Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

سوچ کی طاقت سے اپنی شخصیت مضبوط بنائیں

سوچ کی طاقت کمزور قوتِ ارادی کو مضبوط بناسکتی ہے….

 

ماہرین کے مطابق  ول پاور    یا قوت ارادی  ایک محدود  ذریعہ  ہے۔ ایک ایسے کیش کے مانند ہے جس کے لیے آپ پورے مہینے ان تھک محنت کرتے ہیں اور جو ختم ہونے میں  چند دن بھی نہیں لیتا۔ لیکن نیوسائنٹسٹ  میگزین  میں شایع ہونے والی حالیہ ریسرچ کے مطابق  ہمارے سیلف کنٹرول کا لیول ایک ایسا قابل تجدید ذریعہ ہے  جو ہماری طاقت کو اس وقت تک بڑھانے میں مدگار ثابت ہوتا ہے جب تک ہم چاہتے ہیں ۔  

اس مضمون کی تیارمی میں درج ذیل مضامین سے مدد لی گئی ہے:

 

قوتِ ارادی کیا ہے ….؟
ارادہ کا پکا ہونا، جو ارادہ کیا اسے تکمیل تک پہنچانا
آج کے اس تیز ترین اور ترقی یافتہ دور میں بھی جہاں انسان کے ہر کام کے لیے ، چاہے جسمانی ہوں یا پھر ذہنی ، انتہائی تیز ترین الیکٹرانک ڈیوائسس موجود ہیں۔ چاہے میں ہوں ، آپ ہوں یا پھر کوئی اور ، جب تک زندہ ہیں ہمیں ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے صرف کام ہی نہیں بلکہ بے انتہا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیسے ….؟
طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک تو ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ ہم بس گھر پہنچ جائیں یہی کافی ہے۔
تو پھر وہ لوگ کس مشین ہماری مراد مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ہماری آسانی کے لیے کمپیوٹر، ٹی وی ، اینڈرائیڈ فونز ، جیسی بے شمار چیزیں ایجاد کر لی ہیں۔ وہ کونسے لوگ جنہیں بس ہم ٹی وی یا پھر نیٹ پر دیکھ کر اسپیس کی ، یا چاند کی معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ کیا وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں یا پھر وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جو تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
اُن میں ایسا کیا ہے جو ہم میں نہیں۔ اگر وہ آگے بڑھنے کے خواب دیکھتے ہیں تو خواب تو ہمارے بھی ہیں، لیکن ہم کیوں انہیں پورا کرنے سےقاصرہیں…. ؟
ماہر نفسیات اس بات کا جواب ایک عرصے سے دیتے چلے آرہے ہیں ، یعنی ان ساری سوالوں کا جواب اصل میں انسان کی ‘‘وِل پاور ’’ میں پوشیدہ ہے۔
ماہرن کے مطابق ول پاور یا قوت ارادی ایک محدود ذریعہ ہے۔ ایک ایسے کیش کے مانند ہے جس کے لیے آپ پورے مہینے ان تھک محنت کرتے ہیں اور جو ختم ہونے میں چند دن بھی نہیں لیتا۔ لیکن نیوسائنٹسٹ میگزینG میں شایع ہونے والی حالیہ ریسرچ کے مطابق ہمارے سیلف کنٹرول کا لیول ایک ایسا قابل تجدید ذریعہ ہے جو ہماری طاقت کو اس وقت تک بڑھانے میں مدگار ثابت ہوتا ہے جب تک ہم چاہتے ہیں ۔
سنگاپور میں قائم نان یانگNanyang Technological University کے اسٹنٹ پروفیسر کرشنا سیوانی Krishna Savani سمجھانے کے لئے گاڑی کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنی قوت ارادی کو گاڑی میں موجود پیٹرول نہ سمجھے جو مقررہ مقدار کی وجہ سے ایک مخصوص فاصلہ طے کرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ بلکہ اسے گاڑی کی بیٹری سمجھیں جسے آپ جتنا چلائیں گے وہ اتنی ہی زیادہ چارج ہوگی اور نہ چلائیں تو ڈاؤن ہو جاتی ہے ۔ اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے بعد آپ کے ارتکاز کی طاقت اتنی ہی محدود ہوگی جتنا کہ آپ سوچیں گے۔ یعنی بات صرف اور صرف اپنے ذہن کو سمجھانے کی ہے۔
چالیس سال سے زائد عرصے قبل اسٹین فورڈ Stanford یونیورسٹی کی ماہر نفسیات کیرل ڈویک Carol Dweck کی توجہ اسکول کے بچوں کی جانب مبذول ہوئی کہ کس طرح یہ معصوم بچے اپنے اسکول میں ہونے والی مختلف ناکامیوں کے باوجود اپنا ٹارگٹ پورا کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ ذرا سی ناکامی پر فورا ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کچھ اپنی کوششوں میں مزید تیزی لے آتے ہیں۔

کیرل کے مطابق پیچھے ہٹنے والے یا ہار ماننے والے بچے اسکول میں مناسب گریڈز لینا تو دور کی بات وہ اپنے کیریر میں بھی کچھ نہیں کرپاتے ۔ ان کے مطابق جو بچے انتہائی حوصلہ مندی سے آگے بڑھنے کی جستجو کرتے ہیں وہ نہ صرف بہترین گریڈز سے پاس ہوتے ہیں بلکہ اپنے کیریر میں بھی شاندار مقام حاصل کرلینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے 

ہمارا مائینڈ سیٹ دراصل ہمیں اپنی زندگی میں مشکلات کا حل نکالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور 2006ء میں کیرل نے اپنے اسی خیال کو ایک کتاب Mindset کی شکل دے کر اس وقت کی نہ صرف بیسٹ سیلر کا اعزاز ملا، بلکہ ان کی TED پریزنٹیشن کو پوری دنیا میں تقریبا 6 ملین لوگوں نے براہ راست دیکھ کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔
کیرل ڈویک کا کہنا ہے کہ کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے مائنڈ سیٹ یا سوچ کی مستقل نشونما کے ساتھ ساتھ سیلف ڈسپلین کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جس کی بنیاد پر اس حقیقت کو سمجھنا آسان ہوگا کہ اصل میں قوت ارادی کیا ہے؟ اور کیوں ہم سے کچھ لوگ نہایت مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے اندر موجود صبر کا مادہ بھی ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یعنی کچھ اچھا اور بامقصد پانے کے لیے انتظار کرنا فائدہ مند ہی ثابت ہوتا ہے۔ جلد بازی سے سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اگر حاصل ہو بھی جائے تو اس میں وہ سکون اور اطمینان شامل نہ ہوگا جس کے متلاشیہوتے ہیں۔


1960ء میں والٹر میشیل Walter Mischel کے کیے گئے ایک نفسیاتی ٹیسٹ یا تجربے کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اس تحقیقیاتی مطالعے کے لئے انہوں نے 4سے 6 سال کی عمر کے بچوں کا انتخاب کیا۔تجربے میں انہوں نے ہر بچے کے آگے ایک ایک Marshmallow رکھا اور ان سب کو یہ کہہ کر 15 منٹ کے لیے اکیلا چھوڑدیا گیا کہ اگر ان کے واپس آنے تک یہ Marshmallow ایسے ہی موجود رہی تو انہیں انعام میں مزید 2 Marshmallow دی جائیں گی۔ یعنی انتظار کی صورت میں ان بچوں کا ایوارڈ ایک کی بجائے دومارش میلو کی صورت میں سامنے آیا۔اور بچوں نے دو مزید مارش میلوز کے لئے انتظار بھی کیا اور یہی اصول ہماری عام زندگی پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔


جو لوگ ابتداء ہی سے اپنی زندگی کے ہرمرحلے میں سیلف ڈسپلن اور سیلف کنٹرول سے کام لینے کی عادی ہوجاتے ہیں وہ یقینا اپنی تعلیم ، اپنے کیریر اور دیگر معاملات میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
حال ہی میں نیوزی لینڈ میں ہزار لوگوں پر کیے جانے والے مشاہدے کے مطابق جو بچے ابتداء ہی سے اپنی زندگی سیلف ڈسپلن اور سیلف کنٹرول کے بغیر گزارنے کے عادی ہوتے ہیں وہی بچے آگے جا کر معاشرے میں بے روزگاری ، غربت اور جرائم جیسے اسباب کا باعث بنتے ہیں۔

کیاگلوکوز کی کمی قوتِ برداشت کی کمی کا باعث بن سکتی ہے ؟

ایک خیال کے مطابق قوت برداشت انتہائی محدود زریعہ ہے جسے ego-depletion theory کہا جاتا ہے۔سوشل سائنٹسٹ روئے بومیسٹر Roy Baumeister کے مطابق دراصل برداشت کے معاملے میں لوگوں کی اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق واضح فراق نظر آتا ہے۔ جس کی وضاحت مینٹل فیول کے نام سے کی گئی ہے یعنی ہر انسان اپنی ذہنی طاقت کے حساب سے ہی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے 1998ء میں کلیولینڈاوہایو Cleveland , Ohio میں قائم ویسٹرن ریسرو یونیورسٹی Western Reserve University میں کچھ لوگوں کو مشکل الفاظوں پر مشتمل ایک سیریز حل کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس تجربے میں جن لوگوں کو مطلوبہ ٹاسک نہایت آسان لگا یعنی ان کے دماغ نے اس کام کو بڑی آسانی سے کر لیا ۔ انہی لوگوں کی پرفارمنس بپت تیزی سے نیچے گرتی نظر آئی جب ان سے پہلے ٹاسک سے قدرے مشترک دوسرا ٹاسک کرنے کو کہا گیا۔
اس تجربے کے بعد بومیسٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ قوت ارادی دراصل ایک ایسے مسلز Muscle کی مانند ہے جو اپنی طاقت سے زائد استعمال ہوجانے پہ تھک جاتا ہے۔روئے بومیسٹر اور ان کے ساتھیوں کے مطابق اسے گلوکوز ایفیکٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ذہنی مشقوں کے دوران ہمارے دماغ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے اور اسے مینٹل فیول یعنی گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے اگر مناسب مقدار میں نہ ملے تو وہ تھک جاتا ہے ۔
لیکن 2012ء میں دی امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن The American Psychological Association نے قوت ارادی کی نفسیات کے بارے میں اس حقیقت کو شائع کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اسنیکس کا استعمال ہمیں will power depletion کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا کہ اصل میں گلوکوز ہی وہ زریعہ یا سورس ہے جو قوت ارادی کو کمزور کرنے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔
اس بات کو بھی کئی ریسرچرز نے براہ راست چیلنچ کیا، دوسری کئی تحقیقات کے ساتھ جارجیا یونیورسٹی University of Georgia کے میتھیو سینڈرز Matthew Sanders اور آسٹریلیا مین قائم کرٹن یونیورسٹی Curtin Universityکے مارٹن ہیگر Martin Hagger نے بھی جب اپنے تجربے میں والنٹیرز کو کچھ ذہنی مشق کرنے سے پہلے شکر سے بنے ہوئے مشروب سے غرارے کرنے کو کہا تاکہ وہ ego depletion سے محفوظ رہ سکیں اور اپنی مشق کو باآسانی پورا کر سکیں۔ اس تجربے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے مشروب کو صرف غرارہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور فورا تھوک دیا ۔ یعنی شکر کی مٹھاس صرف منہ میں ہی رہی اور اسے میٹابولائیزڈ ہونے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اور ایسا بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جتنی دیر شکر رضاکار کے منہ میں رہی اتنی دیر میں شکر کی مٹھاس نے ذہن کے ان حصوں کو متحرک کردیا ہو جو انعام حاصل کرنے کی خوشی میں زیادہ محنت کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔
لیکن اس تجربے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں کہ انتہائی سخت یا محنت طلب ذہنی مشق پورا کرنے کے لیے مینٹل فیول یعنی گلوکوز کا ہونا لازمی ہے ۔

حوصلہ افزائی قوتِ ارادی بڑھاتی ہے

مزید تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ صرف لوگوں سے یہ کہنا کہ Yes You Can، آپ یہ کام ضرور کر سکتے ہیں ، قوت ارادی بڑھانے میں نہایت معاون ثابت ہوتاہے۔
تجربے سے بھی سامنے آئی ہے کہ جن لوگوں نے اس بات کا جواب نہایت مثبت انداز مین دیا انہوں نے 20 منٹ پر مشتمل نہایت سخت ذہنی مشق کو نہایت کامیابی سے مکمل کیا ، اور جن لوگوں کے مطابق قوت ارادی کو محدود حد تک ہی استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ لوگ مطلوبہ مشق کو مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ محنت طلب کاموں کے اختتام پر اگر انعام کی امید ہوجس کی ایک صورت کیش بھی ہو سکتا ہے ، ego depletionکے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت معان ثابت ہوتا ہے۔اس بات کا مقصد دراصل اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ہے کہ

There’s a will there’s a way ۔No More Excuse



نہ کرنے کے سو بہانے بن سکتے ہیں :

انڈیا میں کی گئی حالیہ تحقیق کے مطابق ذہنی مشقیں ہمیں تھکانے کی بجائے انرجائیز کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوتی ہیں۔اسی بات کی وضاحت کے لیے کرشنا سیوانیKrishna Savani اور ویرونیکا جابVeronika Job مل کر بچوں اور ٹین ایجرز پر مشتمل گروپس کو ایک اندھیرے کمرے میں اپنی تمام تر توجہ ایک موم بتی کی لو پر لگا نے کو کہتے ہیں ۔ اس ذہنی مشق کا دورانیہ تقریبا 20 منٹ کاتھا، جس کے دوران انہیں نہ تو اپنی پلکیں جھپکنی ہیں اور نہ ارد گرد دیکھنا ہے۔بس اپنی تمام تر توجہ اس موم بتی پہ رکھنی ہے۔ کرشنا کے مطابق اس مشق سے ان بچوں اور ٹین ایجرز میں اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پہ مرکوز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔
یونیورسٹی اسٹوڈنٹس پہ کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق جن کے خیال میں قوت ارادی محدود نہیں بلکہ لامحدود ہے ، اپنے امتحانات کے وقت وہ نہ صرف خوش رہے، بلکہ اسٹریس سے بھی دور رہے۔ ان تمام اسٹوڈنٹس جنہوں نے اپنے اہداف مقررہ وقت پہ حاصل کرنے کے لیے ڈائری لکھی ، بلا شبہ انہیں درمیان میں آنے والی تمام مشکلات کے باوجود اپنے ٹارگٹ کو پا لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
مختصراً یہ کہ کام کتنا بھی ذیادہ کیوں نہ ہو ، اسے پورا کرنے کا تعلق صرف اور صرف آپ کی لگن پر منحصر ہے ۔ آپکی ول پاور آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ بات صرف اور صرف اپنے ذہن کو سمجھانے کی ہے۔ چارلس ہینل کے مطابق سوچ کی طاقت وہ متحرک طاقت ہے جو جامد ذہن کو متحرک ذہن بناتی ہے۔یعنی ہماری سوچ ایک زندہ حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اپنے ہر عمل پہ یعنی ہماری ہر لمحہ سوچ پر ایک خاص فریکیونسی کی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔آپ کی سوچ اور کسی کام کے بارے میں آنے والا خیال بتاتا ہے کہ آپ کامیاب ہوں گے یا ناکام۔
سوچ کی طاقت اصل میں اپنے آپ کو پانے کی کنجی ہے۔ اپنی اس ظاہری اور مادی دنیا میں ہم جتنے بھی اثرات دیکھتے ہیں۔ وہ دراصل ہماری اندر کی سوچ کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں، اور یہی اصل میں سوچ کی طاقت کا نچوڑ ہے۔دوسرے انداز سے دیکھیں تو ہماری زندگی کے حالات دراصل ہماری اجتماعی سوچ اور عقائد کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بقول جیمز ایلن کہ حالات انسان کو نہیں بناتے وہ تو اصل انسان کو سامنے لاتے ہیں۔فانینس کے معاملات ہوں یاصحت کے،یا پھر رشتے داریاں ، آپ کی سوچ، آپ کے خیالات ، آپ کا یقین آپ کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس مادی دنیا میں ہم جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں اس کی ابتداء اس پوشیدہ جگہ سے ہوتی ہے جس سے ہم نا واقف ہوتے ہیں، اور وہ پوشیدہ جگہ اصل میں ہمارے اپنے اندر کی دنیا ہوتی ہے، ہماری اصل ہوتی ہے جہاں سے ہمارے تمام خیالات ، ہماری سوچ کی ابتداء ہوتی ہے۔اپنی قسمت کا مالک بننے کے لیے ہمیں اپنی سوچ پر کنٹرول کرنا ہوگا، ایسا کرنے سے ہم اپنی زندگی میں ان تمام چیزوں کو لا سکتے ہیں جن کے ہم خواہشمند ہوتے ہیں۔
بیرونی دنیا میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اندر کی دنیا میں تبدیلی لائیں، اور لوگ یہیں غلطی کرتے ہیں، وہ ہمیشہ بیرونی حالات سے زور آزمائی کرتے ہیں، جو کہ لا حاصل ہے ، یا پھر شاید وقتی حل۔ بیرونی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوتے جب تک ہم اپنی سوچ میں تبدیلی نہ لائیں۔ ایک اچھی، صحتمند، خوشحال اور کامیاب زندگی گزرانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دماغ کو منفی اور خوف میں مبتلا سوچ سے آزاد رکھیں۔ جو کامیابیاں آپ اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں اپنے شعوری دماغ کو اس سوچ کی جانب راغب کریں۔پانی اسی چیز یا گڑھے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں اسے ڈالا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارا دماغ ہے ہم جو منظر اپنی سوچ کے زریعے اس میں ڈالیں گے وہ اسی کا مشاہدہ ہمارے سامنے لے آتا ہے۔بس یہی وہ طریقہ ہے جس کے زریعے آپ ایک نئی زندگی کی شروعات کر سکتے ہیں۔دراصل ہماری سوچ بھی اصل میں توانائی ہے۔ولیم والکر کہتے ہیں کہ جہاں ذہن ایک جامد توانائی ہے وہاں سوچ ایک متحرک توانائی ہے یعنی ایک ہی چیز کے دو رخ۔
اگر آپ کی زندگی میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی ہے اور آپ اس میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو اس کمی کی وجہ تلاش کرنا ہوگی، اور یہ تلاش آپ کیے اسی ذہن پر آکر ختم ہوگی جس کا غلط استعمال یعنی منفی سوچ اس کمی کی وجہ بنا۔ یعنی ہمارے سوچنے کا انداز ہماری زندگیوں پر یقیناً اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم ایک ہی وقت میں منفی اور مثبت دونوں انداز سے نہیں سوچ سکتے۔ ان میں سے کوئی ایک پہلو، ہمیشہ دوسرے پر غالب رہتا ہے۔ دماغ سوچ سے بننے کا عادی ہوتا ہے۔ یعنی ہم جیسا سوچیں گے ہمارا دماغ ویسا ہی بننا شروع ہو جائے گا۔ تو یہ اب ہمارے ہاتھ ہے کہ ہم اپنے دماغ میں کس پہلو کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں، مثبت یا پھر منفی۔ اور پھراسی انداز کی جھلک ہماری زندگیوں میں بھی نظر آنے لگے گی۔

وہ ذہنی مشقیں جو قوت ارادی کو مضبوط بنا سکتی ہیں

امریکا کی یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس طرح جسمانی ورزشوں کے ذریعے جسم کے دوسرے پٹھوں کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح قوت ارادی کو بھی مخصوص ذہنی مشقوں کی مدد سے مضبوط بنانا ممکن ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

اپنے آپ سے مقابلہ کیجئے

مطلب یہ کہ گھر میں یا آفس میں یا پھر پڑھائی کے دوران اپنے آپ سے چھوٹے موٹے چیلنجز قبول کرنے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کیا کیجئے۔ یہ آپ کے اندر اعتماد کو بڑھاتا ہے ۔اس کی مسلسل پریکٹس ارادے کو پکا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔

دس منٹ کا غور و فکر

ذہنی سکون کسی بھی کام کو کرنے لئے از حد ضروری ہے ۔ سائنسی تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ دن میں10 منٹ کے لیے کسی مثبت موضوع پر غور کرنا نہ صرف ذہنی توانائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ ذہنی دباؤ میں خاطر خواہ کمی بھی آتی ہے ۔

معمول میں نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کیجئے

وقت کی پابندی بایولوجیکل کلاک کو بھی متحرک اور ٹائم پر رکھتی ہے ۔ڈسپلن کا خیال کرنے سے صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے ۔جو قوتِ ارادی بڑھانے کے لئے بوسٹر کا کام کرتا ہے۔

کھیل کا مشغلہ اپنائیے

گھر ہو یا دفتر ، کام کے دوران جب بھی سستی محسوس ہوفوراً سے پیشتر اپنے جسم کو چست کرلیں ایسا کرنے سے آپ کی قوت ارادی پر زور پڑے گا جواس کی مضبوطی کے لیے مفید ثابت ہوگا۔اس کے لئے چہل قدمی کرنا یا پھر کوئی کھیل کھیلنا انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے ۔

دیکھئے آپ کیا کھا رہے ہیں:

اس کے لئے آپ ایک نوٹ بک بنا کر اپنے پاس رکھیئے ۔آپ کو کیاغذا لینی ہے اور کیا نہیں کھانا اس کا تحریر میں رکھنا آپ کو فضول اشیاء کی جانب بڑھنے سے روک سکتا ہے ۔یاد دہانی کرا سکتا ہے ۔اس لئے دن میں جو کچھ کھائیں اس کے اندراج کے لیے اپنے پاس ایک پاکٹ ڈائری رکھیں دوہفتے تک لگاتار یہ حیرت انگیز مشق کرنے سے آپ کی قوت ارادی آپ کو ہرقسم کی الم غلم غذا کی طرف مائل ہونے سے روکدے گی۔

دوسرے ہاتھ کا استعمال:

دن میں کبھی کبھار دوسرے ہاتھ کو استعمال کرنے کی عادت ڈالیں مثلا اگر آپ دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کو لکھنے کی زحمت دیں ایسا کرنے سے آپ کی قوت ارادی پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔

اپنا شکریہ ادا کیجئے

یہ بھی انتہائی ضروری ہے ۔آپ اپنے کسی بھی ارادے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک آپ خود اپنی اہمیت اور کواہش کو نہیں سمجھے گے۔ اس لئے اپنا شکریہ ادا کرنے کی عاد ڈالئے ۔خود پسندی اور شکرگزاری میں بہت فرق ہے ۔آپ اپنے ٹیلنٹ کی تعریف کے لئے کسی کا انتظار نہ کیجئے ۔خود کی عزت کیجئے تاکہ دوسرے آپ کی عزت کریں ۔

خود پر ہنسئیے

اس کا مطلب مزاق اڑانا نہیں ہے ۔بلکہ اپنی بے وقوفیوں اور نادانیوں سے سبق حاصل کیجئے ۔اور ہو جانے والی کسی بے وقوفی پر ہنس بھی دیجئے ۔

تنقید کا سامنا کرنے کی عادت ڈالئے

تمام ورزشوں میں سب زیادہ پر اثر عادت ہے۔ جس انسان میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ تنقید قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے ۔

یہ بھی دیکھیں

شکریہ ۔ قسط 9

    انیسویں صدی میں دو دوست برک اور ہئر گزرے ہیں ۔ انہیں ایک ...

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *