Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ترقی یافتہ ممالک کی جنگوں میں جادو کیمیا گری اور علم نجوم کا استعمال

 

محبت اور جنگ میں سب کچھ جائزہے…. یہ مشہور مقولہ تو آپ نے سنا ہوگا  اور ایسا دیکھا بھی گیا ہے…. جب کوئی قوم یا فوج حالت جنگ میں ہوتی ہے  تو وہ  جنگ جیتنے کےلیے کچھ بھی کرکے  اس جنگ کو جیتنے کی کوشش کرتی ہے۔ دنیا میں لڑی گئی تقریباً تمام بڑی جنگوں میں  جھوٹ، فریب، چالبازی، جاسوسی نظام اور سائنس  و ٹیکنالوجی  کا استعمال بہت زیادہ رہاہے۔ 

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں چند ایسی قومیں ، فوجیں اور خفیہ تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیمیاگری، نجوم اور جادو  وغیرہ جیسی چیز استعمال کرنے کی کوششیں بھی کرڈالیں    ہیں اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ  ہم جن قوموں  کی بات کررہیں وہ   قدیم تاریخ  کا کوئی قصہ پارینہ نہیں بلکہ یہ تو دور جدید کی انتہائی ترقی یافتہ اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس قومیں  ہیں۔  کیمیا گری، علم نجوم، زائچہ، ستاروں کی چال ، تیسری آنکھ، ماورائی صلاحیتیں، مافوق الفطرت  قوتوں، پراسرار چیزوں،  جادو  اور آسیب  کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ…. قدیم زمانے کا انسان مافوق الفطرت چیزوں اور ہلاکت خیز فطری قوتوں سے خوف زدہ رہتا تھا۔ علم نجوم، ستاروں کی چال سے قسمت اور کیمیا گری سے سونا دولت بنانے کے چکر میں مبتلا رہتا تھا۔ لیکن  اکیسویں صدی میں، سائنس انفارمیشن و ٹیکنالوجی اور ترقی  کی اونچائیوں چھوتے اس دور میں سائنسدانوں  نے پرانے زمانے کی بہت سی پُراسرار سمجھی جانے والی چیزوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ قدیم زمانے کا انسان جن قوتوں کو ماورائی مخلوق سمجھ کر خوف کھاتا تھا، آج سائنس کی مہربانی سے ان قوتوں کو اپنے آرام و سکون کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان میں فطرت کی قوتیں آگ،  بجلی،  ہوا وغیرہ  سرِفہرست ہیں۔ 

یوں تو آج کی ترقی یافتہ  قومیں  ان تمام چیزوں کو غیر حقیقی ، غیر سائنسی اور دقیانوسی  خیال کرتی ہے، لیکن   اکیسویں صدی کی ان ہی ترقی یافتہ اقوام سے کبھی کبھی ایسی خبریں آتی ہیں کہ انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔  ذیل میں ہم دور جدید کے ایسے ہی چند واقعات پیش کررہے ہیں۔ 

کیمیا گروں کا  سُرخ پارہ 

Red Mercury

دوستو….!آپ میں سے اکثر نے انگلش سائنس فکشن فلموں اور ناولوں میں سرخ پارے  یا ریڈ مرکری  کا نام سن رکھا ہوگا۔   ان  میں بتایا جاتا ہے کہ ایک ایسا خاص  کیمیائی عنصر ہے جس کے استعمالات لامحدود   اور خطرناک ہیں۔   اس کا نام سرخ پارہ  (Red  Mercury) ہے ۔

سرخ پارہ آخر کیا ہے یا یوں کہہ لیں کیا نہیں ہے….؟

زمانہ قدیم میں مصروبابل، چین، ہندوستان، یونان و روما کی تہذیبیں  ٹیکنالوجی اور  علم و فن کے بڑےمراکز تھیں لیکن ان تہذیبوں کے سائنسی علوم   فلسفہ، جادو   اور دیومالائی و افسانوی  نظریات   کا ملغوبہ ہوتے تھے۔

انہی علوم کی ایک مشہور  شاخ تھی علم الکیمیا ۔  لیکن یہ آج کے علم کیمیا یعنی کیمسٹری جیسی نہ تھی۔    ماہرین کا کہنا تھا کہ الکیمیا نے اس نظریے کے بطن سے جنم لیا کہ کائنات بھر میں تمام چیزیں چار عناصر… ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنی ہیں۔ 

قدیم فلسفیوں کا دعویٰ تھا کہ مٹی کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ  سب دھاتیں مٹی سے بنی ہیں لہٰذا تانبے کو سونے میں بدلا جاسکتا ہے۔     وقت گزرنے کے ساتھ ان  فلسفیانہ خیالات پر  جادوئی اور ماورائی داستانیں   مشہور ہوئیں جو بعد میں پختہ نظریات کی صورت اختیار کرتیچلیگئیں۔

   قدیم دور  میں علم کیمیا کے  ماہرین  کی یہی کوشش  رہتی تھی کہ وہ ایسا جنتر منتر تلاش کرلیں جو انسان کو عمر جادواں عطا کردے یا پھر ایسی دھات ہاتھ لگ  جائے کو  مٹی سے سونا بناسکے ۔  صدیوں تک لالچی اور پرتجسس  لوگ عمر خضر  عطاکرنے والے ‘‘آب حیات’’ اور مٹی کو سونا بنانے والے ‘‘پارس پتھر ’’کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ 

لالچ کی یہ دوڑ انیسویں صدی عیسوی تک جاری رہی، اس دور کے بڑے سائنس دان مثلاً  رابرٹ بوائل، آئزک نیوٹن اور انطون لیوائزر  وغیرہ  بھی اپنی لیبارٹری میں مختلف کیمیائی مادوں کے ذریعے ایسے تجربات کرتے رہتے تھے ، جن  کا مقصد پارس پتھر اور آب حیات تیار کرنا تھا۔ 

اٹھارہویں  صدی میں  لیبارٹریوں میں ہونے والے تجربات سے  ایک نئی سائنس ‘‘کیمسٹری’’ سامنے آنے لگی تو  دیومالا، فلسفہ اور فرسودہ نظریات کے مغلوبہ  علم الکیمیا مسترد اور متروک ہونے لگا۔   انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں پارس پتھر اور آبِ حیات سمیت الیکمیا کے کئی نظریات کو فرسودہ قراردے دیا گیا۔

علم الکیمیا کے نظریات میں ہی ایک ‘‘سرخ پارے’’ کا تصور پایا جاتا تھا۔  کہا جاتا ہے کہ سرخ پارے کی مدد سے سونا بنایا جاسکتا ہے۔  جنوں کو اپنے قابو میں کیا جاسکتا ہے، یہ اینٹی ریڈار بھی کہلاتا ہے جس کی مدد سے جہاز آسمان سے غائب ہوسکتا ہے، جبکہ بحیثیت  ہتھیار سرخ پارہ  نیوکلیئر بم سے کئی گنا بڑا دھماکا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ سب  باتیں صرف اور صرف خیالی، مفروضہ اور  افسانوی باتیں ہیں۔   جدید سائنس کی رو سے ریڈ مرکری یعنی سرخ پارہ جیسی کوئی جادوئی شے وجودنہیں رکھتی۔

لیکن اکیسویں  صدی میں بھی کئی لوگ اس افسانوی سرخ پارے  پر پختہ یقین رکھتے  ہیں۔  ان لوگوں کا مانناہے کہ نیوٹن پارس پتھر کی تلاش میں کامیاب ہوچکا تھا اور حکیم ابن مقنی  ٰ نے  سرخ پارہ حاصل کرلیا تھا جس کی مدد سے ہی وہ ایک مصنوعی چاند بنانے میں کامیاب رہا تھا۔

  1970 کی دہائی میں  بھی  ایسی ہی افواہیں گردش میں تھی کہ سوویت یونین نے کئی تجربات کی مدد سے سرخ پارہ حاصل کرلیا تھا۔ 

ایک معتبر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق  سن 2014 میں دنیا کی ایک امیر ترین دہشت گرد تنظیم  نے   عالمی  اسلحہ  اسمگلروں  کو4 ملین ڈالرز کاکانٹریکٹ صرف اور صرف ریڈ مرکری حاصل کرنے کے لیے دیاتھا۔ جبکہ اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بہت سے اسلحہ ڈیلرز اور مسلح  گروپس  نے اس تنظیم  کو سرخ پارہ فراہم کرنے کا  دعویٰ بھی کردیا، یہ تمام کے تمام دعوے  بعد میں فراڈ ثابت ہوئے۔   

یہ بات منظر عام پر اس وقت آئی جب اسلحہ اسمگل کرنے والا ایک گروہ گرفتار ہوا اور اس کے موبائل فون سے  سرخ پارہ کے کانٹریکٹ اور اس سے متعلقہ پیغامات اورتصاویریں ملیں۔

آج بھی سری لنکا  کے تامل ٹائیگرز  ، روس، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت  تقریبا ہر  مسلح  تنظیم اور ہر اسلحہ ساز گروپ کے لیے  سرخ پارہ  ایک سہانا خواب ہے۔   ان تنظیموں کا اب بھی ماننا ہے کہ سرخ پارہ ایک سپر ہتھیار ہے جس کے ہاتھ میں آتے ہی وہ دنیا کی سپر پاور بن سکتے ہیں۔      یہ سہانا خواب ان کے لیے ایک خواب ہی ثابت ہوگا، کیونکہ سرخ پارہ کا وجود صرف جادوئی داستانوں اور سائنس فکشن فلموں میں ہی ہے۔ سرخ پارہ جیسی کوئی جادوئی شے وجود نہیں رکھتی۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

2021ء میں کیا ہونے والا ہے….؟؟

2021ء  میں کیا ...

پراسرار غاروں کا معما

نیپال میں واقع ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *