گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی بچوں کی آزادی اور بےفکری کے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف مائیں پریشان ہوجاتی ہیں کہ بچے دن بھر کیا کریں گے۔
زیادہ تر بچے اپنی چھٹیاں کھیل کود کر گزار دیتے ہیں، یوں ان کی چھٹیاں بےمصرف گزر جاتی ہیں۔ بھئی! بچے جب دن بھر گھر میں رہیں گے تو شرارتیں بھی کریں گے اور نت نئی فرمائشیں کرکے آپ کو پریشان بھی کریں گے۔ چھٹیوں کے دوران عموماً بچوں میں ایک خاص تبدیلی آجاتی ہے۔ ان کا رویہ کبھی کبھی جارحانہ سا ہوجاتا ہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ماں کا رویہ بھی جارحانہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کا رویہ ٹھیک نہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ بچوں کی ان چھٹیوں سے پہلے ان کے لیے کچھ پروگرام ترتیب دیں لیں اور چھٹیوں کا آغاز ہوتے ہی ان پروگراموں کو عملی جامہپہنالیں۔
ٹائم ٹیبل بنائیں
بچپن ہی سے وقت کی پابندی کا خیال بچوں کے ذہن میں بٹھا دیا جائے، تو وہ اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، اس لیے جیسے ہی چھٹیاں شروع ہوں، بچوں کا ایک ٹائم ٹیبل بنالیں۔ بعض بچے چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتےہوئے صبح دیر سے سو کر اٹھتے ہیں اور پھر سارا دن سست رہتے ہیں۔ بعض اوقات مائیں بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور یہ کہہ کر بچوں کو دیر تک سونے دیتی ہیں کہ چھٹیاں ہیں، اگر دیر تک سوتے رہیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ کریں، بلکہ بچوں کو صبح سویرے اٹھنے اور ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں سمجھائیں کہ چھٹیوں کا مقصد صرف آرام کرنا ہی نہیں۔ بلکہ کام کرنا بھی ہے۔ ٹائم ٹیبل میں ان کے سونے، جاگنے، کھانے پینے اور کھیل کود وغیرہ مقرر کرکے اندراج کریں۔اس طرح آپ کا بچہ اپنے اس رجحان کو چھٹیوں کے بعد بھی برقرار رکھے گا۔
ہوم ورک
بہت سے اسکولز بچوں کو گھر پر کرنے کے لیے ڈھیر سارا کام دے دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بچہ کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتا۔ چھٹیوں میں بچوں کو ہوم ورک بہت زیادہ نہیں دینا چاہیے۔ اصل میں چھٹیوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی دلچسپیوں سے لطفاندوز ہوسکے۔
بہرحال چھٹیوں میں ہوم ورک ملتا ہے اگر مناسب منصوبہ بندی کرلی جائے تو وقت سے پہلے ہی کام ختم کیا جاسکتا ہے۔
روزانہ دو گھنٹے بچوں کی پڑھائی کے لیے مختص کریں۔ بچوں سے انگلش، اردو اور اپنی مادری زبان کے جملے بنوائیں۔
اس طرح بچوں کی لکھائی بہتر ہوگی۔ روزانہ دو گھنٹے اسکول کا کام کرانے سے بچوں پر بوجھ نہیں پڑے گا، ورنہ بعض بچے ڈیڑھ مہینہ ضائع کردینے کے بعد آخری ہفتے میں ہوم ورک کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس اسباق دہرانے کا بالکل وقت نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کھیل کود
جسمانی ورزش بچوں کے لیے ضروری ہے، لہٰذا روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بچوں کو مل جل کر کھیلنے دیں۔ بعض بچے انڈور گیمز جیسے لوڈو، کیرم وغیرہ پسند کرتے ہیں۔ لڑکیاں زیادہ تر گڑیاں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ بعض بچے تنہا اپنے کھلونوں سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں تنہائی سے نکال کر ان کے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کریں اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ اپنے کھلونے و دیگر چیزیں دوسرے بچوں کے ساتھ شیئر کرنا بھی سیکھیں گے۔ کرکٹ، فٹبال اور سائیکلنگ بچوں کے لیے بہترین کھیل ہیں۔ ویسے زیادہ تر بچے بیشتر وقت ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتے ہیں یا پھر کمپیوٹر گیم کھیل کر بہت سے بچے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو ٹیلی ویژن بھی کچھ دیر کے لیے دیکھنے دیں اور کچھ وقت کمپیوٹر گیمز کے لیے مقرر کردیں لیکن بہت زیادہ دیر تک نہ ٹی وی دیکھیں اور نہ کمپیوٹرگیمزکھیلیں۔
تفریح
کچھ والدین گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی چاہتے ہیں کہ بچے ہر وقت پڑھتے رہیں، لیکن چھٹیوں میں بچوں کے لیے صرف لکھنا پڑھنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ پڑھائی کے علاوہ بھی کچھ ایسا تفریحی سامان فراہم کیا جاسکتا ہے، جن سے بچے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ہر شخص گھر میں رہتے رہتے اُ کتا جاتا ہے۔ وہ اپنے لیے تفریح طبع کے مختلف سامان تلاش کرتا ہے۔ بچوں کو خاص طورپر گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی چھٹیوں کے دوران اپنے بجٹ کے مطابق بچوں کو مختلف پارکوں، پلے لینڈز، تاریخی مقامات وغیرہ لے کر جائیں، اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کے گھر بھی بچوں کو لے کر جائیں کیونکہ جب لوگوں سے میل ملاپ بڑھے گا تو بچے پر اعتماد ہوں گے۔ اس طرح انہیں بڑوں سے بات کرنے اور ان کے درمیان بیٹھنے کے آداب معلوم ہوں گے۔ بچوں اور بڑوں کے درمیان تعلقاتبڑھیں گے۔
اگر ہوسکے تو ہفتہ دو ہفتہ کے لیے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنالیں، دوسرے شہر جا کر بچے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ انہیں سیر و تفریح کے بھرپور مواقع فراہم ہوں گے۔ دوسرے شہر کے تفریحی مقامات کی سیر کرنا بھی ایک خوشگوار عمل ہے جو ایک یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے خوشگوار ریت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بچے دوسرے شہروں کے بارے میں جان کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ہم فلاں شہر گئے تھے جہاں ہم نے بہت کچھ دیکھا۔
اگر ہوسکتے تو آپ بھی اس سال کسی تاریخی شہر کی تفریح کا پروگرام بنالیں۔
آرٹس اینڈ کرافٹس
بچوں کو پڑھائی، کھیل کود اور تفریح کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی سکھائیں، مثلاً گھر میں موجود بیکار اشیاء سے کوئی کارآمد چیز تیار کرنا، جو ان کی پڑھائی میں بھی مددگار ثابت ہو۔ مثلاً فالتو اور پرانے کاغذات سے نئی ڈرائنگ بک تیار کرنا، گتے کا بکس بنانا، جس میں بچے اپنی کلر پینسلیں اور ربڑ وغیرہ رکھ سکیں۔ بچوں کو تحفے پیک کرنے کے مختلف طریقے بھی سکھائیں، تاکہ اپنے دوستوں کی سالگرہ یا عید کے موقع پر وہ تحفے اپنے ہاتھ سے پیک کرکے دیں۔ بچوں کو پینٹنگ کرنا بھی سکھائیں۔ مثلاً لڑکے اپنی پرانی ٹی شرٹس اور لڑکیاں اپنے سادہ فراک یا رومال وغیرہ پینٹ کرسکتی ہیں۔ شروع شروع میں بچوں سے غلطیاں بھی ہوں گی، مگر آپ انہیں ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں، بچے تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر کام مختلف انداز سے کریں گے، جس کے نتائج خوشگوار نکلیں گے۔
رنگوں سے کھیلنا بھی بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ بچوں کو رنگوں کا صحیح استعمال کرنا سکھائیں۔ اس سلسلے میں آپ کی پریشانی کو ہم دور کرتے ہیں۔ گھر میں شیشے کی خالی بوتلیں ہوں گی۔ آپ ان بوتلوں پر بچوں سے پینٹنگ کرائیں۔ بچوں کو ڈرائنگ میں بھی مہارت ہوجائے گی اور وہ برش سے رنگ آمیزی کا فن بھی سیکھ جائیں گے۔ آپ کے بچے یقیناً اس فن میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ بوتل پینٹنگ کے لیے چند اشیاء کی ضرورت ہوگی ایک عدد سفید خالی بوتل، ایک گلاس پانی، (یہ برش صاف کرنے کے لیے ہے) پینٹنگ برش نمبر دو۔ ایک عدد چھوٹا تولیہ، ایک عدد سنہری آؤٹ لائنر اور سنہری گلیٹر، سرخ اور نیلے رنگ کا پینٹ۔
بچوں سے کہیں کہ بوتل کو اچھی طرح صابن سے دھو کر خشک کرلیں۔ برش، سرخ رنگ کے پینٹ میں ڈبو کر بوتل پر اپنا پسندیدہ پھول بنائیں۔ چھوٹے اور ہلکے اسٹروک ڈالیں۔ چھوٹی اور بڑی پتیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے، اب دوسرا پھول نیلے رنگ سے اس طرح بنائیں جیسے سرخ پھول بنایا تھا۔ بچے بوتل کی مناسبت سے جتنے پھول پتیاں بنانا چاہیں، بنا سکتے ہیں۔ پھر پھول کے وسط میں ایک ڈاٹ ڈالیں۔ بوتل آدھے گھنٹے خشک کرنے کے لیے رکھ دیں۔ اب ڈاٹ پر سنہری رنگ سے آؤٹ لائن بنائیں، پتیوں پر گلیٹر کا اسٹروک دیں۔ بچے بوتل پر اپنی پسند کا ڈیزائن بنا سکتے ہیں یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنے اچھے پھول پتے رنگوں سے مزین کرسکتےہیں۔ برش سادہ پانی سے دھو کر خشک کرکے ڈبے میں رکھ دیں۔