اوراد و وظائف، روحانی علاج
سے متعلق
خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال و جواب
سوال:- انسان بیمار کیوں ہوتا ہے ، مختلف مکاتب فکر کہتے ہیں کہ بیماری کا تعلق ذہن سے ہے جب کہ میڈیکل سائنس بیماری کی وجوہات کو جسم میں تلاش کرتی ہے ….سوال یہ ہے کہ آیا ذہن بیمار ہوتا ہے یا صرف جسم ہی بیمار ہوتا ہے؟ کیا ذہنی مسئلے کو حل کرنا چاہئے یا جسم کو علاج بہم پہنچایا جائے جس سے شفاحاصل ہو؟….
جوابـ:-
انسانوں کی زندگی کا دارومدار خیالات پر ہے۔ خیالات ماحول سے متاثر ہوتے ہیں یا ماحول خیالات سے بنتا ہے۔ اگر آپ کے ماحول میں صفائی نہیں Pollution زیادہ ہے۔ دھوئیں کا Pollution شور کا Pollution ….انسانی ذہنی پیچیدگی کا Pollution ….خود غرضی کا Pollution …. ہو تو آدمی کا ذہن متاثر ہوتا ہے۔ اس سے انسانی ذہن کے اوپر ایک دباؤ پڑتا ہے، خیالات میں دباؤ سے معدہ متاثر ہوتا ہے۔ نیند ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ آدمی الجھا الجھا رہتا ہے…. مزاج میں تلخی اور چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ یہ سب عوامل مل کر بیماری بن جاتے ہیں….
بیماری کا اثر پہلے دماغ قبول کرتا ہے….اگر ماحول میں صفائی ستھرائی ہو….پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہو، غذاؤں میں ملاوٹ نہ ہو….نمک میں پتھر پِسا ہوا نہ ہو۔ مرچوں میں اینٹیں پِسی ہوئی نہ ہوں….دھنیے میں لکڑی کا بُرادہ نہ ملایا گیا ہو۔ گھر میں ناقص تیل ملا ہوا نہ ہو تو انسان کا ذہن ہلکا رہتا ہے۔ غذا کی افادیت حاصل ہوتی ہے لیکن اگر خود غرضی انسانی زندگی میں زہر گھولنے لگے نتیجے میں خیالات کی پاکیزگی بھی ختم ہو جاتی ہے اور انسان کے ذہن کا دباؤ جسمانی بیماری کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
جسم انسانی کے اوپر ایک اور وجود ہے ۔ جو روشنیوں کا بنا ہوا ہے ۔ جو بیماریاں ، اُلجھنیں اور پریشانیاں انسان کے اوپر آتی ہیں، پہلے روشنیوں کے وجود میں آتی ہیں گوشت پوست کے جسم میں بعد میں نمودار ہوتی ہیں۔ روشنیوں کا انسان فلم ہے اور جسم اسکرین ہے ۔ روشنیوں کے وجود میں سے بیماری کو نکال دیا جائے تو جسم خود بخود صحت مند ہوجاتاہے ۔ بیماری کا تعلق ذہن سے ہے ۔ جب ذہن بیمار ہو جاتا ہے تو ذہن یا دماغ اس بیماری کو جسم کے اوپر پھینک دیتا ہے۔
سوال:- کتاب ‘‘مراقبہ ’’ میں مذکور ہے کہ پیچیدہ انسانی بیماریاں حسد، بغض، حرص ، نفرت اور تفرقے بازی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کا تدارک ہوجائے تو بیماریاں نہیں ہوتیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کینسر ، ایڈز، جیسی بیماریوں کے سلسلے میں بھی مذکورہ بالا تجزیہ درست ہے ؟
جوابـ:-
ہر انسان لہروں سے مرکب ہے اور ہر لہر کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ جب ہمیں کوئی خیال آتا ہے تو دراصل کئی لہروں کا ہمارے دماغ پر ہجوم ہوتا ہے ۔ لہروں کے اس ہجوم کو ہم خیال یا خیالات کہتے ہیں ۔ کوئی خیال ہمارے لئے پریشانی ، پشیمانی ، اضمحلال و اضطراب کا موجب بنتا ہے اور کوئی خیال ہمارے اندر مسرت وشادمانی کا سبب بنتا ہے۔ خیال میں ناگواری لہروں کے رنگوں میں عدم توازن کی وجہ سے ہوتی ہے اور خیال میں دلچسپی لہروں میں توازن کی بناء پرہوتی ہے ۔ لہریں مسلسل بے ترتیب اور تیز رفتار ہوتی ہیں تو ان میں سرخ رنگ کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں سرطان ، ایڈز اور دوسری کئی طرح کی جنسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔لہروں میں مقداروں کا تناسب بگڑ جائے اور لہروں کر حرکت متاثر ہوجائے تو قسم قسم کی بیماریاں جسمانی وجود میں اپنا گھر بنالیتی ہیں۔
حسد، بغض، حرص ، نفرت اور فساد کے جذبات میں لہروں کا براہ راست عمل دخل ہے ۔ اس طرح رحم دلی، عفوودرگزر ، خلوص او رایثار ، عاجزی ، انکساری اور خدمتِ خلق کا تعلق بھی لہروں کے اوپر قائم ہے ۔
سوال: آج کل جبکہ ہر طرف سائنسی ترقی کا دَور دَورہ ہے۔ نت نئے امراض اور اس کا علاج ممکن ہے۔ پھر یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ بہت سی بیماریوں کے علاج میں تمام ڈاکٹر ناکام ہو جاتے ہیں؟ اور وہی بیماری ایک عامل کے تعویذ اور عمل سے ختم ہو جاتی ہے۔ سوال یہ کرنا ہے کہ تعویذ کے اندر وہ کونسی طاقت ہے جس کے ذریعے سے بیماری دور ہو جاتی ہے اس کی علمی اور روحانی تشریح فرما دیں….؟
جوابـ:-
انسان کے اندر کام کرنے والی ساری صلاحیتوں کا تعلق اور دارومدار ذہن پر ہے۔ ذہن کی طاقت ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتی ہے۔ جہاں شعور بھی ہراساں اور خوفزدہ نظر آتا ہے۔ انسان کی ایجاد کا یہ کتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ایک ایٹم کو اتنا بڑا درجہ دے دیا ہے کہ اس ایک ایٹم سے لاکھوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ایٹم کو لاکھوں اشرف المخلوقات انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔
جس طرح ایٹم میں مخفی طاقتیں موجود ہیں بالکل اسی طرح کائنات کی ہر تخلیق میں مخفی اور پوشیدہ طاقتوں کا سمندر مؤجزن ہے اور ان ساری طاقتوں کی اصل روشنی ہے۔
عملیات اور تعویذ میں بھی یہی روشنی کام کرتی ہے۔ چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے روشنی پر اس کو تصرّف کا اختیار دیا گیا ہے۔ تعویذ میں جو روشنیاں کام کرتی ہیں وہ ذہنِ انسانی کے تابع ہیں لیکن اس کیلئے اجازت لینا ضروری ہے۔ کسی بھی عمل کے صحیح نتائج اس وقت سامنے آتے ہیں جب ہماری صلاحیتیں دلچسپی اور یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔قانون یہ ہے کہ دلچسپی اور یکسوئی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے روشنیاں بکھر جاتی ہیں یہی حال تعویذ کے اوپر لکھے ہوئے نقوش اور ہندسوں کا ہے۔ کوئی عامل جب تعویذ لکھتا ہے تو وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی ماورائی قوتوں کو حرکت میں لے آتا ہے۔
طلسماتی تعویذ دوطرح کے ہوتے ہیں ایک استدراجی علوم کے تحت لکھے جاتے ہیں اور دوسرے روحانی علوم کے تحت لکھے جاتے ہیں ۔ رحمانی علم سے لکھے جانے والے تعویذات میں اﷲکے نام، اﷲکے کلام اور قرآن کی آیتیں ہوتی ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے خود قرآن پاک کی عظمت کے بارے میں فرمایاہے۔ اگرہم قرآن کو پہاڑوں پر نازل کردیتے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ اس فرمان مین قرآن کی طاقت اور عظمت کا تذکرہ ہے۔ رحمانی تعویذ میں چونکہ اﷲکے کلام کی طاقت ہوتی ہے اس لئے یہ تعویذ امراض کے لئے شفاء بن جاتاہے۔ دراصل اﷲ کا کلام امراض کے لئے شفاہے۔
تعویذ کے اوپر رحمانی علوم کے تحت جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ دراصل کسی اسم یا سی آیت کے اندر روشنیاں یا انوار ہیں۔ انوار ہی ساری کائنات ہے جیسے اﷲ نے فرمایا ہے۔ اﷲ نور السموٰت والارض ۔ اﷲ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز وہ حرف ہو، لفظ ہو یا نقطہ ہو اﷲکے نور کے غلاف میں بند ہے۔
سوال:- معاشرتی زندگی میں تقریباً ہر ایک کو ایک ہی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں کاروبار، شادی، خاندانی چپقلش، معاشی مشکلات، برکت میں کمی، ہروقت پریشانی، بے سکونی ، ذہنی و نفسیاتی مسائل ، بیماریاں اور دیگر امور شامل ہیں۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جملہ مسائل کا حل کے لیے کوئی ایک عمل ، کوئی ایک اسم اعظم ہے جس سے ہر کوئی مستفید ہو سکے۔؟
جوابـ:-
آپ کے تمام مسائل کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ کو ’’اسم اعظم‘‘ کا ورد کرنے کا مشورہ دوں۔
آپ تمام دن ، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، وقت بے وقت، وضو یا بغیر وضو، پاکی ناپاکی ہر حال میں اسم اعظم ‘‘ياحيُّ ياقيّوم ’’ کا کثرت سے ان گنت مرتبہ ورد کریں اور رات کو جب سونے کے لیے ليٹيں تو تقریباً تين منٹ تک اسم اعظم ‘‘ياحيُّ ياقيّوم ’’ کی تکرار کریں اور بند آنکھوں سے يہ تصوّر کریں کہ آپ کے ذہن ميں اسمِ اعظم کی تمام قوتيں ذخيرہ ہیں ۔ پھر اپنے يا دوسروں سے متعلق امراض ، سوال اور مسائل وغیرہ کو تصوّر ميں لائیں اور اسم اعظم کی ذخيرہ کردہ قوت اسم اعظم کو اپنے ذہن ميں حرکت ديتے ہوئے يہ خیال کریں کہ میرا فلاں فلاں مسئلہ حل ہو گیا یا فلاں بیماری سے صحت ہو چکی ، امتحان ميں کامیابی ہوگئی ، شادی ہوچکی ، کينسر ختم ہوگیا ، موٹی ناک پتلی ہوچکی ، ملازمت مل چکی ، مطلوبہ کام ہوگیا ، ويزہ مل چکا ، وغیرہوغیرہ ……
یعنی اس تصوّر ميں ، ہوچکا يا ہوگیا کا عمل ذہنی قوت سے دُھرانا ہوتا ہے، جب تک آپ کے جملہ مسائل حل ، مقاصد پورے نہ ہو جائیں یہ عمل جاری رکھیں۔ ….
اس دوران ہر جمعرات کو خيرات کریں اور مقصد پورا ہوجانے کے بعد کسی بھی ماہ کی مہینے کی انگریزی 27ويں تاریخ کو حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی روح مبارک کو ايصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کرواکر حسبِ استطاعت غریبوں کو کھانا کھلا دیں۔ (نوٹ : يہ عمل ہر ضرورت مند جائز مقاصد کے لیے کرسکتا ہے)
آپ کو اور آپ کی طرح کے تمام قارئین حضرات و خواتین کو جو واقعی ذہنی سکون کے متلاشی ہیں اور اللہ کی رضا و تسلیم چاہتے ہیں، ان سب کو اجازت عام ہے۔ اسمِ اعظم وِرد کرنے کے ضمن میں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ان گنت مرتبہ بغیر لالچ اور صلہ و ستائش کے وِرد کرنا چاہئے۔ اس طرزِ فکر کے ساتھ اسمِ اعظم وِرد کرنے سے اللہ تعالیٰ کا عرفان نصیب ہوتا ہے اور دنیاوی تمام کام بھی غائبانہ طور سے سر انجام پاتے ہیں۔
Khawaja Shamsuddin Azeemi Interview about Spritual Healing and Pray