Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی اور شہری مسائل کے لیے سیرت طیبہﷺ سے رہنمائی


انسان کامل معلم اعظم نبی رحمت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں انسانوں کے سب مسائل کے لئے رہنمائی موجود ہے۔ معاملہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی سیرت محمدی سے روشنی حاصل کرکے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ حکومتی نظم و نسق ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے ۔ حکومت کے اولین کام امن و امان کا قیام اور عوام کو روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔

تعلیم ، صحت، شہری منصوبہ بندی شہر میں اور شہروں کے درمیان راستوں کی تعمیر جیسے عوامی کام ہوں یا قانون کی پابندی کا احساس اجاگر کرنا ، والدین اولاد کے حقوق رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا، اساتذہ کی تکریم کاروبار اور دیگر معاملات میں سچ بولنا، پورا تولنا، ملاوٹ نہ کرنا جیسے معاشرتی اور اخلاقی معاملات ہوں تعلیمات نبوی سے حکومت اور عوام کے لیے ہر شعبے میں واضح اور قابل عمل رہنمائی ملتی ہے۔
قدرتی ماحول کا تحفظ بھی حکومت پر عوام کی مشترکہ ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں انسانوں کو درپیش کئی مسائل گزشتہ صدیوں کے مسائل سے بہت الگ ہیں ۔ صنعتی ترقی اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ میں انسانی کوتاہیوں نے اس زمین پر آباد اٹھارہ لاکھ سے زائد انواعSpecies میں سے کئی ہزار کا وجود ہی مٹا کر رکھ دیا ہے. زمین پر ہزار ہا سال سے آباد دیگر کئی انواع آج اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ انسانوں کی اپنی خود غرضیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ہونے والی کئی ماحولیاتی تبدیلیوں ، غیر معیاری غذاؤں اکثر انسانوں کے بے ترتیب اوقات نے خود نوع انسانی کی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری رہائش گاہ خطہ زمین کے وجود کو بھی آج کئی خطرات کا سامنا ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر ٹھیک طرح عمل کیا جاتا تو انسان کو آج ان مسائل کا سامنا ہی نہ ہوتا۔ موجودہ دور میں پچاس لاکھ سے زیادہ آبادی کے شہروں کی تعداد سینکڑوں میں چلی گئی ہے۔ بڑے شہر وں میں ایک طرف تو لوگوں کو وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی اکثر بڑے شہروں میں کئی سماجی، معاشی، ماحولیاتی مسائل بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
ٹاؤن بلڈنگ سے وابستہ ماہرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے رہنمائی لیں تو کئی شہری مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
زمین کے ماحول کے بنیادی حصے جس میں اس کی ساخت، فضا، پانی کے ذخائر اور زمین کو رنگینی اور غذائیت عطا کرنے والے نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں ایک دوسرے سے ایک ماحولیاتی توازن ایکوسسٹم کی زنجیروں سے جڑے ہیں۔ اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متاثر ہونے سے ہر چیز اپنے توازن سے ہٹ جاتی ہے۔ اور نیا توازن بننے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ وہ نئے مطالبات بھی رکھتا ہے۔
اس تمام تعلق میں ہماری بے جا مداخلت زمین کو ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش بناسکتیہے۔
فطری ماحول کی اہمیت و افادیت قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توازن میں بگاڑ سے منع فرمایا ہے:

ترجمہ:‘‘آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی اس کا تقاضہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو’’۔[سورۂ رحمن آیت 7-8]

اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، انہیں برباد کرے، انہیں آلودہ کرے ، تو اس کا نتیجہ خود انسان کے لیے بہتر نہیں۔ فطرت سے جنگ میں شکست لازماً انسان ہی کی ہوگی۔
انسان نے ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ انسان اس زمین کو آلودہ کرنے میں حصہدار تو ہے لیکن دھرتی کو آلودگی سے بچانے کے لیے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔ آج کی ماحولیاتی آلودگی انسان کی اپنی ہی حرکتوں کا نتیجہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:

‘‘خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے۔’’ [سورہ روم(30) :41]

صنعتی انقلاب، بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، وسیع پیمانے پر معدنی ایندھنوں کے جلنے کے نتیجے میں ہماری زمین پر گرین ہاؤس گیسوں اور گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔
ایکو سسٹم کا بگڑتا ہوا توازن ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔اوزون کی تہہ میں شگاف، گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس ایفیکٹ، سونامی،گلیشئیر کا تیزی سے پگھلنا، سمندر کی سطح بلند ہونا، ساحلی علاقوںمیں خوفناک طوفانوں کا سلسلہ، سیلاب، زلزلے اور طرح طرح کے خطرناک وبائیں اور امراض اس بگڑتے ہوئے توازن کا اظہار ہیں۔
دین اسلام نے انسان کے لیے پرسکون اور پرامن ماحول مہیا کرنے کا عملی بندوبست کیا ہے۔ قرانی احکامات اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے سیرت اور اسلامی تعلیمات میں ماحول اور معاشرے کے خامیوں کی اصلاح اور بہتر معاشرتی نظام قائم کرنے کے کئی اصول ملتے ہیں۔

ماحول اور صفائی:

قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر طہارت ، لطافت اور تزکیہ کے احکامات آئے ہیں۔ صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ‘‘الطھور و شطر الایمان’’ پاکی ایمان کا حصہ ہے’’ نبی کریم ﷺؑ نے فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
ہر قسم کی آلودگی اسلام کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابلِ رد ہیں۔ ان سے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا گیاہے۔
اسلام نے ہر قسم کے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی تاکید کی ہے تاکہ انسان اس میں ذہنی، اخلاقی اور جسمانی طور پر خوش و خرم نظر آئے اور وہ زندگی آرام و سکون کے ساتھ گزارے۔

‘‘اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمھیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے۔ تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔’’[سورۂ مائدہ:6]

 

دھواں ، آلودگی ، گلوبل وارمنگ

اسلام انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس میں انسانی جسم کی صفائی سے لے کر سوسائٹی ، گلی ، محلہ اور اجتماعی صفائی کے احکامات بھی موجود ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:‘‘مجھے اپنی امت کے اچھےاور برےاعمال دکھائے گئے۔ میں نے دیکھا کہ اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کرنا بھی شامل ہے…..’’

نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ایمان کے ستّر شعبے ہیں ،پس اس میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے، اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔[مسلم]
رسولؐ اللہ نے فرمایا: لعنت کیے گیے لوگوں سے بچو۔ صحابہؓ نے پوچھا یارسولؐ اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ جولوگوں کے راستے یاان کے سایے کی جگہ میں غلاظت اور گندگی کرتے ہیں ۔[مسلم]

اذیت زدہ چیزوں کی غلاظت میں گندگی، کانٹے، پتھر، رکاوٹ، بول و براز، مردہ جانور وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے ان اشیاء کو ہٹانا، راستے کو پاک و صاف رکھنا ایمان کی شاخ قرار دیا ہے۔ انسان جہاں بھی سکونت پذیر ہو وہ مقامات پاک صاف رہیں۔
سعدبن ابی وقاصؓ فرماتےہیں کہ رسولﷺ نےفرمایا: اللہ تعالی پاک ہے اور پاکی پسند کرتا ہے… پس تم اپنے گھروں کو صاف رکھا کرو ۔ [مسند ابویعلیٰ]
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شاہراہیں اور راستے محفوظ اور ہموار بنائے جائیں۔ نبی پاک ﷺ نے لوگوں کو گلیوں، راستوں ، سڑکوں اور شاہراہوں پر بیٹھے، رُکاوٹ پیدا کرنے اور بول و براز سے منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجہ ] نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ گزرگاہوں کو تنگ و تاریک نہ رکھا جائے اور نہ انہیں بند کیا جائے۔ ایسے کاموں سے ماحول خراب ہوتا ہے اور لوگوں کے آرام میں خلل پڑھنے کا خدشہہوتا ہے۔
اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ ‘‘مسلمان کی زبان اور ہاتھ (کی ایذا) سے دوسرے محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا، جس کا ہمسایہ اس کے شرسے محفوظ نہ ہوں۔ [صحیح بخاری؛ صحیح مسلم]
حضرت معاویہ بن حیدہ ؒ سے روایت ہے کہ نبیکریم ﷺ نے ہمسایوں کے حقوق کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنی عمارت کو ہمسائے کی عمارت سے اتنابلند نہ کرو کہ ہمسائے کے گھر کی ہوا بند ہوجائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارے گھر (چولہے یا آگ ) کا دھواں پڑوسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو ۔ [معجم الکبیر طبرانی، بیہقی ]

درخت ، پانی اور ایکو سسٹم:

زمین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور پانی کیحفاظتکریں۔
اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت کی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ عمارتوں ، فصلوں ، درختوں ، مویشیوں اور چشموں کو برباد نہ کریں۔ [بیہقی ؛موطا امام مالک]
آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ [صحیح مسلم] تعلیمات نبوی تو یہاں تک ہیں کہ اگر قیامت واقع ہوجائےاور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے زمین میں لگادو۔[مسند احمد]
انسانی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ پانی کی حفاظت کی جائے کیونکہ یہ ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے ، اس پہ تمام مخلوقات کا حق ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے ماحول کو صاف اور پاک رکھنے کے لیے جو احکام صادر فرمائے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ رُکے ہوئے پانی میں گندگی نہ ڈالی جائے۔
اسلام نا صرف پانی کو محفوظ اورصاف کرنے کی تعلیم دی دیتا ہے بلکہ اس کے بےجا استعمال ، ضرورت سے زیادہ ضیاع سے بھی منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:

‘‘اور کھاؤ پیو اور بےجا خرچ نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا’’۔ [سورۂ اعراف: 31]

عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ:‘‘ایک روز رسول اللہ ﷺ سعدؓ کے پاس سے گزرے۔ وہ (زیادہ پانی لیے)وضو کر رہے تھے آپ ﷺنے فرمایا یہ کیسا اسراف ؟! ….سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں ! یہ بھی اسراف (پانی کا ضیاع ) ہے ، خواہ تم دریا کے کنارے وضو کر رہےہو’’۔ [سنن ابن ماجہ]

جنگلات کی کمی، حیاتی تنوع :

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا زمین کے ماحول اور ایکوسسٹم میں توزن کے لیے درخت کی بہت اہمیت ہے اسی طرح ایکو سسٹم میں جانداروں اور جنگلی حیات کی اپنی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقا ت کو پیدا کرنے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر منحصر کر دیا اور اسی طرح دنیا میں اعتدال و توازن برقرار ہے۔ زمین کی زندگی کے باہمی توازن کے نظام کو ایکو سسٹم Ecosystemکہا جاتا ہے۔ زمین کے ماحول کے بنیادی اجزاء، جن میں عناصر، گیسز، پانی ، نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں، ایک دوسرے سے ماحولیاتی اور کیمیائی توازن کی زنجیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوع کی زندگی دوسری نوع پر منحصر ہے۔ اسلامی تعلیمات میں غذائی ضرورت کے علاوہ کسی بھی جاندار کو ضرر پہچانے کی ممانت کی گئی ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جوشخص چڑیا یا اس سے بڑے جانور کو ناحق قتل کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے قتل کے متعلق باز پرس فرمائیں گے۔
دنیا میں اگر صرف شہد کی مکھی کی نسل بھی ختم ہوجائے تو جلد بدیر انسان کی نسل ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ انسان کو ملنے والی خواراک کا 70 فیصد زراعت سے آتا ہے اور زراعت میں پودوں کی نشونما میں شہد کی مکھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ:
‘‘نبی ﷺ نے چار جانورں کے قتل کر نے سے منع فرمایا ہے، چیونٹی ، شہد کی مکھی، ہدہد ، اور چڑیا….’’ [سنن ابوداؤد]
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی ، چیونٹی اور تتلی بھی پودوں کے زد دانوں (پولن) کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے پودوں کی نشونما میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔
اسی طرح چڑیاں اور چھوٹے پرندے فصلوں کے کیڑوں کو کھاکر زراعت کے فروغ کا سبب بنتے ہیں انہیں پہنچے والا نقصان مستقبل میں خود انسانی بقا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

آبادی، بلدیاتی نظام :

آئیے…!دیکھیں بلدیاتی نظام سے متعلق ہماری رہنمائی کے لیے سیرت نبویﷺ سے کیااصولملتے ہیں۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نوواردوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آکر جمع ہورہے تھے۔ اس وقت رسول کریم ﷺ کے کیے گئے اقدامات ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کے مستحق ہیں۔ جدیدشہروں میں آبادی کے دباؤ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبیﷺ سے ماہرین آج بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآبﷺ نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، رُوحانیبالیدگی، ذہنی سکون اور قلبی اطمینان عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشوونما کا سبب بن سکے۔
شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں آپﷺ نے شہرِنو(مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوزنہ ہونے دیااور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد 500 ہاتھ (یا کوس)مقرر کی۔
بڑھتی ہوئی آبادی سے بیدا ہونے والے مسائل میں ایک اہم مسئلہ غذائی قلت ہے۔ دنیا کی پچیس فیصد آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، پچیس فیصد آبادی میں وزن کی زیادتی کا مسئلہ ہے جبکہ ہر روز پوری دنیا میں تقریباً پچیس فیصد کھانا ضائع جاتا ہے۔ انسانوں کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی رہیں ، اس مقصد کے لیے خصوصی احکامات میں ذخیرہ اندوزی سے مخالفت کے احکام بھی شامل ہیں۔
اگر دنیااسلام کی صرف چاربنیادی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردے جن میں ہمسائے کا خیال رکھنا، غریبوں کو کھانا کھلانا، خوراک کو ضائع ہونے سے بچانا اور باقاعدگی سے زکوٰۃدینا شامل ہے، تو دنیا کے کئی مسائل ختم ہوجائیں۔
حضور پاکﷺ کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اُصول ملتے ہیں۔ محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور بُرے کاموں کو روکے ۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ مدینے کے بازاروں میں تشریف لے جاتے توجگہ جگہ رُک کرناپ تول کر پیمانے دیکھتے۔ چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے۔ عیب دار مال کی چھان بین کرتے۔گراں فروشی سے روکتے۔ اشیاءے ضروریہ کی مصنوعی قلت کا انسداد فرماتے۔ اس ضمن میں کئی حدیثیں اصولوں کا تعین کرتی ہیں۔
بعض لوگ ذاتی اغراض کے لئے سڑکوں کوگھیر لیتے ہیں۔ بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑی کرلیتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکامملتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے سڑکوں پربیٹھنے ، تجاوزات کھڑی کرنے، سڑکوں پرگندگی ڈالنے سے روکا ہے۔ آپﷺ نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے۔
سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے اﷲ کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ آپ ﷺنے جانوروں تک کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی۔
ہمسائے کے حقوق کے بارے میں رسولاکرمﷺ کے جو ارشادات ملتے ہیں اُن پر عملدرآمدسے انسانی معاشرے کے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک کی روایت ہے کہ‘‘ کوئی مسلمان ،مسلما ن نہیں ہے جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتاہے۔ ’’
اس ایک ار شاد مقدسہ میں صفائی ستھرائی، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ،صلح جوئی ،ہمدردی ،ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے کئی ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے۔
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پرزور دیا گیا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام اس عنوان کے تحت بھی آتے ہیں۔ اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں۔ مکانات ہودار اور روشن رکھنے کے احکام اسلام میںموجود ہیں۔
حضورپاکﷺ نے منجملہ اور باتوں کے تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔تاریخ اسلام میں پہلا نصابِتعلیم رسول اﷲﷺنے ہی ترتیب دیا۔اﷲ کے رسول ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بنا کر اسلام کی پہلی اقامتی درس گاہ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں آپﷺ خود درس دیا کرتے تھے۔

یہ بھی دیکھیں

کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

*….آدمی آدمی کی دوا ہے۔ *….عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کی پہلی منزل ایمان ہے۔ *….انسان ...

سانحہ کربلا کا پیغام

نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *