Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر


سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا ،قلندر بابا اولیاء ؒ کی ذاتِ بابرکات علم و عرفان اور اسرارورموز کا ایک خزینہ ہے۔ آپ ؒ نے روحانی علوم کو جدید ذہن کے مطابق سادہ انداز میں پیش کیا۔ ان تعلیمات پر عمل کرکے درست، مثبت، ولولہ انگیز اور پُرخلوص خیالات کے ساتھ اپنے انفرادی و اجتماعی کردار کو ادا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
بابا صاحب ؒ کی طرزِتفہیم کا وصف یہ تھا کہ کسی واقعہ، تمثیل، لطیفہ، شعر وغیرہ بیان کرنے میں طول بیان، کو ضروری نہیں سمجھتے تھے جو براہِ راست قوانین قدرت کی گہرائیں کے متعلق ہیں۔ قلندر بابا اولیاء ؒ کی تعلیمات کا فہم حاصل کرنے میں آپؒ کے ارشادات و اقوال سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
آئیے !….خزینہ قلندر کے چند موتیوں سے فیضیاب ہوتے ہیں….

*….آدمی آدمی کی دوا ہے۔
*….عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کی پہلی منزل ایمان ہے۔
*….انسان خیالات کی لہریں ایک ترتیب میں جمع ہوجانے کا نام ہے۔
*….اﷲ کی مخلوق کی خدمت اﷲ تک پہنچنے کا آسان اور قریبی راستہ ہے۔
*….جو اﷲ کو جانتا ہے پہچانتا ہے۔ وہ اﷲ کی صفات کا عارف ہے۔ ایسا بندہ عوام کی طرح رہتا ہے اور عوام کی خدمت کرتا ہے۔
*….با ادب بانصیب ۔ بے ادب بے نصیب ۔ سالک کی زندگی کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
*….جوقوم کائناتی قدروں کا مشاہدہ نہیں کرتی اس کی فہم کائناتی علوم تک نہیں پہنچی۔ اس وضع کی قوم ہزاروں سال کی عمر پانے کے باوجود پالنے کا بچہ ہی رہے گی۔

*….ہر آدمی اپنی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اس کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔ طرزِ فکر انبیاٴ کرام علیہم السلام کے مطابق ہے تو آدمی کی ساری زندگی جنت ہے۔ طرزِ فکر میں ابلیسیت ہے تو تمام زندگی دوزخ ہے۔
*….سلوک کے راستے پر گامزن رہنے کے لئے ضروری ہے کہ علوم کے حصول اور ترقی کو اﷲ کی دی ہوئی توفیق سمجھا جائے۔
*….شک کو دل میں جگہ نہ دیں ۔ جس فرد کے دل میں شک جا گزیں ہو ، وہ عارف کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ آدم زاد کواپنی روح سے دورکر دیتا ہے۔
*….جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے، اس وقت تک ذہن کی مرکزیت قائم رہتی ہے ۔ جب یہ یقین غیر مستحکم ہوکر ٹوٹ جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے اور ایسے وسوسوں میں گرفتار ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی انتشار پیدا ہوتا ہے۔
*…. جس معاشرے میں خلوص اور محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ معاشرہ پُرسکون رہتاہے ۔ جس معاشرے میں بیگانگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہوتاہے اس معاشرے کے افراد ذہنی خلفشار اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔
*….کسی کی ہنسی نہ اُڑائیے کہ اس سے آدمی احساس برتری میں مبتلا ہو جاتاہے۔ احساس برتری آدمی کے لیے ایسی ہلاکت ہے جس ہلاکت میں ابلیس مبتلا ہے۔

*…. تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلا توقف معاف کردو، اس لیے کہ انتقام بجائے خود ایک صعوبت ہے۔ انتقام کا جذبہ اعصاب کو مضمحل کردیتا ہے۔

*….غصے کی آگ پہلے غصہ کرنے والے کے خون میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اس کے اعصاب متاثر ہو کر اپنی انرجی ضائع کردیتے ہیں۔ اس کے اندر قوتِ حیات ضائع ہوکر دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نوعِ انسانی کے لئے کسی قسم کے نقصان کو پسند نہیں فرماتے
*….مذہب اور لامذہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ لامذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم دیتی ہے…. جبکہ مذہب احساسات، خیالات، تصورات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذّات اور مستقل ہستی سے وابستہ کردیتا ہے۔
*….انسان صرف نیت کے خدوخال کا نام ہے، باقی تمام حرکات روشنیاں ہیں اور روشنیوں کا عمل حرکت ہے۔
*….انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار صلاحیتیں موجود ہیں۔ کسی ایک صلاحیت پر بھی ذہن کو مرکوز کرنا اور اﷲ تعالیٰ کی صفت کو ڈھونڈنا مراقبہ ہے۔
*….اسلام ، سائنس اور ریسرچ میں کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ تینوں باہم مربوط ہیں۔ سینکڑوں مسلم سائنسدانوں نے سائنسی ترقی میں اہم کردار اداکیاہے۔
*…. کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے کو کمتر سمجھے۔ تخلیقی پروگرام کے تحت خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بچہ ہو یا بوڑھا سب اﷲ کے نزدیک برابر ہیں۔ نہ کوئی چھوٹا ہے نہ کوئی بڑا …. تخلیقی پروگرام میں ہر شخص کا ایک خاص کردار متعین ہے ۔ خدا پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے۔ بڑائی صرف اُس کو زیب دیتی ہے جو اﷲ سے قریب ہو۔
*….الہامی تعلیمات کو نہ ماننے والے ہمیشہ اپنے قیاس پر چلتےرہے، ان کے قیاس نے ان کی غلط رہنمائی بھی کی۔ ان کے نظریات کہیں کہیں دوسرے نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہوجاتا ہے۔ توحیدی نقطہ نظر کے علاوہ نوعِ انسانی کو ایک ہی طرزِفکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
*….قرآن کے علوم اُس بندے پر منکشف نہیں ہوتے جس کے دل میں اﷲ کی ذات کے بارے میں شک ہو۔ قرآن اُن لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو متقی ہیں اور متقی کے دل میں شک نہیں ہوتا۔
*….ہر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایک صلاحیت دی ہے جو اُس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جس کے تحت وہ اچھائی اور بُرائی ، خیر اور شر میں تمیز کرتا ہے۔ اس صلاحیت کو نورِ باطن یا ضمیر کہتے ہیں۔ ضمیر کی رہنمائی کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ انسان کو ضمیر کی تحریکات کو سمجھ کر رہنمائی قبول کرنی چاہئے۔ *….خوشی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب آدمی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے۔ جو حاصل ہے اس پر صبر و شکر کے ساتھ قناعت کرے اور جو چیز میسر نہیں اس کا شکوہ نہ کرے۔ ہر حال میں خوش رہنے سے بندہ راضی بہ رضا ہوجاتا ہے۔
*….خدا سے محبت کے دعوے کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے اور یہ دعویٰ خدا کی نظر میں اسی وقت اہل قبول ہوتا ہے جب ہم خداکے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کریں۔
*…. جو کھو دیتا ہے، وہ پا لیتا ہے….اور جو پا لیتا ہے، وہ خود کھو جاتا ہے۔
*….ہر شخص کو چاہیے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں، اخلاقی و معاشرتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے پوری پوری جدو جہد اور کوشش کرے، لیکن نتیجے پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے۔
*….انسان کٹھ پتلی کی طرح ہے، ایک انسان میں بیس ہزار ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں۔ ایک ایک ڈوری ایک ایک فرشتے نے سنبھالی ہوئی ہے۔
*….اصلی اور حقیقی ماں زمین ہے۔ جب تک آدمی زندہ رہتا ہے کفالت کرتی ہے اور جب مر جاتا ہے تو سڑاند اور تعفن کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔
*….مال و زر، دولت اور دنیا انسان کیلئے بنائی گئی ہیں….جبکہ انسان خود کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ مجھے دنیا کیلئے بنایا گیا ہے۔
*….سخاوت، اعلیٰ ظرف لوگوں کا شیوہ ہے۔
*….دسترخوان وسیع ہونا چاہئے۔
*….کم ظرف دوسروں سے توقعات قائم کرتے ہیں…اعلیٰ ظرف لوگ مخلصانہ خدمت کرتے ہیں۔
*….انتقام، ہلاکت و بربادی ہے۔ عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔
*….ہمارے بچے….دراصل ہمارا اسلاف ہیں۔ ان کی تربیت اس طرح کی جائے کہ کل یہ بچے اسلاف کے مقام پر فائز ہو جائیں۔
*….اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے….صبر یہ ہے کہ درگزر کیا جائے۔
*….زر و جواہر سے زیادہ کوئی شئے بیوفا نہیں ہے….جس نے زر و جواہر سے محبت کی وہ ہلاک ہو گیا اور جس نے دولت کو پیروں کے نیچے رکھا وہ ہمیشہ اس کی کنیز بنی رہی۔
*….دنیا فریب ہے….فریب خوردہ انسان کی ہر بات فریب ہے….جو لوگ یہ بات جان لیتے ہیں ان کے لئے دنیا سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے۔

*….مشاہداتی آنکھ دیکھتی ہے کہ موت سے خوبصورت کوئی زندگی نہیں ہے….
*….ہر انسان کے اندر کم و بیش گیارہ ہزار صلاحیتیں ایسی ہیں جن میں ہر صلاحیت پورا علم ہے۔
*….تصوف سے مراد نور باطن ہے۔ یعنی ایسا خالص ضمیر جس میں قطعاً آلائش نہ ہو۔
*….خدمت خلق کے ذریعہ انسان محدودیت کے دائرے سے نکل کر نوعی شعور اور کائناتی شعور حاصل کرلیتا ہے اور یوں وہ اﷲ کا پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ آدمَزاد کو بلا تخصیص مخلوق کی خدمت اس لئے کرنی چاہیئے کہ مخلوق کی خدمت کرنا خالق کا پسندیدہ عمل ہے۔ اور اس عمل کے ذریعہ ہی بندہ خالق کی قربت و محبت حاصل کرسکتا ہے۔
*….لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا، صحت وتعلیم کی سہولیات فراہم کرنا، لوگوں کی اخلاقی وذہنی تربیت کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، یتیموں اور بیواؤں کی دیکھ بھال وغیرہ وغیرہ سب خدمتِ خلق کے زمرے میں آتے ہیں۔
*….انسان کسی نہ کسی طرح رنج سے دور رہنے اور راحت سے قریب ہونے کی ضمانت چاہتا ہے۔ وہ اپنی کمزوری کے سبب خود کو حوادث پر قابو پانے کے لائق نہیں سمجھتا۔ لہٰذا کسی ایسی طاقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس سے اس کو راحت کی ضمانت مل سکے۔ یہی مخفی طاقتوں کی تلاش کا موجب ہے۔ قرآن پاک نے یومنون بالغیب میں اس ہی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر جگہ جگہ اﷲ کی لامتناہی صفات کا تذکرہ ہے۔ یہیں سے راحت کی ضمانت ملتی ہے۔کوئی انسان خود اعتمادی کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن رنج و راحت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ البتہ غیب پر ایمان لانے کے بعد اسے بہتری کا یقین ہوجاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ غیب میں جو کچھ ہے بہتر ہی بہتر ہے، کیوں کہ غیب رحیم و کریم کے ہاتھ میں ہے۔
*….انسان کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ پیچھے پلٹ پلٹ کر دیکھتارہتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اﷲ تعالیٰ نے آنکھیں اس کی پیشانی پر سامنے دی ہیں۔ اگر پیچھے ہی دیکھنا مقصود ہوتا تو اﷲ کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ آنکھیں سرکے پچھلے حصّہ پر لگادیتے۔

عرفانِ نفس
اُس وقت تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہوگا، جب تک تم اپنی انا اور اپنی ذات کی نفی نہیں کردوگے۔ بندہ جب اپنے شعوری علم کی نفی کردیتا ہے، اُس پر لاشعوری علوم کا دروازہ کُھل جاتا ہے۔

مراقبہ
تفکر کرنا، کسی ایک نقطے پر ذہن کو مرکوز کرنا اور یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرنا مراقبہ ہے۔ انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار صلاحیتیں موجود ہیں۔ کسی ایک صلاحیت پر بھی ذہن کو مرکوز کرنا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو تلاش کرنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ سے اسی وقت فائدہ حاصل ہوتا ہے جب یہ عمل مسلسل کیا جائے۔

روحانیت اور سائنس 
سالکین کے لیے ضروری ہے کہ روحانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی بھی حاصل کی جائے۔

 

پانچ نسلیں
 ایک فرد نے اگر اپنی طرزِفکر یہ بنالی کہ اُس کی ذات سے کسی دوسرے کی ذات کو تکلیف نہیں پہنچے گی…. اُس کی دس اولادیں ہوئیں، دس کی دس نہیں تو پانچ تو اُس کی طرزِفکر پر چلیں گی…. اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اچھائی کا ایک دروازہ کھول دیا…. پانچ نسلیں اچھی بنیں….

 

غصہ
آدمی جب غصہ کرتا ہے تو اس کے شعور میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ اعصاب پر تناؤ طاری ہو جاتا ہے۔ غصہ کرنے والے افراد جسمانی اور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور غصہ کرنے والے لوگوں کی روحانی ترقی رک جاتی ہے۔ 

سلسلہ عظیمیہ کا پلیٹ فارم
سلسہ عظیمیہ تمام نوع انسانی کو متحد ہو کر ‘‘اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو’’ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے۔

 

*….ہر بیج ہر گٹھلی ازل تا ابد اپنی نوع اپنے خاندان کا ایک ریکارڈ ہے۔
*….اسلام، سائنس اور ریسرچ میں کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہے۔
*….سلوک کے راستے پر گامزن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ علوم کے حصول اور ترقی کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سمجھا جائے۔ روحانی علوم کے انعامات کو اپنی ذاتی کوشش نہ سمجھا جائے۔
*….تکبر شیطانی وصف ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتا ہے، جب کوئی شخص خود کو دوسرے سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دراصل ایسے اختلاف کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس پر چل کر لوگ منتشر ہو جاتے ہیں۔
*….دنیا کی ساری برائی سود کی وجہ سے ہے۔ اگر سود کا خاتمہ نہ ہوا تو دنیا خراب و ختم ہوجائے گی۔
*….ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ سلام میں پہل کرے۔ السلام علیکم کا مطلب ہے ’’آپ پر سلامتی ہو‘‘۔ سلام میں پہل کرنے والا شخص بلاتخصیص ذات و مراتب دوسروں کے لئے نیک جذبات رکھتا ہے۔ ‘‘ بچوں کو خود سلام کیجئے کہ تاکہ بچوں میں دوسرے لوگوں کی بھلائی چاہنے کی عادت پختہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’وہ آدمی اللہ سے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘(جامع ترمذی)
*….اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق…. مخلوق سے ایک خاص ربط رکھتے ہیں۔ ہر انسان میں اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح کام کر رہی ہے۔ اس لئے کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے کو کمتر سمجھے۔ تخلیقی پروگرام کے تحت خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو، بچہ ہو یا بوڑھا سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر ہیں۔ نہ کوئی چھوٹا ہے نہ کوئی بڑا….تخلیقی پروگرام میں ہر شخص کا ایک خاص کردار متعین ہے۔ خدا متقی لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے قریب ہو۔ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہو۔ جو اللہ تعالیٰ کو جانتا ہے پہچانتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا عارف ہے۔ ایسا بندہ عوام کی طرح رہتا ہے اور عوام کی خدمت کرتاہے۔
*….قرآن کے علوم اس بندے پر منکشف نہیں ہوتے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں شک ہو۔ قرآن ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو متقی ہیں اور متقی کے دل میں شک نہیں ہوتا۔
*….جب تک اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پر یقین کامل نہیں ہو گا آپ روحانی علوم نہیں سیکھ سکتے۔
*….ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک صلاحیت دی ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جس کے تحت وہ اچھائی اور برائی، خیر اور شر میں تمیز کرتا ہے۔ اس صلاحیت کو نور باطن یا ضمیر کہتے ہیں۔ ضمیر کی رہنمائی کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ انسان کو ضمیر کی تحریکات کو سمجھ کر رہنمائی قبول کرنی چاہئے۔
*….جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذرہ ذرہ کو ملتی ہیں، ان اطلاعات میں چکھنا، سونگھنا، سننا، محسوس کرنا، خیال کرنا، وہم و گمان وغیرہ وغیرہ….زندگی کا ہر شعبہ، ہر حرکت، ہر کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے….انسان ہر طرز میں، ہر معاملہ میں، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو۔
*….بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں انسان غیر حقیقی کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ حالانکہ کائنات میں کوئی شئے فاضل اور غیر حقیقی نہیں ہے۔ ہرخیال اور ہر واہمہ کے پسِ پردہ کوئی نہ کوئی کائناتی حقیقت ضرور کار فرما ہوتی ہے۔
*….وہ لوگ جن کے اندر اﷲ کی ذات کے ساتھ وابستگی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے ہر عمل پر اﷲ محیط ہے، جب کسی بندے کے اندر یہ طرزِفکر پوری طرح قائم ہوجاتی ہے تو روحانیت میں ایسے بندہ کا نام مستغنی ہے۔
*….ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان مادّی ماحول میں اس قدر کھوچکا ہے کہ وہ مذہب کو بھی، جس کا کام ہی انسان پر باطنی دنیا روشن کرنا ہے،مادّی لذّتوں کا وسیلہ بنانے پر بضد ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت ہیں، مگر ایمان، یقین اور مشاہدے کی طلب اِس دور میں ناپید ہوچکی ہے۔
*….آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ میں نوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ موجودہ دور کے مفکر اور سائنٹسٹ کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرزِفکر کو سمجھے اور نوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دستِ کش ہوجائے۔

پر مسرت زندگی
ہر آدمی پرسکون اور پر مسرت زندگی اپنا سکتا ہے۔ فارمولا یہ ہے کہ….جو چیز حاصل ہے اس کو شکر کے ساتھ خوش ہو کر استعمال کیا جائے اور جو چیز حاصل نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کیا جائے….اس کے حصول کیلئے تدبیر کے ساتھ دعا کی جائے….

 

کوشش اور ارادہ
عموماً لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوتاہی کرتے ہیں اور نتیجہ اپنی پسند یا مرضی کے مطابق چاہتے ہیں۔ اور جب نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلتا تو کڑھتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں۔ جب بندہ کام کا پختہ ارادہ کر کے بھرپور کوشش کرتا ہے تو اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔

اولین مقصد
انسان کو محض روٹی، کپڑے کے حصول اور آسائش و زیبائش کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانے۔

قرآن میں تفکر
قرآن پاک کے معنی اور مفہوم پر غور کرنے سے بندے کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ دماغ کے اندر کروڑوں Cells کھل جاتے ہیں اور انسان باطنی دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جب کوئی بندہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو دراصل وہ بندہ اﷲ سے ہم کلام ہوتاہے۔

پرسکون معاشرہ
معاشرے میں سکون برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کی غلطیاں معاف کردینی چاہئیں۔ دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنا چاہیے۔

راز
ایسے کام کریں کہ آپ خود سے مطمئن ہوں۔ آپ کا ضمیر مردہ نہ ہوجائے ۔ یہی وہ راز ہے جس کے ذریعے آپ کی ذات دوسرو ں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

 

 

*….اﷲ رب العالمین نے مخلو ق کی آسانی کے لیے اُسے تمام وسائل مہیا کردیئے ہیں۔ سورج کی روشنی بلاتفریق مذہب وملت ہر ایک کو یکساں فوائد مہیا کررہی ہے…. پانی،ہوا، آکسیجن، نباتات، جمادات وغیرہ سب ہی اﷲ کے حکم کے مطابق مخلوق کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح الہامی تعلیمات کے مطابق اﷲ کے بندوں میں اﷲ کے نزدیک وہی شخص ہوگا جو زیادہ سے زیادہ دوسروں کے کام آئے اور لوگ اُس سے فلاح پائیں۔
*….انسان کی سوچ میں ایک منفی رخ یہ بھی موجود ہے کہ وہ ہمیشہ ماضی کے بارے میں سوچتا اور افسردہ رہتاہے میرے ساتھ ایسا ہوا۔ میرے ساتھ فلاںنے یہ کیا۔ اس واقعہ نے میری ہمت ختم کردی۔ میرا فلاں عزیز مجھ سے بچھڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔ آدمی یہ نہیں سوچتا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اﷲ کی کتنی نشانیاں اور نعمتیں موجود ہیں۔ وہ ان نشانیوں پر غور وفکر نہیں کرتا، وہ حالات کے پس منظر میں آگے نہیں دیکھتا، اور ماضی یا تاریخ کے کارناموں کو سینہ سے لگائے بیٹھا رہتا ہے اور حال یا مستقبل کی بہتری کی کوئی فکر نہیں کرتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اﷲ نے آنکھیں پیشانی پر سامنے دی ہیں کہ انسان بصارت وبصیرت سے کام لے اور اپنے لئے مستقبل کی راہیں متعین کرے۔
*….اچھی گفتگو کے لئے ضروری ہے کہ گفتگو میں ہمیشہ اعتدال رکھا جائے۔ یہ بات آپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ انسان کا دل جب کسی کی طرف سے خوش ہوتاہے تو وہ اس کی تعریف میں زمین وآسمان کی قلابیں ملادیتاہے اور جب اُسی شخص کی جانب سے اگر کبھی دل میں میل آجائے تو اُس کے نزدیک اس سے برُا شخص کوئی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کسی انسان کو خود اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس درجہ منافقت سے کام لے رہا ہے۔
*….ہرتخلیق دو رخوں کی شکل و صورت میں وجود رکھتی ہے چنانچہ زندگی کے بھی دورخ ہیں ایک وسیع تر رُخ زمان (لاشعور) اور دوسرا محدود تر رُخ مکان (شعور)۔ زندگی کا وسیع تر پہلو (لاشعور) زمان ہے، جس کی حدود ازل تا ابد ہیں اور محدود تر پہلو (شعور) مکان ہے جو دراصل زمان (لاشعور) کا تقسیم شدہ جزو ہے۔
*….انسان کو محض روٹی، کپڑے کے حصول اور آسائش و زیبائش کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانے اور رحمۃ للعالمین محسنِ انسانیتﷺ کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرے جن کے جودو کرم اور رحمت سے ہم ایک خوش نصیب قوم ہیں اور جن کی تعلیمات سے انحراف کے نتیجہ میں ہم بدنصیب قوم بن چکے ہیں۔

قلندر بابا اولیاءؒ کے چند فرمودات آپ نے پڑھے…. ان فرمودات کو لکھنے کی سعادت اس لئے حاصل کی گئی کہ ہم کھُلے ذہن و فکر کے ساتھ ان سے استفادہ کریں۔ قلندر بابا اولیاءؒ کے فرمودات میں حکمت و دانائی اور حقیقت تلاش کرنے کے لئے طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک ایک فرمان کو توجہ کے ساتھ پڑھیں اور آنکھیں بند کرکے اُس کے معنی اور مفہوم پر غور کریں۔ یعنی فرمودات کے اندر جو حقیقتیں مخفی ہیں اور اسرار و رموز کا جو سمندر پنہاں ہے، اس تک رسائی کی حاصل کرنے کی کوشش کریں…. ان اسرار و رموز کا ادراک مراقبہ کے ذریعہ ممکن ہے۔

یہ بھی دیکھیں

معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر

معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر جب میزبانِ حقیقی ...

حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تصوف

سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir