Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پاکستان میں تعلیم کو عام کرنے والے چند بڑے ادارے


جرمن کہاوت ہے….
‘‘ایک بھلا انسان تو خوشیوں کی مانند ہے۔ اسی لیے ہر جگہ اس کا اثر پھیل جاتا ہے۔’’
کچھ شخصیات دنیا میں ایسی بھی آئی ہیں جو اپنی پوری زندگی مخلوق خدا کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کرتی ہیں ایسی شخصیات کا کام اور نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ان کی خوشبو ہر دور میں محسوس کی جاتی ہے۔
ایسے ہی کچھ لوگوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں میں محبت بانٹنے اور انہیں زندگی کی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں گزار دی۔

راشد آباد

13 دسمبر 1997 کو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد احمد خان کے طیارے کو دوران پرواز آگ لگ گئی، کمانڈ اینڈ کنٹرول روم سے ہدایات ملنے لگیں۔ خدشہ تھا کہ جہاز کہیں کسی آبادی پر نہ گر جائے اور اس سے ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچے۔ قوم کے بہادر بیٹے فلائٹ لیفٹیننٹ راشد احمد خان نے آخری لمحے تک جہاز میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاک فضائیہ کے جانباز افسر نے اپنی شہادت قبول کرتے ہوئے ملک و قوم کے تحفظ کے اٹھائے حلف کی حفاظت کی۔
فلائٹ لیفٹیننٹ راشد احمد خان کے والد شبیر بھی پاک فضائیہ میں ائیرکموڈور رہ چکے ہیں۔ بیٹے کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے بیٹے کی یاد کو قوم میں علم کے فروغ کی کوششوں میں بدل دیا۔ ان کا خواب تھا ایک ماڈل شہر آباد کیا جائے۔ 20 سال کی انتھک کوشش کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس شہر علم و مرکز صحت کو ٹنڈوالہیار سے 6 کلومیٹر دوری پر ‘‘راشد آباد’’ کے خواب کو عملی جامہ پہنادیا۔
ایئرکموڈور شبیر خان کہتے ہیں کہ ایئر فورس سے رٹائرمنٹ ملی تو ایک اور سفر شروع ہوا۔
‘‘جو کچھ ہمیں ملا کیا اس میں سے کچھ واپس نہیں کرنا’’۔ کمانڈر شبیر نے اپنے دوستوں کو بلاکر یہ سوال پوچھا اورحیرت زدہ کر دیا۔ سب نے اپنی اپنی پنشن اورپراویڈنٹ فنڈ جمع کیے اور اس کا حساب کتاب اپنے دوست کمانڈر کو سونپ دیا۔ایثار اسی کا نام ہے۔
میر پور خاص اور ٹنڈو اللہ یار کے نواح میں سو ایکڑ زمین خریدی گئی۔ سو ایکڑ کی بڑی اچھی تقسیم ہوئی۔ پچاس ایکڑ میں ایک اسکول۔ سرگودھین اسپرٹ ٹرسٹ پبلک اسکول اور بقیہ پچاس ایکڑ میں آنکھوں کا ہسپتال، تھیلے سیمیاکا مرکز، گونگے بہرے افراد کا مرکز، بوڑھے اور بے سہارا افراد کے لیے اولڈ ایج ہوم، فنی تعلیم کا بہترین مرکز اور سٹیزن فاؤنڈیشن کا ایک اسکول۔
راشد آبادمیں ایک نہیں کئی شہر آباد ہیں لیکن اس شہر کا اصل سرمایہ وہ تین ہزار بچے ہیں جو یہاں کے ٹی سی ایف اور ٹرسٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ ٹرسٹ اسکول آکسفورڈ یا کیمبرج کی طرح کا ہی ایک خواب ہے۔

سماجی شعبے میں ترقی، سٹیزنز فاؤنڈیشن TCF ایک مثالی ادارہ

دی سٹیزنز فاؤنڈیشن کے اسکولوں کا شمار پاکستان کے اعلیٰ درجے کے غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں اس تنظیم کی خدمات نمایاں ہیں۔ اس ادارے کے بانیوں میں سے ایک، مشتاق چھاپڑا ہیں۔
پاکستان میں سٹیزنز فاؤنڈیشن کے ایک ہزار سے زائد اسکولوں میں ایک لاکھ پینسٹھ ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان اسکولوں میں مجموعی طور پر تقریباً نو ہزار خاتون ٹیچرز تدریسی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
مشتاق چھاپڑا کا کہنا ہے کہ سن 1995 میں ہم چند دوستوں نے جو کامیاب کاروباری شخصیات تھیں، پاکستانی معاشرے کو ،کچھ واپس کرنے، کے بارے میں سوچا۔ ہم سب کی رائے یہ تھی کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے کسی بھی ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
اس خواب کی تکمیل کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سن 1996 میں کراچی میں پانچ اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی۔ آج بیس برس بعد ملک بھر میں اس فاؤنڈیشن کے 1060 اسکول کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ چھاپڑا کے مطابق دی سٹیزنز فاؤنڈیشن کے اسکولوں کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ چلایا جاتاہے۔
مشتاق چھاپڑا کا کہنا تھا کہ جب انہو‌ں نے پہلی مرتبہ اسکول قائم کیے، تو ایک غریب خاتون نے انہیں گزارش کی کہ وہ اپنی بیٹی کو صرف اسی صورت میں اسکول بھیجے گی جب اسکول میں مردوں کے بجائے خاتون اساتذہ ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ واقعہ ہے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ایسے اسکولوں میں خواتین ٹیچرز ہی تعلیم دیا کریں گی۔
مشتاق چھاپڑا کہتے ہیں۔
‘‘ہمارے اسکولوں میں آٹھ ہزار نو سو خواتین اساتذہ ہیں۔ اساتذہ کو اسکول کی گاڑی ان کے گھروں سے لاتی اور واپس چھوڑتی ہے۔ اساتذہ کو کراچی اور مانسہرہ میں قائم تربیتی مراکز میں تربیت بھی دی جاتی ہے۔’’
اس فاؤنڈیشن نے خواتین اساتذہ کو ملازمتیں دے کے انہیں اپنے لیے باعزت روزگار کا موقع فراہم کیا ہے بلکہ ساتھ ہی اس تنظیم کے تمام اسکولوں میں داخلے کے لیے لڑکیوں کے لیے 50 فیصد کوٹہ بھی مقرر ہے۔
یہ اسکول ملک بھر میں پسماندہ اور غریب آبادی والے 109 چھوٹے بڑے علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں تاکہ بچوں کو تعلیمی سہولیات ان کے گھروں کے قریب ہی میسر ہوں۔ ان اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات پر اوسطاﹰ ماہانہ تقریباً دو ہزار روپے کے برابر خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ عام بچوں کے والدین سے پانچ سو روپے سے لے کر ایک سو روپے تک فیس لی جاتی ہے۔ نہایت غریب گھرانوں کے بچوں سے کوئی فیس نہیںلیجاتی۔
فاؤنڈیشن کے 60 فیصد اسکولوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی نصب ہیں اور ہر بچے کو تین سے چار لیٹر پانی ہر روز گھر لے جانے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔
اس ادارے نے حال ہی میں ایک نئے منصوبے کا آغاز بھی کیا ہے۔ اس کے تحت کمیونٹی کی ان پڑھ خواتین کو تین ماہ کا ایک بنیادی تعلیمی کورس کرایا جاتا ہے۔ یہ کورس پورا کرنے کے بعد متعلقہ خواتین تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔
مشتاق چھاپڑا نے بتایا کہ اب تک ان اسکولوں سے بارہ ہزار پانچ سو بچوں نے اپنی تعلیم کامیابی سے مکمل کی ہے۔ ان میں سے بھی 72 فیصد کالج تک کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سٹیزنز فاؤنڈیشن کے اسکولوں میں مالی طور پر محروم خاندانوں کے جو بچے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکیں یا فیل ہو جائیں تو انہیں اسی ادارے کی طرف سے ووکیشنل ٹریننگ بھی فراہم کی جاتی ہے۔

انجمن اسلامیہ ٹرسٹ

انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کے بانی الحاج مولوی ریاض الدین احمد (تمغۂ امتیاز) کا شجرۂ نصب برصغیر کے ایک معروف صوفی بزرگ حضرت شیخ سلیم الدین چشتی سے جا ملتا ہے۔ آپ کی ولادت آگرہ شہر میں سن 1906 عیسوی میں ہوئی۔ ریاض الدین احمد صاحب میں اپنے والدین کی جانب سے ملنے والی تربیت نے تعلیم سے محبت پیداکی۔
مولوی ریاض الدین احمد صاحب نے کئی معیاری تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ خصوصاً برصغیر کی مسلم خواتین کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں آپ کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔
ریاض الدین احمد صاحب کو اس بات کا پوری طرح ادراک تھا کہ برصغیر کے مسلمان اُس وقت تک ایک عظیم قوم نہیں بن سکیں گے کہ جب تک ان کی خواتین تعلیمی میدان میں آگے نہیں آتیں، اس لیے آپ نے تقسیم برصغیر سے قبل آگرہ شہر میں لڑکیوں کے لیے محمودہ نسواں اسکول اور ایک لائبریری قائم کی ۔
ریاض الدین احمد قائد اعظم سے بہت متاثر تھے، آپ کو قائد اعظم کی لیڈرشپ پر مکمل اعتماد تھا۔ آپ مسلم لیگ کے ایک متحرک کارکن بھیرہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم کے فروغ کے لیے مولوی صاحب کی محنت اور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے بہت ہی خوشی کے ساتھ اپنا نام یعنی جناح مولوی ریاض الدین احمد کے بنائے ہوئے کالج کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی، جسے وہ ہندوستان کے شہر آگرہ میں تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مولوی ریاض الدین صاحب کراچی تشریف لے آئے اور خواتین کے لیے آگرہ شہر میں جس کالج کو تعمیر کرنے کا خواب دیکھا تھا، اب اسے کراچی میں قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس مقصد کے لیے ابتداء میں آپ کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آپ کے چاہنے والے اکثر مخیر حضرات آگرہ میں تھے، جبکہ کراچی مولوی صاحب کے لیے ایک انجان اور نئی جگہ تھا۔ ان تھک اور مسلسل کوششوں کے بعد مولوی ریاض الدین کراچی کے علاقے پاکستان چوک میں لڑکیوں کے لیے ایک کالج بنانے میں کامیاب ہوئے، جسے بعدازاں ناظم آباد منتقل کردیا گیا۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ریاض الدین احمد صاحب کو لڑکیوں کے کالج بنانے کی خاطر بخوشی جگہ الاٹ کی، وہی کالج جس کا خواب مولوی صاحب نے آگرہ میں دیکھا تھا۔ اس کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جو خواتین کے اس کالج کی تعمیر میں ذاتی دلچسپی رکھتی تھیں، انہوں نے اس کالج میں سائنس بلاک کی تعمیر کے لیے خصوصی معاونت کی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں کہ جب پوری قوم سخت آزمائش کے دور سے گزر رہی تھی، اُن دنوں مولوی ریاض الدین صاحب تقریباً 17 تعلیمی ادارے بنانے میں کامیاب رہے، خصوصاً خواتین کی تعلیم کے لیے مولوی صاحب کی خدمات قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں۔
ریاض الدین صاحب کے قائم کردہ تعلیمی اداروں نے کراچی شہر میں علم کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا، اور آپ کے بنائے اداروں سے ایسے ہونہار طالب علم نکلے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کیا۔
ریاض الدین کے لڑکیوں کے لیے بنائے گئے کالج کو 1985 میں پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دیا گیا، بعد ازاں 1998 میں اس کالج کو ترقی دے کر باقاعدہ ایک یونیورسٹی میں تبدیل کردیا ۔ الحاج ریاض الدین صاحب کا بنایا ہوا یہ ادارہ پاکستان کی پہلی خاتون یونیورسٹی کے اعزاز کا حامل اور جناح یونیورسٹی فار ویمنز کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کا شمار ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں ہوتاہے۔

انجمن حمایت اسلام

اس انجمن حمایت اسلام ادارے کے قیام کا محرک بھی وہی جذبہ تھا جس نے سرسید احمد خان کو علی گڑھ کالج قائم کرنے پراکسایا تھا۔ بیسویں صدی کے شروع میں قاضی خلیفہ حمیدالدین صاحب کی سخت محنت سے اس انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا دفتر لاہور میں حویلی سکندر خاں کے ایک چھوٹے سے مکان میں قائم کیا گیا۔ قاضی صاحب کے رفقائے کار میں مولوی غلام اللہ، منشی عبدالرحیم، منشی چراغ دین، حاجی میر شمس الدین، خان نجم الدین اور ڈاکٹر محمد دین ناظر شامل تھے۔
انجمن کے پہلے اجلاس (منعقدہ 24 ستمبر 1884ء) میں سال بھر کی مجموعی آمدنی سات سو چون روپے اور کل خرچ تین سو چوالیس روپے تھا۔ بزرگوں نے جس انجمن کی بنیاد اس بے سروسامانی کے عالم میں رکھی تھی وہ کچھ عرصہ بعد ایک بڑا تعلیمی اور ثقافتی ادارہ بن گئی۔
ایک زمانے میں انجمن کے سالانہ جلسوں کا چرچا سارے برصغیر میں تھا اور اس کی تقریب کو قومی تہوار کی سی حیثیت حاصل تھی۔ برصغیر کے نامور رہنما، اہل علم و دانش، ادیب، شاعر اور سیاست دان اس کی کارروائی میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، محسن الملک، سر محمد شفیع، سر شیخ عبدالقادر، جسٹس شاہ دین اور علامہ اقبال بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ان زعما نے انجمن کے جلسوں میں اپنی نظمیں، مقالے اور مضامین پیش کیے۔
علامہ اقبال نے اپنی بعض مشہور نظمیں انجمن کے ہی جلسوں میں پڑھیں۔
انجمن کے زیراہتمام متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ ایک طبیہ کالج اور دو یتیم خانوں کا انتظام اب بھی انجمن کے ہاتھ میں ہے جبکہ انجمن کے قائم کردہ کالج اور اسکول قومی تحویل میں لے لیے گئے ہیں۔
علامہ محمد اقبالؒ کا تعلق انجمن حمایت اسلام سے بہت زیادہ رہا ہے۔ علامہ نے انجمن کے اجلاس میں ملی نغموں کا آغاز کیا۔ علامہ اقبالؒ انجمن کے ممبر، سیکرٹری اور صدر بھی رہے۔ انجمن کا قیام 21 جنوری 1865ءانجمن پنجاب، لاہور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1869ء انجمن اسلامیہ پنجاب ہوئی اور 1884ء میں انجمن حمایت اسلام کا قیام عمل میں رہا۔
علامہ اقبالؒ خود بھی اسلامیہ کالج میں اعزازی پروفیسر رہے ۔

یہ بھی دیکھیں

جنات، آسیب، شر، سحر،حسد، نظربد اور خوف سے نجات کے لیے دعائیں اور وظائف

جنات، آسیب، شر، ...

مغفرت ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو

مغفرتـ ڈھونڈتی ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *