Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. โปรดดู การแก้ข้อผิดพลาดใน WordPress สำหรับข้อมูลเพิ่มเติม (ข้อความนี้ถูกเพิ่มมาในรุ่น 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
پراسرار مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 2 – روحانی ڈائجسٹ
วันจันทร์ , 3 พฤศจิกายน 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

پراسرار مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 2

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

پراسرار مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل

حقیقت کیا ہے؟
حصہ دوم

کیا برمودا ٹرائی اینگل میں ہونے والے واقعات یہ موسمی خرابی سے واقع ہوئے ہیں یا عام انسانی لاپرواہی کا نتیجہ ہیں…. یہ خطہ مقناطیسی اثرات کے زیرِ اثر ہے یا زمان و مکان اور طبیعی قوانین سے آزادہے…. ان میں جہازوں کے گُم ہونے کی کوئی سائنسی دلیل ہے یا پھر کوئی مافوق الفطرت اور انسانی سمجھ سے بالاتر قوّت ان حادثات کی ذمہ دار ہے….بہر حال!افواہیں، کہانیاں، نظریات اور اندازے جتنے بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ آج کی 21ویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی ترقی کے باوجود برموداٹرائی اینگل سائنسدانوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔

 

گذشہ سے پیوستہ

گذشتہ شمارہ میں آپ نے سینکڑوں بحری اورہوائی جہاز اور ہزاروں نفوس کی گمشدگی کے وہ حیرت انگیز واقعات پڑھے جو برمودا ٹرائی اینگل کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس کی شہرت کا باعث ہیں ۔
برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت کیا ہے ، اس بارے میں ایک عرصہ سے عالمی فورمز پر بحث ہورہی ہیں، کئی دہائیوں سے مختلف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ برسہابرس کی تحقیق اور غورو فکر کے باوجود بھی اب تک یہاں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں کوئی ایسا ٹھوس نظریہ پیش نہیں کیا جاسکا جس پر تمام مفکرین، سائنسدان اور ماہرین متفق ہوسکیں۔
اب تک برمودا ٹرائی اینگل کے متعلق جتنے بھی اظہارِ خیال ، اندازے اور نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر انہیں تین گروہ میں تقسیم کیا جاسکتاہے ۔اول وہ اظہارِ خیال ہیں جو برمودا ٹرائی اینگل میں ہونے والے واقعات کی سرے سے نفی کرتے ہیں …. دوم وہ اندازے ہیں جوبرمودا کے واقعات کو سائنسی دلائل کی رو سے سمندری حادثات کا نام دیتے ہیں …. سوم وہ نظریات ہیں جو ان حادثات کو مافوق الفطرت اور انسانی سمجھ سے بالاتر قرار دیتے ہیں….
پیش نظر مضمون میں ہم برمودا ٹرائی اینگل کے متعلق ماہرین اور سائنس دانوں کے نظریات کے بارے میں جانیں گے ….!

 

من گھڑت افسانہ
عالمی سطح پر برسہابرس سے چلنے والی بحث اور ہزاروں نفوس کی گمشدگی کے باوجود کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جو برمودا ٹرائی اینگل میں ہونے والے واقعات کی سرے سے نفی کرتے ہیں ….
ان خیالات کا اظہار کرنے والوں میں زیادہ تر سیاسی تجزیہ نگاراور مفکرین شامل ہیں، ان کے مطابق اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برمودا ٹرائی اینگل کے اردگرد کے علاقوں میں برطانوی اور امریکی فوجی اڈے موجود تھے، جنگ عظیم میں ان کی حفاظت اور دشمن کو دور رکھنے کے لئے یہ من گھڑت قصے گھڑے گئے۔
برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو فکشن (بطور خاص سائنس فکشن ) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔
اس ضمن میں امریکی ریاست نیوادا میں موجود سب سے بڑے امریکی فوجی مستقرکا نام بھی لیا جاتا ہے ، جسے عرفِ عام میں ایریا 51 کہا جاتا ہے، ان مفکرین کے مطابق اس فوجی اڈا میں امریکی ریسرچرز خفیہ طور پر ایسی ٹیکنالوجی پر تجربات کررہے ہیں جس سےعام دنیا انجان ہے، کچھ مفکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ایریا 51 کی طرح برمودا میں بھی امریکہ نے ایسی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں انسانوں کے خاتمے کے لئے مہلک ترین ہتھاروں کی تیاری اور تجربات کا کام کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے اس لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔
بعض کا کہنا ہے کہ سمندر کا یہ خطہ طویل عرصے سے بحری قزاقوں، منشیات فروش اور اسمگلروں کی دسترس میں ہے، بہماس، ہیٹی اور میکسیکو میں ہونے والی غیرقانونی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس طرح کے واقعات جان بوجھ کر پیدا کیے گئے ہیں ۔

لاپرواہی ، حادثات کا سبب
برمودا ٹرائی اینگل میں سینکڑوں نیوی اور فضائی جہاز گم ہوچکے ہیں ، مگر امریکی نیوی کا موقف یہی ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کا کوئی وجود نہیں۔امریکی سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ سمندر میں لہروں کی غیر معمولی کشش اور خراب موسم اور پائلٹوں کی لاپرواہی، یا جہاز میں خرانی ہی وہ وجوہات ہو سکتی ہیں جو بحر اوقیانوس کے اس حصے میں لاتعداد حادثوں اورانسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنی ہیں ۔ امریکی بحریہ کے ترجمان جیک گرین کا کہناہے کہ امریکی نیوی اور کوسٹ گارڈ ز یہ سمجھتے ہیں کہ سمندر ہوتا ہی خطرناک اور ناقابل بھروسہ ہے۔ اور برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں بھی ہمارا یہی کہنا ہے کہ اگرچہ یہاں حادثوں کا شکار ہونے والے ہوائی اور بحری جہازوں کی تعداد دنیا کے دوسرے سمندروں سے زیادہ ہو سکتی ہے پھر بھی ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی پر اسرار یا غیر معمولی صورتحال ہے۔ امریکی نیوی کے میڈیا ترجمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاپتہ ہونے والے جہازوں کے غائب ہو نے کی کوئی نہ کوئی سائنسی وضاحت یا وجہ موجود ہے۔کہا جاتا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کی حد میں داخل ہوتے ہی ہر طرح کی مشینری بے کار ہو جاتی تھی اور رابطے کی تمام صورتیں ختم ہو جاتی تھیں۔ لیکن کچھ محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ سمتوں کے تعین میں غیریقینی صورتحال کا کشش کے اختلاف سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان سمتوں کی پہچان کھوبیٹھتا ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل میں داخل ہونے کے بعد ہوائی جہاز کے پائلٹ اور بحری جہاز کے کپتان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ سمندر اور فضا کی تقسیم کا تعین نہیں کر سکتا، اس لئے حادثا ت پیش آتے ہیں۔
لیکن برمودا ٹرائی اینگل کی حدود میں حادثہ کا شکار ہونے والے بحری و بّری جہازوں کی تباہی سے پہلے کوئی ایسا پیغام نہیں موصول ہوا جس سے موسم یا جہاز کی خرابی یا حادثہ کے اسباب کا کھوج لگایا جاسکے، حقائق تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ برمودہ ٹرائی اینگل کے علاقے میں امدادی کاروائی کرنے یا حادثات کا کھوج لگانے کے لئے بحری یا فضائی راستے سے جو بھی گیا وہ واپس نہ آ سکا، اس لئے یہ طے کرنابھی قیاس ہو گا کہ اس ٹرائی اینگل میں ایسی کیا صورتحال ہے کہ جو ان حادثات کا باعث بنتی ہے۔

 

نامعلوم گہرائی
برمودا پر تحقیق کرنے والے بعض محققین نے صرف یہ کہہ کر اپنا کام ختم کردیا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے علاقے میں سمندر سینکڑوں میل گہرا ہے ، دنیا کا کوئی بھی غوطہ خور یا کوئی سٹیلائیٹ کا سگنل اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا ، اس علاقے میں جو بھی الیکٹرنک یا سٹلائٹ سگنل بھیجا گیا اس کا عکس یا ریکارڈ لوٹ کر نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید دنیا کی تمام تر سائنسی اور تکنیکی ترقی برمودا ٹرائی اینگل میں پائی جانے والی حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔

 

خراب موسم یا طوفان
کچھ ماہرین اپنا دفاع کرتے ہوئے جہازوں کے باقیات کی غیر حاضری کا ذمہ دار خلیجی دھارے Gulf Stream کو قرار دیتے ہیں۔ ، جو فلوریڈا اور بہاماس کے شمال کی طرف 1.5 سے 4 ناٹ کی رفتار سے بہتے ہیں اورجہازوں اور طیاروں کے ٹکڑے یا انسانی لاشوں کو دور شمال کی جانب بہاکر لے جاتے ہیں۔ گلف سٹریم کا پانی گرم ہے جبکہ اس کے دونوں طرف کا پانی سرد ہے ۔ اس علاقے میں عموما خراب موسم اور طوفانی گرج چمک کے ساتھ سمندری طوفان (ہریکین) یا ٹارنیڈوز آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا ایک سبب پانی کی تیز لہروں کو قرار دیا جاتا ہے جو ہر ہونے والے حادثے کے نشان کو اس طرح صاف کر دیتی ہیں کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا۔اس کے علاوہ ایک وجہ علاقائی موسم بھی بتایا جاتا ہے جو اچانک بادو باراں اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جہاز غائب ہوتے ہیں اور اموات واقع ہوتی ہیں۔
کچھ دانشور ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں تین سمندروں گلف آف میکسیکو، اٹلانٹک اور کیریبئن کے پانیوں کا میلاپ ہوتا ہے۔ اور ان کے پانیوں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے اس میں ایسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے اوپر سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اور بعد میں تیز لہریں وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نشان مٹا دیتی ہیں۔
ماہرین جہازوں کی اس طرح کی پُراسرار گمشدگی کو غیریقینی موسم یا اچانک خوفناک طوفان گردانتے ہیں مگر دلچسپ اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ تمام حادثات اُس وقت رونما ہوئے جب سمندر بالکل پُرسکون اور مطلع صاف تھا اور کسی بھی طوفانی جھکڑچلنے کااندیشہ تک نہ تھا۔ ماہرین کے مطابق اس علاقے میں ہوا کی رفتار دس ناٹ (بحری میل)ہے، مطلع عموماً صاف رہتا ہے اور یہاں دیکھنے کی عمومی صلاحیت تقریباً 2100فٹ تک ہے اس لحاظ سے یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہاں پیش آنے والے حادثات میں موسم کی خرابی کے عنصر شامل ہے۔

 

سمندر میں گیس اور بلبلے
ڈاٹر بین کلینل کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل میں جہازوں کی گمشدگی کی وجہ میتھین ہائیڈریٹ بھی ہوسکتا ہے ، کیونکہ یہاں پر ضرورت سے زیادہ قدرتی گیس کے ذخائر ہیں ۔ میتھین ہائیڈریٹ ایک پنجرے کی طرح سلاخوں کی شکل میں ہوتی ہے جو کہ میتھین مالیکیولز پر مشتمل ہوتی ہے۔میتھین ہائیڈریٹ کی وجہ سے جہاز پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ میتھین ہائیڈریٹس ان گمشدگیوں کی وجہ ہو۔ مونیٹری کے نیول چوسٹ گریجویٹ اسکول کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے بروس ڈیندڈو کے مطابق جب ایک شئے پانی میں تیرتی ہے۔ مائع کی کثافت شے کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن پانی میں مستقل نکلتی گیس اور بلبلوں کی وجہ سے پانی کی کثافت بہت کم ہو جاتی ہے اور کوئی جہاز پانی میں تیر نہیں سکتا۔ یہی گیس جب فضا میں شامل ہو جاتی ہے تو پھر فضا میں‌کسی بھی جہاز کے انجن میں‌تیزی سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ گر جاتا ہے۔بلبلے پانی میں تیرتی ہوئی چیزوں کو ڈبوسکتے ہیں۔ میتھین بلبلے سے میتھین خارج ہوتا ہے جس کی وجہ سے سمندر میں پائی جانے والی چیزیں برمودا ٹرائی اینگل میں غائب ہوجاتی ہیں۔

 

غرقاب براعظم
ایک ماہرِ نفسیات ایڈگر کیسی کا نظریہ اس علاقے کے متعلق یہ ہے کہ بحرالکاہل کے درمیان اٹلانٹس نامی ایک براعظم تھا ، اس میں بسنے والی قدیم اقوام کرسٹل کو قوت کے منبع کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ جو اس براعظم کے ساتھ ڈوب گئے۔ یہ قوت کا منبع (کرسٹل) جو ڈوب گیا تھا اب بھی قوت لگا رہا ہے۔ کسی وجہ سے اس کی قوت میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا تھا لہٰذا جو چیز اس کے قریب آتی ہے وہ اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے یا توڑ پھوڑ دیتا ہے۔

 

شیطانی یا خلائی مخلوق
اس مقام سے وابستہ مافوق الفطرت، عجیب و غریب واقعات کے باعث اسکو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ فزکس کا کوئی قانون یہاں کام نہیں کرتا اور یہاں ہر طرف عجیب و غریب روشنیوں کا ہجوم رہتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل میں کچھ مخفی قوتیں مصروفِ عمل ہیں جن کا ادراک عقل انسانی کے بس سے باہر ہےیا یہاں شیطانی قوتوں کی حکومت ہے۔
طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات (UFO) کا ملوث ہونا جیسے نظریات سے خیال آرائی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ کیا کائنات کی پنہائیوں سے آنے والے خلائی جہاز یا اُڑن طشتریاں ہی برمودا مثلث میں رونما ہونے والے واقعات کی ذمّہ دار ہیں؟…. بہت سے سنجیدہ مزاج مفکر سائنسدان اور عامۃ الناس کے خیال میں یہی بات قرین قیاس ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ سمندروں کی تہہ میں آبادیاں ہیں۔ ان کے خیال میں ناصرف یہ کہ حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی بلکہ اب بھی کہیں نہ کہیں وجود پذیر ہے اور وقتاً فوقتاً یہ ذہین مخلوق ہمارے آدمیوں اور جہازوں کو معائنہ کی خاطر اپنی آبادیوں میں لے جاتی ہیں۔

 

کرنٹ اور ہچی سن ایفیکٹ
ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اس علاقے میں پایا جانے والا کرنٹ یعنی برقی رو، دنیا کے استعمال میں آنے والی بجلی کے کرنٹ کی نسبت انتہائی طاقتور اور زبردست مقناطیسی طاقت کا حامل ہے۔ اس کی گرفت میں آنے والی کوئی چیز بچ کر ریسرچرزکے ہاتھ نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ اس سے اس کی اصل قوت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
الیکٹرومیکنزم اور اس کے متبادل انرجی پر کام کرنے والے جان ہچی سن برمودا ٹرائی اینگل میں ہوائی جہازوں اور کشتیوں کے غائب ہونے کی وجہ الیکٹرومیکنزم کو مانتے ہیں جو اس ایریامیں موجود ہیں۔ اس نے مختلف گھریلو استعمال کے برقی آلات پر کام کیا اور اس سے بننے والی الیکٹرک فیلڈ اور ویو لینتھ پر ریسرچ کرکے بتایا کہ ہر شے کی اپنی ویو لینتھ اور میگنیٹک فیلڈ ہوتی ہے۔
ہچی سن کے نظریات کو اس کے بعد بھی کئی لوگوں نے اس پر ریسرچ کی لیکن سائنسدانوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید تحقیقاقی کام جاری ہے۔ ہچی سن کے اس نظرئیے پر جان مائٹ، ایون سینڈرسن نے بھی تحقیق کی۔

 

میگنیٹک فیلڈ
کچھ سائنسی نظرئیے کے تحت اس علاقے میں مقناطیسی کشش کسی وجہ سے اس قدر طاقت اختیار کرگئی ہے کہ وہ اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، اور وہ واپس باہر نہیں آسکتیں۔
جیک گرین کے مطابق ،برموڈا ٹرائی اینگل کی کچھ دلچسپ خصوصیات بھی ہیں ، جیسے کہ اگرقطب نما کی مدد سے اس علاقے کی نشاندہی کی کوشش کی جائے تواسے حقیقی شمال کے رخ پر ہونا چاہئے ۔لیکن عام طور پر قطب نما حقیقی شمال کی بجائے مقناطیسی شمال کی طرف اشارہ کرتا ہے ،جو حقیقی نارتھ ویسٹ سے جنوبی مغرب کی جانب ہے۔ اب اگر ہوائی جہاز یا بحری جہاز میں سمت کا تعین کرنے والے آلات یہ سراغ نہیں لگاپاتے ، تو ظاہر ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائیں گے اور ایسا ہی سمندر کے اس علاقے میں ہوتا ہے ۔ محققین کی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں موجود مقناطیسی لہروں کی وجہ سے وقت اور سمت کا تعین کرنے والے آلات ناکارہ ہوجاتے ہیں اور یوں حادثات پیش آتے ہیں۔

 

زمین کے12 مقناطیسی گراب
اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیفیت دنیا بھر میں صرف برمودا کے علاقے ہی میں کیوں ہے…. دنیا بھر کے سمندری رقبے کے تناسب سے برمودا ٹرائی اینگل ایک انتہائی مختصر رقبہ ہے یاہم یہ کہہ سکتے ہیں سارے سمندروں کے پانی کو اگر ایک جگہ جمع کیا جائے تو اس کا تناسب سمندر کی ایک بالٹی کا بنتا ہے۔لیکن اس علاقے میں تباہی و بربادی کا تناسب پوری دنیا کے سمندروں میں ہونے والی مجموعی تباہی سے زیادہ کیوں ہے۔
تو اس کا جواب بعض ماہرین یہ دیتے ہیں کہ دنیا کے کئی سمندری حصوں میں خطرناک مقناطیسی برقی رو موجود ہیں لیکن ان میں برمودا ٹرائی اینگل انسانی آبادی سے قریب ترین خطہ ہے…. ماہرین کے مطابق برمودا دنیا کا واحد خطہ نہیں جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔ بحرالکاہل میں جاپان اور فلپائن کے نزدیک بھی ڈریگن ٹرائی اینگل نامی مقام ہے۔ یہ جاپان کے ساحلی شہر یوکوہاما ، ماریانا جزائر اور فلپائن کے جزیرے گوام کے درمیان واقع ہے۔ اس سمندر کو جاپانی لوگ مانواومی Ma-no Umi کہتے ہیں جس کے معنی شیطان کا سمندر ہے۔ محقق چارلس برلٹز اپنی کتاب دی ڈریگن ٹرائینگل میں لکھتے ہیں کہ 1952 تا 1954 جاپان نے اپنے پانچ بڑے فوجی جہاز اس علاقے میں کھوئے ہیں۔ افراد کی تعداد 700 سے اوپر ہے۔ اس معمہ کا راز جاننے کے لیے جاپانی حکومت نے ایک جہاز پر 100 سے زائد سائنسدانوں کو سوار کیا۔ لیکن شیطانی سمندر کا معمہ حل کرنے والے خود معمہ بن گئے۔ اس کے بعد جاپان نے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دے دیا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ قوتِ کشش تو ایک ہی ہے البتہ وقتاً فوقتاً ان کے معمول میں جھول واقع ہوجاتا ہے، ہماری زمین کی عمودی کشش ثقل کی لہریں برقی مقناطیسی لہروں سے متصادم ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے مقناطیس کی سوئی قطب شمال کی صحیح سمت نہیں بتاتی گویا مقناطیسی قطب اور زمینی قطب الگ الگ ہیں۔ سمندری اور ہوائی جہازراں اس کو Compass Variation کہتے ہیں۔ یہ فرق زمین کے مختلف مقامات پر مختلف ہوتا ہے حتیٰ کہ کہیں پر 20 ڈگری 1200 میل تک پایا جاتا ہے۔ اگر جہازراں اس فرق کے مساوی راستہ کی تصیح نہ کریں تو وہ کبھی منزل پر نہیں پہنچیں۔

کئی سائنسدان بھی مقناطیسی عجائبات اور ہمارے کرہ پر ان کے پھیلاؤکی سمتیں اور ان میں موجود جھول معلوم کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایک سائنسدان ایون سینڈرسن نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کی ہماری زمین پر طول بلد کے مخصوص خطوط پر بارہ مقناطیسی گرداب واقع ہے۔ ان مقامات کو وہ Vile Vortices کا نام دیتا ہے۔ اس کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل اور جاپان کے شیطانی سمندر سمیت ٹمبکٹو کے جنوب میں، دریائے سندھ کی وادی موئن جوداڑو سے کوہ ہمالیہ کے درمیان، ہوائی میں آتش فشاں ہیماکولیا اور ایسٹر آئی لینڈشامل ہیں ۔ پانچ خط استوا کے جنوب میں ایک ہی طول اور پانچ شمال میں ایک ہی عرض بلد پر ہیں۔ دیگر دو میں شمالی اور جنوبی کے قطب ہیں۔

 

وقت کا کوئی اور بُعد
برمودا ٹرائی اینگل کے گرداب یا بھنور میں پھنس جانے والا کوئی بھی بحری جہاز یا ہوائی جہاز بچ کر واپس نہیں آ یا۔تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے چندایک ہوائی جہاز کا تذکرہ ملتا ہے جو اس علاقے کے قریب پرواز کے باوجود محفوظ حالت میں واپس لوٹا۔ 1969ء میں امریکہ کی نیشنل ائر لائنز کی پرواز نمبر727میامی جاتے ہوئے اس علاقے کے قریب سے گزری تو ایک نا قابل یقین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ طیارہ دس منٹ تک ریڈار سے گم رہا لیکن جب یہ دوبارہ ریڈار پر نمودار ہوا تو طیارے میں نصب گھڑیاں اور مسافروں کے ہاتھوں پر بندھی ہوئی تمام گھڑیاں دس منٹ پیچھے تھیں، ایسا لگتا تھا کی یہ طیارہ اور مسافر اس عرصے کے دوران زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوگئے تھے…. امریکی نیوی کے برعکس جہازوں کے کئی پائلٹوں نے غیر معمولی عوامل کا مشاہدہ کیا ہے جس کا وہ کوئی عقلی جواز پیش نہیں کرسکتے لیکن وہ ان کا تذکرہ کرنے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی ملازمت ہی خطرہ میں نہ پڑجائے۔ اکثریت یہ تصور کرتی ہے کہ فضا میں غیرمستقل کجروی پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ممکن ہے کہ آسمان میں کوئی رو ہے یا کوئی ایسی قوت موجود ہے جو اشیاء کو وقت کی کسی دوسری اکائی میں پھینک دیتی ہے۔

 

ماورائی دنیا
جب روزمرہ کے اصول کسی چیز کا جواز پیش نہیں کرسکتے تو معاملہ باطنی دنیا کا ادراک رکھنے والوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کنکٹی کٹ کے ایک شخص ایڈ اسنیڈکر کا نظریہ ہے کہ فضا میں بے شمار نظر نہ آنے والی سرنگیں ہیں۔ کچھ سیدھی ہیں اور کچھ قیف کی مانند ہیں۔ سارے غائب ہونے والے جہاز اور اس کے افراد انہی سرنگوں میں موجود ہیں ۔ یہ قیف نما نظر نہ آنے والے طوفان شمال سے جنوب کی سمت چلتے ہیں اور راستے میں ہر شے کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں جن کو وہ قطب جنوبی یا اس کے اطراف میں جمع کردیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھے جاسکتے لیکن ان کا وجود قائم ہے اور ان سے گفتگو ہوسکتی ہے۔
تبت کے مشہور و معروف لاما لوب سنگ رمپا کہتے ہیں کہ تمام ہوائی جہاز اور پانی کے جہاز اس مادّی دنیا سے نکل کر منفی ذراتAnti Matter کی دنیا میں داخل ہوگئے ہیں…. رمپا صاحب کا اصرار ہے کہ اس کائنات میں جہاں مادّی کرّے ہیں وہاں منفی مادے کرّے بھی موجود ہیں۔ ہر فرد اور ہر شئے جو اس کرۂ ارضی پر وجود رکھتی ہے کائنات کے قطعی مختلف پیمانہ میں مختلف قطبینی احساس Polarity کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ جب اس کرہ کے کسی رخنے کا آمنا سامنا منفی مادہ کے رخنے سے ہوجاتا ہے تو مادی کرہ کے رخنہ پر موجود ہر ذی روح یا بے جان شئے دونوں، رخنوں میں سے گزر کر منفی مادّہ کے کرہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ایک دروازے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں دوسری دنیا سے آنے والی مخلوق اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ اور اس دنیا کی مخلوق دوسری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔

 

روحانی ہستیوں کی آماجگاہ
روحانی علوم کے ماہرین کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل کا علاقہ روحانی نظام میں ایڈمنسٹریشن کا مرکزی مقام ہے۔ یہاں اہلِ تکوین کے خصوصی اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ یہاں نہ موسم اور نہ کسی قسم کا شور ، یہ جگہ انتہائی پر سکون ہے ۔ اس کیفیت کو ہم زمینی طبیعی اصولوں سے ماورا کہہ سکتے ہیں جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا….
خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کا علاقہ ایسی روشنیوں کا مجموعہ ہے، جسے انسانی آنکھ جذب نہیں کرسکتی۔ عام روشنی کو انسانی آنکھ دیکھ کے جذب کر لیتی ہے، لیکن برمودا ٹرائی اینگل میں پائی جانے والی روشنیاں بنفشیٔ شعا عوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ ان شعاعوں کی ایک جھلک ہی انسانی آنکھ کو خیرہ کر دیتی ہے۔ انسانی جسم رنگ اور روشنیوں کا مرکب ہے ۔اس لئے جب کوئی ذی روح اس علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے جسم میں پائی جانے والی روشنی ان لطیف بنفشیٔ روشنیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے اس طرح اس کی مادّی حالت بھی تبدیل ہو جاتی ہے، جس طرح اگر سورج نکل آئے تو تمام مصنوعی روشنیاں ماند پڑجاتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جدید دنیا میں روشنی کی شعاعیں یا نور کی دریافت قسمیں بہت تھوڑی ہیں۔ پچیس نہیں تو تیس ہوں گی۔ جیسے الفاریز، گاما ریز، بی ٹا ریز، الیکٹرک ریز، لیزر ، پروٹون ریز اور ریڈی ایشن وغیرہ…. یعنی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے انوار کو سمجھنے کا علم محدود ہے۔ جبکہ روحانی علوم کے ماہرین انوار کی اقسام ایک لاکھ چالیس ہزاربتاتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ستر ہزار حجابات نوری اور اتنے ہی ناری ہیں۔ ناری سے مراد تخریبی انرجی اور نوری تعمیری انرجی ہے۔اس کے ساتھ جب ہم الیکٹرسٹی کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی بیک وقت تعمیری اور تخریبی صلاحیتیں کام کررہی ہیں۔ یہ صلاحیتیں انسانوں کی فلاح و بہبود میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور شاک SHOCK کی صورت میں ان کے لئے خطر ہ بھی بن سکتی ہیں ۔
روحانی آنکھ جو دیکھتی ہے اس کے مطابق زمین کی ساخت وہ نہیں جس کی نشان دہی مادی علوم کرتے ہیں۔ زمین اپنے مدار پر لٹو کی طرح ترچھی ہوکر چل رہی ہے اور اس کی شکل پپیتے کی طرح ہے۔ جہاں مدار ہے وہاں ایک بڑا علاقہ مخصوص ہے اس بڑے اور مخصوص علاقے میں صاحبانِ تکوین تکوینی امور کے فیصلے طے کرتے ہیں۔ اس ریزرو علاقے Reserve Areaمیں کشش ثقل میں فرق ہونے کی وجہ سے وقت میں بھی کافی فرق ہے۔ روحانی علوم کے مطابق کائنات کی ہر شئے نور یا روشنی کی بساط پر سفر کررہی ہے اور اس مخصوص علاقے کے مطابق وقت کا تعین ہوتا ہے۔ مثلاً برمودا مثلث کے علاقے میں سے اگر کسی صورت فوری طور پر کوئی چیز باہر آجائے تو عام زمین کے وقت میں دس سے بیس منٹ تک کا فرق ہوجائے گا۔ زمان کی نفی کا ذکر قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ گردش کا قانون یہ ہے کہ جتنی رفتار تیز ہوگی اتنا ہی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ برمودا مثلث میں رفتار چونکہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں جو چیز داخل ہوگئی وہ حرارت میں تحلیل ہو کر روشنی میں تبدیل ہوجائے گی۔
یہ جگہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کی آماجگاہ ہے۔اس علاقے میں داخل ہوتے ہی انسانی آنکھ کو بہت بڑی شکل کا گول دائرہ نظر آتا ہے اور اس دائرے میں انتہائے نظر تک ایک دوسرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے نظر آتے ہیں ان دائروں میں بے انتہا مقناطیسیت اور کشش ہے ۔ جب آپ کی نظر پہلی بار دائرے پر پڑتی ہے تو مسلسل آپ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں، حتی ٰکہ آپ خود ان دائروں کا ایک حصہ بن کر گم ہو جاتے ہیں۔یہ چونکہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کے مقناطیسی دائرے ہیں اس لئے ان میں اتنی کشش اور ماورائی روشنی ہے کہ بڑے سے بڑا جہاز بھی اس دائرے کی حد میں آجائے تو چند لمحوں میں شعاعوں کی مقناطیسی حدت کی وجہ سے تحلیل ہو کر ان دائروں کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے

 

(جاری ہے)

 

مارچ 2013ء

 

یہ بھی دیکھیں

بازی گر – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

بازی گر ہندوستا …

جنات سے ملاقات

چند مشہور شخصیا …

ใส่ความเห็น