Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 1

The 7 Habits of Highly Effective People


 اسٹیفن رچرڈ کوؤی Stephen Richard Covey (24 اکتوبر، 1933ء-16جولائی، 2012ء) کا شمار عالمی شہرت یافتہ موٹیویشنل مصنف، ماہرِتعلیم اور بزنس مین میں ہوتا ہے، ٹائم میگزین نے انہیں امریکہ کی پچیس موثر ترین شخصیات کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔
اسٹیفن آر کوؤی 1932ء میں امریکی ریاست یوٹاہ کے سالٹ لیک سٹی میں پیدا ہوئے، یوٹاہ یونیورسٹی سے بزنس میں بیچلر آف سائنس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ۔ برمنگھم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ 30 برس وہ ہاورڈ یونیورسٹی اور بریگھم ینگ یونیورسٹی میں بزنس پڑھاتے رہے۔ اس دوران تجارتی اداروں کے سربراہان، مینیجرز، سیاسی، سماجی راہنما سمیت لاکھوں افراد آپ سے مستفید ہوئے۔
انہوں نے دی سیون ہیبٹس آف ہائیلی ایفیکٹو پیپلThe 7 Habits of Highly Effective People کے نام سے اپنی مشہور زمانہ کتاب تحریر کی ، جس میں انہوں نے اپنے مینجمنٹ کے علم کا نچوڑ پیش کیا۔
یہ کتاب 1989ء میں شائع ہوئی تھی اور اب تک 75 ممالک میں 40 زبانوں میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کو راتوں رات عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ہونے کے علاوہ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کتاب کو بیسویں صدی کی دو اہم ترین کتابوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
اس کتاب میں اسٹیفن نے بتایا کہ دنیا کے بااثر ترین اور کامیاب انسانوں میں سات عادات مشترک ہوتی ہیں اور انہی عادات کی بنیاد پر ان کے کردار کی عمارت قائم ہوتی ہے ۔ ان کی یہی عادتیں ان کے مستقبل کو بھی روشن بناتی ہیں۔ ان سات عادات کو سمجھ لینے اور اپنانے سے نوجوان اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں ۔ اس کتاب کو پڑھ کر سینکڑوں لوگوں نے کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھا۔ آج دنیا کے نامور ترین شخصیات اور نامور کمپنیوں کو چلانے والے محرک لوگ اسٹیفن کوؤی کو اپنا ٹیچر مانتے ہیں۔
اسٹیفن کوؤی نے ناصرف 7عادتوں کی اپنی تھیوری کو بنیاد بنا کر اپنی فکر اور فلسفے کو آڈیوکیسٹس ، ویڈیوٹیپس اور ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کیا بلکہ ترقی کے آفاقی اصولوں پر مبنی اپنی سوچ کو ایک فکر اور ادارے کا روپ بھی دے ڈالا۔ انہوں نے نوجوانوں کو ترقی کا یہ اصول سکھانے اور ٹریننگ کے لیے فرینکلن کوؤی کمپنی اور کوؤی لیڈرشپ سنٹر کی بنیاد ڈالی۔ آنے والے برسوں میں انہوں نے کارپوریٹ اداروں کی کایا پلٹ دی۔ ان کی سوچوں کو نیا رخ دے دیا۔ ان کے دلوں میں آگے بڑھنے، سوچنے اور بہت عمدگی سے کچھ کر دکھانے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔
اسٹیفن کوؤی نے آٹھویں عاداتThe 8th Habit، مجھ میں چھپا لیڈر The Leader in Me، اعتماد کی رفتار The Speed of Trust ، کامیابی کے لئے روحانی راہ The Spiritual Path to Success اور تیسری متبادل راہ The 3rd Alternative سمیت پرسنل ڈیولپمنٹ کے موضوع پر تقریباً 14 کتب تصنیف کیں۔
اسٹیفن جنہوں نے اپنی کتابوں اور لفظوں کے ذریعے دنیا بھر کو متاثر کیا، 16 جولائی 2012ء کو 79 برس کی عمر میں انتقال رگئے۔ یہاں ہم اسٹیفن کوؤی کی شہرۂ آفاق کتاب The 7 Habits of Highly Effective People ‘‘کامیاب اور پُراثرلوگوں کی 7 عادتیں ’’ کا خلاصہ نوجوان قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کررہے ہیں۔

قسط نمبر 1

یونانی مفکر ارسطو کا کہنا ہے کہ

We are what we repeatedly do.  Excellence, is not an act, but a habit;

‘‘ہم وہی ہوتے ہیں، جو ہم مسلسل کرتے ہیں، یعنی ہماری اعلیٰ کارکردگی، ہمارا عمل نہیں ہوتی بلکہ ہماری عادت ہوتی ہے۔’’

عادتیں ہماری زندگی کا سب سے طاقتور عنصر Factor ہے، کیونکہ وہ تواتر کے ساتھ، مسلسل، اکثر لاشعوری انداز میں ، روز ، ہمارے کردار کا اظہار اور کسی شے پر ہماری تاثیر effectiveness یا غیر موثَّر پن ineffectiveness کو تشکیل دیتی ہیں۔
سوچ کا بیج بو ؤ گے تو….عمل کی فصل کاٹوگے، عمل کا بیج بوؤگےتو…. عادت کی فصل کاٹوگے، عادت کا بیج بوؤگے تو…. کردار کی فصل کاٹو گے اور کردار کا بیج بوؤ گے تو قسمت کی فصل کاٹو گے ۔ یعنی ہماری شخصیت اور کردار کی عمارت، عادت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ ہمارے رجحانات، ہمارے زیادہ تر رویے ، ہماری عادتوں سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ عادت حقیقتاً انسان کی بنیادی فطرت کو چلاتی ہے، فطرتاً انسان رد عمل کی مخلوق ہے، یوں تو ہم کئی کام سوچ سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں لیکن زیادہ تر کام ہم اپنی عادت کے مطابق کررہے ہوتے ہیں۔
مشہور ماہر تعلیم ہورس من نے کہا تھا کہ

