Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

نظرِ بد اور شر سے حفاظت – قسط 2

 

نظرِ بد اور شر سے حفاظت    میں نظرِ بد، حسد ،جادو اوردیگر ماورائی اسباب کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ومشکلات کا جائزہ لیا گیا  ہے۔منفی اثرات کی وجہ سے صحت کی خرابی ،تعلیم کے حصول میں مشکلات، لڑکیوں اورلڑکوں کے رشتوں میں رکاوٹیں ، میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی، کارروبار، ملازمت میں مشکلات، رہائشی یا کاروباری مقامات میں جنات کے اثرات یا دیگر وجوہات سے بھاری پن جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان مسائل ،ومشکلات سے نجات کے لیے دعائیں تجویز کی گئی ہیں۔ 2012ء میں شائع ہونے والی   یہ کتاب  روحانی  ڈائجسٹ میں قسط وار پیش کی جارہی ہے۔

نظرِ بد اور شر سے حفاظت – قسط 2

 

نظر:

انسانی معاملات میں دخل انداز ایک اہم فیکٹر ‘‘نظر’’ ہے۔
نظر سے صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ معاش پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ زندگی کے مختلف معاملات میں مشکلات اور تکلیفیں ہوسکتی ہیں۔ نظر سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ دوسری مخلوقات و مَصنُوعات مثلاً جانور، درخت، فصلیں، مکان یا کوئی اور جگہ یا انسان کی بنائی ہوئی چیزیں وغیرہ بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
واقف اسرار کائنات، طبیب اعظم، حضرت محمد ﷺکا ارشاد ہے۔

اَلْعَیْنُ حَقٌّ
‘‘نظر کالگ جانا حق ہے’’۔
[صحیح بخاری؛صحیح مسلم؛ سنن ابی داؤد]

حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَّ لَوْ شَیْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْہُ 
‘‘نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ اگرکوئی چیز تقدپر سبقت لے جانے والی ہوتی تونظر بد ہوتی۔’’
[صحیح مسلم ] نظر لگنا عربی لفظ عین کا ترجمہ ہے۔ عربی زبان میں نظر کو عین، نظر لگانے والے کو عائن اورجسے نظر لگ جائے اسے معین یا مَعیُون کہا جاتاہے۔نظر لگانے والے کوعربی میں عائن کے علاوہ معیان اور عیون بھی کہا جاتاہے۔
نظر بد کے لیے عربی زبان میں کبھی النظرہ کا لفظ بھی استعمال ہوتاہے، جبکہ بعض اوقات نظر کی جگہ نفس کا لفظ استعمال ہوتاہے، اسی لیے نظر لگانے والے کو عربی میں نافس بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں ان منفی کیفیات کے لیے زیادہ تر نظر ِبد یا صرف نظر کے الفاظ ہی استعمال ہوتے ہیں۔
نظر کے مختلف درجے ہیں۔ نظر کی وجہ سے ہونے والی تکالیف ہلکی پھلکی بھی ہوسکتی ہیں اورانتہائی شدید بھی۔
نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:

اَلْعَیْنُ حَقٌّ تَسْتَنْزِلُ الْحَالِقَ
‘‘نظربرحق ہے۔ یہ پہاڑ پر چڑھے ہوئے آدمی کونیچے گرادیتی ہے۔’’[مسند احمد ؛ مستدرک حاکم] حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اَلْعَیْنُ تُدْ خِلُ الرَّجُلَ الْقَبْرَ وَ تُدْخِلُ الْجَمَلَ الْقِدْرَ
‘‘نظرآدمی کوقبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں پہنچادیتی ہے’’۔ [جامع صغیر البانی] اس ارشاد نبوی ﷺ کی تشریح یہ ہے کہ نظر کی شدّت کی وجہ سے ایک تندرست آدمی اس قدر شدید بیمار پڑسکتاہے کہ اس کی جان کے لالے پڑ جائیں یا وہ زندہ ہی نہ رہ سکے۔ اونٹ کو ہانڈی میں پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ نظر کی شدّت سے ایک اچھا بھلا اونٹ بیمار پڑ سکتا ہے۔
سواری کے لیے یا کسی اورمقصد کے لیے اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری پالنے والے بطور شوق پرندے یا کوئی اورجانور (Pet) پالنے والے اپنے ان جانوروں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی جانور بیمار ہوجائے تو اس کاعلاج بھی کرواتے ہیں، لیکن اگر اس کی صحت کی طرف سے مایوس ہونے لگیں تو حلال جانور کو ذبح کردیا جاتا ہے اور اس طرح اس جانور کا گوشت ہانڈی میں پہنچ جاتا ہے۔
اونٹ ایک سخت جان اورقویُ الجثّہ جانور ہے۔ صحرا کی جھلسا دینے والی شدید گرمی میں جہاں درجۂ حرارت 50یا55ڈگری سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ وہاں اونٹ کئی کئی دن بغیر کھائے پیے رہ سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں نظر کے اثرات کی شدّت بیان کرتے ہوئے سمجھایا گیا ہے کہ نظر کی وجہ سے ایک اچھا بھلا اونٹ اتنا شدید بیمار پڑسکتا ہے کہ اس کا مالک اس کی صحت اور زندگی سے مایوس ہوکر اسے فوری طورپر ذبح کرڈالے اور پھر اس کا گوشت اپنے یا دوسروں کے استعمال کے لیے ہانڈی میں پکنے کے لیے بھیج دے۔
نظر کے اثرات اور اُس کی شدت کو سمجھنے کے لیے دورِنبوی ﷺ میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا مطالعہ قارئین کی آگہی میں مزید اضافے کا سبب ہوگا۔
قارئین بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ حد درجہ محبت وشفقت کا برتاؤ فرماتے تھے۔ حضورﷺکو کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی تب بھی آپﷺ اکثر درگزر سے کام لیتے تھے۔
ذیل میں بیان کردہ اس واقعہ کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں نبی کریم ﷺ نے نظر لگانے والے شخص کو بُلاکر اس پر سخت ناراضگی کااظہار فرمایا۔
ایک صحابی ٔرسول حضرت سہل بن حنیفؓ ایک نہایت خوبصورت و وجیہہ مرد تھے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت سہل بن حنیف ؓ ایک مرتبہ مدینہ کی ایک وادی میں غسل کررہے تھے۔ ایک صاحب عامر بن ربیعؓ ان کے قریب سے گزرے۔ عامر کی نظر سہل کے جسم پرپڑی توبے ساختہ کہنے لگے کہ میں نے آج تک ایسا خوبصورت بانکا شخص نہیں دیکھا۔ اسی وقت سہل کونظر لگ گئی اوران کی طبیعت سخت خراب ہوگئی۔ وہاں موجود لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسہل کی طبیعت کی اچانک خرابی کے بارے میں حضور ﷺ سے عرض کیا۔ ساری بات سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، کیا تم لوگ کسی پر نظر کا شک کرتے ہو۔ عامر بن ربیعہ کی کہی گئی بات لوگوں نے سنی تھی۔ لوگوں کا خیال عامر بن ربیعہ ؓ کی طرف ہی گیا۔ چنانچہ عامر بن ربیعہؓ کا نام لیا گیا۔
حضور ﷺنے عامر کو بلایا، ان پر ناراض ہوئے اورارشاد فرمایا:
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتاہے…؟ جب تمہیں ان کابدن اچھا لگا تو تم نے انہیں برکت کی دعا کیوں نہ دی۔ اس کے بعد حضور ﷺنے نظر اتارنے کا طریقہ بتایا۔ اس طریقے پر عمل کیا گیا تو سہل بن حنیف کی طبیعت فوراً بحال ہوگئی۔ [سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ] قرآن میں نظر کا ذکر
قرآن پاک کی بارہویں سورہ کا نام سورہ یوسف ہے۔ اس سورہ ٔمبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت یوسفؑ کے حالات سے نوع انسانی کو مطلع فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ اس قصے کو احسن القصص بھی کہا جاتا ہے۔
سورۂ یوسف میں ہے:

وَقَالَ يَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَآ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ ۖ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَO

 ترجمہ: ‘‘(یعقوبؑ نے ) کہا میرے بیٹو! (جب تم مصر پہنچو تو وہاں فصیل شہر کے کسی) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ وہاں الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔ (یعقوب نے کہا) میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی مصیبت کو تو ٹال نہیں سکتا۔ حکم توصرف اللہ کا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اللہ پر ہی ہے اور جس کوبھی بھروسہ کرناہو اللہ پر ہی بھروسہ کرے۔ ’’
[سورۂ یوسف(12) آیت 67] سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے نظر کا ذکر کیاہے۔ حضر ت یوسف ؑ کے سب بھائی نہایت خوبصورت اوراچھے ڈیل ڈول کے مالک تھے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ کواندیشہ ہوا کہ ان کے خوبصورت بیٹوں کو ایک جگہ جمع دیکھ کر لوگ کہیں اُن پر نظر نہ لگا دیں۔

قرآن پاک میں ارشاد پاک ہے :

وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ
ترجمہ: اگر کافروں کا بس چلے تو وہ یہ کوشش کریں گے کہ آپ کو اپنی نگاہوں کی تاثیر سے گرادیں۔ [سورہ قلم(68) آیت:51]

 

 

موئے مبارک سے شفاء 

حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس تاجدار انبیاءﷺ کے موئے مبارک تھے جو انہوں نے چاندی کی ایک نلکی میں رکھے ہوئے تھے۔راوی کا بیان ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھے پانی کا ایک پیالہ دے کر حضرت ام سلمہؓ کی خدمت میں بھیجا۔ اس لیے کہ جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو وہ شخص حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت اقدس میں ایک پیالہ بھیجتا۔ حضرت ام المومنینؓ ا ن مقدس بالوں کو اس پیالے میں پانی کے اندر ہلاتیں۔ مریض وہ پانی پی لیتا اور اللہ تعالی کی مہربانی سے حضورﷺ کے موئے مبارک سے مس ہوئے پانی کے پینے سے شفایاب ہو جاتا۔
[طبِ نبوی۔ زادالمعاد۔ از ابن قیم ]

 

نظر کی تعریف:

نظر، نفس انسانی کی خاص کیفیات کا ایک اصطلاحی نام ہے۔ یہ کیفیات حرکت کرتی ہیں یعنی ایک نفس سے دوسرے نفس کی طرف یا ایک وجود سے دوسرے وجود کی طرف حرکت کرکے وہاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اثر اندازی عموماً کسی تکلیف یا نقصان کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ‘‘نظر’’ کے اسباب زیادہ تر منفی ہی بتائے جاتے ہیں۔ اسے ہمارے ہاں نظر بد بھی کہا جاتا ہے تاہم واضح رہے کہ ہر نظر منفی خصوصیات کی حامل نہیں ہوتی۔ نظر اپنے اثرات رکھتی ہے۔ ان اثرات کے اظہار کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نظر بد ہی ہو یا اس کے اثرات بُرے ہی ہوں۔
یہ بات ہمارے عام مشاہدے میں ہے کہ بُری نظر اگر بُرا اثر ڈالتی ہے تو تحسین وستائش کی نظر انسان کے لیے خوشی، حوصلہ اورتوانائی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی ستائش یا شفقت کی نظر بھی کسی پریشانی کاسبب بن سکتی ہے۔ کبھی کسی مخلص ترین ہستی کی نظر بھی لگ سکتی ہے۔ جیسا کہ چھوٹے بچوں کو خود اُن کے ماں باپ کی پیار بھری نظر بھی لگ جاتی ہے۔ کبھی کسی کو خود اپنے آ پ کی نظر بھی لگ سکتی ہے۔

نظر کیسے لگتی ہے….؟

آیئے ! ہم ان کیفیات کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں اصطلاحاً نظر یا نظربد کہا جاتا ہے

 

 

(جاری ہے)

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *