Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ماں کی آواز میں ہے کچھ خاص

ماں کی آواز اولاد پر آنے والی کئی مصیبتیں ٹال سکتی ہے۔

‘‘ماں’’ …. زبان سے نکلا ہوا یہ لفظ ایک ایسے احساس کا اظہار ہے کہ قلب و ذہن کو سکون مل جائے، ماں کا ذکر لبوں پر آتے ہی خوشی چھا جاتی ہے۔ ماں جسے کوئی ‘‘اَمی’’ کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی‘‘اَمّا’’ اور ‘‘مما’’ کہہ کر…. ماں کے انیک نام سہی ،لیکن ماں ماں ہے، اسے کسی بھی نام سے پکارو، دلی کو سکون ملتا ہے۔
ماں ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو خلوص اور محبت سے اٹا ہوا ہے۔ ماں کی اولاد سے محبت بے لوث ہوتی ہے اس میں دکھاوے کا عنصر ہرگز نہیں ہوتا۔ ماں کی آغوش بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ماں کی اور کیا شان و عظمت ہو گی کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا گیا ہے ….
آپ نے اکثر یہ جملہ پڑھا اور سُنا ہوگا ‘‘ماں کی دعا جنت کی ہوا…. ’’
یعنی ماں کے دل سے نکلے ہوئے الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ وہ اولاد پر آنے والی ہر مصیبت کو ٹال دیتی ہے اور اسے ترقی اور کامیابیوں کی جانب گامزن کردیتی ہے۔ اب سائنس دان بھی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ ماں کی آواز میں کچھ خاص بات ضرور ہوتی ہے، جو ناصرف ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے بلکہ اولاد کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

‘‘ماں’’ دنیا کاسب سے مقدس اور بے لوث رشتہ ہے، ماں کو انسان کی اولین درس گاہ کہا جاتا ہے، کیونکہ بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں ہر وقت ماں کے ساتھ رہتاہے،کھانا،پینا،اٹھنا،بیٹھنا،،وغیرہ یوں بچہ اپنی ابتدائی زندگی کا بڑا حصہ اپنی ماں کے ساتھ گزارتاہےـ کسی بھی بچے کی تربیت میں اس کے ابتدائی دن بہت اہمیت کا حامل ہوتے ہیں ۔ یہ بچے کے سیکھنے اور تربیت پانے کے دن ہوتے ہیں، یہ زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے کی مثال ایک کورے کاغذ کی ہوتی ہے ۔ اس دور میں بچے کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے، وہ بچے کے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے ۔ قدرت نے بچے کی تربیت کی اولین ذمہ داری ماں کو سونپی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں ؟؟کہ نوزائیدہ بچے کی تربیت اپنی ماں کے پیٹ میں ہی شروع ہوجاتی ہے…. ؟


ماہرین بتاتے ہیں کہ نوزائیدہ بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہتے ہوئےحمل کے چوتھے مہینے سے ہی اپنی ماں کے دل کی دھڑكن سننے لگتا ہے اور اپنی ماں کی آواز سے واقف ہونے لگتا ہے۔ بچے کی زندگی میں سب سے اہم اور اولین آواز اس کی ماں کی آواز ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد بھی بچہ اس آواز کو پہچان کر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر مائیں اپنے چھوٹے بچے کو اپنے بستر کے قریب پنگوڑے یا جھولے میں لٹا کر لوری دے کر سلانے میں زیادہ تسلی اور اطمینان محسوس کرتی ہیں۔ ایسے میں بچے بھی اپنی ماں کی دھیمی آواز کو سن کر زیادہ پر سکون رہتے ہیں۔ بچے کے ابتدائی تربیتی ادوار میں بھی یہی آواز اس کی ذہنی و جسمانی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے کی زندگی میں ماں کی آواز کی اہمیت کے متعلق اب سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے کہ واقعی ماں کی آواز میں کچھ خاص ہے…. آئیے….! مغربی ماہرین کی ریسرچ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس میں شکم مادر میں رہنے والے سے لے کر نومود بچوں اور لڑکپن غرض ہر عمر کے بچوں کے دماغ پر ماں کی آواز سے ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔

ماں کی آواز سے بچے کا دماغ اور سیکھنے کا عمل متحرک ہوتا ہے۔


کینیڈا کی مونٹریل یونیورسٹی University of Montreal اور سینٹ جسٹین یونیورسٹی ہاسپٹل ریسرچ سینٹر Sainte-Justine University Hospital Research Centreکی ایک مشترکہ تحقیق [بحوالہ: میڈیکل پریس @ ، سائنس ڈیلی  @ ] کے بعد انکشاف کیا ہے کہ ‘‘ماں کی آواز بچے کے دماغ اور سیکھنے کے عمل کو سرگرم کرتی ہے۔ مونٹریل یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ڈاکٹر مارئس لیسونڈے Dr. Maryse Lassonde کے زیرِقیادت اس ریسرچ کے لیے سائنس دانوں نے 16اور24 گھنٹے کے بچوں کے سر پر الیکٹروڈز نصب کرکے ان کی دماغی ساخت کا معائنہ کیا۔ اس دوران بچہ کو ماں کی آواز سنائی گئی، اور پھر اجنبی ڈاکٹر یا ایسی نرس جو خود ایک ماں تھی، کی آواز بھی سنائی گئی۔ اس ریسرچ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ نرس، ڈاکٹر یا کسی اجنبی شخص کی آواز بچے کے دماغ (سیریبل کارٹیکس) کے سیکھنے سے تعلق رکھنے والے حصےپر کوئی اثرات نہیں چھوڑتی، البتہ اپنی ماں کی آواز بچے کے دماغ کے سیکھنے سے تعلق رکھنے والے حصے کو متحرک کرتی ہے (دیکھئےfMRI چارٹ )۔

ڈاکٹر مورائس کہتی ہیں کہ ‘‘یہ اس قسم کی پہلی تحقیق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ممتا کی آواز میں یہ ایک منفرد خاصیت ہے’’۔ سائنسدانوں ممتا بھری اس آواز کو Mothereseکا نام دیتے ہیں، ان کا خیال ہے شکم مادر میں بچہ اپنی ماں کی آواز پہچانتا ہے۔

ماں کی آواز سے بچے کی سماعت اور ذہانت میں اضافہ

ہارورڈمیڈیکل اسکول Harvard Medical School، بوسٹن، امریکہ کے ریسرچرز ماں بننے والی خواتین کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ہیں کہ ‘‘جو مائیں اپنے حمل کے دوران اپنے ہونے والے بچوں سے باتیں کرتی ہیں ان کے بچے ذہین اور بولنے میں صاف ہوتے ہیں’’۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماں کی آواز بچے کو پیٹ میں سنائی دیتی ہے۔ اگر مائیں اپنے بچوں کے ساتھ باتیں کریں تو ان کی ذہانت بڑھتی ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول بوسٹن کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر عامر لہوو Amir Lahav کے زیر نگرانی ہونے والی تحقیق[بحوالہ: نیشنل اکیڈمی آف سائنس @  ]میں ماہرین نے 40 ایسے بچوں کو جو 25 سے 32 ہفتوں کے حمل کے دوران پیدا ہوئے تھے دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کو پورا ایک مہینہ اپنی ماں کی آوازسنائی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو صرف ہسپتال کی اجنبی آوازیں سنائی گئیں۔ اس کے بعد ان دونوں گروپوں کے بچوں کا دماغ سکین کیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ جو بچے اپنی ماں کی آواز سن رہے تھے ان کے دماغ میں سماعت کا مرکز آڈیٹوری کارٹیکس auditory cortex دوسرے بچوں کی نسبت بڑا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مائیں اپنے بچوں کے ساتھ باتیں کریں تو ناصرف ان کی سماعت اچھی رہتی ہے بلکے بچے بھی عقلمند اور ذہین ہوتے ہیں۔یہ تحقیق سائنسی جریدے پروسیڈنگ آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنس Proceedings of the National Academy of Sciences میں شایع ہوئی۔
ہارورڈمیڈیکل اسکول کے ماہرین نے ایک اور ریسرچ کے لیے چند حاملہ مائیں منتخب کیں، ان میں سے نصف ماؤں کو کہا گیا کہ وہ بچوں کی نظمیں جیسے ‘‘ٹوئنکل ٹونکل لٹل اسٹار’’، ‘‘گُڈ نائٹ مُون’’ پڑھیں یا گنگنائیں، اس دوران اردگرد کے ماحول کو شور سے محفوظ رکھا گیا اور ماؤں کے دل کی دھڑکنیں بھی ریکارڈ کی گئیں۔ ہر روز 45 منٹ کے چار سیشن کیے گئے ، 30 دن بعد سائنسدانوں نے الٹراساؤنڈ کے ذریعے شکم مادر میں بچے کے دماغ کے مرکز سماعت (آڈیٹوری کارٹیکس) کا معائنہ کیا تو وہ دیگر بچوں کی نسبت زیادہ بڑا پایا گیا۔ اس تحقیق کے نتائج میں ڈاکٹر عامر لہوو کا کہنا تھا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ بچہ شکم مادر میں صرف اپنی ماں کے دل کی دھڑکن محسوس کرتا ہے لیکن اس تحقیق میں علم ہوا ہے کہ اگر ماں اس سے بات کرے تو وہ ناصرف سنتا ہے بلکہ اس پر اس بات کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

بچے ماں کے پیٹ میں ہی الفاظ کی اکائیاں سمجھنے لگتے ہیں

2013ء میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع کی گئی ایک تحقیق [ بحوالہ: بی بی سی  @  ]میں فرانسیسی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ بچے اپنی پیدائش سے تین ماہ قبل ہی الفاظ کی صوتی اکائیاں سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ شواہد قبل از وقت پیدا ہونے والے بارہ بچوں کے دماغ کے سکین سے ملے ہیں۔
فرانسیسی ریسرچرز کی ٹیم کے مطابق حمل کے اٹھائیسویں ہفتے ہی بچے ‘‘گا’’ اور ‘‘با’’ جیسی اکائیوں اور مرد اور عورتوں کی آوازوں میں میں فرق کو سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ تحقیق اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں ہی بچے اپنے والدین کی آوازیں سن کر زبان کے متعلق سیکھتے ہیں۔ اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی عوامل بھی بلاشبہ اہم ہیں، لیکن ان کے نتائج کی بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ لسانی عمل قدرتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر سوفی سکاٹ Sophie Scottکہتی ہیں کہ نتائج نے موجودہ علم کو تقویت بخشی ہے۔ ‘‘اب ہم جانتے ہیں کہ بچے پیٹ میں ہی اپنی ماں کی آواز سن لیتے ہیں اور آواز کی سطح اور تال محسوس کر سکتے ہیں۔’’

ماں کی آواز بچے کی ذہنی سرگرمیوں کے لیے معاون ۔

اسٹین فورڈ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن Stanford University School of Medicineسے تعلق رکھنے والے محققین نے اپنے ریسرچ پیپر میں پیدائش کے بعد ایک سکینڈ سے بھی کم وقت کے اندر اندر ماں کی آواز کی سماعت کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ بچوں کے دماغ نے اجنبی عورتوں کی آوازوں کے مقابلے میں اپنی ماں کی آواز کے لیے زیادہ مضبوط ردعمل ظاہر کیا گو کہ بچوں نے ماں کی آواز کو لمحہ بھر کے لیے سنا تھا۔ پروسیڈنگ آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنس (PNAS)میں 16 مئی کو شائع ہونے والی اس تحقیق [بحوالہ: نیشنل اکیڈمی آف سائنس@ ، سی این این@ ،   ٹائم میگزین@ ] کے مصنف اسٹین فورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں سائیکاٹری اور بہیوئیر سائنس psychiatry and behavioral sciences کے ریسرچر ڈینیئل اے ابرامس Daniel A Abrams تحریر کرتے ہیں کہ
‘‘ماں کی آواز سننا بچوں میں جذباتی سکون کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتی ہے۔ ہم اس کے پیچھے موجود حیاتیاتی نظام Biological circuitryکو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس تحقیق سے بچوں کے دماغ کے ان مخصوص سرکٹس کی نشاندھی ہوئی ہے، جو صرف ماں کی آواز سننے پر متحرک ہوتے ہیں جبکہ ایسے سائنسی شواہد بھی ملے ہیں ،جن سے پتا چلتا ہے کہ دماغ کی یہ سرگرمیاں بچے کے سماجی میل جول کی صلاحیتوں کی پیشن گوئی کرسکتی ہیں۔


بچوں کے دماغ کے اندرونی افعال کو دیکھنے کے لیے محققین نے سات سے 12 سال کے درمیان عمروں کے 24 صحت مندبچوں کے دماغ کے اسکین کے لیے ایم آر آئی fMRIکا استعمال کیا۔اسکین کے دوران بچوں کو الفاظ کی مختصر دورانیہ کی ریکارڈنگ سنائی گئی، جس میں سے کچھ آوازیں ان کی ماؤں کی تھیں، دوسری آوازیں ایسی خواتین کی تھیں جنھیں بچے نہیں جانتے تھے۔اگرچہ یہ ریکارڈنگ ایک سکینڈ سے بھی مختصر تھیں، لیکن بچے قریباً مکمل طور پر 97 فیصد سے زیادہ شرح کے ساتھ اپنی ماؤں کی آوازوں کی درست شناخت کر سکتے تھے۔ اس نئی تحقیق کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ماں کی آواز سننے سے بچوں کے دماغ کے ایک سے زیادہ نظام متحرک ہوئے تھے، جن کا سماعت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
ریسرچرز کو پتا چلا کہ جب بچے نے ماں کی آواز سنی تو اس کے دماغ کے سمعی اور صوتی منتخب حصوں کے ساتھ وہ حصے جو جذبات اور چہرے کی شناخت سے متعلق ہیں زیادہ روشن ہوئے، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ماں کی آواز بچے کے دماغ میں وسیع پیمانے پرنشر ہوتی ہے۔


نتائج سے واضح ہوا کہ ماں کی آواز کی وجہ سے دماغ کی زیادہ سرگرمیوں کے ساتھ بچے سماجی طور پر بات چیت میں دوسروں سے بہتر تھے۔

ماں کی آواز ذہنی دباؤ اور بلڈ پریشر میں انسان کو سکون دیتی ہے

برطانوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ کے دوران ماں کی آواز سے ریلیف مل جاتا ہے۔
برٹش یونیورسٹی آف وزکونسن میڈیسن University of Wisconsin-Madison کے سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک تحقیق [ نیشنل انسٹی ٹیوٹ  آف ہیلتھ@ ، سی این این@ ،   این بی سی نیوز@ ] کے بعد اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ماں کی آواز سننے سے ذہنی دباؤ اور پریشانی دم توڑ دیتی ہے۔
کئی ہزار افراد پر کئے گئے سروے کے دوران اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ماں کی آواز کے ساتھ ایک خاص ہارمون آکسیٹاکن oxytocin کام کرتا ہے جو فوری طور پر ماں کے بچے کےساتھ اعتماد کے رشتے کی شناخت کرواتا ہےاور متاثرہ فرد ماں کی آواز سن کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ یہ ہارمون آکسیٹاکن ماں کے لمس کے دوران بھی ایکٹیو دیکھا گیا ہے۔ ماں جب بچے کے سر کو سہلاتی یا مالش کرتی ہے تو یہ ہارمون متحرک ہوجاتا ہے اور بچے کو سکون پہچاتا ہے۔ سائنسدان آکسیٹاکن ہارمون کو cuddle hormone یعنی لاڈپیار ، چمکارنے ، پچکار نے اور ‘‘جادُو کی جھپّی ’’والا ہارمون بھی کہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ میں مبتلاکئی افراد کی جب ان کی ماؤں سے فون پر بات کرائی گئی تو ان کا بلڈ پریشر فوری طور پر نارمل ہوگیا۔ اس برطانوی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی ماں کی آواز بڑی حد تک ریلیف فراہم کرتی ہے۔ یونیورسٹی آف وزکونسن میڈیسن میں نفسیات کے پروفیسر سیت پولاک Seth D. Pollak کہتے ہیں کہ : ‘‘اسٹریس میں مبتلا ایک بچے کو ماں کی طرف سے کیے جانے والے فون سے وہی نتائج حاصل ہوئے ، جو ماں کے پیار سے گلے لگانے سے پیدا ہوتے ہوتے ہیں۔ ’’
ایک ٹیسٹ میں پروفیسر پولاک نے سات سے 12 سال کے 61 بچوں اور بچیوں کو مشکل ٹاسک دئیے مثلاً کسی کو تقریر کرنے اور کسی کو حساب اور الجبرا کا کلیہ حل کرنے کو دیا۔ اس ٹاسک کے دوران ایک تہائی بچوں کو 15 منٹ کے لیے ان کی والدہ سے ملایا گیا جنہوں نے ان بچوں کو پیار سے گلے لگایا، باقی ایک تہائی بچوں کو صرف فون پر ماں سے بات کرائی گئی جبکہ باقی رہ جانے والے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا گیا ، ان بچوں کو ایک گھنٹہ کارٹون مووی دکھائی گئی۔
ٹاسک سے پہلے اور بعد ان تمام بچوں کے ہارمون کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج میں دیکھا گیا کہ بچوں کے وہ گروپ جنہیں ماں نے گلے لگا یا اور جن کو ماں کی آواز سنائی گئی ، دونوں میں اسٹریس کے ہارمون کارٹیسول کی مقدار ماں سے بات کے بعد انتہائی کم پائی گئی جبکہ ان بچوں میں آکسیٹاکن ہارمون کی مقدار میں خاطر خواہ مقدار میں پایا گیا۔


امریکی ریاست ہسٹن میں ٹیکساس چلڈرن ہاسپٹل اور بئیلر کالج آف میڈیسنBaylor College of Medicine کے شعبہ اطفال سے منسلک ڈاکٹر لین اسٹراتھرن Lane Strathearn کہتے ہیں کہ : ‘‘یہ ایک حیران کن انکشاف ہے کہ بچوں میں اکسیٹاکن ہارمون کی مقدار صرف ماں کی آواز سننے پر بڑھ جاتی ہے’’۔
ڈاکٹر اسٹراتھرن کا یہ بھی کہنا یہ کہ نومولود بچوں کے ماں کو براہِ راست یا آئینے میں دیکھنے سے بھی تقریباً یہی نتائج مل سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ انسانوں اور حیوانات میں آکسیٹاکن ہارمون اس وقت پروان چڑھتا ہے جب ماں جب بچہ کو دودھ پلاتی ہے یا بچے کا سر سہلاتی یامالش کرتی اور گلے سے لگاتی ہے۔ یہ پیار اور دُلار کا وہ ٹانک ہے جو انسان کی ہمت بڑھاتا ہے۔ یہی ہارمون بچے کے ساتھ ساتھ ماں کے جسم میں بھی اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب وہ اپنے بچے کو دیکھتی ہے۔ حاملہ خواتین میں بھی یہ ہارمون زچگی کے دوران پیدا ہوتا ہے، اور زچگی میں آسانی کے لیے جو مصنوعی ادویات دی جاتی ہیں ان میں آکسیٹاکن ہارمون شامل ہوتا ہے۔
آکسیٹاکن کے سماجی زندگی پر آثرات پر ریسرچ کرنے والی ڈرہم یونیورسٹی برطانیہ کی ماہر نفیسات این کیمبل Anne Campbell کہتی ہیں کہ
‘‘ایک ماں اپنے بچے کی نگہداشت کے طریقے سکھائے بغیر جانتی ہے، کیونکہ عورت میں مامتا کے یہ جین موجود ہوتے ہیں۔ آکسیٹاکن پر تحقیق سے ہمیں ماں کی ممتا کے پیچھے چھپے سائنسی اور کیمیائی عمل کو سمجھے میں مدد مل سکتی ہے’’۔

ماں اور بچے کے درمیان محبت، الفت، انسیت، سکون اور اعتماد کا جاری و ساری چشمہ اور تعلق دونوں کی یکساں آبیاری کرتا ہے یہ رشتہ دونوں کو اطمینان و انبساط اورخوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اور اس کے اثرات بچہ میں قبل پیدائش سے لے کر لڑکپن بلکہ جوانی کے بعد تک مضبوط رہتے ہیں۔
بچے کی جسمانی صحت، ذہنی صحت اور نشوونما کےلیے ماں اور ممتایعنی ماں کی محبت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعد میں یہ کردار ہی بچے کی شخصیت اور مستقبل کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچے کی آئندہ شخصیت اور آنے والے کل کا دارومدار انہی دو چیزوں پر ہوتا ہے۔

‘‘ماں کی محبت اور بچے کا ماں سے تعلق’’


ماں کو بچے سے محبت ہوتی ہے، تو بھی بچہ محبت کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اب وہ آنے والی ساری زندگی لوگوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتا ہے۔ اگر بچے کوماں کی وہ محبت یا توجہ نہیں ملے گی تو وہ آنے والی زندگی میں نہ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں اور نہ محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں دباؤ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ پاتے اور اگر دباؤ کا سامنا کرنا پڑے تو ساری عمراضطراب ، بے چینی اور طرح طرح کی نفسیاتی پریشانیوں میں گرفتار رہتے ہیں۔ بسا اوقات وہ خطرناک حد تک سماج دشمن اطوار اپنالتے ہیں ۔ نفسیات میں اسے Anti Social Personality Psychopath کہتے ہیں۔ اینٹی سوشل پرسنیلٹی کی علامات میں دوسروں کے حقوق کا پاس نہ کرنا، معاشرے کے رسم و رواج کا احترام نہ کرنا، دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا، دوسرے لوگوں کو ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کرنا، چڑچڑاپن ، لڑنا جھگڑنا، جارحانہ رویہ، دوسروں کا خیال نہ کرنا، مستقل مزاجی سے ملازمت نہ کرنا، غیر ذمہ داری، قرضہ کو واپس نہ کرنا، شرمندہ نہ ہونا، معافی نہ مانگنا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نفسیات کی رو سے بچے کی ابتدائی عمر میں ہی ماں کا کردار اس قدر اہم ہے۔
جس طرح بچے کی جسمانی ضرورت کیلئے وٹامن اور پروٹین ضروری ہیں اسی طرح ذہنی صحت کیلئے ماں کی محبت اور پیار یا ڈانٹ بھری آواز بھی اہم ہے۔ ہر بچے کی اچھی نگہداشت معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود اور سماج کی ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے۔

یہ بھی دیکھیں

ماں : مدرز ڈے

اسلام دین فطرت اور انسانیت کا مذہب ہے ۔ اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت ...

مراقبہ برائے خاتونِ خانہ

شوہر و بیوی کاروانِ حیات کے دو اہم رکن ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *