دعاؤں سے علاج
Read Online
Duaaun Se Ilaaj – Part 1
Dr Waqar Yousuf Azeemi
Duaaun Se Ilaaj – Part 1
Dr Waqar Yousuf Azeemi
Duaaun Se Ilaaj – Part 1
Dr Waqar Yousuf Azeemi
Duaaun Se Ilaaj – Part 1
Dr Waqar Yousuf Azeemi
جن، بھوت ، پریوں کے واقعات صدیوں سے انسان کو خوفزدہ کرتے رہے ہیں….جنات کے وجود کی تصدیق تو قرآن مجید سے ہوتی ہے…. مگر کیا بھوت پریت، بدروحیں اور آسیب نام کی کسی شے کا اس دنیا میں واقعی وجود ہے ؟…. یا ان کا تعلق تخیل ، توہم پرستی یا بد عقیدگی سے ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایک عرصہ سے لوگوں ذہن میں ہیں۔
ماضی میں بھوت پریت اور آسیب نظر آنے کے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی آبادی بڑھنے لگی تو آباد خطوں میں غیر مرئی اور آسیبی مخلوقات کا بسیرا مشکل ہو گیا ہے اور وہ انسانوں کے دنیا سے کہیں دور بیابانوں، جنگلوں، صحراؤں ، کھنڈرات اور ایسی ہی غیر آباد جگہوں پر جا بسے ہیں۔ لیکن آج بھی پس ماندہ ملکوں کے لوگ بھوت پریت وغیرہ جیسی مافوق الفطرت چیزوں پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں کے لوگ بھی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔
کیلی فورنیا کی چیپ مین یونیورسٹی کے 2017 کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 52 فیصد امریکی بھوت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مقامات آسیبی ہو سکتے ہیں ، 2017ء کے اس سروے کے مطابق 55 فیصد امریکی یقین رکھتے ہیں کہ ماضی میں اٹلانٹس جیسی ترقی یافتہ اقوام بستی تھی، 35 فیصد مانتے ہیں کہ ماضی میں خلائی مخلوق زمین پر آچکی ہے اور 26 فیصد کا ماننا ہے کہ خلائی مخلوق اب بھی زمین پر آتی رہتی ہے۔ 25 فیصد مانتے ہیں کہ ذہن کی قوت سے چیزوں پر تصرف کیا جاسکتا ہے، 19 فیصد امریکی مستقبل بینی اور پیش گوئیوں پر اور 16 فیصد بگ فٹ اور دیگر حیوانی مخلوقات پر یقین رکھتے ہیں۔
اس سے قبل 2015 ء میں چیپ مین یونیورسٹی کے سروے میں آسیب پر یقین کرنے والوں کی تعداد 41.4 فیصد تھی، جو موجودہ تعداد سے لگ بھگ 11 فیصد کم تھی، یعنی امریکا میں ماورائی واقعات پر یقین کرنے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے، 2015ء کے سروے میں 26.5 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ روحوں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
YouGov کے 2019 کے ایک سروے کے مطابق 10 میں سے 4 (46 فیصد )امریکیوں کا خیال ہے کہ بھوت یا آسیب موجود ہیں، ایک تہائی سے زیادہ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے آسیب یا روح کی موجودگی کو محسوس کیا ہے۔ 46 فیصد مافوق الفطرت مخلوقات (جن، پریاں وغیرہ ) پر یقین رکھتے ہیں، 45 فیصد لوگ بھوت و آسیب پر اور 13 فیصد ویمپائر و چڑیلوں پر یقین کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق مافوق الفطرت چیزوں پر یقین رکھنے کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔
2009ء میں پیو ریسرچ Pewresearch کے زیر اہتمام سروے میں روحوں سے ملاقات کرنے والوں کی تعداد 29 فیصد اور بھوت و آسیب دیکھنے والوں کی تعداد 18 فیصد تھی، 15 فیصد نے قبول کیا کہ وہ روحانی عالموں سے ملتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق مغرب میں 25 فیصد لوگ علم نجوم اور 16 فیصد نظربد پر یقین رکھتے ہیں۔پیو ریسرچ کے تقریبا 23 مسلم اکثریتی و اقلیتی ممالک میں کیے گیے ایک سروے میں پایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں 77 فیصد لوگ بھوت پریت، 35 فیصد جادو سحر پر یقین رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک پر کیے گئے پیو ریسرچ کے سروے کے مطابق یونان میں 66 فیصد، یوکرائن میں 60 فیصد، آرمینیا 59 فیصد ، روس 56 فیصد، بلغاریہ 55 فیصد، جارجیا 52فیصد ، رومانیا 44 فیصد، سربیا 41 فیصد، کروشیا 30 فیصد، پولینڈ 25 فیصد، ہنگری 21 فیصد اور امریکا میں 16 فیصد لوگ نظر بد پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ جادو اور سحر پر یقین کرنے والوں کی تعداد یونان میں 40 فیصد، یوکرائن میں 49 فیصد، آرمینیا 20 فیصد ، روس 44 فیصد، بلغاریہ 41 فیصد، جارجیا 42فیصد ، رومانیا 30 فیصد، سربیا 39 فیصد، کروشیا 25 فیصد، پولینڈ 18 فیصد، ہنگری 14فیصدہے۔
www.pewresearch.org/fact-tank/2015/10/30/18-of-americans-say-theyve-seen-a-ghost/
https://www.pewforum.org/2009/12/09/many-americans-mix-multiple-faiths/
https://www.pewforum.org/2012/08/09/the-worlds-muslims-unity-and-diversity-4-other-beliefs-and-practices/
یو ایس ٹوڈے کے مطابق
ایک ہاوسنگ کمپنی نے امریکا میں ایک سروے کیا یہ جاننے کے لیے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کتنے فیصد لوگ ایسے گھروں میں رہنا پسند کریں گے جو آسیب زدہ مشہور ہوں یا جہاں پہلے کوئی فرد خودکشی یا قتل ہوچکا ہو یا جہاں عجیب آوازیں سنائی دیتی ہوں ۔
اس سروے میں 42فیصد لوگوں نے سرے سے انکار کردیا، 30فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ تیار ہیں اور انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ 25 فیصد نے کہا کہ وہ گھر اور ارد گرد کا ماحول دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے ،سروے میں 28 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ایسے گھروں میں رہ چکے ہیں جہاں انہیں غیر واضح عجیب آوازیں یا پراسرار احساس ہوتا ہے۔
2001ء میں ہوئے گیلپ سروے کے مطابق ہر چار میں سے تین امریکی پراسرار واقعات پر یقین رکھتے ہیں، 41 فیصد لوگ ماورائے ادراک حواس، 37 فیصد مقامات کی آسیب زدگی ، 32 فیصد روحوں کی موجودگی ، 31 فیصد ٹیلی پیتھی ، 26 فیصد مستقبل بینی، 25 فیصد علم نجوم، 21 فیصد مرحومین سے رابطے کے قائل ہیں۔ 2005 کے ایک اور گیلپ سروے کے مطابق ہر تین میں سے ایک امریکی یہ یقین رکھتا ہے کہ ان کے مرنے والے عزیروں کی روحیں ان کے آس پاس ہی رہتی ہیں۔
https://news.gallup.com/poll/16915/Three-Four-Americans-Believe-Paranormal.aspx
https://news.gallup.com/poll/17275/OneThird-Americans-Believe-Dearly-May-Departed.aspx
ایسے نظریات برطانیہ میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں، برطانیہ کے ٹیلی گراف اخبار pمیں شایع 2005 اور 2009 کے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے 52 فیصد شرکاء مافوق الفطرت چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔
YouGov کے 2014 کے سروے کے مطابق تین میں سے ایک (39 فیصد ) برطانوی مکانات پر آسیب زدگی پر یقین رکھتے ہیں، اور 34 فیصد یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھوت ہوتے ہیں۔ 28 فیصد نے ماورائی مخلوق کی موجودگی کو محسوس کیا اور 9فیصد مانتے ہیں کہ انہوں نے روحوں سے بات کی ہے۔
https://yougov.co.uk/topics/politics/articles-reports/2014/10/31/ghosts-exist-say-1-3-brits
https://aeon.co/ideas/belief-in-supernatural-beings-is-totally-natural-and-false
2013ء میں امریکہ میں ہوئے سروے Harris Poll کے مطابق 42 فیصد لوگ بھوت ، آسیب پر یقین رکھتے ہیں،36 فیصد لوگ دیگر مخلوقات ، ایلینز وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔ 64 فیصد کےموت کے بعد زندگی اور 68 فیصد آخرت پر ، 29 فیصد نجوم اور 26 فیصد جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں۔
بھارت میں معاشرتی ترقی و روابط سے متعلق ادارے CSDSکی جانب سے کئے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں46 فیصد لوگ بھوتوں اور چڑیلوں پر یقین رکھتے ہیں اور 24 فیصد دست شناسوں سے مشورے لیتے ہیں۔
سال 2012ء میں انگریزی اخبار ایکسپریس ٹرابیون کی طرف500 سے زائد پاکستانیوں سے لیے گئے ایک دلچسپ آن لائن سروے کے جواب میں 17 فیصد پاکستانیوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ سپر نیچرل یعنی ماورائی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اس سروے میں 522 افراد نے حصہ لیا تھا، جن میں اکثریت یعنی 82 فیصد مرد تھے، تقریباً 74 فیصد کا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔ اس سروے میں 18 سے 25 برس کی عمر کے 46 فیصد پاکستانی شہری جبکہ 25سے 40 برس کے عمر کے 40فیصد پاکستانیوں نے حصہ لیا۔
اس سروے میں کیے گئے سوال اور ان کے جوابات کچھ اس طرح تھے:
کیا آپ جادو پر یقین رکھتے ہیں …. ؟
اکثریت (55 فیصد) نے اس کا جواب ہاں میں دیا جبکہ 34 فیصد نے انکار کیا اور 10 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے ۔
کیا آپ ذیل میں درج کسی ماورائی وجود پر یقین رکھتے ہیں…. (1)بھوت، (2)شیطانی مخلوقات،
(3)ویمپائر ،(4) چڑیل؟
اکثریت51 فیصد افراد بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ 25 فیصد کے خیال میں شیطانی شر انگیز مخلوقات، 4فیصد ویمپائرز اور 28 فیصد چڑیلوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ 36 فیصد ان تمام ماورائی وجود کا انکار کرتے ہیں۔
کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کے دوران کبھی کسی سپر نیچرل تجربہ سےگزرے ہیں ..؟
اکثریت (33 فیصد) نے اس کا جواب دیا کہ ان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش تو نہیں آیا مگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ہوتاہے، جبکہ 28.7فیصد نے انکار کیا ، 23.3 فیصد نے اقرار کیا اور 14.7 فیصد نے کہا کہ شاید ان کے ساتھ ایسا واقعہ ہوچکا ہے۔
مندرجہ ذیل میں آپ کس ماورائی صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں….؟
اس سروے میں 55 فیصد افراد نے کہا کہ وہ چھٹی حس پر یقین رکھتے ہیں جبکہ 33 ٹیلی پیتھی کو ماننے والے ہیں۔ 25 فیصد افراد غیب بینی اور مستقبل بینی پر یقین رکھتے ، 18 فیصد افراد سائیکوکائنی سس اور جسم سے باہر روح کی رسائی (OBE)پر یقین رکھتے ہیں، 17 فیصد افراد جسم مثالی(اورا) پر یقین رکھتے ہیں۔ 8 فیصد خود احتراقی (ایسی آگ جو کسی ایندھن کے بغیر جل اٹھے ) اور 4 فیصد پائروکائنسس (انسان کا سوچ کی قوت سے آگ جلانا) کو مانتے ہیں….
کیا آپ یقین رکھتے یا محسوس کرتے ہیں کی آپ ذاتی طور پر اوپر دی ہوئی صلاحیتوں میں سے کسی ایک کے حامل ہیں؟
اس کا جواب 17 فیصد لوگوں نے ہاں میں جواب دیا اور باقی 83 فیصد نے انکار کیا۔
ماورائی دنیا کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے….؟
اس کے جواب میں 43 فیصد نے کہا کہ عقل کی رسائی سے باہر سپر نیچرل ورلڈ ہماری دنیا کا حصہ ہے ہم اس کو ثابت تو نہیں کرسکتے مگر وہ موجود ہے۔11 فیصد نے کہا کہ یہ وجود رکھتی ہے اور ہم اسے سمجھ بھی سکتے ہیں۔ 27 فیصد نے کہا کہ یہ محض قدرتی مظاہر ہیں جنہیں ابھی تک جانا نہیں جاسکا ہے۔ جبکہ 19 فیصد کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی وجود نہیں رکھتا۔
اگست 2009ء میں ہوئے ایک گیلپ سروے کے مطابق دو تہائی ( 66 فیصد)پاکستانی کسی نہ کسی مخلوق یا شے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام گیلپ سروےs کے مطابق پاکستان میں 32 فیصد افراد جنات ، بھوت آسیب سے ڈرتے ہیں، 34 فیصد کو چھپکلی، لال بیگ مکڑی اور دیگر حشرات کا خوف ہے، 18 فیصد اندھیرے سے گھبراتےہیں ۔
https://gallup.com.pk/bb_old_site/Polls/25-8-09.pdf
معراج
تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ جس پر عقل ناقص آج بھی حیران ہے ۔
سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ رب کائنات کے محبوب ترین وہ رسول ہیں جن پر اللہ پاک نے رسالت کا سلسلہ مکمل کرکے دنیائے آب و گل کو دین مستقیم کی دولت سے سرفرا ز فرمایا۔ خالق کائنات نے اپنے تمام رسل کو مختلف النوع کے معجزات سے نوازا ۔ لیکن خاتم النبیّن شافع محشرﷺ کو سفر معراج کی جو عظیم ترین ثروت سے نوازا وہ بلاشبہ تاریخ انسانیت کی سب سے عظیم الشان معراج ہے جس نے فکر انسانی میں وسعت بخشی اور انسانی عقل میں گیرائی بخشی۔
معراج عرج سے مشتق ہے جس کے معنی چڑھنے اور بلند ہو نے کے ہیں ۔ رسول اللہﷺ چونکہ ساتوں آسمان سدرۃ المنتیٰ اور اس سے بھی بلندی پر تشریف لے گئے تھے اور آیات و تجلیات خداوندی کا مشاہدہ کیا تھا ۔ اس لیے اس عدیم المثال واقعہ کو معراج کہا جاتاہے ۔ بعض مفسرین نے اصطلاحی امتیاز کے لیے مکہ معظمہ سے بیت المقدس کی سیر کو جس کا ذکر سورئہ نبی اسرائیل میں ہوا ہے ’’ اسری ٰ ‘‘ جبکہ بیت المقدس سے عرش بریں تک کے سفر کو جس کی صراحت سورئہ نجم اور صحیح احادیث میں ہے ’’معراج‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے ۔
معجزہ ایک ابدی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ کسی نبی یا رسول پر ایمان لانا یاان سے کسی معجزے کے رونما ہوتے دیکھ کر اس کی صداقت پر ایمان لانا ، دراصل اس قادر مطلق پر ایمان لانا ہے جس کی قدرت کا ملہ سے اس نبی سے یہ معجزہ صادر ہوا ہے ۔
معراج، کمال مصطفی ہے ، ارتقائے نسل انسانی کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بند گی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا ۔ معراج النبی ﷺتاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے جس پر عقل ناقص آج بھی حیران ہے ۔
روایت ہے کہ نبی رحمتﷺ آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے آ کرتا جدار کون و مکاں کو جگایا اور عرض کی، ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اللہ رب العزت نے آپﷺ کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ ‘‘
چنانچہ حضور ﷺ کو براق پر سوار کرکے بیتِ المقدس لے جایا گیا جہاں تمام انبیائے کرام نے آپﷺ کی امامت میں نماز پڑھی اور پھر آپ ﷺ کے آسمانی سفر کا آغاز ہوا۔ تاجدار کائنات تمام آسمانوں پر مختلف انبیائے کرام سے ملتے ہوئے سدرۃ المنتیٰ تک پہنچے ۔ اس مقام پر حضورﷺ کو نور کی جنت کی سیر کرائی گئی ۔پھر مہمان ذیحشمﷺ نے عرش معلی کی سیر کی ۔ آپ ﷺ مختلف پردوں سے گزرتے ہوئے’’قاب قوسین ‘‘ پر پہنچے ۔ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی میں جو باتیں ہوئی اس کلام کی کسی کو کچھ خبر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتی وصفاتی تجلیات اور فیوض و برکات سمیٹ کرآپﷺواپس کرئہ ارضی کی طرف پلٹے ۔
بے شک کسی نے خوب کہا ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ۔ ‘‘
معراج کوعلامہ اقبال ایک شعر میں یوں تعبیر کرتے ہیں ؎
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐسے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
شب معراج کے وردو وظائف
اللہ رب العزت کا ارشاد ِ گرامی ہے ۔ ’ ’اور تمہارا رب کہتا ہے ، مجھ سے دعا مانگو ، میں تمہاری دعا کو قبول کروںگا ۔ ‘‘ (سورۃ مومن ) اللہ تعالیٰ کا درہی ہمارے پاس واحد سہارا ہے ، جو کچھ بھی ملنا ہے ، ہمیں اسی در سے ملنا ہے ۔ رب ّ َ ِ جلیل کے علاوہ عطا کرنے والا اور کون ہے ۔۔۔؟ وہی ہمارا خالق ہے ، مالک ہے ، رزاق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے ۔ ’’ یالطیف ‘‘ جس کا مطلب ہے ۔ ’’ اے نرمی کرنے والا ‘‘ چوں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی اور نرمی کا معاملہ فرماتا ہے ، اس لیے وہ اللہ ، لطیف بھی ہے۔ لطیف ایسی چیز کو کہتے ہیں ، جسے محسوس کیا جاسکے ، مگراسے دیکھا یا چھوا نہ جا سکے ۔ خوشبو اور ہوا کے علاوہ کئی اور چیز یں بھی ہیں ، جنہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے، مگر دیکھا یا چھوا نہیں جاسکتا ۔ یہی تعریف اللہ تعالیٰ پر بھی صادق آتی ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی کما ل قدرت اس کی موجودگی پر دلیل ہے ، مگر حواس ِ خمسہ میں سے آنکھ اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی اور ہاتھ اسے چھونے سے عاجز ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے اس نام کے حوالے سے شب ِ معراج کا خاص وظیفہ درج ذیل ہے ۔ اسم الہٰی ’’ یا لطیف ‘ ‘ کا ورد ہر قسم کی مشکل کشائی کے لیے بڑا ہی موثر ہے ۔ آپ کا کوئی بھی مسئلہ خواہ بے روزگاری ، ترقی ، کاروبار، صحت ، تعلیم ، تنگی رزق، ادائیگی قرض ، ترقی ملازمت ، سحر ، نظر بد ، پریشانی ، مقدمہ ، بچوں یا بچیوں کی شادی سے متعلق یا ان کے علاوہ ہو ۔ انشااللہ العزیز ، آپ کا ہر مسئلہ اللہ جل ّ شانہ کے اس پاک نام کی برکت سے یقینا حل ہوجائے گا ۔ پورے خشوع و خضوع ، مکمل آداب اور پوری ترکیب کے ساتھ عمل کریں ۔ بزرگان دین نے اسے حاجت روائی کے لیے بڑا ہی زور اثر اور عجیب عمل قرار دیا ہے۔ شب معراج یعنی 27، رجب کی شب طہارت ِ کا ملہ کے ساتھ بعد نماز عشاء گیارہ مرتبہ نماز والا درود شریف پڑھیں ، پھر اسم الہٰی ،’’یا لطیف ‘‘ کی ایک تسبیح پڑھیں جو ایک سو انتیس دانوں پر مشتمل ہو ۔ تسبیح مکمل ہونے پر سورۃ الانعام کی آیت 103پڑھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے ۔’’ اس کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے اور وہ نہایت لطیف اور خبر دار ہے۔ ‘‘ پھر سورۃ الشوریٰ کی آیت 19پڑھیں ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔’ ’ اللہ اپنے بندوں پر نرمی رکھتا ہے جس کو چاہے ، روزی دیتا ہے اور وہی زور آور زبردست ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد اپنے مقصد کی دعا اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ مانگیں ۔
اس شب مبارکہ میں قرآن مبارکہ میں قرآن پاک کی تلاوت ، درود شریف کی کثرت اور اپنے گناہوں پر آنسو بہانا چاہیے اس شب صلوٰۃ التسبیح پڑھنا بھی نہایت مستحسن ہے ۔ رب کعبہ سے دلی دعا ہے کہ وہ ہمیں اس شب مبارکہ کی خصوصی برکات سے سرفراز فرمائے ( آمین ثم آمین )۔
روحانی ڈائجسٹ جولائی 2010 سے انتخاب
معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر
جب میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامیﷺ کو رموز مشیّت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا۔
جب دنیائے انسانیت عقل و شعور کے لحاظ سے سنِ بلوغت کی حدود میں داخل ہوئی تو خالقِ کائنات کی منشاء کے مطابق اس امر کو ضروری سمجھا گیا کہ انسانی شعور کی علم کی بنیاد پر تکمیل کردی جائے اور اس اَمر کے لئے اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب، باعثِتخلیقِکائنات سیدناحضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات کو معبوث فرمایا۔
اس عدیم النظیر موقع پر میزبانِ حقیقی نے مہمانِ گرامی کو رموزِ مشیت اور اپنے قرب کی انتہا سے نوازا اور نظامِ ِکائنات کے راز ہائے درون پردہ سے آگاہ فرمایا۔ یہ عظیم الشان واقعہ درحقیقت اسلام کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی نوید بھی تھی۔ قرآن حکیم میں اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے۔
ترجمہ: ’’وہ ذات پاک ہے ، جو لے گیا راتوں رات اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔ تا کہ ہم اسے اپنی (قدرت) کی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔(سورہ بنی سرائیل)
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہﷺ کی بعثت کو بارہ سال پورے ہو چکے تھے۔ اس دوران رسول اللہﷺ اور آپﷺ پر ایمان لانے والے افراد دکھوں اور اذیّتوں کے بے شمار مراحل سے گزر چکے تھے۔ بہت سے اہلِ ایمان تو کفار کی اذیتوں کی تاب نہ لاکر جامِ شہادت بھی نوش فرماچکے تھے۔ رسول اللہﷺکا سفرِ طائف، کفارِ مکہ کی مسلسل ایذا رسانیاں اور شعب ابی طالب میں اذیت و کرب کے تین سال انہی تین سالوں کے دوران آپﷺ کے ہمنوا، ہمدرد و غمگسار چچا حضرت ابوطالب اورہمدم ودمساز زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا وصال پاہوا۔
انسانی شعور میں جتنی مشکلات و مصائب کے احساسات شمار کئے جاسکتے ہیں، اللہ کے محبوبﷺ صبر و برداشت کے ان تمام مراحل کوطے فرما رہے تھے کہ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو معراج کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
رجب کی ستائیسویں شب جب آپ اپنی چچا زاد بہن اُمَ ہانی کے گھر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اس سفر سے متعلق مشیّت ایزدی سے آگاہ کیا۔ پھر حضرت جبرائیلؑ آپ ﷺ کو چاہِ زم زم کے پاس لے گئے اور آپ کاسینہ چاک کر کے قلب اطہر کو باہر نکالا اور انوار وتجلّیات کے ذخیرہ میں مزید اضافہ کرکے دوبارہ سینہ میں محفوظ کردیا۔ پھر حرم سے باہر آئے تو بّراق موجود تھا چنانچہ بّراق کے ذریعہ اس سفر کا آغاز ہوا۔ خانہ کعبہ سے آپ جبرائیل امینؑ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ پہنچے، جہاں جملہ انبیاء علیہ السلام موجود تھے۔یہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے حضورِاکرم ﷺ کی اقتداء میں صلوٰۃ ادا کی۔ امام الانبیائ، باعثِ تخلیق کائنات، محبوب رب للعالمین سیدنا حضورﷺ جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے گئے، رسول اللہﷺ نے دودھ کاپیالہ پسند فرمایا، اس پر جبرائیلؑ نے کہا کہ ’’آپ ؐنے فطرت کو اختیار کیا‘‘۔
بعدازاں آپ ﷺ آسمانوں کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ پہلے آسمان پر ابوالبشر حضرت آدم ؐ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر حضرت عیسٰی ؑنے خاتم النبیین ﷺ کا استقبال کیا۔ تیرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں آسمان پر حضرت ہارون السلام اور چھٹے آسمان پرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے ’’بیت المعمور‘‘ کامشاہدہ کیا۔ ساتوں آسمان کے بعد سدرۃ المنتہی تک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے ہمراہ رہے اورپھر عرض کی کہ اس سے آگے مجھے اذنِِ سفر نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے بعدحضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خالق کائنات کی تسبیح وتقدیس فرمائی اور حجاب عظمت کا معائنہ کیا۔ پھر آپ ﷺ پر حجاب کبریا منکشف ہوا اور آپ ﷺ نے مقام محمود میں اللہ تبارکتعالیٰ کا دیدار کیا۔
سفر معراج کے دوران رسول اللہﷺ نے عالمِِبرزخ میں موجود ارواح کی کیفیات مشاہدہ کیں۔ جزا اور سزا سے متعلق مختلف مشاہدات کا ذکر سیرت رسولﷺ اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ یہاں چند مشاہدات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
یہاںرسول اللہ ﷺ نے مختلف قوموں کو دیکھا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ دورانِ سفر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینوں کو نوچتے کھسوٹتے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیاکہ یارسول اللہ ﷺ! یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کیا کرتے اور اپنے بھائی بندوں پر حرف گیری کیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جس کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے اور وہ کچلے ہوئے سر دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آجاتے تھے۔ اس کے بارے میں جبرائیل ؑنے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نمازوں سے غفلت برتتے ہیں۔ پھر شافع محشر، سرکارِ دو عالم ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں اور جو کٹنے کے بعد دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجاتی تھیں۔ ان کے بارے میں جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وغط ونصیحت کرتے تھے، دوسروں کو نیک کاموں کی طرف راغب کیا کرتے تھے لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تھے۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر رکھا تھا۔ مگر کوئی شخص اس کو اٹھا نے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اس کے باوجود وہ مزید لکڑیاں لا کر اس میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ آپ ﷺکے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا، یہ وہ اشخاص ہیں جن پر حقوق اور امانتوں کا بار ہے اور جس کو یہ ادا نہیں کر تے لیکن مزید اپنے آپ پر بوجھ لا د لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ معراج شریف میں بارگاہ ِرب العزّت سے محبوب خدا، حبیب کبریا ﷺ کو جو عطیات و انعامات مرحمت فرمائے گئے ،مفسرین کرام نے ان میں سے تین کا ذکر بطورِ خاص کیا ہے۔
1۔سورۃ البقرہ کی آخری آیات
2۔ اُمَت محمدیہ کی بخشش کا وعدہ۔ (مگر وہ لوگ جو شرک کے مرتکب ہوں گے اس انعام سے محروم رہیں گے)۔
3 ۔ دن میں پانچ وقت صلوٰۃ(نماز)کی فرضیت
سفرِ معراج سے واپسی کے بعد جب آپﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں سے سفر کی ابتداء کی تھی تو روایات مطابق دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور آپﷺ کا بستر بھی اُسی طرح گرم تھاکہ گویا آپ ﷺ ابھی بستر سیِاُٹھ کر تشریف لے گئے ہوں۔
صبح جب اس عطیم الشان واقعہ کو آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے بیان کیا تو کفار نے استہزاء کرنا شروع کردیا۔ ابوجہل کچھ لوگوں کے ہمراہ ابوبکر صدیق ؓکے پاس پہنچا اور ان سے سارا قصہ بیان کیا۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا ’’یہ بات سچ ہے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔ اس موقع پر قریش کے کئی لوگوں نے بھی مختلف سوالات کیے۔ ایک سردار نے تجارتی قافلوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تین قافلوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور ایک قافلہ کے بارے میں بتایا کہ وہ آج پہنچے گا۔ کفار نے بیضا کے مقام پر چند لوگوں کو تصدیق کے لیے بھیجا تو انہیں تیسرا قافلہ آتا ہوا نظر آگیا۔ باقی دو قافلے بھی وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے۔
ترجمہ: ’’تارے کی قسم! جب غائب ہونے لگے، کہ تمہارے رفیق (محمد) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش ِنفس سے کوئی بات کرتے ہیں مگر وہ جو وحی کی جاتی ہے۔ ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ،طاقتور نے۔ پھر وہ پورے نظرآئے اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھے۔ پھر قریب ہوئے اور قریب ہوئے۔ اور آگے بڑھے۔ تو دو کمانوں سے فاصلہ پر یا اس سے بھی کم۔ پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف وحی کی۔ دل نے جو دیکھا جھوٹ نہ دیکھا۔ پس تم اُس میں سے اُن سے جھگڑتے ہو۔ اور انہوں نے اُس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرۃ المنتہی کے پاس، اس کے نزدیک جنت الماوٰی ہے۔ اور سدرہ پرچھا رہا تھا۔ جو چھارہا تھا۔ ان کی آنکھ نہ تو اور توطرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔انہوں نے اپنے رب کی کتنی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔ (سورۂ النجم۔ آیت 1۔18 )
بلاشبہ معراج شریف کی رات اُمِت مسلمہ کے لیے خصوصی رحمتوں اور برکتوں کی رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت کی جانب سے اُمِت محمدیہ ﷺ کو جو انعامات وا کرامات عطا کیے گئے ان کا تسلسل آج بھی جاری وساری ہے اور اس رات کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے کے لیے بزرگان دین اور علمائے کرام نے عبادات کے مختلف طریقے اپنائے ہیں اور عوام الناس کے استفادہ کے لیے بھی کچھ طریقہ وضع کیے ہیں۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ فرماتے ہیںکہ ماہِ رجب کی پچیس تاریخ کو روزہ رکھا کرو۔ اس لیے کہ جو نعمت رسول ﷺ کو شب معراج میں عطا کی گئی۔ اس روز روزہ رکھنے والے کو اس نعمت میں سے حِصّہ ملتا ہے۔ آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص رجب میں ہزار بار حسبِ ذیل استغفار پڑھے گا تو حدیث ِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ میں اپنے کرم سے اُس کو بخش دوں گا،استغفار کے کلمات یہ ہیں۔
اسْتَغْفِرُ اللَّهَ ذَا الْجَلالِ وَالْإكْرامِ مِنْ جَميعِ الذُّنُوبِ وَالْآثامِ
اس کے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیا ء ؒنے فرمایا کہ ماہِ رجب میں ایک نماز درازئیِ عمر کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ اگر کوئی آخر رجب میں یہ نماز ادا کرتا ہے اور اس کا مقصد درازیِ عمر ہوتا ہے تو اسے زیادہ عمرملتی ہے۔ اس نمازکا طریقہ یہ ہے۔
بارہ رکعت تین سلاموں کے ساتھ پڑھے۔ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک بار، سورئہ اخلاص تین بار اور سلام پھیر نے کے بعد دس مرتبہ یہ دُعا پڑھے۔
یَااَجْلِ مِنْ کُلّ جَلِیْل وَ یَا اعَزمِنْ کُلّ عَزِیْز یَا اَحَد خَیْر مِنْ کُلّ اَحَدْ اَنْتَ رَبّیِ لَا رَبّ لِی سِوَاْکَ یَا غِیاثْ اِلْمُسْتَغْیثِیْن وَ رِجَاھُم اَغِثْنَی بِفَضْلِکَ وَمَدفیِ عُمَریِ مَداَ طَوِیٰلاَ وَاعَطَنِی مِنّ لُدّنِکَ عُمَرًاَ فِیْ رَضَاکَ بِرَحْمِتکَ یَا کَریِمُ یِاوَھَابْ۔
(سیرالاولیاء از امیر خورد۔ مترجم: اعجازالحق قدوسی۔ صفحہ نمبر597)
معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے شب معراج کی عبادت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے:
’’اس رات ادب اور احترام سے تمام آداب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یاحی یا قیوم اور درود شریف پڑھنا چاہیے۔
احادیث مبارکہ میں ملتا ہے حضور پاک ﷺ کثرت سے نوافل ادا کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ اتنی طویل رکعتیں ادا کرتے تھے کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ شب معراج میں حسبِ استطاعت زیادہ سے زیادہ نوافل قائم کریں۔ جب مومن پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو غیب اس کے مشاہدے میں آجاتا ہے۔ ہمیں حضور پاک ﷺ کی محبت اپنی زندگی میں داخل کرنی چاہیئے۔ شب معراج بڑی بابرکت گھڑی ہے۔ اس ساعت اپنے گناہوں کی سیاہبختی دور کرکے اس پردے کو ہٹانا چاہئے جو محدودیت اور شقاوت کا باعث بن گیا ہے‘‘۔
(کتاب ’’اللہ کے محبوب ﷺ‘‘، ازخواجہ شمس الدین عظیمی۔ صفحہ 230 )
روحانی ڈائجسٹ اگست 2006 سے انتخاب
سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون
حضرت ابوبکرؓ نے ہی سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ذکر تلقین کیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے آپؓ کو ’’امام تصوف‘‘ لکھا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کا سلسلہ امام جعفر صادق ؒ کے واسطے سے حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے۔
ایک مرتبہ دربار رسالت مآبﷺ میں صحابہ کرام ؓ اس طرح موجود تھے گویا شمع کے گرد پروانے….
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا ’’آج تم میں سے کس کا روزہ ہے؟‘‘….
سب خاموش رہے۔ ایک صاحب نے اس حکم پر عجزو انکساری کے ساتھ عرض کیا ’’ حضورؐ میں روزے سے ہوں ‘‘
پھر آپ ﷺ نے پوری مجلس پر نظر دوڑاتے ہوئے فرمایا ’’ تم میں سے کس کس نے آج مسکین کو کھانا کھلایا؟‘‘….
پھر وہی صاحب کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے تیسری مرتبہ دریافت فرمایا ’’کسی نے آج مریض کی عیادت کی؟‘‘….
اس پر بھی اُنہی صاحب کا جواب اثبات میں آیا۔
پھر دریافت کیا گیا ’’کوئی جنازے کے ساتھ چلا؟‘‘….
وہی صاحب دوبارہ کھڑے ہوئے اور عاجزی سے بولے ’’حضورﷺ میں جنازے کے ساتھ چلا‘‘….
یہ سُن کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو ایک دن میں اس قدر نیکیاں جمع کرلیتاہو وہی یقینا جنت میں جائے گا‘‘….
یہ صاحب جو بار بار کھڑے ہوکر ارشادِ نبویؐ پر اقرار کررہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓتھے….۔
صدق و صفا، زہد و تقویٰ، تواضع اور معرفت کا خزینہ یارِغارحضرت ابوبکر صدیق ؓ….۔
رنگ گورا، جسم دبلا پتلا، گھونگھریالے بال خشخشی داڑھی، رقیق القلب اور سادہ طبیعت کے مالک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا شمار قبل از اسلام قریش کے رئووسا میں ہوتا تھا۔ مال و دولت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق، ہمدردی، وسعتِ معلومات، دانشمندی اور معاملہ فہمی کی امتیازانہ صفات کے حامل ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں محبوب اور معتمد تھے۔ ناصرف ماضی کے قصوں سے واقف تھے بلکہ دنیا کے موجودہ حالات سے تجارت کے سفر کے ذریعے آگاہ تھے۔ آپؓ کی صفات کی شہرت مکہ کے نواح تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ عرب کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی آپؓ کی اخلاقی خوبیوں سے لوگ واقف تھے۔
کشف و کرامات:
گوکہ صحابہ کرام ؓ طبعاً کشف وکرامات کے اظہار سے گریز کیا کرتے تھے لیکن جس طرح عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا اسی طرح بحرِروحانیت و معرفت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیضیاب ہونے والے صحابۂ کرامؓ میں نور نبوت کا جھلکنا بھی لازمی ہے۔ انبیائے کرام ؑ سے کوئی خرق عادت صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں اور انبیاء کے ورثاء سے صادر ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔صحابۂ کرامؓ میںحضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ممتاز مقام حاصل تھا اس لئے تمام تر احتیاط کے باوجود آپ ؓ سے بھی چند کرامات صادر ہوئیں ۔
ایک مرتبہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس سے چند افراد کو حضرت ابو بکر ؓ بطور مہمان اپنے گھر لے آئے۔ رات کے وقت کھانا شروع ہوا تو سب مہمانوں نے خوب سیر ہوکر کھانا تناول کیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانے کے برتن میں سے لقمہ اُٹھاتے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اُس سے زیادہ کھانا برتن میں بڑھ جاتا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ گیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ برتن لے کر مسجد نبوی میں چلے گئے۔ وہاں بارہ وفود آئے ہوئے تھے۔ ہر وفد میں بہت سے لوگ تھے ۔ ان سب لوگوں نے اسی برتن سے کھانا کھایا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔
ایک اور مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر ؓ کا آخری وقت نزدیک آیا تو آپ ؓ نے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کو بلوایا اور یہ وصیت فرمائی ’’میری پیاری بیٹی!….۔ میرے پاس جو مال تھا وہ آج وارثوں کا ہوگیا ہے۔ تمہارے دونوں بھائی عبد الرحمن و محمد اور تمہاری دونوں بہنیںاس مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق آپس میں تقسیم کرلینا‘‘….۔ حضرت عائشہؓ نے حیرت سے کہا ’’ ابا جان میری تو ایک ہی بہن اسماء ہیں۔ یہ دوسری بہن کون ہے؟‘‘….۔۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا ’’تمہاری یہ بہن میری زوجہ بنتِ خارجہ کے بطن سے پیدا ہوگی‘‘۔
آپ ؓ کے انتقال کے بعد یہ بات اسی طرح پوری ہوئی۔ حضرت بنتِ خارجہ ؓ سے ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی جس کا نام اُم کلثوم رکھا گیا۔
علامہ تاج الدین سبکی تحریر کرتے ہیں’’اس واقعہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دوکرامات ثابت ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ آپؓ کو پہلے سے یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض کے باعث دنیا سے رحلت کروں گا۔ دوم یہ کہ زوجہ محترمہ سے لڑکی ہی کی پیدائش ہوگی‘‘۔
کمال استغنا:
روحانیت کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ ماسوائے اللہ کے ہر چیز کی نفی کردی جائے۔ نفی کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکل جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو ثانوی حیثیت دے دی جائے۔ وہ جو کچھ دیکھے اللہ کے تناظرمیں دیکھے ، جو کچھ سوچے پہلے اس کا ذہن اللہ کی طرف جائے ۔ اسے استغنا کہا جاتا ہے جو صفت صمدیت کا عکس ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ دولت استغنا سے مالا مال تھے۔ اُنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے علاوہ ہر چیز کی نفی کردی تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو ایک جنگ کے لئے عطیات جمع کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ’’مجھے خیال گزرا کہ آج میںابو بکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ اپنا نصف مال لے کر بارگاہ نبوتﷺ میں پیش کردیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا ’’تم نے اہل وعیال کے لئے کتنا مال رکھا ہے؟‘‘….۔
میں نے عرض کیا اتنا ہی جتنا یہا ں مال پیش کیا ہے….۔ لیکن اسی وقت حضرت ابو بکرصدیق ؓ اپنا کُل سرمایہ لئے حاضر ہوئے۔ آنحضور ﷺ نے وہی سوال دہرایا کہ تم نے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے تو اُنہوں نے عرض کیا ’’ اُن کے لئے خدا اور اس کا رسولﷺ ہے‘‘۔
اس بات سے میں نے جان لیا کہ میں کبھی ابو بکرؓ سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘۔
حضرت داتاگنج بخش ؒ تحریر کرتے ہیں’’ جب خدا تعالیٰ بندہ کو کمال صدق پر پہنچادیتاہے اور عزت کے مقام پر اُسے متمکن کردیتا ہے تو وہ امر الٰہی کے وارد ہونے کامنتظر رہتاہے کہ وہ کس طور پر نازل ہوتا ہے چنانچہ وہ امر الٰہی کے مطابق ہوجاتا ہے….۔ اگر حکم آتا ہے کہ وہ فقیر ہو جائے تو وہ فقر اختیار کرلیتا ہے۔ اگر حکم ہوتا ہے کہ امیر ہوجائے تو امیر ہوجاتا ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی تصرف نہیں کرتا۔ جیساکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ابتدا سے انتہا تک سوائے تسلیم امر حق کے کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کی کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کے عموماً اور اہلِ طریقت کے خصوصاً امام اور پیشوا ہیں‘‘۔
حضرت داتا صاحب مزید تحریر کرتے ہیں ’’حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنی ایک مناجات میں فرمایا اے اللہ! ….۔ میرے لئے دنیا فراغ کردے اور مجھے اس سے زاہد بنادے….۔
پہلے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ دنیا مجھ پر فراغ کردے اور پھر فرمایا مجھے اس کی آفت سے محفوظ رکھ۔ اس میں ایک رمز یہ ہے کہ پہلے مجھے دنیا عطافرما تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں پھر اس بات کی توفیق بخش کہ محض تیری خوشنودی کے لئے اس کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا درجہ بھی حاصل کروں‘‘۔
روحانی علوم کی منتقلی:
روحانی علوم کاغذ قلم سے نہیں سیکھے جاتے بلکہ یہ علوم منتقل ہوتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ دربار رسالتؐ کے حاضر باش صحابی تھے ۔ آپ ؓ کا قلب اطہر نور نبوت سے لبریز تھا اور رسول اللہ ﷺ نے معرفت کے نور سے اپنے اس جانثار ساتھی کاباطن روشن کردیا تھاچنانچہ روحانی علوم کی اس منتقلی کا واضح اشارہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس طرح فرمایا ’’ ابوبکر….۔ تم سے نماز اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے افضل نہیں ہیں بلکہ ایک راز کی وجہ سے افضل ہیں جو اُن کے سینے میں ڈالا گیا ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر فرمایا ’’ میرے رب نے جو کچھ میرے دل میں ڈالا وہ میں نے ابوبکر کے قلب میں ڈال دیا‘‘۔
سرچشمہ ٔ روحانیت اور راز کنائے حقیقت ومعرفت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے معرفت کے جام نوش کرنے کے باوجود حضرت ابوبکر ؓ صحو کے بجائے سکر میں زیادہ رہتے۔ سرورِ عشق کو مدہوشی میں تبدیل کرکے افشائے راز کو کبھی پسند نہ فرمایالیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں باطن کی دنیا ظاہری دنیا میں بھی اپنا اثر دکھا دیتی چنانچہ قیام صلوٰۃ کے دوران خشیت الہٰی سے اتنے بے قابو ہوجاتے کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں۔ انوارو تجلیات کا اثر اتنا ہوتا کہ وہاں موجود خواتین اور بچوں پر بھی رقت طاری ہوجاتی۔ بعض اوقات نماز میں انتہائی بے حس و حرکت ہوجاتے، چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتااور دیکھنے والا اندازہ کرلیتا کہ آپ ؓ اس وقت حضوری کی کیفیت میں ہیں۔
قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو انوار کا اتنا ہجوم ہوجاتا کہ دل گداز ہوکر خشیت میں ڈوب جاتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، اسرارالٰہی کھل جاتے اور قرآن کے معانی سامنے آنے لگتے۔ بعض مواقع پر اس قدر پھوٹ پھوٹ کر روتے کہ آس پاس لوگ جمع ہوجاتے۔
عشق رسول ﷺ:
حضرت صدیق اکبرؓ عشق رسولؐ کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے۔ جب واقعہ معراج پیش آیااور رسول اللہﷺنے اہل مکہ سے بیان فرمایاکہ آپ ﷺ رات میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے تو یہ بات سُن کر مشرکین کے لئے ایذاء رسانی کا نیا موقع ہاتھ آگیا۔
ابوجہل نے ابوبکر ؓ کو روک کر پوچھاکہ کوئی آدمی ایک ہی رات میں اتنا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا ’’کس لئے پوچھتے ہو‘‘….۔ تواس نے کہا کہ محمد (ﷺ ) آج یہی کہہ رہے ہیں۔
یہ سُن کر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا ’’ اگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے تو یہ بات بالکل سچ ہے۔ جب اللہ آسمان سے چند لمحوں میں وحی نازل کرسکتاہے تو رسول اللہ ﷺ کو لمحہ بھر میں زمین سے آسمانوں تک سیر کرانے میں کیا چیز مانع ہے؟‘‘….۔
یہ بات سُن کر ابوجہل بغلیں جھانکنے لگا۔
ہجرت مدینہ کے وقت یار غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ آنحضور ﷺ جب غار ثور میں تشریف لائے توحضرت ابوبکرؓ نے پہلے خود داخل ہوکر سارے سوراخوں کو بند کردیا پھر آنحضرت ﷺ سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ غار میںاپنے رفیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر مشغول استراحت ہوگئے۔ اتفاقاً اسی جگہ ایک سوراخ بند ہونے سے رہ گیا تھا۔ اس سوراخ میں ایک زہریلا سانپ تھا….۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سوراخ کو اپنی ایڑی رکھ کر بند کردیا۔ سانپ نے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائی تو پاؤں پر ڈس لیا ۔ سانپ کا زہر اثر کرنے لگا۔ درد و کرب سے حالت متغیر ہونے لگی لیکن اس وفاشعار رفیق نے اپنے جسم کو حرکت نہ دی کہ کہیں آپ ﷺ کے آرام میں خلل پیدانہ ہو۔ تکلیف سے بے حال ہونے لگے تو اس کا اثر آنکھوں سے آنسو کے قطرے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ قطرہ ٔ چشم آنحضرت ﷺ کے چہرئہ انور پر ٹپکا جس سے حضور ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ ﷺ نے اپنے مخلص غمگسار کو بے چین دیکھا تو وجہ دریافت فرمائی۔
عرض کیا’’ سانپ نے ڈس لیا ہے‘‘۔
آنحضرت ﷺ نے اسی وقت اس مقام پر اپنا لعاب دہن لگادیا اور فوراً ہی زہر کا اثر دور ہوگیا۔
مزاج آشنائے نبوت: سیدنا حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اپنے آخری ایام میں ارشادفرمایا ’’اللہ نے اپنے بندے کو یہ حق دیاہے کہ چاہے وہ دنیا کو اختیار کرے چاہے آخرت کو لیکن اس بندے نے آخرت میں اللہ کے قرب کو اختیار کیا‘‘۔
یہ سُن کر حضرت ابوبکر ؓ جان گئے کہ رسول اللہ ﷺ خود اپنا ذکر فرمارہے ہیں اور زار و قطار روئے یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں ۔ لوگ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کیوں رونے لگے ۔ اسی کیفیت میں انہوں نے حضور ﷺ سے فرمایا ’’یارسول اللہ ﷺ!…. ہماری جانیں اور اولاد آپ پر قربان ہو۔ ہم آپ ﷺ کے بعد زندہ کیسے رہیں گے؟‘‘….۔
نبوت کا چھیالیسواں حصہ :
حضرت ابوبکر ؓ کو بحر نبوت سے خواب کی تعبیر کا علم بھی منتقل ہواتھاجسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا خواب صحابہ کے سامنے بیان فرمایا اور امتحان کے طور پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا کہ اس کی تعبیر بتائیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ مجھے حلوے کا ایک لقمہ دیاگیاجب میں نے اس کو نگلنا چاہاتو وہ میرے حلق میں پھنس گیااس کے بعد علی نے اپنا ہاتھ ڈال کر اسے نکالا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپﷺ کی ایک جنگی مہم (سریہ) میں سے ایک مہم ہے۔ اس میں بعض پسندیدہ چیزیں پیش آئیں گی اور بعض میں رکاوٹیں پیش آئیں گی پھر علی کو بھیجیں گے تو وہ اسے آسان بنادیں گے۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ نے ہی سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ذکر تلقین کیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے آپؓ کو ’’امام تصوف‘‘ لکھا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کا سلسلہ امام جعفر صادق ؒ کے واسطے سے حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے۔