Notice: WP_Scripts::localize تمّ استدعائه بشكل غير صحيح. يجب أن يكون المعامل $l10n مصفوفة. لتمرير البيانات العشوائية إلى نصوص (scripts)، استخدم الدالة wp_add_inline_script() بدلًا من ذلك. من فضلك اطلع على تنقيح الأخطاء في ووردبريس لمزيد من المعلومات. (هذه الرسالة تمّت إضافتها في النسخة 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
بیٹیوں کے رشتے کی تلاش آخر مشکل کیوں؟ – روحانی ڈائجسٹ
الإثنين , 8 ديسمبر 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

بیٹیوں کے رشتے کی تلاش آخر مشکل کیوں؟

معروف مصنف بانو قدسیہ بیٹیوں کے بارے میں لکھتی ہیں۔

‘‘کبھی بھی شادی کے کھانے کی برائی نہ کرو، بیٹی کے باپ کی پوری عمر لگی ہوتی ہے صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے۔’’

یہ وہ خوش قسمت بیٹیاں ہیں جن کی شادیاں ہوگئیں مگر کئی بیٹیاں آج بھی بالوں میں سفیدی اور آنکھوں میں سہانے سپنے لیے والدین کے گھروں پربیٹھی ہیں۔

‘‘اللہ بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے۔’’ ہر ماں باپ کی اپنی بیٹیوں کے لیے یہ دعا دل سےنکلتی ہے۔

ہمارے ہاں ہزاروں ایسی  لڑکیاں اس وقت وہ گھر میں بیٹھی شادی کا انتظار کر رہی ہیں، بڑھتی عمر اور گزرتے ہوئے وقت کو روکنا مشکل ہے مگر لوگوں کی تنقید، معاشرے کا سخت اور ناگوار رویہ نہ صرف ان لڑکیوں کی بد مزاجی اور چڑچڑےپن کی وجہ بنتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سے نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔

والدین کی پہلی اور شدید خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں وقت پر اپنے گھروں میں بیاہ کر چلی جائیں لیکن ایسا مشکل ہوتا جارہا  ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو خوبصورتی اور دولت کا معیار ، دوسرے آؤٹ آف فیملی رشتے اور ذات برادری کو مدنظر رکھنا ہے اور تیسرا لڑکے والوں کے ناز نخرے!

عام طور پر والدین بیٹیوں کے رشتوں میں اپنی سوچ کو عملی طور پر پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی پسند کے رشتے تلاش کرتے ہوئے کئی سال گزر جاتے ہیں حتیٰ کہ لڑکی عمر کے اس حصے میں داخل ہوجاتی ہے جسے (Over Age) کہا جاتا ہے، جوں جوں رشتے آنے میں کمی واقع ہوتی ہے، والدین کے رویوں میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی ہزاروں لڑکیوں کی کہانیاں موجود ہیں جو اس وقت گھر بیٹھے شادی کا انتظار کررہی ہیں اور ماں باپ پر بوجھ کے طعنے بھی سن رہی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے جسے لڑکی کو چپ چاپ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

بتیس سالہ راحیلہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے اس سے چھوٹی دو بہنوں کی شادیوں کو کافی عرصہ ہو چکا ہے، ایسا نہیں ہے کہ راحیلہ کم پڑھی لکھی ہے، راحیلہ نے بی کام کیا ہے۔ اس کے والدین کو خاندان میں کوئی مناسب رشتہ نہ مل سکا۔ راحیلہ نے کئی مرتبہ خود کو مصروف رکھنے کے لیے ملازمت کرنا چاہی مگر گھر والوں نےاجازتنہ دی۔

 شبانہ کا کہنا ہے کہ اس کے گھر والوں اور خاندان کی دوسری لڑکیوں کا رویہ اس کے ساتھ بہت طنز آمیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں قید ہو کر رہ گئی ہے وہ سب میں مل جل کر بیٹھنے کی بجائے تنہائی کو ترجیح دینے لگی ہے، اس کی والدہ کھلّم کھلا اسے ‘‘مصیبت’’ کہتی ہیں اور وہ اس بوجھ زدہ زندگی سے تنگ آگئی ہے۔

تیس سالہ نازش نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی تو والدین نے شادی کے خیال سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کروا دیا اور اسے گھر گرہستی سیکھنے کا حکم بھی دیا۔ اس کے ساتھ ہی خوب سے خوب تر کی تلاش شروع کردی گئی مگر چھ سال گزرنے کے باوجود انہیں نا تو پسند کا رشتہ ملا اور بہت سوں کو نازش بھی پسند نہیں آئی۔ ان حالات کی بدولت نازش بدمزاجی اور نفسیاتی الجھاؤ میں مبتلا ہوگئی۔ وہ مسلسل کیٹ واک سے تنگآچکی تھی۔

بتیس سالہ بشرا نے انگلش میں ایم اے کیا ہے اور ایک پرائیوٹ جاب کرتی ہے۔

والدین اور وہ خود بھی ایک پڑھا لکھا لڑکا چاہتی تھی۔ اپنی اچھی جاب کی وجہ سے بہت سے رشتے اسے غیر مناسب بھی لگے اس لیے انکارکردیا گیا وہ چونکہ خود مختار ہو چکی تھی اس لیے اس کے والدین کو ہر آنے والا رشتہ لالچی لگتا تھا۔ نتیجتاً اس کے رشتے آنا بند ہوگئے ہیں، مزاج کی سردمہری اور لوگوں کی بیجا تنقید نے اسے مزید بدظن کردیا ہے اور اب بشرا شادی کا خیال دل سے نکال چکی ہے۔

 یہ صرف چند مثالیں ہیں جنہیں آپ پڑھ کر شاید نظر انداز کردیں۔ لیکن  جہاں شادی کی دیرسویر کو نصیب کا نام دیا جاتا ہے وہاں والدین کی یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ بیٹیوں کے رشتے کی تلاش میں مناسبت ضرور تلاش کریں، لیکن ساتھ ہی اپنے رویے اور سلوک کو بھی ٹھیک رکھیں کیونکہ معاشرے کی بدسلوکی اور بداخلاقی پر صرف والدین اور بہن بھائیوں کا ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے جو ‘‘مسترد’’ کیے جانے کی تکلیف کو کم کرسکتا ہے۔

لڑکی کو یہ احساس نہ دلایا جائے کہ وہ ان پر بوجھ بن گئی ہے۔ بیٹیوں کی شادی کرنا والدین کا فرض ہے۔ اس فرض کو محبت اور ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔ مجبوری اور بوجھ سمجھ کر لڑکی کو احساس جرم میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے، جب لڑکے والے کسی لڑکی کو مسترد کرتے ہیں تو وہ اس کے احساسات اور جذبات کو کچل کر بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان حالات میں لڑکی کو محبت اور اعتماد کی بےحد ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے والدین سے درخواست ہے کہ وہ لڑکی کی تعلیم جاری رہنے دیں اور صرف شادی کی وجہ سے اس کی توانائیاں مفلوج نہ کریں، اسے یہ احساس نہ دلایا جائے کہ وہ بوجھ بن گئی ہے بلکہ جتنا ممکن ہوسکے، ذہنی طور پر اسے مطمئن کیا جائے۔ شاید ذرا سی کوشش کسی کے احساسات اور جذبات کو قتل ہونے سے بچائے اور لڑکیاں ‘‘بوجھ ہونے’’ کے احساس سے نکل کر اپنے والدین کے گھر میں اپنائیتمحسوس کریں۔

:

یہ بھی دیکھیں

اکتوبر 2019ء فہرست

روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2019ء شمارے کی فہرست     مسلم صوفیا کی سب سے زیادہ …

فکرِ حسینی ۔ سانحہ کربلا کا پیغام

نواسۂ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتولؓ، جنتی نوجوانوں کے سردار ، شہیدِ کربلا سیدنا …

اترك تعليقاً