم،مسند احمد)
قرآن میں بیان کردہ قلب کی تعریف Definition کا تعلق انسان کی سوچ، فکر، اعمال اور باطن یعنی جسم مثالی یا روح حیوانی سے ہے۔
صوفیاء کرام اور علمائے باطن کی کتابوں میں گوکہ انسان کے باطنی رُخ کومختلف ناموں سے پکارا گیا ہے مگر ان کامفہوم ایک ہی ہے۔ ناموں کی یہ تبدیلی جسم مثالی کی مختلف صفات مثلاً قرین یعنی ہمنشین، نسمہ یعنی روح ہوائی، نفس یعنی ذات اور قلب یعنی عکس کے مطابق ہوئی ہے۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے باطنی قلب کے متعلق اپنی کئی کتابوں میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور اسے بزبان فارسی نسمہ کا نام دیاہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی کتاب ’’من کی دنیا‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق ایک ماحول یا Atmosphare اپنے اردگرد بنا لیتاہے۔ بدکاروں کا ماحول دیوار کی طرح سخت ہوتاہے، جس سے نہ کوئی فریاد یا دعا باہر جا سکتی ہے اور نہ کاسمک ورلڈ (عالم مثال) کے عمدہ اثرات اندر آسکتے ہیں، ایسا فرد خفیہ طاقتوں کی امداد سے محروم ہوجاتاہے۔ ممکن ہے قرآن کے حجاب، غشاوۃ (پردہ) سد (دیوار) اور غلف (غلاف) سے مراد یہی ماحول ہو‘‘۔(من کی دنیا۔ صفحہ 24)
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کتاب ذات کا عرفان میں فرماتے ہیں ۔ وہ قلب ہے جس کی درستگی کے لئے عضویاتی طب کی درستگی ضروری قرار دی گئی ہے۔ اس گوشت کے ٹکڑے کے علاوہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور قوت ہے اس کو بھی قلب کا نام دیا جاتا ہے۔ آسانی کے لئے روحانی قلب کہہ لیجئے۔ اس کی نشوونما شخصیت کی نشوونما میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ غزالیؒ کے نزدیک قلب روح، نفس اور عقل، قلب ہی کے زیر اثر ہیں۔ یہ سب قوتیں جن کا منبع دراصل قلب ہے، ایک ساتھ ایک نہج پر پروان چڑھتی ہیں تو شخصیت کی صحیح تعمیر ہوتی ہے۔
[ذات کا عرفان از خواجہ شمس الدین عظیمی]
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ناصرف انسان کی اصل حقیقت روح سے متعارف کریا ہے بلکہ روح کے غیرمادّی لباس نسمہ کی مفصّل تشریح بھی بیان کی ہے، آپ لکھتے ہیں:
‘‘کائنات کی ساخت میں بساطِ اوّل وہ روشنی ہے جس کو قرآنِ پاک نے ماء (پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔موجودہ دَور کی سائنس میں اس کو گیسوں Gases کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔تصّوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی اُن بنیادی شعاعوں کے مجموعہ کا نام ہے جو وجود کی ابتداکرتی ہے۔ نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادّی اجسام کی ساخت میں اصل کاکام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب، تقسیم موالیدثلاثہ کی ہیئتیں اور خدوخال بناتی ہیں’’۔(لوح وقلم۔95-93)
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے
THINKING FROM THE HEART – HEART BRAIN SCIENCE
https://noeticsi.com/thinking-from-the-heart-heart-brain-science/
MYSTERIES OF THE HEART – HEARTMATH
https://www.heartmath.org/resources/infographic/mysteries-of-the-heart/
Joseph Chilton Pearce
https://iamheart.org/The_Heart/articles_joseph_chilton_pearce.shtml
Brain Cells in the Heart? NeuroCardiology
https://theness.com/neurologicablog/index.php/brain-cells-in-the-heart/
https://www.care2.com/greenliving/let-your-heart-talk-to-your-brain-2.html
https://bradyonthebrain.wordpress.com/tag/andrew-armour/
https://www.amazon.com/Neurocardiology-J-Andrew-Armour/dp/0195073045/
Two-way communication between the heart and the brain
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/637402
https://www.researchgate.net/publication/22505709
A healthy heart is not a metronome
https://www.frontiersin.org/articles/10.3389/fpsyg.2014.01040/full
https://www.researchgate.net/publication/265168561
روحانی ڈائجسٹ جنوری 2021ء سے انتخاب

جنات، آسیب، شر، سحر،حسد، نظربد اور خوف سے نجات کے لیے دعائیں اور وظائف
جنات، آسیب، شر، سحر،حسد، نظربد اور خوف سے نجات کے لیے دعائیں اور وظائف
جنات، آسیب، سحر، حسد، نظر بد، شر، ناگہانی آفات سے حفاظت، ڈر و خوف سے نجات ، مصائب و مشکلات سے نجات ، مختلف مسائل کے حل اور قلبی و روحانی سکون کے لئے انبیاء ، اولیاء، صوفیاء ، بزرگانِ دین اورعلمائے کرام نے دعائیں اور وظائف تجویز فرمائے ہیں۔ ان صفحات پر چند وظائف اور دعائیں دی جارہی ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، نعمتیں اور برکتیں ہمیشہ ہمارے اوپر رہیں، شیطان کی چالوں، حاسدوں کے شر، مخالفوں کی شرارتوں سے، ہر طرح کے مکرو فریب سے ہماری حفاظت ہو۔ آمین ثم آمین
ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ تم میں سے کوئی شخص کسی سے خوف کھائےتو رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کی عطا کردہ یہ دعا تین مرتبہ کہے:
اللهُ أكْبَرُ، اللهُ أعَزُّ مِنْ خَلْقِه جَمِيعاً، اللهُ أعَزُّ مِـمَّا أخَافُ وأحْذَرُ، أعُوذُ باللـهِ الذِي لَا إِلَهَ إلاَّ هُوَ، الـمُمْسِكِ السَّـمَواتِ السَّبْعِ أنْ يَقَعْنَ عَلَى الأرْضِ إِلاَّ بإذْنِهِ، مِنْ شَرِّ عَبْدِكَ فُلانٍ، وُجُنُودِهِ وَأتْبَاعِهِ وأشْيَاعِهِ، مِنَ الجِنِّ والإنْسِ، اللَّهُمَّ كُنْ لِي جَاراً مِنْ شَرِّهِمْ، جَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَعَزَّ جَارُكَ، وتَبَارَكَ اسْمُكَ: وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ[ ادب المفرد، بخاری]
اگر کسی قوم، حکمران یا طاقتو رشخص سے خوف ہو تو اس دعا کا بکثرت سے ورد کیا جائے۔
اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِک مِنْ شُرُوْرِهِمْ [ ابی داؤد ]
دہشت اور گھبراہٹ کے دوران ، ظالم لوگوں اور فساد پھیلانے والوں کے شر سے بچنے کے لیے اس دعاکاوردکریں۔
أعُوذُ بِكَلِماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبهِ وَشَرِّ عِبادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّياطِينِ وأنْ يَحْضُرُونِ [ترمذی ]
رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے ایک درد محسوس ہوتا ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اُس جگہ پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے ، پھر تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو کہ
اَعُوْذُ بِاللہِ وَ قُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَآ اَجِدُ وَ اُحَاذِرُ
‘‘میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اُس چیز کے شر سے جس کو میں محسوس کرتا ہوں اور جس کے لاحق ہونے کا مجھے خوف ہے’’۔
عثمانؓ بن ابی العاص نے کہا کہ اس دعا کے بعد میرا وہ درد جاتا رہا ، اور اِسی دعا کی تعلیم میں اپنے گھر والوں کو بھی دیتا ہوں۔
آسیب و جنات سے بچاؤ
حضرت بابا فرید ؒ فرماتے ہیں کہ جنات ، آسیب کے شر اور ظالموں کے ظلم سے محفوظ رہنے کے لئے یہ آیت پڑھی جائے۔
رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
[سورۂ ابراہیم (14): آیت 35]
قرآنی اوراو وظائف کی کتب میں تحریر ہے کہ سورۂ نوح (سورہ نمبر 71) پڑھی جائے تو ان شاء اللہ وہاں آسیب ، جنات ، دیو ، پری وغیرہ نہیں رہے گے اور وہ جگہ ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ رہے گی۔
اگرکسی شخص پر آسیب یا جنات کااثر ہو تو سورہ ٔالطارق (سورہ نمبر 86) کو گیارہ روز تک ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھ کر دم کیا جائے اور وہ پانی آسیب زدہ فرد کو پلا دیا جائے ۔
آدمی کی کسی جنگل، بیابان یا کسی ویرانے میں ہو اور کسی بھوت پریت کا خوف ہو تو تیز آواز سے آیت الکرسی پڑھے۔
سحر سے حفاظت
شیح عبدلقادر جیلانی سحر سے حفاظت کے لیے فرماتے ہیں کہ نماز تہجد کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور پھر رسول اﷲﷺ پر گیارہ مرتبہ درود پڑھ کر یہ کلمات کہے جائیں۔
اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَعَمَلا مُتَقَبَّلا وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ
پڑھ کر سجدہ میں جا کر دعا کریں ۔ ان شاء اللہ سحر سے حفاظت ہوگی۔
نظر بد اور حسد سے حفاظت
ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ کی خدمتِ اقدس میں ایسی لڑکی کو لایا گیا جس کا چہرہ نقاہت سے زرد پڑچکا تھا۔ بظاہر بیماری کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ حضور ﷺ نے مریضہ کو دیکھ کر فرمایا ‘‘اس پر دَم کراؤ کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے’’۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ اپنے نواسوں حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓ کے لیے یہ دُعا فرمایا کرتے تھے ، اور فرماتے کہ تم دونوں کے باپ ابراہیم ؑ اسمعٰیل اور اسحق ؑ کے لیے یوں ہی کیا کرتے تھے۔
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ
[صحیح بخاری : کتاب احادیث الانبیاء؛ ترمذی ]
مسلم میں ابو سعیدؓ خُدری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ بیمار ہوئے تو جبریل نے آکر پوچھا ”اے محمدﷺ، کیا آپ بیمار ہوگئے“؟آپ نے فرمایا ہاں۔ اس موقع پر حضرت جبریل ؑ نے یہ دعا پڑھی۔
بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍْ
یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعِیْنٍ حَا سِدٍ، اَللہُ یَشْفِیْکَ بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا تو رسول اللہﷺ اُس پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ کلمات پڑھ کر دم فرماتے….
أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي ، لا شِفَاءَ إِلا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لا يُغَادِرُ سَقَمًا
[صحیح بخاری؛ صحیح مسلم؛ مسند ابویعلی]
بچوں کو نظر کالگ جانا
اسم مبارک یَا مَانِع ُ کسی تانبے کے پترے پر سات بار کھدواکر اسے بطور تعویذ بچے کے گلے میں ڈال دیں ۔ان شاء اﷲ نظر سے حفاظت ہوگی۔ ایک کاغذ پر اسم مبارک یَا مُمِیْتُ اس طرح لکھا جائے
یَا مُمِیْتُ
یَا مُمِیْتُ یَا مُمِیْتُ
یَا مُمِیْتُ یَا مُمِیْتُ
لکھ کر تعویذ بناکر بچے کے گلے میں پہنا دیا جائے تو ان شاء اﷲ بچے کو نظر نہیں لگے گی۔
نظر بددورکرنے کا عمل
اگرکسی بچے کونظر لگ جائے تو سورۂ قلم
(68)کی آیت 51 آیت تین مرتبہ پڑھ کر دم کردیں یالکھ کر بچے کے گلے میں ڈال دیں۔ انشاء اﷲ تعالیٰ نظرِ بد سے نجات مل جائے گی۔
جو بچے ماشاء اللہ تندرست ، ہنس مکھ یا ذہین ہوتے ہیں ان کو اکثر بڑوں کی نظرلگ جاتی ہے۔ گو یہ بات تعجب خیز ہے لیکن مشاہدہ میں آئی ہے کہ ماں باپ اور بہن بھائی کی بھی نظر لگ جاتی ہے۔ نظر لگنے سے بچہ بے چین ہو جاتا ہے۔ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے ۔ روتا ہے۔ بخار بھی ہو جاتا ہے۔ روز بروز چڑ چڑا اور کمزور ہو تا چلا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں بسم اللہ شریف کے بعد سورۂ کوثر پڑھ کر بچے کے منہ پر پھونک ماریں۔
خواب یا اندھیرے میں ڈرنا
اگر کوئی سوتے میں ڈرجائے یا نیند کے بعد گھبراہٹ اور پریشانی محسوس ہو جس سے نیند اچٹ جائے تو یہ تعوذ چند مرتبہ پڑھیں
أعُوذُ بِكَلِماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبهِ وَشَرِّ عِبادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّياطِينِ وأنْ يَحْضُرُونِ
سورہ قریش (سورہ نمبر 106) کو سات دن تک روزانہ اکتالیس مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کرکے بچےکوپلائیں۔
حاسد یا دشمن کا شر
فجر کی نماز کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودِ شریف کے ساتھ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ
سومرتبہ پڑھ کر سینہ پرپھونک ماریں۔ انشاءاللہ حاسد اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
وضو کرکے فجر کی نماز کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر سورہ قریش ایک ہزار مرتبہ پڑھے پھر سو مرتبہ درود شریف پڑھے اور ہاتھ اٹھا کر نہایت عجز و انکساری کے ساتھ دعا کریں۔ان شاء اﷲ دشمنوں کے خوف ،شر سے محفوظ رہے گا۔
جس کو کسی دشمن کا خوف ہو یا کسی طرح کی بلا و مصیبت درپیش ہو وہ کثرت سے پڑھا کرے۔
فَاللّـٰهُ خَيْـرٌ حَافِظًا ؕ وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِـمِيْنَ
انشااﷲ تعالیٰ دشواری دور ہوجائے گی۔
اگر خوف گھیرلے اور آدمی خود کو مجبور و محصور محسوس کرنے لگے تو ہر نماز کے بعد طاق اعداد میں یہ دعا پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے
اَللّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا
کاروبار میں بندش سے نجات
دشمنوں کے شر سے حفاظت، حسد کے منفی اثرات سے بچاؤ اور روزی پر بندش سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کے کلام سے مدد اور تحفظ لیجیے۔ صبح کاروبار پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے وقت وضو کرلیجیے۔ راستے بھر اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یامومن یارزاق یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔ دکان پر پہنچ کر سات مرتبہ سورہ تغابن (سورہ نمبر 64) کی تلاوت کیجیے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ تلاوت کے بعد اپنے اوپر دم کرلیں اور دکان کے چاروں کونوں پر دم کردیں۔ عشاء کی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ آیت الکرسی، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر آمدنی میں اضافے اور روزگار میں برکت کے لیےدعا کیجیے۔ حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں اور ہر جمعرات کم از کم پانچ مستحق افراد کو کھانا کھلا دیا کریں۔
[/box]
وسوسوں سے چھٹکارا
بابافرید ؒ فرماتے ہیں کہ جب شیطان دل میں کوئی وسوسہ یا خیال ڈالے تو چاہئے کہ سانس کو ناف سے کھینچ کر دل میں حبس کرے اور لا الہ اﷲ کی ضربیں دل پر لگائے۔سورہ عنکبوت دس مرتبہ پڑھنا بھی شیطانی وسوسوں سے محفو ظ رکھتا ہے ۔
اگر کسی شخص کو شیطان بہت تنگ کرتا ہے یا وسواس ِ شیطانی بکثرت آتے ہوں تو اس کو چاہے کہ یہ کلمات تعویذبناکردائیں بازو پر باندھ لے۔ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کلمات کی برکت سے شیطان دور ہو جائے گا۔ وہ کلمات یہ ہیں ۔
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ
مرگی، جنون و نفسیاتی مسائل
حضرت بابافرید ؒ فرماتے ہیں
‘‘مرگی اورجنون کے مریضوں پر سورہ ٔ حج دم کرنے سے ان شاء اللہ شفاء ہوتی ہے۔’’
شمع شبستان ِ رضا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ اور دیگر اکابر اہل سنت کے مجموعہ عملیات کا مجموعہ ہے، اس کتاب کے مطابق امام احمد رضا بریلوی ؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر آسیب کا شبہ ہو ،ا س کے بائیں کان میں سورۂ ص (38) کی 34 ویں آیت سات بار پڑھ کر دم کریں۔
ایک عمل یہ بھی ملتا ہے کہ مریض کے کا ن میں 7 مر تبہ اذان پڑھیں ،اور سورۂ فا تحہ و معوذتین تین بار ،آیۃ الکرسی اور سورہ طٰہ اور آخر میں سورہ حشر اور پوری سورة الصافات پڑھیں ۔
پانی پر سورہ فاتحہ ، آیت الکر سی اور سورہ جن کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھ کر، پانی پر دم کرکے مریض کے منہ پر چھینٹے ماریں ۔ اور اگر کسی مکان میں جن کا شبہ ہو ، تو مکان کے چا رو ں کو نو ں میں یہ پڑھا ہوا پانی ڈال دیں
کاروبار پر آسیبی اثرات یا سفلی کا شبہ ہو تو اس کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی کتاب ‘‘ روحانی نماز ’’ کا یہ عمل مفید ہے۔ ایک کاغذ پر اکیس مرتبہ اسم الٰہی یا قھار لکھ کر دکان کے سامنے یا قریب ہرے بھرے درخت کی شاخ میں باندھ دیں ۔ اللہ کے فضل وکرم سے دکان آسیب اور دوسری بلاؤں سے بالکل محفوظ رہے گی ۔ اثر ختم ہونے کے بعد آٹھ ہفتوں تک ایک غریب آدمی کو ہر جمعرات کو کھانا کھلائیں۔
آسیب کا تعویذ
یہ تعویذ کسی مومی کاغذ پر لکھ کر موم جامہ کر کے مریض کے گلے میں ڈال دیں، جمعرات کے روز عصر کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے تعویذ کو کپڑے کے خول سےنکالے بغیر لوبان کی دھونی دیں۔
[کتاب : روحانی علاج : خواجہ شمس الدّین عظیمی]
[/box]
ناگاہی آفاتِ ارضی و سماوی
کسی ناگہانی مصیبت مثلاً وبا، قحط یا دشمنوں کے حملے کا خطرہ ہو تو خوف کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ خوف کے موقع پر فجر اور عشاء کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھی جائے۔
اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّمَا قْضَيْتَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ نَسْتَغْفِرُك وَنَتُوب إِلَيْكَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ
آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رہنے کے لئے 9 انچ چوڑے اور 12 انچ لمبے سفید آرٹ پیپر کے اوپر سیاہ چمکدار روشنائی سے بہت خوبصورت لکھ کر یا لکھوا کر یہ نقش گھر میں آویزاں کریں۔
اگر خدانخواستہ کوئی وبا پھیل گئی ہو تو یہی نقش سفید چینی کی تین پلیٹوں پر زعفران اور عرقِ گلاب سے لکھیں اور صبح ، شام اور رات کو پانی سے دھو کر سارے گھر والے پئیں۔
پینے میں پانی پکا کر استعمال کیا جائے۔ اگر زعفران دستیاب نہ ہو تو کھانے کا زرد رنگ استعمال کریں۔

مغفرت ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو
مغفرتـ ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو
شبِ برأت میں اللہ تعالیٰ ہر مانگنے والے کو عطا کرتا ہے اورگنہگاروں کی بخشش فرماتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو مشرک ہوں، ناحق قتل کرتے ہوں، نشہ میں مبتلا ہوں، دلوں میں بغض اور خونی رشتوں کا لحاظ نہ کرتے ہوں۔ غیبت ، والدین کی نافرمانی اورتکبر کرنے والے بھی اس رات اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔
[/box]
ماہِ شعبان کی چودہ تاریخ کی شب ایسے ہی مبارک ومسعود اوقات میں ہے جن میں ربِ کائنات کی شانِ کریمی ورحیمی کا خصوصی ظہور ہوتا ہے اور اپنے اطاعت شعار بندوں کی طرف اس کی رحمتِ عام متوجہ ہوتی ہے۔ شب کے وقت یوں بھی عام طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے برکت کا نزول اور اس کا انعام واکرام زیادہ ہوتا ہے۔
شبِ برأت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے
’’اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام‘‘۔ [سورۂ دخان: آیت 2]
شبِ برأت ایک ایسی اہم رات ہے جس میں فرد، قوم، ملک اور سلطنت کی تقدیروں میں آئندہ سال کے دوران یعنی شعبان سے شعبان تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ اور جس دن، جس گھڑی، جس جگہ اور جس وجہ سے ہونے والا ہے ان سب کی تفصیلات مع جزئیات، کاتب تقدیر لوحِ محفوظ سے ظاہر کرکے فرشتوں کو عملدرآمد کی غرض سے دے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ حالات یا تو بدستور برقرار رکھے جاتے ہیں یا ان میں بہتر یا ابتر تبدیلی کردی جاتی ہے۔ گویا آج کی رات تاریخ سازی اور تقدیر سازی کی رات ہے۔
اللہ کے وسائل اس کی نعمتیں ،رحمتیں لامحدود ہیں اس کا اپنا فرمان ہے
وَرَحْـمَتِىْ وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ [سورۂ اعراف: آیت156] ’’میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے‘‘
اللہ کے اس رات کو Disclose کرنے کی حکمت اصل میں ’’ترغیب و ترہیب‘‘ ہے، جب اللہ نے یہ بتادیا کہ آج کی رات سب احکامات نافذ کرنے کے لیے سپرد کیے جارہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بتادیا کہ اگرچہ یہ میرا طے شدہ بجٹ ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ میں نے ناصرف لوحِ محفوظ تخلیق کیا ہے بلکہ لوح محفوظ کا مالک بھی ہوں، اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو میں لکھا ہوا مٹابھی دیتا ہوں اور نہ لکھا ہو تو لکھ بھی دیتا ہوں۔ یعنی اگر ردو بدل کا امکان نہ ہوتا تو اس رات کاذکر نہ کیا جاتا ۔
حضورپاکﷺ نے فرمایا ہے کہ دو چیزیں تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔ ارشادِ اقدس ہے:
لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ
’’تقدیر نہیں بدلی جاتی مگر دعا سے اور عمر نہیں بڑھائی جاسکتی مگر نیکی سے‘‘۔(مسلم)
گویا اس رات کو بنایا جانا اللہ کے کرم کی بدولت ہے۔
شعبان سے پہلے ماہ رجب شروع ہوتے ہی رسول اکرمﷺاہتمام فرمانے لگتے۔ چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رجب آتا تو رسول اللہﷺ دعا کرنے لگتے کہ ’’ایِاللہ ! ہمارے لیے رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہِرمضان تک پہنچا‘‘۔ (بیہقی ومشکوٰۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی ماہ میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے’’ تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ ! اس میں کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اس شب میں اس سال کے پیدا ہونے والے اولادِ آدم لکھ دیے جاتے ہیں اور اس شب میں اس سال کے مرنے والے سبھی انسان لکھ دیے جاتے ہیں اور اس شب میں ان کے اعمال اُٹھائے جاتے ہیں اور اس شب میں ان کا رزق اُتارا جاتا ہے‘‘۔ (بہیقی و مشکوٰۃ)
حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) آئے تو ذکر وعبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس شب میں غروب آفتاب ہوتے ہی آسمانِ دنیا کی طرف توجہ و التفات فرماتا ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے طلب مغفرت کرے تو میں اس کی مغفرت کردوں۔۔۔۔۔؟ کون ہے جو طلب رزق کرے تو میں اسے رزق دے دوں۔۔۔۔۔؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دے دوں۔۔۔۔۔؟ صبح تک اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے بیان کیا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف جلوہ گری فرماتا ہے اور مشرک وکینہ پرور کے سوا ہر مسلمان کی مغفرت فرمادیتا ہے‘‘۔ (بیہقی و ابن ماجہ بروایت حضرت ابو موسیٰ اشعری)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تبارک وتعالیٰ شبِنصف شعبان میں اپنی مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور ناحق قتل کرنے والوں اور بغض وکینہ رکھنے والوں کے علاوہ سارے مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے‘‘۔ (مسند احمد ومشکوٰۃ ومجمع الزوائد)
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بیان کردہ ایک طویل حدیث کے مطابق یہ لوگ بھی محروم مغفرت رہتے ہیں یعنی ناطہ توڑنے والے ، تکبرکرنے والے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اور شراب نوشی کرنے والے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت عثمان بن محمدؓ نے بیان کیا۔ رسولِاللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ایک شعبان سے دوسرے شعبان کے درمیان لوگوں کی موت کا وقت اس شب میں لکھ دیا جاتا ہے اور انسان نکاح کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔(شعب الایمان للبیہقی والجامع الاحکام القرطبی)
یہ رات ہمارے لیے عملی زندگی میں کیا پیغام لاتی ہے اس کے لیے ہمیں حضور نبی کریمﷺ کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آپﷺ فرماتے ہیں ’’اس رات اللہ تعالیٰ بے شمار انسانوںکی بخشش فرماتا ہے قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لیکن پھر چند لوگوں پر اس کے نظرکرم نہیں پڑتی ‘‘ پوچھا گیا کہ ’’وہ بد نصیب کون ہیں؟‘‘۔
فرمایا’’مشرک جو خدا کی صفات میں دوسروں کو شریک کریں، کینہ پرور جن کے سینے بغض اور عداوت سے بھرے پڑھے ہیں۔ رشتہ داروں سے صلح رحمی نہ کرنے والے، مغرور اور متکبر لوگ اور والدین کے نافرمان وغیرہ‘‘۔
اگر اس بات میں ہم اس واضح ہدایت کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں تو ہماری معاشرتی زندگی میں کیسا انقلاب آجائے۔۔۔۔۔! شہر شہر، بستی بستی اور قریہ قریہ جنت کا سماں پیش کرنے لگیں خصوصا ً ہمارے ملک میں جہاں تفرقہ و انتشار پھیلتا جارہا ہے۔ اس کے برعکس اگر آج ہم دین اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے تمام مسائل ختم نہ ہوجائیں۔ یہ رات لالچی، حرص پرست اور دولت کے پیچھے جان دینے والوں کو ایک واضح سبق دیتی ہے آخرت کی فکر اور دنیا کی بے ثباتی کی طرف ہماری توجہ مرکوز کراتی ہے جو لوگ اس دنیا کو دائمی سمجھ بیٹھے ہیں، ان کے لیے یہ رات ایک خاص علامت ہے وہ چشمِ بصیرت سے اس رات کا جائزہ لیں آج ہمیں کدورت دور کرنے ، حقوقِالعباد کا احساس کرنے اور فسق وفجور سے اجتناب برتنے کا عہد کرنا چاہیے۔ یہی اس مبارک رات کا تحفہ ہے اس کا پیغام ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں اور رمضانِالمبارک جو تزکیۂ نفس اور قرآن پاک کے نزول کا مہینہ ہے اسے صحیح طور پر منانے کے لیے خود کو استقبالیہ انداز میں تیار کرسکتے ہیں، جس طرح آمد بہار سے سوکھی اور خزاں رسیدہ ٹہنیوں میں جان پڑ جاتی ہے مردہ پودوں میں بھی زندگی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اسی طرح گنہگاروں کے دل ماہشعبان المعظم میں روشنی پکڑتے ہیں مردہ دل بیدار ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک میں یہی دل انوارِخداوندی کا مرکز بن جاتے ہیں اور بے شمار مصیبت زدہ لوگ شعبان اور رمضان کے مقدس مہینوں میں اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ حضور نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اندازہ کیجیے کہ جس چیز کو حضور اکرم ﷺ اپنے تعلق کا شرف بخشیں اس کے تقدس و فضلیت کا معیار کیا ہوگا اسی مبارک اور پرتقدس ماہ کی پندرھویں شب کو شبِ برأت کا نام دیاگیا ہے جس کے معنی نجات کی رات کے ہیں۔
9

کینسر کا سبب بننے والی غذائیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بہت زیادہ استعمال سے کینسر کا بڑھ سکتا ہے…؟
چینی زیادہ کھانے کے نتیجے میں کینسر کی رسولیوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
فاسٹ فوڈ ز جیسے برگر یا پیزا وغیرہ زیادہ کھانے کی عادت کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
سرخ گوشت کے زیادہ استعمال سے کینسر کا امکان 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
الکوحل کا استعمال سر، گلے، غذائی نالی، جگر، چھاتی اور آنتوں کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔
کینسر کا نام سنتے ہیں انسان پر ایک خوف سا طاری ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ سے زائد ا فراد اس موذی اور مہلک مرض میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سالانہ سے زائد ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے کینسر کے مریضوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
کینسر دراصل غیر معمولی خلیات کی بے ترتیب نمو کا نام ہے، جو عمومی طور پر ٹیومر کی صورت میں جسم پر نمودار ہو جاتے ہیں تاہم ہر ٹیومر کینسر نہیں ہوتا۔ انسانی جسم میں اس موذی مرض کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب انسانی جسم میں خلیات کے بننے اور تقسیم ہونے کا عمل معمول سے ہٹ کر ہونے لگتا ہے۔ جس کے باعث یہ ابنارمل خلیات معمول کے صحت مند خلیات میں داخل ہو کر انہیں تباہ کرنے لگتے ہیں۔
یہ موذی مرض بہت سی اقسام کے ساتھ موجود ہے۔ جن میں چھاتی کا کینسر، منہ اور ہونٹ کے کینسر، جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر، بڑی آنت کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر، برین کینسر، مثانہ کا کینسر، ہوچکنز (Hodgkin’s) اور نان ہوچکنز کینسر، جلد کا کینسر، اووری کا کینسر، پھیپھڑوں کا اکینسر، کولون کینسر شامل ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موت کا سبب بننے والی بیماریوں میں کینسر تیسرے نمبر پر ہے لیکن اس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث آئندہ دس سالوں میں کینسر سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والی بیماری بن جائے گی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ ہے جو 2020 تک ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تک تجاوز کر جائے گی۔ جبکہ کینسر سے اموات کی تعداد سالانہ اسی لاکھ افراد ہوگی۔
پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر اور مردوں میں منہ کے کینسر میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، صرف پاکستان میں گزشتہ برس کینسر کے تین لاکھ چالیس ہزار نئے کیسز سامنے آئے جن میں سے اسی فیصد سے زائد مریض بروقت تشخیص اور علاج نہ ملنے کے باعث دنیا سے رخصت ہوگئے۔
کینسر کی کئی علامات ہیں، جن میں جسم کے کسی حصے میں ٹیومر کا نمودار ہونا، جسم کے مختلف حصوں سے خون کا بہنا، بناء کسی وجہ کے تیزی سے وزن کا کم ہونا، مسلسل کھانسی رہنا اور خوراک نگلنے میں دشواری کا سامنا کرنا شامل ہیں۔ اگر درج بالا علامات میں دو علامتیں ایک ساتھ واضح ہوجائیں تو کینسر کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرانا چاہیئے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں بھی ٹیومر نمودار ہو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بروقت علاج کیا جائے ۔
یاد رکھیئے….! جلد تشخیص سے مریض کو اس جان لیو بیماری سے بچانا آسان ہوجاتا ہے۔
کینسر کی بنیادی وجہ تاحال نا معلوم ہے لیکن کلینیکل پریکٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ 90-95 فیصد مریضوں میں انوائرمینٹل فیکٹرز (ماحولیاتی خرابی)کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ جب کہ 5-10 فیصد مریضوں میں یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کینسر کا مرض لاحق ہونے کی کئی ماحولیاتی وجوہات (انوائرمینٹل فیکٹر )بتاتے ہیں ۔ ان میں آلودگی، تمباکو نوشی، مضر صحت پانی، غیر متوازن غذاء، پان، چھالیہ، گٹکا اور ماوا کا بے جا استعمال،موٹاپا، انفیکشن اور ریڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن ….ان سب میں ایک بڑی وجہ ہماری چند عام غذائیں بھی ہیں۔
جی ہاں ! چند غذائیں ایسی بھی ہیں، جو انسان کو کینسر میں مبتلا کرسکتی ہیں ۔ یہ غذائیں ہمارے روزمرہ استعمال میں بھی رہتی ہیں۔ اگر انسان ان غیر متوازن غذاؤں کا استعمال بہت زیادہ کردے تو کینسر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
ماہرینِ صحت بتاتے ہیں کہ کینسر سے بچاؤ کا واحد طریقہ پرہیز ہے، غذا کے انتخاب میں محتاط رویہ اپنا کر کینسر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اگر درج ذیل غذاؤں سے پرہیز برتا جائے تو کینسر کی موزی بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر کینسر سے بچنے چاہتے ہیں تو:
کینسر کا علاج مہنگا اور تکلیف دہ ہےلیکن کینسر سے بچاؤ نہایت آسان، سادہ اور سستا ہے۔ بس اپنی زندگی کو فطرت کے قریب سے قریب تر کیجیئے اور متوازن غذا فطرت سے حاصل کریں جو سستی بھی ہیں اور بآسانی دستیاب بھی ہیں۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذائقے، مصنوعی شوگر، باہر کے غیر معیاری کھانے اور ٹیٹرا پیک کئی اشیاء سے اجتناب کیجیے۔
ذیل میں قارئین کے لیے کینسر کا خطرہ بڑھانے والی چند غذاؤں کی معلومات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ اس جان لیوا مرض سے بچاؤ میں آسانی ہو۔
مائیکرو ویو پاپ کارن (Microwave popcorn)
پاپ کارن ایک مزیدار غذا ہے، مائیکرو ویو کے ذریعے بنائے گئے پاپ کارن دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ لیکن بازار میں دستیاب پاپ کارن بیگ جو مائیکرو ویو اوون میں رکھے جاتے ہیں انتہائی متنازعہ ہیں۔ یہ بیگ (perfluorooctanoic acid) PFOA نامی کیمیکل پر مشتمل ہوتے ہیں جو انسانی جسم میں داخل ہو کر گردوں یا پھر جگر کے کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں — ان پاپ کارن کے استعمال سے خواتین میں بانچھ پن پیدا ہوسکتا ہے-
امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق مائیکرو ویو پاپ کارن صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ ان پاپ کارن میں خوشبو کے لیے ڈائی ایسیٹائل Diacetyl نامی کیمیکل شامل کیا جاتا ہے جو پاپ کارن لنگ نامی پھپھڑوں کی بیماری کا موجب بنتا ہے۔ ساتھ ہی ایک اور کیمیکل پرگلورو آکٹین سلفونیٹ (PFOS) perfluorooctane sulfonate جو پاپ کارن بیگ کی کیمیکل کوٹنگ میں استعمال ہوتا ہے جو مائیکروویو پاپ کارن کے ذریعے بیس فیصد جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ پاپ کارن پھیپھڑوں گردوں اور مثانے کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔
جنک فوڈ/ فاسٹ فوڈ
فاسٹ فوڈز شمار ہونے والی کئی اشیاء مثلاً برگر یا پیزا وغیرہ کی زیادتی کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
ایریزونا یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ بطور خوراک فاسٹ فوڈز کی زیادتی کینسر کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ پیزا اور برگر میں غذائیت کم اور کیلوریز بہت زیادہ ہوتی ہیں، جسے وہ dietary energy density (DED) کہتے ہیں ۔ ان کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز جمع ہو جاتی ہیں جو اگے چل کر کینسر کی وجہ بن سکتی ہیں۔ ایسے چپس، پاپ کارن اور فاسٹ فوڈ سے مکمل پرہیز کیجیے جہاں ان غذاؤں کی تیاری میں معیاری تیل استعمال نہیں کیا جاتا۔ کئی پیکنگ جن میں یہ دستیاب ہوتے ہیں ان کی تیاری میں بھی ایسے کیمکلز کا استعمال کیا جاتا ہے جو غذا کے ذریعے خون کا حصہ بن جاتے ہیں اور جسم میں ٹیومرکا باعث بنتے ہیں۔
ٹرانس فیٹ (Trans fats)
ٹرانس فیٹ سیال تیل کو ٹھوس شکل دینے پر بنتے ہیں جو کہ غذاؤں کے ذائقے اور استعمال کی مدت کو بڑھاتے ہیں۔ مارجرین، سیریلز، ٹافیوں، بیکری کی مصنوعات، بسکٹوں، چپس اور تلی ہوئی غذاؤں سمیت متعدد پکوانوں میں یہ پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا زیادہ استعمال موٹاپے کا خطرہ تو بڑھاتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بازار میں دستیاب آلو کے چپس بہت زیادہ چربی اور کیلیوریز پر مشتمل ہوتے ہیں- اور اسی وجہ سے لوگوں میں صحت کے مسائل اور وزن میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ چپس ٹرانس فیٹ پر بھی مشتمل ہوتے ہیں جو کولیسٹرول کی وجہ بنتا ہے- اس کے علاوہ اضافی سوڈیم بھی پایا جاتا ہے جس سے انسان ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتا ہے- ان کی تیاری میں مصنوعی رنگ اور ایک ایسا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جو سگریٹ میں بھی موجود ہوتا ہے اور یہی کیمیکل کینسر کا سبب بنتا ہے-
ماہرین کا کہنا ہے کہ تلے ہوئے اسنیکس بھی کینسر کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ان میں ایسے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں جو کہ کینسر پیدا کرتے ہیں ساتھ ہی ان کی تیاری میں استعمال کیا جانےو الا غیر معیاری تیل جب غذا کے ذریعے خون کا حصہ بنتا ہے تو ٹیومر کا سبب بن جاتا ہے۔
عمومی طور پر بازار میں ایسے تیل میں کھانے پکائے جاتے ہیں جن کی تیاری میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا خصوصی طور پر فنگر چپس کی تیاری میں نہایت ناقص تیل استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بچوں کی مرغوب غذا بھی ہے اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کینسر جیسی موزی مرض سے محسوس رہیں تو غیر معیاری تیل کے بجائے زیتون، ناریل اور پام آئل استعمال کریں۔
باربی کیو انداز پر تیار گوشت
ماہرین کی جانب سے باربی کیو انداز سے تیار کیے گئے کھانوں کے شوقین افراد کو اس شوق کی قیمت کینسر جیسے جان لیوا مرض کی صورت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ نیشنل کینسر انسٹیوٹ آف امریکہ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق باربی کیو یا گرلڈ ریڈ میٹ کینسر کا مرض پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جب گوشت کو بھوننے کے لیے گیس یا کوئلہ کا استعمال کیا جاتا ہےتو اس سے نکلنے والا کیمیکل پولی سائیکل ایرومیٹک ہائیڈروکاربن(PAHs) گوشت کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ یہ مرکب کینسر کا سبب بنتا ہے۔
زیادہ میٹھا کھانے کی عادت
اگر تو چینی زیادہ کھانے کے نتیجے میں ذیابیطس جیسے مرض کا خیال پریشان نہیں کرتا تو یہ جان لیں کہ یہ کینسر کی رسولیوں کا خطرہ بھی چار گنا بڑھا دیتا ہے۔ بیلجیئم کی کیتھولائیک Katholieke یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق زیادہ میٹھا کھانا کینسر زدہ خلیات کی تعداد کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ عام خلیات آکسیجن کو جسمانی توانائی کے لیے گلوکوز میں بدلتے ہیں مگر کینسر زدہ خلیات چینی سے حاصل کرتے ہیں اور رسولی کی نشوونما کو انتہائی تیز کردیتے ہیں۔آسان الفاظ میں چینی کا بہت زیادہ استعمال کینسر زدہ خلیات کو کینسر کے مرض کی شکل دے دیتا ہے۔
ریفائنڈ اور مصنوعی طریقے سے تیار کردہ شکر (Artifical Sweeteners)
اگر آپ چینی کے استعمال سے اجتناب برتتے ہیں اور اس کی جگہ بازار میں دستیاب مصنوعی میٹھے کو ترجیح دیتے ہیں تو یاد رکھیں یہ بھی آپ کے لیے خطرناک ہے-
غیر فطری شکر (مصنوعی طریقے سے تیارکردہ) جہاں آپ کے وزن میں اضافہ کرسکتی ہے وہیں مصنوعی میٹھے کی وجہ سے آپ کے خون میں شامل شکر کے نظام میں بےقاعدگی بھی آسکتی ہے- جبکہ خون میں شوگر لیول میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور اس کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے دوسری جانب مصنوعی طریقے سے لی گئی شکر کینسر کے خلیات کے بڑھاوے کا بھی موجب ہوتے ہیں۔ اس میں موجود ایک کیمیکل انسان کو برین ٹیومر کا مریض تک بنا سکتا ہے-
ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی مٹھاس کا استعمال بھی کینسر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، محققین کے مطابق مصنوعی مٹھاس میں موجود ممکنہ زہریلے اثرات انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے۔
1931ء میں نوبل انعام یافتہ جرمن ماہر طب اوٹو ہنرخ مواربرگ کی جانب سے خطرناک انکشاف کیا گیا کہ مصنوعی شکر کا استعمال انسان کے جسم میں کینسر کاباعث بننے والے ٹیومرز پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جو بعد میں کینسر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ عام طور پر شکر کی مناسب مقدار ہمارے روز مرہ کی خوراک میں موجود ہوتی ہے تاہم کولڈ ڈرنکس، چینی، گاکلیٹس اور ان جیسی دیگر چیزوں میں ریگائنڈ شوگر کا استعمال کینسر کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ دوسری جانب مصنوری طریقے سے لی گئی شکر کینسر کے خلیات بڑھانے کا بھی موجب ہوتی ہے۔
چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ریفائنڈ چینی اور مصنوعی مٹھاس کے بجائے شہد، گڑ اور براؤن شوگر استعمال کی جائیں۔
مصنوعی طریقہ سے اُگائے پھل (Non-organic fruits )
ایسے پھل جنہیں مصنوعی طریقوں سے جلد تیار کیا جاتا ہے وہ مکمل ہونے تک مختلف ادویات اور نائروجن کھاد سے آلودہ ہوچکے ہوتے ہیں- یہ پھل ہارمون میں خرابی پیدا کردیتے ہیں- عام طور پر ان پھلوں میں سیب٬ سنگترے٬ اسٹرابیری اور انگور شامل ہوتے ہیں-
ہر وہ کھانے جن میں نائٹریٹ زیادہ مقدار میں موجود ہوں وہ غذائیں جسم میں غیر ضروری اور غیر معمولی خلیات کے اکٹھے ہونے میں مدد دیتے ہیں جو بعد میں ٹیومر میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس لیے خورد و نوش کی ایسی اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے جن میں نائٹریت موجود ہوں۔
سفید آٹا (Highly Processed White Flours)
Highly Processed White Flours
سفید آٹا
جی ہاں سفید آٹا بھی کینسر کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ سفید آٹا مکمل تیار ہونے تک نہ صرف تقریباً تمام غذائی اجزاء سے محروم ہوچکا ہوتا ہے بلکہ اس تیاری کےد وران اس میں ایک خطرناک کیمیکل بھی شامل کردیا جاتا ہے جسے کلورین گیس chlorine gas کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گیس خون میں موجود شکر کے لیے خطرناک ہوتی ہےا ور جسم میں موجود چربی میں اجافہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس گیس کی وجہ سے کینسر لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
فارم فشز (فارم ہاؤس کی مچھلیاں)
مچھلی جہاں صحت کے لیے مفید ہے وہیں فارم ہاؤس کی مچھلیاں صحت کے لیے مضر بھی۔ کیونکہ فارم ہاؤس میں جہاں مچھلیوں کی افزائش تجارتی بنیادوں پر کی جاتی ہے وہاں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے مختلف کیمکل اور غیر قدرتی طریقوں کا استعما ل کیا جاتا ہے جس سے مچلھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن وہ کئی طرح کی بیماریوں کا بھی موجب بنتی ہیں جن میں سر فہرست کینسر ہے۔ ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی افزائش میں غیر معمولی اضافے کے لیےمختلف قسم کی ادویات اور کیمیکل کا استعمال انسانی صحت کے لیےمضر ہے اس لیے قدرتی طریقے سے حاصل کی گئی مچھلیوں کو ہی اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔
سافٹ ڈرنکس
بازار میں دستیاب سافٹ ڈرنکس یا سوڈا میں اضافی چینی پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ ان میں کیلوریز نہیں پائی جاتیں۔ یہ ڈرنکس وزن اور خون میں موجود شکر میں اضافہ کردیتے ہیں جو کہ بعد ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کا سبب بن جاتی ہے- یہ ڈرنکس مصنوعی رنگوں اور ذائقوں پر مشتمل ہوتی ہے-
کیرولینسکا انسٹیوٹ karolinska institutet سویڈن کی تحقیق کے مطابق سوڈے اور جوسز کے زیادہ استعمال سے مثانے اور پتے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ موٹاپا اور بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ بنتی ہے۔ سافٹ ڈرنکس کا زیادہ استعمال انسانی جسم میں کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ دوسری جانب کولڈ ڈرنکس سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ سافٹ ڈرنکس کے شوقین افراد میں جگر کے کینسر کا امکان عام افراد کی نسبت 79 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
اکثر لوگ ڈائٹ کولڈ ڈرنک کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھی حد درجہ نقصان دہ ہے- ان ڈرنکس میں اضافی سوڈیم اور مصنوعی رنگ شامل کیے جاتے ہیں- ان کا زیادہ استعمال انسان کو کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے-
الکحل و دیگر نشہ آور اشیاء
کینسر سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ نوے سے پچانوے فیصد مریضوں میں انوائر مینٹل فیکٹر کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ ماہرین کے مطابق انوائر مینٹل فیکٹر میں غیرمتوازن غذا، تمباکو نوشی، پان، چھالیہ، گٹکا ، ماوا اور دیگر نشہ آور اشیاء کا بےجا استعمال شامل ہے۔
نیشنل کینسر انسٹیوٹ کی تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ الکحل کا استعمال سر، گلے، غذائی نالی، جگر، چھاتی اور آنتوں کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ الکحل پر کی گئی تحقیق کے نتائج کے مطابق اس کا استعمال جسمانی اعضاء جیسے لبلبے ، معدے اور مثانے وغیرہ کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھا دیتا ہے۔
سرخ گوشت /پراسیس گوشت (Red Meat)
عمومی طور پر گوشت میں ذائقے کی تبدیلی اور زیادہ عرصے تک استعمال کے لیے انہیں خاص قسم کے عمل سے گذارا جاتا ہے جس میں مختلف کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے بعد ازں مخصوص پیکنگ میں پیک کیا جاتا ہے جسے پروسیسڈ میٹ کہا جاتا ہے۔
ایک نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے ایسے گوشت کے استعمال سے کینسر لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے- ماہرین کا کہنا ہے کہ اضافی گوشت کے استعمال سے خواتین بریسٹ کینسر میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں- کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق کے مطابق سرخ گوشت کے قتلوں کا زیادہ استعمال امراض قلب سے موت کا خطرہ 24 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اس عادت کے نتیجے میں ذیابیطس کا خطرہ 32 فیصد جبکہ کینسر جیسے مرض کا امکان 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ روزانہ سوگرام گوشت کھانے کو معمول بنالینا مثانے اور آنتوں کے کینسر کا خطرہ بالترتیب 19 اور 17 فیصد تک بڑھا دیتے ہیں جبکہ بریسٹ کینسر کا امکان 11 فیصد بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق اس کی وجہ گوشت کو بہت زیادہ درجہ حرارت میں پکانا ہوسکتا ہے جو ایک کیمیکل heterocyclic amines (HCAs)کی پروڈکشن کا باعث بنتا ہے جو کہ انسانوں میں مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
چنانچہ فیکٹریوں میں تیار کردہ گوشت کے بجائے تازہ گوشت کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں جو کسی بھی قسم کے کیمیکل پراسس سے نہ گزرا ہو۔
جی ایم او فوڈ (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک)
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کی صنعت خطرناک حد تک دنیا بھر کے ممالک میں کوراک پر اثر انداز ہورہی ہے اور دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مکئی اور سویا کی نوے فیصد اجناس جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک کا استعمال انسان میں کینسر جیسا مہلک مرض پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ساتھ ہی اس کا استعمال انسان کی صحت مند زندگی پر منفی اثرات بھی مرتب کرتا ہے جو انسانی جسم میں کینسر کے علاوہ دوسرے امراض بھی پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ آپ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں ی ایم او فوڈ کے لیبل والی غذاؤں کا استعمال نہ کریں اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ نامیاتی غذاؤں کا استعمال کریں۔
جینیاتی طورپر تبدیل شدہ خوراک نقصان دہ کیوں….؟
ہم میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ جی ایم او فوڈ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جانتے بوجھتے بھی ان غذاؤں کا اسعمال ترک نہیں کرتے لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کبھی بھی جی ایم او فوڈ کا استعمال نہیں کریں گے۔
موسانتو monsantoنامی امریکہ کی خبیث ترین کارپوریشن نے دوا سازی صنعت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچانے کے بعد 1995ء میں (GMO) فصلوں کے تعارف کے ذریعے خوراک پر حملہ کیا۔ یہ جینیاتی پیوندی (GMO) فصلیں اپنے اندر کرم اتلافی اور نباتات کش صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان فصلوں کے مضر صحت اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے اردگرد اضافی گھاس پھوس یا جڑی بوٹیاں از خود تلف ہوجاتی ہیں۔ نیز یہ فصلیں اپنا زر گل یا زیر پوشی (Pollination) بھی خود کرتی ہیں۔ یعنی کود کو کہیں اور منتقل کرنے کے لیے انہیں پرندوں، مکھیوں یا بھڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جی ایم او فوڈ پیدا کرنے والے بین نہ صرف زہریلی فصلیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان کے تیار کردہ بیج زمین کو بانجھ کردیتے ہیں جس کے عد اس زمین پر کسی دوسرے بیج کی دال نہیں گلتی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت میں گزشتہ برسوں کسانوں میں خود کشیوں کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ تباہی کے احساس کے ساتھ ساتھ ان خودکشیوں کے پیچھے چھپا مقصد یہ بھی تھا کہ پسماندگان کو انشورنس کی رقم مل جائے گی تو کم از کم وہ تو کچھ بہتر زندگی گزار سکیں گے لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ آنے والی نسل کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا ہے، جو ان کے ساتھ ہوچکا۔
دنیا کے 16 ممالک جی ایم او پیداوار پر جزوی یا کلی پابندی لگا چکے ہیں۔
مکئی، سویابین، کپاس اور کپاس کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل، پپیتا، چاول، کینولا (تیل والا بیج)، آلو، ٹماٹر، دودھ دہی اور اس کی مزید مصنوعات اور مٹر یہ وہ فصلیں ہیں جن کی جین میں تبدیلی کی جارہی ہے۔
کمپنی کے تمام کیفوں اور میسز میں کمپنی کی اپنی ہی اشیاء استعمال کرنا ممنوع ہے۔ موسانتو نامی یہ کمپنی اپنی ہی تیار کردہ جی ایم او خوراک اپنے ملازمین کو کھانے کی اجازت نہیں دیتی اس کے پیچھے چھپا سبب اپنے کارکنوں سے ہمدردی یا محبت نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ کارکنوں کی ہلاکت کے باعث کمپنی جلد گرفت میں آسکتی ہے اور ان پر زہروں کے اثرات ثابت ہونے کے بعد مجرم بھی بآسانی پکڑا جاسکتا ہے جس کے بعد تاوان کی رقم بھی خاصی بھاری ہوتی ہے۔ کمپنی کی مصنوعات کے استعمال سے دنیا بھر میں مسخ شدہ بچے پیدا ہورہے ہیں اور بےپناہ مقدمات اور پابندیاں لگائے جانے کے باوجود کمپنی اپنی فصلیں اور زہریلے بیجوں کی فروخت زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
[box type=»shadow» align=»» class=»» width=»»]
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ
حسب ذیل 16اشیاء کینسر کا سبب بنتی ہیں۔
1۔ مائیکروویو پوپ کارنز
2۔ غیرنامیاتی مصنوعات
3۔ ٹین کے ڈبوں میں بند کیمیائی ٹماٹر
4۔ پراسیس شدہ گوشت
5۔ کیمیکلز والی غذاء کھانے والی فارمی مچھلی
6۔ اضافی سوڈیم والی آلوکے چپس
7۔ ہائیڈروجینی ٹیڈ ویجی ٹیبل آئل
8۔ نمکین، محفوظ کردہ اور دھواں لگی غذائیں
9۔ پراسیس شدہ سفید آٹا
10۔ جینیاتی طور پر تیارکردہ پھل اور سبزیاں
11۔ ریفائن کردہ چینی
12۔ مصنوعی مٹھاس
13۔ کوئی بھی فیٹ فری یا کم فیٹس والی غذا یعنی ‘‘ڈائٹ’’ مٹھائیاں، مشروبات وغیرہ۔
14۔ الکوحل و شراب
15۔ سرخ گوشت
16۔ سافٹ ڈرنکس
[/box]