Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

طویل عمر کا راز بلیو زون Blue Zone کے لوگوں سے جانیں

بلیو زون – Blue Zone

طویل عمر کا راز بلیو زون کے لوگوں سے جانیں

 

 طویل عمر پانے کا خواب شاید ہر انسان ہی دیکھتا ہے، لیکن اس خواب کی تعبیر ہر کوئی نہیں حاصل کرپاتا۔ زندگی سے محبت انسانی وجود میں بلکہ ہر ذی روح میں فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ انسان ہمیشہ سے طویل عمر پانے کا شیدا ئی رہا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر ‘‘دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو ’’ کی دعا دی جاتی ہے، اس سے ملتی جلتی دعائیں دنیا کے اکثر معاشروں میں موجود ہیں۔ مرزا غالب نے تو پوتوں اور نواسوں کو پالنے سےبھی کہیں آگے بڑھ کر ہزار سال جینے کی دعا دی تھی اور وہ بھی ایک ایسے سال کی دعا جس کے دن پچاس ہزارہوں۔

تم جیو ہزاروں سال، سال کے دن ہوں پچاس ہزار

یہ بات الگ ہے کہ انسان اگر ہزار برس جیے تب بھی اسے یہ حسرت رہے گی کہ وہ کچھ اورجی لیتا۔
انسان ہمیشہ سے جن چیزوں کا متلاشی ہے ان میں سے ایک طویل عمر بھی ہے۔
انسان نے اپنی عمر میں اضافے کی کوششیں اس وقت سے شروع کردی تھی جب اس نے مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال شروع کیا ۔ حکمراں اپنے اپنے عہد کے طبیبوں اور حکماء کو کہتے تھے کہ وہ ان کے لئے ایسی دوا تیار کریں جو ان کی عمر میں طوالت کا سبب بن سکے یہ الگ بات کہ عمر اور حاکمیت کو طول دینے کی ان کی یہ خواہش پنپ نہیں سکی۔

انسان کتنا جی سکتا ہے؟

ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کی عمریں کافی حد تک طویل تھیں۔
اس موضوع پر سائنس اور صحت کے ماہرین کی آراء کا جائزہ لیں۔ آئیے….! روسی سائنس دان اور ماہر نفسیات‘‘ایوان پاولوف’’ Ivan Pavlov کا خیال تھا کہ ہر انسان کی طبیعی عمر 100 سال ہوتی ہے۔ روسی بائیولوجسٹ ڈاکٹر ایلیا مچنیکوف Élie Mechnikov کے خیال میں اوسط عمر 150 سے 160 سال کے درمیان ہو تی ہے۔ جرمنی کے مشہور ومعروف ڈاکٹر ‘‘گوفلاند’’ کا نظریہ تھا کہ عموما ًانسان کی اوسط عمر 200سال ہے۔
انیسویں صدی کے معروف فزیشین ‘‘فلوگر’’’ Dr. Flaugherکہتے تھے کہ انسان کی اصل طبیعی عمر 600 سال ہوتی ہے ۔ سوئس نژاد ماہر کیمیا، ڈاکٹر ہنری ہیس Henri Hess کا کہنا ہے کہ بعض اسباب فراہم کردیے جائیں تو مستقبل کا انسان آٹھ سو سال زندگی بسر کرے گا۔ مشہور یورپی سائنسدان ‘‘راجر بیکن’’ roger bacon کا ماننا تھا کہ ہر انسان میں ایک ہزار سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔

خلیے ، ڈی این اے اور عمر

سائنسی علوم کا ایک بنیادی اصول ہے کہ وہ ہر شے کو مادی، تجزیاتی اور تجرباتی پیمانوں پر پرکھتی اور نتائج اخذ کرتی ہے۔ انسان کیوں بڑھاپے اور موت کا شکار بن جاتا ہے اس حوالے سے سائنس دانوں کے مطابق انسانی جسم کھربوں خلیات سے مل کربنا ہے اور جسم میں ہر لمحہ ڈی این اے کی زیرِ نگرانی پرانے خلیے مرتے اوران کی جگہ نئے خلیے بنتے رہتے ہیں، جو پرانے خلیوں کی ہو بہو نقل ہوتے ہیں۔ تاہم عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈی این اے کی تقسیم کی صلاحیتیں کم زور ہوتی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں نئے بننے والے خلیے اتنے صحت مند نہیں ہوتے جتنے بچپن اور جوانی میں ہوا کرتے تھے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے فوٹو کاپی مشین شروع شروع میں تو بہت اچھی کاپیاں بناتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا ٹونر(Toner) کمزور پڑتا جاتا ہے اور پرانی مشین کی کاپیاں اصل کے مقابلے میں خراب تر ہوتی جاتی ہیں۔
ٹیلومیریس(Telomeres) ہر انسانی خلیے کے کنارے پر واقع ایک خاص مادے کا نام ہے جو اسے حد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتا۔ جب خلیہ تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر کر نئے خلیے پیدا کرتا ہے تو ہر نئے خلیے میں ٹیلومیریس پہلے کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ خلیوں کی تقسیم ہوتے ہوتے آخر ایسا خلیہ جنم لیتا ہے جس کا ٹیلومیریس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ جب یہ مرحلہ آ پہنچے تو خلیہ مزید تقسیم نہیں ہوتا۔ یوں خلیوں کی پیدائش کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
بس اسی لمحے ہمارے اعضا کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے اور ہم بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں یہ عمل سینسینس (Senescence)کہلاتا ہے۔
اس نکتہ پر خاصی تحقیق کی جا رہی ہے کہ کسی طریقے سے ڈی این اے کی تقسیم کی صلاحیت کو لمبی عمر تک برقرار رکھا جا سکے تاکہ بڑھاپے میں بھی صحت مند اور توانا خلیے پیدا ہوں۔ جس روز انسان ڈی این اے کی تقسیم کے عمل میں سست روی روکنے اور اس کی نقل پیداکرنے کے قابل ہوگئے تو 100 سالہ انسان کی جسمانی صحت ویسی ہی ہوسکے گی جیسی 20 سال کی عمر میں ہوا کرتی تھی۔

اس تقسیم کو کیسے برقرار رکھا جائے

علم جیرونٹولوجی Gerontology کے ماہرین خلیوں کے ٹوٹ پھوٹ کی رفتار اور انسان کی عمر بڑھنے اور گھٹنے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں۔
جدید سائنسی تحقیق اور بیماریوں کے علاج، جنگوں اور وباؤں کی کمی سے آج انسان کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی اور اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ میں ترقی یافتہ ممالک میں عمرکا اوسط 47 سے بڑھ کر 74ہوچکا ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اوسط عمر اس سے کچھ زیادہ ہے۔ آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں اوسط عمر 81 سال بتائی جاتی ہے۔عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 صدی کے آغاز تک اوسط انسانی عمر 40 سال تک تھی۔ جبکہ موجودہ دور میں ماہرین نے دنیا کے انسانوں کی اوسط عمر کا تخمینہ 67 سال لگایا ہے۔ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں اوسط عمر میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تک اوسط عمر کا تناسب سو کے قریب نہیں پہنچ پایا ہے۔
سائنس دانوں نے ان عوامل کی ایک طویل فہرست بنارکھی ہے جو ان کے خیال میں عمر میں کمی یا زیادتی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں مختلف بیماریاں، نفسیاتی مسائل، وبائیں، حادثات، جرائم، آلودگی، طرززندگی، ماحول، رہن سہن، خواراک، جینیاتی عوامل، معاشرتی روئیے ، سماجی تعلقات، مینرز اور عادات، طرزفکر، فطرت سے دوری، درختوں کی کمی، صنعتی سرگرمیاں ، گلوبل وارمنگ، مشینی آلات ،تابکار، کیمیائی اور زہریلے مادوں کا بے دریغ استعمال اور دیگر کئی سرگرمیاں شامل ہیں۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کچھ خطوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نہ سائنس دان ہیں نہ دانش ور۔ انہوں نے عملی طور پر اپنے عمر میں اضافہ کرکے دکھایا ہے۔ ان کی طویل العمری نے سائنس دانوں کو اس تحقیق پر راغب کیا کہ دنیا کے بعض خطوں میں رہنے والے اکثر افراد کی عمریں بہت زیادہ کیوں ہوتی ہیں۔

بلیو زون 

بلیو زون Blue Zone کیا ہے؟
بلیو زون دراصل ان خطوں کو دیا گیا نام ہے جن کے رہنے والوں کی اوسط عمردنیا کے دیگر خطوں کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے ۔
بلیو زون کی اصطلاح سب سے پہلے یہ ایسٹوونیا کی ٹالنن Tallinn یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز سے وابستہ مائیکل پاولائن Michel Poulain اور اٹلی کی ساسری Sassari یونیورسٹی سے منسلک جیانی پیس Gianni Pes نے وضع کی ، انہوں نے آبادکاری کے سروے کے دوران اٹلی کے جزیرے سارڈینیا sardiniaمیں ایک ایسے خطہ کی نشاندہی کی جہاں رہنے والے بیشتر لوگ اٹلی کے دیگر خطوں کے لوگوں سے کہیں زیادہ جیتے ہیں۔ ان لوگوں کی ناصرف عمریں طویل پائی گئیں بلکہ ان میں امراض قلب، ڈپریشن، کینسر، ذہنی مسائل، نسیان، الزائمر جیسے امراض کی شرح حد سے زیادہ کم پائی گئیں۔ ان دونوں ماہرین نے نقشے پر اس خطے پر نیلے رنگ سے ایک دائرہ بنادیا اور اسے بلیوزون کا نام دیا۔
رفتہ رفتہ ان ماہرین نے اوسط عمر کے حساب سے دنیا کے اور خطوں کو بھی کھوجنا شروع کیا ، اور یوں بلیوزون کی تعداد بڑھنے لگی۔ جاپان ، اسپین ، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس وغیرہ کو 84 سال اوسط عمر کے حساب سے سب سے طویل العمر خطہ مانا جاتا ہے۔ان ملکوں میں صوبوں، شہروں اور قصبوں کے حساب سے کیے گئے اعداد و شمار میں بعض خطے 87 سال اوسط عمر سے بھی زیادہ پائے گئے۔ وہاں سینٹنیرئین Centenarians یعنی سو برس کی عمر عبور کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
جدید سائنس کی تحقیق سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہر دس ہزار لوگوں میں سے صرف ‘‘ایک ’’ انسان تقریباً سو برس زیادہ کی عمر پاتا ہے۔ اس حساب سے ایک لاکھ میں صرف دس لوگ ہی سو برس زندہ رہتے ہے۔ بلیو زون کے خطوں میں یہ تناب دس ہزار لوگوں میں پانچ اور ایک لاکھ لوگوں میں پچاس کا ہے یعنی ان بلیو زون میں دنیا کے دوسرے خطوں سے پانچ گنا زیادہ طویل العمر لوگ بستے ہیں۔ طویل العمری کے ضمن میں دنیا کے دودرجن سے زائد خطے آئے ہیں۔ مگر ان میں بھی زیادہ تناسب رکھنے والے صرف پانچ خطوں کو زیادہ اہمیت دی گئی۔

  1. نورو، سارڈینیا، اٹلی ۔Nuoro, Sardinia, Italy
  2. اوکی ناوا جزائر، جاپان ۔ Okinawa, Japan
  3. ائیکاریا ، یونان۔ Icaria, Greece
  4. نیکویا ، کوسٹاریکا۔ Nicoya , Costa Rica
  5. لوما لنڈا، کیلیفورنیا۔ LomaLinda, California

 

پاکستان کا بلیو زون

پاکستان میں بھی بلیوزون کی طرح ایک خطہ ہے جو زیادہ صحت مند اور طویل العمر لوگوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ یہ پاکستان کے شمال کی وادی ہنزہ ہے۔
ہنزہ کے باشندوں کی اوسط عمر سو سال سے زائد ہے۔ یہاں کے بزرگ اور ضعیف العمر لوگ بھی والی بال اور پولو جیسے تھکا دینے والے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں، برف سے ڈھکی جھیل کے ٹھنڈے یخ پانی میں تیرتے ہیں۔ 80 سے سو سال تک کے معمر افراد معماری کا کام کرتے ہیں ، بھاری بھرکم پتھر اُٹھا لیتے ہیں، وادیوں اور پہاڑوں پر کئی میل خوشی خوشی پیدل چلتے ہیں۔ یہاں کینسر جیسے جان لیوا مرض سے لے کر دل کی بیماری، بلڈپریشر یا کولیسٹرول کی زیادتی کی علامات یہاں تک دانت کے درد جیسے معمولی امراض عام نہیں ہیں۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ ہنزہ کے لوگ غذائیت سے بھرپور تازہ غذا لیتے ہیں۔ نہ چائے نہ کافی نہ چینی، بلکہ کثرت سے پھل کھاتے ہیں۔ ان کے پینے کے پانی میں صحت بخش منرلز (معدنیات)موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنی غذا میں گوشت کا استعمال صرف سردیوں میں کرتے ہیں وہ بھی بکرے کا جو اچھی قسم کی گھاس اور جڑی بوٹیاں کھا کر پلا بڑھا ہو۔ یہ لوگ گرمیوں میں بہت مشقت کرتے ہیں اور سردیوں میں پہاڑوں پر چڑھ کر رقص اور ورزش کرتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی عادت ہے کہ وہ صبح بہت سویرے بیدار ہوجاتے ہیں۔
اہل ہنزہ اپنے پڑوسیوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے کبھی نہیں کتراتے۔ نہ انہیں کسی قسم کی کوئی فکر ہوتی ہے ۔ ہنزہ کے باشندوں کی غیر معمولی عمر اور صحت کا تعلق آب وہوا، غذا، سادہ طرزِ زندگی اور جذباتی توازن سے ہے۔
قلندر بابااولیاء ؒ سے ‘‘اہلِ ہنزہ کی بے مثال صحت کے راز’’سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا
‘‘انسان جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے اس ماحول کے اثرات اس کے ذہن اور جسم پر بہت گہرے نقش چھوڑتے ہیں۔ آدمی اگر ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں پہاڑی علاقہ ہو اور سبزہ زار وادی سے گھرا ہوا تو اس خوب صورت ماحول کا عکس اس کی شخصیت پر بھی پڑتا رہے گا اور اس کی صحت اور خوب صورتی اس کے ماحول سے ہم رشتہ ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی بندہ گندے علاقے میں رہے تو اس کی صحت دن بدن گرتی جائے گی اور اس کے چہرے سے تمام تر رعنائیاں اور رونق چھن جائے گی’’۔
آپؒ نے مزید فرمایا کہ ‘‘علیٰ الصبح بیدار ہونا اور رات جلد سوجانا صحت کے لئے انتہائی درجہ بہتر ہے’’۔

 

بلیو زون کے لوگ طویل عمر کیوں؟

بلیو زون کے حوالے سے ان دونوں ماہرین کے کام کو دیکھ کر نیشنل جیوگرافک سے وابستہ مصنف اور ریسرچر ڈان بیوٹنر Dan Buettner بھی بلیوزون BlueZone کی تحقیق میں شامل ہوگئے ۔ ڈان بیوٹنر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تقریباً سات سال دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر طویل العمری کا راز کھوجنے کی کوشش کیں ۔ انہوں نے بلیو زون کے سینکڑوں عمر رسیدہ افراد centenarians کے ساتھ بات کی ، ان کی عادات اور طرز زندگی کا مطالعہ کیا، ان کی خوراک، عادات، رہن سن، ماحول پر تحقیق کی غرض ہر اس شے کا جائزہ کیا جو ان کےمطابق ان کے طویل العمر ہونے کے راز کو کھول سکے۔
دور دراز کے سفر اور طویل عرصہ تحقیق کے بعد انہوں نے ایک کتاب ‘‘بلیو زون ’’BlueZone کے نام سے شائع کی ۔
اس کتاب میں دنیا کے پانچ مقامات میں پائے جانے والی مشترکہ عوامل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انہیں مختصراً ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔

 

  •  طویل العمری کے حساب سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ملک جاپان ہے۔ جاپان کا ایک جزیرہ اوکیناوا خود جاپان کے دیگر علاقوں سے زیادہ طویل العمر افراد کا حامل ہے ۔ بیوٹز نے جاپان کے جزیرے اوکی‌ناوا کی آبادی کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ یہاں کی 13 لاکھ آبادی میں سے 740 افراد کی عمر سو سال سے زیادہ تھی، ‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہر ایک لاکھ میں سے 50 لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔‏
    یاد رہے کہ دیگر ترقی‌یافتہ ممالک میں ہر ایک لاکھ میں سے اوسطاً 10سے 20لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوتی ہے۔‏ اوکیناوا میں ‏سو سال سے زائد عمر کے لوگوں میں سے بیشتر صحت‌مند ہیں، ان میں موٹاپے، کینسر ، امراض قلب اور نسیان جیسی بیماری کا تناسب انتہائی کم ہے۔ ‏
    اوکی‌ناوا میں لوگ ایسی خوراک کھاتے ہیں جس میں کم حرارے (‏کیلوریز)‏ ہوتے ہیں۔‏ وہ سبزیاں،‏ پھل اور کم چکنائی والی خوراک استعمال کرتے ہیں۔‏ ان کے ہاں ہری سبز یوں، پھلیوں ، اور سویابین کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ گوشت کا استعمال صرف تقریبات میں ہوتا ہے، دیگر غذاؤں میں آلو، مصالحے شہد اور ہلدی شامل ہے۔ اوکیناوا کے لوگ تمباکونوشی سے گریزکرتے ہیں شراب بہت کم استعمال کرتے ہیں اور گہری نیند ہوتے ہیں۔
    ان لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے بلکہ پیٹ بھرنے سے پہلے ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کم کھانے سے ہم صحت مند رہتے ہیں۔ چاپانی سوشی (مچھلی ) کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ مچھلی اومیگا تھری سے بھرپور ہوتی ہے۔ اومیگا تھری دماغ اور دل کی صحت کے لئے نہایت مفید ہے۔
    اوکی‌ناوا کے زیادہ تر لوگ سائیکل چلانے یا پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ تقریباً 30سے 60منٹ پیدل سفر کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ وہ لوگ خوش اور پُراُمید رہتے ہیں۔‏ وہ مشکل حالات کا عمدگی سے مقابلہ کرتے ہیں۔‏ عورتیں اپنے ‏اردگرد کے لوگوں کے ساتھ میل‌جول رکھتی ہیں۔‏
  • یونان کے ائیکاریا جزیرے میں آباد 98 سالہ اسٹیمٹس موراٹس Stamatis جب 45 سال پہلے امریکہ سے آئےتو انہیں کینسر تھا، ڈاکٹروں نے انہیں جواب دے دیا تھا کہ وہ صرف نو ماہ ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ باقی زندگی کسی جزیدے میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ وہ امریکہ سے روانہ ہوکر ائیکاریا میں مقیم ہوگئے ، یہاں وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگئے۔
    وہ کہتے ہیں کہ چند سال قبل میں دوبارہ امریکہ گیا تو پتہ چلا کہ تمام ڈاکٹرز جنہوں نے میرا کینسر تشخیص کیا تھا خود وفات پاچکے تھے۔
    یونان کے سمندر ‘‘ایگان’’ کے شمال میں واقع جزیرہ ائیکاریا ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں لوگوں کی عمریں بہت لمبی ہیں اور وہ بہت ہی کم بیمار ہوتے ہیں، یہاں امراض قلب ، کینسر اور دوسرے امراض دنیا کے دیگر خطوں سے 20 تا 50 فیصد کم ہیں۔
    ائیکاریا کے شہریوں کے لمبی عمر ہونے کے بہت سے وجوہات میں ان کا کھانا پینا بھی ہے، یہ لوگ گوشت کے بجائے مچھلی اور سبزیاں کھانے کے شوقین ہیں، مصالحے اور دوا کے نام پر جنگلی جھاڑیوں، پتیوں اور لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں ان کے ہاں کھانا بنانے کے لئے زیتون کے تیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چائے کے لئے یہاں جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے ہیں جس میں پودینا، تیز پات ، اجوائن اور شہد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ کم کھاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ کم کم بیمار پڑتے ہیں۔
    یہاں تمباکو نوشی کی شرح بہت کم ہے۔ ساتھ ہی یہ لوگ سماجی تعلقات میں بہت پرجوش ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ کام میں جلدی نہیں دکھاتے اور سکون کے ساتھ کام سر انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت دے کرخوشی محسوس کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے زیادہ ناراض نہیں ہوتے۔
    یہاں پر لوگ بہت بھرپور نیند سوتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو سیر کرنے کا بہت شوق ہے اور وہ جزیرے پر سیر کرتے رہتے ہیں۔اس طرزِ زندگی کی وجہ سے ان کے ہاں بیماریوں کی شرح بہت ہی کم ہے۔
    Tسارڈینیا اٹلی میں روائتی غذا میں اناج ، گندم کی روٹی، پھلیاں، سبزیاں، پھل اور نباتاتی تیل شامل ہیں، عموما ً لوگ بھیڑ بکری کا دودھ اور پنیر استعمال کرتے ہیں جو اومیگا 3 کے لیے بہترین ہے۔ جو دل کے امراض اور الزائمر کی بیماری کی روک تھام کرتا ہے۔
    سارڈینیا کے لوگ روزانہ تقریباً آٹھ میل چلتےہیں، یہ لوگ آپس میں مل جل کر ہنسی مذاق کرتےرہتے ہیں۔
  •  لوما لنڈا، کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے یہاں تقریبا اکیس ہزار باشندوں کی عمر 90 اور سو سال سے زیادہ ہے ۔ غذاؤں میں یہ لوگ سبزیاں اور دیگر سادہ غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سبزی خور افراد گوشت کھانے والوں کی نسبت لمبی عمر پاتے ہیں۔ ان لوگوں کو دل کی بیماریوں ، شوگر اور گردوں کے امراض بھی کم ہوتے ہیں۔
    ان لوگوں کی زندگی میں مذہب اور روحانیت کی بہت اہمیت ہے ، یہ لوگ زندگی کے معنی اور زندگی کا مقصد تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگ رضاکارانہ کام کرنے میں فعال نظر آتے ہیں، ان کے سماجی تعلقات پرجوش ہیں اور گھریلو زندگی خوشحال ہے۔ یہاں کے لوگوں کو ہنسنے اور مسکرانے کی عادت ہے ، ان میں بلڈ پریشر، ذیابیطس اور امراض قلب جیسے مسائل بہت کم ہیں۔
  •  بحر اوقیانوس کے کنارے کوسٹاریکا میں آباد جزیرہ نما نیکویا Nicoya میں سولہ ہزار باشندے سو برس کی عمر رکھتے ہیں۔ سوسال کی عمر میں بھی یہ لوگ چستی ا ور صحت مند کے ساتھ سائیکل چلاتے اور دوڑ لگاتے ہیں۔
    ان کی غذا میں مکئی، پھلیاں، باغ کے پھل جن میں پپیتا، اورینج جیسے پھل بنیادی طور پر ہوتے ہیں۔ وہ پانی بہت پیتے ہیں۔

  • بلیو زون کے پانچوں علاقوں میں جو چیز مشترکہ طور پر دیکھی گئی وہ یہ کہ وہاں کے باشندوں کی گھریلو زندگی بہت اچھی اور پر سکون رہتی ہے ۔ عموما مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے ۔
    ان کا کہنا ہے کہ انہیں زندگی میں شاید ہی کبھی خاندانی جھگڑوں سے کوئی واسطہ پڑا ہو۔ یہ لوگ ذہنی طور پر بھی بہت آسودہ ہیں۔ اپنے پیشے اور کاروبار میں بھی یہ بہت خوش اور مطمئن رہے ہیں۔
    سادہ اور متوازن خوراک کھاتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کو اولیت دیتے ہیں ، خشک میوہ جات بھی ان کی غذاؤں کا حصہ ہیں۔

9 پاور  

ڈان بیوٹنر نے پانچ بلیو زون کے مطالعہ سے طویل العمری کے 9اہم سبق اخذ کیے ہیں، جنہیں انہوں نے 9Power کا نام دیا ہے۔ :

  • باقاعدگی سے معتدل ورزش وجسمانی سرگرمیاں..Moderate, regular physical activity.
  • زندگی میں مقصد کی تلاش….Life purpose
  • اسٹریس میں کمی….Stress reduction
  • معتدل کیلوری کی غذائیں….Moderate calories intake
  • نباتاتی غذائیں ….Plant-based diet
  • شراب، سگریٹ سے حتٰی الامکان پرہیز …Low alcohol intake, especially wine
  • روحانیت یا مذہب میں مشغولیت…. Engagement in spirituality or religion.
  • گھریلو زندگی میں مشغولیت…………Engagement in family life.
  • سماجی زندگی میں مشغولیت………… Engagement in social life.

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ مئی 2023ء کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

 

یہ بھی دیکھیں

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟ پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے …. پانی ہی ...

مذہب اور سائنس میں تصادم یورپ میں سائنس دانوں کو سزائیں 

  Science VS Religion مذہب اور سائنس میں تصادم یورپ میں سائنس دانوں کو سزائیں  ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *