خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؒکی شہادت کے وقت اسلامی ریاست کا رقبہ 22 لاکھ مربع میل تھا، اس وقت عراق، فارس، میسوپوٹامیہ ، شام، مصر اور اَذربیجان پر اسلامی پرچم لہراچکا تھا۔ اس وقت ساسانی بادشاہ یزگزد فارس میں بغاوت پھیلانے کی سازشیں شروع کردیں۔ حضرت عثمان غنی ؒ خلافت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی پورے عزم کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوگئے ۔ حضرت عثمان نے بصرہ پر عبداللہ بن عامرؒ کو حاکم مقرر کیا اور فارس میں اٹھی بغاوتوں کو کچلنے کا حکم دیا۔ ساسانی حکومت کے صوبوں فارس ، کرمان مکران، سِجستان (موجودہ افغانستان) اور خراسان کی طرف مہمات بھیجی گئیں ۔ خراسان کی مہم میں حضرت عبداللہ بن عامرؓ کے ہمراہ میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے صاحبزادے حضرت ابو منصور تابعی بھی شامل تھے۔ 29ہجری (650عیسوی) خراسان کی فتح کے بعد ابو منصور نے خراسان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ، اس طرح حضرت ابو ایوب انصاری کی اولاد میں سے بعض گھرانے بلخ اور ہرات شہر میں رہنے لگے۔ ابو منصور کی اولاد میں سے ابو منصور محمد انصاری بلخی نام کے ایک تاجر تھے ۔ اس دور کے مشہور صوفی بزرگ ابوالمظفر ترمذی اور شریف حمزہ عقیلی کے مرید تھے۔ جمعہ 2 شعبان 396ھ(بمطابق 4 مئی 1006ء) کو خراسان کے شہر ہرات، (موجودہ صوبہ ہرات افغانستان ) کے قدیم قلعہ قہندژ Kohandez میں ابومنصورمحمد کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جن کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ابومنصور محمد کے پیر حمزہ عقیلی نے عبداللہ انصاریؒ کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لڑکا ایک روز شیخ الاسلام کے لقب سے سرفراز ہوگا۔ حضرت حمزہ عقیلی کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ عبداللہ انصاری ہرات کی ایک نادر شخصیت بن کر اُبھرے۔ تاریخ میں انہیں شیخ الاسلام اور پیرِ ہرات کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ عالمِ اسلام کے بہت بڑے شاعر مولانا عبدالرحمن جامی اپنی مشہور تصنیف نفحات الانس میں تحریر کرتے ہیں کہ (اس دور کی) کتابوں میں جہاں کہیں بھی صرف شیخ الاسلام کا لفظ آیا ہے اس سے مراد خواجہ عبداللہ انصاریؒ ہیں ۔ شیخ الاسلام حضرت ابو اسماعیل خواجہ عبداللہ انصاریؒ (1006ء تا 1089ء) المعروف پیرِ ہرات کا شمار گیارہویں صدی عیسوی /پانچویں صدی ہجری کے جلیل المرتبت صوفیاء میں ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ انصاری رباعی گو صوفی شاعر، مفسر قرآن اور شیخ طریقت تھے۔ عربی اور فارسی زبانوں میں آپ کے پند و نصایح ، اقوال اور صوفیانہ اشعار ایران، افغانستان، تاجکستان اور وسطی ایشیاء میں آج بھی مقبول ہیں۔ خواجہ عبداللہ انصاریؒ نے خداداد صلاحیتوں کے باعث کم عمری میں ہی عربی میں شعر کہنا شروع کردیا تھا ۔ اپنے عہد کے جید علما کی صحبت سے فیضِ حاصل کرنے کے بعد چودہ سال کی عمر میں انہیں مجلس میں مسند پر بیٹھایا جانے لگا تھا ۔ آپ کا حافظہ بہت تیز تھا ،بڑی تعداد میں احادیث نبوی انہیں زبانی یاد تھیں۔ آپ فرماتے ہیں: مجھے کھانا کھانے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا،بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ عشاء کی نماز کے بعد احادیث لکھنے بیٹھتا اور صبح ہوجاتی تھی،کبھی میری والدہ روٹی کے لقمے توڑکر میرے منہ میں ڈالتی اورمیں لکھتارہتا۔ خواجہ عبداللہ انصاری ظاہری علوم سے فراغت کے بعد 417 ہجری میں ہرات واپس لوٹ آئے ۔ اب آپ باطنی علوم کی طرف متوجہ ہوئے، آپ زمانہ طفولت سے اپنے والد کے ہمراہ صوفیائے کرام کی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے تھے، پہلے آپ ہرات میں ہی شیخ عبدالله طاقی سجستانی کی خدمت میں رہے، ان کی وفات کے بعد شیخ عمو ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت عبدللہ انصاری کے والد ابو منصور ؒبلخی بھی دنیاوی امور کو خیر بعد کہنے کے بعد حمزہ عقیلی کی خدمت کے لیے بلخ منتقل ہوچکے تھے، چنانچہ نوجوانی کے ادوار آپ نے والد کے بغیر شیخ عمو ؒ کی خدت میں گزارے ۔ شیخ عمو ؒ آپ پر بہت مہربان تھے باطنی علوم کے ساتھ ساتھ آپ کی کفالت کا ذمہ بھی انہوں نے اپنے سر لیا، اور اپنی عدم موجودگی میں اپنی خانقاہ کے انتظامی امور بھی خواجہ عبداللہ انصاری کے سپرد کردیا کرتے تھے۔ 422ھ میں شیخ عمو ؒ کی وفات ہوگئی،حضرت عبداللہ انصاریؒ کے والد بلخ میں تھے اور ہرات میں ان کا کوئی بزرگ و کفیل نہیں تھا۔ روایات کے مطابق 424 ہجری میں آپ نے ابولحسن خرقانی ؒ کی صحبت اختیار کی اور ان سے فیص پانے لگے۔ ابولحسن خرقانی ؒ کی صحبت میں آپ پر باطنی علوم کے پزاروں در وا ہوئے، خواجہ عبداللہ انصاریؒ خود اپنے شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر من خرقانی را ندیدمی، حقیقت ندانستمی ‘‘اگر میں نے خرقانی کو نہیں دیکھا ہوتا ، تو مجھے حقیقت کا پتہ نہ چلتا۔ ’’ خواجہ عبداللہ انصاریؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ‘‘عبداللہ گنجے بود پنہانی، کلید آں گنج بدست ابو الحسن خرقانی، تا رسیدم بچشمہ آب زندگانی، چنداں خوردم کہ نہ من ماندم نہ خرقانی’’ (عبداللہ ایک ایسا خفیہ خزانہ تھا جس کی کنجی ابوالحسن خرقانی کے پاس تھی، ان سے مجھ تک چشمہ آب زندگانی پہنچا اور اس سے میں نے اتنا استفادہ کیا کہ اب مجھ میں نہ عبداللہ باقی رہا اور نہ خرقانی ) ابوالحسن خرقانی ؒ نے عبداللہ انصاری کو باطنی علوم سے فیض یاب کیا۔ بعد میں عبداللہ انصاری ان کے جانشین بنے۔ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی ؒ کے بعد علم التصوف کے حصول کے لیے آپ شیخ ابوسعید ابوالخیر کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ ہرات واپس آنے کے بعد آپ شیخ ابوعاصم جوکہ آپ کے رشتے دارتھے،ان سے بیعت ہوئے اور یہیں آپ نے خلقِ خدا کے لیے تلقین و ارشادات کا سلسلہ شروع کیا۔ حضرت عبداللہ انصاری کی مجلس وعظ میں شمولیت کے لیے لوگ دور دراز سے آتے تھے۔ آپ کی شخصیت متاثر کن تھی اور خوش لباس تھے۔ قارئین کرام کے لیے یہ جاننا بھی مزید دلچسپی کا باعث ہوگا کہ اپنے دور کے اکابرین مثلاً امام غزالی، ابوقاسم قشیری، اپنے ہم عصر خواجہ عبداللہ انصاری عبدالرحمٰن جامی کے عقیدت مند رہے ہیں۔ عبدالرحمٰن جامی نے حضرت عبداللہ انصاری کی حیات و تعلیمات پر کتابیں بھی لکھیں۔ خواجہ عبداللہ انصاری نے سلطان محمود غزنویؒ، ان کی اولاد، عباسی خلیفہ القائم بامر اللہ، المقتدی باللہ، الپ ارسلان اور نظام الملک طوسی کازمانہ پایا۔ آپ نے اپنے دور کے کئی حکمرانوں، امراء کو نصیحتوں بھرے مکتوبات ارسال کیے، کئی مرتبہ حق گوئی کی وجہ سے حکمرانوں کی صعوبت کا سامنا کیا۔ خواجہ عبداللہ انصاری کو شہر بدر اور قید بھی ہونا پڑا۔ خواجہ عبداللہ انصاریؒ نے اسلامی تصوف اور فلسفہ پر عربی و فارسی میں گراں بہا تصانیف لکھیں جن میں طبقات الصوفیہ، زاد العارفین، کتاب الاسرار، منازل السائرین، کنزالسالکین، ہفتحصار، آتش و بال پروانہ، رسالۂ دل و جان، رسالۂ واردات ، تحفۃ الملوک، نصایح، مجموعہ صد پند سود مند، قلندرنامہ، الٰہی نامہ، محبت نامہ، سعادت نامہ، مناجات نامہ اور صد میدان مشہور ہیں۔ علم سلوک میں آپ کا ایک رسالہ بنام منازل السائرین ہے، جس کی کئی شروح لکھی گئی ہیں۔ آپ محدث بھی تھے ، حضرت عبداللہ انصاریؒ نے قرآن کریم کی قدیم ترین صوفی تفسیر فارسی زبان میں لکھی جس کا نام‘‘کشف الاسرار ’’ ہے۔ مشہور فقیہ ابن قیم جوزی حنبلی نے آپ کے تصنیف کردہ رسالہ مدارج السالکین کی ایک لمبی شرح تحریر کی ہے۔ معروف فارسی شاعر عبدالرحمٰن جامی، عبداللہ انصاری کے متعلق ایک شعر میں فرماتے ہیں به گوشِ جان بِشِنو نکتههای پیرِ هرات که مشکلاتِ طریق از بیانش آسان است (پیرِ ہرات (خواجہ عبداللہ انصاری) کے نکتوں کو بہ گوشِ جاں سنو، کہ طریقت کی مشکلات اُن کے بیان کے ذریعے آسان ہیں۔) شیخ الاسلام حضرت عبداللہ انصاریؒ کی تصنیف مناجات نامہ فارسی ادب کا شاہ کار شمار کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے ایک لاکھ سے زیادہ اشعار اور رباعیات لکھیں۔ آپ فرماتے ہیں.... مقصود دل و مُراد جانی عشق است سرمايهء عمر جاودانی عشق است آن عشق بود کز و بقا يافته خضر يعنی که حيات جاودانی عشق است (دل کامقصد جان کی مراد عشق ہے، ابدی زندگی کا سرمایہ حیات عشق ہے، یہ عشق ہی ہے جس سے خضر کو بقا ملی ، یعنی کہ جاویداں و ابدی حیات عشق ہے۔) عیب است بزرگ، برکشیدن خود را وز جملۂ خلق برگزیدن خود را از مردمکِ دیدہ بباید آموخت دیدن ہمہ کس را و ندیدن خود را (اپنے آپ کی بڑائی بیان کرنا اور خود کو بلند مرتبہ سمجھا ایک بہت بڑا عیب ہے، لوگوں میں سے خود کو برگزیدہ سمجھنا بھی بہت بڑا عیب ہے۔ خود بینی سے بچاؤ، آنکھوں کی پُتلیوں سے سیکھنا چاہیے کہ سب کو دیکھنا اور خود کو نہ دیکھنا۔) پیوسته دلم دم ار رضای تو زند جان در تن من نفس برای تو زند گر بر سر خاک من گیاهی روید از هر بر گی بوی وفای تو زند (میرا دل ہمیشہ تری رضا کا دم مارتا ہے اور جان مرے بدن میں تیرے لیے سانس لیتی ہے۔ اگر میری خاک پر گھاس اگے تو ہر پتہ سے تیری وفا کی بُوآئے گی) حضرت خواجہ عبداللہ انصاری، پیر ہرات نے اپنے پوری زندگی علم کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔ دوردراز علاقوں سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر قلوب واذہان کو منور کرتے تھے۔ عمر کے آخری ادوار میں آپ کی بینائی کم زور رہنے لگی لیکن آپ کی یادداشت اور حافظہ اس قدر تیز تھاکہ بصارت کی کم زوری علمی مشاغل میں آڑےنہ آسکی۔ شیخ الاسلام، پیرِ ہرات خواجہ عبداللہ انصاریؒ نے 19فروری1089ء(22 ذی الحج 481ھ )کو ہرات میں پچاسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ عبداللہ انصاری کا شمار افغانستان کی محترم ترین شخصیتوں اور فارسی ادب کے بہترین اہل قلم میں ہوتا ہے۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں ایران، افغانستان و تاجیكستان نےمشترکہ یادگار ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ ہرات کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی انہی کے نام نامی سے موسوم ہے۔ ہرات کے تیموری حکمران شاہ رخ مرزا نے پندرہویں صدی عیسوی میں آپ کا عالیشان مقبرہ سنگ یشپ سے تعمیر کروایا۔ آج بھی آپ کا مقبرہ ہرات کی مقبول ترین زیات گاہ میں سے ہے۔ حضرت عبداللہ انصاری کا عرس ہر سال ذی الحجہ کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