Habits are like a cable.
We weave a strand of it everyday
and soon it cannot be broken.
~ًHorace Mann

‘‘عادت کی مثال ایک ایسی رسّی کی سی ہے، جسے ہم روزانہ دھاگے کی طرح بُنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسے توڑنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ ’’

میں ذاتی طور پر اس کے قول کے آخری حصے سے اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ عادت کو ٹوڑا جاسکتا ہے…. عادت سیکھی بھی جاسکتی ہے …. اور بھُلائی بھی جا سکتی ہے…. لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ فوراً چٹکی بجاکر کرنے والا عمل نہیں ہے۔ بہر حال مضبوط ارادوں اور مستقل مزاجی سے ایسا کرنا ممکن ہے۔

حصّہ اوّل

زاویہ نظر اور بنیادی اصول

 

Inside out
اندر سے باہر کی جانبـ

بے شمار لوگ خارجی کامیابی کے گرویدہ ہوتے ہیں۔ وہ اسے حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خالی پن محسوس کرتے ہیں۔ وہ چیزوں کو حاصل کرنے کے طریقے تو سیکھ لیتے ہیں لیکن ان اصولوں اور عادتوں کو نہیں اپناتے جو انسان کو اپنی قدر و قیمت اور اطمینان کا احساس عطا کرتی ہیں۔
میں نے 1776ء سے لے کر اب تک امریکہ میں پرسنل ڈیولپمنٹ، کامیابی کی نفسیات کے موضوعات پر لکھی کتابوں اور مضامین کا جائزہ لیا تو ان دو سو برسوں میں ابتدائی 150برس اور گزشتہ 50 برس کے تصورات میں کافی فرق محسوس کیا ۔


گزشتہ 50 برسوں کی کتابیں پر سنل ڈیولپمنٹ اور کامیاب زندگی کے لیے شخصی اخلاقیات یا شخصیت سازی Personality Ethics کو ترجیح دیتی ہیں۔ یعنی ظاہری شخصیت، عوامی مقبولیت Public Image، طرز عملBehavior، رویہ Attitude وغیرہ… ان میں لوگوں میں مقبول ہونے اور مقصد کے حصول کے لیے چٹکیوں میں حل Quick fix Solution کی تکنیک اپنائی جاتی ہیں۔ جیسےفرسٹ امپریشن لاسٹ امپریشن، بس دوسروں کے مشاغل اور دلچسپیوں کا دکھاوا، ظاہری شخصیت کا رعب اور گفتگو سے زیر کرنے کا فن سیکھ لو اور مسئلہ حل …. یہ شارٹ کٹ حل اسپرین کی طرح فوری علاج تو کرتے ہیں لیکن زیر سطح گہرے مسائل پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اسکول میں رٹا لگا کر آپ ٹیسٹ تو پاس کرلیں گے لیکن پڑھا لکھا دماغ یا علم پر حقیقی دسترس پیدا نہ کرسکیں گے۔
اس کے برعکس ابتدائی 150 برسوں کی کتابیں کرداری اخلاقیات یا کردار سازی Character Ethics کو ترجیح دیتی تھیں، جو چرب زبانی اور ریاکاری کے برعکس سادگی simplicity، عجز و انکسار humility، ضبط نفس temperance، انصاف، صبر patience، دیانت داری integrity، شرافت modesty، ہمت courage، مشقت industry اور فرض شناسی fidelity جیسے سنہرے اصول پرمبنی تھے۔
کرداری اخلاقیات سکھاتی تھی کہ موثر زندگی کے چند بنیادی اصول ہیں اور یہ کہ لوگ ان اصولوں کو اپنے بنیادی کردار سے جوڑ کر ہی سچی کامیابی اورلافانی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ جب امریکا نیا نیا آزاد ہوا تھا، اس زمانے میں ہم بچوں کو کرداری اخلاقیات سکھاتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے مادی دولت کے جلد سے جلد حصول کی جستجو شروع کی، تو وہ کرداری اخلاقیات سے دور چلے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم واپس جائیں تا کہ عظیم قوم اور عظیم ملک بن سکیں۔ آپ حقیقی کامیابی تبھی حاصل کرسکتے ہیں جب کردار سازی کے اصولوں کو گہرائی سے اپنی فطرت میں سمولیں ۔ حضرت داودؑ فرماتے ہیں :

ٌ”Search your heart with all diligence for out of it flow the issues of life.”

‘‘اپنے دل کو پوری جاں فشانی سے کھوجیں کیونکہ زندگی کے تمام مسائل یہیں سے اٹھتے ہیں’’    [امثال : باب 4 : 23]

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ شخصیت سازی بالکل ترک کردیں، ایک طرح سے وہ بھی ضروری ہے لیکن کردار سازی کے مقابلے میں اسے ثانوی حیثیت حاصل ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم سمجھیں کہ عادت کیا ہے اور اسے کیسے تبدیل کیا جائے ۔ ہمیں اپنے زاویہ نظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ جاننے کی بھی کہ زاویہ نظر تبدیل کیسے ہوتا ہے۔ اب ذرا ذیل میں دی ہوئی تصویر کو احتیاط سے دیکھیے اور بتائے کہ آپ کو اس میں کیا نظر آرہا ہے….؟

کیا آپ کو اس میں ایک عورت نظر آرہی ہے اور اگر ہاں ، تو وہ کیسی ہے، اس کی عمر اس کا پہناوا کیا ہے۔
آپ شاید یہ کہیں گے کہ ایک جواں سال خوبصور ت لڑکی کی تصویر ہے ، جو شرم و متانت سے دوسری جانب رُخ موڑے ہے، جو فیشن ماڈل کی طرح سر پر دوپٹہ، گلے میں نیکلس اور بدن پر ایک شال اوڑھی ہوئی ہے۔ بالکل ایسے جیسے سامنے چھوٹی تصویر میں ہے۔
لیکن اگر میں کہوں کہ آپ غلطی پر ہیں یہ تقریباً 70 سالہ بوڑھی عورت کی تصویر ہے ، جس کے چہرے پر ایک بڑی بھدی سی ناک ہے اور وہ اداسی میں سرجھکائے ہوئے ہے۔ آپ تصویر کو ایک مرتبہ پھر دیکھیے۔ کیا آپ کو بوڑھی عورت نظر آئی ، اگر نہیں تو پھر کوشش کیجیے ، اگر پھر بھی دیکھنا ممکن نہیں تو سامنے دی چھوٹی تصویر کو دیکھیے اور پھر تصویر پر دوبارہ نظر ڈالیں ….


یہ مشق ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ہماری سوچ، ہمارا ادراک، ہمارا ردعمل اور ہماری تربیت چیزوں کو دیکھنے کے انداز اور زاویہ نگاہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہم میں ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ ہم چیزوں کو جیسے دیکھتے ہی وہ ویسی ہی ہیں، دوسرے لفظوں میں ہم دنیا کو اس کے مطابق نہیں بلکہ اپنے مطابق دیکھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس تصویر کے دوسرے رخ کو پہلی نظر میں 90فیصد لوگ دیکھ نہیں پاتے ۔ اگر صرف دس سیکنڈ میں آپ نے جان لیا کہ آپ کا ایک زاویہ نگاہ غلط یا دوسروں کے زاویہ نظر سے مختلف بھی ہوسکتا ہے ، تو پھر زندگی بھر کے ان اثرات کے بار ےمیں کیا خیال ہے جو خاموشی سے اور لاشعوری طور پر آپ کو گھر، اسکول اور ماحول سے ملے ہیں۔
تھامس کوہنThomas Kuhn اپنی کتاب The Structure of Scientific Revolutions میں لکھتے ہیں کہ ‘‘سائنسی میدان جب تک پرانے زاویہ نظر کو تبدیل نہ کیا جائے ، نیا نظریہ، نئی دریافت ، نئی ایجاد، ممکن نہیں۔’’ بطلیموس کی نظر میں نظام شمسی کا مرکز زمین تھی، لیکن کوپرنیکس نے اس زاویہ نظر کو بدلا ۔ نیوٹن کے نظریات فزکس کی بنیادبنے لیکن آئن اسٹائن کے نظریہ نے اس میں نیا انقلاب پیدا کردیا۔
قدیم دور میں لوگ معمولی زخموں اور عورتیں زچگی میں مرجاتیں ۔ کسی کو وجہ تک پتہ نہ تھی، لیکن جب جراثیم کا نظریہ دریافت ہوا تو میڈیکل سائنس کا رخ بدل گیا۔
زاویہ نگاہ بہت طاقتور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں وہ عینک فراہم کرتے ہیں جن سے ہم دنیا کو دیکھتے ہیں۔ کامیابی اور ترقی کے لیے زاویہ نظر کی تبدیلی ضروری ہے۔ تبدیلی کا عمل بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے ہے جب ہم دوسروں کے زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
اس عمل کو اندرسے باہر کی طرف عمل اس لیے قراردیا گیا ہے۔ اندر سے باہر کی جانب کا مطلب ہے اپنے اندر سے شروع کریں، پہلے خود کو فتح کریں پھر دوسروں کو …. شخصی فتوحات کا عمل ہی عوامی فتوحات تک لے جاتا ہے۔
اپنے زاویہ نظر کو ایک نیا پن اور نئی گہرائی دیں، تاکہ آپ آگے بیان کیے گئے اصولوں کو پوری ایمانداری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرسکیں۔

 

7 Habits : An Overview
7عاداتـ : ایک جائزہ

میری نظر میں عادت کی تعریف یہ ہے کہ

‘‘عادت ! علم ، مہارت اور خواہش کا مجموعہ ہے’’


