Notice: WP_Scripts::localize işlevi yanlış çağrıldı. $l10n parametresi bir dizi olmalıdır. Komut dosyalarına rastgele verileri iletmek için bunun yerine wp_add_inline_script() işlevini kullanın. Ayrıntılı bilgi almak için lütfen WordPress hata ayıklama bölümüne bakın. (Bu ileti 5.7.0 sürümünde eklendi.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
پرورش ۔ اپنے بچوں کو پُراعتماد بنائیے…. 6 – روحانی ڈائجسٹ
Pazartesi , 8 Aralık 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

پرورش ۔ اپنے بچوں کو پُراعتماد بنائیے…. 6

محمد زبیر ، وجیہہ زبیر


 محمد زبیر گزشتہ بیس برس سے زندگی بہتر انداز میں گزارنے کے موضوع پر تدریس اور تربیتی پروگرامز منعقد کررہے ہیں۔ اپنے پروگرامز، مضامین اور کتابوں کی وجہ سے وہ کتنے ہی لوگوں کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’شکریہ‘‘ بہت مقبول ہوئی، جس میں انہوں نے کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے کے فارمولوں، زندگی میں صحت،محبت ، دولت اور خوشیوں کو پانے، اپنے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل کے ساتھ خدا کی رضا کے حصول کی جانب راہنمائی کی تھی ۔
ان تربیتی پروگرامز کے دوران انہیں احساس ہوا کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بچوں کی اچھی اور بامقصد تربیت ہے، بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ، اس لیے والدین کو ابتداء سے ہی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سوچ کے تحت انہوں نے متعدد اسکولوں اور اداروں میں بچوں کی تربیت کے موضوع پر والدین کیلئے ٹریننگ پروگرامز منعقدکرنا شروع کردئے۔
‘‘پرورش’’کے عنوان سے اس سلسلۂ مضامین کا مقصد یہی ہے کہ والدین کو یہ آگاہی فراہم کی جائے کہ بچوں کی پرورش اس طرح کی جائے کہ ذہنی و جسمانی نشوونما کے ساتھ ان کی شخصیت کی بھی تعمیر ہو اور وہ ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

 

قسط نمبر 6

 

 

دوسرا حصہ 

پُراعتماد بچے کی پرورش کے چار اصول

اس حصے میں بچوں کی پرورش کے چار اصول بیان کئے گئے ہیں۔ یہ اصول ہزاروں کتابوں اور تحقیقات میں سینکڑوں برسوں سے بیان کئے جا رہے ہیں۔ لہذا کچھ لوگ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ جو اصول آپ بتا رہے رہیں وہ کوئی بھی عاقل شخص پہلے سے ہی جانتاہے تواس کتاب میں بیان کر کے کون سا کمال کر دیا۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کے لئے گوتم بدھ کے ایک بھگشو کی کہانی کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔
کہا جاتاہے کہ ایک شخص نے طویل سفر اس غرض سے طے کیا کہ وہ گوتم بدھ کے کسی پیروکار سے مل کر اس کی تعلیمات کے متعلق جانے۔ لمبے سفر کے بعد وہ بدھا کے ایک نامور بھگشو اور پیروکار سے ملاجس نے مسافر کو بتایا
‘‘بدھ کی تعلیم یہ ہے کہ جو براہے وہ نہ کرو، جو خیر ہے اس پر عمل کرواور اپنا ذہن ہمیشہ پاک رکھو۔’’
اتنا طویل سفر کرنے والے شخص نے حیرانگی سے سوال کیا:‘‘بس یہی اس کی تعلیم ہے؟ یہ تو ہر پانچ برس کا بچہ جانتاہے۔’’
بھگشو نے جوا ب دیا:
‘‘ہاں، ایسا ہی ہے لیکن اسی برس کے چند لوگ ہی ایسے ہوں گے جو اس پر عمل کرتے ہوں۔’’
یہ اصول بیان کرنے کا مقصد محض یہ بتانا نہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو درست ہے اسے کس طرح اپنی زندگی میں شامل کیا جائے اور جو غلط ہے اس سے کس طرح خود کو محفوظ رکھا جائے۔
چاروں ابواب کی ابتدا میں ایک سوال نامہ دیا گیا ہے۔ یہ سوال نامہ آپ کی نفسیات کا جائزہ لینے کیلئے نہیں بلکہ آپ اور آپ کے بچے کے تعلق کو مضبوط بنانے کیلئے مرتب کیا گیا ہے۔
پہلے دو ابواب میں دئے گئے سوالات آپ اور بچوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں معاون ہوں گے خاص طور پر ان گھرانوں میں، جہاں بچوں کی آپس میں یا والدین کے ساتھ بے تکلفی نہیں ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ان سوالات سے آپ خوب محظوظ ہوں گے۔

 

پانچواں باب : پہلا اصول 

تعریف اورحوصلہ افزائی !

مینڈکوں کی جدوجہد

دنیا جہاں سے بے خبر، مینڈکوں کا ایک گروہ جنگل میں خوشی خوشی اِدھر اُدھر پھدک رہا تھا، ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔اچانک دو مینڈک ایک گڑھے میں گر گئے۔باقی تمام مینڈک اپنے دوستوں کی مدد کرنے کے لیے گڑھے کے گرد جمع ہوگئے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گڑھا بہت گہرا ہے، اس میں سے نکلنا ممکن نہیں تو سب نے افسردگی سے سرہلاتے ہوئے دونوں مینڈکوں کو بتادیا:
‘‘ باہر آنا ممکن نہیں۔ اب کوئی معجزہ ہی تم دونوں کوبچا سکتاہے۔’’
مرنے والے اتنی آسانی سے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپاتے اس لئے پوری قوت کے ساتھ آخری کوشش ضرور کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ کوشش ہی ہوتی ہے جو موت کواور بھی قریب کر دیتی ہے۔
اپنے دوستوں کی بات پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے دونوں نے اوپر آنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی۔ باقی مینڈکوں کو تکلیف ہو رہی تھی کہ ان کے دوست ایسی چیز کیلئے کوشش کر رہے تھے جو کسی طور ممکن ہی نہیں تھی لہذا انہوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر اور گلا پھاڑ پھاڑکر آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ اب کوئی فائدہ نہیں ، خاموشی سے مزید گہرائی میں چلے جاؤ اور اپنی موت کا انتظار کرو۔ اس کے باوجود دونوں اوپر آنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔
زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی، انہیں بھی تھی۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد دونوں تھک کر چُور ہو گئے۔
آخرکار ، ایک مینڈک نے ہمت ہار دی اور مینڈکوں کے قانون کے مطابق کھائی کے نچلے حصہ میں چلا گیا، جہاں اسے لیٹ کر موت کا انتظار کرنا تھا۔
دوسرے مینڈک نے ہمت نہیں ہاری اور تہیہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے آخری سانس تک کوشش کرتا رہوں گا۔
اس کے ساتھیوں نے ایک مرتبہ پھر چلّانا شروع کردیا کہ بے وقوفی مت کرو اور اپنے دوست کے پاس جا کر لیٹ جاؤ۔لیکن دوسرا مینڈک مسلسل کوشش کرتا رہا اور پھر حیرت ناک واقعہ ہو ہی گیا۔ اس کے پاؤں دوسوراخوں میں اس طرح پھنسے کہ وہ اچھلتا ہوا باہر نکل گیا۔
باقی مینڈک خوشی سے ناچتے اور اس کی زندگی کاجشن مناتے ہوئے اس کے گرد جمع ہوگئے اورپوچھنے لگے: ‘‘ہم نے تمہیں بتادیا تھا کہ باہر نکلنا ممکن نہیں اس کے باوجود تم نے جدوجہد کیوں جاری رکھی ؟’’
ان کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کوغور سے پڑھ کر مینڈک حیران ہو گیا اور اس نے بتا یا :
‘‘بلندی سے گرنے کی وجہ سے میں بہرہ ہوگیا تھالیکن جس وقت میں نے تم لوگوں کو گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر چیختے ہوئے دیکھا تو میں سمجھا تم کہہ رہے ہو کہ کوئی مشکل نہیں ہے، تھوڑی اور کوشش کروگے تو باہر آجاؤ گے۔ میں نے سوچا جب میرے دوست کہہ رہے ہیں کہ میں باہر آسکتا ہوں تو وہ جھوٹ تو نہیں بول رہے ہوں گے۔’’
Be deaf to those who say,”You cannot fulfill your dreams.”
ان لوگوں کے سامنے بہرے بن جاؤ جو کہتے ہیں،‘‘تم اپنے خواب پورے نہیں کرسکتے۔’’

الفاظ زندگی دیتے ہیں

بے شمار لوگ اس لئے کامیاب ہوئے ہیں کہ کسی کی ایک تھپکی ، ایک مثبت جملہ ، ایک حوصلہ افزا بات نے ان کی زندگی کو درست سمت پر لگا دیاتھا ۔
ہمارے مثبت الفاظ ہمارے بچوں کی زندگی بدل سکتے ہیں، انہیں اچھا انسان بنا سکتے ہیں، ان کی خوشیوں میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں، انہیں پر اعتماد بناسکتے ہیں۔
کسی کی حوصلہ افزائی کے لئے سمجھداری سے ادا کئے گئے الفاظ اس آگ کی طرح ہوتے ہیں جو لوہے کو گرم کرکے مطلوبہ شکل میں ڈھال دیتی ہے۔

 

جب ہمیں کوئی اچھا لگتا ہے

پیٹرپین کے خالق، مشہور مصنف سر جیمز بیری (Sir James Barrie) ایک مرتبہ اپنے دوست کے ساتھ کاروباری معاملات میں محوِ گفتگو تھے کہ ان کے دوست کی نو سالہ بیٹی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بسکٹس بنا کر ان کیلئے لائی۔ اس کے والد مداخلت سے جھنجھلا گئے اور غصہ سے ڈانٹ کر اسے بھگا دیااور دوبارہ باتوں میں لگ گئے۔
بیٹی بے عزتی اور حوصلہ شکنی کے احساس کے ساتھ سر جھکا کر کمرے سے چلی گئی۔ کچھ ہفتوں بعد جب اس کی ماں نے گرم جوشی سے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا:
‘‘بیٹا، آپ دوبارہ بسکٹس کب بنائیں گی؟’’ تووہ بے اختیار رونے لگی اور بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا،‘‘ اب میں بسکٹس کبھی بھی نہیں بناؤں گی۔’’اور اس نے دوبارہ کبھی نہیں بنائے۔
کہتے ہیں کہ جب ہمیں کوئی شخص اچھا لگتاہے تو اس کی ہر بات اچھی لگتی ہے۔اس کے برعکس اگر کوئی شخص برا لگتاہے تو اس کی اچھی بات بھی بری لگتی ہے۔
اگر ہم بچے کی پسندیدہ شخصیت بن جائیں گے تو اس کی اصلاح کرنا ہمارے لیے آسان ہوجائے گا۔

 

ہمارے پسندیدہ لوگ
ہمیں کون اچھا لگتاہے؟

ہمیں وہ اچھا لگتا ہے جو ہمیں سراہتاہے ، ہماری حوصلہ افزائی کرتاہے۔
جب ہم چھوٹے تھے تو کوئی بھی کام کرنے کے بعد اپنے والدین کی طرف یہ سوچ کر دیکھتے تھے کہ وہ خوش ہو رہے ہیں یا نہیں۔ ان کی مسکراہٹ ہی ہمارا حوصلہ بڑھا دیا کرتی تھی۔
اگر ہم اپنی اولاد کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں تووہ دل سے ہماری قدر کریں گے ساتھ ہی ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
بچوں کی تعریف کے ذریعے ہم یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ‘‘تم بہت اہم ہو۔’’ اور کسی کے اندر یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ اہم ہے کوئی معمولی بات نہیں ۔
اپنی اہمیت منوانے کے لئے لوگ اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔
نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ لوگ اپنے آپ کو اہم بنانے کے لئے اور تمغے حاصل کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں مارے جاتے ہیں۔
ہمارے ٹریننگ پروگرامز میں ایک اسٹوڈنٹ رضاکارانہ طور پر کام کیا کرتاتھا۔ شروع میں ہی وہ پوچھ لیا کرتا تھا کہ پروگرام کے اختتام پر شیلڈ دی جائے گی یا نہیں۔ اگر ہم انکار کردیتے کہ بجٹ نہیں ہے تو وہ اپنی شیلڈ کے لئے پیسے اپنی جیب سے دیا کرتا ۔ ہم اس بات پر ہنستے تو وہ کہتاتھا کہ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ شیلڈ کتنی اہم ہوتی ہے۔
اگرچہ یہ اچھی بات نہیں کہ کوئی عمل اپنی عزت، شہرت یا کسی اور مفاد کے لئے کیا جائے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم بیشتر کام اس لئے کرتے ہیں کہ ہماری تعریف کی جائے، ہمیں اچھا سمجھا جائے۔ 

کھانے کی تعریف

 میری اہلیہ کھانے پکانے کی شوقین ہیں اور جب مجھے کھانا پسند آتا ہے تو میں دل کھول کر تعریف کرتا ہوں۔ میرے والدو جیہہ سے بہت خوش ہوتے اور خیال بھی بہت رکھا کرتے تھے۔
کبھی کبھی سمجھاتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ زبیر تمہارے کھانوں کی تعریفیں کرتے ہیں اور تم خوش ہو کر زبیر اور ان کے دوستوں کے لئے اتنے مزے مزے کے نئے نئے کھانے پکاتی رہتی ہو۔ یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے کہتے کہ زبیر کی چالاکی کو سمجھو ۔ وجیہہ یہ سن کر ہنستی تھیں۔
بچوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتاہے۔ جس کام پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، وہ زیادہ دل لگاکرکرتے ہیں۔
تیسری جماعت میں ہماری کلاس ٹیچرمس نسرین تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے میری کاپی دیکھی تو بہت خوش ہوئیں اور کلاس میں کاپی لہراتے ہوئے کہنے لگیں:
‘‘دیکھیں، کتنی پیاری رائٹنگ ہے۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا ہے۔’’
اس تعریف کا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اپنی لکھائی پر زیادہ توجہ دی۔ ابھی بھی لوگ میری رائٹنگ کی تعریف کرتے ہیں۔ یاد رکھیں:
Behaviour appreciated is behaviour repeated.
‘‘جس رویے کو سراہا جاتاہے، وہی رویہ دہرایا جاتاہے۔ ’’

الفاظ کا سحر  : ایک دلچسپ تحقیق

جاپان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرمسارو ایموتو Masaru Emoto ایک مصنف اور محقق تھے۔ 2014 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنی منفرد تحقیقات کے ذریعے وہ دنیا کے سامنے کچھ عجیب و غریب نظریات چھوڑ کر چلے گئے۔
اپنی ایک تحقیق کیلئے انہوں نے شیشے کے تین مرتبان لئے اور ان میں چاول ڈالے۔ پھر ان میں پانی ڈال دیا۔ پانی ڈالنے کے بعد پہلے مرتبان سے کہا:
‘‘مجھے تم سے محبت ہے’’، دوسرے سے کہا:‘‘تم احمق ہو’’، اور تیسرے کو نظرانداز کردیا، کچھ نہیں کہا۔
پہلے مرتبان میں رکھے گئے چاول ایک ماہ بعد بھی خراب نہیں ہوئے جبکہ دوسرے اور تیسرے مرتبان میں رکھے ہوئے چاول مکمل طور پر خراب ہوگئے۔
انہوں نے عرصہ دراز تک تحقیق کے نتیجے میں دنیا کو بتایا کہ الفاظ، آواز اور خیالات پانی پر اثرانداز ہوکر ان کی ماہیت تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر پانی سے مثبت الفاظ کہے جائیں اور انہیں منجمد کرلیا جائے تو وہ خوبصورت جبکہ منفی الفاظ اور خیالات انہیں بدنما بنادیتے ہیں۔
اگر کہا جائے،‘‘مجھے تم سے محبت ہے،’’ تو پانی کے کرسٹلز خوبصورت شکل اختیار کرلیں گے اس کے برعکس اگر پانی سے کہا جائے ،‘‘مجھے تم سے نفرت ہے’’ تو یہ بد صورت شکل اختیار کر لیں گے ۔ ماسارو ایموتو نے یہ بھی انکشاف کیا کہ دعاؤں اور مثبت خیالات سے آلودہ پانی کو صاف کیا جاسکتاہے۔ اس جاپانی محقق کی تحقیقات ، پانی میں چھپے ہوئے پیغامات (The Hidden Messages in Water) کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہوئیں۔یہ کتاب نیویارک بیسٹ سیلر کی لسٹ میں شامل رہی ہے۔
یہ تمام باتیں کسی عام روایتی مذہبی شخص کی نہیں، اس اسکالر کی ہیں ، جس کے کئے گئے کام پر گزشتہ دو دہائیوں سے تحقیقات ہورہی ہیں۔
مسارو کامیاب بزنس مین تھے ،امریکہ میں انٹرنیشنل واٹر فار لائف فائونڈیشن (International Water for Life Foundation) میں صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1992 میں انڈیا چلے گئے جہاں متبادل ادویات(Alternative Medicine) میں پی ایچ ڈی کیا، کتابیں لکھیں ، انہوں نے بے شمار لوگوں کو اس طرح متاثر کیا کہ دنیا بھر میں ان کے کام پر مزید تحقیقات ہورہی ہیں۔ ہر بڑے نظریے کی طرح اس پر بھی تعریف اور تنقید ساتھ ساتھ کی جارہی ہے۔
پاکستان میں متعدد ماہرین اور ادارے ڈاکٹر مساروکی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔


کچھ عرصہ قبل ٹی وی ون پرایک پروگرام مذاہب عالم اور عقلِ انسانی کے نام سے کامران علی خان صاحب نے پیش کیا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر سعید ظفرصدیقی ، پروفیسرساجدہ سلیم، ریورنڈ کرسٹوفر ہاک Rev. Cristopher Hawk اور فہد علی رضا شامل تھے ۔ ان چاروں کا متفقہ خیال تھا کہ پانی بہت حساس ہوتا ہے اور الفاظ، آواز اور جذبات کا اثر فوری قبول کرتاہے۔
ڈاکٹر سعید ظفر صاحب نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا ہے اور چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پانی نہ صرف سنتا ہے بلکہ دنیا میں ہونے والے واقعات کو ریکارڈ بھی کرتا جا رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے پاس ابھی وہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ جس کی بدولت ہم اس ریکارڈنگ کو سن سکیں یا ڈی کوڈ کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحب روس میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چنے کے دو ایک جیسے کھیتوں میں سے ایک کو موسیقی سنائی گئی اور دوسرے کو نہیں سنائی گئی۔ جسے موسیقی سنائی گئی تھی ، اس کی فصل اس کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھی جسے نہیں سنائی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شے میں پانی موجود ہوگا، وہ الفاظ، آواز اور احساسات کا اثر ضرور قبول کرے گا۔
ریورنڈ کرسٹوفر ہاک نے بتایا کہ مغرب میں اس موضوع پر بہت زیادہ تحقیقات ہو رہی ہیں وہ کہتے ہیں وہیل مچھلی اسی واسطے کی مدد سے ایک سے دوسرے سمندر تک پیغام پہنچانے کے قابل ہوتی ہیں۔
پروفیسرساجدہ سلیم نے زولوجی میں ماسٹرز کیا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ اثر پذیری صاف پانی میں زیادہ ہوتی ہے۔گدلا پن پیغام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یادداشت پانی کے مالیکیولز میں موجود خالی جگہ میں نقش ہوجاتی ہے۔
اب آتے ہیں اس تحقیق کے دلچسپ ترین پہلو کی جانب۔
مثبت الفاظ خوش اور منفی الفاظ ہمیں بے چین کیوںکر دیتے ہیں ؟ کیونکہ ہم انسان ساٹھ سے ستّر فیصد پانی پر مشتمل ہیں۔
ہم جتنی زیادہ مثبت گفتگو سنیں گے، مثبت ماحول میں رہیں گے، مثبت احساس کے ساتھ زندگی گزاریں گے، اتنا زیادہ شخصیت میں نکھار آتا رہے گا۔
بچوں میں شفافیت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ الفاظ کا گہرااثر قبول کرتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت بنانے اور بگاڑنے والی شے ہمارے الفاظ اور ان کے پیچھے چھپے ہوئے احساسات ہوتے ہیں۔
بچے معصوم، شفاف اور بے ضرر ہوتے ہیں اس لئے الفاظ کا گہرا اثر لے لیتے ہیں۔ بچوں کے سامنے اور بچوں کے ساتھ ہمیں محتاط ہوکر الفاظ استعمال کرنے چاہئیں تاکہ وہ خوش رہیں اور ان کی شخصیت کے رنگوں میں نکھار آتا رہے۔
ایک ایک لفظ جو آپ سنتے اور ایک ایک لفظ جو آپ بولتے ہیں، اپنے اندر اثررکھتا ہے۔ مثبت الفاظ مثبت، منفی الفاظ منفی۔
ہمارے دوست عمران شمشاد ایک معروف شاعر ہیں،انہوں نے ایک نظم ‘‘ایک کسیلی ڈانٹ’’ کے عنوان سے لکھی ہے۔آپ کی خدمت میں پیش کرتاہوں، پڑھئے اور غور کیجئے:
باس نے اس کو ایک کسیلی ڈانٹ پلائی
اس نے چیراسی پہ اتارا سارا غصہ
چیراسی نے گھر آکر بیوی کی کردی طبیعت صاف
بیوی نے بچے کے گال پہ چھاپے اپنے ہاتھ
بچے نے اسکول میں اک بچی کے اوپر چھڑکی انک
بچی جونہی گھر کو لوٹی
چھوٹے بھائی کو مارا تھپڑ
ماں نے اس کے چار لگائے
باپ نے ماں کے
آٹھ لگائے
دوسرے دن پھر
باس نے اس کو ایک کسیلی ڈانٹ پلائی
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ منفی الفاظ منفی جبکہ مثبت الفاظ اگر درست اندازمیں ادا کئے جائیں تو مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بعض اوقات ہمارے الفاظ بظاہر مثبت ہوتے ہیں مگر ان میں چھپے ہوئے معنی ہم پر آشکار نہیں ہورہے ہوتے۔ لہذا یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حوصلہ افزائی کے لئے ادا کئے گئے مثبت الفاظ کیا ہوتے ہیں اور ان کے منفی اثر سے کس طرح اپنے بچوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔
[نوٹ آئندہ اقساط میں آگے چل کر نویں باب ‘‘تعریف اورحوصلہ افزائی ! کیسے؟‘‘میں ہم دیکھیں گے کہ تعریف کے لئے ادا کئے گئے کون سے جملے منفی اور کون سے مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ]

سوال نامہ

 کیا آپ اپنے بچے کو جانتے ہیں ؟

 آپ اپنے بچے کے متعلق کتنا جانتے ہیں؟
بچوں اور والدین کے درمیان مضبوط تعلق اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب والدین اپنے بچوں کی شخصیت سے واقف ہوں۔ بچوں کو جانے بغیر ان کی رہنمائی نہیں کی جاسکتی، ان کی خوشیوں میں اضافہ نہیں کیا جاسکتااور انہیں پر اعتماد نہیں بنایا جاسکتا۔ عام طور پر والدین اِس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بخوبی جانتے ہیں۔اپنے بچوں کے متعلق جاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ صرف ان کی کمزوریوں اور لاپرواہیوں سے واقف ہوں، بچوں کے متعلق جاننا اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پہلے نیچے دئے گئے سوالات کے جوابات دیں اور پھر یہی سوالات اپنی اولاد سے پوچھیں۔ میں نے جب بھی اپنی یا کسی بہن بھائی کی فیملی میں بیٹھ کر یہ سوالات کئے ہیں تو سب نے خوب انجوائے کیا ہے۔ سوالات ہلکے پھلکے ماحول میں کریں اور ہر سوال سے خوب لطف اندوز ہوں۔ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ کچھ سوالات ایسے بھی ہوسکتے ہیںجو آپ کے بچے کی عمر سے بڑے یا چھوٹے ہوں۔ انہیں نظرانداز کرتے ہوئے آگے نکل جائیں۔ ہر سوال ہر بچے کے لئے نہیں۔
1۔ آپ کا بچہ بڑا ہو کر کیا بننا چاہتا ہے؟
2۔ کس بات سے اسے شرمندگی ہوتی ہے؟
3۔ کس بات سے خوف آتاہے؟
4۔ آپ کے بچے کا بہترین دوست کون ہے؟
5۔ آپ کا بچہ کسے اپنا دشمن سمجھتا ہے؟
6۔ پسندیدہ لطیفہ یا پہیلی کون سی ہے؟
7۔ کس کام سے نفرت ہے؟
8۔ آپ کا بچہ اس دنیا میں کس کی طرح بننا چاہتاہے؟
9۔ اسے اپنی فیملی سے سب سے بڑی شکایت کیا ہے؟
10۔ اگر آپ اپنے بچے سے پوچھیں کہ وہ جو تحفہ مانگے، اسے ملے گا تو بتائیں وہ کیامانگے گا؟
11۔ اسے اب تک کی کس کامیابی پر سب سے زیادہ فخر ہے؟
12۔ نصابی کتب کے علاوہ اس کی من پسندکتاب کون سی رہی ہے؟
13۔ اسے اب تک ملنے والے تحفوں میں سب سے پسندیدہ تحفہ کون سا لگا ہے؟
14۔ وہ ہوم ورک کب کرنا پسند کرتاہے؟ اسکول سے آنے کے بعد، رات کے کھانے کے بعد یا صبح اسکول جانے سے پہلے؟
15۔ اس کا پسندیدہ ترین استاد کون ہے اور کیوں؟
16۔ گھر والوں کے علاوہ، اس کی شخصیت پر سب سے زیادہ کون اثر انداز ہوا ہے؟
17۔ اس کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟
18۔ وہ خود کو اپنی عمر سے چھوٹا تصور کرتاہے، بڑا کرتاہے یا سمجھتا ہے کہ وہ اتنا ہی بڑا لگتا ہے جتنی اس کی عمر ہے؟
19۔ کس بات سے آپ کا بچہ اداس/پریشان ہو جاتاہے؟
20۔ اس کی پسندیدہ ترین فلم ،ٹی وی پروگرام یا کھیل کون سا ہے ؟
21۔ کس کام کے متعلق آپ کا بچہ سمجھتا ہے کہ وہ نہیں کرسکتا؟
22۔ اس کا پسندیدہ اور ناپسندیدہ ترین مضمون کون ساہے؟
23۔ اسے کس بات پر غصہ آتاہے؟
24۔ آپ کا بچہ کس چیز یا مسئلے کی وجہ سے پریشان ہے، جسے حل کرنے میں اسے دشواری ہو رہی ہے؟
25۔ آپ کا بچہ گھومنے پھرنے کے لئے کہاں جانا چاہتاہے؟
26۔ آپ کے بچے کے پسندیدہ کپڑے کون سے ہیں؟
اگر آپ کے 20سے 26کے درمیان جوابات درست ہیں تو اس کامطلب ہے آپ اپنے بچے کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور آپ کا تعلق کافی مضبوط ہے۔
اگر 15سے 19 جوابات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اپنے بچے کو کسی حد تک سمجھتے ہیںمگر مزیدتوجہ سے اپنے بچوں کو سننے کی ضرورت ہے۔
اگر 15 سے کم جوابات درست ہیں تو آپ کو اپنے بچے کی باتیں زیادہ سننے کی ضرورت ہے۔بچے سے تعلق پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ اسے آپ کی ضرورت ہے۔


(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

پرورش ۔ اپنے بچوں کو پُراعتماد بنائیے…. 7

محمد زبیر ، وجیہہ زبیر قسط نمبر 7     ایک مرتبہ ایک اسٹوڈنٹ عمر،مجھ …

برسات میں بچوں کی نگہداشت ضروری ہے!

  موسم برسات ہماری صحت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے مگر بعض اوقات …

Bir yanıt yazın