مغلیہ سلطنت کا حکمران بادشاہ جلال الدین اکبر وسیع و عریض سلطنت، مضبوط ترین فوج اور بےپناہ شاہی دبدبے کے باوجود شدید احساس محرومی میں مبتلا تھا، مغل بادشاہ اکبر کے ہاں یکے بعد دیگرے کئی بیٹے پیدا ہوئے لیکن وہ چند دن یا زیادہ سے زیادہ چند سال ہی زندہ رہ پائے ۔
اس فوج، اس سلطنت اور اس تخت و تاج کا میرے بعد وارث کون ہوگا؟۔ اولاد اور وارث سے محرومی کا یہ دکھ اس عظیم سلطنت کے طاقت ور ترین فرمانروا کو اندر ہی اندر سے کمزور کیے جارہا تھا۔ شہنشاہ اکبر کو اپنی زندگی بےکیف اور بےمقصد دکھائی دینے لگی تھی۔ انہی دنوں اس نے ایک درویش سلیم چشتیؒ کا ذکر سنا۔ یہ درویش اکبر کے دارالحکومت آگرہ کے قریب ایک علاقے فتح پورسیکری میں رہتے تھے۔
بادشاہ جلال الدین اکبر نے اس درویش سے مل کر اپنی دلی آرزو بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے مصاحبین نے کہا کہ بادشاہ کا ایک فقیر کے پاس جانا مناسب نہیں۔ فقیر کو دربار میں طلب کرلیا جائے…. لیکن بادشاہ کو یہ مناسب نہ لگا۔ اور آخر کار ایک دن مغل سلطنت کا طاقت ور بادشاہ اکبر سوالی بن کر ایک درویش شیخ سلیم چشتی کی بارگاہ میں سرجھکائے حاضر ہوا۔ شیخ سلیم چشتی نے اکبر بادشاہ کی بات سنی اور اس کو اولاد اور وارث کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ اب اسے سلطان الہند کے دربار میں حاضری دینی چاہیے ۔
‘‘سلطان الہند کا دربار….؟ لیکن ہندوستان کا بادشاہ تو میں ہوں….’’ اکبر نے حیرانی سے کہا۔
‘‘ آپ کی بادشاہت ہندوستان کی سرزمین پر ہے۔ یہ دنیاوی اور عارضی حکمرانی ہے۔ سرزمین ہند کی روحانی اور مستقل حکمرانی کا تاج تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ایک غلام حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سر پر سجا دیاہے۔’’
شیخ سلیم چشتی کے فرمان پر لبیک کہنا اکبر بادشاہ نے اپنا فرض جانا۔ آگرہ میں چند روز رہنے کے بعد اکبر بادشاہ نے اجمیرکوچ کا فرمان جاری کیا۔ دربار کے بعض لوگ نہیں چاہتے تھے کہ سلطنت کا فرمانروا ایک ولی اللہ کے مزار پر جائے۔لیکن بادشاہ نے ایسے تمام مشورے رد کر دیےاور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے اظہار عقیدت میں آگرہ سے اجمیر 120 کوس (تقریباً400 کلومیٹر) فاصلہ سواری کے بجائے پیدل طے کیا۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے دربار میں حاضر ہو کر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے کافی دیر تک گریہ و زاری کی۔
اکبر بادشاہ اجمیر سے واپس آگرہ آگیا اور چند دنوں بعد حضرت شیخ سلیم چشتی کے دربار میں حاضرہوا۔
شیخ سلیم چشتی کی دعاؤں کا اثر یہ ہوا، اکبر بادشاہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، اکبر بادشاہ نے حضرت شیخ سلیم چشتی کے نام پراپنے فرزند کا نام سلیم رکھا، لیکن حضرت سلیم چشتی سے عقیدت اور احترام میں اپنے بیٹے کو کبھی سلیم کہہ کر نہیں پکارا بلکہ اس کا لقب شیخو رکھا۔ تاریخ شہزادہ سلیم بن اکبر کو شہنشاہ جہانگیر کے نام سے جانتی ہے۔
بندے کا سر اگر سچے دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے مستجاب الدعوات بنا دیتے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھی ایسی ہی عظیم المرتبہ ہستیوں میں شامل ہیں۔ آپ کے آستانے پر دنیا کے کونے کونے سے لوگ کھنچے آتے ہیں۔ اس آستانے کی چوکھٹ پر آنا عام و خاص، امیر و غریب اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں آکر بڑے بڑے شہنشاہوں کی پیشانیاں خم ہوئیں ، کبھی اس مقام پر شاہان وقت ننگے پیر آیا کرتے تھے، تو آج جمہوری ملکوں کے حکمراں یہاں کے گرد و غبار کو اپنی آنکھوں میں سرمہ کی جگہ لگاتے ہیں۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سے عقیدت و محبت اور ان کے آستانے کی جاروب کشی سلاطین ہند کا شیوہ رہا ہے۔ ہر زمانے میں یہ خیال عام رہا ہے کہ ظاہری سلطنت کسی کی بھی ہو، باطنی سلطنت اس ملک میں خواجہ غریب نواز کی ہی چلتی ہے۔ اصل سلطان الہند آپ ہی ہیں۔
سلطان شہاب الددین محمد غوری پہلا مسلم حکمراں تھا، جس نے دہلی اور اجمیر کو فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ کئی حملوں کے بعد اسے یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ لہٰذا یہ کامیابی اس کے لیے بے حد اہم تھی۔ سلطان غوری کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ بار بار ہندوستان پر حملے کرتا تھا اور ہر بار اسے ناکامی ہاتھ لگتی تھی۔ دہلی و اجمیر کے حکمراں پر تھوری راج چوہان و دیگر راجگان ہند کی فوجیں ہمیشہ اس پر بھاری پڑتی تھیں۔ ہندوستان کو فتح کرنا اس کا خواب تھا، مگر ہزاروں فوجیوں کی جانیں اور لاکھوں روپے برباد کرنے کے بعد بھی اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا تھا۔ اس دوران اس نے خواب میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو دیکھا، جو اس سے کہہ رہے تھے ، اے شہاب الدین محمد غوری ہندوستان تیزا انتظار کر رہا ہے، چل تیار ہوجا۔ اس بار کامیابی تیرے قدم چومے گی۔
نیند سے بیدار ہوکر اس نے اپنے سپہ سالاروں کو بلایا اور تیاری کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ ایک طرف راجاؤں کی تین لاکھ سے زیادہ فوجیں ہر قسم کے ساز و سامان اور اسلحوں سے لیس تھیں، جن کا مشترکہ لیڈر پرتھوی راج چوہان تھا، تو دوسری طرف سلطان شہاب الدین محمد غوری کی تقریباً ایک لاکھ فوج تھی۔ ترائن کے میدان دونوں لشکروں کی زبردست جنگ کے بعد سلطان کو فتح نصیب ہوئی اور دہلی میں پہلی مسلم حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس جیت کے لیے سلطان غوری خواجہ معین الدین چشتی کا ممنون احسان تھا۔ محمود غوری نے فتح اجمیر کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کے ارادت مندوں میں شامل ہوا۔
اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ تقریباً آٹھ سو سال سے مرجع خلائق ہے۔ آپ کے دست حق پر لاکھوں بندگان خدا نے اسلام قبول کیا اور روزانہ ہزار ہا افراد آپ کی درگاہ پر دور دراز سے آ کر ر وحانی برکات و فیوض سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ وہ درگاہ شریف ہے جہاں ہندوستان کے فرمانروں سلطان محمد تغلق، سلطان شمس الدین التمش، احمد شاہ ابدالی ، شہاب الدین غوری، شیر شاہ سوری، قطب الدین ایبک، علاؤالدین خلجی، امیر تیمو، ٖ غیاث الدین تغلق، نادر شاہ ، مغل شہنشاہ بابر، ہمایوں، جلال الدین اکبر (1562ء میں )، نور الدین جہانگیر(1613ء میں )، شاہجہاں(1628ء میں )، داراشکوہ اور اورنگزیب (1659ء میں )، بہادر شاہ طفر (1708ء میں ) حاضری کے لیے آتے رہے ہیں ۔
جب پاک و ہند کی تاریخ کا ماڈرن دور شروع ہوا، اور انگریز ہندوستان میں داخل ہوئے تب بھی بڑے بڑے فرماں روا اپنی سلطنت کی شان و سطونت کو بالائے طاق رکھ کر سلطان الہند کی چوکھٹ پر نظر آئے۔ جہانگیر نے 1615ءمیں انگلینڈ کے بادشاہ جیمز اول کے سفارتکار تھامس کی سفارتی دستاویزات یہیں قبول کی تھیں۔
جب ہندوستان انگریزوں کے ماتحت تھا، تو وائسرائے ملک کا سب سے اونچا عہدہ تھا۔ وائسرائے ہند لارڈ کرزن 1902میں اجمیر شریف درگاہ خواجہ پر آیا۔ وہ پہلے بھی آپ کے بارے میں بہت کچھ سن اور پڑھ چکا تھا، مگر یہاں پہنچ کر اس نے جو منظر دیکھا، وہ اس کے لیے حیرت انگیز تھا ۔ اس نے دیکھا کہ یہاں بلاتفریق مذہب و ملت بڑی تعداد میں لوگ حاضر ہورہے ہیں۔ ان کے اندر اتفاق و یگانگت ہے۔ اس ملک میں جہاں تفرقے ہیں اور ذات کے نام پر چھوت چھات ہے، وہیں درگاہ کے اندر ایک ہی صف میں محمود و ایاز نظر آرہے ہیں۔ اس منظر نے اسے بےحد متاثر کیا اور بعد میں اس نے اپنی کتاب میں لکھا :
The personality of the Great Khwaja was a standard of greatness and excellence, to-day his shrine caries the same standard. It is an undeniable fact that in India his Shrine virtually rules. – Lord Curzon
‘‘عظیم خواجہ کی شخصیت، عظمت اور بزرگی کا ایک معیار ہے، آج ان کا مزار یہی معیار اپنائے رکھے ہے، بلاشبہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں عملی طور پر ایک قبر حکومت کر رہی ہے’’ [لارڈ کرزن]
1911ء میں انگلینڈ کے شہنشاہ جارج پنجم نے اپنی ملکہ میری کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ یہ سیاسی دورہ بےحد مصروف تھا، مگر شہنشاہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ سلطان الہند کی چوکھٹ پر حاضری دی جائے، چنانچہ جارج پنجم اپنی ملکہ کے ساتھ حاضر آستانہ ہوا۔
ہندوستان کے لیڈر مہاتما گاندھی بھی تحریک آزادی کے دوران خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر حاضر ہوئے۔ گاندھی خواجہ صاحب کی تعلیمات سے متاثر تھے، حاضری کے دوران کہنے لگے کہ ‘‘خواجہ غریب نواز کی تعلیمات دنیا کے لیے عظیم مینار و نور ہیں، جو ہمیں منزل کا پتہ دیتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور پرسکون و بامقصد زندگی گزاریں۔’’ ہند کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی تحریک آزادی کے دوران 1945ء میں اجمیر شریف حاضری دینے آئے۔ اور ملک کی آزادی کے لیے دعا مانگی۔ جب 1947ء میں انگریز ہندوستان چھوڑ گئے تو بطور شکریہ اسی سال اگست میں اجمیر پہنچے۔
ہندوستان میں ایک پرانا دستور چلا آرہا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور صدر کی طرف سے خواجہ غریب نواز کے آستانے کے لیے ہر سال چادریں بھیجی جاتی ہیں۔ اسی کے ساتھ حکمران بھی غریب نواز کے در پر حاضری باعث خوش قسمتی تصور کرتے ہیں، جن اہم شخصیات نے یہاں حاضری دی ہیں، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ ہندوستان کے اولین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد، دیگر صدور میں وی وینکٹ رمن، ڈاکٹر رادھا کرشنن، شنکر دیال شرما، فخرالدین علی احمد، ڈاکٹر ذاکر حسین، ابوالکلام آزاد، منموہن سنگھ ، وزیر اعظم انڈیا میں جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اندرکمار گجرال، دیواگوڈ ا، سونیا گاندھی، نریندر مودی، نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، نائب صدر حامدانصاری، معروف لیڈروں میں راج گوپال اچاریہ ، وزیر اعلیٰ دہلی شہلا دکشت اور سابق وزیر اعلیٰ راجستھان وسندھرا راجے سندھیا۔ یہاں صرف چند ناموں پر اکتفا کیا گیا ہے ورنہ فہرست بہت لمبی ہے۔
غریب نواز کے آستانے پر پاکستانی حکمران بھی عقیدت کے ساتھ حاضری دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کے بابائے قوم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران یہاں حاضری دی۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو، میر ظفر اللہ جمالی اور دیگر ارباب اقتدار بھی یہاں جبیں سائی کے لیے آتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے تاثرات کے رجسٹر پر تحریر کیا۔ ‘‘اللہ خدام کی خدمت قبول فرمائے (آمین)۔’’
1907ء میں افغانستان کا بادشاہ امیر حبیب اللہ خاں، حضرت غریب نواز کے آستانے پر حاضر ہوا۔ وزیراعظم ملیشیاء تنکو عبد الرحمٰن نے 1962ء میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی بارگاہ میں عقیدت کے ساتھ حاضری دی۔ وہ عقیدت کے جذبات سے سرشار نظر آرہے تھے۔ انہوں نے میڈیا کےسامنے اعتراف کیا کہ 1958ء کے عام انتخابات میں وہ پریشان اور فکر مند تھے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ غریب نواز کو خواب میں دیکھا اور ان کی مشکلیں آسان ہوتی چلی گئیں۔ انہوں نے آستانہ غریب نواز پر حاضر ہو کر کہا کہ ‘‘یہاں کی حاضری کا دن میرے لیے یادگار دن ہے۔ میری دلی مراد برآئی ہے۔’’
دیگر حکمران و سیاسی لیڈروں میں شاہ نیپال بریندرا، وزیراعظم ایران حسین موسوی، وزیر اعظم سری لنکا راناسنگھ پریمداس، صدر ماریشس قاسم اثیم، بنگلا دیش کے صدر جنرل ارشاد، وزیراعظم چوہدی منہاج الدین اور بیگم خالدہ ضیاء، شیخ حسینہ واجد، مہاراجہ گوبند سنگھ، مہاراجہ کشمیر کرن سنگھ شامل ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی سلطان الہند کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چادر بھجوائی۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ ہمیشہ سے عقیدت کا مرکز رہا ہے۔ اگر ایک طرف سلاطین و حکمرانوں نےا س چوکھٹ پر سر نیاز خم کیا ہے، تو دوسری طرف اولیاء، علماء اور حکماء خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر حاضری دینے آتے رہے ہیں۔ ایسے بزرگوں کی فہرست بہت طویل ہے، جن کی حاضریاں آستانہ غریب نواز پر رہی ہیں۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی سلطان الہند کے چہیتے مرید تھے، جس قدر آپ کو فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع ملا، کسی اور کو نہیں ملا۔ خواجہ قطب الدین کے بعد سب سے زیادہ صوفی حمید الدین ناگوری کو خواجہ غریب نواز کے فیض صحبت کا موقع ملا۔ آپ برسوں خدمت میں رہے، بابا فرید گنج شکر نے دہلی میں خواجہ غریب نواز سے ملاقات کی تھی۔ مولانا فخر الدین زراوی جو حضرت نظام الدین اولیاء کے خلفاء میں سے تھے بار بار غریب نواز کی بارگاہ میں حاضری کے لیے آیا کرتے تھے۔ شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر ، حضرت شیخ سلیم چشتی، حضرت شیخ بدیع الدین شاہ مدار ، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ، امیر ابو العلا نقشبندی، فخر الدین دہلوی، پیر وارث علی شاہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی، خواجہ حسن نظامی، یعقوب ناناتوی، علامہ اقبال، محمد علی جوہر، صبغت اللہ فرنگی محلی وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت خواجہ معین الددین چشتی دنیا کے ان چند نامور صوفیاء میں سے ہیں، جنہوں نے تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں اسلام کو فروغ ہوا اور آپ کے بعد بھی آپ کے نقش قدم کو اپنانے والوں نے آپ کے مشن کو جاری رکھا۔
آپ کی تعلیمات مختلف کتابوں میں ملتی ہیں، مگر دلیل العارفین آپ کی مجالس میں کہنے جانے والے ملفوظات کا مجموعہ ہے، جس کے مرتب آپ کے مرید حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہیں۔
‘‘دلیل العارفین’’ کی ابتداء نماز کی فضیلت سے ہوتی ہے۔ اس کے بغیر روحانیت کا تصور بھی ممکن نہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی ارشاد فرماتے ہیں۔ ‘‘نماز سے لوگ اللہ کے نزدیک ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ نماز مومن کی معراج ہے، حدیث میں آیا ہے کہ الصلوٰۃ معراج المومن۔ تمام مقام سے بڑھ کر نماز ہے اور اللہ تعالیٰ سے قرب نماز کی بدولت ہی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: نماز ایک راز ہے، جو بندہ خالق سے بیان کرتا ہے، قرب وہی پاسکتا ہے، جو راز کے قابل ہو۔ نماز کے بغیر یہ راز حاصل نہیں ہوتا۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں تصوف، عرفان خداوندی کے راستے کو کہتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے والے اپنے پیدا کرنےو الے مالک کا عرفان حاصل کرتے ہیں۔ [دلیل العارفین : مجلس 1]
حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں: ‘‘شریعت پر چلنے والے ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور تمام فرمان بجا لاتے ہیں۔ جب طریقت میں کامل ہوجاتے ہیں، تو معرفت کوپہنچتے ہیں اور شناخت و شناسائی کا مقام آجاتا ہے۔ جب اس مقام میں ثابت قدم ہوجاتے ہیں، تو درجہ حقیقت کو پہنچ جاتے ہیں۔ [دلیل العارفین :مجلس 2]
خواجہ غریب نواز خدمت خلق پر خاص طور پر زور دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ‘‘عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔’’
[دلیل العارفین :مجلس 6]
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: ‘‘جس مومن میں یہ تین خصلتیں ہوں خدائے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول سخاوت دریا کی طرح، دوسرے شفقت آفتاب کی طرح، تیسرے تواضع زمین کی طرح۔ فرمایا جس کسی نے نعمت پائی، سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے، صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی محفل میں ایک موقع پر اچھی بری صحبت کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ‘‘نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔ [دلیل العارفین :مجلس 10]
حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ‘‘میں نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے سنا ہے کہ قیامت کے دن نماز کا حساب ہوگا، پس جو نماز سے عہدہ برآمد ہوگا، خوشی پائے گا، جو اس کے جواب سے قاصر رے گا، عذاب دوزخ میں مبتلا ہوگا۔’’ آپ نے فرمایا کہ: ‘‘نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے، پس جب ستون قائم ہوگیا، تو مکان بھی قائم ہوگا۔ جب ستون نکل گیا، تو چھت گر پڑے گی، کیونکہ اسلام اور دین کے لیے نماز بمنزلہ ستون ہے۔
برصغیر میں دینِ اسلام کی روشنی پھیلانے، توحیدِ باری تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا پیغام انسانوں تک پہنچانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درخشاں خدمات آنے والی سب نسلوں کے لیے روشن مثال ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس زمانے میں جبکہ آبادی بہت کم تھی ایک لاکھ سے زیادہ افراد خواجہ غریب نوازؒ کی تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جن لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان میں سے بے شمار کے دل بھی غریب نواز ؒ کی عقیدت سے لبریز ہونے لگے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف میں آرام فرما ہیں اور وہاں فیضِ عام کا لنگر جاری ہے۔ آج بھی اگر کوئی شکم سیری کی نیت سے جاتا ہے تو اسے پیٹ بھر کے کھانا ملتا ہے، صبح شام لنگر جاری ہے شہر کے سارے مساکین، غربا و فقرا کھاتے ہیں اور کھانا پھر بھی بچا رہتا ہے۔ یہ ہے اللہ کے دوستوں کا تصرف۔ کسی کو اطمینان و سکون کی تلاش ہوتی ہے تو حاضر ہوتے ہی کسی دستِ شفقت کا سایہ پاتا ہے…. اولیاء اللہ کے مزارات پر ہر وقت رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ جو وہاں جاتا ہے اطمینان ِ دلی سے فیض یاب ہوتا ہے۔
جب رجب المرجب کا چاند چڑھتا ہے اور خواجہ کے عرس کا دن آتا ہے تو بہاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دنیا کے کونے کونے سے عقیدت مند سوئے اجمیر چل پڑتے ہیں۔ ان میں عام لوگ بھی ہوتے ہیں، اولیاء اللہ بھی، امیر بھی ، غریب بھی، مسلمان بھی، ہندو بھی، سکھ بھی، عیسائی بھی کیونکہ خواجہ سب کے خواجہ ہیں۔ ان کے احسانات سب پر ہیں،لوگ آج بھی خواجہ ٔ بزرگ کے مزار پر چلے کاٹتے ہیں اور روحانی انعامات سے نوازے جاتے ہیں۔ آٹھ سو سال گزر گئے ہیں یہ فیض جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ۔