دھوپ اور سورج کی روشنی سے صحت اور خوبصورتی پائیں….
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں بنائی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں آپ کو کائنات میں ربط ، خوبصورتی اور آپس میں گہرا تعلق نظر آئے گا۔غرض کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی کوئی نہ کوئی فائدہ ہے۔ ایسے میں کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات کی ایک بڑی چیز یعنی سورج کے فوائد نہ ہوں۔
سور ج کی روشنی بہت سی نعمتوں میں سے ایک ہے جس سے سینکڑوں فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور دھوپ کی اہمیت کو صدیوں سے تسلیم کیا جاتا رہا ۔ اب سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ دھوپ اور سورج کی روشنی جسم کی نشونما اور مختلف امراض سے حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔
علم ہیئت وفلکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ سورج کی روشنی جو تقریباً 93 ملین میل کا سفر طے کرتی ہوئی زمین تک پہنچتی ہے ہمارے لیے خوراک، ہوا اور پانی کی طرح ضروری ہے ۔ زمین پر زندگی کو ممکن بنانے میں سورج کا سب سے اہم کردار ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور صحت پر اس کے اثرات گہرے ہیں۔
تازہ ہوا اور سورج کی روشنی ، قدرتی اینٹیبائیوٹکس
سائنسدانوں نے 1930ء کے لگ بھگ ایسی دوائیاں دریافت کیں جو بیماری پھیلانے والے جراثیم کی روکتھام کرتی ہیں۔ اِن دوائیوں کو اینٹیبائیوٹکس کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کو اُمید تھی کہ اِن سے کئی بیماریاں بالکل ختم ہو جائیں گی۔ شروع میں تو اینٹی بائیوٹک کو میڈیکل سائنس کی دنیا میں ہر طرح کے انفکشن کا تیر بہ ہدف علاج سمجھا جاتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دوائیاں اُمیدوں پر پوری اُتر رہی ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد طبی ماہرین نے دیکھا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات اب بےاثر ہونا شروع ہو گئیں، اِن کے بہت زیادہ اِستعمال سے ایسے جراثیم پیدا ہوئے جن پر یہ دوائیاں اثر نہیں کرتیں۔
بعض سائنسدان بیماریوں کی روکتھام کے سلسلے میں اُن طریقوں پر دوبارہ غور کر رہے ہیں جو ماضی میں اِستعمال کیے جاتے تھے۔ اِن میں سے ایک طریقہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کااِستعمال ہے۔
صدیوں سے ایک آزمودہ نسخہ
دو تین صدیاں پہلے ڈاکٹر اس بات پر زور دیتے تھے کہ علاج کے لیے سورج کی روشنی اور تازہ ہوا مفید ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر جان لیٹسم (1744ء-1815ء) یہ مشورہ دیتے تھے کہ ٹیبی میں مبتلا بچوں کے لیے سمندر کی ہوا اور سورج کی روشنی بہت فائدہمند ہے۔
1840ء میں سرجن جارج بوڈینگٹن نے انکشاف کیا کہ جو لوگ کُھلی فضا میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ کسان، چرواہے وغیرہ، یہ لوگ عموماً ٹیبی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ لیکن جو لوگ زیادہتر وقت عمارت کے اندر کام کرتے ہیں، اُنہیں ٹیبی لگنے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے۔
مشہور نرس فلورنس نائٹانگیل نے برطانیہ کے اُن فوجیوں کی دیکھبھال کی جو کریمیا میں ہونے والی جنگ میں زخمی ہو گئے تھے۔ اِس دوران اُنہوں نے نرسنگ کے حوالے سے کچھ نئے طریقے متعارف کرائے۔ اُنہوں نے مشاہدہ کہ جب ڈاکٹر رات کے وقت یا صبح کو کھڑکی کھلنے سے پہلے کسی شخص کے کمرے میں جاتے ہیں تو کمرے سے بہت بُو آتی ہے اور اِس میں حبس ہوتا ہے۔ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ مریض کے کمرے میں تازہ ہوا بہت ضروری ہے لیکن یہ ہوا اِتنی ہونی چاہیے کہ مریض کو ٹھنڈ نہ لگے۔
فلورنس نے بتایا کہ مریضوں کی دیکھبھال کے دوران مَیں نے دو اہم باتیں سیکھیں۔ پہلی تو یہ کہ اُن کے کمرے میں تازہ ہوا کی موجودگی لازمی ہے اور دوسری یہ کہ اُنہیں روشنی کی بھی ضرورت ہے۔ کسی ایسی ویسی روشنی کی نہیں بلکہ سورج کی روشنی کی۔ اُس زمانے میں بہت سے لوگ یہ بھی مانتے تھے کہ بستر کی چادروں اور کپڑوں کو دھوپ میں لٹکانے سے مریض کی صحت پر اچھا اثرپڑتاہے۔
جدید تحقیق سے بھی ثابت ہوا ہے کہ سورج کی روشنی اور تازہ ہوا صحت کے لیے بہت اچھی ہیں۔
2011ء میں چین میں کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جن کالجوں کے ہاسٹلوں میں ہوا کے آنے جانے کا اِنتظام اِتنا اچھا نہیں ہوتا، وہاں زیادہ لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
عالمی ادارۂصحت کا کہنا ہے کہ بیماریوں کی روکتھام کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ عمارتوں میں ایسا اِنتظام موجود ہو جس کے ذریعے تازہ ہوا عمارت کے ہر حصے میں داخل ہو سکے۔
اِس اِدارے کی طرف سے 2009ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا گیا کہ ہسپتالوں میں ہوا کی آمدورفت کے مناسب اِنتظامات کیے جائیں تاکہ بیماریوں کے پھیلنے کا اِمکان کم ہوجائے۔
قدرتی جراثیمکُش دوا
رسالہ جرنل آف ہاسپیٹل اِنفیکشن میں بتایا گیا ہے کہ ‘‘بیماریوں کو پھیلانے والے زیادہتر جراثیم سورج کی روشنی میں مر جاتے ہیں۔’’
ہم تازہ ہوا اور سورج کی روشنی جیسے قدرتی اینٹیبائیوٹکس سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں….؟ اِس کے لیے ہم باہر جا کر تازہ ہوا لے سکتے ہیں اور مناسب وقت تک سورج کی روشنی سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔
ہمارے جسم میں قدرت کا ایک نظام ہے جسے ہم قدرتی حیاتیاتی گھڑی(بائیولوجیکل کلاک) کے نام سے جانتے ہیں، گھڑی ہمارا دن رات کا نظام کنٹرول کرتی ہے۔
ہمارے دماغ میں موجود کیمیکل میلاٹون ہمیں پرسکون نیند فراہم کرتا ہے۔ دماغ میں موڈ بہتر بنانے والے کیمیکل سیراٹونن کی افزائش میں دھوپ مددگار ہوتی ہے۔ اگر کوئی دیر رات تک جاگے یا دھوپ اور سورج کی روشنی سے دور رہے تو یہ بائیولوجیکل کلاک ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ یوں دماغی سستی یا کاہلی میں مبتلا ہونے لگتا ہے ، اس کا اثر نیند ، یادداشت اور انسانی مزاج پر بھی پڑتا ہے۔
روز مرہ کے معمول اور دن و رات کی سائیکل کو نارمل رکھنے کے لیے اردگرد مناسب قدرتی روشنی کا ہونا ضروری ہے ۔
دھوپ میں بیٹھیں اور صحت پائیں
اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں اور جراثیم سے بچنا چاہتے ہیں تومناسب وقت سورج کی روشنی میں رہیں۔ جی ہاں ! سورج کی روشنی سے انسانی مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور انفیکشنزکے خلاف کام کرنے میں مددملتی ہے۔
امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی میں بیٹھنے سے جہاں وٹامن ڈی پیدا ہوتا ہے وہیں اس سے Tسیلزکی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور وہ انفیکشنز کے خلاف بہتر طریقے سے کام کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے ریسرچر ڈاکٹر جیرارڈ اہرین کا کہنا ہے کہ ‘‘ٹی سیلز انفیکشن والی جگہ پر جاتے ہیں اور جراثیم کو ختم کرکے ہمیں بڑے نقصان سے بچاتے ہیں۔سورج کی روشنی ہمارے مدافعتی نظام میں ان Tسیلز کے عمل کو تیز کردیتی ہے اور ہم انفیکشنز سے بچ جاتے ہیں۔’’
وٹامن ڈی کا حصول
سورج کی روشنی وٹامن ڈی کے حصول کا بہت اہم ذریعہ ہے، وٹامن ڈی جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانت کو مضبوط کرتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو مضبوطی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
دیگر وٹامن کے حصول کے لیے اچھی، غذائیت سے بھرپور اور صاف ستھری خوراک کھانی ضروری ہے لیکن وٹامن ڈی کو ہمارا جسم خود ہی بنالیتا ہے۔ اس کے لیے دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا جسم سورج کی شعاعوں کو جذب کر کے جسم میں داخل کرتا ہے اور جسم خود کار نظام کے تحت ان شعاعوں کو وٹامن ڈی میں تبدیل کردیتا ہے۔
سورج کی روشنی قدرت کا وہ تحفہ ہے جس سے وٹامن ڈی کا حصول بآسانی ممکن ہو جاتا ہے لیکن اسے غذاؤں سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سورج کی روشنی کے بعد وٹامن ڈی سب سے زیادہ دودھ میں پایا جاتا ہے۔ روزانہ ایک گلاس دودھ پینے والے افراد کی ہڈیاں، عضلات اور دانت مضبوط رہتے ہیں اور وہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ کچھ خاص قسم کی مچھلیاں وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں ان میں دیگر وٹامن کے علاوہ وٹامن ڈی کی کافی مقدار پائی جا تی ہے اور یہ زود ہضم بھی ہوتا ہے اسی لیے مچھلی کو اپنی خوارک کا حصہ ضرور بنائیں۔ مرغی کا انڈا بھی وٹامن ڈی سے بھرپورغذا ہے خصوصی طور پر انڈے کی زردی میں وٹامن ڈی موجود ہوتا ہے اس لیے انڈے کے استعمال سے وٹامن ڈی کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کلیجی اور پنیر میں بھی وٹامن ڈی موجود ہے جس کے باقاعدہ استعمال سے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار برقرار رہتی ہے۔
وٹامن ڈی کی کمی اور امراض
آئیے اب جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی سے دوری اور وٹامن ڈی کی کمی کن بیماریوں کو دعوتدیتی ہے….؟
ماہرین کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی سے سب سے زیادہ ہڈیوں اور عضلاتی نظام کو اُٹھانا پڑتا ہے ، بڑی عمر کے افراد میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کمی سے جوڑوں میں درد، ہڈیوں کا بھر بھرا پن، فریکچر اور گٹھیا جیسی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ جسم کی درست نگہداشت اور نشونما کے لیے وٹامن ڈی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ جب ہڈیوں میں مناسب وٹامن ڈی موجود ہوتا ہے تو یہ کھانے سے کیلشیئم حاصل کرنے میں معاونت فراہم کرتاہے ۔ بچوں کے لیے بھی وٹامن ڈی بے حد ضروری ہے ۔ بڑھنے والی عمر میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی متوازن فراہمی سے ہڈیوں کو مصنوعی ملتی ہے ۔
وٹامن ڈی ہماری ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بنانے کے علاوہ مختلف بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔ وٹامن ڈی چونکہ عضلات کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے اسی لیے دل کے عضلات کی بیماری بلند فشار خون اور دل کو خون مہیا کرنے والی شریانوں کی بیماری سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سورج کی روشنی سے دل کی شریانیں کھل جاتی ہیں اور بلڈ پریشر کسی حد تک نارمل رہتا ہے۔ مناسب دھوپ بلڈ پریشر کم کرنے کے ساتھ ساتھ وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ سورج کی روشنی سے نہ صرف ہارٹ اٹیک اور فالج جیسی بیماریوں کے خطرات کم ہوتے ہیں، بلکہ یہ قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہے۔ وٹامن ڈی گٹھیا، کینسر اور کئی دیگر امراض کے خطرات کو بھی کم کرتا ہے ۔
سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر اثرات
سورج کی روشنی میں موجود وٹامن ڈی ہڈیاں کو مضبوط بناتا ہے۔ فرانس کے ہڈیوں کے ماہر امراض نے تحقیق میں پتہ چلایا ہے کہ سورج کی کرنوں میں موجود رنگ صحت بھی بہتر بناتے ہیں۔
جامنی رنگ انسومونیااور پھیپھڑوں کی مسئلہ دور کرتا ہے اور جسم میں چستی لاتا ہے۔
سبزرنگ :آنکھوں کے امراض ،ذیابطیس ،جلدکی بیماری،کھجلی،سردی،اور سردرد میں فائدہ مند ہے۔یہ رنگ خواتین کی بعض بیماریوں ،بی پی،نیند نہ آنا،میں مفید ہے۔
آسمانی رنگ:بالوں کا جھڑنا کم کرتا ہے اور ذہنی طاقت بھی دیتا ہے۔
پیلا رنگ:پیلا رنگ جسم کی بیماری اور دماغ ،جگر کومضبوط کرتا ہے۔یہ آنکھوں کیلئے بھی مفید ہوتا ہے۔
دھوپ کی کرنیں ہائی بلڈ پریشر کا علاج
اگر آپ سورج کی روشنی سے خود کو دور رکھنا شروع کردیں تو یہ دل اور بلڈپریشر کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی لینے سے دل کی شریانیں کھلی رہتی ہیں اور انسان کا بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔
سائنسدانوں نے مشورہ دیا ہے کہ بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا افراد میں دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کرنے کے لیے وٹامن ڈی سپلیمنٹ متبادل دوا کے طور پر تجویز کیجاسکتیہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا سے وابستہ سائنسدانوں کے مطابق نتیجے سے معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی کی مقدار میں 10 فیصد کا اضافہ، ہائپرٹینشن اور بلند فشار خون کے خطرے کو 8.1 فیصد کم کر سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بلند فشار خون کا عارضہ دل کے دورے، فالج اور گردے کے امراض پیدا کرتا ہے۔ بلڈ پریشر کو کم رکھنے والی کئی ادویات کے عام ضمنی اثرات مثلاً کھانسی، چکر آنا وغیرہ شامل ہیں۔ وٹامن ڈی سپلی منٹس سے ایسے مریض فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق دھوپ جسم میں نائٹرک آکسائیڈ بنانے میں مدد دیتی ہے جو دل کے نظام کی حفاظت کرتا ہے۔
ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کے ریسرچرز نے دریافت کیا ہے کہ دھوپ کھانے سے جلد اور خون کی شریانوں میں موجود ایک خاص مرکب نائٹرک آکسائیڈ (گیس مالیکیول ) کی سطح تبدیل ہو جاتی ہے ۔ ایک سائنسدان کے مطابق نائٹرک آکسائیڈ یا (این او) کا مرکب قدرتی طور پر ہماری جلد کے اندر وافر مقدار میں موجود ہیں جو بلڈپریشر کو اعتدال میں رکھنے کے کام آتا ہے ۔
قوتِ مدافعت میں اضافہ
وہ لوگ جو سردی کے موسم میں بار بار کھانسی، نزلہ،زکام اور سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنا وٹامن ڈی کا ٹیسٹ ضرور کرائیں کیوں کہ ایسے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی عام بات ہے۔ سورج کی روشنی سے انسان میں مدافعتی نظام طاقتور ہوتا ہے ۔ سورج کی کرنوں سے جسم میں خون کے سفید خلیات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاہے ۔
انسانی جلد پر اثرات
جلد کے کئی مسائل کو جن میں سروسس بھی شامل ہے ، سورج کی شعاؤں سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے ۔ سروسس میں جلد میں موجود خلیات تیزی سے جھڑنے لگتے ہیں جس سے جلد میں خارش ہونے لگتی ہے اور سفید دھبے پڑ جاتے ہیں ۔ سورج کی الٹرا وائلٹ شعائیں اس عمل کو سستکردیتی ہیں ۔
سورج کی روشنی اور موٹاپے میں کمی
ماہرین کے مطابق دھوپ میں بیٹھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے جسم میں جلن اور سوزش کی کمی ہوتی ہے۔ دھوپ سینکنے کا عمل ذیابیطس کے خطرے کو کم کرتا ہے ۔
امریکا اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے اپنی مشترکہ تحقیق کے دوران سورج کی افادیت کو ثابت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں موٹاپے کو کم کرنا ہے تو اس کے لئے قدرت نے ہمیں دھوپ کا انمول تحفہ دیا ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق سورج کی روشنی میں مناسب وقت گزارنے، پابندی سے ورزش اور صحت مند خوراک کے استعمال کے ذریعے موٹاپے میں اضافے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
کینسر سے نجات
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کینسر بالخصوص چھاتی کے سرطان کی اہم وجوہات میں سے ایک وٹامن ڈی کی کمی ہے لہذا اگر انسان مناسب وقت تک سورج کی روشنی میں بیٹھے تو اس سے جسم میں وٹامن ڈی پیدا ہوتی ہے اور کینسر لاحق ہونے کے امکانات میں کمی ہو جاتی ہے۔
الزائمرز اور پرسکون نیند کے لئے مفید
سائنسی تحقیق کے مطابق دن میں سورج کی روشنی کا استعمال اور رات کے وقت اندھیرے میں رہنے سے خطرناک بیماری الزائمرز کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ ایسے مریض جنہیں سورج کی روشنی میں رکھا گیا ان میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ رات کو دوسرے مریضوں کی نسبت سکون سے سوتے رہے اور ان کی یادداشت بھی بہتر رہتی ہے۔ اچھی اور پر سکون نیند کے لیے سورج کی دھوپ میں وقت گزارنا مفید ہے ۔
اسٹریس اور ڈپریشن سے نجات
ایسے ممالک جو خط استوا سے دور واقع ہیں اور جہاں سورج کی بنفشی تابکاری شعاعیں کم پہنچتی ہیں وہاں موسم سرما کے دوران اسٹریس اور ڈپریشن کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا تصویر جرمنی کےریہب کلینک کی ہے جہاں ایسے مریضوں کو روزانہ 30 منٹ لائیٹ تھراپی کے ذریعے مصنوعی طور پر نیلی روشنی میں بٹھایا جاتا ہے تاکہ وہ الٹرا وائلٹ شعاعیں اور وٹامن ڈی حاصل کرسکیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے بھی دماغی امراض اور ڈپریشن ختم کرنے کے لئے نیلی روشنی کا مراقبہ مفید بتایا ہے۔
انسانی جذبات مثلاً خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی و بیشی سے انسان کئی امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی ان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے جن میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوپ ذہنی کیفیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔دماغ میں موڈ بہتر بنانے والے کیمیکل سیراٹونن کی افزائش میں دھوپ مددگار ہے۔ سورج کی شعاؤں کے جسم میں داخل ہونے سے سیروٹونن لیول بڑھ جاتا ہے جس سے انسان چست و توانا رہتا ہے۔
دھوپ سے لمبی عمر کا تعلق
سائنسی جریدہ جرنل آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ دھوپ سے بچنے والے لوگوں کے مقابلے میں دھوپ میں زیادہ وقت گزارنے والے لوگوں میں لمبی زندگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اعدادوشمار سے ظاہر ہوا کہ زیادہ دیر تک سورج کی روشنی میں رہنے والی عورتوں میں دل کی بیماری کا خطرہ کم ہوا تھا ۔
سن لائیٹ تھراپی
سورج کی روشنی اور دھوپ کی اہمیت کو صدیوں سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اب طبی ماہرین اس ضمن میں سن لائیٹ تھراپی متعارف کروارہےہیں۔
سن لائٹ تھیراپی مطلب یہ ہے کہ روزآنہ دھوپ میں باہر نکلا جائے یا اسپیشل لائٹ تھیراپی بلب کے نیچے کچھ وقت گزارا جائے ۔ سورج سے وٹامن ڈی حاصل کرنے کا کوئی خاص وقت تو نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ صبح کی دھوپ لینا جسم اور صحت کے لیے زیادہ فائدے مند ہے ۔
شخصیت میں کشش، مقناطیسیت میں اضافہ ،
خوبصورتی اور نظر کی کمزوری سے نجات کے لیے
سورج بینی اور شغل آفتابی
از: خواجہ شمس الدین عظیمی
سورج ہمارے نظام سیارگان میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور روشنی و توانائی کا ذریعہ ہے۔ سورج کی روشنی سے ہمارے سیارے پر زندگی کے افعال متحرک رہتے ہیں۔ پودے اور جاندار دونوں سورج کی توانائی سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ سورج کی توانائی کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر ذخیرہ کرنے اور استعمال کرنے کے لئے کسی طریقے ایجاد کئے گئے ہیں۔ ان طریقوں سے نہ صرف اعصابی نظام میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ جلد کی خوبصورتی، شخصیت میں کشش اور مقناطیسیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مضبوط اور توانائی سے بھرپور اعصابی نظام، دنیاوی اور روحانی دونوں معاملات میں بہت ضروری ہے۔
ان طریقہ کار میں پہلا طریقہ سورج بینی کا ہے۔ سورج کی طرف دیکھنے سے فضا میں گشت کرنے والی کئی لہریں آنکھوں، چہرے اور بالوں کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتی ہیں۔ دماغ اور آنکھوں کے ریشوں میں جو فیکٹریاں کام کرتی ہیں وہ (بذریعہ اِنجذاب) اپنے لئے ان لہروں سے توانائی حاصل کرتی ہیں۔
صبح طلوعِ آفتاب کے وقت فضا میں ایسی توانائی کا ذخیرہ ہوتا ہے جن سے بطورِ خاص انسانی حواس، دل و دماغ کی بہت سی قوّتیں اور صلاحیتیں نمو پاتی ہیں۔ ان صلاحیتوں میں دیکھنے کی صلاحیت بھی ہے۔ سرخ نکلتے سورج کی ٹکیہ کا عکس جب آنکھ کے ریشوں اور عضلات پر پڑتا ہے تو آنکھ کے عضلات اور اعصاب کو خصوصی نشونما ملتی ہے۔ سورج کی شعاعیں توانائی بخشتی ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ توانائی بینائی بہتر ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
سورج بینی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ نکلتا ہوا سورج ایک منٹ سے زیادہ نہ دیکھا جائے اور جس جگہ بیٹھ کر سورج بینی کی جائے وہاں کا ماحول صاف ستھرا ہو۔ فضا میں دھواں یا گرد و غبار نہ ہو۔ آسمان اگر ابر آلود ہو تب بھی وقت مقررہ پر مشرق کی جانب منہ کر کے بیٹھ جانا چاہئے۔ سورج بینی نظر کا چشمہ اتار کر کی جائے۔ تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ اگر مسلسل چھ ماہ تک سورج بینی کی جائے تو آنکھ سے چشمہ اتر جاتا ہے۔
نظر کی کمزوری میں مبتلا افراد صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے چھت پر یا جہاں سے سورج نظر آئے بیٹھ جائیں اور آسمان میں اس جگہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔ نظر جما دیں لیکن سورج میں چمک آ جانے کے بعد نہ دیکھیں، صرف سرخ ٹکیہ کو دیکھیں۔ دن میں کئی کئی سونف چبا چبا کر کھائیں، عرق چوس کر پھوک تھوک دیں۔ سورج دیکھنے کی مدت دو مہینے ہے۔ اس عمل سے پہلے معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
توانائی اور خوبصورتی کے لیے ایک آسان اور محفوظ طریقہ شغل آفتابی کا ہے۔ سورج نکلنے سے ذرا پہلے کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو جائیں۔ یہ مقام کوئی پہاڑی، پل، گھر کی چھت یا بالکونی ہو سکتا ہے۔ جگہ اور حالات کے مطابق آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں یا سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ کمر پر رکھ لیں۔
آپ کا چہرہ اس طرف ہونا چاہیے جہاں سے سورج نکلتا ہے۔جیسے ہی سورج افق سے نمودار ہونا شروع ہو آنکھیں بند کر کے سورج کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور تصور کریں کہ سورج کی روشنی توانائی کی صورت میں جسم میں جذب ہو رہی ہے۔ جب سینہ سانس سے بھر جائے تو تصور کریں کہ یہ توانائی پورے جسم میں پھیل گئی ہے۔ پھر سانس کو آہستہ آہستہ باہر نکال دیں۔
پہلے دن ایک منٹ یہ شغل کریں۔ پھر ہر دس دن کے بعد ایک منٹ بڑھا دیں اور اس طرح وقت بڑھا کر تین منٹ کر دیں۔ مطلع ابر آلود ہو تو بھی اسی طرح یہ عمل کریں۔
فرق صرف یہ ہو گا کہ سانس اندر کھینچتے ہوئے تصور کریں کہ افق پر سورج موجود ہے اور اس کی توانائی کی لہریں آپ کے اندر جذب ہو رہی ہیں۔
n
چند احتیاط
سورج کی شعائیں یوں تو جسم کے لیے ناصرف مفید ہیں بلکہ بے حد ضروری بھی ہیں ۔ اس سے حاصل ہونےو الا وٹامن انسانی جلد اور مجموعی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ البتہ یہ ہی شعائیں اگر ضرورت سے زیادہ جسم کو مل جائیں تو نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
اگر باہر دھوپ میں ضرورت سے زیادہ وقت بتایا جائے تو سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلیٹ UV شعائیں جلد کے کینسر، موتیا اور دیگر امراض کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح آرٹیفیشل بلب کے نیچے ضرورت سے زیادہ وقت گزارنے سے مزاج میں اضطراب یا کئی اعصابی بیماریاں جیسے بائی پولر لاحق ہو سکتا ہے ۔
زیادہ دیر تک سورج کے نیچے رہنے سے جلد کا کینسر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ تین اہم جلدی کینسر کی اقسام سورج کی شعاؤں کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں ۔ جلد کی رنگت بھی سورج سے متاثر ہو سکتی ہے ۔ اکثر لوگ جو زیادہ دیر تک سورج کے نیچے رہتے ہیں ان کی جلد کا رنگ سیاہ پڑنے لگتا ہے ۔ بہت زیادہ دیر دھوپ میں رہنے سے قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے ۔ سورج کی شعائیں بیماریوں سے لڑنے والے سفید خلیات کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اس سے آنکھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ UV شعاؤں کی زیادتی سے جلد کے ٹشوز متاثر ہونے لگتے ہیں ۔ UV سے جلد جلدی بوڑھی ہو جاتی ہے۔کیونکہ کہ یہ اوپری جلد کے نیچے موجود ٹشوز اور کولاجن کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
دھوپ ضروری مگر کتنی ….؟
ہمارے جسم کو سورج کی روشنی کی کس قدر ضرورت ہے، اس کا انحصار ہماری صحت، عمر اور جلد کی صحت پر منحصر ہے۔
وٹامن ڈی کے حصول کے لیے ماہرین ہدایت کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ دیر روزانہ دھوپ میں گزارنا چاہیے، لیکن کتنی دیر دھوپ میں رہنا کافی ہوتا ہے….؟
ماہرین نے اپنی نئی تحقیق میں اس کا جواب دیا ہے کہ :
‘‘اوسط صحت کے مالک شخص کو گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ 29منٹ تک براہ راست دھوپ میں رہنا چاہیے جبکہ سردیوں میں وہ 150منٹ تک دھوپ میں رہ سکتے ہیں۔دونوں موسموں میں مذکورہ وقت دھوپ میں گزارنے سے وٹامن ڈی کی اتنی مقدار حاصل ہو جاتی ہے جو دن بھر کی جسمانی ضرورت کے لیے کافی ہوتی ہے۔’’
یونیورسٹی آف ویلنشیا کے ماہرین مسلسل 7سال تک درجنوں لوگوں پر سورج کی شعاعوں کے اثرات اور وٹامن ڈی کی مقدار پر تجربات کرتے رہے ۔ تحقیقاتی ٹیم کے رکن ماریا سرینو کا کہنا تھا کہ ‘‘دھوپ میں بیٹھنے کا انداز، جسمانی ساخت اور ملبوسات بھی سورج کی تابکاری شعاعوں کے انسان پر اثرانداز ہونے میں تبدیلی لاتے ہیں۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جسم کے تمام حصے سورج کی شعاعوں سے وٹامن ڈی حاصل کرنے کی یکساں صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے ہمارے دھوپ میں بیٹھنے یا چلنے کا زاویہ بھی وٹامن ڈی کے حصول پر اثرانداز ہوتا ہے۔’’
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ مارچ 2018 کے شمارے سے انتخاب
اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!