علم کسی چیز کی آگہی ہے ، جو ہر زاویہ نظر اور مفروضہ کے لحاظ سے الگ ہوتی ہے۔ مثلاً یہ جاننا کہ ‘‘کیا کرنا ہے؟’’، ‘‘کیوں کرنا ہے؟’’…. مہارت یا ہنر کا مطلب کام کو کرنے کا سلیقہ جاننا کہ ‘‘کس طرح کرناہے ؟’’… خواہش کا مطلب اس کام کے لیے تحریک یا رغبت کا ہونا ہے کہ ‘‘مجھے یہ کرنا چاہیے؟’’
کوئی بھی عادت تخلیق کرنے کے لیے ہمیں ان ان تین رخوں میں کام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
علم ہو ہنر ہو مگر خواہش نہ ہو تو عادت بننا مشکل ہے…. خواہش ہو علم ہو، پر طریقہ نہ ہو تو بھی مشکل…. طریقہ ہو ، خواہش بھی ہو پر علم یا مقصد نہ ہو کہ کیوں کرنا ہے تو بھی یہ عمل عادت میں شامل نہیں ہوپائے گا۔
یہ ‘‘7 عادات ’’ الگ الگ فارمولوں یا شارٹ کٹ حل کا مجموعہ نہیں بلکہ درجہ بدرجہ نشونما پانے کے قدرتی قانون سے ہم آہنگ ہے۔
ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کا محتاج dependentہوتا ہے۔ کھانے پینے، نگہداشت، پرورش میں دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ بچپن میں زاویہ نظر کچھ یوں ہو تا ہے کہ تم میری مدد کرو ، مجھے کھلاؤ، میرا خیال رکھو۔ لیکن جب وہ جسمانی اور ذہنی طور پر خود مختار Independent اور خود اپنا خیال رکھنے کے قابل ہوجاتا ہے تو زاوایہ نظر بدل جاتا ہے کہ میں خودمختار ہوں ، اپنا اچھا برا جانتا ہوں۔ میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ جب عمر اور شعور میں پختگی آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہر چیز باہمی انحصار Interdependentپر قائم ہے ، ایک ایکو سسٹم ہے جس کے زیر اثر قدرت اور معاشرے چلتے ہیں پھر زاویہ نظر ہوتا ہے کہ ہم یہ کرسکتے ہیں، آؤ مل کر تعاون کریں، بوند بوند سے دریا بنتا ہے ۔
بالکل اسی طرح 7 عادات میں سے پہلی، دوسری اور تیسری عادات ذاتی فتح کے متعلق ہیں یہ انسان کو انحصار و محتاجی سے خودمختاری، خود اعتمادی کی طرف لے جاتی ہیں تاکہ آپ بہتر فرد بن سکیں۔ چوتھی پانچویں چھٹی عادات عوامی فتح کے متعلق ہیں جو خود مختاری سے ایک دوسرے پر تعاون کی جانب لے جاتی ہیں تاکہ آپ بہتر ٹیم یا بہتر لیڈر بن سکیں۔ ساتویں عادت کا دائرہ تمام عادات کا احاطہ کرتا ہے، تاکہ آپ ان تمام عادات میں مسلسل بہتری اور تجدید لاسکیں۔
اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اثریت کیا ہے، جیسا کہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ عادتیں تواتر کے ساتھ، اکثر لاشعوری انداز میں ، کسی شے پر ہماری تاثیر Effectiveness یا غیر موثَّر پن Ineffectiveness کو تشکیل دیتی ہیں۔


یہ 7 عادات اثریت Effectivenessکی عادات ہیں۔ اسی لیے یہ انسانی کردار کی بنیاد بن جاتی ہیں اور دیرپا رہتی ہیں۔ آپ نے ایسپ Aesop کی مشہور کہانی تو سنی ہوگی جس میں ایک کسان کی بطخ روز سونے کا انڈا دینے لگتی ہے، کسان بے انتہا امیر ہوجاتا ہے لیکن ساتھ ہی اس میں لالچ اور بے صبری بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ سوچ کر کہ سارے انڈے ایک ساتھ نکال لوں، بطخ کو ذبح کردیتا ہے لیکن بطخ کے اندر سے کچھ نہیں نکلتا، اس طرح وہ کسان سونے کے انڈے کے ساتھ ساتھ بطخ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔ یہ قصہ اثریت کی بھرپور تعریف کرتا ہے۔ اثریت ہمیشہ توازن میں ہوتی ہے اسے میں P/PC توازن کہتا ہوں ۔ یعنی پیداوار Production اور پیداواری اثاثہ Production Capability میں توازن….
اگر آپ اپنی ساری توجہ سونے کے انڈوں پر رکھ کر بطخ کو نظر انداز کردیں گے تو بطخ بھوکی مرجائے گی ۔ اگر آپ انڈوں کو نظر انداز کرکے ساری توجہ بطخ پر مرکوز کردیں گے تو آپ کو مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لہٰذا اثریت تبھی قائم رہے گی جب پیداوار اور پیداواری اثاثہ میں توازن قائم رہے گا۔ مثال کے طور پر میں نے گھاس کاٹنے کی ایک مشین خریدی اور اسے استعمال کرتا رہا لیکن میں نے اس کی سروس اور مینٹینس پر دھیان نہیں دیا۔ نتیجتاً اس کا انجن خراب ہوکر بے کار ہوجائےگا۔
اتنی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اس سے پہلے کہ آپ ان ‘‘7عادات ’’ کا مطالعہ کریں آپ جان لیں کہ ان عادات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے….؟ سب سے پہلے تو ان عادات کو پڑھتے وقت اندر سے باہر کی جانب والا رویہ اختیار کریں۔ ایمانداری سے نقطہ نظر کو پڑھیں،سمجھیں، سیکھیں اور P/PC توازن کو دھیان میں رکھ کر ان کی اثریت کا تجزیہ کریں ۔ اس پر عمل کرنا آپ پر منحصر ہے ۔ میرلین فرگوسن Marilyn Fergusonکا قول ہے۔

No one can persuade another to change. Each of us guards a gate of change that can only be opened from the inside. We cannot open the gate of another, either by argument or by emotional appeal.

‘‘کوئی شخص بھی کسی کو تبدیلی پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ہر شخص اپنے تبدیلی کے دروازے کی حفاظت پر خود مامور ہے اور یہ دروازہ ہمیشہ اندر کی جانب سے کھلتا ہے۔ ہم باہر سے کسی کا دروازے نہیں کھول سکتے، دلیل یا جذباتی اپیل سے بھی نہیں ’’

حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی کتاب انسان کو نہیں بدل سکتی جب تک خود اس کے اندر اپنے آپ کو بدلنے اور بہتر بنانے کی خواہش موجود نہ ہو۔ ہم ہمیشہ باہر کی تبدیلی کے متمنی رہتے ہیں، جبکہ اصل تبدیلی اپنے اندر سے لانے کی ضرورت رہتی ہے۔ تبدیلی کا آغاز اپنے اندر سے کیا جائے، بجائے دوسروں کو تبدیل کرنے کے۔ کتاب نہیں بلکہ خود انسان اپنے اندر تبدیلی کو جنم دیتا ہے۔
جب آپ پڑھنے کے ساتھ ساتھ غور و فکر بھی کرتے ہیں۔ اپنے پہلے سے قائم شدہ تصورات اپنے رویوں، عقائد، اقدار اور وابستگی کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور خود کو بدلنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں تو صرف اسی وقت کتاب اپنا اثر دکھاتی ہے اور آپ کے اندر مثبت تبدیلی کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ جب ہمارے اندر تبدیلی آ جاتی ہے تو پھر ہم اپنے باہر تبدیلی کا بھی آغاز کر سکتے ہیں۔

حصّہ دوم

ذاتی فتح

 

عادت : 1

Be Proactive
ہر دم تیار اور پیش قدم رہیں

پہلی عادت جو موثر اور کامیاب لوگوں میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ وہ پرو ایکٹو ہوتے ہیں، اس عادت کو سمجھنے سے پہلے ذرا خود کو اپنے آپ سے الگ کر کے ایک شعوری نظر اپنے اوپر ڈالیں کہ اس وقت آپ کا موڈ، آپ کے احساسات ، خیالات اور آپ کی ذہنی کیفیت Mental Stateکیا ہے؟
کیا آپ کا ذہن اس وقت تیز ، چست Quick اور الرٹAlert ہے؟…. اس وقت آپ کا ذہن دو راستوں میں بٹا ہوا ہے ایک مشق کو کرنے میں اور دوسرا اس کے مشق کا مقصد سمجھنے میں ….
یہی وہ خصوصیت ہے جو تمام مخلوقات میں خاص انسان کو ہی ودیعت کی گئی ہے۔ اپنے زاویہ نظر اور سوچنے کے عمل کے بارے میں سوچ بچار اور سمجھ لینے کی صلاحیت …. اسے ہم فہم الذات ، شعور نفس خود احتسابی یا خود آگہی Self-Awarenessکہتے ہیں۔ خود اپنے زوایہ نظر اور رویوں کو دیکھنے اور پرکھنے کی یہ صلاحیت ناصرف ہمارے رویوں اور طرز عمل کو متاثر کرتی ہے بلکہ دوسروں کے بارے میں ہمارے رائے پر بھی اس کا اثر ہوتاہے۔ اسی سے انسانی فطرت کا بنیادی نقشہ بنتا ہے۔
جب تک ہم یہ نہیں جان لیتے کہ ہم اپنے اور دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ دوسرے اپنے اور ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔
عام طور پر عموماً انسانی فطرت تین معاشرتی نقشے تشکیل دیتی ہے، جو Determinism یعنی نظریہ جبریت کی صورت میں وسیع پیمانے قبول کیے جاتے ہیں۔ (نظریۂ جبر یت کے تحت یہ مفروضہ قائم کرلیا جاتا ہے کہ انسان کا عمل اس کے آزاد ارادے پر منحصر نہیں، بلکہ وہ موروثی یا ماحولیاتی اثرات یا سابقہ حالات کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔)
جینیاتی جبریت Genetic Determinism میں یہ مان لیا جاتا ہے کہ آپ کا عمل یا رویہ موروثی ہے، یعنی آپ کے دادا غصے والے تھے اسی لیے تم بھی غصے والے ہو، یا آئرش نسل کے لوگوں کی تو فطرت میں ہی غصہ ہوتا ہے۔ نفسیاتی جبریت Psychic Determinism میں والدین کی پرورش کو قصوروار ٹہرایا جاتا ہے، یا پھر بچپن میں ہوئے کسی حادثہ یا تجربہ کو آپ کے رجحان اور کردار کی بنیاد سمجھ لیا جاتا ہے۔ مثلاً تم لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہو کیونکہ والدین نے تمہیں الگ تھلگ رکھ کر پالا ہے۔ ماحولیاتی جبریت Environmental Determinism میں بیوی، باس، معاشی صورتحال اور حکومتی پالیسیوں کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔
فرائیڈ کا نفسیاتی اصول بھی انہی نقشوں پر قائم تھا کہ بچپن میں ہم جن حالات و تجربات سے گزرتے ہیں ہماری بقیہ زندگی انہی کے زیر اثر گزرتی ہے۔ یہ تینوں نقشے Stimulus/Response Theory، مہیج /ردعمل نظریہ کی بنیاد پرقائم ہیں جو ایک روسی سائنسدان ایوان پاؤلو Ivan Pavlovنے کتوں پر تجربات سے اخذ کیا۔ جس کے مطابق ہر خاص محرک کی وجہ سے ایک مخصوص رد عمل پیدا ہوتا ہے۔
لیکن جانور اور انسان میں فرق ہوتا ہے۔ حیوانی ردعمل کی پیشگوئی بہت حد تک ممکن ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم جانور کو ڈرائیں گے تو یا تو وہ حملہ کردے گا یا بھاگ جائے گا۔ ذہین سے ذہین جانوراور کمپیوٹر بھی اپنی تربیت اور پروگرامنگ میں ردوبدل کرنے کی قوتِ فیصلہ نہیں رکھتا۔ لیکن انسان ایک مہیج یعنی ایک محرک سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرسکتا ہے۔ کیونکہ انسان کو عمل کی خودمختاری ودیعت کی گئی ہے۔ اسے محرک اور ردعمل کے درمیان اپنی پسند کے مطابق انتخاب کی آزادی ہے۔ جانور اور انسان میں یہی فرق ہےکہ انسان کو محرک اور ردعمل کے درمیان پنہاں سب سے بڑی طاقت تک رسائی حاصل ہے اور وہ ہے ‘‘انتخاب کی آزادی’’….
اسی طاقت کے بل بوتے پر آپ اپنی پہلی عادت کو تشکیل دے سکتے ہیں جو ہے پروایکٹیویٹی Proactivity کی عادت….
پروایکٹیویٹی کا مطلب پیش قدمی سے کچھ بڑھ کر ہوتاہے، پروایکٹیویٹی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا خود ذمہ دار ہے، ہمارا ردعمل ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ ہمارے حالات کا ، اور کسی چیز کو ممکن کرنے کے لیے انسان کے اندر پیش قدمی اور ذمہ داری کی صلاحیت موجود ہے۔

Look at the word “response-ability” — the ability to choose your response.

ذرا لفظ ذمہ داریResponsibility کو دیکھیں یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، response یعنی اپنے ردعمل کی ability، یعنی انتخاب کی اہلیت ۔

پروایکٹیو اور کامیاب لوگ جانتے ہیں کہ حالات کو پرکھتے ہوئے انہیں خود فیصلہ لینا ہوگا ۔کامیاب لوگ خود سے وابستہ لوگوں، وقت کے اتار چڑھاؤ اور معاشرے کے بگاڑکو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے اور بروقت اگلا قدم اٹھاتے ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں انتخاب کی آزادی موجود ہوتی ہے۔ درست انتخاب اور آپ کا فیصلہ مستقبل کی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں۔
انسان فطرتاً پروایکٹیو ہی ہوتا ہے، لیکن اگر اس کی زندگی حالات و تربیت کے ردعمل سے منجدھار میں ڈانوڈول ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ یعنی اپنا کنٹرول خود سنبھالنے کی بجائے دوسروں کے ہاتھ میں دے رکھا۔
ایسے انتخاب پر انسان پروایکٹیو ہونے کے بجائے ریایکٹیو Reactiveیعنی ردعملی کا مظہر بن جاتا ہے۔ ری ایکٹیو یا ہر بات پرردّعمل کا مظاہرہ کرنے والے لوگ ہر قسم کے طبیعی حالات پر ردّعمل پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگر موسم اچھا ہے تو یہ خود کو اچھا محسوس کرتے ہیں اور اگر موسم خراب ہے تو ان کے رویے اور کارکردگی بھی متاثر ہونے لگتی ہے ۔ وہ اپنی اس خرابی کا ذمہ دار موسم کو ہی ٹہراتے ہیں۔ معاشرے میں بھی ان کا ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب لوگ ان سے اچھے طریقے سے ملتے ہی تو یہ خوش ہوجاتے ہیں۔ اگر لوگ اچھی طرح نہیں ملتے تو مدافعتی رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ غرض یہ لوگ اپنی زندگی کا کنٹرول دوسروں کے رویوں ، موڈ ، ماحول اور حالات کے حوالے کر دیتے ہیں۔
پروایکٹیو لوگ بھی بیرونی محرکات سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن ان کا ردعمل ان کے انتخاب اور فیصلے پر ہوتا ہے۔ تحریک کو اپنی اقدار اور وصف کے تابع کرنے کی اہلیت پروایکٹیو لوگوں کا خاصہ ہے۔
سابق امریکی صدر روزویلٹ کی زوجہ ایلیانو ر Eleanor Roosevelt کا قول ہے کہ

No one can hurt you  without your consent.

‘‘ کوئی بھی آپ کو تکلیف نہیں دے سکتا جب تک کہ آپ خود نہ چاہیں’’۔

مہاتما گاندھی نے بھی اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

“वे हमारे आत्मसम्मान को छीन नहीं सकते , जब तक कि हम उन्हें दे न दें”

‘‘وہ ہمارے آتماسمّان (عزتِ نفس) کو چھین نہیں سکتے…. جب تک ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کردیں۔’’

ہمارے ساتھ جو بھی ہوتا ہے وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس بات کو قبول کرنا مشکل ہے وہ بھی ان لوگوں کے لیے جو سالہا سال کسی شخص کے بُرے رویے اور سلوک کو برداشت کررہے ہوں لیکن جب تک انسان دل سے اقرار نہیں کرلیتا کہ
‘‘آج جو کچھ بھی میں ہوں اپنے فیصلے اور انتخاب کی وجہ سے ہوں’’….
تب تک وہ یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ‘‘اب میں مختلف انتخاب یا فیصلہ کروں گا’’۔
ہم فطرتاً عامل ہیں معمول نہیں، کیونکہ قدرت نے ہمیں انتخاب اور فیصلے کی صلاحیت دی ہے۔ یہ صلاحیت ہمیں نئے حالات تخلیق کرنے کا اہل بناتی ہے۔ لیکن پرو ایکٹیو ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پریشان کن حد تک جارحیت پسند بن جائیں اور آپ کا رویہ لوگوں کے لیے مصیبت اور دردِ سر بن جائے۔ پرو ایکٹیو کا مطلب ہے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور چیزوں کو ممکن بنانا ہے۔
بہت سے لوگ کچھ ہونے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ کوئی اچانک نمودار ہوگا اور ان کی مدد کرے گا، لیکن پرو ایکٹیو لوگ خود مسائل بننے کے بجائے مسائل کا حل بنتے ہیں۔ وہ ہر موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اپنے کام کو بھرپور طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
پرو ایکٹیو اور ریایکٹیو لوگوں کے درمیان دن اور رات جیسا فرق ہوتا ہے۔ میں 19/ 20 یا 25سے50 فیصد جیسے فرق کی بات نہیں کررہا بلکہ 5000 فیصد فرق کی بات کررہا ہوں۔ چونکہ ہمارے رویے اور ردعمل ہمارے زاویہ نظر سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ اگر ہم خود احتسابی کے ذریعے اپنا تجزیہ کریں تو ہماری گفتگو سے ہی اندازہ ہوسکتاہے کہ ہم کتنے پروایکٹیو یا ری ایکٹیو ہیں۔
ری ایکٹیو لوگ ہر چیز میں دوسروں کو ملز م ٹھہراتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ جو کہتے اور کرتے ہیں اس کے لئے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ جیسے ہماراملک ترقی نہیں کر رہا کیونکہ حکومت اچھی نہیں ہے، وہ ترقی نہیں کر رہے کیونکہ ان کا باس اچھا نہیں ہے۔ وہ خوش نہیں ہیں کیونکہ لوگ اچھے نہیں ہیں، اور آخر میں اگر کچھ نہ ملے تو وہ اپنی قسمت کو ہی قصوروار قرار دینے لگتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ چیزیں کنٹرول کرنا ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، سب حالات اور قسمت کا کھیل ہے۔ حقیقت میں ان کی سوچ ہی ان کی سب سے بڑی پرابلم ہوتی ہے۔
ایک ری ایکٹیوشخص گفتگو میں ری ایکٹیوزبان ہی استعمال کرتا ہے مثلاً میں کچھ نہیں کر سکتا، کیا کروں میں بچپن سے ہی ایسا ہوں۔ وہ مجھے بہت غصہ دلاتی ہے۔ میں نہیں کر سکتا۔ کاش اگر ایسا ہوتا، وغیرہ….

صورتحال ری ایکٹیو افراد کا جواب پرو ایکٹیو لوگوں کا جواب
1.کچھ رکاوٹ ہے

2.کام کچھ نیا ہے

3.ورک اسٹریس

4.نیا آئیڈیا

5.اچانک کام

6.ایک نیا کام

7. پسند8. تجویز /مشورہ
1. میں اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتا
2. لیکن میں تو اپنے طریقے سے کام کرتا ہوں
3. اس کام نے مجھے پاگل کردیا ہے،
4. وہ مجھے اس کی کبھی اجازت نہیں دے گا
5. یہ عذاب بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوگا۔
6. مجھ سے نہیں ہوگا، کیونکہ….
7. یہ مجھے لازماً چاہیے ….
8. اگر …. شاید….
1. چلو کوئی متبادل راہ تلاش کرتے ہیں ….
2. میں الگ طریقہ اپنا سکتا ہوں
3. میں اسے کنٹرول کرسکتا ہوں
4. ہم ایک مؤثر پریزینٹیشن بناسکتے ہیں۔
5. ہم کوئی موزوں طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
6. میں کوشش کرسکتا ہوں….
7. میں اسے ترجیح دوں گا۔
8. یقیناً …. کیوں نہیں….

ایک پرو ایکٹیو شخص پرو ایکٹیو زبان استعمال کرتا ہے۔ میں کر سکتا ہوں، میں کروں گا، وغیرہ….
پرو ایکٹیو لوگ اپنے جذبات کا کنٹرول دوسروں کو دینے کے بجائے خود سنبھالتے ہیں۔ وہ اپنے ہر ایک عمل کی ذمہ داری خود لیتے ہیں۔ حالات اور قسمت کو الزام دینے کی بجائے وہ صورتحال کو کس طرح سے بہتر کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچتے ہیں اور اسے قابو بھی کرتے ہیں۔ ایسے حالات جن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے، ان پر ردعمل یا فکر کرنے کے بجائے پرو ایکٹیو لوگ اپنا وقت اور قوت ایسی چیزوں میں لگاتے ہیں جنہیں وہ کنٹرول کر سکیں۔
اپنی پروایکٹیو یٹی کے بارے میں جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ کے سامنے جو بھی مسائل، چیلنجز یا مواقع ہوں انہیں دو دائرو ں میں بانٹ دیں:

  1. Circle of Concern (فکر کا دائرہ )
  2. Circle of Influence (اثر کا دائرہ )

ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی چیز کے لیے فکرمند ہوتا ہے مثلاً صحت، اولاد، معاشی مسائل ، قومی مباحثے ، جنگ، فساد وغیرہ ….


اب ایک فکر کا دائرہ کھینچیں اور ان چیزوں کو علیحدہ کردیں جس کے لیے آپ فکرمند نہیں، اب فکر کے دائرے میں دیکھیں کہ ایسی کون سی عوامل ہیں جسے آپ کنٹرول کرسکتے ہیں یا جس پر آپ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا ‘‘اثر کا دائرہ ’’بنائیں اور ان عوامل کو اس دائرے میں شامل کرتے رہیں۔ اب یہ دیکھا جائے کہ ہم اپنا وقت اور قوت کس دائرے میں زیادہ صرف کرتے ہیں۔


پرو ایکٹیو لوگ اپنی کوششیں اثر کے دائرے Circle of Influence پر مرکوز کرتے ہیں۔ وہ ایسی چیزوں پر کام کرتے ہیں جو ان کے اختیار میں ہو یا جن کے بارے میں وہ کچھ کرسکتے ہیں، مثلاً صحت، اولاد، معاشی مسائل …. ان کی مثبت سوچ کی انرجی ‘‘اثر کے دائرے ’’ کو بڑھاتی رہتی ہے۔

ری ایکٹیو لوگ اپنی کوشش فکر کے دائرے Circle of Concern پر مرکوز کرتے ہیں۔ ایسے مسائل جو ان کے اختیار میں نہیں ہوتے مثلاً وہ ہمیشہ قومی مباحثے، دہشت گردی، موسم کی فکر میں رہتے ہیں اور ان کی منفی سوچ کی انرجی ‘‘اثر کا دائرہ’’ تنگ کردیتی ہے۔


بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص دولت، طاقت، حیثیت یا رتبے کی بدولت اپنے دائرہ اثر کو بڑھا لیتا ہے، لیکن اندر سے یہ دائرہ جذباتی تنگ نظری Myopia اور خودغرضانہ طرز زندگی کے باعث ‘‘فکر کے دائرے ’’ کا ہی عکس ہوتا ہے۔
ہمارے مسائل تین حصوں میں بٹے ہوتے ہیں،
براہِ راستDirect : وہ مسائل جن کا تعلق براہِ راست ہمارے رویوں سے ہے۔
بالواسطہ Indirect: وہ مسائل جن کا تعلق دوسرے لوگوں کے رویوں سے ہے۔
بے قابو No Control : وہ مسائل جنہیں کنٹرول کرنا آپ کے بس میں نہیں، مثلاً ہمارا ماضی ، یا پھر حقیقی صورتحال موسم، آفت، جنگ وغیرہ ۔
پروایکٹیو بننے کے لیے ہمیشہ ان چیزوں پر توجہ مرکوز کیجئے جو براہِ راستDirect آپ کے اختیار میں ہیں، جنہیں آپ تبدیل یا کنٹرول کرسکتے ہیں۔
عادت نمبر 1،2،3 یعنی ذاتی فتح کی عادات اس میں آپ کی مدد کرسکتی ہے، جبکہ بالواسطہ Indirect یا دوسروں کے رویوں کے مسائل کو آپ عوامی فتح یا دوسروں پر اثر انداز ہونے کی عادت نمبر 4،5،6 کے ذریعے قابو کرسکتے ہیں۔
جو چیزیں آپ کے اختیار میں نہیں، ان پر فکر کرنے کے بجائے پرسکون رویہ اختیار کریں۔ ورنہ سوائے کچھ نہ کرنے کے احساس کے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پُر اثر اور کامیاب لوگوں کی اس پہلی عادت ‘‘پروایکٹیو بنئے ’’ کا نچوڑ یہ ہے کہ خود آگہی اور روشن ضمیری جو ہمیں ودیعت کی گئی ہے اس کی بدولت اپنی کمزوریوں کو جانچیں اور اپنی صلاحیتوں کو چمکائیں۔ خود مسئلہ بننے کے بجائے مسئلہ کو حل کریں۔ ذمہ دار بنیں اور اپنی زندگی کو اپنے کنٹرول میں لیں ۔ فکر کے بجائے اپنے اثر کے دائرے کو وسعت دیں۔
اب میں آپ کو 30 دن کاٹیسٹ دیتا ہوں، ان تیس دنوں میں خود کو چیلنج دیں اور صرف اپنے اثر کے دائرے پر فوکس کریں، صرف ان چیزوں کے متعلق سوچیں جو آپ کے اختیار میں ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔
اس ٹیسٹ کے دوران ذیل میں دئیے گئے کچھ عملی اور اطلاقی مشوروں پر ضرور عمل کریں:
پورا ایک دن اپنی اور دوسروں کی گفتگو سنیں اور دیکھیں کہ آپ اور آپ سے منسلک دوسر ےلوگ ری ایکٹیو جملے کتنی مرتبہ استعمال کرتے ہیں ۔
ماضی میں کوئی تجربہ ایسا گزرا ہوگا جس پر آپ نے ری ایکٹیویٹی کا مظاہرہ کیا ہو، اب آپ سوچیں کہ اگر دوبارہ مستقبل میں آپ کے ساتھ یہ صورتحال ہوتو آپ اس پر پرو ایکٹیو رہتے ہوئے کیا ردعمل اختیار کریں گے۔ ساتھ ہی اعادہ کریں کہ کسی بھی ردعمل میں انتخاب کی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
اپنی ذاتی زندگی یا معاش کے متعلق کوئی ایسا مسئلہ تلاش کریں جس کے متعلق آپ بے بس ہوں، اب غور کریں کہ یہ مسئلہ کس قسم کا ہے ، ڈائریکٹ، ان ڈائریکٹ یا نو کنٹرول۔ اگر یہ ڈائریکٹ ہے تو پہلا قدم اٹھائیں اور اسے اثر کے دائرے میں لائیں۔
تیس روزہ پروایکٹیو ٹیسٹ کو پورا کریں اور اس دوران اس بات سے آگاہ رہیں کہ آپ کے اثر کے دائرے میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں۔

 

ترجمہ: ہرمیس
(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

شکریہ ۔ قسط 7

   ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *