Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحانی ڈاک – جون 2020ء

 
 ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑

Image Map

 

 


***

فرمانبردار اولاد بدتمیز کیوں ہوجاتی ہے….؟

سوال: یمیر ے تین بیٹے اورپانچ بیٹیاں ہیں۔ میرے شوہر اور سسرال والے میرے ساتھ شروع سے ہی لاپرواہ اورظالم رہے ہیں۔ میرے شوہربچوں کی تعلیم کے بھی حامی نہیں خصوصاً لڑکیوں کوتعلیم دلوانا بالکل غیر ضرروی سمجھتے ہیں۔ اپنے ان خیالات کے باعث وہ بچوں کی تعلیم کے اخراجات سے بھی انکاری تھے۔ میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی تھی۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات میں نے محلے میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اوراپنے گھر میں خواتین کے کپڑے سی کر پورے کیے۔ بعد میں میرے بچے جوں جوں میٹرک کرتے گئے، خود بھی ٹیوشن پڑھانے لگے۔
آج الحمد اللہ ! میری دوبیٹیاں انجینئر اور دو ڈاکٹر ہیں۔ ایک بیٹا ایم ۔ بی۔اے اورایک کمپیوٹرسائنس میں ماسٹرز کررہا ہے۔
میرے شوہربچوں کی تعلیم سے اورگھر کے معاملات سے لاتعلق ہی رہے۔وہ مجھ سے اکثر لڑتے رہتے تھے ،کبھی جھگڑا بہت بڑھ جاتا تو میرے بچے میری حمایت کرتے ہوئے اپنے باپ سے احتجاجکرتے تھے۔
میرے سسرال میں بچوں کو تعلیم دلوانے کا رواج نہیں ہے۔ میرے جیٹھ اور دیوروں کے بچوں نے مڈل، میٹرک کسی نے زیادہ سے زیادہ ایف اے تک پڑھا ہے۔ میرے بچے میرا بہت ادب و احترام کرتے ہیں۔ جبکہ میرے سسرال میں کئی بچے تعلیم میں پیچھے رہ جانے پر اپنے والدین سے شکوے کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض زبان درازی بھی کر گزرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی ان بدتمیزیوں کا ذمہ دار میری دیورانیاں جٹھانیاں اور نندیں مجھے قرار دیتی ہیں۔ وہ خواتین یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے اپنے بچوں کو والد کے خلاف ورغلا رکھا ہے۔
ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے شوہر نے مجھ سے کہاکہ سب بچے تیری بہت حمایت کرتے ہیں لیکن اب تو دیکھنا !سارے بچے تیرے مخالف اورتجھ سے بیزارہوجائیں گے۔
میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ میں سمجھتی تھی کہ میرے بچے تمام حالات سے واقف ہیں وہ ہمیشہ میرا ادب کرتے رہیں گے….
لیکن …….اب چند ماہ سے وہی کچھ ہورہاہے جس کی دھمکی میرے شوہر نے دی تھی۔ میرے بچے اب میرے سامنے بولنے لگے ہیں۔ مجھ سے بدتمیزی کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہن بھائی جو پہلے آپس میں بہت محبت سے رہتے تھے اب ایک دوسرے سے بھی لڑنے لگے۔
محترم وقاربھائی ! اپنے بچوں کے ان تبدیل شدہ رویوں سے میں سخت صدمے اورشدیدذہنی اذیت میں ہوں۔اپنے شوہر کی طرف سے لاتعلقی اور بےعزتی تو میں نے برداشت کرلی تھی لیکن انتہائی باادب اولاد کے رویوں میں یہ تبدیلی مجھ سے برداشت نہیں ہورہی۔ لگتاہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ میں اپنے شوہر سے اب اپنے لیے محبت نہیں مانگتی، وہ مجھے برا بھلا کہہ کر مجھے مارپیٹ کراپنی انا کی تسکین کرلیں لیکن میرے بچوں کوتو مجھ سے دورنہ کروائیں۔

۔

جواب: آپ کا خط پرھ کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کے شوہر کوآپ کی قدر آجائے اوروہ خود کو آپ کا فریق سمجھنے کے بجائے آپ کے رفیق اورمعاون بن جائیں۔ آمین
ان کی جانب سے گھریلو معاملات میں آپ کے ساتھ عدم تعاون اسی لیے ہے کہ وہ خود کو آپ کا یاآپ کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں، لیکن ان کی اس منفی سوچ کی بنیادیں صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اپنے بچوں کو زیادہ تعلیم دلوانا فضول سمجھتے ہیں۔ تعلیم کے بجائے وہ اپنے بچوں کو کوئی ہنر سکھا کرجلد سے جلد پیسہ کمانے کے قابل بنانا چاہتے ہیں جبکہ بعض لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے اس لیے بھی خلاف ہیں کہ لڑکیاں تو شادی کے بعدسسرال چلی جائیں گی، اس لیے ان کی تعلیم پر پیسہ کیوں خرچ کیا جائے۔ شوہر کی اس منفی طرزفکر کو جب آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ آپ کے بھی مخالف ہوگئے اورانہوں نے آپ کی ہر بات کی مخالفت کرنا اپناوطیرہبنا لیا۔
یہ تواس معاملہ کاایک رخ ہے۔ آئندہ سطورمیں دعائیں بھی لکھ رہاہوں ،مگر اس سے پہلے میں آپ کو اپنے اس فہم سے بھی آگاہ کرنا چاہتاہوں کہ بچوں کے حالیہ رویوں میں قصور آپ کا بھی ہے اوریہ قصور بہت اہمیت رکھتاہے۔
محترم بہن! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیے۔آپ نے اپنے بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی۔اس کے لیے بہت قربانیاں بھی دیں۔آپ کے بچوں نے بھی آپ کے ساتھ بہت تعاون کیا۔ آپ کی خواہش کے مطابق اعلیٰ ڈگریاں لا لاکر آپ کے قدموں میں رکھتےگئے۔
مگر اس کے بعد….
کیا زندگی کا مقصد صرف ڈگریوں کا حصول ہے….؟
آپ نے اپنی بیٹیوں اوربیٹوں کے شادی بیاہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دی ۔ہوسکتاہے کہ آپ کے بچے آج کسی کے زیر اثر آپ سے بدتمیزیاں کررہے ہوں مگر ان کے دل میں محرومیوں کا احساس بہت پہلے سے جڑپکڑ چکاتھا۔
آپ سے میری درمندانہ گزارش ہے کہ آپ اس حساس معاملے کو سمجھئے اوراپنی بیٹیوں کے لیے مناسب بر تلاش کرنے کا اہتمام کیجئے۔ اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے بھی اپنی فکر مندی کااظہار کیجئے۔
برے اثرات سے نجات کے لیے صبح اوررات اکتالیس مرتبہ:

لاالہ الاللہ وحد ہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کل شئی قدیر 

گیارہ گیارہ مرتبہ درود خضری

صل اللہ تعالی علی حبیبہ محمد وآلہ و سلم 

پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں اورسب بچوں کا تصورکرکے دم کردیں اوراپنے گھر کے چاروں طرف رُخ کرکے بھی دم کردیں۔
یہ عمل کم ازکم ایک ماہ تک جار ی رکھیں۔
حسب استطاعت صدقہ بھی کردیں اورتین ماہ تک ہرجمعرات کو کم ازکم تین مستحق افراد کو کھاناکھلادیاکریں۔
صدقہ کی ایک اچھی صورت یہ بھی ہے کہ کم آمدنی والے والدین کے ایک یا دو بچوں کے اسکول میں تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لے لیں۔ پاکستان میں غریبوں کو اسکول کی تعلیم پر خرچ کرنا وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے اور یہ حالات کے مطابق صدقہ کی بہت اچھی صورت ہے۔  وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاحفیظ یاسلام
کا ورد کرتی رہا کریں۔

 

 


***

ڈسپلن یا ہم آہنگی

سوال: ہمارے پانچ بچے ہیں۔ تینوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ اب بیٹوں کی شادی کرنی ہے۔ میرا شعبہ تدریس ہے۔ میں ایک بڑے اسکول میں پرنسپل ہوں۔ تنخواہ اور دیگر مراعات بہت اچھی ہیں۔ اسکول کی طرح میں اپنے گھر میں بھی ڈسپلن رکھنے کی قائل ہوں۔ ہمارا ذاتی مکان ہے جو میں نے اورشوہر نے مل کربنایاہے۔
دونوں بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھی ملازمتوں پر ہیں لیکن ابھی ان کی اپنی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ بڑا بیٹا مجھے کہتاہے کہ آپ کے ڈسپلین پرہم تو عمل درآمد کرلیتے ہیں لیکن آنے والی بہو کو اگر یہ ڈسپلین زیادہ سخت محسوس ہوا تو کیا ہوگا….؟ اس پر میں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا ہے کہ میں تمہاری شادی کے بعد ایک سال تک تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر دیکھوں گی۔ اگرتم دونوں ٹھیک رہے تو تم ہمارے ساتھ رہنا ورنہ الگ ہو جانا۔ میں اپنے بیٹے اوربہو کو زبردستی اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہوں گی۔
بڑے بیٹے کارشتہ طے ہوچکا ہے۔ لڑکی والے اس سال شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن میرا بیٹا ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، اس مرحلے پر مجھے آپ کے مشورے اور دعاؤں کی ضرورت آن پڑی ہے۔
۔

جواب: میرے پاس تو عموماً اس قسم کے مسائل آتے ہیں کہ مائیں چاہتی ہیں کہ شادی کے بعد اُن کے بیٹے اُن کے ساتھ رہیں۔ آج ایک ماں کی طرف سے پڑھنے کو ملا ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے کو ساتھ رکھنا نہیں چاہتیں۔ عملیت پسند ہوکر دیکھا جائے تو یہ سوچ غلط بھی نہیں بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق درست ہے۔ جو کام کچھ عرصہ کے بعد لڑ جھگڑ کے، دل برا کرکے، ایک دوسرے کے ساتھ رنجشیں پیدا کرکے بھی ہونا ہو، اس کام کے لیے اگر پہلے سے خوش دلی سے فیصلہ کرلیا جائے تو کیا یہ درست نہیں ہے….؟
میری دانست میں آپ کا بیٹا اس لیے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے کہ وہ اپنی شادی کے بعد اپنے والدین سے الگ ہوکر رہنا نہیں چاہتا لیکن اسے محسوس ہورہا ہے کہ اس کی یہ خواہش آپ کے سخت ڈسپلن کی وجہ سے بحسن و خوبی پوری نہہوسکےگی۔
محترم بہن! زبردستی ساتھ رکھنا ہرگز مناسب نہیں ہے مگر ذرا میری اس گزارش پر بھی غور کرلیجیے کہ ساتھ رکھنے کے لیے زبردستی کرنے اور ساتھ رکھنے کی خاطر ایڈجسٹ کرنے میں کافی فرق ہے۔
میرے خیال میں آپ کا بیٹا یہ سمجھتا ہے کہ گھر کی ایک نئی رکن کو یعنی بہو کو اس گھرانہ کا ایک رکن بننے کے لیے جس خیر مقدمی رویے، اپنائیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے وہ اُسے آپ سے نہیں مل پائے گی۔ کسی شخص کو کہیں بھی کڑی آبزرویشن میں رکھا جائے تو اس کے اعصاب دباؤ میں رہیں گے۔ پھر نئی نویلی دلہن کا معاملہ تو ویسے ہی بہت حساس ہوتا ہے۔
محترم بہن! آپ سے گزارش ہے کہ گھر کے ماحول اور دفتر کے ماحول کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھیے۔ دونوں مقامات کے تقاضے مختلف ہیں۔ دفتر اور گھر پر یکساں ضابطے لاگو نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے برائے کرم ایک ماں بن کر سوچیے، ایک ایڈمنسٹریٹر بن کر نہیں۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ لقمٰن (31)کی آیات 2اور 3:

تِلْكَ اٰيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِـيْـمِ O هُدًى وَّرَحْـمَةً لِّلْمُحْسِنِيْنَ (3)O 

سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں۔

۔

 


***

سسرال والوں نے جینا دوبھر کر رکھا ہے 

سوال: میری شادی کو سات سال ہوگئے ہیں۔ شروع کے تین سال اچھے گزرے۔ اس کے بعد سسرال والوں نے دوسرا چہرہ کھانا شروع کردیا۔
میرے شوہر بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان سے چھوٹی دوبہنیں اورتین بھائی ہیں۔ میرے سسر کا میری شادی سے ایک سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ گھر کی تمام ذمہ داری میرے شوہر کی ہے۔ ان کے چھوٹے بہن بھائی خود غرض اور جلد باز ہیں۔ اگر میرے شوہر کسی وجہ سے ان کی کوئی خواہش پوری نہ کرسکیں تو سب مل کر ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگتے ہیں۔ میرے شوہر اپنی ماں کی وجہ سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو کچھ نہیں کہتے جس وجہ سے وہ بہت گستاخ ہوتے جارہےہیں۔
میں شادی کے بعد تین بار امید سے ہوئی ۔دوبار نندوں کی وجہ سے میراحمل ضائع ہوا۔ پہلی بار سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک نند نے مجھے دھکا دیا جو کہ غلطی یا اتفاقیہ بات بتائی گئی۔ دوسری بار چھوٹی نند نے غصہ میں میرے پیٹ پر لاتیں ماریں۔ تھوڑی دیر بعد مجھے بلیڈنگ شروع ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے کافی کوشش کی لیکن حمل ضائع ہوگیا۔ تیسری بار امیدہوئی تو میرے شوہر نے مجھے میری والدہ کے پاس بجھوا دیا۔ میں ہفتے کی شام سسرال آتی اورپیر کی صبح میرے شوہر مجھے میری والدہ کے ہاں چھوڑ جاتے۔ حمل کادورانیہ ا س طرح گزرا ورپھر اللہ نے ہمیں ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا۔
میری ساس اورنندوں نے بیٹا ہونے کے باوجود میرا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب! میں نے سسرال میں سات سال بہت اذیت میں گزارے ہیں۔ اب میں تھک گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر اب مجھے الگ گھر لے کر دیں ۔ ۔ 

 

جواب: الگ رہائش کا مطالبہ کرنا آپ کا حق ہے۔ آپ کے شوہر کو اس بارے میں غور کرنا چاہیے۔ اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ آپ کی ساس جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد اب اپنے بچوں کے سہاروں پر ہیں وہ کہاں رہیں گی….؟
آپ اپنے حق اور حسن سلوک کو یکجا کرلیں اور اپنے ساتھ(بد مزاج) ساس کو بھی اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ ہوجائیں تو میرا خیال ہے کہ آپ کے شوہر کو اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش الگ کرنے میں کوئی خاص تامل نہ ہوگا۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کاتصورکرکے دم کردیں اوردعاکریں کہ انہیں آپ کے حقوق اچھی طرح اداکرنے کی توفیق ملے۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روز یا پھر نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعدمیں پورے کرلیں۔
وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاعزیز یاسلام
کا وردکرتی رہیں۔
 

 


***

تعلق ٹوٹ جانے پر شدید ڈپریشن

سوال: کچھ مہینے پہلے میں نے اپنی ایک سہیلی کے ساتھ ایک کمپیوٹر سینٹر میں داخلہ لیا۔ سینٹر میں ایک لڑکا مجھے اچھا لگا۔ میں نے خود آگے بڑھ کر اُس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کردیا۔ اُس نے بھی ہاں کردی۔ پھر آہستہ آہستہ ہم دونوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ایک دن اچانک مجھے پتہ چلا کہ اُس نے اندر ہی اندر میری ایک سہیلی سے بھی مراسم بنالیے ہیں اور ان دونوں نے یہ بات مجھ سے چھپائی ہے…..
میں نے دونوں سے پوچھا تو انہوں نے اپنی غلطی کااقرار کرتے ہوئے مجھ سے معافی مانگ لی….. پہلے تو میں نے اس لڑکی کو بہت برا بھلا کہا مگر پھر میں نے اُس کو معاف کردیا البتہ چند دن اس لڑکے سے بات نہ کی مگر پھر کچھ عرصہ بعد اس سے دوبارہ باتیںکرنےلگی۔
اب ایک مسئلہ اور سامنے آیا ہے۔ ہم دونوں کے ہاں ایک دوسرے کی کاسٹ میں رشتے نہیں کیے جاتے۔ میں اس کے ساتھ تعلق نہیں توڑ پارہی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ لڑکا خود ہی مجھ سے تعلق توڑ لے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا میرے لیے شدید ذہنی اذیت اور ڈپریشن کا سبب بن رہا ہے۔

 

جواب: نو عمر لڑکیوں کے لیے مناسب بات یہ ہے کہ وہ اپنے اسکول، کالج میں ہونے والی سرگرمیوں یا اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات کے بارے میں اپنی والدہ ، بڑی بہن یا اپنے گھر میں کسی نہ کسی کو اعتماد میں ضرور لیتی رہیں۔ لڑکیوں کے لیے ان کی سب سے اچھی دوست اور مشیر خود ان کی اپنی ماں ہوسکتی ہے۔
ٹریننگ سینٹر میں ملنے والے لڑکے سے براہِراست بات کرنے کے بجائے اگر آپ اپنی والدہ کو اپنے جذبات سے آگاہ کردیتیں تو آپ آج ذہنی و جذباتی طور پر اِ ن مشکلات میں مبتلا نہ ہوتیں۔ بہر حال موجودہ صورتحال سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ سینٹر میں اپنے ساتھ داخلہ لینے والی اپنی سہیلی سے بات کریں اور اسے کہیں کہ ان دونوں کا رشتہ طے ہونے سے آپ کو بہت خوشی ہوگی۔
رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ الاعلی(87)کی آیات 14 تا 17:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّـٰى O وَذَكَـرَ اسْـمَ رَبِّهٖ فَصَلّـٰى O بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيَاةَ الـدُّنْيَا O وَالْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ وَّّاَبْقٰى O 

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں اور اللہ تعالیٰ کے حضوردعاکریں۔
یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔ 

 


***

خود ہی نوکری چھوڑ دی

سوال: یں نے چند سال پہلے ایم اے کا امتحان دیا ہے۔ میں گاؤں میں رہتا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں زیادہ ترافراد اَن پڑھ ہیں۔ اپنے گاؤں میں ، میں واحد فرد ہوں جس نے M.Aکیا ہے ۔
میری تعلیم کی وجہ سے گاؤں کے لوگ مجھ سے بہت پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں اور دُعائیں دیتے ہیں ۔ انہیں توقع ہے کہ میں جلد ہی کوئی بڑا آفیسر بن کر گاؤں کے لوگوں کے کام آیا کروں گا لیکن میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہوچکا ہے جس نے مجھے بہت مایوس کردیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ میں بغیر کسی سفارش کے پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا تھا لیکن ٹریننگ کے پہلے سال ہی میں کچھ گھبرا گیا اور پھر میں نے نوکری چھوڑنے کی درخواست دے دی۔ اس کے بعد سے میں بہت پریشان ہوں۔
پہلے میں بہت پُر اعتماد تھا اور مجھے اپنے اوپر بھروسہ تھا کہ میں لوگوں کی خواہشات پر پورا اُتروں گا لیکن ملازمت چھوڑنے کے بعد سے مجھے بہت غصہ آنے لگا ہے۔ ہر بات میں بےعزتی محسوس کرتا ہوں۔

 

جواب: صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ 

لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 

گیارہ گیارہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ دم کریں اور دونوں ہاتھ دعا کی طرح تین مرتبہ اپنے چہرے پر پھیر لیں۔
یہ عمل کم از کم اکیس روز تک جاری رکھیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء :
یاحی یا قیوم کا ورد کرتے ہیں۔

 

 

 


***

حالات بدل گئے یا خیالات

سوال: م میری عمر اس وقت اڑتیس سال سے زائد ہوچکی ہے۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہوں۔ میرے والدکابیس سال پہلے انتقال ہو چکاہے۔ہمارے ہاں خاندان یا برادری سے باہر رشتوں کا رواج نہیں ہے۔خاندان سے میرے لیے کوئی رشتہ آیا نہیں اس لیے میں ابھی تک اپنے والدین یا یوں کہئے کہ بھائیوں کے گھر پر بیٹھیہوئیہوں۔
باہر سے میرے لیے کئی اچھے رشتے آئے ہیں لیکن میرے بھائیوں نے ان رشتوں پر غورنہیں کیا اورکہا کہ باہر اس کی شادی کردی تو خاندان والےکیاکہیں گے۔
بہرحال جیسے تیسے وقت گزرتا رہا میرے بھائیوں کی بیٹیاں بھی بڑی ہوتی رہیں۔ جب میری بھتیجیوں کے لیے خاندان سے اچھا رشتہ نہ ملاتوانہوں نے اپنی تین بیٹیوں کی شادی نہ صرف خاندان بلکہ برادری سے باہر بھی کردی ہے۔
جب میرا وقت تھا توبھائی میرے رشتے کے لیے خاندان خاندان کہتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی اپنی شادیاں بھی خاندان میں ہی ہوئی ہیں لیکن جب اپنی بیٹیوں کے رشتوں کاوقت آیا تو بھائی اور بھابیوں کے نظریات یکسرتبدیل ہوگئے۔
میری والدہ نے اپنے بیٹوں کی توجہ اس طرف دلائی تووہ کہنے لگے کہ ماں! بیس پچیس سال پہلے خاندانی رسم ورواج کی زنجیریں بہت سخت تھیں مگر آج حالات پہلے سے بہت بدل گئے ہیں۔
پتہ نہیں حالات بدل گئے ہیں یا اپنی بیٹیوں کے معاملات آئے توبھائی بھابیوں کے خیالات بدل گئے ہیں۔ بہرحال میں توان کی وجہ سے زندگی کی خوشیوں سے محروم کردی گئی ہوں۔
آپ سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعاکریں اورمجھے بھی کچھ پڑھنے کے لیے بتائیں کہ میرے لیے کوئی اچھا رشتہ آئے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اچھا جیون ساتھی اوراپنے گھر کی خوشیاں عطافرمائے۔ میں اب مزید اپنے بھائیوں کے رحم وکرم پر نہیںرہناچاہتی۔

 

جواب: خاندان یا برادری میں ہی شادی کرنا کوئی دینی حکم نہیں ہے۔ پابندی نما یہ رسمیں لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی ہے۔
ہمارے معاشرے میں خاندانی امورکی انجام دہی میں بہت سے لوگ شدت پسند سوچ کے حامل نظرآتے ہیں۔ کئی لوگ صرف خاندان ہی میں اپنے بچوں کے رشتے کرنے پر اصرار کرتے ہیں توبعض لوگ اس بات کابرملا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے توخاندان میں شادی کرنی ہی نہیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ خاندان میں اپنے بچوں کی شادی نہ کرنے کا فیصلہ زیادہ تر خواتین کاہوتاہے اوراس مسئلہ کا دراصل مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنے شوہر کے خاندان میں اپنے بچوں کی شادی نہیں کرنی۔ ایسا مسئلہ زیادہ تر ان عورتوں کا ہوتاہے جن کے تعلقات اپنے سسرل والوں سے (خواہ کسی بھی وجہ سے ) اچھے نہیں ہوتے چنانچہ ایسی عورتیں اکثر یہ کہتی پائی گئیں کہ اس خاندان میں آکر میں نے کون سا سکھ پایا ہے۔ اب کیا میں اپنی بیٹی کوبھی ان میں ہیدھکیل دوں۔
خاندان میں شادی کے حوالے سے خوبیاں اورخامیاں دونوں موجود ہیں لیکن ہر صورت میں صرف خاندان میں شادی پر اصرار درست نہیں ہے….خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب کسی لڑکی کے لیے خاندان میں مناسب رشتہ موجود نہ ہو تو خاندان میں ہی شادی کی بات کرنا محضایکضدہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کے لیے اچھا رشتہ آئے۔ آپ کے بھائیوں کوآپ کے لیے درست فیصلہ کرنے کی توفیق ملے اورآپ کو ازدواجی زندگی کی ڈھیر ساری خوشیاں نصیب ہوں۔آمین
عشاء کی نماز کے بعد101مرتبہ سورہ بقرہ (2) کی آیت 163:

وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ ۖ لَّآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْـمٰنُ الرَّحِيْـمُ O

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اس مسئلہ کے حل کے لیے درخواست کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس یا نوے روز تک جاریرکھیں۔
ناغہ کے دن شمارکرکے بعدمیں پورے کرلیں۔
محفل مراقبہ میں دعاکے لیے بھی آپ کا نام لکھ لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں ہماری دعائیں قبول فرمائیں۔آمین

 


***

ساس بھی کبھی بہو تھی

سوال:میری شادی کو تقریباً پانچ سال کا عرصہ گزرچکا ہے، میری ازدواجی زندگی بہت ہی پریشانی میں گزری ہے۔ میرے سسرال میں ساس صاحبہ کا مکمل راج ہے۔میری دو بیٹیاں ہیں۔ ساس صاحبہ اپنے بچوں کے ازدواجی معاملات میں بہت زیادہ دخل دیتی ہیں اور ان کے بیٹے جیساوہ کہتی ہیں ویسا ہیکرتےہیں۔
میری بڑی بیٹی جب سات ماہ کی تھی تو میں دوبارہ پریگننٹ ہوگئی۔ اس پریگننسی کے دوران باہمی ناچاقی کے باعث میرے شوہر نے اپنی ماں کے کہنے پر مجھے میکے بھجوادیا۔ دوسری بچی کی ولادت میکےمیںہیہوئی۔
بیٹی کی ولادت کے دو ماہ بعد ساس نے مجھے گھرواپس آنے کی اجازت دی تو میرے شوہر مجھے میکے سے سسرال لے کر آئے۔ میری ساس اپنے دوسرے بیٹے کے پاس اسلام آباد جانے لگیں تو میری بڑی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں اور مجھے انہوں نے چھوٹی بیٹی کے ساتھ واپس میکے بھجوادیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ میں اور میری چھوٹی بیٹی میکے میں ہیں۔ شوہر گھر میں اکیلے رہ رہے ہیں۔ میں کہتی ہوں کہ میں گھر آرہی ہوں تو کہتے ہیں کہ جب والدہ واپس آجائیں تو پھر آنا۔ شوہر اور ساس کے اس طرزِ عمل سے میں سخت پریشان ہوں۔

 

جواب: عآپ کی ساس کے مذکورہ طرزِ عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بعض محرومیوں کا انتقام بے جا طور پر اپنی بہوؤں سے لے رہی ہیں لیکن اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچ رہیں کہ اس طرح وہ اپنے بیٹوں کو بھی شدید تکلیف میں مبتلا کر رہی ہیں۔ آپ کی چار سالہ بیٹی کو اپنے ساتھ لے جاکر بھی انہوں نے اس طرزِ فکر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف تو آپ تکلیف میں ہیں ۔ دوسری طرف انہوں نے آپ کی جیٹھانی کو بھی ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیاہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی ساس کو فکرِ سلیم عطا ہو اور انہیں اس بات کی توفیق عطا ہو کہ وہ اپنی محرومیوں کا ازالہ اپنی بہوؤں کو تکلیف پہنچا کر نہیں بلکہ اُنہیں شفقت و محبت دےکرکرسکیں۔
بطورِ روحانی علاج رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورۂ الممتحنہ (60) کی آیات 6اور 7:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ O
عَسَى اللّـٰهُ اَنْ يَّجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّـذِيْنَ عَادَيْتُـمْ مِّنْـهُـمْ مَّوَدَّةً ۚ وَاللّـٰهُ قَدِيْرٌ ۚ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ O

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی ساس صاحبہ کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں آپ کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنے کی توفیق ملے۔
یہ عمل کم از کم نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔

 


***

بہنوں اور بیٹیوں کا شرعی حق

سوال: ہم تین بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ الحمداللہ سب شادی شدہ ہیں۔ والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے والدین نے ورثہ میں دو مکان چھوڑے ہیں۔ ایک والد کے نام ہے اورایک والدہکے نام ۔
ہمارے چاروں بھائی ہم بہنوں کابہت زیادہ خیال رکھتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے بھائی ہم بہنوں پر جان چھڑکتے تھے توغلط نہ ہوتا۔
والدین کے انتقال کے کئی سال بعد بھائیوں نے سوچا کہ ان دونوں مکانات کوفروخت کرکے چاروں بھائی الگ الگ مکانات لے لیں۔ ورثہ کے دونوں مکانات فروخت کرنے کے لیے بھائیوں کوہم بہنوں کے دستخط درکار تھے ۔ ایک بہن نے تودستخط کرنے کی حامی بھرلی۔دو بہنوں نے کہا کہ ان مکانات کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے شریعت کے مطابق ان کا حصہ انہیں اداکیا جائے تووہ دستخط کےلیے تیار ہیں۔
ہمارے بھائیوں کوا پنی بہنوں کی یہ بات بہت بُری لگی ہے۔ انہوں نے اس بات کو احسان فراموشی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تم ہماری محبتوں کا یہ صلہ دے رہی ہو….؟
آخر چند لاکھ روپے سے تم کیا حاصل کرلوگی….؟
اب ہمارے بھائی ہم سے ناراض ہوگئے ہیں اور ہماری بھابھیاں خاندان بھر میں جا کر بتارہی ہیں کہ اپنی بہنوں کی شادیوں پر ان بھائیوں نے کس قدر خرچے کئے تھے بعد میں بھی بہنوں کے ہاں بچوں کی پیدائش پر وہ کس طرح خوشی خوشی اخراجات اٹھاتے رہے اورتحائف دیتے رہے۔ مختصر یہ کہ حق مانگنے پر بھائی اور بھابھیاں سخت ناراض ہیں۔

 

جواب: اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جو حقوق عطافرمائے ہیں اپنے بھائیوں یا دوسرے رشتہ داروں سے یا معاشرے سے ان حقوق کاطلب کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ غلطی پر تو وہ لوگ ہیں جودوسروں کاحق غضب کرلیتے ہیں۔
جو لوگ دوسروں کا حق دبالیتے ہیں اورجولوگ حق تلفی میں اُن کے معاون بنتے ہیں وہ اس دنیا میں بظاہر کچھ مالی مفاد حاصل کربھی لیں لیکن ایسی دولت ان کے لیے راحت کا نہیں بلکہ آخر کار بےسکونی اور بےبرکتی کا ذریعہ بنتی ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کے بھائی اپنی بہنوں کی حق تلفی سے محفوظ رہیں۔ آمین
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ آیتالکرسی ، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بھائیوں کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں آپ کا حق احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا ہو۔
صبح و شام 101 مرتبہ اسمائے الٰہی:
یاہادی یارشید
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بھائیوں کا تصور کرکے دم کردیں اور دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

 


***

بری عادتوں والے غیر ذمہ دار شوہر

سوال: میری شادی کو اٹھارہ سال ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادی کا رواج نہیں ہے۔ لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ خاندانی مخالفت کے باوجود ہمارے والد نے ہم سب بہنوں کو میٹرک کے بعد کالج بھیجا۔
میں بی ایس سی کے تھرڈ ائیر میں تھی جب میری شادی میرے چچا زاد سے کردی گئی۔ میرے شوہر پہلے ایک دو فیکٹریوں میں ملازمت کرتے رہے۔ پھر اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار کرلیا۔ میرے والد لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی ہمت تو کر بیٹھے تھے لیکن برادری کے اصولوں کے مطابق لڑکے لڑکیوں کے ان کے بچپن میں ہی طے کردہ رشوں کی مخالفت کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔
شادی کے چند ماہ بعد مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر نشہ کرتے ہیں۔ اس دوران میں امید سے ہوچکی تھی۔ میں نے ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں نشہ سے دور ہوجانے کی درخواست کی۔ انہیں اپنی ہونے والی اولاد کے حوالے سے بھی سمجھانے کی کوشش کی۔ میرے سامنے تو ہوں ہاں کرتے رہے لیکن انہوں نے نشہ کرنا جاری رکھا۔ ایسے ہی حالات میں اگلے چھ سال ہی میں یکے بعد دیگرے چار بچوں کی ماں بن گئی۔
بچوں کے بعد ان میں ذمہ داری تو کیا آتی وہ میرے ساتھ مزید بدزبان اور اپنے فرائض سے غافل رہنے لگے۔ میرے چاروں بچوں کی ولادت کے اخراجات میرے والدین نے اٹھائے۔ بعد میں بھی اپنے بچوں کی کئی ضروریات مجھے اپنے والدین کوبتاناپڑیں۔
میرے شوہر کی صحبت بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ نہ صرف نشئی لوگ بلکہ دیگر کئی برائیوں میں ملوث لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنےلگےہیں۔

 

جواب: رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ :

تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيُّ مِنَ الذُّلِّ ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا O

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں برائیاں ترک کر دینے اور صحیح راستے پر چلنےکیتوفیق عطا ہو۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاہادی یارشید
کا ورد کرتی رہیں۔

 


***

لڑکپن کے مسائل اور والدین کی ذمہ داریاں

سوال:میری عمر بائیس سال ہے۔ بظاہر میں میں ایک صحت مند نوجوان ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں اگر کوئی وزنی چیز اُٹھالوں تو میرے ہاتھ کافی دیر تک کانپتے رہتے ہیں۔ زیادہ پیدل چلنا بھی میرے لیے دشوار ہوگیا ہے۔ اکثر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چکر آنے لگتے ہیں۔ اس جسمانی کمزوری کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں گزشتہ پانچ چھ سال سے خود کو ضائع کرتا رہا ہوں۔ اس عمل کی شروعات میرے اسکول سے ہوئی جہاں میری دوستی چند خراب لڑکوں سے تھی، وہ فحش تصاویر اور ویڈیوز مجھے دکھاتے تھے۔ ان کی صحبت میں ہی میں خود کو ضائع کرنے کی بری عادت میں پڑ گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی برباد کرلی ہے ۔ اس کمزوری کے باوجود میں یہ عمل چھوڑ نہیں پا رہا ہوں ۔

 

جواب: بلوغت کے آغاز میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں کئی لڑکوں کو شدید ہیجان میں مبتلا رکھتی ہیں۔ زندگی کے اس انتہائی اہم لیکن بہت پرآشوب دور میں زیادہ تر لڑکے اپنے والد یا بڑے بھائی کی طرف سے رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔
خود کو درپیش صورت حال پر کئی لڑکے معلومات کے لیے اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں کچھ بڑے دوستوں سے بات کرتے ہیں۔ اس عمر کے اکثر لڑکے اس صورت حال کو ایک طبعی معاملہ سمجھنے کے بجائے اسے سنسنی خیزی اور لذت کوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی اسی لذت سے آشنائی کے مشورے دیتے ہیں۔ گھر سے بروقت اور صحیح رہنمائی نہیں مل رہی ہوتی۔ ایسے میں ساتھی لڑکوں کے غلط مشوروں یا بری صحبت کے خراب اثرات کی وجہ سے کئی لڑکے اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کرلیتے ہیں۔
بارہ پندرہ سال کی عمر کے لڑکوں کے لیے والد یا بڑے بھائی کی طرف سے مناسب رہنمائی بہت ضروری ہے۔ گھر سے بروقت ملنے والی صحیح رہنمائی سے کئی لڑکے ایک پرآشوب دور کو بہت احتیاط کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔
اپنی نادانیوں کے باعث آپ کی صحت کو جو نقصان ہوا ، اس کا ازالہ اب بھی ہوسکتا ہے۔ پانچ وقتہ نماز کی پابندی کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ فجر کی نماز باجماعت ادا ہو۔ فجر کے بعد کسی پارک یا کھلے میدان میں تقریباً آدھے گھنٹے تک واک کیجیے۔ ابتدائی چند روز واک کے علاوہ کوئی اور ورزش نہ کی جائے۔ کوشش کیجیے کہ دن میں زیادہ وقت باوضو رہیں لیکن وضو قائم رکھنے کے لیے خود پر جبر نہ کیجیے۔ وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ کرلیں۔
کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یا حی یا قیوم
کا ورد کرتے رہیے۔
آپ کے لیے یونانی مرکبات معجون آرد خرما اور شربت جگر کا استعمال بھی ان شاء اللہ مفیدرہےگا۔

 

 


***

سلسلہ عظیمیہ کی تربیت

سوال: محترم ڈاکٹر وقار عظیمی….! میں روحانی ڈائجسٹ کا ایک برسوں پرانا قاری ہوں۔ کراچی میں مقیم ہماری ایک رشتہ دار نے ہمیں یہ رسالہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ روحانی ڈائجسٹ ہمارے لیے ناصرف کئی طرح کی معلومات کی فراہمی بلکہ فکری رہنمائی اوراصلاح کا زریعہ بھی ہے۔ ہر ماہ اتنی مفید دستاویز قارئین تک پہنچانا بہت بڑا اور مشکل کام ہے۔ قارئین کی اتنی اچھی خدمت پر روحانی ڈائجسٹ کے کارکنان مبارکباد کےمستحقہیں۔
روحانی ڈائجسٹ کی انتہائی اہم تحریروں میں آپ کا کالم روحانی ڈاک بھی شامل ہے۔ روحانی ڈاک میں شائع ہونے والے خطوط کو پڑھ کر ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو کن کن مسائل و مشکلات کا سامناہے۔ ان مسائل پر آپ کے انتہائی ہمدردانہ مثبت سوچ کے حامل جوابات پڑھ کر آپ کے لیے دل سے دعائیںنکلتیہیں۔
روحانی ڈاک کی وساطت سے سارے پاکستان بلکہ ساری دنیا سے لوگ آپ سے رابطہ کرسکتے ہیں اور اپنے مسائل کے جوابات حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم کئی مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں صرف تحریری رابطے سے تسلی نہیں ہوپاتی اور آپ سے بالمشافہ ملاقات کرکےتفصیل سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
کراچی کے رہنے والوں کے لیے تو آسان ہے کہ وہ آپ کے پاس آکر آپ سے مل سکیں۔ اگر آپ پاکستان کے دوسرے شہروں خصوصاً لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں بھی لوگوں سے ملاقات کے لیے کوئی وقت مقرر کرسکیں تو بہت اچھا ہوگا۔

 

جواب: محترم بھائی! روحانی ڈائجسٹ کی تحریروں کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ قارئین کرام کی جانب سے رسالہ کے مضامین کی پسندیدگی سے ہم سب کارکنان کو خوشی ہوتی ہے اور ہماری حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
روحانی ڈاک کے کالم میں قارئین کے مسائل پر میرے جوابات دراصل سلسلۂ عظیمیہ کی تربیت و تعلیمات سے تشکیل پانے والی فہم کا اظہار بھی ہوتے ہیں۔ کسی مسئلے کی نوعیت گھریلو ہو یا معاشی، تعلیمی ہو یا معاشرتی ہو یا کسی اور نوعیت کی ہو۔ کئی بار مسائل کے ظاہری پہلو کو دیکھتے ہوئے ان کی بنیادی وجوہات پر بھی غور کرتا ہوں۔ صحیح وجہ سامنے آجائے اور متاثرہ افراد ان وجوہات کومان بھی لیں تو کئی مسائل کا حل بہت آسانہوجاتاہے۔
مثال کے طور پر ہمارے کئی گھریلو اور معاشرتی مسائل کا سبب عورتوں کو دین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی ادائی سے گریز ہے۔ کئی مسائل کی وجوہات صدیوں سے چلی آرہی روایات و اعتقادات کے زیر اثر تشکیل پانے والے مخصوص مائنڈ سیٹس ہیں۔ کئی مسائل سستی، بےعملی اور دوسروں پر انحصار جبکہ کئی مسائل برتری کے احساس، خود غرضی، لالچ جیسے منفی جذبات سےجنم لیتے ہیں۔
مسائل کا جواب دیتے ہوئے میں اپنے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی پیروی کی کوشش کرتا ہوں(حالانکہ ان کا مقام کہاں اور یہ طالب علم کہاں، بہرحال پھر بھی اپنی سی کوششکرلیتا ہوں)۔
میرے والد محترم سے اجازت یافتہ کئی محترم حضرات و خواتین پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں مقیم ہیں۔ کراچی سے باہر رہنے والے افراد مشوروں کے لیے اپنے اپنے شہروں میں ان سے بالمشافہ ملاقات کر سکتےہیں۔

 


***

روحانیت سیکھنے کے آسان طریقے….؟

سوال: محترم وقار عظیمی صاحب! بہت اُمیدوں کے ساتھ آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میری عمر تیس سال ہے۔ آٹھویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد بڑی مشکلوں سے نویں جماعت میں پہنچا اور میٹرک چار سال میں کر پایا۔ میں نے ایک فریج کی دکان پر کام سیکھنا شروع کیا۔ لیکن یہاں بھی میں کام سیکھنے میں ناکام رہا۔
ایک دن اتفاقاً میری ملاقات ایک نہایت نیک دل ہستی سے ہوئی ، وہ ایک صوفی بزرگ تھے۔ان بزرگ کی صحبت میں مجھے بہت اطمینان نصیب ہوا۔ انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ تم میری خدمت میں رہو گے تو میں تمہیں عملیات اور روحانی علوم سکھاتارہوںگا۔
اپنی بے مقصد زندگی چھوڑ کر میں ان کی شاگردی میں آگیا اور ان کی خدمت میں اپنے دن رات صرف کرنے لگا۔ لیکن میری یہ خوشی تھوڑے عرصے کی مہمان تھی۔ میرے مرشد کو دمہ کی شکایت تھی۔ سخت سردیوں کی ایک رات انہیں دمہ کا شدید دورہ پڑا۔ رات میں فوری طور پر سواری دست یاب نہ ہوسکی۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح میں انہیں لے کر اسپتال پہنچا۔ یہاں دو دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
اپنے ایک دوست کے کہنے پر میں نے روحانی ڈائجسٹ کا مطالعہ شروع کیا تھا۔
محترم وقار عظیمی صاحب….! آپ کی تحریروں نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ مجھے لگتا ہے اب آپ ہی مجھے میری کھوئی ہوئی منزل تک پہنچاسکتے ہیں۔ میرے ادھورے روحانی سفر کو مکمل کرسکتےہیں۔
برائے مہربانی مجھے روحانیت سیکھنے کے ایسے آسان طریقے بتائیے کہ جن پر عمل کرکے میں ان علوم میں کمال حاصل کرلوں۔

 

جواب: جس قسم کی روحانیت تم سیکھنا چاہتے ہو ہم تو اس کی الف، ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔
بہتر ہوگا کہ تم اپنے اور دوسروں کے وقت کی قدر کرنا سیکھو۔ کسی بھی طرح کے علوم کی تحصیل میں غیر سنجیدہ پن چھوڑ دو۔ روحانی علوم کی تحصیل کے لیے بھی اسی طرح یکسوئی کے ساتھ وقت اور توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس یا کسی اور شعبے میں گریجویٹ یا ماسٹرز کرتے ہوئے ضرورتہوتیہے۔
وقت لگانے اور صلاحیتوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے بغیر روحانیت سیکھنے کے آسان طریقے میرے علم میں نہیں ہیں۔

 


***

اعصاب پر لڑکیاں سوار ہیں

سوال: میں اپنی تعلیم پر پوری طرح توجہ نہ دے پانے کی وجہ سے گزشتہ سال فرسٹ ایئر کے امتحان میں تین پرچوں میں فیل ہوگیا۔ میری اس عدم توجہی کی وجہ صنفِ نازک کی کشش کا میرے اعصاب پر سوار رہنا ہے۔ ان خیالات کی وجہ سے میری پڑھائی بری طرح متاثر ہوئی۔ میرے والدین کی دلی خواہش ہے کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں لیکن فرسٹ ایئر کے خراب رزلٹ نے انہیں بہت مایوس کردیا ہے۔
برائے کرم آپ مجھے بتائیں کہ ان حالات میں ، میں کس طرح ذہنی یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہوں، کوئی دعا بھی ضرور بتائیے گا۔

جواب: صنفِ مخالف میں کشش محسوس ہونا ایک فطری امر ہے۔ بلوغت کے ابتدائی دور میں اکثر لڑکے اس تقاضے کی نوعیت کو سمجھ نہیں پاتے کچھ لڑکے اس تقاضے کو کوئی شیطانی خیال سمجھ کر دبانا چاہتے ہیں تو کچھ اس کی شدت سے مغلوب ہوکر نادانیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
صنفِ مخالف کے بارے میں آنے والے خیالات کی وجہ سے آپ کی پڑھائی متاثر ہونے کی وجہ بھی دراصل اپنی ذہنی و جسمانی کیفیات کو سمجھنے میں غلطی ہے۔ ان خیالات کے اعصاب پر سوار ہوجانے کی وجہ قوتِ ارادی( Will Power)کی کمیبھی ہے۔
موجودہ کیفیت کو اعتدال پر لانے کے لیے آپ کو ذہنی و جسمانی ‘‘مثبت’’ مصروفیات کا اہتمامکرناچاہیے۔
ذہنی مصروفیات میں اچھی کتب کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ بالخصوص تاریخی موضوعات، قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں اور مختلف کامیاب لوگوں کے حالات زندگی پر مشتمل کتابوں کے مطالعہ سے آپ کو زندگی اور دنیا کے معاملات سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ آپ کو طنز ومزاح کے موضوعات پر مبنی تصانیف اور کتابوں کا مطالعہ بھیکرنا چاہیے۔
جسمانی مصروفیات میں روزانہ پابندی سے ورزش اور جاگنگ کو اپنا معمول بنالیجیے۔ صبح سویرے اُٹھیے، فجر کی نماز باجماعت ادا کیجیے۔ نماز کے بعد کچھ دیر تک:

سبحان اللہ وبحمد
سبحان اللہ العظیم  

اور درود شریف کا ورد کیجیے۔ اس کے بعد تقریباً پینتس چالیس منٹ جاگنگ اور ورزش میں صرف کیجیے۔ اب آپ کو دن بھر میں بارہ سے پندرہ گھنٹے میسر ہیں۔ اس وقت کو اپنی پڑھائی پر اور گھریلومعاملات میں صرف کرنے کی پلاننگ کیجیے۔
چند ماہ تک گوشت کم سے کم استعمال کریں۔ کھانوں میں سبزیاں ، دالیں اور چاول زیادہ لیں۔ 

 


***

 

نوکری ختم ہوگئی! گھر کا خرچ کہاں سے چلاؤں؟

سوال: میں گزشتہ 20 سال سے ایک ٹریول ایجنسی سے وابستہ تھا، لگی بندھی تنخواہ میں پہلے ہی گزارا بہت مشکل سے ہوتا تھا، جیسے ہی تنخواہ آتی تھی بجلی کے بلوں، بچوں کی فیسوں اور دیگر گھریلو اخراجات میں صرف ہوجاتی تھی۔ اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ کبھی کوئی سیونگ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا، میں سالوں سے اسی طرح حالات کے ریلے میں بہتا چلا آرہا تھا کہ اچانک چند ماہ پہلے کورونا وائرس کے سبب ہونے والے بین الاقوامی لاک ڈاؤن نے جہاں بہت سی صنعتوں کو متاثر کیا وہیں ٹریول انڈسٹری کو تو سرے سے ختم ہی کردیا۔
میں پچھلے چار ماہ سے گھر میں بیٹھا ہوں، ہماری کمپنی تقریباً ختم ہوچکی ہے اور نہ ہی گزشتہ مہینوں کی تنخواہ کی کوئی اُمید ہے جبکہ گھریلو اخراجات جوں کے توں برقرار ہیں، نہ تو گیس، بجلی اور پانی کے بل معاف ہوئے اور نہ ہی بچوں کے اسکول کی فیس، اوپر سے مالک مکان بھی کرائے کے لیے تقاضہ کررہا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے محلے میں پرچون کی دکان سے اُدھار راشن لے کر نظام زندگی چلا رہا تھا لیکن اب تو وہ بھی اُدھار دینے سے کترانے لگا ہے۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسے حالات میں کہاں جاؤں، کس سے جاکر نوکری مانگوں، برائے کرم مجھے اس مشکل سے نجات کے لیے کوئی دعا بتادیجیے۔

 

جواب: اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کے حالات بہت جلدبہتر ہوں، انسانوں کو اس عالمی وبا سے جلد نجات ملے اور معمولات زندگی بحال ہوں۔ میری دعا ہے کہ آپ کو اچھا بابرکت روزگار عطا ہو۔ آمین
عشاء کی نماز کےبعد 101مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 37:

اِنَّ اللّـٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْـرِ حِسَابٍ

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر معاشی حالات میں بہتری، ملازمت کی بحالی و ترقی کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم نوے روزتک جاری رکھیں۔
صبح شام اکیس مرتبہ: 

بَحَوْلِ وَقُوَّتِ لَااِلٰہَ اِلَّاﷲُ اِسْتَعَنْتُ بِقُدْرَۃِ اللہِ اِحْتَجَبْتُ بِعِزَّۃِ اللہِ وَاعْتَصَمْتُ بَحَبْلِ اللہِ وَدَفَعْتُ عَنِّیْ کُلَّ سُوْءٍ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ ا ٰلِہٖ اَجْمَعِیْنَ 

پانچ پانچ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک پیالی پانی پر دم کرکے پیئیں۔
یہ عمل کم از کم اکیس روزتک جاری رکھیں۔
وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم
یارزاق
کا وردکرتےرہیں۔

 


***

 

 


***


***


***


***


***


***


***

 

 

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے سوال:   میں ...

روحانی ڈاک – ستمبر 2020ء

   ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑   ***   اولاد نرینہ کے لیے ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir