سیرت طیبہﷺ – از خواجہ شمس الدین عظیمی
سیرت طیبہﷺ – از خواجہ شمس الدین عظیمی
سیرت طیبہﷺ – از خواجہ شمس الدین عظیمی
برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی بزرگ سرائیکی کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کا کلام دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہے ۔
خواجہ غُلام فرید کوریجو 26 ذیقعد 1261ھ بمطابق 1843 ء کو چاچڑان (رحیم یارخان) میں پیدا ہوئے، آپ کاسلسلہ نسب حضرت عمر فاروق ؓ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کے جدامجد سلسلہ چشتیہ کے بزرگ خواجہ نور محمد مہاروی کے خلیفہ تھے ۔ آپ کے والد کا نام حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا۔ آپ نےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اسی دوران آپ کے والدماجد کا وصال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد خواجہ غلام فرید کے بڑے بھائی خواجہ غلام فخر الدین سے باطنی علوم حاصل کرنے کے بعد تیرہ برس کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے مرید ہوئے ۔ اٹھائیس برس کی عمر میں آپ کے بھائی اور مرشد حضرت خواجہ فخر جہاں کے انتقال کے بعد آپ کو سجادہ بنایا گیا ۔
آپ نے علوم باطنی کے علاوہ علومِ ظاہری کا درس بھی جاری رکھا، خاص طور پر حدیث شریف اور تصوف کی کتب کا درس ہمیشہ جاری رہتا ۔ آپ کے درس ِتوحید و ہدایت سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد مستفید ہوئے اور متعدد حضرات منازل سلوک طے کر کے صاحبِ کمال ہوئے۔ آپ کی جو دو سخا مثالی تھی ،غرباء و مساکین او بہت سے یتیم اور بیوہ عورتیں آپ کے زیر سایہ خوشحالی سے زندگی گزارتے ۔
کچھ برس بعد دل بے اختیار خلوت و گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوگیا اور کم و بیش اٹھارہ برس تک آپ روہی (چولستان )کے بیابانوں میں رہے اور کافیاں کہتے رہتے۔
خواجہ غلام فرید سرائیکی زبان کے ملک الشعراء تھے۔آپ کے وجد آفریں کلام میں بلاکا سوز ہے ۔ عوام و خواص کے لئے کیف و سرور کا خزینہ اور عشق و عرفان کا سر چشمہ ہیں۔ خواجہ فرید کی کافیوں میں انسانی حوالوں کے ساتھ عشق حقیقی کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں، آپ کا کلام ہررنگ ونسل،عوم وخواص میں مشہور ہوا ہے۔ جن میں مشہور کافی ‘‘میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں’’ آج بھی زبان زد عام ہے۔ انہی لئے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
‘‘جس قوم میں خواجہ فرید اور اس کی شاعری موجود ہے ، اس قوم میں عشق و محبت کا موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے’’۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””]کلامِ خواجہ غلام فریدؒ
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
تینوں خالق ذات قدیم کہوں
تینوں حادث خلق جہان کہوں
تینوں مطلق محض وجود کہوں
تینوں علمیہ اعیان کہوں
ارواح نفوس عقول مثال
اشباح عیان نہان کہوں
تینوں عین حقیقت ماہیت
تینوں عرض صفت تے شان کہوں
انواع کہوں اوضاع کہوں
اطوار کہوں اوزان کہوں
تینوں عرش کہوں افلاک کہوں
تینوں ناز نعیم جنان کہوں
تینوں بادل برکھا گاج کہوں
تینوں بجلی تے باران کہوں
تینوں آب کہوں تے خاک کہوں
تینوں باد کہوں نیران کہوں
تینوں ہر دل دا دلدار کہوں
تینوں احمدؐ عالی شان کہوں
تینوں شاہد ملک حجاز کہوں
تینوں باعث کون مکان کہوں
تینوں حسن تے ہار سنگار کہوں
تینوں عشوہ غمزہ آن کہوں
تینون عشق کہوں تینوں علم کہوں
تینوں وہم یقین گمان کہوں
تینون حسن قوی ادراک کہوں
تینوں ذوق کہوں وجدان کہوں
تینوں سکر کہوں سکران کہوں
تینوں حیرت تے حیران کہوں
تسلیم کہوں تلوین کہوں
تمکین کہوں عرفان کہوں
بے رنگ کہوں بے مشل کہوں
بے صورت ہر ہر آن کہوں
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
حضرت خواجہ غلام فرید سرائیکی، فارسی، عربی، اردو، پوربی ، سندھی اور ہندی زبانوں میں اظہار خیال کیا ہے۔حضرت خواجہ غلام فرید کو ہفت زبان صوفی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے سرائیکی دیوان میں 272 کافیاں ہیں- آپ نے کافی کی صنف میں ایسی باکمال شاعری کی ہے کہ اس کا شمار ادب کے بڑے اثاثوں میں ہوتا ہے۔ سرائیکی شاعری کو آپ بہت اعلیٰ مقام پر آپ چھوڑ کے گئے تھے۔ لطیف احساسات،جذبات اوراس میں وجدانی کیفیات کواس طرح ملادیناکہ شیروشکر ہوجائیں،خواجہ کی شاعری کاادنیٰ کمال ہے۔اکثر کتب میں ہے کہ آپ علم موسیقی میں خاصادرک رکھتے تھے۔ آپ کو 39 راگ،راگنیوں پر عبورتھا۔ آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے 7 ربیع الثانی 1319ھ بمطابق جولائی 1901ء کو 58 برس کی عمر وفات پائی ۔ آپ کا مزار کوٹ مٹھن (راجن پور؛ڈیرہ غازی خان ڈویژن ) میں ہے۔جہاں آپ کا یومِ وصال نہایت عزت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
[box type=”shadow” align=”” class=”” width=””]
یہ مضمون روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2018ء صفحہ 30 پر شایع ہوا تھا، روحانی ڈائجسٹ کے اس شمارے کو آن لائن پڑھنے کے لیے روحانی ڈائجسٹ آن لائن ایپ انسٹال کریں اور اس شمارے کا مطالعہ مفت کریں،
[/box]
گھاس پھونس کی بنی، گنبد نما چھت والی جھونپڑی کے داخلی راستے کے بائیں جانب مونجھ کی چارپائی بچھی تھی، جس کا چوکھٹا بڑے بڑے بے ڈول ڈنڈوں سے بنا ہوا تھا۔ چارپائی پر تہمند سمیٹے ، پگڑی باندھے آلتی پالتی مار کر بیٹھے سانولی رنگت کے موٹے سے گول مٹول شخص کو جھونپڑی کے عقب میں اُگے برگد کے دیو ہیکل درخت کی ٹھنڈی چھاؤں نے راحت کا سامان میسر کر رکھا تھا ….
چارپائی سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر بنے مٹی کے چولہے کے پاس ‘‘تندیب’’ نہایت پریشان و مضطرب بیٹھی تھی۔ دھوپ کی تمازت اب کافی بڑھ چکی تھی، لیکن برگد کے گھنی چھاؤں نے جھونپڑی اور اس کے مکینوں کو اپنی آغوش میں لے کر سورج کی حدت سے بچا رکھا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کے چہرے سے بھی گہرے غم و اندوہ کے آثار ہویدا تھے۔ بجھے چولہے پر دھری خالی سیاہ کالی دیگچی کا ڈھکن زمین پر الٹا پڑا تھا، جس پر ابلے ہوئے سوکھے چاولوں کو ایک چڑیا اکھیڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ تندیب جو گھٹنوں میں سر دابے عمیق سوچ میں مستغرق چولہے کی باگر میں پڑی مدتوں سے ٹھنڈی ہو جانے والی راکھ میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اچانک گردن گھما کر چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کرکے بولی۔
‘‘ رامن! ایک کام کرو …. ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں ہماری زمین واپس مل سکتی ہے’’۔
تندیب کی آنکھوں میں جہاں چند گھڑیاں پہلے نا امیدی و یاسیت کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اب امید و یقین کے دئیے جگمگانے لگے تھے۔
‘‘کس طرح ؟ …. کیسے ؟ …. کیا تیرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آگیا ہے؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
‘‘ہاں …. ہاں …. الہ دین کا چراغ نہیں بلکہ جگمگاتا سورج ہیں ۔جس سے سب کی امیدیں بر آتی ہیں۔ خوشیو ں کے دئیے دمکنے لگتے ہیں ’’۔
یہ کہتے ہوئے تندیب کے چہرے پر شادمانی و سرشاری اُبھر آئی ۔
‘‘ پہلیاں نہ بجھوا …. سیدھی بات بتا …. تو کیا سمجھتی ہے کہ ساہوکار ہماری رہن والی زمین واپس کر دے گا؟؟…. کسی صورت بھی نہیں کرے گا۔ اس نے ڈی سی کے ہاں زمین کی ملکیت کی نالش کر رکھی ہے …. ہم غریب، بے آسر ا و بے سہارا لوگ کیسے مقدمہ لڑ سکتے ہیں …. جس کی لاٹھی اس کی بھینس …. زبردست کا ٹھینگا سر پر …. زبردست کے آگے پیش نہیں چلتی …. افسوس …. ہماری زمین بھی گئی ، بیل بھی گئے…. ہمارے پلے تو ککھ نہ رہا …. بری طرح لٹ گئے ہم ۔ بھلا جس کے پاس اپنی زمین نہ ہو، مویشی نہ ہوں ، بھینس نہ ہو، بیلو ں کی جوڑی نہ ہو، اس شخص کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے…..؟ ؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے الجھن و پچھتاوے کے عالم میں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ مار کر روہانسیصورت بنا کرکہا۔
‘‘ ارے …. ارے …. میری سن …. پریشان نہ ہو…. ہمارے ہاں جلد ہی لکشمی ڈیرے ڈالنے والی ہے …. ہمارے نصیب جاگنے والے ہیں …. پھر بھلے دن آئیں گے …. ہمارے پنڈ میں اوتار آئے ہیں ….میں بھی ان کے چرنوں کو چھوکرآئی ہوں ۔
وہ کنویں کے پاس جو آمو ں کے پیڑ ہیں …. وہاں کسی نہ کسی پیڑ کے نیچے دھونی رما کر بیٹھے رہتے ہیں …. تو ان کے پاس اپنی فریاد لے کر جا ۔ ‘‘ہماری گروی زمین ہمیں واپس مل جائے گی’’۔
‘‘ آخر وہ ہیں کون؟ ؟ ….’’ رامن نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے نہایت متخیر لہجے میں تندیب سےپوچھا۔
‘‘با با تاج الدین ’’۔ تندیب سرشاری سے بولی۔
‘‘ کمال کرتی ہے تو …. وہ تو دوسرے دھرم کے ہیں ۔ ان کے پاس میں کیسے چلا جاؤں ؟؟؟’’۔
‘‘ وہ مسلمانو ں کے دھرم کے ہیں ، تو پھر کیا ہے؟ …. مرہٹہ راجہ جی نے بھی تو انہیں اپنے محل میں ٹھہرایا رہا …. مہاراجہ جی روزانہ خود ان کی قدمبوسی کرتے تھے …. کیا راجہ جی کا دھرم بھشٹ ہو گیا؟؟ …. تو ان چکروں میں نہ پڑ …. میری سن ! …. اور ابھی سے جا …. وہ کسی آم کے پیڑ کے نیچے ہی بیٹھے ہوں گے …. بس اس وقت تک ان کے پاس سے نہ اٹھنا، جب تک ہماری رہن شدہ زمین ہمیں مل نہیں جاتی ….’’
کافی وقت رامن اور تندیب کے مابین تکرار ہوتی رہی۔ رامن کے نزدیک تندیب کی باتیں فضول تھیں …. وہ نامی گرامی سادھوؤں کے پاس جاچکاتھا۔ مگرکہیں سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ساہوکاروں کو تو سادھوؤں اورپنڈتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ صرف رامن جیسے لوگ ہی زمین پر بوجھ تھے ، جنہیں دھرم کے علمبرداروں کے بقول بھگوان نے بھی ملیچھ بنادیا تھا ….
تاسف، غم، محرومی ،بے بسی ، بے بضاعتی اوربے توقیری نے رامن کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔ تاہم آخری کوشش کے طور پر اس نے تندیب کے اصرار پر حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہونےکافیصلہ کر لیا۔
بابا صاحب کو تلاش کرتے کرتے رامن بہت تھک چکا تھا۔ غضب کی گرمی میں اس کا لباس پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ بابا تا ج الدینؒ کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں تھا …. و ہ کبھی ایک درخت کے نیچے ہوتے تھے اور کبھی دوسرے درخت کے نیچے …. مسلمان فقیروں کاکچھ پتہ نہیں چلتا تھا، جدھر جی چاہا نکل گئے۔ وہ چاشت کے وقت گھر سے نکلا تھا اور اب دوپہرڈھل چکی تھی …. سورج آگ برسا رہا تھا اور را من کے دل میں بھی آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اس کے اندر بغاوت اور مسلسل بغاوت کے تیز جذبات ابھر رہے تھے۔ مذہب سے اس کا یقین اٹھ چکاتھا۔ آخر دنیا میں ہر بڑا آدمی چھوٹے آدمی کوکھا کیوں رہا ہے …. بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، ساہوکار، مہاجن وسیع و عریض زمینوں کے مالک چھوٹے موٹے کاشتکاروں ، محنت کاروں اور کسانوں کی زمینیں ہتھیا کیوں لیتے ہیں ۔ ان کی ہوس تو کسی طرح پوری نہیں ہوتی اور انہیں مذہبی لوگوں سے تحفظ بھی حاصل رہتا ہے …. کیا اوتار، سادھوؤں کی یہی تعلیمات ہیں ؟؟؟ ….کیا انہیں یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا…..؟؟
وہ اپنے دھرم پر غور کرتا رہا …. غور کرتارہا …. اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔ عقل عاجز آگئی …. ساہوکار جس نے اس کی زمین رہن رکھی تھی، اس کے ہی دھرم کا تھا۔ پھر یہ ظلم آخر کیوں ؟؟ …. اتنی عدم مساوات کیوں ؟؟۔ بھگوان تو سب کاہے۔ سب اسی کی پیدائش اورمخلوق ہیں …. پھر بھگوان نے مظلوموں ، بے نواؤں ، بے سہاروں اور بے آسروں کاحق غصب کرنے والوں اور انہیں کچل کر رکھ دینے والوں کو اقتدار ، طاقت، عزت و شرف کیوں دے رکھا ہے؟ …. رامن تھا تو ان پڑھ، لیکن کچھ معاملہ فہم بھی تھا …. کئی سو سالوں سے مسلمان بھی اسی دیش میں رہ رہے تھے مگر کئی مسلمانوں کے ہاں بھی وہ سب کچھ رائج تھا، جو ہندؤوں کے ہاں تھا۔
گو مسلمان مساوات کا درس دیتے تھے، کہتے تھے ہم سب برابر ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی مظاہرہ رامن نے نہیں دیکھاتھا …. گو ان کے ہاں ذات پات نہ تھی، لیکن اس کی خاموش و بے نام شکلیں موجود تھیں۔
ہندو ہوں یا مسلمان، جاگیردار ، ساہوکار ایک جیسی خصلت و عادات رکھتے تھے …. غاصب ، ظالم اور مکار۔ یہ اگرہمدردی کااظہار بھی کرتے تو اس کے پیچھے بھی ان کی کوئی غرض مخفی ہوتی تھی۔ زمیندار مسلمانوں کے ہاں بھی کئی لوگوں نے کم و بیش وہی طور طریقے اور انداز زندگی اپنارکھا تھا، جو ہندؤں کے ہاں تھے….
رامن کے دل و دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ کیا بھگوان کی تعلیمات یہی ہیں ، اس کے اندر مذہب بیزاری اورشکوے شکائتوں کے جذبات بگولوں کی شکل اختیار کر چکے تھے ….
بھلا یہ کیسا قانون ہے کہ قرض کے عوض رہن رکھی گئی زمین قرضہ چکا دینے کے بعد بھی اسے نہ مل پا رہی تھی۔ وہ اور اس کا بھائی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ اب زندگی کی قوت بھی اس سے چھن رہی تھی…. وہ اور اس کی بیوی دوسروں کی زمینوں پر کولہوکے بیل کی طرح دن رات کام میں جتےرہتے ….
مگر حالت یہ تھی کہ بمشکل ایک وقت کاکھانا نصیب ہوتا …. بھگوان توسب کی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا کرتاہے…. آخر اس کا حصہ کون ڈکار جاتا ہے؟؟ ….اور کیوں اسے نہیں مل پاتا؟ …. برسوں کی محنت شائقہ کے باوجود ان کے پاس ایک وقت کے کھانے کے سوا کچھ بچ نہ پاتا تھا اور دوسرے وقت فاقہ پڑتا تھا …. قرضہ جو رامن اور اس کے بھائی نے اصل رقم سے تین گنا زیادہ ادا کر دیا تھا،لیکن سود مرکب کی وجہ سے یہ رقم نہ صرف جوں کی توں موجود تھی بلکہ مزید بڑھی ہی چلی جارہی تھی۔
اپنے دھرم سے وہ بیزار ہو ہی چلاتھا، لیکن مسلمان زمینداروں میں بھی اس نے یہی کچھ دیکھا تھا …. اس کے ساتھ کام کرنے والے اکثر مسلمان کاشتکاروں اورمحنت کاروں کی حالت بھی اس جیسی ہی تھی، بلکہ اس سے بھی بدتر و فروتر۔ کچھ مسلمان نواب تھے، جاگیر دار تھے، لیکن نچلے محروم طبقہ کے مسلمانوں کی حالت زار اچھوتوں سے ملتی جلتی تھی …. اگرکچھ فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ انہیں ان کے دھرم والوں نے اچھوت اور ملیچھ کا نام نہیں دیا تھا …. ورنہ تھے تو دونوں ایک جیسے …. رامن کے جذبات میں غصے کا عنصر اب پوری طرح حاوی ہو چکاتھا …. غصے سے اس کابدن تن گیا …. خون کی گردش تیز ہو گئی …. لیکن پھر وہ رونے لگا …. غصہ کے جذبات ٹھنڈے پڑتے گئے ….
جب اس کے جذبات کا جھکڑ کچھ سرد پڑا تو اس نے ایک آم کے پیڑ کے سایہ میں کھڑے ہو کر آنکھوں میں اتر آنے والا پسینہ پونچھا اور پھر جو سامنے دیکھا تو ایک پیڑ کے نیچے چند لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہ جلد جلدی آگے بڑھا تو قریب پہنچنے پر تندیب کے بتائے گئے حلیے پر اس نے حضرت بابا تاج الدین کو پہچان لیا۔ ان کے چہرے پر نگاہیں پڑتے ہی رامن کے دل میں ہوکیں اٹھنے لگیں اور وہ ان کے قدموں میں پڑ کر بلک بلک کر رونے لگا ….
پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی حیران وششدررہ گئے۔
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے فرمایا۔
‘‘ کیوں روتاہے رے؟ …. مل جائے گی تیری زمین …. مل جائے گی’’
پھر انہوں نے اسے دلاسہ دیا تو بے تاب و مضطرب رامن کو قرار سا آگیا۔ اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ بابا تاج الدین بغیر کچھ بتائے سب کچھ جان گئے تھے …. وہ چپ چاپ خاموش ان کے پاس بیٹھا رہا …. اور جب مجلس برخواست ہوئی تو بابا تاج الدین نے زور دار لہجے میں اسے مخاطب کرکے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔
‘‘ جا …. توبھی چلا جا …. اپناکام کر’’
رامن تو گھر سے ہی ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کاتہیہ کرکے آیا تھا …. بھلا وہ کب جانے والا تھا…. ان کی بار بار کی ڈپٹ سے بھی وہ گھر نہ گیا۔ حتیٰ کہ پوراایک ہفتہ گزر گیا …. وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا۔
حالات کاستایا ہوا شخص آسانی سے نہیں مانتا …. تلخ و تند تجربات زندگی اس کے اندر حقائق جاننے کی جستجو پیدا کردیتے ہیں …. وہ زندگی کی صداقتوں میں اتر کر انہیں کھولنا چاہتا ہے۔ اس کے دل کا غبار اور طوفان آہستہ آہستہ بیٹھتا ہے۔ …. اسے کوئی رام نہیں کر سکتا۔ صرف نبض شناس کسی کامل فقیر کی نگاہ کیمیا سے ہی اس کے دل کی صداقت کا بیج تناور درخت بن سکتاہے۔ ورنہ دل کی گہرائیوں میں حقائق و صداقتیں جاننے کا جذبہ، کارل مارکس، نطشے اور ہیگل جیسے لوگ پیدا کرتا ہے ، جن کے افکار آفاقی و ابدی صداقتوں کو مسخ و مبہم کر دیتے ہیں ….
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے متعدد بار اسے سختی سے کہا کہ وہ چلا جائے مگر وہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا ….
ایک دن حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کوجلال آگیا۔ انہوں نے اسے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بٹھا کر جلالی لہجے میں فرمایا۔
‘‘ تو قتل ہونے آیا ہے نا …. اس درخت کے نیچے بیٹھ جا ….اٹھنا نہیں ….اگر اٹھا تو میں تجھےمارڈالوں گا’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری کے لہجے میں اتنا زیادہ اثر تھا کہ رامن درخت کے نیچے کسی پتھر کی طرح جم کر رہ گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ بابا تاج الدین متواتر تین دن تک اس کی خبر گیری کرتے رہے اور تنبیہ کرکے چلے جاتے کہ
‘‘ خبردار …. یہاں سے ہلنا نہیں ….
یہیں بیٹھارہ ’’۔
چوتھے دن بابا تاج الدین اسے تنبیہ کرکے اسی درخت کے سائے میں چادر اوڑ ھ کر لیٹ گئے …. چند ہی ساعتیں گزری تھیں کہ رامن کا بھائی اسے تلاش کرتا ہوا آیا اور دور سے ہی ‘‘ رامن بھائی …. رامن بھائی ’’ پکارنے لگا۔ آواز سن کر رامن اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگیا، آگے نہیں بڑھا ۔ بابا تاج الدین کے احکامات اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئے تھے۔ رامن کے بھائی نے جب اسے دیکھا تو وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا اور اس سے لپٹ گیا۔
رامن کے بھائی نے کہا کہ ‘‘ وہ کئی دنوں سے اسے تلاش کرتا پھررہا ہے۔ ہماری رہن والی زمین ڈی سی نے ہمیں ساہوکار سے واپس دلا دی ہے۔ ساہوکار کا دعویٰ ڈی سی نے مسترد کر کے ہمارے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور میں نقل حکم بھی لے چکا ہوں ….’’ پھر رامن کے بھائی نے نہایت خوشی اور حیرت کے ساتھ رامن کو مخاطب کیا۔
‘‘چند دن قبل ہمارے گھر ایک ‘‘ اجنبی بیرسٹر’’ صاحب آئے اور انہوں نے پوچھاکہ‘‘ کیا تمہارا کوئی مقدمہ ہے؟؟’’ ….میں نے انہیں بتایا کہ ساہوکار ہماری زمین پر قابض ہے اور اس نے ڈی سی کے ہاں اپنی ملکیت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ ہم مفلس اور نادار لوگ وکیل بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ ’’
میری بات سن کر بیرسٹر صاحب بولے۔
‘‘ لاؤ زمین کے کاغذات مجھے دو میں تمہارا مقدمہ لڑوں گا اور فیس بھی نہیں لوں گا’’۔
چنانچہ میں نے کاغذات زمین ان کے حوالے کر دئیے۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی پیشی پر مسلسل آدھا گھنٹہ بحث کی۔ ان کی بحث پر ڈی سی از حد متاثر ہوا اور ساہوکار کا دعویٰ خارج کرکے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا ….
بیرسٹر صاحب بحث کے بعد کہیں چلے گئے۔
دوسرے دن میں نے ‘‘نقل حکم’’ لی اور بیرسٹر صاحب کو بہتیرا تلاش کیا مگر کسی سے ان کا اتا پتا نہ معلوم ہو سکا۔ کوئی وکیل ان کو نہیں جانتا تھا۔ پھر تمہاری تلاش شروع کی اور آج تیسرے دن تمملےہو’’۔
بھائی کی باتیں سن کر رامن ہکا بکا رہ گیا اور حیرت کے عالم میں کبھی اپنے بھائی اور کبھی چادر لپیٹے لیٹے ہوئے حضرت بابا تاج الدین کو دیکھنے لگا ….
چند ثانیوں بعد بابا تاج الدین نے چہرے سے چادر ہٹائی تو رامن کا بھائی پکار اٹھا….
‘‘ یہی ہیں …. یہی ہیں …. بیرسٹر صاحب یہیہیں ’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری نے دونوں بھائیوں کی طرف نظریں بھر کر دیکھا اور فرمایا۔
‘‘ یہ سب اللہ کی کرپا ہے رے’’
ان کے لہجے میں کچھ اس قدر سوز و اثر تھا کہ رامن کا دل سوزو محبت، مسرت و شادمانی، احساس ممنونیت و نیازیت سے لبا لب بھر گیا۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور بے ساختہ وہ بابا تاج الدین کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دھرانے لگا۔
‘‘ سب اللہ کی کرپا ہے رے ’’۔
رامن کے بھائی کی زبان کچھ پتھرائی اور اس کے لبوں سے بھی یہی الفاظ ادا ہوئے۔ رامن بابا تاج الدین ناگپوری سے رخصت ہو کر اپنے بھائی کے ہمراہ خوشی خوشی گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ تندیب نے غلط نہیں کہا تھا۔
بابا تاج الدین چراغ نہیں سورج ہیں …. اس دھرتی پر اوتارہیں ۔ جن کی ذات کی روشن و منور کرنوں سے ظلمتوں اور گھٹاؤں میں بھی جگمگاتے دئیے روشن ہو جاتے ہیں اور جن کی کرنیں ہر سو جگمگ کرتی بکھر رہی تھیں ۔
آنے والے چار پانچ برسوں میں لوگوں نے دیکھا کہ رامن اپنا دھرم بدل کر‘‘خیر بخش’’ بن گیا تھا، جس نے اپنے محلہ میں مسجد تعمیر کروا لی تھی اور جو بے نوا و درماندہ، محنت کش،ہندو مسلم آبادی کے دکھوں کا مشترکہ مداوا بن چکا تھا۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””] منشی اصغرعلی صاحب ناگپوری جو سیوئنگ مشین کمپنی میں ملازم ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب دیدار بخش، پوسٹ ماسٹر ناگپور پوسٹ آفس کی زبانی سنا ہے کہ بابورام سنگھ نامی ایک سرکاری ملازم تھے۔ ان کے خلاف کوئی سرکاری جرم عائد ہوا اور مقدمہ دائر کردیاگیا۔ انہوں نے بری ہونے کی ہرتدبیر کی اور جب مایوس ہوگئے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر گریہ وزاری کی۔ آپ نے فرمایا’’چلاجا، کیا ہوتاہے، بری ہوجائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ شخص خوشی خوشی واپس آگیا۔ مقررہ تاریخ کو عدالت میں حاضر ہوا اور طلبی پرعدالت میں پیش ہوا۔ فریقِ مخالف کی طرف سے وکیل بھی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک اجنبی بیرسٹر عدالت میں آئے اور کہا’’میں بیرسٹر ہوں اورفلاں شہر میں رہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کوئی دوردراز شہر کانام بتایا اورکہا کہ میں رام سنگھ کی طرف سے اس کے مقدمے کی پیروی کروں گا۔
تحریر : سید نوشاد کاظمی
حضرت علی بن عثمان الجلابی ثم الہجویری المعروف داتا گنج بخش کی ہزار سالہ قدیم شہرہ آفاق تصنیف ‘‘کشف المحجوب ’’ سے اقتباسات ….
رمضان المبارک کی مناسبت سے قارئیں کی نذر
خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ۔[سورۂ بقرہ : 183]
پیغمبرﷺ نے فرمایا ہے کہ جبرائیل ؑ نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ:روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا ہوں ۔ [بخاری؛ مسلم؛ ترمذی؛ نسائی]
اس لیے کہ روزہ باطنی عبادت ہے جو ظاہر سے کچھ تعلق نہیں رکھتا اور غیر کا اِس میں کچھ حصہ نہیں اور اِس سبب سے اِس کی جزا بھی بہت بڑی ہے اور کہتے ہیں کہ لوگوں کا بہشت میں داخلہ رحمت الہٰی سے ہو گا ، درجات بقدر ِعبادات کے ہوں گے اور بہشت میں ہمیشہ رہناروزے کی جزا کےطور پر ہو گا۔
حضرت جنیدؒ (بغدادی)نے فرما یا ہے :
ترجمہ:روزہ آدھی طریقت ہے۔
[تاج العارفين]
اور میں(حضرت داتا گنجؒ بخش ) نے کچھ ایسے مشائخ کو دیکھا ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اور بعض کو دیکھا ہے کہ سوائے ماہِرمضان کے روزہ نہ رکھتے تھے اور وہ رمضان کے روزے رکھنا، طلبِ اجر کے لیے تھااور غیر رمضان میں روزہ نہ رکھنااپنے اختیار اور ریا کو ترک کرنے کےلیے تھا۔
اور یاد رکھو کہ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا ہے۔ گو یہ تعریف مختصر سہی لیکن اتنی جامع ہے کہ پوری طریقت کے اُسرار ورموز اِسی میں پوشیدہ ہیں اور سب سے کم درجہ روزے میں بھوکا رہنا ہے اور بھوک، شرع و عقل کی رُو سے سب زبانوں میں لوگوں کے درمیان پسندیدہ ہے(یعنی اہلِ عقل اور اہلِ شرع سب نے بھوک کی تعریف کی ہے۔)
پس رمضان کے ایک ماہ کے روزے ہر عاقل و بالغ مسلمان تندرست مقیم پر فرض ہیں ۔
اِن کی ابتداء ماہِ رمضان کے ہلال دیکھنے سے ہوتی ہے اور اختتام شوال کا چاند دیکھ کر اور ہر روز کے لیے صحیح نیت اور سچی شرط ضروری ہے۔
لیکن یہ یاد رکھو کہ نفس کو روکنے کی بہت سی شرطیں ہیں….،مثلاً پیٹ کو کھانے اور پینے سےبچائے رکھے،آنکھ کو نظرِ شہوت سے، کان کوغیبت سے، زبان کو لغواور بیہودہ باتوں اور جسم کودُنیا کی متابعت اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے….
تب کوئی شخص حقیقی طور پر روزہ دار ہو گا…. رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی ؓ سے فرمایا:
(ترجمہ : جب تُو روزہ رکھے تو چاہیے کہ تیرے کان، آنکھ،زبان،ہاتھ اور تیرا ہر عضو بھی روزہ رکھے) [المنصف ابن ابی شیبہ؛ شعب الایمان بیہقی]
اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے :
( ترجمہ :بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا’’) [ابن ماجہ؛طبرانی]
حواس کو بند رکھنا ہی پورا مجاہدہ ہے، اِس لیے کہ تمام علوم انہی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
وہ حواس دیکھنے،سُننے ،چکھنے ، سونگھنے اور چُھونے کی قوتیں ہیں جو اس علم وعقل کی سپہ سالار ہیں ۔ اِن میں سے چار حواس کا محل مقام مخصوص ہے، البتہ ایک حِس سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہے۔چنانچہ آنکھ نظر کا محل ہے جو جسم اور رنگ کو دیکھتی ہے، کان شنوائی کا محل ہے جو خبر اور آواز کو سنتا ہے،تالو ذائقہ کا محل ہے جو مزے اور بے مزہ کو جانتا ہے،ناک سونگھنے کا محل ہے جو خوشبو اور بدبو کو معلوم کرتا ہے اورلمس یعنی چُھونے کا کوئی خاص محل نہیں بلکہ تمام اعضائے بدن میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ نرمی، گرمی،سردی اور سختی کو محسوس کرتی ہے۔
یاد رکھو کہ بدیہی اور اِلہامی امور کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس کا علم انسان کو اِن پانچ طریقوں کے سوا کسی اورطریق سے حاصل ہو، کیونکہ اِلہامی امور میں کوئی خرابی نہیں ہو سکتی اور اِن حواسِ ِ خمسہ میں سے ہر ایک طریقے میں صفائی بھی ہے اور کدورت بھی۔
کیونکہ جس طرح علم و عقل اور رُوح کو اِن حواس میں دخل ہے،اسی طرح نفس اور خواہشِ نفسانی کو بھی دخل ہے ۔گویا یہ حواس فرماں برداری، نافرمانی، نیک بختی اور بد بختی میں قدرِ ِ مشترک ہیں۔
روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بہر کیف اِن پانچ حواس کو اپنے قابو میں رکھے یہاں تک کہ وہ حکم ِاِلہٰی کی مخالفت کو چھوڑ کر شریعت کی پوری طرح پیروی اختیار کرے، تاکہ وہ صحیح معنوں میں روزہ دار کہلائے۔
روزہ دراصل لہو غیبت اور حرام چیزوں سے پرہیز کرنا بھی ہے۔